موت ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس سےدوچار ہونا اوراس کا تلخ جام پینا ضروری ہے یہ یقین ہر قسم کےکھٹکے وشبہے سے بالا تر ہے کیونکہ جب سے دنیا قائم ہے کسی نفس وجان نے موت سے چھٹکارا نہیں پایا ہے۔کسی بھی جاندار کے جسم سے روح نکلنے اور جداہونے کا نام موت ہے۔ہر انسان خواہ کسی مذہب سے وابستہ ہو یا نہ ہو اللہ یا غیر اللہ کو معبود مانتا ہو یا نہ مانتا ہو اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرتا ہےکہ اس کی دنیا وی زندگی عارضی وفانی ہےایک روز سب کو کچھ چھوڑ کر اس کو موت کا تلخ جام پینا ہے گویا موت زندگی کی ایسی ریٹائرمنٹ ہےجس کےلیے کسی عمر کی قید نہیں ہے اور اس کےلیے ماہ وسال کی جو مدت مقرر ہے وہ غیر معلوم ہے۔یہ دنیاوی زندگی ایک سفر ہے جوعالم بقا کی طرف رواں دواں ہے ۔ ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے ۔ عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں ، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہماری اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت...
عقیدہ عذاب قبر قرآن مجید،احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔جس طرح دنیا میں آنے کے لئے ماں کا پیٹ پہلی منزل ہے،اور اس کی کیفیات دنیا کی زندگی سے مختلف ہیں،بعینہ اس دنیا سے اخروی زندگی کی طرف منتقل ہونے کے اعتبار سے قبر کا مقام اور درجہ ہے،اوراس کی کیفیات کو ہم دنیا کی زندگی پر قیاس نہیں کر سکتے ہیں۔اہل وسنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر بر حق ہے اور اس پر کتاب وسنت کی بہت سی براہین واضح دلالت کرتی ہیں لیکن اسلام کی خانہ زاد تشریح پیش کرنے والے بعض افراد قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے سر مو انحراف کرتے ہوئے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کا انکار کر دیتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’عذاب قبر کی حقیقت‘‘ شیخ العجم والعرب سید بدیع الدین شاہ راشدی کا عقیدہ عذاب کے متعلق شاندار رسالہ ہے یہ رسالہ انہوں نے ہندوستان کے شہر جودھپور کے ایک مولوی کا عذاب قبر کے متعلق تحریر کردہ رسالہ بنام ’’ الجزاء بعد القضاء ‘‘ کے جواب میں تحریر کیا ۔ الجزاء بد القضاء کے مصنف نے اپنے اس رسالہ میں عقیدہ عذاب قبر کےسلسلہ میں قرآن وسنت کے صریح نصو...
روح اور بدن کی جدائی کا نام موت ہے۔ موت عالم دنیا سے عالم آخرت میں داخلے کا ذریعہ ہے،جہاں سے انسان کی ابدی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ عالم آخرت کے دو مرحلے ہیں ایک عالم برزخ ،یعنی موت سے لے کر حساب وکتاب کےلیے دوبارہ اٹھائےجانے تک، اور دوسرا مرحلہ دوبارہ اٹھائے جانے کے بعد یعنی عالم حشر سے شروع ہوگا۔ عالم برزخ میں ملنے والی سزا کو عذاب قبر کہا جاتا ہے۔ عقیدہ عذاب قبر اس قدر اہم ہے کہ اس پر بڑے بڑے محدثین اور آئمہ کرام رحمہم اللہ اجمعین نے باقاعدہ کتب تالیف فرمائی ہیں۔ جیسا کہ امام بیہقی نے ’’ اثبات عذاب قبر‘‘ امام ابن ابی الدنیا نے ’’کتاب القبول اور کتاب الاہوال‘‘ امام قرطبی نے ’’التذکرہ‘‘ امام ابن رجب نے ’’اھوال القبور ‘‘ امام ابن قیم نے ’’ کتاب الروح‘‘ اورامام جلال الدین سیوطی نے ’’ شرح الصدور‘‘ جیسی گراں قدر کتب تالیف فرمائیں۔ مگر عقلی گمراہیوں میں مستغرق بعض بے دین حضرات نے محض اس وجہ سے عذاب ق...
