نبی کریمﷺ کی عظمت و توقیراہل ایمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے اور علمائے اسلام دورِ صحابہؓ سے لے کر آج تک اس بات پر متفق رہے ہیں کہ آپ ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنیوالا آخرت میں سخت عذاب کا سامنا کرنے کے علاوہ اس دنیا میں بھی گردن زدنی کے لائق ہے۔ نبی کریم ﷺ کی توہین کرنے والے کی سز ا قتل کے حوالے سے کتبِ احادیث اورتاریخ وسیرت میں بے شمار واقعات موجود ہیں ۔شاتم رسول دوسروں کے دلوں سے عظمت وتوقیر رسول ﷺ گھٹانے کی کوشش کرتا اور ان میں کفر و نفاق کے بیج بوتا ہے، اس لئے توہین ِرسول ﷺکو "تہذیب و شرافت" سے برداشت کرلینا اپنے ایمان سے ہاتھ دھونا اور دوسروں کے ایمان چھن جانے کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔ نیز ذات رسالت مآب ﷺچونکہ ہر زمانے کے مسلمان معاشرہ کا مرکزو محورہیں اس لئے جو زبان آپﷺ پر طعن کے لیے کھلتی ہے، اگر اسے کاٹانہ جائے اور جو قلم آپﷺ کی گستاخی کیلئے اٹھتا ہے اگر اسے توڑانہ جائے تو اسلامی معاشرہ فساد اعتقادی و عملی کا شکار ہوکر رہ جائیگا۔نبی کریم ﷺکو (نعوذباللہ) نازیبا الفاظ کہنے والا امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ کے الفاظ میں ساری امت کو گا...
ساری کائنات کا خالق ،مالک اور رازق اللہ تعالی ہے۔وہی اقتدار اعلی کا بلا شرکت غیرے مالک اور انسانوں کا رب رحیم وکریم ہے۔انسانوں کے لئے قوانین حیات مقرر کرنا اسی کا اختیار کلی ہے۔اس کا قانون عدل بے گناہ افراد میں اطمینان خاطر پیدا کرتا ہے اور بڑے جرائم پر اس کی مقرر کردہ سخت سزائیں مجرموں کو ارتکاب جرم سے روکنے ،انہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور دوسرے افراد کے لئے عبرت وموعظت کا سامان مہیا کرنے کا باعث ہیں۔اسلامی قانون عدل وانصاف کی ضمانت فراہم کرتا ہے،معاشرتی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور عزت وحرمت کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔انسانوں اور رب کے باہمی تعلق کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں زندگی میں وہ راحت،آرام اور آسائشیں پیدا ہوں جن کا قرآن حکیم میں بار بار وعدہ کیا گیا ہے۔جس نسل نے تخلیق پاکستان میں حصہ لیا ،اس کے لئے پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ ایک سہانا خوان اور جنت گم گشتہ کا حصول تھا۔،لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے بعد معاشرے سے فیڈ بیک ملتی ہے وہ کسی طرح حوصلہ افزاء نہیں ہے۔اس لئے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہ...
فقہی مضامین کو دفعہ وار جدید قانونی کتابوں کے انداز پرمرتب کرنا کہ اس سے عدالتوں اور قانون سے متعلق لوگوں کے لیے استفادہ آسان ہوجاتا ہے ۔ اس کی ابتدا ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ سے ہوئی جوکہ خلافت عثمانیہ ترکی نے مرتب کروایا۔اس کے بعد مختلف مسلم ممالک میں حکومت کی زیرنگرانی احوالِ شخصیہ سے متعلق مجموعہ قوانین کی ترتیب عمل میں آئی، یہ مجموعے کسی ایک فقہ پر مبنی نہیں تھے؛ بلکہ ان میں مختلف مذاہب سے استفادہ کیا گیا تھا جرم و سزا کے اسلامی قانون سے متعلق ڈاکٹر عبد القادر عودہ شہید کی ’’التشریع الجنائی الاسلامی‘‘984 دفعات پر مشتمل بڑی اہم کتاب ہے۔ زیر نظر کتاب’’اسلام کا فوجدار قانون‘‘ڈاکٹر عبد القادر عودہ شہید کی تصانیف میں سب سے وقیع اور بلند پایہ قانونی تصنیف ’’التشریع الجنائی الاسلامی‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔اس کتاب میں اسلامی قانون فوجداری کو جدید قوانینِ مروجہ کی طرح بصورت دفعات مرتب کر کے پیش کیا گیا ہے ۔اور جابجااسلامی قوانین کا مغ...
