انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کے تحت وہ دانستہ یا نادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے ۔ بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے ۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تویہ غلطی اس کے خالق ومالک کو اس سے ناراض کردے گی۔ اس سےاپنے معبود ومالک کی ناراضگی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ فوری طور پر اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہوکر گڑگڑاتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتےہوئے توبہ کرتا ہے کہ اے مالک الملک اس مرتبہ معاف کردے آئندہ میں ایسا کبھی نہ کروں گا۔گناہ کے بعد ایسے احساسات اور پھر توبہ کے لیے پشیمانی وندامت پر مبنی یہ عمل ایک خوش نصیب انسان کےحصہ میں آتا ہے۔ جب کہ اس جہاںمیں کئی ایسے بدنصیب سیاہ کار بھی ہیں جن کوزندگی بھر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کا مالک ان سے ناراض ہوچکا ہے اور وہ ہیں کہ دن رات گناہ کرتے چلےجاتےہیں اور رات کوگہری نیند سوتے ہیں ی...
قرآن مجید میں ہے کہ اللہ کریم محتاج بندے کو ایسی جگہ سے رزق عطاکرتے ہیں جہاں سے اس کاگمان بھی نہیں ہوتا۔ بالکل ایسے ہی اللہ کریم اپنے موحد مگر گناہ گار بندوں کوبخشنے کےسامان وذرائع ایسے مقامات سے پیدا کرتے ہیں کہ بندے کا ذہن کبھی اس طرف گیا ہی نہیں ہوتا۔ بندہ گناہ کرتا ہے ،نافرمانیاں کرتا ہے مگر اللہ ارحم الراحمین اس سے اتنا پیارکرتا ہے کہ کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر اس کو معاف کرتا رہتا ہے۔ اس کے گناہ معاف کر کے درجات بلند کرتا رہتا ہے ۔اس کودنیا میں بھی کامیابیاں عطا کرتا ہے اور آخرت میں اپنی رضا وخوشنودی کاسرٹیفکیٹ عطا کر کے جنتوں میں داخل کر دیتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ اللہ تعالیٰ کی بخشش کے انداز ‘‘علامہ ابن ابی الدنیا کی عربی کتاب ’’المرض والکفارات‘‘ کا سلیس ورواں اردو ترجمہ ہے ۔مترجم کتاب جناب حافظ فیض اللہ ناصر ﷾(فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور) نے ترجمہ کےعلاوہ اصل کتاب میں مزید اضافہ جات ، مقدمہ اور پھر مزید مفید وضاحتیں لکھ کر کتاب کو چار چاند لگا دیے ہیں۔موصوف اس کتاب کےعلاوہ کی کئی کتب کےمترجم...
بند ہ مومن خطاکار تو ہے ہی ،لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق بہترین خطا کار وہ ہوتا ہے جو اپنی خطاؤں کو اللہ تعالیٰ سے معاف کروانے کے لیے ہر دم فکر مند رہتاہے اور اس کے لیے عملی طور پر جدوجہد بھی کرتا ہے تاکہ اس کے گناہ مٹ جائیں او راللہ اس پر راضی ہوجائے ۔مومن جب اپنی خطاؤں کی طرف دیکھتا ہے او ردوسری طرف اسے اللہ کے عذاب کا ڈر بھی ہوتاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے او ر ان نیک اعمال کو بجا لاتا ہے جو اس کے گناہوں کاکفارہ بن جاتے ہیں ،کیونکہ نیک اعمال ہی وہ چیز ہیں جنہیں اخلاص ومحبت کے ساتھ سرانجام دیا جائے تواللہ تعالیٰ ان کے ذریعے خطا کار انسان کی خطاؤں کو معاف فرمادیتا ہے فرمان الٰہی ہے ( ان الحسنات یذهبن السیات) (هود:114)زيرنظر کتاب ’’بخشش کی راہیں ‘‘ اسی موضو ع کے متعلق آیات واحادیث کا گراں قدر مجموعہ ہے، جس میں مسلم م...
انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کے تحت وہ دانستہ یا نادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے ۔ بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے ۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تویہ غلطی اس کے خالق ومالک کو اس سے ناراض کردے گی۔ اس سےاپنے معبود ومالک کی ناراضگی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ فوری طور پر اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہوکر گڑگڑاتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتےہوئے توبہ کرتا ہے کہ اے مالک الملک اس مرتبہ معاف کردے آئندہ میں ایسا کبھی نہ کروں گا۔گناہ کے بعد ایسے احساسات اور پھر توبہ کے لیے پشیمانی وندامت پر مبنی یہ عمل ایک خوش نصیب انسان کےحصہ میں آتا ہے۔ جب کہ اس جہاںمیں کئی ایسے بدنصیب سیاہ کار بھی ہیں جن کوزندگی بھر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کا مالک ان سے ناراض ہوچکا ہے اور وہ ہیں کہ دن رات گناہ کرتے چلےجاتےہیں اور رات کوگہری نیند سوتے ہیں یا...
تقویٰ کا مطلب ہے پیرہیز گاری ، نیکی اور ہدایت کی راہ۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بے تاہانہ تڑپ ہوتی ہے۔ ۔ اللہ تعالیٰ کو تقوی پسند ہے۔ ذات پات یا قومیت وغیرہ کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے قابل عزت و احترام وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ ۔ تقویٰ دینداری اور راہ ہدایت پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بزرگانِ دین کا اولین وصف تقویٰ رہا ہے۔ قرآن پاک متقی لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے۔افعال و اقوال کے عواقب پر غوروخوض کرنا تقویٰ کو فروغ دیتا ہے۔اور روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ روزے، خدا ترسی کی طاقت انسان کے اندر محکم کر دیتے ہیں۔ جس کے باعث انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آتا اور یہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان اللہ کے حکم کی وجہ سے حرام ناجائزاور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی کبھی...
اللہ تعالیٰ کو وہ بندے بے حد پسند ہیں جو گناہ کرنے کے بعد خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی جبین نیاز کو جھکا دیتے ہیں۔ گناہ ہو جانا ایک فطری عمل ہے لیکن ایک مسلمان کا یہ وطیرہ ہونا چاہئے کہ وہ گناہ کے فوراً بعد اللہ سے رجوع کرے۔ اور گناہوں پر اکڑفوں کا مظاہرہ نہ کرے۔ ’توبہ مگر کیسے؟‘ میں بڑے عمدہ سلیقے سے کتاب وسنت کی نصوص کی روشنی میں توبہ کی تعریف، فضیلت و اہمیت، شرائط، فوائد، گناہوں سے بچاؤ کی تدابیر اور گناہوں کے نقصانات، تائبین کے درجات اور ان کے سچے واقعات اور چند ایک اذکار مسنونہ جمع کر دئیے گئے ہیں۔ (ع۔م)
یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان خطا کاپتلا ہے‘ کوئی بھی پارسائی اور پاکدامنی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔تمام اولاد آدم(ما سوائے حضرات انبیاء کرام) سے گناہوں‘ خطاؤں اور غلطیوں کا سر زد ہونا ممکن ہے لیکن سب سے بہترین انسان وہ ہے جو غلطی کے ندامت کا اظہار کرتا ہے‘ اپنے خالق حقیقی کے در پر آکر دو چار آنسو گراتا ہے اور اپنے مالک کے سامنے گڑ گڑاتےہوئے صدق دل سے توبہ واستغفار کرتا ہے۔ ایسا انسان سب سے بہترین ہے جو غلطی کے بعد صدق دل سے توبہ کرتا ہے۔دنیا میں بسنے والے خاکی حضرات کو منانا تو مشکل ہو سکتا ہے مگر اللہ رب العزت کو راضی کرنا مشکل نہیں ہے۔اور خود اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر توبہ واستغفار کرنے کاحکم دیا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب’’توبہ واستغفار کے فوائد‘‘ اسی موضوع کو اُجاگر کرنے کےلیے تصنیف کیا گیا ہے۔ اس میں توبہ و استغفار کی اہمیت اور فوائد کو واضح کرنے کے لیے قرآن وحدیث کی نصوص اور ائمہ ومفسرین کے اقوال‘ گلدستہ کی صورت میں قارئین کی خدمت میں پیش کیے گئے ہیں اور اس کتاب کو مصنف نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ تصنیف کیا...
