فقہی فروعی اختلافات نئے نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے ہی آرہے ہیں۔یہ اختلافات حضرات صحابہ کرام میں بھی تھے ۔ اسی طرح تابعین عظام اور ائمہ مجتہدین میں بھی تھے ۔ مگر وہ حضرات اس کے باوجود باہم شیر و شکر تھے۔لیکن مقلدین مجتہدین کے دور میں یہ فقہی اختلافات شدت اختیار کرتے چلے گئے اور امت کے اندر انتشار و افتراق نے جنم لینا شروع کر دیا ۔ پھر وہ وقت بھی آگیا کہ یہی فقہی اختلافات باہمی کفر و فسق کی بنیاد بھی بننے لگے۔ حالانکہ اختلافات کا پیدا ہوجانا ایک فطری امر ہے لیکن تشویش ناک صورت حال اس وقت ہوتی ہے جب یہ غیر انسانی رویے اور جنگ و جدال کی شکل اختیار کرجائیں۔ زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس کا سبب تالیف یہ ہے کہ عصر حاضر کے جید عالم دین مولانا ارشاد الحق اثری صاحب نے اپنے معاصر ،دیو بندی مکتبہ فکر کے راسخ عالم دین مولانا سرفراز احمد صفدر صاحب کو ان کی تصنیفات میں وارد شدہ بعض فکری و اجتہادی مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے آئندہ ایڈیشن میں تبدیلی کی درخواست کی۔ جس پر مولاناسرفراز صفدر صاحب نے توجہ فرماکر اصلاح کرلی۔ لیکن ان...
پانی اور ہوا انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ کائنات کے وجود و بقا کے لئے خالقِ کائنات کی پیدا کردہ نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہے۔ انسان کی تخلیق سے لے کر کائنات کی تخلیق تک سبھی چیزوں میں پانی اور ہوا کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے۔ وجعلنا من الماءِ کل شیءٍ حی افلا یو منون۔ ترجمہ: اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہ لائیں گے (سورۃ انبیاء، آیت ۳۰) سی کرہِ ارض (زمین) پر جتنے بھی جاندار ہیں خواہ انسان ہوں یا دوسری مخلوق ان سب کی زندگی کی بقا پانی پر ہی منحصر (Depend) ہے۔ زمین جب مردہ ہو جاتی ہے تو آسمان سے آبِ حیات بن کر بارش ہوتی ہے اور اس طرح تمام مخلوق کے لئے زندگی کا سامان مہیا کرتی ہے۔ اللہ نے انسانوں کے لئے پانی کا انتظام مختلف طریقوں سے کر رکھا ہے۔ پانی کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر اس کی بوند بوند کی حفاظت کرنا ہرانسان کاحق ہے۔ نبی کریمﷺ نے احادیث مبارکہ میں پانی کو استعمال کرنے کے متعلق احکامات صادر فرمائے ہیں۔ کتب حدیث وفقہ میں کتاب المیاہ کےنام محدثین و فقہاء نے ابواب قائم کیے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’آبی وسائل شرعی احک...
اختلاف رائے انسانی سرشت میں داخل ہے اور کسی بھی شخصی رائے کو من وعن قبول کر لینا ناممکن ہے ۔حتی کہ شرعی مسائل میں بھی اختلاف رائے کی گنجائش باقی ہے ۔اور مختلف مسائل میں مختلف علما کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔جائز اختلاف حق ہے اور دلائل کی رو سے اختلاف کا وقوع پذیر ہونا بعید از قیاس نہیں۔نیز کتاب وسنت کے دلائل بھی بے طریق احسن وجادلہ ومباحثہ کی اجازت دیتے ہیں۔لیکن اختلاف رائے کی صورت میں فریق مخالف کو ہدف تنقید بنانا ،دشنام طرازی کا لامتناہی سلسلہ شروع کرنا اور فریق مخالف کی عزت اور خون تک کو حلال سمجھ لینا قطعاً ناجائز ہے ۔اور انتہائی سفلت اور کمینگی ہے ۔اخلاق کے دائرہ میں رہتے ہوئے ناقد کی بات سننا اپنے دفاع میں دلائل دینا،مباحثے کو خوبصورت پیرائے میں ڈھالنا اور فریق مخالف کی عزت ووقار کو ملحوظ رکھنا مباحثہ کی بہترین صورت ہے ۔زیر تبصرہ کتاب اختلاف رائے کے آداب واحکام پر مشتمل ہے ۔جس کا مطالعہ قارئین کے لیے بہترین ثابت ہو گا۔(ف۔ر)
