اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ،جوانسان کی دینی و دنیوی ہر معاملہ میں پوری راہنمائی کرتاہے اور انسانی زندگی کا کوئی پہلو تشنہ اور ناقص نہیں چھوڑتا جہاں انسان کی راہنمائی نہ ہو۔اسلام دیگرانسانی اقدار کے تحفظ کے ساتھ خاندانی زندگی کا کامل نظام دیتاہے ،جو انسانی سوچ کا عکاس اوردنیا کا معتدل ترین نظام ہے۔اسلام خاندانی نظام واحد مؤثرنظام ہے ،جوعصمت کا محافظ ، خاندانی کفالت کا بہترین ذمہ دار اور خاندان کے افراد کے حقوق وفرائض کا اصل محافظ ہے۔اسی نظام کو اپنانے سے معاشرتی استحکام پیدا ہو سکتاہے اور معاشرتی ناہمواریوں اور باہمی خاندانی تنازعات کا ازالہ ممکن ہے۔زیر نظر مقالہ میں خاندان کی اہمیت ،معاشرتی حقوق و فرائض اور خاندانی افراد کے حقوق کا مفصل بیان ہے،ان تعلیمات پر عمل کر کے معاشرتی نظام کو مستحکم بنایا جاسکتاہے اور تیزی سے روبہ زوال نظام خاندان کے بگاڑ کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور معاشرے میں پھیلی بددلی کا ازالہ کیا جاسکتاہے۔(ف۔ر)
امام بیہقی ؒ ایک عظیم محدث تھے،جن کی کتاب ’السنن الکبری‘کتب حدیث میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔یہ کتاب پانچویں صدی ہجری میں مرتب کی گئی اور ارباب علم ونظر کے ہاں انتہائی اعلیٰ مرتبہ کی حامل ہے۔’السنن الکبریٰ‘میں بے شمار علمی نکات وفوائد موجود ہیں اور اس میں نقد کی روح کارفرما نظر آتی ہے۔اس کا مطالعہ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو تحقیق حدیث میں زیادہ سے زیادہ مسائل کا احاطہ کرنا چاہے یا نقد کے طرق اور باریکیوں سے آگاہی کا متمنی ہو۔زیر نظر مقالہ میں امام بیہقی کے منہج کو اجاگر کیا گیا ہے ،جسے انہوں نے ’السنن الکبریٰ‘کی تدوین وتالیف میں مد نظر رکھا ہے۔آغاز میں امام بیہقی کا مفصل تعارف کرایا گیا ہے پھر کتب حدیث میں ’السنن الکبریٰ‘کا مقام ومرتبہ اجاگر کیا گیا ہے۔بعد میں ان اصولوں کی وضاحت ہے جنہیں امام صاحب نے پیش نظر رکھا ہے۔روایات کے اخذ وقبول اور جرح ونقد میں جو ضابطے امام بیہقی کے سامنے رہے ہیں ،انہیں بھی بیان کیا گیا ہے۔یہ مقالہ ایم فل کی ڈگری کے حصول کے لیے لکھا گیا ہے ،چنانچہ تحقیق کے باب میں لائق بھروسہ ہے۔(ط۔ا)
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ(661۔728ھ) کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے جس طر ح اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ اورباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعد رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیااورمتکلمین، فلاسفہ اور منطقیین کا خوب ردّ کیا ۔امام ابن تیمیہ کی حیات وخدمات کےحوالے سے عربی زبان میں کئی کتب اور یونیورسٹیوں میں ایم فل ، پی ایچ ڈی کے مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں ۔ اردو زبان میں امام صاحب کے حوالے سے کئی کتب اور رسائل وجرائد میں سیکڑوں مضامین ومقالات شائع ہوچ...