حدوداللہ سے مراد وہ امور ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے حلت و حرمت بیان کردی ہے اور اس بیان کے بعد اللہ کے احکام اور ممانعتوں سے تجاوز درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حددو سے تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ پر ظلم کرنے والا قرار دیا ہے اور ان کے لیے عذاب مہین کی وعید سنائی ہے۔ اسلام کایہ نظام جرم وسزا عہد رسالت اورعہد خلافت راشدہ میں بڑی کامیابی سے قائم رہا جس کے بڑے فوائد وبرکات تھے۔ عصر حاضر کے بعض سیکولرذہنیت کےحاملین نے اسلامی حدود کو وحشیانہ اور ظالمانہ سزائیں کہا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذالک) اور بعض اسلام دشمنوں نےیہ کہا کہ اسلام کانظام جرم وسزا عہد رسالت وخلافت راشدہ کے بعد کبھی کسی ملک میں کامیبابی سے نہیں چل سکا۔ زیر نظر کتاب’’اسلام کا قانون عقوبات‘‘ شیخ الحدیث صلاح الدین حیدر لکھوی حفظہ اللہ کی کاوش ہے ۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں اسلام نے جن کی جرائم کی سزائیں متعین کی ہیں ان پر قرآن وسنت اورفقہ اسلامی کی روشنی میں سیرحاصل بحث کی ہے جن میں جرائم الحدوداور جرائم القصاص شامل ہیں ، مر...
عالم انسانیت آج اکیسویں صدی کا جشن منانے میں مصروف ہے جب کہ انسانیت منہ چھپائے ماری ماری پھر رہی ہے۔ روئے زمین کا کوئی خطہ اسے پناہ دینے پر آمادہ نہیں۔ ہر طرف قتل وغارت‘ فتنہ وفساد اور وجل وفریب کے طوفان پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ امن‘ چین اور سکون نام کی کوئی چیز انسانی دنیا میں نظر نہیں آ رہی۔ عقل انسانی کے تراشیدہ قوانین اور اصول حیات انسان کی اجڑی بستیوں کو آباد کرنے سے قاصر ہیں۔ بے خدا ازموں اور بے روح نظریات کے علمبردار ہمارے قصر حیات کے دکھ درد دور کرنے سے عاجز ہیں۔ امت مسلمہ جسے اللہ عزوجل نے بہترین امت کے لقب سے نوازا تاکہ وہ اسلام کے قوانین کو روئے زمین پر نافد کرکے امن وسکون کا گہوارا بنائیں وہ امت خود اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب میں انہی تعزیرات اسلامیہ کو بیان کیا گیا ہےاور یہ کتاب اصلاًعربی زبان میں ہے جس کا عنوان’العقوبات فی الاسلام‘ تھا جسے طارق اکیڈمی فیصل آباد نے اردو زبان میں ٹرانسلیٹ کیا۔ ترجمہ نہایت عمدہ اور سلیس ہے۔ اس میں حدود وتعزیرات کی تعریف سے لے کر تمام تعزیزات وحدود کو کت...
