فقہی فروعی اختلافات نئے نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے ہی آرہے ہیں۔یہ اختلافات حضرات صحابہ کرام میں بھی تھے ۔ اسی طرح تابعین عظام اور ائمہ مجتہدین میں بھی تھے ۔ مگر وہ حضرات اس کے باوجود باہم شیر و شکر تھے۔لیکن مقلدین مجتہدین کے دور میں یہ فقہی اختلافات شدت اختیار کرتے چلے گئے اور امت کے اندر انتشار و افتراق نے جنم لینا شروع کر دیا ۔ پھر وہ وقت بھی آگیا کہ یہی فقہی اختلافات باہمی کفر و فسق کی بنیاد بھی بننے لگے۔ حالانکہ اختلافات کا پیدا ہوجانا ایک فطری امر ہے لیکن تشویش ناک صورت حال اس وقت ہوتی ہے جب یہ غیر انسانی رویے اور جنگ و جدال کی شکل اختیار کرجائیں۔ زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس کا سبب تالیف یہ ہے کہ عصر حاضر کے جید عالم دین مولانا ارشاد الحق اثری صاحب نے اپنے معاصر ،دیو بندی مکتبہ فکر کے راسخ عالم دین مولانا سرفراز احمد صفدر صاحب کو ان کی تصنیفات میں وارد شدہ بعض فکری و اجتہادی مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے آئندہ ایڈیشن میں تبدیلی کی درخواست کی۔ جس پر مولاناسرفراز صفدر صاحب نے توجہ فرماکر اصلاح کرلی۔ لیکن ان...
مذہب امامیہ، اہل تشیع کے رد میں تحفہ اثنا عشریہ کے بعد زیر تبصرہ کتاب آیات بینات اپنی نوعیت اور شان کی یہ منفرد تصنیف ہے۔ اس کتاب کا انداز مناظرانہ ہے لیکن اسلوب بیان میں اصلاحی پہلو نمایاں ہے۔ اس کی اہمیت اس لئے بھی دو چند ہو جاتی ہے کہ مصنف پہلے خود شیعہ مذہب سے منسلک رہے اور پھردونوں مذاہب کے اصول و فروع کا عمیق مطالعہ کر کے شیعہ مذہب کو خیرباد کہا اور پھر یہ کتاب تصنیف کی۔ اس کتاب کا انداز بیان نہایت دل کش ہے، اس میں سنجیدگی، وقار اور اثر و تاثیر ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔ ہر بات کی تائید یا تردید میں کئی کئی دلائل پیش کئے گئے ہیں اور وہ سب ہی قوی ہیں۔ یہ کتاب مناظرہ کرنے والوں کے لیے تو ایک قیمتی تحفہ ہے ہی، ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی ایک قابل مطالعہ کتاب ہے۔ ہر شخص کے واسطے ضروری ہے کہ وہ اپنے ایمان کو تازہ اور عقائد کو مضبوط کرنے کے لیے یہ کتاب نہایت توجہ سے پڑھے۔ اور جہاں تک ممکن ہو گمراہی کے گڑھے میں گرے دیگر بھائیوں کی اصلاح کے لیے اس کتاب کو عام کریں۔
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔لیکن افسوس کہ آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفقہ طور پر نہ طے ہو سکیں۔ نہ ان کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی کوئی مناسب پیش رفت ہوسکی۔ چنانچہ ایک ہی جامعہ میں، بلکہ اس جامعہ کے ایک ہی شعبے میں لکھے جانے والے مقالات باہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک مقالے میں حواشی کسی طر...