مسلک اہل حدیث در اصل مسلمانوں کوکتاب وسنت کی بنیاد پر اتحاد کی ایک حقیقی دعوت پیش کرنےوالا مسلک ہے ۔ اہل حدیث کے لغوی معنیٰ حدیث والے اوراس سے مراد وہ افراد ہیں جن کے لیل ونہار،شب وروز،محض قرآن وسنت کےتعلق میں بسر ہوں او رجن کا کوئی قول وفعل اور علم، طور طریقہ اور رسم ورواج قرآن وحدیث سے الگ نہ ہو۔گویامسلک اہل حدیث سے مراد وہ دستورِ حیات ہےجو صرف قرآن وحدیث سے عبارت ،جس پر رسول اللہﷺ کی مہرثبت ہو۔ زیرنظرمقالہ بعنوان’’اہل حدیث فکر؛تجزیاتی مطالعہ‘‘پروفیسر ڈاکٹر آصف جاوید صاحب (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ، لاہور ) کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے شیخ زید اسلامک سنٹر ،پنجاب یونیورسٹی(سیشن 2009۔2011ء) میں پیش کر کے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔مقالہ نگار نے اپنے اس تحقیقی مقالہ کو چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے باب اول اہل حدیث کا تاریخ...
اسلامی مالیات اور کاروبار کے بنیادی اصول قرآن وسنت میں بیان کردیے گئے ہیں۔ اور قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے امت نے اجتماعی کاوشوں سے جو حل تجویز کیے ہیں وہ سب کے لیے قابل قبول ہونے چاہئیں۔کیونکہ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کے بنیادی مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات میں اختلافی مسائل کےحوالے سے علماء وفقہاء کی اجتماعی سوچ ہی جدید دور کے نت نئے مسائل سے عہدہ برآہونے کے لیے ایک کامیاب کلید فراہم کرسکتی ہے ۔ زیر نظر مقالہ بعنوان’’ برصغیر میں اسلامی معاشی فکر کا ارتقاء‘‘ فاروق عزیز صاحب وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے 2002ء میں کراچی یونیورسٹی میں پیش کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔مقالہ نگار نےاس مقالہ کو نو ابواب میں تقسیم کر کے اس میں برصغیر میں اسلامی معاشی فکر کی ابتداء سے لےکر بیسوی صدی کے اختتام تک مسلم معاشی مفکرین کی فکر کا جائزہ پیش کیا ہے۔(م۔ا)
عورت چھپانے کی چیز ہے اور یہ جس قدر پردہ اور چادر چار دیواری کا اہتمام کرے گی اور پردہ کے متعلق جس شدت سے اسلامی احکام کی پابندی کرے گی ۔اپنی عزت وعصمت کو اتنا ہی محفوظ سمجھے گی ۔اس کی عزت اور شخصی وقار میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔کیونکہ عورت کی عصمت وعفت کے تحفظ کے لیے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے اور جو قوانین وضوابط مقرر کیے ہیں۔اس سے بہترین قوانین کا نفاذ ناممکن ہے ۔پھر ان قوانین وضوابط سے انحراف اور شمع محفل بننے کے شوق سے عورت کی جو تذلیل وتحقیر ہوئی ہے اور بے شرمی وبے حیائی کا جو طوفان بدتمیزی برپا ہوا ہے ۔(الامان والحفیظ)ازل سے ابلیس لعین کی یہی منشا رہی ہے کہ مردوزن کا اختلاط ہو ،جنسی بےراہ روی کے سوتے پھوٹیں اور ہر شخص ضمیر کا مجرم ٹھہرے ۔اس شیطانی وار سے نظریات کمزور پڑتے ،عقائد میں لچک پیدا ہوتی اور مذہبی قوانین میں ترامیم کا بے ہودہ سلسلہ شروع ہوتا یعنی شیطان کی مراد پوری ہو جاتی ہے کہ انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ٹوٹے اور وہ خواہشات کا اسیر ہو کر شیطان کا کارندہ بن جائے۔اسی مناسبت سے شیطان کا سب سے زیادہ زور بےپردگی پر ہے کہ عورت گھر کی زینت بننے کے بجائے شمع محفل اور دل لگی کا س...