اسلامی حکومت میں اسلامی حدود کا نفاذ نہ تو کسی حکمران کی صوابدید پر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی حکمران انہیں سیاسی انتقام کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔یہ حدود تو اس رب ذوالجلال والاکرام نے عائد کی ہیں جو اپنے بندوں پر ساری کائنات میں سب سے زیادہ مہربان ہے۔ان حدود کے نفاذ کا بڑا مقصد اسلامی حکومت میں بسنے والے ہر فرد کی عزت وآبرو اور جان ومال کا تحفظ اور انسانیت کی تکریم ہے نہ کہ توہین۔پھر یہ کہ یہ حدود اندھا دھند نافذ نہیں کر دی جاتیں بلکہ ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے لئے شریعت اسلامیہ میں کئی شرائط،لوازم،حد درجہ احتیاط اور کڑا معیار شہادت مقرر ہے۔اسلامی حدود کے نفاذ کا یہ مطلب نہیں کہ ملک بھر میں سب کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے جائیں گے اور بدکاری کے معمولی شبے پر لوگوں کو سنگسار کر دیا جائے گا۔یہ محض مغرب زدہ لوگوں کا پروپیگنڈا اور اسلام دشمنی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " اسلامی حدود اور ان کا فلسفہ مع اسلام کا نظام احتساب " دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور کے ریسرچ ایڈ وائزر مولانا سید محمد متین ہاشمی صاحب کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے قوانین مغرب سے متاثر ا...
اسلام شریعت میں قصاص سے مراد برابر بدلہ ہے۔ یعنی جان کے بدلے جان، مال کے بدلے مال، آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت۔ یعنی جیسا کوئی کسی پر جرم کرے اسے ویسی ہی سزا دی جائے۔اور اسلام نے انسانی جان کو جو احترام دیا ہے وہ سورۃ مائدۃ کی اس آیت کریمہ سے ہی واضح ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا(المائدۃ:32) اسلام کا عطا کردہ نظام ِقصاص ودیت دیگر قوانینِ عالم کے مقابلے میں نہایت سیدھا سادہ ہے۔مثلاً قصاص لینا امام یا حاکم کا فرض ہے بشرطیکہ اولیائے مقتول قصاص کے طالب ہوں۔قاتل کو بھی بلاعذر تسلیم نفس کردینا چاہیے کیونکہ یہ حق العبد ہے۔ اور تیسری بات یہ کہ مقدمے کافیصلہ کرتے وقت ازروئے قرآن حاکم پر یہ واجب ہے کہ وہ فریقین کےمابین کامل تسویہ برتے ۔اسلام سے قبل قصاص کے معاملے میں بہت زیادتی کی جاتی تھی یعنی بعض معاملات میں قصاص میں قتل کر کے او ربعض میں دیت لےکر چھوڑ دیا جاتا تھا اوراس کا کوئی ضابطہ نہ تھا۔ کبھی ایک آدم...
حدوداللہ سے مراد وہ امور ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے حلت و حرمت بیان کردی ہے اور اس بیان کے بعد اللہ کے احکام اور ممانعتوں سے تجاوز درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حددو سے تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ پر ظلم کرنے والا قرار دیا ہے اور ان کے لیے عذاب مہین کی وعید سنائی ہے۔ اسلام کایہ نظام جرم وسزا عہد رسالت اورعہد خلافت راشدہ میں بڑی کامیابی سے قائم رہا جس کے بڑے فوائد وبرکات تھے۔ عصر حاضر کے بعض سیکولرذہنیت کےحاملین نے اسلامی حدود کو وحشیانہ اور ظالمانہ سزائیں کہا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذالک) اور بعض اسلام دشمنوں نےیہ کہا کہ اسلام کانظام جرم وسزا عہد رسالت وخلافت راشدہ کے بعد کبھی کسی ملک میں کامیبابی سے نہیں چل سکا۔ زیر تبصرہ کتا ب ’’تاریخ نفاذ حدود‘‘ ڈاکٹر نور احمد شاہتاز کی تحقیقی کاوش ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں تاریخی حولوں سے ثابت کیا ہے۔ کہ یہ نظام گزشتہ چودہ صدیوں میں ہر ملک وہر خطہ اسلامی میں نہایت کامیابی سے نافذ رہا اور اس کی برکات سے طویل عرصہ تک نسل انسانی نے استفادہ کیا۔ نیز فاضل مصنف نے شرائع سابق...