علم حدیث اسلامی علوم میں شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے ۔آیات کے شانِ نزول اوران کی تفسیر ،احکام القرآن کی تشریح وتبین ،اجمال کی تفصیل ،عموم کی تخصیص ،مبہم کی تبین سب علم حدیث کے ذریعہ معلوم ہوتی ہیں ۔اسی طرح حامل ِقرآن حضر ت محمد ﷺ کی سیرت اور حیات ِطیبہ اخلاق وعادات مبارکہ آپﷺ کے اقوال واعمال علم حدیث کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں ۔علمائے اسلام نے علم حدیث کی حفاظت ،جمع وتدوین، اور تحقیق وتدقیق کے سلسلہ میں قابل قدر کاوشیں سر انجام دی ہیں۔احادیث کی چھان بین کے لیے انہوں نے جرج وتعدیل کے اصول وضع کیے ہیں جن کی بدولت اسماء الرجال کا مستقل فن معرض وجود میں آیا اور کم وبیش چھ صدیوں تک جرح وتعدیل اور فن اسماء الرجال بر پر کتابیں لکھی جاتی رہیں ۔ایک جرمن مستشرق ڈاکٹر سپرنگر کے بقول علم اسماء الرجال کی وساطت سے مسلمانوں نے کم ازکم پانچ لاکھ راویوں کی حالات محفوظ کیے ہیں جن کا مقصد صرف ایک ذاتِ مقدس کے حالات کو معلوم اور محفوظ...
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً...
دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’اسلام علوم میں تحقیق‘‘ وطن عزیز کی معروف شخصیت ڈاکٹر محمد امین کی مرتب شدہ ہے فاضل مرتب نے اس کتاب میں معروف شخصیات(سیدابوالاعلیٰ مودودی،ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی،ڈاکٹر رفیع الدین،ڈاکٹر محمدالغزالی ) وغیرہ کی اسلامی علوم...
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔ معاشرتی علوم اور ادبیات میں علمی نوعیت کی جدید رسمیات پر مبنی کتابیں اور تحقیقی مجلے اس وقت عام ہونے لگے تھے جب رائل ایشیا ٹک سوسائٹی نے خصوصا تاریخ کے موضوعات پر اپنے مطالعات کو جدید اصولوں کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا اور یورپ کے دیگر ملکوں جیسے جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کے ت...
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً...
تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے ۔اس طرح اصول تحقیق ، تحقیق نگاری، فن تحقیق یا تحقیق کا علم جامعات اور علمی اداروں میں بہت زیادہ اہمیت حاصل کرچکا ہےتحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زير نظركتاب’’اصول تحقیق‘‘ جناب پروفیسرڈاکٹر محی الدین ہاشمی ومحبوب الرحمٰن کی مشترک...
دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’علومِ اسلامیہ میں تحقیقی مقالہ نگاری‘‘ کی کاوش ہے ۔یہ کتاب علوم ِاسلامیہ میں تحقیقی مضامین، مقالہ جات اور علمی ریسرچ کرنے والے اسکالرز اور اپنی تدریسی پیشہ وارانہ ترقی کے لیے تحقیقی مقالات شائع کرنےوالے اساتذہ کے مسائل کو زیر بحث لاتی ہے ۔اس میں ان کی ضرورت کے لیے قابل عمل مشورے اور حسبِ حال تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ن...
قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو تاقیامت انسانیت کے لیے ذریعہ ہدایت ہے ۔ اسی پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں سربلند ی او ر آخرت میں نجات کا حصول ممکن ہے لہذا ضروری ہے اس کے معانی ومفاہیم کوسمجھا جائے ،اس کی تفہیم کے لیے درس وتدریس کا اہتمام کیا جائے او راس کی تعلیم کے مراکز قائم کئے جائیں۔ قرٖآن فہمی کے لیے ترجمہ قرآن اساس کی حیثیت رکھتا ہے ۔بہت سارے مکاتب ہائے فکر نے قرآن مجید کی تفاسیر وحواشی لکھے ہیں ۔اس حوالے سے ہرمکتب فکر کا ایک الگ مزاج ہے۔بعض لوگ تفسیر باالرائے پر دھیان دیتے ہیں اور بعضوں نے قرآن مجید میں تحریف کا نیا باب کھولا ہے ۔ کجھ فلاسفہ کے طریق پر تفسیر کرتے ہیں ۔اہل سنت کا مزاج سب سے ہٹ کر ہے ۔اہل سنت نے تفسیر کے لیے قرآن وحدیث اور فہم سلف کو مقدم رکھا ہے ۔یہی طریقہ اسلم اور احکم ہے ۔جو بھی اس رستے سے ہٹ جاتا ہے گمراہی والحاد کا شکار ہوجاتا ہے۔ محترم جناب...
