تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی ﷺ سے ہوا صحابہ و تابعین کے دور میں پروان چڑھا اور ائمہ محدثین کے دور میں خوب پھلا پھولا ۔مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے اور پھر بعد میں اہل علم نے ان مجموعات کے اختصار اور شروح ،تحقیق و تخریج اور حواشی کا کام کیا۔مجموعاتِ حدیث میں اربعین نویسی، علوم حدیث کی علمی دلچسپیوں کا ایک مستقل باب ہے۔ زیر نظر کتاب ’’اسلام کی بنیادی احادیث‘‘امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الاذکار‘‘ کے آخر میں 30 احادیث پر مشتمل ہے ایک فصل بعنوان الأحاديث التي عليها مدار الإسلام کا اردو ترجمہ ہے۔ امام نووی نے اسی فصل میں 12 ؍احادیث کا اضافہ کیا تو اس کتاب کا نام ’’الاربعین‘‘ رکھا اور یہ کتاب ’’الاربعین النوویۃ‘‘ کے نام سے معروف و متد اول ہے۔ بعد ازاں علامہ ابن رجب نے امام نووی کی 42 ؍احادیث مبارکہ میں مزید 8 احادیث شامل کر کے اس کتاب کا نام ’’جامع العلوم و الحكم في شرح خمسين حديثاً من جوامع الكلم‘‘ رکھا پروفیسر ڈاکٹر رانا خالد مدنی حفظہ اللہ نے الأحاديث التي عليها مدار الإسلام ٖ کے ترجمہ و تحقیق و تخریج ،فقہ الحدیث اور تشریح کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ نیز اس کتاب کے آخر میں ان 30؍احادیث کے رواۃ 22 صحابہ کرام اور 99 محدثین و فقہاء کا تعارف بڑی محنت سے مرتب کر کے پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر رانا خالد صاحب اس کتاب کے علاوہ کئی کتب کے مصنف ،مترجم و مرتب ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تحقیقی و تصنیفی و تدریسی جہود کو قبول فرمائے ۔(م۔ا)
اس روئے ارضی پر انسانی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے بعد حضرت محمد ﷺ ہی ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پورا سامان رکھتی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے ۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت و صورت پر ہزاروں کتابیں اور لاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اور کئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کے لیے معرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’فقہ السیرۃ‘‘ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی کی تصنیف ہے جو کہ سیرت مصطفیٰﷺ کے علمی تحقیقات اور ان کی روشنی میں حاصل ہونے والے اصول و احکام اور پند و نصائح پر مشتمل ہے۔مصنف نے اس کتاب میں ہر واقعۂ سیرت قلم بند کرنے کے بعد اس سے اصولی و فروعی؍فقہی مسائل کا استنباط کرنے کے علاوہ معجزات کی حقانیت کو بھی واضح کیا ہے۔ مستشرقین اور انکے ہم نواؤں نے ’’دینی اصلاح‘‘ کے نام پر اپنی تحریروں کے ذریعے سیرت طیبہ کے متعلق جو غلط فہمیاں پیدا کر رکھی ہیں کتاب ہذا کے مطالعہ سے وہ غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں ۔(م۔ا)
روایت حفص پر مشتمل قرآنی مصاحف مطبوعہ صورت میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں، لیکن مغربی اور شمال مغربی افریقی ممالک میں اس کی بجائے روایت ورش رائج اور معروف عام ہے۔ اس لحاظ سے روایت حفص دنیا میں شائع شدہ مصاحف قرآنی میں اکثریتی طور پر پائی جاتی ہے، اس کے مقابلہ میں روایت ورش کے مطبوع نسخہ ہائے قرآنیہ نسبتاً کمیاب ہیں۔روایت حفص اور روایت ورش کے علاوہ دوسری روایات کے مطابق قرآنی مصاحف ممکن ہے کہ موجود ہوں لیکن بہرحال وہ عالمانہ تحقیق و معائنہ کیلئے دستیاب نہیں ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ایسر السُّبُل لروایۃ الامام حفص بقصر المنفصل‘‘ ڈاکٹر ابو طاہر عبد القیوم بن عبد الغفور سندھی(پروفیسر ام القریٰ یونیورسٹی۔مکہ مکرمہ) کی تصنیف ہے انہوں نے اس کتاب کو نہایت عمدہ ،واضح ،دل نشین اور عمدہ پیرائے میں مرتب کیا ہے اور اس میں روایت حفص میں مدمنفصل کو قصر سے پڑھنے کا آسان طریقہ بیان کیا ہے اور اس میں ان وجوہ کی وضاحت کر دی ہے جن کے مطابق روایت کے رُو سے مد منفصل کا قصر واجب ہے۔روایت حفص من طریق زرعان اور روایت حفص من طریق فیل عن عمر بن صباح کے مطابق پڑھنے والے اس تحریر سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔(م۔ا)
