علم حدیث اسلامی علوم میں شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے ۔آیات کے شانِ نزول اوران کی تفسیر ،احکام القرآن کی تشریح وتبین ،اجمال کی تفصیل ،عموم کی تخصیص ،مبہم کی تبین سب علم حدیث کے ذریعہ معلوم ہوتی ہیں ۔اسی طرح حامل ِقرآن حضر ت محمد ﷺ کی سیرت اور حیات ِطیبہ اخلاق وعادات مبارکہ آپﷺ کے اقوال واعمال علم حدیث کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں ۔علمائے اسلام نے علم حدیث کی حفاظت ،جمع وتدوین، اور تحقیق وتدقیق کے سلسلہ میں قابل قدر کاوشیں سر انجام دی ہیں۔احادیث کی چھان بین کے لیے انہوں نے جرج وتعدیل کے اصول وضع کیے ہیں جن کی بدولت اسماء الرجال کا مستقل فن معرض وجود میں آیا اور کم وبیش چھ صدیوں تک جرح وتعدیل اور فن اسماء الرجال بر پر کتابیں لکھی جاتی رہیں ۔ایک جرمن مستشرق ڈاکٹر سپرنگر کے بقول علم اسماء الرجال کی وساطت سے مسلمانوں نے کم ازکم پانچ لاکھ راویوں کی حالات محفوظ کیے ہیں جن کا مقصد صرف ایک ذاتِ مقدس کے حالات کو معلوم اور محفوظ...
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً...
دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’اسلام علوم میں تحقیق‘‘ وطن عزیز کی معروف شخصیت ڈاکٹر محمد امین کی مرتب شدہ ہے فاضل مرتب نے اس کتاب میں معروف شخصیات(سیدابوالاعلیٰ مودودی،ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی،ڈاکٹر رفیع الدین،ڈاکٹر محمدالغزالی ) وغیرہ کی اسلامی علوم...
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔ معاشرتی علوم اور ادبیات میں علمی نوعیت کی جدید رسمیات پر مبنی کتابیں اور تحقیقی مجلے اس وقت عام ہونے لگے تھے جب رائل ایشیا ٹک سوسائٹی نے خصوصا تاریخ کے موضوعات پر اپنے مطالعات کو جدید اصولوں کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا اور یورپ کے دیگر ملکوں جیسے جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کے ت...
تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے ۔اس طرح اصول تحقیق ، تحقیق نگاری، فن تحقیق یا تحقیق کا علم جامعات اور علمی اداروں میں بہت زیادہ اہمیت حاصل کرچکا ہےتحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زير نظركتاب’’اصول تحقیق‘‘ جناب پروفیسرڈاکٹر محی الدین ہاشمی ومحبوب الرحمٰن کی مشترکہ...
دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’علومِ اسلامیہ میں تحقیقی مقالہ نگاری‘‘ کی کاوش ہے ۔یہ کتاب علوم ِاسلامیہ میں تحقیقی مضامین، مقالہ جات اور علمی ریسرچ کرنے والے اسکالرز اور اپنی تدریسی پیشہ وارانہ ترقی کے لیے تحقیقی مقالات شائع کرنےوالے اساتذہ کے مسائل کو زیر بحث لاتی ہے ۔اس میں ان کی ضرورت کے لیے قابل عمل مشورے اور حسبِ حال تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ن...
قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو تاقیامت انسانیت کے لیے ذریعہ ہدایت ہے ۔ اسی پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں سربلند ی او ر آخرت میں نجات کا حصول ممکن ہے لہذا ضروری ہے اس کے معانی ومفاہیم کوسمجھا جائے ،اس کی تفہیم کے لیے درس وتدریس کا اہتمام کیا جائے او راس کی تعلیم کے مراکز قائم کئے جائیں۔ قرٖآن فہمی کے لیے ترجمہ قرآن اساس کی حیثیت رکھتا ہے ۔بہت سارے مکاتب ہائے فکر نے قرآن مجید کی تفاسیر وحواشی لکھے ہیں ۔اس حوالے سے ہرمکتب فکر کا ایک الگ مزاج ہے۔بعض لوگ تفسیر باالرائے پر دھیان دیتے ہیں اور بعضوں نے قرآن مجید میں تحریف کا نیا باب کھولا ہے ۔ کجھ فلاسفہ کے طریق پر تفسیر کرتے ہیں ۔اہل سنت کا مزاج سب سے ہٹ کر ہے ۔اہل سنت نے تفسیر کے لیے قرآن وحدیث اور فہم سلف کو مقدم رکھا ہے ۔یہی طریقہ اسلم اور احکم ہے ۔جو بھی اس رستے سے ہٹ جاتا ہے گمراہی والحاد کا شکار ہوجاتا ہے۔ محترم جناب...