قرآن کریم تمام شرعی دلائل کا مآخذ ومنبع ہےقرآن مجید نے سنت نبویہ کو شریعت ِاسلامیہ کا مصدرِ ثانی مقرر کیا ہے ۔ قرآن مجید کےساتھ سنت نبویہ کوقبول کرنےکی تاکید وتوثیق کے لیے قرآن مجید میں بے شمار قطعی دلائل موجود ہیں۔لیکن بعض گمراہ ا و رگمراہ گر حضرا ت(منکرین حدیث) حدیث کی حجیت واہمیت کومشکوک بنانے کی ناکام کوششوں میں دن رات مصروف ہیں او رآئے دن حدیث کے متعلق طرح طرح کے شکوک شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن الحمد للہ ہر دور میں علماء نے ان گمراہوں کاخوب تعاقب کیا اور ان کے بودے اور تارِعنکبوت سےبھی کمزور اعتراضات کے خوب مدلل ومسکت جوابات دیے ہیں ۔منکرین کےرد میں کئی کتب اور بعض مجلات کے خاص نمبر ز موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’تاریخ وعقائد ومنکرین حدیث ‘‘حافظ صلاح الدین صاحب کا وہ علمی وتحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے انہوں نے گومل یونیورسٹی،ڈیرہ غازی خاں...
فی زمانہ نفاذ شریعت کی کوششوں کے ذیل میں یہ سوال سنجیدگی سے سامنے آ رہا ہے کہ جن مسائل سے متعلق قرآن و حدیث میں واضح نصوص موجود ہیں لیکن موجودہ حالات میں ان پر عمل میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں تو کیا ان کو بعینہ تسلیم کر لیا جائے یا حالات کے مطابق ان میں ترمیم و اضافہ ممکن ہے؟ اس وقت آپ کے سامنے حافظ طاہر اسلام عسکری صاحب کامل محنت اور جانفشانی کے ساتھ لکھا جانے والا ایم۔فل کا مقالہ ہے۔ جو کہ بنیادی طور پر اسی سوال کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیاہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے تین طبقات کا تذکرہ کیاہے۔ پہلا طبقہ وہ ہے جو قرآن و حدیث کے منصوص احکام کو غیر متبدل مانتے ہیں۔ دوسری طبقہ جدت پسندوں کا ہے جن کے مطابق سیاست، معیشت اور معاشرت سے متعلقہ اسلامی حدود وضوابط کو عصری تقاضوں کے پیش نظر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں تیسرا طبقہ ان علما کا ہے جو عقائد و عبادات میں تو کسی تبدیلی کے قائل نہیں ہیں لیکن حالات کے تحت معاملات سے متعلقہ احکام میں تبدیلی کی حمایت کرتے ہیں۔ محترم حافظ صاحب نے اس قسم کے تمام خیالات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے اجتہاد کا درست تصور اور اس کا دائر...
علمائے اسلام نے علم حدیث کی حفاظت ،جمع وتدوین، اور تحقیق وتدقیق کے سلسلہ میں قابل قدر کاوشیں سر انجام دی ہیں۔عہدصحابہ میں بھی میں تحقیق حدیث کےچند اصول وقواعد موجود تھے مگر مرتب ومدون نہیں تھے۔ بعد ازاں محدثین عظام نےاصول حدیث کو مرتب کیا۔جیسے جرح وتعدیل ، علم اسماء الرجال اور مصطلح الحدیث کا ناموں سے موسوم کیاجاتاہے۔ بے شمار محدثین نے تحقیق واصول حدیث میں خدمات پیش کیں۔عصر حاضر میں شیخ البانی رحمہ اللہ اور حافظ زبیر علی زئی نے بھی تحقیق حدیث کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔انہوں نے روایت ودرایت میں بہت شاندار کام کیا ہے۔ان کی تحقیقات حدیث عالم اسلام میں کافی مقبول ہوئیں ہیں زیر نظرتحقیقی مقالہ بعنوان’’تحقیق حدیث میں شیخ البانی اور حافظ زبیر علی کے معیارات کاتقابلی جائزہ‘‘ جناب عبد المنان صاحب کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب حفظہ اللہ
اشاریہ سازی کی ابتداء مذہبی کتابوں کے لیے مرتب اشاریوں سے ہوئی۔ یہ اشاریے جو سولہویں، سترہویں صدیوں میں مرتب ہوئے الفاظ ، نام یا عبارت کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتے تھے ، اشاریہ متلاشی معلومات کے لیے درکار معلومات کی نشاندہی کا وسیلہ ہے کتابوں کے برعکس رسائل کی اشاریہ سازی نسبتا زیادہ قدیم نہیں ۔ یوں تو سائنسی علو م میں تحقیق کی روز افزوں رفتار کی بدولت رسائل کی اشاعت کی تعدا د اٹھارہویں صدی سے ہی بڑھنے لگی تھی لیکن انیسویں صدی کے آخری دور تک ان میں شائع مضامین کی تعداد اتنی بڑھ چکی تھی کہ باحثین کو اشاریہ کی مدد کے بغیر واقفیت حاصل کرنا مشکل ہو گیاجس کے نتیجہ میں رسائل کی اشاریہ سازی کی داغ بیل پڑی ۔ آج اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے کتابوں کے اشاریے سے کہیں زیادہ رسائل کے اشاریوں کا مقام ہے ۔ رسائل کے اشاریہ سازی میں معاون قاعدے اور ضابطے مرتب ہوئے ہیں ، جواشاریہ سازی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وضع کیے گئے ۔ برصغیر پاک وہند میں بھی اردو زبان میں اشاریہ سازی کے کام میں بڑی ترقی ہوئی ہے ۔ اس وقت برصغیر ہند و پاک سے لاتعداد رسائل و جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ یہ...