امت محمدیہ آج جن چیزوں سے دوچار ہے ،اور آج سے پہلے بھی دو چار تھی ،ان میں اہم ترین چیز بظاہر اختلاف کا معا ملہ ہے جو امت کے افراد وجماعتوں، مذاہب وحکومتوں سب کے درمیان پایا جاتا رہا اور پایا جاتا ہے یہ اختلاف کبھی بڑھ کر ایسا ہوجاتا ہے کہ گروہ بندی تک پہنچ جاتا ہے اور یہ گروہ بندی باہمی دشمنی تک اور پھر جنگ وجدال تک ذریعہ بنتی ہے ۔اور یہ چیزیں اکثر دینی رنگ وعنوان بھی اختیار کر لیتی ہیں جس کے لیے نصوصِ وحی میں توجیہ وتاویل سے کام لیا جاتا ہے ، یا امت کے سلف صالح صحابہ وعلماء واصحاب مذاہب کے معاملات وحالات سے استناد حاصل کیا جاتا ہے ۔اور اختلاف اساسی طورپر دین کی رو سے کوئی منکر چیز نہیں ہے ،بلکہ وہ ایک مشروع چیز ہے جس پر کتاب وسنت کے بے شمار دلائل موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ اختلاف رائے احکام وآدا ب‘‘ فضلیۃ الشیخ دکتور سلمان فہد عودہ کی عربی تصنیف ’’ فقہ الاختلاف ولا یزالون مختلفین‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔مؤلف موصوف نے اس کتاب میں اساسی حیثیت سے اختلاف کی شرعی نوعیت کا تذکرہ کیا ہے ، اور اس کو کتاب وسن...
شریعت اسلامی انسانیت کے لئے اللہ تعالی کا ہدایت نامہ ہے ،جس میں زندگی کے تمام مسائل کے بارے میں تفصیلی یا اجمالی راہنمائی موجود ہے۔شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں ،جو یقینی ذرائع سے ثابت ہیں،اور الفاظ وتعبیرات کے اعتبار سے اس قدر واضح ہیں کہ ان میں کسی دوسرے معنی ومفہوم کا کوئی احتمال نہیں ہے۔ان کو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ کہا جاتا ہے،اور شریعت کے بیشتر احکام اسی نوعیت کے ہیں۔جبکہ بعض احکام ہمیں ایسی دلیلوں سے ملتے ہیں،جن کے سندا صحیح ہونے کا یقین نہیں کیا جا سکتا ہے،یا ان میں متعدد معانی کا احتمال ہوتا ہے۔اسی طرح بعض مسائل قیاس پر مبنی ہوتے ہیں اور ان میں قیاس کی بعض جہتیں پائی جاتی ہیں۔تو ایسے مسائل میں اہل علم اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق فتوی دیتے ہیں،جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اہل علم اور ائمہ کرام کے ان اختلافات اور اجتہادی آراء کا شرعی حکم کیا ہے۔زیر تبصرہ کتاب " اختلافات ائمہ کی شرعی حیثیت "ایفا پبلیکیشنز دہلی انڈیا کی مطبوعہ ہے،جس میں اسی اہم ترین موضوع پر منعقد سیمینار میں پیش کئے گئے مقالات کو جمع کر د...
جن دین اسلام کی صداقت وحقانیت کا موضوع زیر بحث آتا ہے تو اکثر یہ شبہ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ دین اختلافات ومجالات کی جولانگاہ ہے۔اس میں مختلف فرق ومذاہب پائے جاتے ہیں،ان میں کس کو اختیار کیا جائے اور کس کو ترک کیا جائے؟اعداء دین کی طرف سے تو اس شبہ کا ذکر وبیان چنداں حیرت خیز نہیں۔مگر مقام افسوس ہے کہ عصر حاضر میں نام نہاد مسلم اس شبہ کی آڑ میں سرے سے دین حنیف ہی سے کنارہ کشی کا جواز تلاش کرنے لگے ہیں۔حالانکہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دور کے اکثر مذاہب میں اس قدر اصولی واساسی نزاعات پائے جاتے ہیں اور ان میں تفرقہ بازی کی اس قدر بھر مار ہے کہ ایک فریق دوسرے کو اس مذہب سے خارج کئے بغیر دوسری کسی بات پر مطمئن نہیں ہوتا۔یہودی ،عیسائی ،ہندو اور موجودہ دور کے دیگر مذاہب اس کی بہترین مثال ہیں۔عیسائیوں کے دو مشہور فرقوں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی باہم نبرد آزمائی اور معرکہ آرائی تو تاریخ عالم کی مشہور داستان ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"اسباب اختلاف الفقہاء"سعودی عرب کے معروف عالم دین امام محمد بن سعود یونیورسٹی ریاض کے چانسلر ڈاکٹر عبد اللہ ...
