عصر حاضر میں مختلف ممالک میں جو قوانین رائج ہیں اس میں عقل انسانی کا عمل دخل زیادہ ہےاور یہ وقت کے تقاضوں،رسم ورواج اور روایتوں کے ما تحت ہوتے ہیں۔جبکہ یہ امر طے شدہ ہے کہ نہ انسانی عقل کامل ہے اور نہ ہی تمام رسوم ورواج مبنی بر حقائق ہوتے ہیں۔لہذا ہوتا یہ ہے کہ ان قوانین میں وقتا فوقتا ترامیم ہوتی رہتی ہیں ۔یہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ انسانی عقل سے تیار کردہ قانون ناقص ہے۔اس کے برعکس اللہ وحدہ لاشریک نے بنی نوع انسانی پر ایک عظیم احسان یہ بھی فرمایا ہے کہ اسے ایک مکمل اور تمام نقائص سے مبرا "قانون حیات" عطا فرما دیا ہے۔جو تاقیامت انسانیت کے راہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" حدود آرڈیننس اور تہذیبی تصادم "جامعہ بنوریہ عالمیہ کے استاذ محترم مولانا نذیر احمد خان کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے الہامی قانون حیات کے کچھ پہلوؤں کو بڑی خوبصورتی سے اس انداز میں اجاگر کیا ہے کہ جس سے مغرب کے دیمک زدہ آئین وقانون کی بوسیدگی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔مولانا نذیر احمد خان(ایڈووکیٹ)ایک منجھے ہوئے قانون دان ہیں اور ایک کہنہ مشق استاذ کی حیثیت سے بھی اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔لہذا قانون اور علم کی روشنی میں الہامی قانون اور مغربی تہذیب کے تصادم کو انہوں بڑی خوبصورتی سے اس کتاب میں سمو دیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
تقریظ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان |
|
8 |
تقریظ شیخ الحدیث مفتی محمد نعیم |
|
9 |
تقریظ مولانا سیف اللہ ربانی |
|
10 |
تعریفی کلمات جناب عاقل صاحب ( ایڈووکیٹ ) |
|
11 |
اظہار خیال سیلانی کے قلم سے |
|
13 |
ایک نظر سلمان ربانی |
|
15 |
باب اول حدود آرڈینینس اور تہذیبی تصادم |
|
25 |
باب دوم حدود و تعزیرات کے اصول و ضوابط |
|
57 |
باب سوم حد زنا آرڈینینس کی دفعات میں مذکور سزائیں |
|
76 |
باب چہارم سزائے رجم ، ظالمانہ یا منصفانہ |
|
101 |
باب پنجم حد زنا آرڈینینس 1979ء ( ترجمہ ) |
|
120 |
کلمات اختتام |
|
135 |