جب سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو وجود بخشا ہے تب ہی سے اس سے غلطیاں سرزد ہونے کا بھی آغاز ہو گیا۔ مگر یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر خاص رحمت ہے کہ اس نے غلطی اور گناہ کرنے والےکو فوراً اس کی سزا نہیں دی بلکہ گناہ کے بعد توبہ کرلینے اور معافی مانگ لینے والے کے لیے اس کی غلطیوں کو نیکیوں میں بدلنے کا وعدہ کیا ہے۔ زیر مطالعہ کتاب ایسے لوگوں، جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہمارے گناہ اس قدر زیادہ ہیں کہ اب واپسی کی گنجائش باقی نہیں رہی اور وہ اسی بدگمانی میں گناہ پر گناہ کیے جا رہے ہیں کہ اب ذلت ہمارا مقدر بن چکی ہے، توبہ کرنے اور متقیوں کو تقویٰ پر استقامت کے لیے سیدھی راہ دکھانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ کتاب میں فاضل مؤلف ابو شرحبیل شفیق الرحمٰن نے پہلے گناہ، اس کی اقسام اور اس کے انسانی نفس اور کائنات میں واقع ہونے والے برے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد توبہ و استغفار کے فوائد، اس کے شروط و احکام اور توبہ و استغفار کے درمیان فرق بیان کیا ہے۔ پھر اس کے بعد تقویٰ، اس کی اہمیت اور احکام و مسائل ذکر کیے ہیں۔ اس کے بعد نیک اعمال کی حفاظت کے بارے میں کچھ نگارشات بیان کی گئی ہیں۔ (ع۔م)
غلطی سرزد ہونے پر ایک مؤمن پورے اخلاص کےساتھ توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہوتا ہے یہ چیز جہاں اسے تکلیف و یاسیت سے بچاتی ہے وہیں اس کے مذہبی جوش و جذبے اور عبادت میں مزید اضافہ کردیتی ہے۔ دوسری طرف کفار کا تاسف انتہائی تکلیف دہ اور مستقل نوعیت کا ہوتا ہے کیونکہ وہ گناہ سرزد ہونے پر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہیں کرتے۔ زیر مطالعہ کتاب میں ہارون یحییٰ اسی موضوع کو زیر بحث لائے ہیں۔محترم ہارون یحییٰ کا تعلق ترکی سے ہے۔ آپ متعدد موضوعات پر بیسیوں کتب کے مصنف ہیں۔ آپ کے مؤثر اور دلنشین انداز بیان نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کو بھی کافی حد تک متاثر کیا ہے۔ کتاب میں جہاں قیامت کے دن احساس پشیمانی اور دوزخ میں پشیمانی جیسے ابواب موجود ہیں وہیں ایک باب ڈارون کے نظریہ ارتقا کی شکست وہزیمت پر بھی مشتمل ہے۔ جس کی وجہ مصنف نے یہ بیان کی ہے کہ اس دنیا میں جتنے روحانیت کش فلسفوں نے جنم لیاہے اس کی بنیاد یہی نظریہ ہے۔ (عین۔ م)
اللہ تعالیٰ نے توبہ واستغفار کا دروازہ کھلا رکھا ہے جب تک انسان کاآخری وقت نہیں آجاتا وہ توبہ کرسکتا ہے اوراس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے لیکن جب آخری لمحات آجائیں موت سامنے نظر آنے لگے جب انسان کو یقین ہوجائے کہ بس اب وقت آگیا ہے اس وقت اگر وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے تو اس کی اس توبہ کا کوئی اعتبار نہیں یا اس وقت کی توبہ قابل قبول نہیں۔انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کے تحت وہ دانستہ یا نادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے ۔ بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے ۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تویہ غلطی اس کے خالق ومالک کو اس سے ناراض کردے گی۔ اس سےاپنے معبود ومالک کی ناراضگی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ فوری طور پر اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہوکر گڑگڑاتا ہے اور استغفار کرتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتےہوئے توبہ کرتا ہے کہ اے مالک الملک اس مرتبہ معاف کردے آئندہ میں ایسا کبھی نہ کروں گا۔گناہ کے بعد ایسے احساسات اور پھر توبہ کے لیے پشیمانی وندامت پر مبنی یہ عمل ایک خوش نصیب انسان کےحصہ م...