زیر تبصرہ کتاب دراصل شیخ محمد عوامہ کی تصنیف "اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الفقہاء" ، جس کا خلاصہ دیوبندی آرگن ماہنامہ بینات میں شائع ہوا ، کے جواب میں تحریر کی گئی ہے۔ شیخ عوامہ نے اپنی کتاب میں ائمہ فقہاء کےاختلافات کے حقیقی عوامل بیان کرنے کے بجائے درحقیقت محدثین کرام رحمہم اللہ کے اس عام تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ میں حفظ و ضبط کی کمی تھی اور وہ دوسرے ائمہ حدیث کی نسبت حدیث کا کم علم رکھتے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے ائمہ حدیث کے بارے میں اپنے روایتی عناد کا مظاہرہ بھی کیا ۔ ان کی انہی بے اصولیوں کا جائزہ اس کتاب میں لیا گیا ہے ۔ جب قرآن ایک، نبی ایک، قبلہ ایک، دین ایک ۔۔ پھر امت میں اتنے اختلافات کیوں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے متمنی ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ یقیناً بصیرت مہیا کرے گا۔ چونکہ یہ ایک دقیق علمی موضوع ہے۔ اس لئے عام حضرات کیلئے یہ کتاب تفہیم کے لحاظ سے کچھ مشکل ہو سکتی ہے۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہم اپنے قارئین سے درخواست کریں گے کہ وہ پھر بھی اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔آج روئے زمین پر واحد دین اسلام ہے جو اپنی اصل حالت میں باقی ہے جس کی تعلیمات زندہ ہیں جس کے مآخذ دستیاب ہیں اور جس کے پاس نبی کریم محمد رسول اللہ جیسی ہستی نمونہ عمل کے لیے ہے ۔ انسانی اذہان کے پیدا شدہ افکار ونظریات دم توڑ چکے ہیں اور اب آنے والا دور اسلام کا دور ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا فیصلہ آنے والی تاریخ کرے گی۔یورپ اور امریکا جیسی مادیت پرست دنیا میں اسلام کی روز افزوں ترقی اس کا واضح ثبوت ہے ۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے،اسلام کاجس طرح اپنانظامِ معیشت ہے اوراپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنانظامِ سیاست وحکومت ہے،اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ اسلام اور جدید فکری مسائل ‘‘ مولانا خالد سیف رحمانی کی کاوش ہے۔ جس میں انہوں نے اسلام اور شریعت اسلامی سے متعلق ملکی و عالمی سطح پر پھیلی ہوئی غلط فہمیوں اور پروپیگن...
نماز دین کا ستون ہے۔نماز جنت کی کنجی ہے۔نماز مومن کی معراج ہے۔ نمازمومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔نماز قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز اﷲ تعالیٰ کی رضا کاباعث ہے۔نماز پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔ اقرار شہادتین کے بعد جو سب سے پہلا حکم اللہ تعالیٰ کا اس پر عائد ہوتا ہے، وہ پانچ وقت کی نماز قائم کرنا ہے۔اور نماز کی قبولیت کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی نماز کے موافق ہو۔نماز کے مختلف فیہ مسا ئل میں سے ایک مسئلہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنےیا چھوڑنے کا ہے۔بعض اہل علم کے خیال ہے کہ رکوع سے پہلے والے قیام کی طرح رکوع کے بعد والے قیام میں بھی ہاتھ باندھے جائیں گے جبکہ بعض کا خیال ہےکہ رکوع کے بعد ہاتھ نہیں باندھے جائیں گے،بلکہ کھلے چھوڑ دئیے جائیں گے۔ زیر تبصرہ کتاب" الاعلام بجواب رفع الابھام وتایید الدلیل التام " پاکستان کے معروف عالم دین محترم مولانا شاہ بدیع الدین راشدی صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا موقف اختیار کیا ہے اور اس پر متعدد دلائل دئیے ہیں۔ یہ کتاب انہوں نے...
اسلام نے بڑے صاف اور واضح انداز میں حلال اور حرام کے مشکل ترین مسائل کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے اس کے لیے کچھ قواعد و ضوابط بھی مقرر فرمائے ہیں جو راہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں ایک مومن مسلما ن کے لیے ضروری ہے کہ تاحیات پیش آمدہ حوائج و ضروریات کو اسی اصول پر پر کھے تاکہ اس کا معیار زندگی اللہ اور اس کے رسول کریم ﷺ کی منشا کے مطابق بن کر دائمی بشارتوں سے بہر ہ ور ہو سکے۔ سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ جو مال اس کے ہاتھ آیا ہے وہ حلا ل ہے یا حرام (بخاری:2059) دور حاضر میں مال حرام کمانے کی بہت سی ناجائز شکلیں عام ہو چکی ہیں اور لوگ ان کے حرام یا حلال ہونے کے متعلق جانے بغیر انہیں جائز سمجھ کر اختیار کرتے جا رہے ہیں۔جن میں انعامی سکیمیں، لاٹری، انشورنس، اور مکان گروی رکھنے کی مروجہ صورت وغیرہ ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب"انشورنس ایک شرعی مطالعہ"محترم ڈاکٹر مصطفی احمد الزرقاء کلیۃ الشریعۃ، اردن یونیورسٹی کی عربی تصنیف کا اردو ترجمہ ہے۔ اردو ترجمہ محترم الیاس نع...