محقق العصر فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے آٹھ رکعت سنت تراویح کے موضوع پر مدلل رسالہ "نور المصابیح" کے جواب میں مشہور دیوبندی عالم امین صفدر اوکاڑوی کی کتاب کے محاکمہ اور جواب الجواب میں یہ کتاب حافظ زبیر علی زئی کا امین صفدر اوکاڑوی صاحب کے نام کھلا خط ہے جسے ان کی زندگی ان کی خدمت میں بھیجا گیا تھا اور جس کا کوئی جواب وہ نہ دے سکے۔ یوں تو موضوع کتاب تراویح کی رکعات ہے۔ لیکن مقدمہ میں فاضل مصنف نے اوکاڑوی صاحب کے اکاذیب و اباطیل، ان کی کتب کے تناقضات، اور ان کے باطل عقائد و افکار کو طشت از بام کیا ہے
دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’تحقیق اور اصول تحقیق‘‘معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر حافظ محمد زبیر(مصنف کتب کثیرہ، اسٹنٹ پروفیسر کامساٹس یوینورسٹی ،لاہور ) کے 2018ء میں الحکمہ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام جامعات کےطلباء کےلیے مقالہ نگاری کے اصول کےعنوان سے ایک خصوصی ورکشاپ میں پیش کئے گ...
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔ معاشرتی علوم اور ادبیات میں علمی نوعیت کی جدید رسمیات پر مبنی کتابیں اور تحقیقی مجلے اس وقت عام ہونے لگے تھے جب رائل ایشیا ٹک سوسائٹی نے خصوصا تاریخ کے موضوعات پر اپنے مطالعات کو جدید اصولوں کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا اور یورپ کے دیگر ملکوں جیسے جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کے ت...
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً...
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔۔لیکن افسوس کہ آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفقہ طور پر نہ طے ہو سکیں۔ نہ ان کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی کوئی مناسب پیش رفت ہوسکی۔ چنانچہ ایک ہی جامعہ میں، بلکہ اس جامعہ کے ایک ہی شعبے میں لکھے جانے والے مقالات باہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک مقالے میں حواشی کسی ط...
علم حدیث اسلامی علوم میں شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے ۔آیات کے شانِ نزول اوران کی تفسیر ،احکام القرآن کی تشریح وتبین ،اجمال کی تفصیل ،عموم کی تخصیص ،مبہم کی تبین سب علم حدیث کے ذریعہ معلوم ہوتی ہیں ۔اسی طرح حامل ِقرآن حضر ت محمد ﷺ کی سیرت اور حیات ِطیبہ اخلاق وعادات مبارکہ آپﷺ کے اقوال واعمال علم حدیث کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں ۔علمائے اسلام نے علم حدیث کی حفاظت ،جمع وتدوین، اور تحقیق وتدقیق کے سلسلہ میں قابل قدر کاوشیں سر انجام دی ہیں۔احادیث کی چھان بین کے لیے انہوں نے جرج وتعدیل کے اصول وضع کیے ہیں جن کی بدولت اسماء الرجال کا مستقل فن معرض وجود میں آیا اور کم وبیش چھ صدیوں تک جرح وتعدیل اور فن اسماء الرجال بر پر کتابیں لکھی جاتی رہیں ۔ایک جرمن مستشرق ڈاکٹر سپرنگر کے بقول علم اسماء الرجال کی وساطت سے مسلمانوں نے کم ازکم پانچ لاکھ راویوں کی حالات محفوظ کیے ہیں جن کا مقصد صرف ایک ذاتِ مقدس کے حالات کو معلوم اور محفوظ...