تکثیری سماج سے مراد ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں اقلیتوں کو اپنی تہذیبی روایات کو تحفظ و بقا کی ضمانت حاصل ہو اور کوئی فرقہ یا گروہ ان کی تہذیبی روایات میں مداخلت نہ کرے ۔تکثیریت دور جدید کا نیا مظاہرہ ہے اگر چہ اس کی بنیادیں قدیم زمانہ سے جا ملتی ہیں ۔ لیکن جدید دور میں اقلیتی گروہوں کا اکثریتی گروہوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی اہمیت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ زیر نظر مقالہ بعوان ’’ تکثیری سماج میں بین المذاہب ہم آہنگی ‘‘ حافظ بابر فاروق رحیمی (مرکز ی رہنما مرکزی جمعیت اہل حدیث ،پاکستان ) کا وہ تحقیقی مقالہ ہےجسے انہوں نے اوکاڑہ یوینورسٹی میں پیش کر کے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔ مقالہ نگار نے اس مقالہ کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔باب اول مذاہب کے تعارف پر مشتمل ہے ۔باب دوم کا عنوان دور جدید میں بین المذاہب یگانگت وہم آہنگی کا تصور اور اُسوہ رسول ﷺ سے رہنمائی ہےاور باب سوم عصر حاضر میں بین الاقوامی...
برصغیر پاک و ہند میں لکھوی خاندان نے اسلام کی جو خدمت کی ہے اس سے شاید ہی کوئی پڑھا لکھا آدمی ناواقف ہو۔ تفسیر محمدی کے مصنف مولانا حافظ محمد بن حافظ بارک اللہ لکھوی (1221ھ۔1311ھ) مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور کے قصبہ لکھوکے میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم کا آغاز اپنے والد محترم حافظ بارک اللہ سے کیا پہلے قرآن مجید حفظ کیا اس کے بعد صرف ، نحو ،فارسی ، منطق ، فقہ اور اصول فقہ کی کتابیں بھی اپنے والد بزرگوار سے پڑھیں اس کے بعد لدھیانہ جاکر مختلف علماء سے مختلف علوم میں استفادہ کیا۔ بعد ازاں مولانا عبداللہ غزنوی اور مولانا غلام رسول قلعوی رحمہما اللہ کے ہمراہ دہلی تشریف لے گئے اور شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین دہلوی سے تفسیر ، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔دہلی سے واپس آکر اپنے والد حافظ بارک اللہ مرحوم سے مل کر موضع لکھوکے میں1850ء کے لگ بھگ ’’مدرسہ محمدیہ ‘‘ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی۔ متحدہ پنجاب کےضلع فیروز پور میں اہل حدیث کا یہ اوّلین مدرسہ تھا ایک صدی تک لکھوکے اس مدرسہ کا فیض جاری رہا اور...