محقق العصر فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے آٹھ رکعت سنت تراویح کے موضوع پر مدلل رسالہ "نور المصابیح" کے جواب میں مشہور دیوبندی عالم امین صفدر اوکاڑوی کی کتاب کے محاکمہ اور جواب الجواب میں یہ کتاب حافظ زبیر علی زئی کا امین صفدر اوکاڑوی صاحب کے نام کھلا خط ہے جسے ان کی زندگی ان کی خدمت میں بھیجا گیا تھا اور جس کا کوئی جواب وہ نہ دے سکے۔ یوں تو موضوع کتاب تراویح کی رکعات ہے۔ لیکن مقدمہ میں فاضل مصنف نے اوکاڑوی صاحب کے اکاذیب و اباطیل، ان کی کتب کے تناقضات، اور ان کے باطل عقائد و افکار کو طشت از بام کیا ہے
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔ معاشرتی علوم اور ادبیات میں علمی نوعیت کی جدید رسمیات پر مبنی کتابیں اور تحقیقی مجلے اس وقت عام ہونے لگے تھے جب رائل ایشیا ٹک سوسائٹی نے خصوصا تاریخ کے موضوعات پر اپنے مطالعات کو جدید اصولوں کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا اور یورپ کے دیگر ملکوں جیسے جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کے ت...
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً...
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔۔لیکن افسوس کہ آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفقہ طور پر نہ طے ہو سکیں۔ نہ ان کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی کوئی مناسب پیش رفت ہوسکی۔ چنانچہ ایک ہی جامعہ میں، بلکہ اس جامعہ کے ایک ہی شعبے میں لکھے جانے والے مقالات باہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک مقالے میں حواشی کسی ط...
علم حدیث اسلامی علوم میں شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے ۔آیات کے شانِ نزول اوران کی تفسیر ،احکام القرآن کی تشریح وتبین ،اجمال کی تفصیل ،عموم کی تخصیص ،مبہم کی تبین سب علم حدیث کے ذریعہ معلوم ہوتی ہیں ۔اسی طرح حامل ِقرآن حضر ت محمد ﷺ کی سیرت اور حیات ِطیبہ اخلاق وعادات مبارکہ آپﷺ کے اقوال واعمال علم حدیث کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں ۔علمائے اسلام نے علم حدیث کی حفاظت ،جمع وتدوین، اور تحقیق وتدقیق کے سلسلہ میں قابل قدر کاوشیں سر انجام دی ہیں۔احادیث کی چھان بین کے لیے انہوں نے جرج وتعدیل کے اصول وضع کیے ہیں جن کی بدولت اسماء الرجال کا مستقل فن معرض وجود میں آیا اور کم وبیش چھ صدیوں تک جرح وتعدیل اور فن اسماء الرجال بر پر کتابیں لکھی جاتی رہیں ۔ایک جرمن مستشرق ڈاکٹر سپرنگر کے بقول علم اسماء الرجال کی وساطت سے مسلمانوں نے کم ازکم پانچ لاکھ راویوں کی حالات محفوظ کیے ہیں جن کا مقصد صرف ایک ذاتِ مقدس کے حالات کو معلوم اور محفوظ...
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔۔لیکن افسوس کہ آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفقہ طور پر نہ طے ہو سکیں۔ نہ ان کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی کوئی مناسب پیش رفت ہوسکی۔ چنانچہ ایک ہی جامعہ میں، بلکہ اس جامعہ کے ایک ہی شعبے میں لکھے جانے والے مقالات باہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک مقالے میں حواشی کسی ط...