یہ ایک حقیقت ہےکہ موجودہ دور تیز رفتار سیاسی تبدیلیوں،معاشی انقلابات اور وسائل و ذرائع کی ایجادات کا ہے۔اس لئے اس عہد میں مسائل بھی زیادہ پیش آتےہیں،چنانچہ ماضی قریب میں مختلف اسلامی ممالک میں اس مقصد کے لئے فقہ اکیڈمیوں کاقیام عمل میں آیا، جدید مسائل کو حل کرنے میں ان کی خدمات بہت ہی عظیم الشان اورقابل تحسین ہیں، اس سلسلہ کی ایک کڑی انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی ( جدہ) بھی ہےجوکہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم OIC کے تحت 1983ء میں جدہ میں قائم ہوئی۔اس اکیڈمی کے تحت اب تک مختلف ممالک میں تقریباً 19 سیمینار ہوچکے ہیں ۔ان سیمیناروں میں مجموعی اعتبار سے 133 معاشی ،معاشرتی، طبی اور اجتماعی مسائل پر بحث ہوچکی ہے اور اس کے فیصلے پوری دنیا میں قدر و وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب بھی انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی (جدہ) کے تحت ہونے والا سیمینار زمیں عصر حاضر کے جدید معاشی،طبی،معاشرتی وسیاسی اور سائنسی مسائل کے بارے میں علمائے عالم اسلام کے شرعی فیصلے اور سفارشات پر مشتمل ہے ۔ جسے اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) نے مولانا مفتی محمد فہیم اخترندوی (انچارج علمی امور اس...
فی زمانہ نفاذ شریعت کی کوششوں کے ذیل میں یہ سوال سنجیدگی سے سامنے آ رہا ہے کہ جن مسائل سے متعلق قرآن و حدیث میں واضح نصوص موجود ہیں لیکن موجودہ حالات میں ان پر عمل میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں تو کیا ان کو بعینہ تسلیم کر لیا جائے یا حالات کے مطابق ان میں ترمیم و اضافہ ممکن ہے؟ اس وقت آپ کے سامنے حافظ طاہر اسلام عسکری صاحب کامل محنت اور جانفشانی کے ساتھ لکھا جانے والا ایم۔فل کا مقالہ ہے۔ جو کہ بنیادی طور پر اسی سوال کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیاہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے تین طبقات کا تذکرہ کیاہے۔ پہلا طبقہ وہ ہے جو قرآن و حدیث کے منصوص احکام کو غیر متبدل مانتے ہیں۔ دوسری طبقہ جدت پسندوں کا ہے جن کے مطابق سیاست، معیشت اور معاشرت سے متعلقہ اسلامی حدود وضوابط کو عصری تقاضوں کے پیش نظر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں تیسرا طبقہ ان علما کا ہے جو عقائد و عبادات میں تو کسی تبدیلی کے قائل نہیں ہیں لیکن حالات کے تحت معاملات سے متعلقہ احکام میں تبدیلی کی حمایت کرتے ہیں۔ محترم حافظ صاحب نے اس قسم کے تمام خیالات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے اجتہاد کا درست تصور اور اس کا دائر...
نبی کریم دین کامل لے کر آئے اور آپ نے اسے کامل و اکمل ترین حالت میں امت تک پہنچا دیا ۔آپ نے اس میں نہ تو کوئی کمی کی اور نہ ہی زیادتی کی ،بلکہ اللہ نے جو پیغام دیا تھا اسے امانت داری کے ساتھ اللہ کے بندوں تک پہنچا دیا۔اب اگر کوئی شخص دین میں ایسی نئی چیز لاتا ہے جو آپ سے ثابت نہیں ہے تو وہ بدعت ہوگی ،اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی انسان کو جہنم میں لے جانے والی ہے۔امت مسلمہ آج بے شمارسنتوں کو چھوڑ کر من گھڑت رسوم ورواجات اور بدعات میں پڑی ہوئی ہے۔اور اس امر کی بڑی شدید ضرورت ہے کہ بدعات کی جگہ مردہ ہوجانے والی سنتوں کو زندہ کیا جائے،اور لوگوں کی درست طریقے سے راہنمائی کی جائے۔ہمارے معاشرے میں پھیلی بے شمار بدعات میں سے ایک بدعت نبی کریم ﷺ کا نام مبارک آنے پر انگوٹھوں کو چومنا ہے جس کا اسلام ،شریعت ،نبی کریم ،صحابہ کرام،تابعین اور تبع تابعین ومحدثین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ نبی کریم کی وفات کے بعد گھڑی گئی ہے۔ زیر نظر کتاب " تذکیر الثقلین برد تقبیل الابہامین"محترم مولانا محمد رفیق خاں صاحب خطیب جا...