زیر نظر مقالہ بعنوان ’’ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجتہادی بصیرت اور عصر حاضر‘‘ محترم جناب ممتاز احمد سالک صاحب کا دکتورہ کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے تقریبا18؍سال قبل جامعہ پنجاب میں پیش کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ مقالہ نگار نے تفسیر،حدیث،فقہ و سیرت،تاریخ و مغازی کی کتب سے استفادہ کر کے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجتہادی بصیرت کی روشنی میں جدید ترین سیاسی ،انتظامی اور معاشی مسائل کا جائزہ لینے کی اور اس کے حل میں رہنمائی لینے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ یہ تحقیقی مقالہ 8؍ابواب پر مشتمل ہے۔(م۔ا)
اصطلاحاً دلیل اس کو کہتے ہیں جو کسی بات یا موقف کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کا یقین دلاتی ہے۔دلیل کے لیے ضروری ہے کہ یہ معلوم ومشہور،مسلم ومتفقہ ہو۔اور دلیل کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب مخاطب یا متکلم اپنے مقابل سے مطالبہ کرےکے اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل پیش کرو۔اور استدلال سے مراد وہ طریق ومنہج کہ جس طریقہ سے دلیل کو پیش کیاجاتا ہے ۔ زیر نظرمقالہ بعنوان’’ دلیل اور استدلال قرآن کریم اور عصری مناہج کا تقابلی جائزہ‘‘ مفسر قرآن مولانا عبد الرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ کے پوتے جناب عبد اللہ شفیق کیلانی صاحب کا وہ علمی وتحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے جامعہ پنجاب میں پیش کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔مقالہ نگار نے اس مقالے کو حسب ذیل چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔باب اول :دلیل اور استدلال چند اہم مفاہیم اور مناہج ۔ باب دوم:قرآن کریم کے دلائل۔باب سوم :قرآن کریم کے مناہج استدلال،باب رابع قرآن کریم کے اہداف ِ واستدال،باب خامس :عصری مناہج استدل...
دینی مدارس کے طلباء ،اساتذہ ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نےایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا ۔صبح وشام کے اوقات میں صحابہ کرام وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ہجرت کے بعدمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ۔اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بی...
ذکری مذہب کا بانی ملا محمد اٹکی ہے ذکری مذہب کا زمانہ ساڑھے چارسوسال پر محیط ہے۔ اس مذہب کے اکثر پیروکار بلوچ ہیں ۔ ذکری مذہب والوں کی زیادہ تعداد مکران میں ہے۔ اگرچہ بعض دوسرے علاقوں میں مثلا لسبیلہ ، خضدار ، کو ہلو اور ساحل سمندر پران کی آبادیاں ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی کے مختلف علاقوں مثلا لیاری ، ملیر اور ناظم آباد وغیرہ میں ذکری مذہب کے ماننے والے پائے جاتے ہیں۔ ذکری مذہب کوئی تبلیغی مذہب نہیں ہے، بلکہ بانی مذہب ملا محمد اٹکی نے بلوچوں کے اندر رہ کراس مذہب کی اشاعت کی، جس کی وجہ سے بلوچوں کے علاوہ اور کسی قوم میں اس مذہب کو کوئی پزیرائی نہیں ملی ۔ آج تک یہ لوگ اپنے مذہب کے عقائد کی کتابیں پردہ خفا میں رکھتے ہیں۔ ذکری مذہب کے کلمہ توحید میں اچھا خاصا اختلاف پایا جاتا ہے، مثلا کلمہ لیا جائے تو کسی کتاب میں کہیں پر اضافہ اور کسی کتاب میں کمی اور کہیں پہ الفاظ کی تبدیلی نظر آتی ہے۔ اسی طرح رسالت کے عقائد میں بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ ملا محمد اٹکی کو کہیں پیغمبر ، کہیں پہ ان کو نور من نورالہی قراردیتے ہیں۔ قرآن میں بھی یہ لوگ کمی بیشی کے قائل ہ...