کانٹ اور اس کی مشہور و معروف زیر مطالعہ کتاب ’تنقید عقل محض‘ کو جو اہمیت جدید فلسفے میں حاصل ہے اسے اہل نظر بخوبی جانتے ہیں۔ اس میں فلسفے کے سب اہم مسئلہ یعنی نظریہ علم کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ لیکن یہ کتاب جس قدر اہم ہے اسی قدر مشکل ہے اس لیے کہ ایک تو موضوع کافی ادق ہے دوسرا کانٹ کا اسلوب بیان پیچیدگی سے خالی نہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں فلسفے کا ذوق رکھنے والے عموماً جرمن زبان سے واقف نہیں ہیں اس لیے ان کی دسترس صرف کانٹ کی تصانیف کے انگریزی ترجموں تک ہےجبکہ ’تنقید عقل محض‘ کے جتنے انگریزی تراجم ہوئے ہیں وہ اصل کتاب سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں۔ اس مشکل کو محترم عابد حسین نے بہت خوش اسلوبی سے حل کیا ہے اور اس کتاب کا ایسا اردو ترجمہ کیا ہے کہ بہت سے ہندوستانیوں کو اس کتاب کے مطالب و معانی میں سمجھنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ انھوں نے کتاب کے مضمون کو صحت، سلاست اور وضاحت کے ساتھ ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ محترم مترجم نے ترجمہ کے لیے صرف دوسرے ایڈیشن کو سامنے رکھا ہے جو کانٹ نے اصلاح و ترمیم کے بعد شائع کیا تھا اور جو متفقہ طور پر مستند مانا جاتا ہ...
اہل اسلام میں یہ بات روز اول ہی سے متفق علیہ رہی ہے کہ شرعی علم کے حصول کے قابل اعتماد ذرائع صرف دو ہیں:ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا اللہ کے آخری رسول ﷺ کی حدیث وسنت ۔امت میں جب بھی کوئی گمراہی رونما ہوتی ہے اس کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں ماخذوں میں سے کسی ایک ماخذ کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگوں نے ’حسبنا کتاب اللہ ‘کے قول حق کو اس گمراہ کن تصور کے ساتھ پیش کیا کہ کتاب اللہ کے بعد سنت رسول ﷺ کی ضرورت ہی نہیں رہی۔اس طرح بعض افراد رسول مقبول ﷺ کے بارے میں یہ تصور پیش کرتے رہے ہیں کہ ان کا کام محض قاصد کا تھا۔معاذ اللہ فتنہ انکار حدیث کی تاریخ کے سرسری مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث نبوی کی حجیت و اہمیت کے منکرین دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ جو کھلم کھلا حدیث کا انکار کرتے ہیں اور اسے کسی بھی حیثیت سے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صراحتاً حدیث کے منکرین ،بلکہ زبانی طور پر اس کو قابل اعتماد تسلیم کرتے ہیں لیکن انہوں نے تاویل و تشریح کے ایس...
یہ حقیقت کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ ہمارا ملک خالص کتاب وسنت پر مبنی مکمل اسلام کے تعارفی نا م کلمہ طیبہ کے مقدس نعرہ پر معرض و جود میں آیا تھا۔جس کا ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ 1956ء، 1963ء اور پھر 1973ء کے ہر آئین میں اس ملک کانام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان لکھا جاتا رہاہے اور سر فہرست یہ تصریح بھی ہے کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا اور کتاب و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایاجائے گا۔ 1973ء کے منظور شدہ آئین وہ آئین ہےجس پربریلوی مکتبِ فکر کے سیاسی لیڈرشاہ احمد نورانی، مولوی عبدالمصطفیٰ الازہری وغیرہما کے بھی دستخط ثبت ہیں۔ اسی طرح جب صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق نے اسلامی نظام کی طرف پیش رفت کی ایمان پرور نوید سنائی تھی۔ جس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب اس مملکت میں نظریاتی مقاصد ہی نہیں بلکہ در پیش سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، اور تمدنی مسائل کے حل کی راہیں بھی کھل جائیں گی۔ مگر افسوس ۔۔۔کہ احناف کے ایک گروہ نے تمام مذکورہ حقائق اور ملکی تقاضوں سے آنکھیں موندکر کتاب وسنت کو نظرانداز کرتے ہوئے فقہ حنفی کے نفاذ کا نعرہ بلند کیااور ملتان کے قاسم باغ سے یہ مطالبہ کر دی...