انسانی زندگی کے آخری لمحات کوزندگی کے درد انگیز خلاصے سے تعبیر کیا جاتا ہے اس وقت بچپن سےلے کر اس آخری لمحے کےتمام بھلے اور برے اعمال پردۂ سکرین کی طرح آنکھوں کے سامنے نمودار ہونے لگتے ہیں ان اعمال کے مناظر کو دیکھ کر کبھی تو بے ساختہ انسان کی زبان سےدررد وعبرت کےچند جملے نکل جاتے ہیں اور کبھی یاس وحسرت کےچند آنسوں آنکھ سےٹپک پڑتے ہیں ۔کتاب ہذا کے مصنف ابواکلام آزاد کا نام برصغیر کی تاریخ میں سیاست،مذہب اور ادب کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔وہ ایک بلند پایہ ادیب،زیرک سیاستدان اور باعمل مذہبی سکالر اور رہنما تھے۔ ان کے شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ زیر نظر کتاب’’انسانیت موت کےدروازے پر‘‘ میں انہوں نے انسانی زندگی کی فنا پذیری اور موت کو موضوع بنایا ہے۔انسانیت موت کی دہلیزپر میں انہوں نے انسانی تاریخ کی مشہور شخصیات کی کیفیات اور آخری کلمات بیان کیے ہیں جو انہوں نے مرتے وقت ادا کیے تھے۔موت سے کسی کو مفر نہیں اور قرآن کے مطابق ہر جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔چنانچہ بحیثیت مسلمان ہم سب کو آخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔یہ کتا...
زندگی ایک سفر ہے اور انسان عالم بقا کی طرف رواں دواں ہے ۔ ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے ۔ عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں ، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہماری اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت ہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ داری سونپ کر ایک محدود وقت کیلئے اس سفر پر روانہ کیا ہے ۔ عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم اپنے ہی گھر واپس جائیں کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جانے والوں کو کوئی بھی دانا نہیں کہتا۔انسان کوسونپی گئی ذمہ داری اورانسانی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔ انسان زندگی کے آخری لمحات کو زندگی کے درد انگیز خلاصے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اس وقت بچپن سے لے کر آخری لمحہ تک کےتمام بھلے اور برے اعمال پردۂ سکرین کی طرح آنکھوں کے سامنے نمودار ہونے لگتے ہیں ان اعمال کے مناظر کودیکھ کر کبھی توبے ساختہ انسان کی زبان سے درد وعبرت کےچند جملے...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔ اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔ اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام کی انہی روشن تعلیمات میں سے ایک اہم مسئلہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے ورثاء کے لئے کوئی وصیت کرنا بھی ہے۔انبیاء کرام کا یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ اپنے لمحات میں اپنی اولاد کو نیکی اور اطاعت الہی کی وصیتیں کرتے تھے۔ زیر تبصرہ کتاب"ایک باپ کا اپنے آخری لمحات میں اپنے بی...
اللہ تعالیٰ نے کائنات کے نظام کو چلانے کے لیے اس کے انتہائی اہم کردار انسان کو وجود بخشا حضرت انسان کو مٹی سے پیدا کیاگیا ہے ۔ انسان اپنی تخلیق کے مختلف مراحل سے گزر کر اپنے آخری منزل تک پہنچتا ہے۔انسان جب فقط روح کی شکل میں تھا تو عدم میں تھا روح کے اس مقام کو عالم ارواح کہتے ہیں او رجب اس روح کو وجود بخشا گیا اس کو دنیا میں بھیج دیا گیا اس کے اس ٹھکانےکو عالم دنیا اور اسی طرح اس کے مرنے کے بعد قیامت تک کے لیے جس مقام پر اس کی روح کو ٹھہرایا جاتا ہے اسے عالم برزخ کہتے ہیں اس کے بعد قیامت قائم ہوگی اور لوگوں کو ان کی دائمی زندگی سے ہمکنار کیا جائے گا۔مرنے کے بعد کے حالات جو مابعد الطبیعات میں آتے ہیں کو اسلام نے بڑے واضح انداز میں پیش کردیا ہے۔ کہ مرنے کے بعد اس کا قیامت تک کے لیے مسکن قبر ہے اور برزخی زندگی میں قبر میں اس کے ساتھ کیا احوال پیش آتے ہیں۔ انسان کے اعمال کی جزا و سزا کا پہلا مقام قبر ہی ہے کہ جس میں وہ منکر نکیر کے سوالوں کے جواب دے کر اگلے مراحل سے گزرتا ہے۔زیر نظر کتاب میں کافر و مومن کی روح نکلنے سے لے کر قبر کے عذاب و عتاب کے تمام مراحل کو قرآن و حدیث س...
