اقبال پر جتنا علمی ،تحقیقی او رتخلیقی کام ہوا ۔ اتنا شاید ہی کسی اور شاعر او رادیب پر ہوا ہو۔ لیکن ا ن کے فکرو شعرکا کوئی جامع اشاریہ موجود نہیں تھا اقبال اکامی نے بڑی عمدگی کے ساتھ کلیات اقبال کاجامع اشاریہ شائع کیا ہے ۔زیرنظر کتاب ’’جوئے رواں‘ جسے طاہر حمید تنولی نے مرتب کیا ہے۔یہ شاعر مشرق علامہ اقبال کی اردو شاعری کا ایک ایسا اشاریہ ہے جس نے قارئین اقبال کے لیے مطلوبہ شعر تک پہنچنا آسان بنادیا ۔اس اشاریے کو مرتب کرتے وقت قاری کی سہولت کے پیش نظر کلیات کے ان نسخوں کواشاریے کی بنیاد بنایا گیا ہے جو عام طور قارئین کے زیر استعمال ہوتے ہیں اور ان کا متن بھی قابل اعتماد ہے ۔اس اشاریے میں میں کلیات اقبال کے شیخ غلام علی اینڈ سنز او راقبال اکادمی ،پاکستان کے شائع شدہ قدیم نسخوں کےصفحات نمبر درج کردیے گئے ہیں۔ان کے نسخوں کے لیے بالترتیب ،غ ع اوراکادمی کے ل مخففات استعمال کیے گیے ہیں۔...
’’شکوہ“ کے جواب میں نظمیں دیکھ کراقبال کو خود بھی دوسری نظم ”جواب شکوہ“ لکھنی پڑی جو 1913ء کے ایک جلسہ عام میں پڑھ کر سنائی گئی۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ”شکوہ “ پڑھی گئی تو وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی یہ بہت مقبول ہوئی لیکن کچھ حضرات اقبال سے بدظن ہو گئے اور ان کے نظریے سے اختلاف کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ”شکوہ“ کا انداز گستاخانہ ہے۔ اس کی تلافی کے لیے اور یوں بھی شکوہ ایک طرح کا سوال تھا جس کا جواب اقبال ہی کے ذمے تھا۔ چنانچہ ڈیڑھ دو سال کے عرصے کے بعد انہوں نے ”جواب شکوہ“ لکھی۔ یہ 1913ء کے جلسے میں پڑھی گئی۔ جو نماز مغرب کے بعد بیرونی موچی دروازہ میں منعقد ہوا تھا۔ اقبال نے نظم اس طرح پڑھی کہ ہر طرف سے داد کی بوچھاڑ میں ایک ایک شعر نیلام کیا گیا اور اس سے گراں قدر رقم جمع کرکے بلقان فنڈ میں دی گئی۔ شکوہ کی طرح سے ”جواب شکوہ“ کے ترجمے بھی کئی زبانوں میں ملتے ہیں۔شکوہ میں اقبال نے انسان کی زبانی بارگاہ ربانی میں زبان شکایت کھولنے کی جرات...
شاعری کسی فکرونظریہ کودوسروں تک پہنچانے کاموثرترین طریقہ ہے ۔شعرونظم سے عموماً عقل کی نسبت جذبات زیادہ متاثرہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وحی الہیٰ کے لیے شعرکواختیارنہیں کیاگیا۔تاہم اگرجذبات کی پروازدرست سمت میں ہوتوانہیں ابھارنا بجائے خودمقصودہے ۔ہمارے عظیم قومی شاعرعلامہ محمداقبال نے یہی کارنامہ سرانجام دیاہے ۔اقبال کی شاعری اسلام کی انقلابی ،روحانی اوراخلاقی قدروں کاپراثرپیغام ہے ۔اس کی شاعری میں نری جذباتیت نہیں بلکہ وہ حرکت وعمل کاایک مثبت درس ہے ۔اس سے انسان میں خودی کے جذبے پروان چڑھتے ہیں اورملت کاتصورنکھرتاہے ۔بنابریں یہ کہاجاسکتاہے کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کونظم میں بیان کیاہے۔تاہم یہ بات بھی ملحوظ خاطررکھناضروری ہے کہ علامہ عالم دین نہ تھے ہمارے ملی شاعرتھے اوربس ۔فلہذاتعبیردین میں ان کوسندخیال کرناقطعاً غلط ہے ۔ہم قارئین کے لیے ’کلیات اقبال ‘پیش کررہے ہیں ،اس امیدکے ساتھ کہ اس سے احیائے ملت کاجذبہ بیدارہوگا۔ان شاء اللہ