سر سید احمد خان کی ولادت 17؍اکتوبر1817ء کو دہلی میں ہوئی۔ سر سید کی ابتدائی تعلیم وتربیت خالص مذہبی اور روحانی ماحول میں ہوئی،کیوں کہ ان کے والد اور دیگر افراد خانہ کو دہلی کے دو اہم علمی وروحانی مراکز خانقاہ نقش بندیہ اور خانوادۂ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے گہری عقیدت اور والہانہ تعلق تھا۔سر سید نے تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کی معاشرتی اور معاشی ترقی کے لیے متحدہ ہندوستان میں تحریک چلائی،اسے تاریخ میں ’’علی گڑھ تحریک‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے،جو مدرسۃ العلوم (علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی)کی شکل میں بارآور ہوئی۔ اور انہوں نے مذہبی مصلح کی حیثیت سے مسلمانوں کی مذہبی اصلاحات کا آغازکیا اور مذہبی خیالات کے زیر اثر جو تعلیمی ، معاشی اور معاشرتی حد بندیاں مسلمانوں نے مقرر کی تھیں،انھیں ختم کرنے کی کوشش کی،نیز عیسائی حکمراں اور مستشرقین اسلام کے جن اصولوں پر معترض تھے،ان کی توجیہہ وتشریح عقل وسائنس کے ذریعے کرنے کی بنا ڈالی۔جو ان کے مقاصد کی تکمیل میں مانع تھا،یہاں تک کہ ہندوستان میں جمہور عقیدوں پر مشتمل ایک ایسا فرقہ ظہور میں آگیاجو اعتزال کی ایک...
اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی کو زبر دستی اسلام میں داخل نہیں کیا جا سکتا ،لیکن اگر کوئی مسلمان اسلام سے روگردانی کرتے ہوئے مرتد ہوجائے تو اس کی سزا قتل ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ : «مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ»(بخاری:3017) ’’جو اپنا دین(اسلام) بدل لے اسے قتل کردو۔‘‘اور تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔لیکن دشمنان اسلام ہر وقت اسلام کی مقرر کردہ ان حدود پر شبہات واعتراضات کی بوچھاڑ جاری رکھتے ہیں اور عامۃ الناس کے قلوب واذہان میں اسلام کے خلاف شکوک پیدا کرتے رہتے ہیں۔ زیر نظر مقالہ بعنوان’’ سزائے ارتداد؛ فقہی مذاہب اور معاصر افکار تجزاتی مطالعہ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر آصف جاوید صاحب (فاضل جامعہ لاہورالاسلامیہ،لاہور) کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے ادارہ علوم اسلامیہ ،پنجاب یونیورسٹی میں پیش کر کے ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی ۔مقالہ نگار نے اپنے اس تحقیقی مقالہ کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے&nbs...
حدیث قدسی رسول اللہﷺ سے منسوب اس روایت کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہﷺ روایت کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کرتے ہیں، یعنی اس کی سند اللہ تعالیٰ تک بیان کی جاتی ہے۔ احادیث قدسیہ کو جمع کر کے مختلف عُلماء کرام نے متعدد کتابیں مرتب کی ہیں ، اُن میں سے کچھ تو ایسی ہیں جن میں صرف روایات مذکور ہیں ، اور کچھ ایسی ہیں جن میں روایات اپنے اصل مصادر کے حوالہ جات کے ساتھ مذکور ہیں ۔ زیر نظر مقالہ بعنوان ’’ سماجی آداب سے متعلق احادیث قدسیہ اور ان کی عصری معنویت‘‘وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے مقالہ نگار جناب کامران یوسف خلجی صاحب نے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد میں پیش کر کے ایم فل کی ڈگری حاصل کی یہ تحقیقی مقالہ تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں احادیث قدسیہ کا تعارف و استنادی حیثیت کو بیان کیا گیا ہے، دوسرے باب میں سماجی آداب سے متعلق احادیث قدسیہ کی مستند روایات اور ان کا توضیحی مطالعہ پیش کیا گیا ہے جبکہ تیسرے باب میں عصری معاشرت میں سماجی آداب کی حیثیت اور ان کی عصری معنویت پر گفتگو کی گئی ہے۔ (م۔ا)
سیدنا معاویہ ان جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ہیں ، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے لئے کتابتِ وحی جیسے عظیم الشان فرائض سر انجام دئیے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کا دور حکومت تاریخ اسلام کے درخشاں زمانوں میں سے ہے ۔ جس میں اندرونی طور پر امن اطمینان کا دور دورہ بھی تھا اور ملک سے باہر دشمنوں پر مسلمانوں کی دھاک بھی بیٹھی ہوئی تھی ۔ لیکن افسوس کہ بعض نادان مسلمان بھائیوں نے ان پر اعتراضات اور الزامات کا کچھ اس انداز سے انبار لگا رکھا ہے کہ تاریخ اسلام کا یہ تابناک زمانہ سبائی پروپیگنڈے کے گرد و غبار میں روپوش ہو کر رہ گیاہے ۔ کئی اہل علم اور نامور صاحب قلم حضرات نے سیدنا معاویہ ابی سفیان کے متعلق مستند کتب لکھ کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب ، اسلا م کی خاطر ان کی عظیم قربانیوں کا ذکر کر کے ان کے خلاف کیے جانے والے اعتراضات کی حقیقت کو خوب واضح کیا ہے ۔ زیر نظر مقالہ بعنوان ’’ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ :دینی اور عسکری خدمات‘‘ محترم جناب آفتاب احمد بن نور البصر کا تحقیقی مقالہ ہے جسے 2011ء میں انہوں نے جامعہ کراچی...