تمام حدود اللہ رب العزت کی طرف سے عائد کردہ ہیں جو اپنے بندوں پر ساری کائنات میں سب سے زیادہ مہربان ہے۔ان حدود کے نفاذ کا سب سے بڑا مقصد اسلامی حکومت میں بسنے والے ہر فرد کی عزت وآبرو اور جان ومال کا تحفظ اور انسانیت کی تکریم ہے ۔پھر یہ کہ یہ حدود اندھا دھند نافذ نہیں کر دی جاتیں بلکہ ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے لئے شریعت اسلامیہ میں کئی شرائط،لوازم،حد درجہ احتیاط اور کڑا معیار شہادت مقرر ہے۔انہی حدود میں سے ایک حد ارتداد ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ : «مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ»(بخاری:3017)"جو اپنا دین(اسلام) بدل لے اسے قتل کردو۔"اور تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔لیکن دشمنان اسلام ہر وقت اسلام کی مقرر کردہ ان حدود پر شبہات واعتراضات کی بوچھاڑ جاری رکھتے ہیں اور عامۃ الناس کے قلوب واذہان میں اسلام کے خلاف شکوک پیدا کرتے رہتے ہیں۔انہی مخالفین اور اسلامی حدود سے ناآشنا لوگوں میں سے ایک سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق قاضی جناب شیخ ایس اے رحمان ہیں ،جنہوں نے ملت اسلامیہ کے سواد ا...
اسلام نے اپنے اصولِ حکمرانی میں عدل وانصاف کو بے پناہ اہمیت دی ہے۔ یہ ایسا الٰہی نظام حیات ہے جس کامزاج انسانوں کے خود ساختہ رائج الوقت قوانین سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ یہ تمام انسانی قوانین سے ممتازاور ہردو ر،ہر زمانے کےتقاضے پورے کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد اہل پاکستان کی مسلسل یہ خواہش اورکوشش رہی ہے کہ اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں آئے۔بالخصوص جنرل ضاء الحق دور حکومت میں قوانین اسلام کے نفاذ کی کوششیں قابل ذکر ہیں ۔حدود آرڈی ننس نافذ کیا گیا اور وفاقی شرعی عدالت شرعی نقظۂ نظر سے مقدمات کی سماعت بھی کرتی رہی ۔ زیر نظر کتاب ’’ حدود وتعزیرات ‘‘ ادارہ تحقیقات اسلامی کے سکالرز کی مرتب شد ہے ۔ادارہ تحقیقات اسلامی نے حدود وتعزیرات کے متعلق فقہ اسلامی کی مستند کتب سےمنتخب ابواب کا ترجمہ کروا کراسے مرتب کروا کرشائع کیا۔ اس کتاب میں فقہ حنفی کے علاوہ اہل سنت کے باقی تین فقہی بھی ذکر کیے گیے ہیں تاکہ ماہرین قا...
عصر حاضر میں مختلف ممالک میں جو قوانین رائج ہیں اس میں عقل انسانی کا عمل دخل زیادہ ہےاور یہ وقت کے تقاضوں،رسم ورواج اور روایتوں کے ما تحت ہوتے ہیں۔جبکہ یہ امر طے شدہ ہے کہ نہ انسانی عقل کامل ہے اور نہ ہی تمام رسوم ورواج مبنی بر حقائق ہوتے ہیں۔لہذا ہوتا یہ ہے کہ ان قوانین میں وقتا فوقتا ترامیم ہوتی رہتی ہیں ۔یہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ انسانی عقل سے تیار کردہ قانون ناقص ہے۔اس کے برعکس اللہ وحدہ لاشریک نے بنی نوع انسانی پر ایک عظیم احسان یہ بھی فرمایا ہے کہ اسے ایک مکمل اور تمام نقائص سے مبرا "قانون حیات" عطا فرما دیا ہے۔جو تاقیامت انسانیت کے راہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" حدود آرڈیننس اور تہذیبی تصادم "جامعہ بنوریہ عالمیہ کے استاذ محترم مولانا نذیر احمد خان کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے الہامی قانون حیات کے کچھ پہلوؤں کو بڑی خوبصورتی سے اس انداز میں اجاگر کیا ہے کہ جس سے مغرب کے دیمک زدہ آئین وقانون کی بوسیدگی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔مولانا نذیر احمد خان(ایڈووکیٹ)ایک منجھے ہوئے قانون دان ہیں اور ایک کہنہ مشق استاذ کی...