اللہ رب العزت نے انسانیت کو پیدا کرنے کا مقصد بیان کیا ہے کہ وہ آزمائے کہ ان میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے؟ اس لیے کوئی دنیا میں آ رہا ہے اور کوئی جا رہا ہے کیونکہ یہ فطری عمل ہے جسے بدلنے کی انسانی کوشش ناکام ونامراد ہے۔ اللہ رب العزت نے دنیا میں جو بھی نعمت دی ہے اس کے بارے میں کل قیامت کو سوال بھی کیا جانا ہے اور کبھی نعمت دینے کے بعد دنیا میں ہی واپس لے لی جاتی ہے جیسے کہ اولاد ہے لیکن اگر اولاد کے فوت ہو جانے کے بعد اس پر صبر کرنے اور اللہ کی تعریف کرنے سے جنت میں ایک ایسا گھر بنا دیا جاتا ہے جسے بیت الحمد کا نام دیا جاتا ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب بھی مصنف کے ان ایام کا تذکرہ ہے جس میں ان کا بیٹا بیمار تھا اور اس کے بعد اللہ سے جا ملا ان کی یہ کتاب مریض‘ اس کے گھر والے اور ساتھ رہنے والے‘ بیماری کا علاج کرنے والے‘ اپنے بیٹوں اور چہیتوں کی وفات کا غم برداشت کرنے والے‘ علاج کے لیے دوسرے ممالک کا سفر کرنے والے اور صحت مند وہ افراد جو اپنے پیاروں کی وفات کا غم اور اس کے احکام جاننا چاہتے ہیں کے لیے مفید ہے۔اس کتاب میں مرض‘...
اس زندگی میں ہر شخص اپنے فائدے کےلیے تگ و دو کرتا ہے، اپنے معاملات سنوارنے اور ذرائع معاش کے لیے کوشش کرتا ہے، ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دین اور دنیا دونوں کو سنوارتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے دنیا میں خیر سے نوازا اور آخرت میں بھی ان کیلیے خیر و بھلائی ہے، نیز انہیں آگ کے عذاب سے بھی تحفظ دیا ۔جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا کیلیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں لیکن آخرت کو بھول جاتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو گل چھرّے اڑاتے ہیں اور ڈنگروں کی طرح کھاتے ہیں ، ان کا ٹھکانہ آگ ہے۔موت اس دھرتی پر تمام مخلوقات کا آخری انجام ہے، اس دنیا میں ہر ذی روح چیز کی انتہا موت ہے، اللہ تعالی نے موت فرشتوں پر بھی لکھ دی ہے چاہے وہ جبریل، میکائیل، اور اسرافیل ؑ ہی کیوں نہ ہوں، حتی کہ ملک الموت بھی موت کے منہ میں چلے جائیں گے اور تمام فرشتے لقمۂ اجل بن جائیں گے،موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتدا ہے،موت کے ساتھ ہی دنیاوی آسائشیں ختم ہو جاتی ہیں اور میت مرنے کے بعد یا تو عظیم نعمتیں دیکھتی ہے یا پھر درد ناک عذاب ۔ زیر تبصرہ ’’حسن خاتمہ&lsqu...
اس پر فتن دور میں ہر آئے دن بے شمار نئے نئے فرقے اور گروہ مذہب کے نام پر سامنے آرہے ہیں۔اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے چند مخصوص اور شاذ نظریات وعقائد سنبھال رکھے ہیں۔جو شخص ان کے نظریات سے متفق ہو،اور ان کے تعاون کرتا ہو، ان کے نزدیک وہ مومن اور اہل ایمان میں سے ہے ،اور جو ان کے عقائد ونظریات کا مخالف ہو اس پر وہ بلا سوچے سمجھے شرائط وموانع کا خیال رکھے بغیر کفر کا فتوی لگا دیتے ہیں اور اس فتوی بازی یا کسی مسلمان کی تکفیر میں ذرا خیال نہیں رکھتے کہ وہ کوئی محترم شخصیت اور مخلص مسلمان کی ذات بھی ہو سکتی ہے۔اسی طرز عمل کے گروہوں میں سے ایک کراچی کا معروف عثمانی گروہ ہے ،جو اپنے آپ کو کیپٹن مسعود الدین عثمانی کی طرف منسوب کرتاہے۔اس گروہ نے بھی بعض ایسے منفر د اور شاذ عقائد ونظریات اختیار کر رکھے ہیں ،جو امت کے اجماعی اور اتفاقی مسائل کے مخالف ہیں۔ان مسائل میں سے ایک مسئلہ عذاب قبر کا ہے۔ عثمانی گروہ قبر کے عذاب کا منکر ہے، حالانکہ قرآن وحدیث سے عذاب قبر ثابت ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"دعوت قرآن کے نام پر قرآن وحدیث سے انحراف"محت...