طبقات ابن سعد ابو عبد اللہ محمد بن سعد بن منیع ہاشمی کاتب واقدی کی عربی کتاب الطبقات الکبریٰ کا اردو ترجمہ ہے ۔یہ کتاب 207ھ اور 227ھ کے درمیان تقریبا بیس سال کے عرصہ میں لکھی گئی۔یہ کتاب نبی کریم ﷺ اور صحابہ وتابعین کی سیرت اور اسلام کی پہلی دو صدیوں کے مشاہیر کے حالات پر مشتمل ایک بے مثال تالیف ہے اور سیرت نبوی کے نہایت قدیم اور قیمتی مصادر و مآخذ میں شمار ہوتی ہے۔ زیر نظر مقالہ ’’طبقات ابن سعد میں مجروح رُواۃ کا تقابلی جائزہ‘‘ جناب محمدسعید صاحب کا وہ علمی وتحقیقی مقالہ ہے ۔ جسے انہوں نے عبد الولی خان یونیورسٹی آف مردان میں پیش کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔یہ مقالہ ایک مقدمہ اور پانچ مفصل ابواب پر مشتمل ہے۔باب اول امام ابن سعد کے احوال وآثارپر مشتمل ہے۔باب دوم میں مشہور ومعروف ائمہ جرح وتعدیل کا مختصر تعارف ہے۔باب سوم میں ضعیف رواۃ کا تذکر ہ ہے۔باب چہارم ناقابل حجت اور مجہول رواۃ اور باب پنجم منکر اور متروک رواۃکے تذکرے پر مشتمل ہے۔باب پنج...
تاریخ کے جھروکے سے قبطی قوم حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے تعلق رکھتی تھی۔ حضرت اسماعیلؑ کے صاحب زادے نیابت تھے اور ان کا بیٹا نیا بوط تھا جن کے نام پر قبطی قوم کی بنیاد پڑی۔ قبطی نیم خانہ بدوش تاجر تھے لیکن دو تین صدی ق م میں انہوں نے سینائی میں شمالی عرب سے جنوبی شام تک وسیع قلمر و قائم کرلی۔ ان کے شہری مراکز میں ہنجر بصرہ اور قطرہ (سلیج) کو خاصی شہرت حاصل ہے۔ قطرہ ان کا دار الحکومت بھی تھا۔ فینقیوں کے رسم الخط کو آرامیوں نے اپنی سہولت کے مطابق ترمیم و اضافہ کے ساتھ ترقی دی اور جلد ہی اس خط نے قریب کی ریاستوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔ قبطی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انھوں نے دوسری صدی ق م سے پہلے ہی آرامی خط اپنا لیا اور بعد میں اس میں اضافہ کر کے نیا رسم الخط وضع کر لیا جو قبطی خط کہلایا جس کے کئی کتبے اور سکوں پر تحریر دستیاب ہو چکی ہے۔ قبطی خط کے اثرات سینا کے علاقے تک پہنچے اور یہ خط پانچویں صدی عیسوی تک وہاں نظر آتا ہے۔ عربی رسم الخط عربی رسم الخط کے بارے میں محققین خطاطی کا خیال ہے کہ یہ سرزمین عرب اور ارد گرد کی زبانوں خاص طور پر اپنی ہم ما...