احکام شریعت کے فہم صحیح کو تفقہ کہتے ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی فہم صحیح عطا فرماتے ہیں۔دین کے فہم صحیح کے لئے ضروری ہے کہ فقیہ کا ایک طرف خالق کائنات سے اس کا رشتہ استوار ہو، دوسری طرف وہ خلق اللہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے آگاہ ہو۔وہ کتاب وسنت کا غواص بھی ہو اور اپنے عہد کے تقاضوں سے باخبر اور سماج کا نباض بھی ہو۔ دنیا میں ہمیشہ تغیرات اور تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔کبھی کوئی ایسا دور نہیں گزرا کہ اس عالم میں جمود طاری ہو گیا ہو۔انسان کی ساری تاریخ انقلاب اور تغیرات سے بھری پڑی ہے۔لیکن موجودہ صدی میں تغیرات اور تبدیلیوں کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ان تغیرات وتبدیلیوں نے امت مسلمہ کو ایک چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ایسا چیلنج جس کا تعلق براہ راست فقہ اسلامی کے احیاء اور تدوین نو سے ہے۔اس چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لئے جہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ جدید تمدنی مسائل کا حل کتاب وسنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے تلاش کیا جائے وہیں جدید اسلوب کے مطابق فقہی کتب کی تدوین واشاعت کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے۔اس...
شرعی اعتبار سے کسی غیرمسلم کا مسلمانوں کی مساجد میں (سوائے مسجد حرام کے)داخل ہونا جائز ہے ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ثمامہ بن اثال کو اسلام لانے سے پہلے مسجد نبوی میں رسی سے باندھ دیا تھا۔ اسی طرح ثقیف اور نجران کا وفد اسلام لانے سے پہلے مسجد میں داخل ہواتھا۔ اگر ساتھ میں انہیں مسجد کے آداب بتا دئیے جائیں توزیادہ بہتر ہے تاکہ وہ مسجد کے تقدس کی پامالی نہ کرے مثلا ساتر لباس پہن کر مسجد آنا، مسجد میں گندگی نہ پھیلانا، یہاں گندی بات نہ کرنا وغیرہ ۔ اور رہی بات مسجد کے تقدس کی تو مسجد کا تقدس ہر حال میں قائم رکھنا چاہیے وہ مسلم کے لیے ہو یا غیر مسلم کے لیے ، اللہ کے گھروں میں پاکیزگی اور قرآن و شریعت کے دائرے کو مدعوکار رکھتے ہوئے داخل ہونا چاہیے۔شرعی طور پر مقبول ضروریات میں عمومی طور پر درج ذیل ضروریات ہیں ۔ اسلام کی طرف رغبت دلانے کے لیے کسی کافر کو مسجد میں داخل کرنا ، اور رکھنا ،مسلمان امام ، یا قاضی سے اپنے فیصلے کروانے کے لیے کافر کا مسجد میں داخل ہونا،مسلمان امام ، یا قاضی ، یا حاکم سے ملاقات کے لیے کافر کا مسجد میں داخل ہونا،لیکن اس بات...
جدید صنعتی اور فکری انقلاب نے جو بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں ان میں ایک جدید دور میں پیدا ہونے والے مسائل کا فقہی اور شرعی حل بھی ہے ۔ جو جدید ایجادات اور نئے معاملات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ان مسائل کا حل کرنا ایک مشکل اور دشوار کام ہے ۔ اس لئے کہ ان کے لیے قرآن و حدیث اور فقہ کے قدیم ذخیرہ میں ان کی نظائر اور ان سے قریب ترین صورتیں تلاش کرنی ہوتی ہیں ۔ احکام کی علتوں اور اسباب پر غور کرنا ہوتا ہے ۔ اور اپنے زمانہ کے عرف اور رواج کو بھی سامنے رکھنا پڑتا ہے ۔ اس مشکل اور دشوار کام کو حل کرنا علما کے ذمہ ہے ۔ اور وہی ان کے صحیح حل تلاش کرنے کے اہل ہیں ۔ چناچہ ہر زمانہ کے اہل علم اور اہل افتا نے اپنے اپنے دور کے مسائل حل کیے ہیں ۔ موجودہ دور میں بھی ایسی متعدد کوششیں ہو چکی ہیں ۔ زیر نظرکتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ مؤلف نے ایسے تمام جدید مسائل کو جن کا تعلق عبادات ، معاشرت اور معاملات اور اجتماعی مسائل سے ہے یکجا کر دیا ہے ۔ اور نہائت اختصار و ایجاز کے ساتھ ، سہل ، عام فہم زبان اور دل نشین اسلوب میں مسائل پر گفتگو کی ہے اور ہر مسلہ مس...
اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت کی شکل میں دینِ اسلام کو قیامت تک کے لیے محفوظ فرماکر معیار ہدایت مقرر کردیا ہے اور قرآن وسنت کے احکام میں اتنی وسعت اور لچک رکھی ہے کہ یہ تاقیامت پیش آنے والے مسائل میں امت ِ مسلمہ کی رہنمائی کرسکیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کے لیے کھلا رکھا گیا ہے۔ عصر حاضر میں امت مسلمہ کو بے شمار نئے مسائل کا سامنا ہے ان پیدا ہونے والے نئے مسا ئل کے حل کےلیے قرآن وسنت سے براہِ راست اجتہاد کے حوالے سے اہل علم افراط وتفریط کا شکار ہیں ۔جدید فقہی مسائل کے حوالے سے مختلف اہل علم اوربالخصوص فقہ اکیڈمی انڈیا کی کتب قابل ذکر ہیں ۔زیر نظر کتاب ’’جدید فقہی مسائل ‘‘ ڈاکٹر حافظ مبشر حسین لاہوری﷾ (ریسرچ سکالر ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد) کی تالیف ہے ۔جس میں انہوں نے جدید فقہی مسائل کے حل کےلیے تمام فقہی&n...
وحدت و اتحاد ایک ایسی ضرورت ہے جس کی طرف اسلام باربار دعوت دیتا ہے اور تاکید کرتاہے کہ جس امت کادین ایک، دینی شعائر ایک، شریعت و قانون ایک، منزل ایک اور خدا و رسول ایک ہو، اسے بہرحال خود بھی ایک ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے جہاں امت کو ایک ہوکر اللہ کی رسی کو پکڑنے کی تاکید کی ہے اور افتراق و انتشار سے روکا ہے، وہاں خطاب واحد کے بجائے جمع کے صیغوں سے کیاہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر فرد جزو امت ہے وہ کسی صورت میں امت سے جدا نہیں ہوسکتا ہے۔ وحدت امت کی فرضیت، اہمیت اور ضرورت کی اس سے بڑی دلیل اور کیاہوسکتی ہے کہ شریعتِ اسلام نے امت کو دن میں پانچ بار جمع ہوکر نماز قائم کرنے کاحکم دیا، پھر ہفتہ میں ایک بار اس سے بڑے اجتماع کے لئے جمعہ کو فرض قرار دیا اور پھر نماز عید کی شکل میں سالانہ اجتماع کا اہتمام کیا اور تاکید کی کہ یہ اجتماع آبادی سے نکل کر کھلے میدان میں منعقد ہو اور مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی اس میں شرکت کی ترغیب دی پھر اس سے بڑا اہتمام یہ کیاکہ فرضیت حج کے ذریعہ مشرق و مغرب، جنوب شمال اور دنیا کے اطراف و اکناف میں بسنے والی امت کو ایک م...
خاندان کے لغوی معنی ہیں، گھرانہ، قبیلہ، کنبہ۔ خاندان سے مراد افراد کا ایسا منظم گروہ ہے، جسکا آغاز تعلق ازواج میں منسلک دو افراد (یعنی میاں بیوی) سے ہوتا ہے۔ اور پھر ان کی نسل بڑھنے سے انسانی رشتوں اور تعلقات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور یوں خاندانی کی حدود میں وسعت آجاتی ہے۔ دنیا میں پہلے خاندان کا آغاز ابو البشر حضرت آدم ؑ اور ان کے جوڑے حضرت حوا سے ہوا۔ جو اصل میں انسانی معاشرے کا سنگ بنیاد ہے۔ منصوبہ بندی کے معنی ہیں تجویز کرنا، تدبیر کرنا،خاکہ یا نقشہ بنانا۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ تحدید خاندان۔ اصطلاح میں خاندانی منصوبہ بندی سے مرادکنبہ کی پرورش کا وہ طریقہ جس میں بچوں کی تعداد پر نظر رکھی جائے تاکہ ملکی آبادی بے تکان نہ بڑھے، خاندانی منصوبہ بندی ضبط ولادت کا دوسرا نام نہیں بلکہ اسمیں ہر وہ عمل اور کوشش شامل ہے جو زوجین کو خاندان کی حدود میں سکون اور تشفیات کا سامان کرے۔ ماں کی صحت اور خاندان میں توازن برقرار رکھنے کے لیے بچوں کی پیدائش میں وقفہ کا انتظام کرنا، مانع حمل تدابیر کے ذریعے بچوں کی پیدائش کو روکنا اور ادویات اور میکانکی طریقے سے رضاکا...