ساری کائنات کا خالق ،مالک اور رازق اللہ تعالی ہے۔وہی اقتدار اعلی کا بلا شرکت غیرے مالک اور انسانوں کا رب رحیم وکریم ہے۔انسانوں کے لئے قوانین حیات مقرر کرنا اسی کا اختیار کلی ہے۔اس کا قانون عدل بے گناہ افراد میں اطمینان خاطر پیدا کرتا ہے اور بڑے جرائم پر اس کی مقرر کردہ سخت سزائیں مجرموں کو ارتکاب جرم سے روکنے ،انہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور دوسرے افراد کے لئے عبرت وموعظت کا سامان مہیا کرنے کا باعث ہیں۔اسلامی قانون عدل وانصاف کی ضمانت فراہم کرتا ہے،معاشرتی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور عزت وحرمت کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔انسانوں اور رب کے باہمی تعلق کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں زندگی میں وہ راحت،آرام اور آسائشیں پیدا ہوں جن کا قرآن حکیم میں بار بار وعدہ کیا گیا ہے۔جس نسل نے تخلیق پاکستان میں حصہ لیا ،اس کے لئے پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ ایک سہانا خوان اور جنت گم گشتہ کا حصول تھا۔،لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے بعد معاشرے سے فیڈ بیک ملتی ہے وہ کسی طرح حوصلہ افزاء نہیں ہے۔اس لئے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہ...
اسلام میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر ہے جو کہ حد شرعی ہے ۔اس حد کو بدلنے کا کسی کو اختیار نہیں ۔اس کے نفاذ کو روکنے کے لیے سفارش کرنا بھی نا پسندیدہ ہے۔نبی کریم ﷺنے شادی شدہ زانی پر رجم یعنی سنگساری کی سزا نافذ فرمائی ہے۔کبھی مجرم کے اعتراف پر اور کبھی چار گواہوں کی شہادت دینے پر یہ حد جاری کی گئی۔ اب اس حد شرعی کو بدلنا یا منسوخ کرنا یا تعزیر میں تبدیلی کرنا در اصل اسلامی شریعت کو اپنی خواہشاتِ کے تابع کرنا ہے۔ زیر نظر کتاب’’ رجم کی شرعی حیثیت‘‘ حدر جم سے متعلق تین معروف اہل علم ( مفتی محمد شفیع،مفتی ولی حسن ٹونکی،مولانا محمد یوسف لدھیانوی) کےعلمی وتحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے ۔ان مقالات میں انکار رجم کے اسباب وعلل پر روشنی ڈالتے ہوئے کتاب وسنت اور اجماع امت سےرجم کے دلائل جمع کرنے کےعلاوہ منکرین رجم کے قدیم وجدید شبہات سے بھی تعرض کیا گیا ہے ۔(م۔ا)
رشوت انسانی سوسائٹی کا وہ بد ترین مہلک مرض ہے جو سماج کی رگوں میں زہریلے خون کی طرح سرایت کر کے پورے نظام انسانیت کو کھوکلا اور تباہ کر دیتا ہے ۔ رشوت ظالم کو پناہ دیتی ہے ۔ اور مظلوم کو جبرا ظلم برداشت کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔ رشوت کے ہی ذریعے گواہ ، وکیل اور حاکم سب حق کو ناحق اور ناحق کو حق ثابت کرتے ہیں ۔ رشوت قومی امانت میں سب سے بڑی خیانت ہے ، جج ، گورنر، وزیر ، سیکرٹری ، عدالتی و دفتری نظام ، محکمہ پولیس اور قضاۃ یہ سب ہی قوم کی امانت ہیں ۔ جب تک یہ قانون ، اخلاق اور انصاف و عدل کے بے لاگ محافظ رہیں گے تب تک انسانیت عدل و انصاف اور رحمت سے مالال مال رہے گی ۔ اسلامی شریعت دنیا میں عدل و انصاف اور حق و رحمت کی داعی ہے ۔ اسلام نے روز اول سے ہی انسانی سماج کی اس مہلک بیماری کی جڑوں اور اس کے اندرونی اسباب پرسخت پابندی عائد کی ۔ اور اس کے انسداد کے لیے انتہائی مفید تدابیر اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ۔ جن کی وجہ سے دنیا ان مہلک امراض سے نجات پا جائے ۔ زیر نظر کتاب اسی موضوع پر بطریق احسن روشنی ڈالتی ہے اور یہ کتاب درحقیقت امام محمد بن سعود یونیورسٹی میں...