اسرائیلیات سے مراد یہود و نصاریٰ کے وہ قصص اور واقعات ہیں جو حقیقی یا ظاہری طور پر اسلام قبول کرلینے والے یہود ونصاریٰ نے بیان کئے۔ان میں کچھ وہ روایات ہیں جن کی صحت کی تائید قرآن و سنت سے ہوتی ہو، یہ روایات صحیح ہونگی اور انہیں قبول کرلیا جائے گا۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:’’ میری باتیں لوگوں کو پہنچاؤ اگرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو اور بنی اسرائیل سے جو سنو اسے بھی بیان کرو۔اس میں کوئی حرج نہیں لیکن جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھے گا تو وہ اپنا ٹھکانہ دوذخ میں تلاش کرے‘‘ اور کچھ وہ اسرائیلی روایات جو قرآن و سنت کی نصوصِ صریحہ کے خلاف ہوں، وہ نہ توصحیح ہونگی اور نہ حجت بنیں گی۔بہت سے مفسرین نے اپنی تفاسیر کو بنی اسرائیل کے قصوں سے بھر دیا ہے ۔ زیر نظر کتاب’’عربی کتب تفسیر پر اسرائیلی روایات کے اثرات تفسیر بیضاوی کے خصوصی مطالعہ کے ساتھ ‘‘ جناب جا وید احسن صاحب کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے 2013ء میں مسل...
سنت سے استدلال واستنباط میں کئی عوارض اور عوامل ایسے پیش آئے جن سے مختلف مذاہبِ فقہیہ کو وجود ملا۔مثال کے طور پر ایک امام یا فقیہ کے ہاں دورانِ استدلال سامنے آنے والی حدیث میں کوئی مخفی سبب ہوتا ہےجو کسی دوسرے کے سامنے نہیں ہوتا۔لہٰذااستدلال میں اختلاف آجاتا ہے۔اسی طرح بسااوقات کسی فقیہ کے سامنے کسی خاص مسئلہ میں حدیث صحیح ہوتی ہے جبکہ اس کے بالمقابل دوسرے کے پاس ضعیف،جس سےاستدلال میں تنوّع آجاتا ہے۔یہ سب مصنوعی عوامل و اسباب ہیں جن پر فقہی مذاہب کی بنیاد پڑی۔ان کا تذکرہ اور ان جیسے دیگر عوامل کا استقصاء کرتے ہوئے علماء نے مستقل تصانیف لکھیں۔اسی طرح کے اسباب جن کی بنا پر فقہاء کے مذاہب مختلف ہوئے ہیں اور ان کے اسالیبِ اجتہاد میں تنوّع پیدا ہوا ہے وہ احادیث میں موجود ’علل‘ہیں اور یہ جن احادیث میں پائی جاتی ہیں ان کو ’معلّل‘کہا جاتا ہے۔لغوی اعتبار سے ’معلّل‘، أعلّ کا اسم مفعول ہے۔ حدیث کے ماہرین کی نزدیک لفظ معلل کا استعمال غیر مشہور معنی میں ہے اور وہ ہے کمزور اور مسترد کیا ہوا۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس...
زیر نظر کتاب در اصل ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی کاوہ مقالہ ہے جو انہوں نے پی ایچ ڈی کے لیے’ علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول‘ کے عنوان سے لکھا۔ ڈاکٹر صاحب کو خدا تعالیٰ کی جانب سے نہ صرف لحن داؤدی عطاء ہوا ہے بلکہ موصوف عقائد، اصول فقہ، اصول حدیث اور اصول تفسیر جیسے وقیع موضوعات کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں کا حقیقی ادراک مقالے کی ورق گردانی سے بخوبی ہو جائے گا اس میں انہوں نے اسناد و متن اور ان سے متعلقہ چند بنیادی اصطلاحات کا تعارف کرواتے ہوئے اسناد و متن کی تحقیق کے اصولوں کا فنی ارتقاء پیش کیاہےاور اسناد و متن کی تحقیق کے وہ اصول بھی بتلائے ہیں جو فن حدیث کے ماہرین نے مرتب فرمائے ہیں۔ ایک مستقل باب میں فقہاء کرام کی طرف سے پیش کر دہ ’متن حدیث ‘ کی تحقیق کے ’درایتی نکات‘ کی مکمل اور جامع وضاحت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں علم فقہ اور علم حدیث کے مابین تعلق اور مناسبت بیان کرتے ہوئے معاصر مفکرین کے ان افکار کو زیر بحث لایا گیا ہے جو محدثین کرام کے مسلمہ اصولوں سے ٹکراتے ہ...