شریعت اسلامیہ میں سفید بالوں کو خضاب لگانے کو جائز قرار دیا گیاہے۔بشرطیکہ وہ کالے کے علاوہ کوئی رنگ ہو۔سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا:'' بڑھاپے کی سفیدی کو بدل دو، یہود جیسے نہ بنو۔''کالے خضاب کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ شوافع عام حالات میں اسے حرام قرار دیتے ہیں۔ مالکیہ، حنابلہ اور احناف اسے حرام تو نہیں البتہ مکروہ کہتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد قاضی ابو یوسفؒ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: ''بعض علما نے سیاہ خضاب کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔'' (ابن حجر، فتح الباری، دار المعرفہ، بیروت، ١٠/ ٣٥٤) ایک قول حضرت عمر بن الخطابؒ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ کالا خضاب استعمال کرنے کا حکم دیتے تھے۔ (عبد الرحمن مبارک پوری، تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی، طبع دیو بند، ٥/ ٣٥٦)۔ متعدد صحابۂ کرام سے بھی اس کا استعمال ثابت ہے، مثلاً حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت جریر بن عبد اللہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت عقبہ بن عامرؓ، حضرت عب...
امت میں اختلاف کا ہونا ناگزیر ہے، ہر دور میں ہوتا آیاہے اور ہوتا رہے گا، حقیقت میں یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظاہرہ ہے اس کو کوئی مٹانے کے درپے ہوتو بھی مٹ نہیں سکتا، یہ الگ بات ہے کہ ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے اور نہ ہی ہر اختلاف محمود ہوسکتا، وہ اختلاف جس کا منشاء وسبب قبیح ہو وہ اختلاف یقینا مذموم ہے، اختلاف خواہ مذموم ہو یا محمود اس کے حدود سے تجاوز کرنا اور مخالفین کے ساتھ اعتدال سے ہٹ کر افراط وتفریط کا معاملہ کرنا جائز نہیں۔ فقہی مباحث میں جو کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اس کا اکثر حصہ افضلیت و اولیت پر مبنی ہےایک نوع فروعی واجتہادی اختلاف کی ہے، یہ اختلاف محمود ہے۔ جس طرح انبیاء کی شریعتیں الگ الگ رہی ہیں، فروعی مسائل میں ہر مجتہد کی آراء مختلف ہوئی ہیں، کسی کو باطل نہیں کہا جاسکتا، اس قسم کا اختلاف امت کی آسانی کے لیے ہے۔ زیر نظر کتابچہ’’خلاف الامۃ فی العبادات‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا ایک اہم رسالہ ہے ۔امام موصوف نے اس میں اختلافات امت کے اسباب وعلل پر نہایت گراں قدر تحریری سرمایہ محفوظ کردیا ہے...