انسان کی زندگی اس دنیا کی ہو یا آخرت کی دونوں کے آغاز میں عجیب و غریب مماثلت پائی جاتی ہے ۔اگر دنیا کے سفر کا نقظۂ آغاز 9 ماہ تہ بہ تہ اندھیرے ہیں تو آخرت کے سفر کا نقطۂ آغاز بھی قبر کے تہ بہ تہ اندھیرے ہیں ۔اگر دنیا میں قدم رکھتے ہی انسان کو غسل دیا جاتا ہے تو آخرت کے سفر میں قبر میں قدم رکھنے سے پہلے غسل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔دنیا کے سفر کے مرحلہ میں اگر انسان کے کانوں میں اذان و اقامت کے ذریعہ اس کی روح کو تسکین پہنچائی جاتی ہے تو آخرت کے اس مرحلہ میں صلاۃ جنازہ اور مغفرت کی دعاؤں سے انسان کی روح کو مسرت پہنچائی جاتی ہے ۔بحر حال انسان کی فلاح اسی میں ہے کہ دنیا کا سفر ہو یا آخرت کا تمام مراحل کو مروجہ بدعات و خرافات سے گریز کرتے ہوئے قرآن و سنت کی ہدایات کے مطابق سرانجام دیا جائے ۔ زیر نظر کتاب ’’تجہیز و تکفین میزان شریعت میں ‘‘محترم محمد صدیق لون السلفی (متعلّم مدینہ یونیورسٹی) کی کاوش ہے انہوں نے اس کتاب میں قرآن و سنت(صحیح احادیث) کی روشنی میں وہ سب مسائل عام فہم انداز میں جمع کرنے کی کوشش کی ہے جن کا تعلق آدمی کی وفات سے پہلے اور وفات کے بعد سے ہے تاکہ ہر طبقہ کے افراد اس سے مستفید ہو کر بدعات سے اپنا دامن بچاتے ہوئے صحیح احادیث کی روشنی میں تجہیز و تکفین کے معاملات میں سنت نبوی کو اپنا سکیں۔اللہ تعالیٰ مرتب کی اس کاوش کو قبول فرمائے، ان کے زورِ قلم میں اضافہ کرے اور اللہ تعالیٰ ان کی کاوشوں کو ان کے میزانِ حسنات میں اضافہ کا ذریعہ بنائے ۔آمین(م۔ا)
فطرانہ وہ زکاۃ یا صدقہ ہے جو رمضان المبارک کے روزے ختم ہونے پر واجب ہوتا ہے۔ سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے روزہ دار کے روزے کو لغو اور بے ہودگی سے پاک صاف کرنے اور مساکین کی خوراک کا بندوبست کرنے کے لیے فطرانہ فرض کیا ہے، لہذا جس نے فطرانہ نماز عید سے قبل ادا کر دیا وہ قبول ہو گا ، لیکن اگر کوئی شخص نماز عید کے بعد ادا کرتا ہے تو اس کے لیے یہ ایک عام صدقہ ہو گا۔ زیر نظر کتابچہ ’’صدقہ فطر کے احکام و مسائل‘‘ محترم محمد صدیق لون السلفی (متعلّم مدینہ یونیورسٹی) کی کاوش ہے انہوں نے اس کتابچہ میں صدقۃ الفطر کے احکام و مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں آسان فہم انداز میں مختصراً بیان کیا ہے۔ (م۔ا)
رفع الملام عن الائمۃ الاعلام شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک معروف رسالہ ہے۔انہوں نے اس میں اکابر علماء اور خصوصاً ائمہ اربعہ کی جانب منسوب اس غلط فہمی کا ازالہ کیا ہے کہ انہوں نے دانستہ حدیث نبویہ کو نظر انداز کر کے اپنے مقلدین کو اپنے اقوال و افکار کی پیروی کا حکم دیا۔ شیخ نے دلائل و براہین کی روشنی میں اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ ایک عالم اور امام بھی ایسا نہیں جس نے شعوری طور پر حدیث نبوی سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے اقوال و اعمال کو دین میں حجت قرار دیا ہو۔ ایک امام تو کیا کوئی مسلم بھی اس فعل شنیع کی جسارت نہیں کر سکتا۔ زیر نظر کتاب ’’ائمہ اسلام ‘‘اسی مذکورہ کتاب کا ترجمہ ہے یہ ترجمہ سید ریاست علی ندوی رحمہ اللہ نے کیا اور پہلی بار 100سال قبل 1344ھ میں شائع ہوا۔ رفع الملام عن الائمۃ الاعلام کا ایک ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریری رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے جو مولانا محمد خالد سیف حفظہ اللہ کی تقدیم ، تحقیق و تخریج کے ساتھ ’’ائمہ سلف اور اتباع سنت‘‘ کے نام سے ’’طارق اکیڈمی ۔فیصل آباد نے شائع کیا ہے اور کتاب و سنت سائٹ پر موجود ہے۔ لنک ملاحظہ فرمائیں۔(م۔ا)