دنیا ایک عارضی اور فانی جگہ ہے،ہر انسان نے یہاں سے چلے جانا ہے۔جبکہ آخرت دائمی اور ہمیشہ رہنے والی جگہ ہے،اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔اللہ تعالی دنیا کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اور یہ دنیا کی زندگی تو کھیل تماشا ہے ،آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ،کاش وہ اس حقیقت کو جانتے ۔(عنکبوت:64)نبی کریم ﷺ نے دنیا کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: آدمی کہتا ہے میرا مال میرا مال،حالانکہ اس کا مال صرف تین چیزیں ہیں: ایک وہ جو اس نے کھا لیا۔ دوسرا وہ جو اس نے پہن لیا اور بوسیدہ کرلیا ،اور تیسرا وہ جواپنے ہاتھ سے اللہ کے راہ میں دے دے کل قیامت کو اس کو اس کا بدلہ ملے گا کیونکہ وہ تو اللہ کے پاس چلا گیا اور اللہ کے پاس چلا گیا تو آخرت میں اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔ فرمایا :اس کے علاوہ جو بھی مال اپنے ورثاء کے لیے چھوڑ گئے یہ اس کا مال نہیں ہے۔ یہ تو ورثاء کا مال ہے پھر ورثاء بعد میں لڑتے بھی ہیں۔دوسری جگہ فرمایا: میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کی چھاؤں میں گرمیوں کی کوئی دوپہر گزارنے بیٹھ جائے ۔ وہ کوئی پل آرام کر ے گا تو پھر اٹھ کر چل د...
دنیا میں انسان کا اس کی رفتارکاپہلا قدم ہے جب سے یہ دنیا میں آیا ہے اس کو ایک منٹ کےلیے قرارنہیں۔دنیا ایک عارضی اور فانی جگہ ہے،ہر انسان نے یہاں سے چلے جانا ہے۔جبکہ آخرت دائمی اور ہمیشہ رہنے والی جگہ ہے،اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔اللہ تعالیٰ دنیا کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اور یہ دنیا کی زندگی تو کھیل تماشا ہے ،آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ،کاش وہ اس حقیقت کو جانتے ۔(عنکبوت:64)نبی کریم ﷺ نے دنیا کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: آدمی کہتا ہے میرا مال میرا مال،حالانکہ اس کا مال صرف تین چیزیں ہیں: ایک وہ جو اس نے کھا لیا۔ دوسرا وہ جو اس نے پہن لیا اور بوسیدہ کرلیا ،اور تیسرا وہ جواپنے ہاتھ سے اللہ کے راہ میں دے دے کل قیامت کو اس کو اس کا بدلہ ملے گا کیونکہ وہ تو اللہ کے پاس چلا گیا اور اللہ کے پاس چلا گیا تو آخرت میں اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔ فرمایا :اس کے علاوہ جو بھی مال اپنے ورثاء کے لیے چھوڑ گئے یہ اس کا مال نہیں ہے۔ یہ تو ورثاء کا مال ہے پھر ورثاء بعد میں لڑتے بھی ہیں۔دوسری جگہ فرمایا: میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی در...
