دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ معروضی اصولِ تحقیق وتدوین‘‘ ڈاکٹر سعیدالرحمن بن نورحبیب کی مرتب شدہ ہےاس مختصر کتاب میں فاضل مرتب نے تحقیق واصول تحقیق سے متعلق 413 معروضی انداز کے سوالات بناکر کا ان کے جوابات پیش کیے ہیں۔اس کےبعد اقسام تحقیق،32؍مختلف تحقیقی...
عمار خان ناصر پاک و ہند کی مشہور علمی شخصیت مولانا سرفراز خان صفدرکے پوتے اور دوسری مشہور شخصیت مولانا زاہد الراشدی﷾ کے صاحب زادے ہیں۔ گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے ماہ نامے ’’الشریعہ‘‘کے مدیر ہیں۔معروف طریقے سے مولوی ہیں،لیکن موجودہ دور کے مشہور متجدد جاوید احمد غامدی کے شاگردِ رشید بھی ہیں۔ اُنھوں نے اپنے استاد غامدی صاحب اور اپنے افکارِ فاسدہ کے پھیلانے کو اپنا مشن بنایا ہوا ہے۔کئی اہل علم نے عمارخاں کے نظریات پر نقدکیا ہے ناقدین میں مفتی عبدالواحد صاحب سرفہرست ہیں ۔ زیر نظر کتابچہ ’’مقام عبرت‘‘ ڈاکٹر مفتی عبد الواحد عمار خان ناصر کے ناقدانہ تحریر کی کتابی صورت ہے۔یہ رسالہ مولانا سرفراز خان صفدر کےپوتے او رمولانا زاہد الراشدی کے بیٹے حافظ محمد عمار خان صاحب کےامت کےاجماعی تعامل اوراہل سنت کےعلمی مسلمات کے دائروں سے تجاوز اورخطرناک بے اصولیوں پر مشتمل ہے۔(م۔ا)
دین اسلام کے بنیادی اور اہم ترین اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ تمام انسانوں سے بالعموم اور اپنےمسلمان بھائیوں کےساتھ بالخصوص ،خیر خواہی ،ہمدردی او ربھلائی کامعاملہ کیا جائے سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہے کو لوگو ں کو صراط مستقیم کی رہنمائی کی جائے برائیوں اور معصیتوں سے خبردار کیا جائے اسی کا دوسرا نام ''فريضہ تبلیغ دین'' یعنی امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے عصر حاضر میں جو حضرات خدمت دین کا فريضہ سر انجام دے رہے ہیں ان میں ایک دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم دین حضرت مولانا محمدسرفراز صاحب ہیں جو ماشاء اللہ دو درجن کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کے حلقہ میں ان کی تصانیف کو خوب پذیرائی حاصل ہے لیکن چونکہ وہ تمام مسائل کو اپنے مخصوص زاویہ نظر وفکر میں پیش کرتے ہیں اس لیے اکثروبیشتر اس کے تحفظ میں حد اعتدال سے تجاوز کرجاتے ہیں اپنے او ردوسرے مکتب فکر کے حضرات کےلیے عدل وانصاف کےپیمانے بھی ان کے ہاں مختلف ہیں جواصول اپنے دفاع میں ایک جگہ بڑی محنت وکاوش سے منتخب کرتے ہیں وہی...
جب کوئی شخص کسی بڑے عہدے پر فائز ہو جاتا ہے تو اس کا منصب حصول علم کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔کہیں فرائض منصبی حصول علم کے لئے ضروری فراغت کا دائرہ تنگ کرنے لگتے ہیں تو کہیں احساس کمال جذبہ طلب پر چھانے لگتا ہے۔نیز مناصب کا تزک واحتشام مادی اور نفسیاتی الجھنیں پیدا کر دیتا ہے۔علاوہ ازیں جب اس کا حلقہ ارادت وسیع ہوجاتا ہے تو اس کے علم وتجربہ پر اعتماد کرنے والوں کے لئے اس کے نظریات وافکار میں سے صحیح وغلط میں امتیاز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔اور اس طرح بغیر علم حاصل کئے بلند مقام پر پہنچ جانے والے اشخاص ضلوا فاضلوا کا مصداق بن جاتے ہیں اور یہ صورت حال تابع اور متبوع دونوں کے لئے فتنہ بن جاتی ہے۔ایسا ہی کچھ معاملہ بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے نامور نابغہ عصر ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری کے ساتھ پیش آیا ہے۔جنہیں اتفاق سے قومی ذرائع ابلاغ میں بھر پور تشہیر بھی میسر ہے۔لیکن ان کے مبلغ علم کا یہ حال ہے کہ صحیح عربی عبارت بھی نہیں پڑھ سکتے اور قرآن مجید کے ترجمہ میں بے شمار غلطیاں کرتے نظر آتے ہیں،اور ان کی یہ غلطیاں خود ان کے اپنے مسلک کے لوگ نکال نکال کر ان کے م...