دین اسلام تقوی و طہارت اختیار کرنے ، گناہوں کی آلودگی سے بچاؤ اختیار کرنے کی پرزور تاکید کرتا ہے،کیونکہ گناہوں کی آلائش نفس کو پراگندۃ کر دیتی ہےاور گناہوں کاارتکاب اور تسلسل انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کر کے شیطان کا کارندہ بنا دیتا ہے اور جوںجوں گناہوں میں اضافہ ہوتاہے انسان معیار انسانیت سے گر کر جانوروں اور چوپایوں کی صف میں شامل ہوکر خود کو ذلیل و بے توقیر کر لیتاہے- محرمات کی حرمت،ان کے نقصانات کتاب وسنت میں متعدد مقامات پر بیان ہوئے ہیں، تاکہ اہل اسلام گناہوں سے بچ کر خود کو اللہ تعالیٰ کا مقرب بنالیں- زیر تبصرہ کتاب بھی اصلاح احوال کی نیت سے مرتب کی گئی ہے،جس میں گناہ کاتعارف،وعیداور انسانی زندگی پر اس کے اثرات کی وضاحت کی گئی ہے نیزگناہوں سے تائب ہونے کی فضیلت اور توبہ کے ثمرات پر بھی تفصیلی بحث موجود ہے ،یہ کتاب اصلاح نفس کے حوالہ سے ایک شاندار کتاب ہے،جس کا مطالعہ گناہوں سے نفرت اور ترک محرمات کا باعث ہوگا-(ف۔ر)
دین اسلام تقوی و طہارت اختیار کرنے ، گناہوں کی آلودگی سے بچاؤ اختیار کرنے کی پرزور تاکید کرتا ہے،کیونکہ گناہوں کی آلائش نفس کو پراگندۃ کر دیتی ہےاور گناہوں کاارتکاب اور تسلسل انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کر کے شیطان کا کارندہ بنا دیتا ہے اور جوںجوں گناہوں میں اضافہ ہوتاہے انسان معیار انسانیت سے گر کر جانوروں اور چوپایوں کی صف میں شامل ہوکر خود کو ذلیل و بے توقیر کر لیتاہے- محرمات کی حرمت،ان کے نقصانات کتاب وسنت میں متعدد مقامات پر بیان ہوئے ہیں، تاکہ اہل اسلام گناہوں سے بچ کر خود کو اللہ تعالیٰ کا مقرب بنالیں- زیر تبصرہ کتاب بھی اصلاح احوال کی نیت سے مرتب کی گئی ہے،جس میں گناہ کاتعارف،وعیداور انسانی زندگی پر اس کے اثرات کی وضاحت کی گئی ہے نیزگناہوں سے تائب ہونے کی فضیلت اور توبہ کے ثمرات پر بھی تفصیلی بحث موجود ہے ،یہ کتاب اصلاح نفس کے حوالہ سے ایک شاندار کتاب ہے،جس کا مطالعہ گناہوں سے نفرت اور ترک محرمات کا باعث ہوگا-(ف۔ر)
انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کے تحت وہ دانستہ یا نادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے ۔ بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے ۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تویہ غلطی اس کے خالق ومالک کو اس سے ناراض کردے گی۔ اس سےاپنے معبود ومالک کی ناراضگی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ فوری طور پر اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہوکر گڑگڑاتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتےہوئے توبہ کرتا ہے کہ اے مالک الملک اس مرتبہ معاف کردے آئندہ میں ایسا کبھی نہ کروں گا۔گناہ کے بعد ایسے احساسات اور پھر توبہ کے لیے پشیمانی وندامت پر مبنی یہ عمل ایک خوش نصیب انسان کےحصہ میں آتا ہے۔ جب کہ اس جہاںمیں کئی ایسے بدنصیب سیاہ کار بھی ہیں جن کوزندگی بھر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کا مالک ان سے ناراض ہوچکا ہے اور وہ ہیں کہ دن رات گناہ کرتے چلےجاتےہیں اور رات کوگہری نیند سوتے ہیں یا...