رسول اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کے آخری لمحات قرآن مجید کی صداقت کے لیے موت بھی ایک مستند دلیل ہے"کل من علیھا فان" ہر ذی روح چیز فانی ہے بقاء و دوام صرف اور صرف رب ذوالجلال کے لائق ہے۔ دنیا ایک سرائے کی مانند ہے، یہاں کی مجلس دائمی نہیں اسی لیے ہر نفس حیات و ممات کے سلسلہ سے وابستہ ہے۔ مگر کچھ ایسے نفوس مقدسہ بھی ہوتے ہیں جو فنا ہونے کے باوجود غیر فانی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اور اپنے اخلاق و کردار، علم و معرفت اور کارہائے نمایاں کی ایسی قندیلیں روشن کرجاتے ہیں جو باد مخالف کے باوجود نہیں بجھتیں۔ آپ ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول بن کر آئے۔ آپ ﷺ ذاتِ گرامی سے کون واقف نہیں، آپ ﷺ کی تعلیمات روزِ قیامت تک امت کے لیے منارہ نور اور مشعل راہ ہیں اور آپ ﷺ نے جانثار صحابہ کرام بالخصوص خلفائے راشدین ان کی سیرت بھی امت مسلمہ کے لیے ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"رسول اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کے آخری لمحات" مولانا ابو الکلام آزادؒ کی ایک شاہکار تصنیف ہے جس میں مولانا آزادؒ نے رسول اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کی اس جہانِ فانی سے رخصتی کے وقت...
عبدالرحمٰن کیلانی صاحب کی یہ کتا ب دراصل ترجمان الحدیث اور محدث میں چھپنے والے سلسلہ وار مضامین کا مجموعہ ہے۔ کتاب کا موضوع کتاب کے نام سے ظاہر ہے اور شاید مسلمانوں کا کوئی فرقہ اور کوئی طبقہ ایسا نہ ہوگا جو اس موضوع سے گہری دلچسپی نہ رکھتا ہو۔ ان مسائل میں کچھ لوگ اگر افراط کی راہ پر نکل کر گمراہ ہوئے تو کچھ رد عمل میں تفریط کا شکار بنے۔ زیر تبصرہ کتاب اس موضوع پر کتاب و سنت کی صحیح راہنمائی مہیا کرتے ہوئے اعتدال کی راہ دکھاتی ہے۔ اس کتاب میں احناف اور توحیدی گروہ کے بانی کیپٹن عثمانی کے افراط و تفریط پر مشتمل عقائد پیش کر کے ان کا علمی محاکمہ کیا گیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے عالم برزخ کی زندگی اور دنیاوی زندگی کی صورت حال کو واضح کیا ہے،روح کا سفر اور شہید کی زندگی کا تصور،سماع موتٰی کے بارے میں مختلف اقوال ورائے اور اس کی استثنائی صورتیں،برزخی جسم اور برزخی قبر کا تعارف، توحیدی گروہ کے بانی کیپٹن عثمانی کے پیدا کردہ مختلف شبہات کا بھرپور علمی رد پیش کیا ہے،اور اسی طرح سماع موتی کی آڑ لے کر اولیاء کو تصرفات کا حامل قرار دینا او...
اللہ تعالیٰ نے کائنات کے نظام کو چلانے کے لیے اس کے انتہائی اہم کردار انسان کو وجود بخشا حضرت انسان کو مٹی سے پیدا کیاگیا ہے ۔ انسان اپنی تخلیق کے مختلف مراحل سے گزر کر اپنے آخری منزل تک پہنچتا ہے۔انسان جب فقط روح کی شکل میں تھا تو عدم میں تھا روح کے اس مقام کو عالم ارواح کہتے ہیں او رجب اس روح کو وجود بخشا گیا اس کو دنیا میں بھیج دیا گیا اس کے اس ٹھکانےکو عالم دنیا اور اسی طرح اس کے مرنے کے بعد قیامت تک کے لیے جس مقام پر اس کی روح کو ٹھہرایا جاتا ہے اسے عالم برزخ کہتے ہیں اس کے بعد قیامت قائم ہوگی اور لوگوں کو ان کی دائمی زندگی سے ہمکنار کیا جائے گا۔مرنے کے بعد کے حالات جو مابعد الطبیعات میں آتے ہیں کو اسلام نے بڑے واضح انداز میں پیش کردیا ہے۔ کہ مرنے کے بعد اس کا قیامت تک کے لیے مسکن قبر ہے اور برزخی زندگی میں قبر میں اس کے ساتھ کیا احوال پیش آتے ہیں۔ انسان کے اعمال کی جزا و سزا کا پہلا مقام قبر ہی ہے کہ جس میں وہ منکر نکیر کے سوالوں کے جواب دے کر اگلے مراحل سے گزرتا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’شہر خموشاں‘‘ مولانا عبدالرح...