مولانا مودودی رحمہ اللہ کے متعلق ابو الوفاء مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کا موقف تھا کہ مودودی صاحب سر سید احمد خان یا مولوی عبد اللہ چکڑالوی کی طرح حدیث نبوی کے منکر نہیں البتہ حدیث کے متعلق تحقیق کرتے ہوئے محدثین کا مسلک اور طریقہ تنقید چھوڑ کر دوسرا طریق اختیار کرتے ہیں اس کے متعلق مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کا تحریری سلسلہ اخبار اہل حدیث امرتسر میں ستمبر 1945ء تا نومبر 1945ء شائع ہوا جسے بعد ازاں فروری 1946ء میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے پہلی مرتبہ ’’ خطاب بہ مودودی‘‘کے نام سے کتابی صورت شائع کیا ۔ زیر نظر ’’ حدیث نبوی ﷺ پر شکوک و شبہات ‘‘اسی کا جدید ایڈیشن ہے ۔ (م ۔ ا)
سید ابو الاعلیٰ مودودی (1903ء – 1979ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکات کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالا ۔ تاہم ان کی عبارات میں انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام ،صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین پر تنقید کی گئی ہے جس کا انہیں یا کسی اور کو اختیار حاصل نہیں؛ لہٰذا اکابر نے ان کے جادہٴ حق سے ہٹے ہوئے ہونے کا حکم لگایا ہے۔مولانا مودودی ایسے افکار ونظریات کی وجہ سے کئی اہل علم اور مفتیان عظام نے ان پر نقد کیا ہے جیسا کہ ’’ دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن‘‘کے مفتی احمد الرحمٰن اپنے ایک فتوی میں لکھتے ہیں ’’ مولانا مودودی پر علماء نے کفر کا فتویٰ نہیں لگایا، البتہ ان کی تحریر میں بے شمار ایسی گم راہ کن باتیں پائی جاتی ہیں جو سراسر اسلام کے خلاف ہیں، اور علماءِ فن نے اس کی گرفت کی ہے، اور عل...
یزید بن معاویہ ؓ تابعین میں سے ہیں اور صحابی رسول سیدنا امیر معاویہ کے بیٹے ہیں۔بعض روافض اور مکار سبائیوں نے ان پر بے شمار جھوٹے الزامات لگائے ہیں ۔یزید بن معاویہ پر لگائے جانے والے بیشتر الزامات بے بنیاد، من گھڑت اور سبائیوں کے تراشے ہوئے ہیں۔ زیر نظر کتاب محترم جناب حافظ عبید اللہ صاحب کی تصنیف ہے۔اس کتاب میں انہوں نے ہندوستان کے ایک عالم سید طاہر حسین گیاوی کی ابو المآثر علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی کی کتاب کے ناقدانہ جائزہ میں لکھی گئی کتاب بعنوان ’’ شہید کربلا او رکردار ِ یزید ‘‘ پر ناقدانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔گویا حافظ عبید اللہ کی کتاب ہذا علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی کی کتاب کے جواب کا جواب الجواب ہے۔(م۔ا)
طاہر القادری صاحب کا نام محتاج تعارف نہیں ان کے معتقدین انہیں مفکر اسلام،نابغہ عصر، قائد انقلاب اور شیخ الاسلام ایسے پر فخر القاب سے یاد کرتے ہیں جبکہ ان کے ناقدین انہیں احسان فراموش، شہرت کا بھوکا اور حب جاہ و منصب کا حریص قرار دیتے ہیں۔موصوف کے ناقدین میں محض مسلکی مخالفین ہی شامل نہیں بلکہ بریلوی علما بھی ،جن کی طرف قادری صاحب اپنا انتساب کرتے ہیں،موصوف کو خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہوئے اہل سنت میں شمار کرنے پر تیار نہیں۔شہرت و ناموری کی خاطر قادری صاحب کرسمس کا کیک کاٹنے اور دشمنان صحابہ روافض کی مجالس کو رونق بخشنے سے بھی ذرا نہیں شرماتے اور اب تو نوبت بایں جا رسید کہ انہوں نے اعداے ملت یہود ونصاریٰ کے حق میں بھی فتاویٰ صادر کرنے شروع کر دیے ہیں۔زیر نظر کتاب جناب قادری کے نقاب سنیت کو الٹ کر ان کے باطنی رفض وتشیع کوآشکار کرتی ہے۔اس کتاب کے فاضل مصنف قبل ازیں طاہرالقادری کی علمی خیانتیں کے نام سے بھی ایک کتاب تحریر کر چکے ہیں۔اس کے جواب میں ایک صاحب نے قادری صاحب کا دفع کرنے کی ناکام کوشش کی جس کے جواب میں زیر تبصرہ کتاب منصہ شہود پر آئی ہے۔بہ حیثیت مجموعی اس کے مندرجات سے اتفاق ہونے...
