مرکز النور، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے پراجیکٹس کی اپ ڈیٹس، کتابیں، سوالات کے جوابات، مضامین، ویڈیوز، شمارہ جات، قرآنی آیات واحادیث کے خوبصورت گرافکس اور دیگر مستند تعلیمی، تربیتی، اصلاحی وفلاحی پوسٹ وٹس ایپ پر حاصل کرنے کےلیے ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں: Mohaddis
گھر بیٹھے کتاب منگوانے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں : 03000197274
تفسیر ابن کثیر جلد دوم
Newتفسیر ابن کثیر جلد اول
ترجمہ القرآن الکریم پارہ 30
ترجمہ القرآن الکریم پارہ 29
ترجمہ القرآن الکریم پارہ 28
ترجمہ القرآن الکریم پارہ 27
ترجمہ القرآن الکریم پارہ 26
ترجمہ القرآن الکریم پارہ 25
اسلام کا نظام امن و سلامتی
نماز جنازہ اور اس کے مسائل
تصویر سازی اور فوٹو گرافی کی شرعی حیثیت ...
ہمارے ہمسفر بنیں
ماہ شوال کے 6 روزے، فضائل، مسائل اور شبہ...
حدیث نماز (تخریج شدہ ایڈیشن)
مسائل قربانی
گلشن رسالت ﷺ کے تیس پھول
تیسیرالقرآن ڈکشنری
انسان اور قسمت
اسوہ حسنہ مصائب سرور کونین صلی اللہ علیہ...
دین الحق بجواب جاء الحق ۔ حصہ اول
وجود ہستی اور تصور توحید
تغیر پذیر حالات میں تفقہ کے تقاضے اور ہم
المہلب خطۂ پاکستان میں اسلام کا پہلا علم...
ہندی شرح جزری
حمیدالدین فراہی اور جمہور کے اصول تفسیر ...
حقوق نسواں بارے اشکالات
المیسرہ فی اصول القرءات العشر و اجراءھا ...
اللہ سے جنگ
شوال کے چھ روزوں کی احادیث میں بہت فضیلت بیان ہوئی ہے، ذیل میں اس سے متعلق احادیث پیش خدمت ہیں، اور ساتھ اس متعلق کیے جانے والے بعض اشکالات کی وضاحت بھی موجود ہے۔
حدیث ابو أیوب الأنصاری رضی اللہ عنہ
عن أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه أنه حدَّثه أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "من صام رمضان ثم أَتبعَه ستًّا من شوال كان كصيام الدهر". (صحیح مسلم (1164)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے بھی چھ روزے رکھے، اس نے گویا پوری زندگی روزے رکھے۔
اعتراض:
اس حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے کہ اس کی سند میں سعد بن سعید انصاری راوی ضعیف ہے، جس کا جواب یہ ہے کہ سعد بن سعید مختلف فیہ راوی ہے، شعبہ وغیرہ اجل ناقدین نے اس کی توثیق کی ہے، جبکہ احمد و ابو حاتم وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے، لیکن یہ تضعیف شدید نہیں، ان کے متعلق تضعیف شدید کے جو اقوال ہیں وہ ثابت نہیں ہیں۔ لہذا اس راوی میں اگر ضعیف خفیف مان بھی لیا جائے، تو اس کی یہ روایت کئی ایک وجوہات سے درست ہے، مثلا اس روایت کو اس سے روایت کرنے والے شعبہ اور ابن مبارک جیسے اجل محدثین وعلما ہیں، بلکہ ابن مبارک نے تو اس کی ’تحسین‘ کی ہے۔ اگر یہ روایت ضعیف ہوتی تو یہ ائمہ کرام اس کی وضاحت کردیتے۔ دوسری بات سعد بن سعید یہ روایت بیان کرنے میں اکیلا نہیں بلکہ عبد ربہ بن سعید (السنن الکبری للنسائی(2878) اور یحی بن سعید(مسند الحمیدی(382) وغیرہما نے اس کی متابعت کی ہے۔ لہذا یہ روایت حسن درجے سے کم نہیں، جیسا کہ ابن مبارک اور ترمذی(رقم759) نے فرمایا، بلکہ امام مسلم نے اسے صحیح میں نقل کیا، اور صحیحین کے متعلق یہ بات معروف ہے کہ وہ ضعیف راوی سے بھی کوئی روایت لیں، تو اس میں وہی روایت اختیار کرتے ہیں، جس کا قرائن سے صحیح ہونا ثابت ہو۔
مزید تفصیل کے لیے یہاں کلک کریں.........
محدث لائبریری کی اپ ڈیٹس بذریعہ ای میل وصول کرنے کے لئے ای میل درج کر کے سبسکرائب کے بٹن پر کلک کیجئے