دور حاضر میں ایک اہم ترین مسئلہ بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آیا قرآن وسنت کی تعلیم دینے پر حاصل کیا جانے والا وظیفہ کس نوعیت سے تعلق رکھتا ہے؟آیا کہ ایک معلم شریعیت کے لیے اس کا لینا جواز رکھتا ہے یا نہیں؟جدید دور کے ایک نوزائیدہ گروہ (جسے عرف عام میں توحیدی گروہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) کے نزدیک دینی امور مثلاً امامت، قرآن پڑھانے وغیرہ پر اجرت لینا شرعی تعلیمات کے خلاف اور حرام ہے۔ ان کی طرف سے اس سلسلے میں ذہن سازی کیلئے مفت اردو لٹریچر تقسیم کیا جا رہا ہے۔فاضل مؤلف نے ان کے اس دعوی کے بطلان پر کتاب و سنت کی روشنی میں دلائل پیش کئے ہیں اور اس گروہ کی طرف سے پیش کئے جانے والے اعتراضات کے بھرپور جوابات دیے ہیں۔
اسلامی کلینڈر میں سن ہجری کو بنیاد بنا کر قمری تقویم بنائی گئی جو کہ عین فطرتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے مہینوں کی تعداد کو بھی چاند کے ساتھ منسلک کیا ہے نا کہ سورج کے ساتھ ۔اس لیے شرعی احکامات پر جب طائرانہ نظر دوڑائی جاتی ہے تو تمام شرعی معاملات جن کا تعلق تاریخ بندی سے ہوتا ہے ان کی ادائیگی قمری کلینڈر سے ہی ممکن ہے عیسوی سے ناممکن ہے۔جیسے رمضان کے روزے ہوں یا عید الفطرو عیدالاضحیٰ،ادائیگی زکوۃ کا مسئلہ ہو یا ایام حج کا گویا کہ بہت ساری فرضی اور نفلی عبادات قمری کلینڈر کے بغیر ناممکن ہیں۔لیکن بنیادی مشکل جو آج کے دور میں نظر آتی ہے وہ اختلاف مطالع کی وجہ سے لوگوں کا متذبذب اور مشکوک ذہن ہے کہ یہ کیا سلسلہ ہے کہ ایک ہی اسلامی تہوار میں اسلامی دنیا میں یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ زیر تبصرہ کتاب’’ رؤیت ہلال مشاہدہ یا نظام فلکیات بر اعتماد؟‘‘ مولانا ابو کلیم مقصود الحسن فیضی کی ہے ۔ اس کتابچہ میں اس حساسیت کو شریعت کی روشنی میں پیش کیا ہے کہ اختلاف مطالع کی باقاعدہ شرعی حیثیت ہے،رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور صحابہ کے دور میں بھی کئی مطالع کا ثبوت پ...
انسانی دنیا میں اختلاف کا پایا جانا ایک مسلمہ بات ہے ۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق میں ایک سنت۔ چنانچہ لوگ اپنے رنگ وزبان اور طبیعت وادراکات اور معارف وعقول اور شکل وصورت میں باہم مختلف ہیں ۔امت محمدیہ آج جن چیزوں سے دوچار ہے ،اور آج سے پہلے بھی دو چار تھی ،ان میں اہم ترین چیز بظاہر اختلاف کا معا ملہ ہے جو امت کے افراد وجماعتوں، مذاہب وحکومتوں سب کے درمیان پایا جاتا رہا اور پایا جاتا ہے یہ اختلاف کبھی بڑھ کر ایسا ہوجاتا ہے کہ گروہ بندی تک پہنچ جاتا ہے اور یہ گروہ بندی باہمی دشمنی تک اور پھر جنگ وجدال تک ذریعہ بنتی ہے ۔اور یہ چیزیں اکثر دینی رنگ وعنوان بھی اختیار کر لیتی ہیں جس کے لیے نصوصِ وحی میں توجیہ وتاویل سے کام لیا جاتا ہے ، یا امت کے سلف صالح صحابہ وعلماء واصحاب مذاہب کے معاملات وحالات سے استناد حاصل کیا جاتا ہے ۔اور اختلاف اساسی طورپر دین کی رو سے کوئی منکر چیز نہیں ہے ،بلکہ وہ ایک مشروع چیز ہے جس پر کتاب وسنت کے بے شمار دلائل موجود ہیں۔علم الاختلاف سے مراد ان مسائل کا علم ہے جن میں اجتہاد جاری ہوتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ سلیقۂ اختل...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،اس کی تعلیمات انسانی فطرت کے مطابق اور اس سے ہم آہنگ ہیں،اور اپنے اندر بے پناہ جامعیت ،ہمہ گیری اور عالمگیریت رکھنے کے سبب ہر دم رواں ،پیہم دواں زندگی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔زندگی کے عملی احکام عبادات ،معاملات ،معاشرتی اور مالیاتی قوانین،اجتماعی اور تعزیری احکام،وہ امور ہیں ،جن میں حالات وزمانہ کی تبدیلی ،اور عرف وعادت کے تغیر کی وجہ سےبہت کچھ تبدیلی بھی روا رکھی جاتی ہے۔اور اجتہاد کے ذریعے پیش آمدہ مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔ کتاب کے مؤلف مولانا بدر الحسن القاسمی دار العلوم دیو بند کے فاضل ،ایک ذہین،بالغ نظر اور باخبر عالم ہیں۔آپ کو فقہ اسلامی اور جدید علم کلام سے خصوصی دلچسپی ہے۔آپ نے اس کتاب میں جدید فقہی مسائل کو دلائل کے ساتھ بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ،اوراجتہادی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر مسئلہ میں راجح موقف کو بیان کرنے کی زبر دست کوشش کی ہے،آپ سے اختلاف رائے تو ہو سکتا ہے ،مگر آپ نے تحقیق کا جو معیار قائم کیا ہے وہ ایک مثالی اور منفرد ہے۔(راسخ)