https://kitabosunnat.com/kutub-library/aima-salaf-aur-itibai-sunnat
فضیلۃ الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ کا شمار مستند جید علماء و مشائخ میں ہوتا ہے موصوف محدث سلطان محمود جلالپوری رحمہ اللہ کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں ۔مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد طویل عرصہ عالم اسلام کی عظیم الشان درس گاہ جامعہ ابی بکر ،کراچی میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے اور اب کئی سالوں سے ’’الرحمہ انسٹیٹیوٹ‘‘ واربرٹن میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہیں۔موصوف کی تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ تصنیفی خدمات بھی قابل قدر ہیں آپ سنن ابوداؤد مطبوعہ دار السلام کے ترجمہ و فوائد کے علاوہ کئی کتب کے مصنف و مترجم ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کو ایمان و سلامتی ، صحت و عافیت والی لمبی زندگی دے۔ زیر نظر کتاب ’’خوش آمدید‘‘ان کی ان تحاریر و تقاریر کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مدارس دینیہ میں زیر تعلیم طلباء کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پیش کیے ہیں۔(م۔ا)
تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سونا اور چاندی سکوں کی شکل میں ہوں یا ڈلی کی شکل میں اس کی زکاۃ ادا کرنا واجب ہے۔لیکن سونے اور چاندی سے بنے ہوئے خواتین کے زیورات سے متعلق اختلاف ہے، کہ ان میں زکاۃ ہو گی یا نہیں؟ احتیاط اسی میں ہے کہ سونے چاندی کے زیوروں میں زکوٰۃ واجب ہے کیونکہ عدم وجوب میں محض آثار و اقوال نقل کیے جاتے ہیں، اور مرفوع روایات کے سامنے محدثین کرام کے اصول کے مطابق آثار کی کوئی وقعت اور وزن باقی نہیں رہتا۔ فضیلۃ الشیخ عبد الرحمٰن عارف حفظہ اللہ نے زیر نظر رسالہ ’’زیورات پر زکاۃ‘‘ میں اسی موضوع سے متعلق اہل علم کے سوالات و جوابات کو کتابی صورت میں مرتب کیا ہے۔(م۔ا)
بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے ۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تو یہ غلطی اس کے خالق و مالک کو اس سے ناراض کر دے گی کیونکہ اس سے اپنے معبود و مالک کی ناراضگی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ فوری طور پر اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہو کر گڑگڑاتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتے ہوئے توبہ کرتا ہے ۔ جبکہ اس جہاں میں کئی ایسے بدنصیب سیاہ کار بھی ہیں جن کو زندگی بھر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کا مالک ان سے ناراض ہو چکا ہے اور وہ ہیں کہ دن رات گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور رات کو گہری نیند سوتے ہیں یا مزید گناہوں پر مبنی اعمال میں مصروف رہ کر گزار دیتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’صبح صادق‘‘شیخ عبد المالک القاسم کی عربی کتاب الفجر الصادق کا اردو ترجمہ ہے ۔ترجمہ کی سعادت محترم محمد عبد اللہ سلیم صاحب نے حاصل کی ہے۔شیخ نے اس کتاب میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ ’’صبح صادق کا وقت درخشاں اور سہانا وقت ہے جو ایک مسلمان کی زندگی اور شب و روز میں بہت اہم مقام رکھتا ہے۔اس مبارک وقت میں معصیت و نافرمانی کی منحوس کالی گھٹائیں چھٹ جاتی ہیں اور گناہ کا ایک ایک پردہ سرک جاتا ہے۔(م ۔ا)