اشاریہ سازی کی ابتداء مذہبی کتابوں کے لیے مرتب اشاریوں سے ہوئی۔ یہ اشاریے جو سولہویں، سترہویں صدیوں میں مرتب ہوئے الفاظ ، نام یا عبارت کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتے تھے ، اشاریہ متلاشی معلومات کے لیے درکار معلومات کی نشاندہی کا وسیلہ ہے برصغیر پاک وہند میں اردو زبان میں اشاریہ سازی کے کام میں بڑی ترقی ہوئی ہے۔لوازمات تحقیق میں اشاریہ سازی ایک ایسا لوازمہ ہے جس کے بغیر نئی تحقیق سے وہ مقصد حاصل ہوتا جس مقصد کے لیے بنیادی تحقیق سوال اٹھایا جاتا ہے اور تحقیق کسی بھی نوعیت کی ہو اشاریہ جات اور کتابیات علمی تحقیق کےبنیادی معاون کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی مدد سے مطلوبہ مضامین یا کتب تک پہنچنا آسان ہوتا ہےاور قیمتی وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔ زیر نظر کتاب’’تحقیقات حدیث وسیرت‘‘ ڈاکٹر عبد الغفار(چیئرمین شعبہ علوم اسلامیہ یونیورسٹی آف اوکاڑہ) کی کاوش ہے ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں اشاریہ سازی کے ساتھ ساتھ موضوعات پر کام کرنے کےلیے موضوع تحقیق کا...
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔۔لیکن افسوس کہ آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفقہ طور پر نہ طے ہو سکیں۔ نہ ان کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی کوئی مناسب پیش رفت ہوسکی۔ چنانچہ ایک ہی جامعہ میں، بلکہ اس جامعہ کے ایک ہی شعبے میں لکھے جانے والے مقالات باہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک مقالے میں حواشی کسی ط...
دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیرنظر مختصر کتاب’’تفہیم تحقیق‘‘ڈاکٹر سیعد الرحمن بن نورحبیب(اسسٹنٹ پروفیسر عبد الولی خان یونیورسٹی ،مردان) کی مرتب شد ہے۔فاضل مرتب نے اس کتاب میں اسلامیات،ا دبیات ،لسانیات اور سماجیات کے مختلف اہل علم ودانش سے تحقیق کی منتخب تعریفات ، متنوع تعبیرات، خصوصیات اور اس کی ضروریات واہمیت اور افادیت ومعنویت کےحوال...
کانٹ اور اس کی مشہور و معروف زیر مطالعہ کتاب ’تنقید عقل محض‘ کو جو اہمیت جدید فلسفے میں حاصل ہے اسے اہل نظر بخوبی جانتے ہیں۔ اس میں فلسفے کے سب اہم مسئلہ یعنی نظریہ علم کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ لیکن یہ کتاب جس قدر اہم ہے اسی قدر مشکل ہے اس لیے کہ ایک تو موضوع کافی ادق ہے دوسرا کانٹ کا اسلوب بیان پیچیدگی سے خالی نہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں فلسفے کا ذوق رکھنے والے عموماً جرمن زبان سے واقف نہیں ہیں اس لیے ان کی دسترس صرف کانٹ کی تصانیف کے انگریزی ترجموں تک ہےجبکہ ’تنقید عقل محض‘ کے جتنے انگریزی تراجم ہوئے ہیں وہ اصل کتاب سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں۔ اس مشکل کو محترم عابد حسین نے بہت خوش اسلوبی سے حل کیا ہے اور اس کتاب کا ایسا اردو ترجمہ کیا ہے کہ بہت سے ہندوستانیوں کو اس کتاب کے مطالب و معانی میں سمجھنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ انھوں نے کتاب کے مضمون کو صحت، سلاست اور وضاحت کے ساتھ ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ محترم مترجم نے ترجمہ کے لیے صرف دوسرے ایڈیشن کو سامنے رکھا ہے جو کانٹ نے اصلاح و ترمیم کے بعد شائع کیا تھا اور جو متفقہ طور پر مستند مانا جاتا ہ...
اہل اسلام میں یہ بات روز اول ہی سے متفق علیہ رہی ہے کہ شرعی علم کے حصول کے قابل اعتماد ذرائع صرف دو ہیں:ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا اللہ کے آخری رسول ﷺ کی حدیث وسنت ۔امت میں جب بھی کوئی گمراہی رونما ہوتی ہے اس کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں ماخذوں میں سے کسی ایک ماخذ کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگوں نے ’حسبنا کتاب اللہ ‘کے قول حق کو اس گمراہ کن تصور کے ساتھ پیش کیا کہ کتاب اللہ کے بعد سنت رسول ﷺ کی ضرورت ہی نہیں رہی۔اس طرح بعض افراد رسول مقبول ﷺ کے بارے میں یہ تصور پیش کرتے رہے ہیں کہ ان کا کام محض قاصد کا تھا۔معاذ اللہ فتنہ انکار حدیث کی تاریخ کے سرسری مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث نبوی کی حجیت و اہمیت کے منکرین دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ جو کھلم کھلا حدیث کا انکار کرتے ہیں اور اسے کسی بھی حیثیت سے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صراحتاً حدیث کے منکرین ،بلکہ زبانی طور پر اس کو قابل اعتماد تسلیم کرتے ہیں لیکن انہوں نے تاویل و تشریح کے ایس...