نقد و تنقید دراصل لغوی طور پر کھرے وکھوٹے کی پہچان کا نام ہے جوہری سکوں کے کھرے کھوٹے کوجانچتا ہے اس کے اس عمل کو نقد وتنقید کہا جاتا ہے اسی طر ح فرد کےفکر وخیال، عقیدہ وعمل کو جانچنے اور صحیح وغلط کی معرفت کے عمل کا نام نقد ہے، سماج میں پنپے ہوئے عقیدہ وعمل کے حسن وقبح اور اچھائی وبرائی کو جانچنے اور دینی، تاریخی اورسیاسی تحریروں کے نقائص کو نمایاں کرنے کا نام نقد وتنقید ہے۔ لیکن تنقید کے سلسلے میں بنیادی بات یہی ہے کہ نقاد کو چاہیے کہ وہ متن کو متن ہی کے اصول و قوانین کی روشنی میں پڑھے، اپنے مفروضات کی روشنی میں نہیں۔ اور نقد علمی، تاریخی، دینی، سیاسی ہرطرح کا ہوسکتا ہے۔ اور تنقیدی عمل کےلیے ضروری ہے خواہ وہ لسانی ہو یا قلمی اس کے پیچھے ایسے اصول وضوابط نہ ہوں کہ جس سے تنقید ی عمل فساد بن جائے۔ محترم جناب عبد المعید صاحب نے زیرنظر کتابچہ ’’ نقد کےدینی اصول ‘‘ میں دینی نقد کی شکل نمایاں کرتے ہوئے نقد وتنقیدکےکچھ اصول وضوابط پیش کیے...
اہل پاکستان کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ان کی شخصیت اہل علم کے ہاں ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہے۔ان کے معتقدین انہیں مفکر اسلام،نابغہ عصر، قائد انقلاب اور شیخ الاسلام ایسے پر فخر القاب سے یاد کرتے ہیں۔جبکہ ان کے ناقدین انہیں احسان فراموش، شہرت کا بھوکا اور حب جاہ و منصب کا حریص قرار دیتے ہیں۔موصوف کے ناقدین میں محض مسلکی مخالفین ہی شامل نہیں ہیں، بلکہ ان کے ہم مکتب فکر بریلوی علما بھی ،جن کی طرف قادری صاحب اپنا انتساب کرتے ہیں،موصوف کو خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہوئے اہل سنت میں شمار کرنے پر تیار نہیں ہیں۔شہرت و ناموری کی خاطر قادری صاحب کرسمس کا کیک کاٹنے اور دشمنان صحابہ روافض کی مجالس کو رونق بخشنے سے بھی ذرا نہیں شرماتے ۔اور اب تو نوبت بایں جا رسید کہ انہوں نے اعداے ملت یہود ونصاریٰ کے حق میں بھی فتاویٰ صادر کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " پروفیسر طاہر القادری ،ایک علمی وتحقیقی جائزہ "بریلوی مکتب فکر کے معروف عالم دین مفتی غلام سرور قادری مشیر وفاقی شرعی عدالت پاکستان ومہتمم جامعہ غوثیہ مین مارکیٹ لاہور...
افراد امت تک دین کا پیغام پہنچانا نبوی مشن ہے جسے ارباب علم نےسنبھال رکھا ہے اور بخیر وخوبی سرانجام دے رہے ہیں لیکن بعض لوگ دین ومذہب کے نام پر لوگوں کا جذباتی ،مذہبی اورمعاشی استحصال کررہے ہیں افسوس کہ جناب طاہر القادری صاحب کا نام بھی انہی میں شامل ہے موصوف دین اور عشق رسول ﷺ کے نام پرمعاشرے میں بدعات کو فروغ دے رہے ہیں ان کےنام سے بہت سی کتابیں منصۂ شہود پر آچکی ہیں لیکن ان میں محکم استدلال کے بجائے من گھڑت اور ضعیف وواہی روایات سے دلیل اخذ کی جانے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح تفسیر میں بھی موصوف کامنہج درست نہیں جناب ڈاکٹر رفض وتشیع کی طرف بھی میلان رکھتے ہیں جیسا کہ وہ باقاعدہ مجالس عزا میں جاکر خطاب کرتے ہیں زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی علمی خیانتوں کو طشت ازبام کیا گیا ہے جس سے ان کااصل چہرہ بے نقاب ہوکر سامنے آگیا ہے امیدہے کہ اس کےمطالعہ سے قارئین کو جناب ''شیخ الاسلام '' کو پہنچاننے میں آسانی رہے گی-
علامہ یوسف عبد اللہ القرضاوی (9 ستمبر 1926ء - 26 ستمبر 2022ء) مصری نژاد، قطری شہریت یافتہ تھے ۔یوسف قرضاوی نے دس سال کی عمر سے پہلے ہی قرآن مکمل حفظ کر لیا تھا، بعد ازاں جامع ازہر میں داخل ہوئے اور وہاں سے عالمیت کی سند 1953ء میں حاصل کی، 1954ء میں کلیہ اللغہ سے اجازتِ تدریس کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد 1958ء میں انھوں نے عرب لیگ کے ذیلی ادارہ ’’معہد دراسات اسلامیہ‘‘سے ’’تخصص در زبان و ادب‘‘ میں ڈپلوما کیا، ساتھ ہی ساتھ 1960ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جامع ازہر کے کلیہ اصول الدین سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، 1973ء میں وہیں سے اول مقام و درجے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اس کے مقالہ کا موضوع ’’زکوٰۃ اور معاشرتی مشکلات میں اس کا اثر‘‘ تھا۔ موصوف اگرچہ کئی کتابوں کے مصنف اور عصر حاضر کے بہت بڑے فقیہ ومجتہد تھے لیکن بہت سی فکری انحرافات کا شکار بھی تھے۔ان کی فکری انحرافات اور گمراہیوں کی کئی کبار عرب علماء نے نشاندہی بھی کی ہے ۔شیخ&nb...