مسنون نماز کے بعض مسائل پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کے وہ خصوصیت سے مستحق تھے ۔ انہی مسائل میں سے ایک صفوں کی درستی ’’ تصویۃ الصفوف‘‘ بھی ہے ۔ نماز کے لیے صفوں کو سیدھا کرنا نماز کے اہم مسائل میں سے ایک ہے جس کے ساتھ اجتماعی زندگی کی بہت سی اقدار وابستہ ہیں۔ احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام کا فرض ہے کہ نماز شروع کرنے سے قبل مقتدیوں کی صف بندی کا جائزہ لے اور اس کی درستگی کے لیے تمام امکانی وسائل استعمال کرے۔ امام تکبیر سے قبل صفوں کو برابر اور سیدھا کرنے کا حکم دے ۔ جب پہلی صف مکمل ہو جائے اور اس میں کسی فرد کے لیے جگہ حاصل کرنے کا امکان نہ ہو تو پھر دوسری صف کا آغاز کیا جائے۔ زیرتبصرہ کتاب ’’صف بندی کے احکام و مسائل ‘‘علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کی کاوش ہے علامہ امن پوری حفظہ اللہ نے اس کتاب میں تسویۃ الصفوف کے جملہ احکام و مسائل اور صف بندی کی اہمیت و ضرورت کو احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ سے واضح کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجوید کے قواعد و ضوابط اور اصول و آداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔ زیر نظر کتاب ’’قرآن کریم اور تجوید کی تدریس میں مہارت‘‘ فضیلۃ الشیخ جمال بن ابراہیم القرش حفظہ اللہ کی کتاب مهارات تدريس القرآن الكريم و التجويد کا اردو ترجمہ ہے شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کی حسب فرمائش محترم جناب الشیخ محمد اقبال خلجی صاحب نے اسے اردو دان طبقہ کے لیے اردو زبان میں ڈھالا ہے ۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں قرآن کریم کی تعلیم کے فضائل ،قرآن کریم کی تدریس کے عمومی اہداف،قرآن کریم کی تلاوت کے آداب،نبی کریم ﷺ تک متصل سند کے حامل، پختہ اور ماہر استاد سے قرآن سیکھنے کی اہمیت اور نمایاں ترین تربیتی امور کے شرعی دلائل کو پیش کیا ہے۔(م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتابِ ہدایت ہے اور یہ کتاب اس قدر جامع اور مکمل ہے کہ یہ قیامت تک کے لیے آنے والی نسلوں کی رشد و ہدایت کے لیے کافی ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس قرآن کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی کبھی علماء اس کے علوم سے سیر ہوں گے چنانچہ قرآن مجید کو جس پہلو سے بھی دیکھیں یہ عدیم النظیر ہی نظر آئے گا۔ مختلف ادوار میں مختلف فکری ،علمی اور تحقیقی صلاحیتوں کے حامل لوگوں نے اپنی اپنی کوششیں قرآن کریم کی شرح و توضیح کے میدان میں صرف کی ہیں۔ قرآن مجید کے معجزاتی پہلوؤں میں ایک پہلو یہ ہے کہ ہر دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق مختلف اسالیب اور پیرایوں میں اس کی تفاسیر،ترجمہ ،معانی ،تفہیم، و تسہیل کا اور تدریس و تعلیم کے لیے علوم عالیہ وغیرہ کی مدد سے اس پر نصاب سازی کا کام ہوتا رہا ہے۔ اور یہ مبارک سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔عصر حاضر میں قرآن مقدس کو عام فہم انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے خانوں میں ترجمے ،رنگوں اور علامات کے ذریعے ترجمہ پیش کرنے نیز اس کے فہم میں مزید دلچسپی پیدا کرنے کے لیے عربی زبان اور اس کے قواعد پر مشتمل نصاب سازی کے اسالیب اپنائے جا رہے ہیں ۔اس سلسلے میں کئی اہل علم نے تعلیم و تدریس اور تصنیف کے ذریعے کوششیں اور کاوشیں کیں۔فہم قرآن کے سلسلے میں الہدیٰ انٹرنیشنل، ، قرآن انسٹیٹیوٹ،اسلامک انسٹیٹیوٹ،لاہور ،دارالفلاح ،لاہور وغیرہ اور بالخصوص مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ قرآن فہمی کے بنیادی اصول ‘‘مولانا عبد الغفار حسن کی ان دو تقاریر کی کتابی صورت ہے جو ’’اسلامیہ کالج ( لائل پور حال فیصل آباد ) اور رباط العلوم الاسلامیہ ،کراچی میں کی گئیں اور پھر مجلہ المنبر (۲۰۰۷) فروری ۱۹۶۲ء ) اور میثاق (نومبر ۱۹۸۵ء ) کے شماروں کی زینت بھی بنیں۔ اس رسالے میں فہم قرآن کے موضوع پر تمام نکات کا احاطہ کیا گیا ہے اور مقاصد قرآن پر بھی اختصار کے ساتھ کلام کیا گیا ہے اور آخر میں ڈاکٹر سہیل حسن حفظہ اللہ کا ایک وضاحتی مضمون بھی شامل اشاعت ہے جس میں تعامل امت کے مبحث پر اٹھائے گئے چند تنقیدی اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ہے۔(م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق رکھے ہیں جن کو ادا کرنا اخلاقی اور شرعی فرض بنتا ہے اور انہیں حقوق العباد کا درجہ حاصل ہے۔ ان پانچ حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان بھائی فوت ہو جائے تو اس کی نمازہ جنازہ ادا کی جائے اور یہ نمازہ جنازہ حقیقت میں اس جانے والے کے لیے دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اگلی منزل کو آسان کر دے ۔ لیکن عوام الناس میں اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو جنازے کے مسائل تو دور کی بات جنازہ میں پڑھی جانے والی دعائیں بھی یاد نہیں ہوتیں جس وجہ سے وہ اپنے جانے والے عزیز کے لیے دعا بھی نہیں کر سکتے ۔ نماز جنازہ کے مختلف فیہ مسائل میں سے ایک مسئلہ نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءات کا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ فرض مستحب،یا مکروہ تحریمی؟‘‘ڈاکٹر حافظ ابو یحیٰ نورپوری حفظہ اللہ کی کاوش ہےانہوں نے اس کتاب میں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے متعلق جو لمبا چوڑا اختلاف پایا جاتا ہے اس کتاب میں اسی حوالے سے سنت نبوی کی کھوج لگانے کی ایک تحقیقی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب ہذا پر محدث دوراں حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی نظرثانی اور معروف محقق فضیلۃ الشیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کے اشراف سے کتاب کی افادیت دو چند ہو گئی ہے۔(م۔ا)
مہمان کی تکریم ، ان کی ضیافت و خدمت، خبر گیری ،حسن سلوک اور تعاون و امداد اعلیٰ اقدار کی نشانی اور ایمان کی علامت اور انبیاءِ کرام علیہم السلام کی سنت ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا تذکرہ فرمایا ہے،سیدنا ابراہیم علیہ السلام بڑے مہمان نواز تھے، نبی کریم ﷺ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مہمان نواز ہونے کی ہے۔فرمان نبوی ﷺ ہے’’ جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے ‘‘ زیر نظر کتابچہ ’’نبی ﷺ کا اپنے مہمانوں اور میزبانوں کے ساتھ برتاؤ‘‘ فضیلۃ الشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ کی ایک تحریر کی کتابی صورت ہے۔انہوں نے اس تحریر میں اختصار کے ساتھ متعلقہ موضوع کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور اس قدر وضاحت ضرور کر دی ہے کہ جس سے قارئین کو رسول اللہ ﷺ کا اپنے مہمانوں اور میزبانوں کے ساتھ برتاؤ کا علم بخوبی ہو جائے ۔(م۔ا)
دنیا کے کسی مذہب اور کسی نظریۂ حیات نے عورت کو وہ عظمت نہیں بخشی جو اسلام نے عطا فرمائی۔یہ اسلامی تعلیمات ہی کا فیضان تھا کہ مسلمانوں کے معاشرے میں امہات المومنین اور صحابیات مبشرات جیسی عظمت مآب مثالی خواتین پیدا ہوئیں جن کے سایۂ عاطفت میں عظیم علماء اور مجاہدینِ اسلام تربیت پاتے رہے ۔اسلام نے تقسیم کاری کے اصول پر مرد اور عورت کا دائرہ عمل الگ الگ کر دیا ہے ۔عورت کا فرض ہے کہ وہ گھر میں رہتے ہوئے اولاد کی سیرت سازی کے کام کو پوری یکسوئی اور سکونِ قلب کے ساتھ انجام دے۔ اور مرد کا فرض ہے کہ وہ معاشی ذمہ داریوں کا بار اپنے کندھوں پر اٹھائے۔مسلمان عورت کے لیے اسلامی تعلیمات کا جاننا از بس ضروری ہے ۔اور اس امر میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ مسلمان خواتین ایک مسلم معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ مسلم خاتون حقوق ، فرائض اور اوصاف ‘‘مولانا عبد الغفار حسن (1913۔2007ء) کے معیاری خاتون کے عنوان پر ماہنامہ عفت،لاہور کے 1955ء۔1956ء کے شماروں میں بالاقساط شائع ہونے والے مضامین کی کتابی صورت ہے ۔ جس میں مصنف موصوف نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خواتین کے لیے کن صفات کو پسند کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ﷺ نے خواتین کے لیے کیا کیا ہدایات دی ہیں اور خود اپنے اور ازواج مطہرات کے اسوہ کی شکل میں کن اخلاقی بلندیوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے ۔ (آمین) (م۔ا)