اللہ تعالیٰ نے کائنات کے نظام کو چلانے کے لیے اس کے انتہائی اہم کردار انسان کو وجود بخشا حضرت انسان کو مٹی سے پیدا کیاگیا ہے ۔ انسان اپنی تخلیق کے مختلف مراحل سے گزر کر اپنے آخری منزل تک پہنچتا ہے۔انسان جب فقط روح کی شکل میں تھا تو عدم میں تھا روح کے اس مقام کو عالم ارواح کہتے ہیں او رجب اس روح کو وجود بخشا گیا اس کو دنیا میں بھیج دیا گیا اس کے اس ٹھکانےکو عالم دنیا اور اسی طرح اس کے مرنے کے بعد قیامت تک کے لیے جس مقام پر اس کی روح کو ٹھہرایا جاتا ہے اسے عالم برزخ کہتے ہیں اس کے بعد قیامت قائم ہوگی اور لوگوں کو ان کی دائمی زندگی سے ہمکنار کیا جائے گا۔مرنے کے بعد کے حالات جو مابعد الطبیعات میں آتے ہیں کو اسلام نے بڑے واضح انداز میں پیش کردیا ہے۔ کہ مرنے کے بعد اس کا قیامت تک کے لیے مسکن قبر ہے اور برزخی زندگی میں قبر میں اس کے ساتھ کیا احوال پیش آتے ہیں۔ انسان کے اعمال کی جزا و سزا کا پہلا مقام قبر ہی ہے کہ جس میں وہ منکر نکیر کے سوالوں کے جواب دے کر اگلے مراحل سے گزرتا ہے زیر تبصرہ کتاب’’عالمِ برزخ‘‘ مولانا عبدالرحمن عاجز مالیر...
اہل وسنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر بر حق ہے اور اس پر کتاب وسنت کی بہت سی براہین واضح دلالت کرتی ہیں لیکن اسلام کی خانہ زاد تشریح پیش کرنے والے بعض افراد قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے سر مو انحراف کرتے ہوئے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کا انکار کر دیتے ہیں-عالم برزخ کیا ہے؟ اور عذاب قبر کیا ہے؟ اس کتاب میں اسی معرکۃ الآراء مسئلے سے متعلق تمام حقائق کو سپرد قلم کیا گیا ہے- مصنف محمد ارشد کمال نے کمال مہارت سے لغت، قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے اثبات عذاب قبر پر دلائل کا انبار لگاتے ہوئے منکرین عذاب قبر کو مسکت جوابات سے اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی دعوت دی ہے-علاوہ ازیں منکرین عذاب قبر کے چند بناوٹی اصولوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کا بھر پور محاسبہ کیا گیا ہے- کتاب کے آخر میں انتہائی جانفشانی کے ساتھ منکرین عذا ب قبر سے متعلق علماء کرام کی آراء کو بھی قلمبند کر دیا گیا ہے-
عقیدہ عذاب قبر قرآن مجید،احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔جس طرح دنیا میں آنے کے لئے ماں کا پیٹ پہلی منزل ہے،اور اس کی کیفیات دنیا کی زندگی سے مختلف ہیں،بعینہ اس دنیا سے اخروی زندگی کی طرف منتقل ہونے کے اعتبار سے قبر کا مقام اور درجہ ہے،اوراس کی کیفیات کو ہم دنیا کی زندگی پر قیاس نہیں کر سکتے ہیں۔عذاب قبر سے مراد وہ عذاب اور سزا ہے جو موت سے لے کر حساب وکتاب کے لیے دوبارہ اٹھائے جانے یعنی قیامت سےپہلے تک اللہ تعالیٰ کےنافرمانوں کودی جاتی ہے ۔ اہل وسنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر بر حق ہے اور اس پر کتاب وسنت کی بہت سی براہین واضح دلالت کرتی ہیں ۔جبکہ بعض کوتاہ بین ایسے بھی ہیں جنہوں نےاس کا انکار کیا جیسا کہ عصر حاضر میں منکرین حدیث ہیں جواس کا کلی انکار کرتے ہیں او راسی طرح برزخیوں کا ٹولہ ہے جو کہتے ہیں کہ اس قبر میں میت کو عذاب نہیں ہوتا۔ زیر تبصرہ کتاب’’ عذاب قبر قرآن مجید کی روشنی میں ‘‘ فاضل نوجوان محقق ومترجم محترم جناب مولانا ارشد کمال ﷾ کی علمی وتحقیقی کاوش ہے ۔موصوف نے اس مختصر کتاب میں عقیدہ عذاب قبر کو قرآن...