حدوداللہ سےمراد وہ امور ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے حلت وحرمت بیان کردی ہے اوراس بیان کے بعد اللہ کے احکام اورممانعتوں سے تجاوز درست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حددو سے تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ پر ظلم کرنے والا قرار دیا ہے اور ان کے لیے عذاب مہین کی وعید سنائی ہے ۔اسلام کایہ نظام جرم وسزا عہد رسالت اورعہد خلافت راشدہ میں بڑی کامیابی سے قائم رہا جس کے بڑے فوائد وبرکات تھے ۔ اسلامی حکومت میں اسلامی حدود کا نفاذ نہ تو کسی حکمران کی صوابدید پر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی حکمران انہیں سیاسی انتقام کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔یہ حدود تو اس رب ذوالجلال والاکرام نے عائد کی ہیں جو اپنے بندوں پر ساری کائنات میں سب سے زیادہ مہربان ہے۔ان حدود کے نفاذ کا بڑا مقصد اسلامی حکومت میں بسنے والے ہر فرد کی عزت وآبرو اور جان ومال کا تحفظ اور انسانیت کی تکریم ہے نہ کہ توہین۔پھر یہ کہ یہ حدود اندھا دھند نافذ نہیں کر دی جاتیں بلکہ ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے لئ...
لفظ قصاص قرآن کریم کی اس مبین ایت سے اخذ کیا گیا ہے۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۔۔۔۔﴿البقرة: ١٧٨﴾’’اے ایمان والو تم پرمقتولین کا قصاص فرض کیا گیا ہے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔‘‘
اس ایت کو رمضان کی ایت سے جوڑ کر دیکھیں تو دونوں آیات میں ایک جیسے الفاظ ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ الصیام کی جگہ القصاص لکھ دیا گیا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ۔۔۔۔۔ ﴿قصاص کا حکم﴾
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ ۔۔۔۔۔۔ ﴿رمضان کا حکم﴾
پس جیسے رمضان فرض ہے قصاص بھی اسی طرح فرض ہے۔ قتل خطا کے سوا کسی صورت دیّت نہیں لی جا سکتی۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک امیر کبیر کسی مسکین کو قتل کردے اور مسکین کے اہل خانہ کو د...
ساری کائنات کا خالق ،مالک اور رازق اللہ تعالی ہے۔وہی اقتدار اعلی کا بلا شرکت غیرے مالک اور انسانوں کا رب رحیم وکریم ہے۔انسانوں کے لئے قوانین حیات مقرر کرنا اسی کا اختیار کلی ہے۔اس کا قانون عدل بے گناہ افراد میں اطمینان خاطر پیدا کرتا ہے اور بڑے جرائم پر اس کی مقرر کردہ سخت سزائیں مجرموں کو ارتکاب جرم سے روکنے ،انہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور دوسرے افراد کے لئے عبرت وموعظت کا سامان مہیا کرنے کا باعث ہیں۔اسلامی قانون عدل وانصاف کی ضمانت فراہم کرتا ہے،معاشرتی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور عزت وحرمت کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔انسانوں اور رب کے باہمی تعلق کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں زندگی میں وہ راحت،آرام اور آسائشیں پیدا ہوں جن کا قرآن حکیم میں بار بار وعدہ کیا گیا ہے۔جس نسل نے تخلیق پاکستان میں حصہ لیا ،اس کے لئے پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ ایک سہانا خوان اور جنت گم گشتہ کا حصول تھا۔،لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے بعد معاشرے سے فیڈ بیک ملتی ہے وہ کسی طرح حوصلہ افزاء نہیں ہے۔اس لئے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہ...