یہ حقیقت کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ ہمارا ملک خالص کتاب وسنت پر مبنی مکمل اسلام کے تعارفی نا م کلمہ طیبہ کے مقدس نعرہ پر معرض و جود میں آیا تھا۔جس کا ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ 1956ء، 1963ء اور پھر 1973ء کے ہر آئین میں اس ملک کانام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان لکھا جاتا رہاہے اور سر فہرست یہ تصریح بھی ہے کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا اور کتاب و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایاجائے گا۔ 1973ء کے منظور شدہ آئین وہ آئین ہےجس پربریلوی مکتبِ فکر کے سیاسی لیڈرشاہ احمد نورانی، مولوی عبدالمصطفیٰ الازہری وغیرہما کے بھی دستخط ثبت ہیں۔ اسی طرح جب صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق نے اسلامی نظام کی طرف پیش رفت کی ایمان پرور نوید سنائی تھی۔ جس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب اس مملکت میں نظریاتی مقاصد ہی نہیں بلکہ در پیش سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، اور تمدنی مسائل کے حل کی راہیں بھی کھل جائیں گی۔ مگر افسوس ۔۔۔کہ احناف کے ایک گروہ نے تمام مذکورہ حقائق اور ملکی تقاضوں سے آنکھیں موندکر کتاب وسنت کو نظرانداز کرتے ہوئے فقہ حنفی کے نفاذ کا نعرہ بلند کیااور ملتان کے قاسم باغ سے یہ مطالبہ کر دی...
مولانا مودودی رحمہ اللہ کے متعلق ابو الوفاء مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کا موقف تھا کہ مودودی صاحب سر سید احمد خان یا مولوی عبد اللہ چکڑالوی کی طرح حدیث نبوی کے منکر نہیں البتہ حدیث کے متعلق تحقیق کرتے ہوئے محدثین کا مسلک اور طریقہ تنقید چھوڑ کر دوسرا طریق اختیار کرتے ہیں اس کے متعلق مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کا تحریری سلسلہ اخبار اہل حدیث امرتسر میں ستمبر 1945ء تا نومبر 1945ء شائع ہوا جسے بعد ازاں فروری 1946ء میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے پہلی مرتبہ ’’ خطاب بہ مودودی‘‘کے نام سے کتابی صورت شائع کیا ۔ زیر نظر ’’ حدیث نبوی ﷺ پر شکوک و شبہات ‘‘اسی کا جدید ایڈیشن ہے ۔ (م ۔ ا)
سید ابو الاعلیٰ مودودی (1903ء – 1979ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکات کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالا ۔ تاہم ان کی عبارات میں انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام ،صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین پر تنقید کی گئی ہے جس کا انہیں یا کسی اور کو اختیار حاصل نہیں؛ لہٰذا اکابر نے ان کے جادہٴ حق سے ہٹے ہوئے ہونے کا حکم لگایا ہے۔مولانا مودودی ایسے افکار ونظریات کی وجہ سے کئی اہل علم اور مفتیان عظام نے ان پر نقد کیا ہے جیسا کہ ’’ دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن‘‘کے مفتی احمد الرحمٰن اپنے ایک فتوی میں لکھتے ہیں ’’ مولانا مودودی پر علماء نے کفر کا فتویٰ نہیں لگایا، البتہ ان کی تحریر میں بے شمار ایسی گم راہ کن باتیں پائی جاتی ہیں جو سراسر اسلام کے خلاف ہیں، اور علماءِ فن نے اس کی گرفت کی ہے، اور عل...