The trend of atheism and agnosticism is generally on the rise in the world. Muslim youth, being an integral part of the world and its issues is being immensely influenced by this trend. When the apparently strict code of conduct set by Islam bothers them, they try to look for a guilt free ideology. They like to believe that renouncing Islam and the belief in Allah as the Creator gives them a free hand in life. This dissertation attempts to point out the underlying factors which have been influencing the Muslim youth in particular and the whole world in general. This is a survey based dissertation which points outs with facts and figures the reasons and remedies for this prevalent trend
نمازی کے لیے اپنے ستر کو دورانِ نماز ڈھانپ کر رکھنا تمام مسلمانوں کے ہاں واجب ہے، مرد کا ستر جمہور اہل علم کے ہاں ناف سے گھٹنے تک ہے جبکہ عورت کے نماز کے لیے ستر بالوں سمیت عورت کا پورا جسم ستر ہے اس لیے دوران نماز اسے تمام جسم ڈھانپنے کا حکم ہے ، ما سوائے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے لہذا عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ باریک دوپٹے یا باریک لباس میں نماز ادا کرے، اسے اس قسم کی اوڑھنی لینا چاہیے جس سے اس کے بال اور نیچے پہنے ہوئے کپڑوں کا رنگ نظر نہ آئے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اللہ تعالیٰ جوان عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر قبول نہیں کرتا۔ فضیلۃ الشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ ہے نے زیر نظر کتابچہ بعنوان ’’ خواتین کی نماز اور ان کا لباس‘‘ میں اسی مسئلہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔(م۔ا)
نمازِ جنازہ میں قرات جہراً و سراً دونوں طرح درست ہے البتہ دلائل کی رو سے سرا پڑھنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے البتہ تعلیمِ جنازہ کی غرض سے امام کا جہراَ َنمازِ جنازہ پڑھنا بھی صحیح ہے اور آج کل اُس وقت کی نسبت حالات بہت مختلف ہیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت اہلِ علم تھی اور آج اسکے بالکل برعکس معاملہ ہے لہٰذا جہراً پڑھنا عین اس مصلحت کے مطابق ہے جس کا صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ذکر فرمایا ہے۔ زیر نظر کتابچہ ’’ جہری نماز جنازہ ایک جائزہ ‘‘ فضیلۃ الشیخ ابو عائش جلال الدین المدنی کی کاوش ہے انہوں نے اس کتابچہ میں احادیث کی روشنی میں ان لوگوں کے اس دعویٰ کی کہ نماز جنازہ بآواز بلند پڑھنا کسی حدیث سے ثابت ہی نہیں ہے کی جواب دینے کے علاوہ آخر میں نماز جنازہ کا مختصر طریقہ بھی ذکر کیا ہے۔(م۔ا)
استخارہ در حقیقت مشورے کی ایک اعلیٰ ترین شکل ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ مشورہ اپنے ہم جنس افراد سے کیا جاتا ہے تاکہ ان کے علم و تجربہ سے فائدہ اٹھا کر مفید سے مفید تر قدم اٹھایا جائے، جبکہ استخارہ میں اللہ تعالیٰ سے عرض کیا جاتا ہے کہ اے اللہ! ہمارے اس معاملے کے مفید اور مضر تمام پہلوؤں سے آپ بخوبی واقف ہیں، آپ کے علم میں جو پہلو ہمارے لئے ،مفید اور بہتر ہو اسے ہمارے سامنے روشن کر کے ، ہمارے دلوں کو اس کی طرف مائل و مطمئن کر دیجئے۔لہذا کسی جائز معاملہ میں جب تردد ہو تو اس کی بہتری والی جہت معلوم کرنے کے لیے استخارہ کرنا مسنون عمل ہے،حضور اکرم ﷺ کی احادیث سے اس کی ترغیب ملتی ہے۔ زیر نظر کتابچہ ’’استخارہ کتاب و سنت کی روشنی میں ‘‘ محترم جناب عمر فاروق قدوسی حفظہ اللہ کا مرتب شدہ ہے ۔انہوں نے اس کتابچہ میں قرآن مجید اور سنت صحیحہ کی روشنی میں مسائل استخارہ کو آسان فہم انداز میں پیش کیا ہے اور استخارہ کے متعلق بعض غلط تصورات کو بھی واضح کیا ہے ۔(م۔ا)