عصر حاضر کی بے شمار بدعات میں سےایک بدعت یہ بھی ہے کہ ہر سال 12 ربیع الاول کے روز حضرت محمدﷺ کی پیدائش کا جشن منایا جاتا ہے اور اسے عید میلاد النبیﷺ کا نام دیا جاتا ہے۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ نبی مکرم ﷺ پر دین کی تکمیل ہو چکی اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد دین میں کسی بھی قسم کا اضافہ بدعت کے زمرے میں آئے گا۔ ’میلاد النبیﷺ‘ کے موضوع پر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے ایک ضخیم کتاب لکھی اور دور از کار تاویلات کا سہار لیتے ہوئے میلاد النبی کا اثبات کیا۔ زیر نظر کتاب میں فاضل مؤلف عبدالوکیل عبدالناصر نے ڈاکٹر موصوف کی کتاب کا تحقیقی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کتاب میں بیان کردہ علمی خیانتوں اور ناقابل یقین تضادات کا پردہ چاک کیا ہے۔
عمار خان ناصر ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ ، پاک و ہند کی مشہور علمی شخصیت مولانا سرفراز خان صفدرکے پوتے اور دوسری مشہور شخصیت مولانا زاہد الراشدی﷾ کے صاحبزادے ہیں۔لیکن موجودہ دور کے مشہور متجدد جاوید احمد غامدی کے شاگردِ رشید بھی ہیں۔کچھ عرصے سے اُنہوں نے اپنے استاد غامدی صاحب اور اپنے افکارِ فاسدہ کے پھیلانے کو اپنا مشن بنایا ہوا ہے۔موصوف ایک رسالے"ماہنامہ الشریعہ"کے مدیر اور غامدی صاحب کے ادارے ’المورد‘ کے اسسٹنٹ فیلو ہیں، اسی نسبت سے انکی تحاریر غامدی صاحب کے رسالے مجلہ اشراق میں بھی چھپتی رہتی ہیں،غامدی صاحب کے تجدد پسندانہ افکار و نظریات کے دفاع، انکی اشاعت و ترویج کے لیے انکی خدمات ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ انکے مکتبہ فکر کی آواز چونکہ تجدد دین کی ہے اس لیے بہت سے علماء ان کے اجتہادات،نظریات ، غلط فہمیوں اور افراط و تفریط پر وقتا فوقتا اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ان علماء میں سے ایک نام جامعہ مدنیہ، لاہور کے ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب اور مفتی شعیب احمد صاحب کابھی...
موجودہ زمانہ مُہیب وتاریک فتنوں کا زمانہ ہے۔ اگر یہ فتنے کفر والحاد کے لباس میں ہوتے تو ان سے بچنا کم از کم اُس مسلمان کے لیے ایک درجے میں آسان تھا جو اپنی دینی اور ایمانی روایات سے عمل کی کمی بیشی کے باوجود شعوری یا غیر شعوری طور پر وابستہ ہے۔ لیکن یہ فتنے شیطان کے مزین کردہ پردوں میں ظاہر ہو رہے ہیں‘ ایک مسلمان قرآن وسنت کا مطالعہ کرنے والا‘ اسلامی روایات کا حامل‘ مسلم معاشرے کا فرد‘ مسلمانوں کی صفوں میں شامل‘ دینی اجتماعات کا مقرر‘ یکاک اُس کے فکر ونظر میں زبردست تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں تو وہ راہ راست سے ہٹ جاتا ہے اور غلط افکار کی نشریات میں محو مصروف ہو جاتا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب بھی خاص ایسے افکار جو قرآن وسنت کے برعکس کی تردید اور وضاحت پر لکھی گئی ہے۔ اس میں غامدی صاحب کے غلط نظریات اور افکار کی قرآن وسنت سے تردید کی گئی ہے اور اس کے اسقام ومعائب کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اور غامدیت کی اصلیت‘ مقاصد واہداف‘ انحرافات‘ اس کے طبعی نتائج واثرات‘ دائرہ کار‘ مآخذ اور سرچشموں پر سیر حاصل اور مدلل...
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً...
ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔ معاشرتی علوم اور ادبیات میں علمی نوعیت کی جدید رسمیات پر مبنی کتابیں اور تحقیقی مجلے اس وقت عام ہونے لگے تھے جب رائل ایشیا ٹک سوسائٹی نے خصوصا تاریخ کے موضوعات پر اپنے مطالعات کو جدید اصولوں کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا اور یورپ کے دیگر ملکوں جیسے جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کے تحقیقی اور اشاعتی اداروں نے بھی اس جانب پیش قدمی کی اور اسی زمانے میں خصوصا تحقیق و ترتیب متن کی بہترین کوششیں سامنے آنے لگیں۔مغربی جامعات اور تحقیقی و طباعتی ادارے اس بارے میں اپنے اختیار کردہ یا وضع کردہ رسمیات کو بے حد اہمیت دیتے اور ان کی پابندی کرتے ہیں۔ ان اداروں اور جامعات میں ان رسمیات کے معیارات میں فرق یا اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن ہر ادارہ یا جامعہ اپنے لئے وضع کردہ اور اختیا...