اسلام سراپا رحمت اور شفقت ہے، اس مذہب میں عدل واحسان کی بار ہا تاکید کی گئی ہے اور یہی اس مذہب کی روح ہے، ظلم وزیادتی، ناحق مارپیٹ، ستانا اور کسی کو خواہ مخواہ پریشان کرنا، اس مذہب میں جائز نہیں، اسلام کی نظر میں مرد وعورت امیر وغریب، محتاج اور غنی سب برابر ہیں، کسی کو کسی پر فو قیت حاصل نہیں؛ اس لیے کسی امیر کو غریب کے ساتھ ناروا سلوک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی صاحبِ طاقت کو بے کس اور کمزوروں پر اپنی طاقت استعمال کرنے کا حق دیا گیا ہے؛ یہاں تک کہ بے زبان جانوروں پر شفقت اور رحمت کا حکم دیا گیا ہے، رسولِ اکرم ﷺ نے اپنے مختلف ارشادات کے ذریعہ جانوروں پر ظلم وزیادتی سے منع فرمایا ہے۔جانور کو مثلہ کرنے، اس پر نشانہ بازی کرنے اور طاقت سے زیادہ بوجھ لادنے سے منع کیا ہے حتیٰ کہ س کی بھی ممانعت ہے کہ ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے؛ تاکہ اسے اپنے ذبح کیے جانے کا احساس اور اس کی تکلیف نہ ہو، اسلام میں جب ایک جانور کے ساتھ اس طرح حسنِ سلوک کی تاکید ہے تو انسان کے ساتھ رحم وکرم کی کس قدر تاکید ہو گی، انسانیت کا احترام جانور کی...
شرعی نصوص میں بیان ہونے والی سزاؤں میں ارتداد کی سزا غالباً موجودہ دور میں سب سے زیادہ زیر بحث آنے والی سزا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری سزاؤں کی طرح یہ سزا محض فروعی احکام کے دائرے تک محدود نہیں رہتی، بلکہ کفر وایمان کے حوالے سے اسلام کے اصولی تصورات اور دنیا کے دیگر مذاہب کے بارے میں اس کے زاویۂ نگاہ سے مربوط ہو جاتی ہے جو دور جدید میں سب سے زیادہ موضوع بحث بننے والے مباحث میں سے ایک ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی کو زبر دستی اسلام میں داخل نہیں کیا جا سکتا ،لیکن اگر کوئی مسلمان اسلام سے روگردانی کرتے ہوئے مرتد ہوجائے تو اس کی سزا قتل ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ : «مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ»(بخاری:3017)"جو اپنا دین(اسلام) بدل لے اسے قتل کردو۔"اور تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔لیکن دشمنان اسلام ہر وقت اسلام کی مقرر کردہ ان حدود پر شبہات واعتراضات کی بوچھاڑ جاری رکھتے ہیں اور عامۃ الناس کے قلوب واذہان میں اسلام کے خلاف شکوک پیدا کرتے رہتے ہیں۔اور یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ م...
اسلام میں چوری کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ عربی زبان میں چور کے لیے سارق کا لفظ وارد ہوا ہے اور ایسے شخص کے لیے کافی وعید آئی ہے۔ آخرت میں سخت عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی کافی سخت سزا سنائی گئی ہے۔سیدناابو ہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’چور چوری کرتے وقت مؤمن نہیں رہتا۔‘‘ زیر نظر کتاب ’’چوری کے متعلق قانون ِ الٰہی اور قانون حنفی‘‘ استاذ الاساتذہ مفسر قرآن حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ کی ایک اہم تحریر ہے ۔ حافظ صاحب نے اس کتاب میں قرآن وسنت سے چوری کی حد اور قانون حنفی کا اسے ختم کرنے باحوالہ بیان کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کو ایمان وسلامتی والی لمبی زندگی دے اور ان کی جہود کو قبول فرمائے ۔آمین(م۔ا)