امن ہر امت کے لیے بنیادی طور پر مطلوب ہے۔ اہم ترین مقاصد میں فکری امن سرفہرست ہے تاکہ اسلامی ملکوں میں معاشرے کی عام طور پر اور نوجوانوں کی خاص طور پر خارجی افکار اور نقصان دہ نظریات سے حفاظت کی جا سکے۔فکری امن سے مراد یہ ہے کہ لوگ اپنے ملکوں اور معاشروں میں اپنی مختلف تہذیب و تمدن، ثقافت اور اپنی خاص فکر کے تحت امن و سکون سے زندگی گزار سکیں۔ زیر نظر کتاب ’’فکری امن ‘‘فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن السدیس حفظہ اللہ کی کتاب ألأمن الفكري أثر الشريعة الإسلامية في تعزيره کا اردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ کی سعادت فضیلۃ الشیخ توصیف الرحمٰن حفظہ اللہ نے حاصل کی ہے۔ صاحب کتاب شیخ السدیس حفظہ اللہ نے اس کتاب میں شریعت اسلامیہ کی جامع مانع تعریف،فکری امن ، فکری امن کے قیام میں شریعت اسلامیہ کے کردار و ثمرات کو بیان کیا ہے۔(م۔ا)
امورِ فطرت سے مراد وہ تمام امور ہیں جو تمام تر نبیوں کی ہمیشہ سے سنّت رہی ہے ، اور اِن کاموں کا کرنا تمام شریعتوں میں مُقرر رہا ہے ، گویا کہ یہ ایسے کام ہیں جو اِنسان کی جبلت (فِطرت ،گُھٹی )میں ہیں۔نبی ﷺ نے اپنی امت کو جن فطری امور پر عمل پیرا رہنے کی تاکید کی ہے ان میں سنن فطرت بھی شامل ہیں۔امور فطرت کی تعداد کے متعلق روایات میں مختلف عدد کا بیان ہے، صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں ایک، دوسری میں تین اور تیسری میں پانچ سنن کا تذکرہ موجود ہے، اسی طرح صحیح مسلم میں بھی ایک روایت میں پانچ اور دوسری میں دس کا تذکرہ ہے۔ تو یہ مختلف رویات میں مختلف عدد کا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر امام ابن العربی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ تمام روایات کہ اکٹھا کرنے سے ان سنن فطرت کی تعداد تیس تک جا پہنچتی ہے۔ زیرنظر کتاب ’’آسمانی شریعتوں کے مشترکہ احکام‘‘ مولانا محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ کی تصنیف ہے اس میں انہوں نے امور فطرت کے موافق امتوں کے مشترکہ احکام کو تفصیل سے بیان کیا ہے ،ہر حکم کے بارے میں منقول دلائل کی شرح و بسط سے وضاحت کی گئی ہے اور ان امور کے بارے میں ثابت وغیر ثابت دلائل کو تفصیلاً بیان کیا ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کے علاوہ درجن کے قریب علمی و تحقیقی کتب کے مصنف ہیں ۔اللہ تعالیٰ فاضل مرتب کی تمام تحقیقی و تصنیفی اور تبلیغی خدمات کو قبول فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
انسانی دنیا میں اختلاف کا پایا جانا ایک مسلمہ بات ہے ۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق میں ایک سنت۔ چنانچہ لوگ اپنے رنگ و زبان اور طبیعت و ادراکات اور معارف و عقول اور شکل و صورت میں باہم مختلف ہیں ۔امت محمدیہ آج جن چیزوں سے دوچار ہے ،اور آج سے پہلے بھی دوچار تھی ،ان میں اہم ترین چیز بظاہر اختلاف کا معاملہ ہے جو امت کے افراد و جماعتوں، مذاہب و حکومتوں سب کے درمیان پایا جاتا رہا اور پایا جاتا ہے ۔ اختلاف اساسی طور پر دین کی رو سے کوئی منکر چیز نہیں ہے ،بلکہ وہ ایک مشروع چیز ہے جس پر کتاب و سنت کے بے شمار دلائل موجود ہیں۔اختلافات اگرچہ ختم نہیں ہو سکتے لیکن اسلاف میں اختلاف کا کوئی نہ کوئی ادب و قرینہ موجود رہا ۔ زیر نظر کتاب ’’اسلام میں اختلاف رائے کے اصول و آداب (کورس کوڈ:1904) محترم جناب ڈاکٹر حافظ طاہر اسلام عسکری حفظہ اللہ(فاضل جامعہ لاہور اسلامیہ،لیکچرر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی) کی کاوش ہے ۔موصوف نے یہ کتاب بڑی محنت اور لگن سے بی ایس علوم اسلامیہ کے طلبہ کی نصابی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کی ہے۔جس میں انہوں نے اختلاف کے معانی و مفاہیم کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی تاریخ بیان کی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اس کا آغاز کب ہوا اور مختلف ادوار میں یہ ارتقا کے کن مراحل سے گزرا۔ اس کے بعد ان اسباب و علل کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جن کی بنا پر شرعی مسائل میں اختلاف رونما ہوتا ہے ۔(م۔ا)
قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجوید کے قواعد و ضوابط اور اصول و آداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر عربی و اردو زبان میں بے شمار کتب موجود ہیں۔جن میں سے مقدمہ جزریہ ایک معروف اور مصدر کی حیثیت رکھنے والی عظیم الشان منظوم کتاب ہے،جو علم تجوید و قراءات کے امام علامہ جزری کی تصنیف ہے۔اس کتاب کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر متعدد اہل علم نے اس کی شروح اور تراجم کیے ہیں ۔ زیرنظر کتاب ’’التحفۃ الرحمانیہ ‘‘علم تجوید کی معروف کتاب المقدمۃ الجزریۃ کی آسان ، عام فہم سلیس اردو شرح ہے شارح جناب قاری عباس احمد محمدی (مدرس مرکز البیت العتیق) نے اس کتاب میں اشعار کے بحور اور اوزان بھی واضح کیے ہیں یہ شرح نہایت مفید علمی نکات پر مشتمل ہے ۔مولانا قاضی محمد فاضل عظیم زئی ادینوی کا رسالہ ’’الکلمات الخیریۃ فی الاصوات اللغویۃ‘‘ بھی زیر نظر کتاب کے ساتھ ہی شامل اشاعت ہے جو کہ ص214 سے شروع ہوتا ہے۔(م۔ا)
1173 ؍اشعار پر مشتمل شاطبیہ امام شاطبی رحمہ اللہ کی قراءات ِ سبعہ میں اہم ترین اساسی اور نصابی کتاب ہے۔ شاطبیہ کا اصل نام حرز الاماني و وجه التهاني ہے لیکن یہ شاطبیہ کے نام سے ہی معروف ہے اور اسے قصیدة لامیة بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے ہر شعر کا اختتام لام الف پر ہوتا ہے۔ یہ کتاب قراءاتِ سبعہ کی تدریس کے لئے ایک مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے۔ بڑے بڑے مشائخ اور علماء نے اس قصیدہ کی تشریح کو اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ شاطبیہ کے شارحین کی طویل فہرست ہے ۔ حرز الاماني و وجه التهاني کا زیر نظر نسخہ شیخ القراء و المجودین قاری محمد ادریس عاصم رحمہ اللہ کے قائم کردہ ادارہ ’’العاصم اسلامک بکس ‘‘ سے مطبوعہ ہے ترجمہ کی سعادت قاری اویس ادریس العاصم (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) نے حاصل کی ہے ۔یہ ترجمہ شیخ علی بن سعد غامدی کے تحقیق شدہ نسخہ کا اردو ترجمہ ہے۔ (م۔ا)
شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ 31 مئی 1945ء سیالکوٹ میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔9 برس کی عمر میں آپ نے قرآن کریم حفظ کر لیا بعد ازاں ابتدائی دینی تعلیم ’’دارالسلام ‘‘ سے حاصل کی اس کے بعد جامعہ الاسلامیہ گوجرانوالہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد درس نظامی کی تکمیل کی ۔ 1960ء میں دینی علوم کی تحصیل سے فراغت پائی اور پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ’’بی اے آنرز‘‘ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر کراچی یونیورسٹی سے لاء کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے ’’ مدینہ یونیورسٹی ‘‘ میں داخلے کی سعادت نصیب ہوئی ۔وہاں آپ نے دنیائے اسلام اور تاریخ کے نامور ،معتبر اور وقت کے ممتاز علماء کرام سے علم حاصل کیا ۔ آپ مدینہ یونیورسٹی سے اس اعزاز کے ساتھ فارغ ہوئے کہ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم 98 ممالک کے طلباء میں اول پوزیشن پر رہے۔مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو یونیورسٹی میں ہی آسائشوں سے پرزندگی و اعلیٰ مرتبہ پر مشتمل منصبِ تحقیق و تدریس کی پیشکش کی گئی مگر آپ نے اپنی ذاتی زندگی پر دین ِ حق کی خدمت اور وطنِ عزیز کی اصلاح کو ترجیح دی ۔ زیر نظر کتاب ’’ علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ ایک عہد ایک تاریخ‘‘ محترم جناب عبد الرزاق عبد الغفار السلفی صاحب کی تصنیف ہے انہوں نے اس کتاب میں امت اسلامیہ کے ایک عظیم جید متبحر محقق عالم علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی خدمات کو جامع انداز میں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔(م۔ا)