عقیدہ عذاب قبر قرآن مجید،احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔جس طرح دنیا میں آنے کے لئے ماں کا پیٹ پہلی منزل ہے،اور اس کی کیفیات دنیا کی زندگی سے مختلف ہیں،بعینہ اس دنیا سے اخروی زندگی کی طرف منتقل ہونے کے اعتبار سے قبر کا مقام اور درجہ ہے،اوراس کی کیفیات کو ہم دنیا کی زندگی پر قیاس نہیں کر سکتے ہیں۔عذاب قبر سے مراد وہ عذاب اور سزا ہے جو موت سے لے کر حساب وکتاب کے لیے دوبارہ اٹھائے جانے یعنی قیامت سےپہلے تک اللہ تعالیٰ کےنافرمانوں کودی جاتی ہے ۔ نبی کریم ﷺ نماز کے تشہد میں اوراپنی دیگر دعاؤں میں عذاب قبر اورقبر وحشر کے فتنوں سے بکثرت اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے ۔اس لیے اہل وسنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر بر حق ہے اور اس پر کتاب وسنت کی بہت سی براہین واضح دلالت کرتی ہیں ۔جبکہ بعض کوتاہ بین ایسے بھی ہیں جنہوں نےاس کا انکار کیا جیسا کہ عصر حاضر میں منکرین حدیث ہیں جواس کا کلی انکار کرتے ہیں اوراسی طرح برزخیوں کا ٹولہ ہے جو کہتے ہیں کہ اس قبر میں میت کو عذاب نہیں ہوتا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’عذاب قبر میں مبتلا اور اس سےمحفوظ رہنے والے لوگ &l...
شاید ہی اسلام کاکوئی حکم اور مسئلہ ہو کہ جومختلف مسالک کے فلسفیانہ اور تخیلاتی بھنور میں پھنس کر اپنے اصل حلیے کو نہ کھو چکا ہو انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ عذاب قبر کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں لوگ افراد وتفریط کا شکار ہیں اور منکرین حدیث کی طرح منکرین عذابِ قبر کے عقیدہ کے حاملین بھی موجود ہیں جس کی کوئی بھی معقول دلیل موجود نہیں اس کے برعکس اثبات قبر پر بہت سی آیات قرآنیہ اور سینکڑوں احادیث موجود ہیں۔فرمانِ نبوی ﷺ کے مطابق موت کے بعدکا مرحلہ آخرت کی ہی پہلی سیڑھی اور زینہ ہے اس مرحلہ میں موت سے لے کر یوم البعث کے قائم ہونےتک جو کچھ قرآن کریم اور صحیح احادیث میں ثابت ہے اس پرایمان لانالازمی ہے ۔عذاب ِ قبر دین اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ ہے عقلی وعلمی گمراہیوں میں غرق ہونے والے اور بے دین افراد اگرچہ عذاب قبر کا انکار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی&n...
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس سےدوچار ہونا اوراس کا تلخ جام پینا ضروری ہے یہ یقین ہر قسم کےکھٹکے وشبہے سے بالا تر ہے کیونکہ جب سے دنیا قائم ہے کسی نفس وجان نے موت سے چھٹکارا نہیں پایا ہے۔کسی بھی جاندار کے جسم سے روح نکلنے اور جداہونے کا نام موت ہے۔ہر انسان خواہ کسی مذہب سے وابستہ ہو یا نہ ہو اللہ یا غیر اللہ کو معبود مانتا ہو یا نہ مانتا ہو اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرتا ہےکہ اس کی دنیا وی زندگی عارضی وفانی ہےایک روز سب کو کچھ چھوڑ کر اس کو موت کا تلخ جام پینا ہے گویا موت زندگی کی ایسی ریٹائرمنٹ ہےجس کےلیے کسی عمر کی قید نہیں ہے اور اس کےلیے ماہ وسال کی جو مدت مقرر ہے وہ غیر معلوم ہے۔یہ دنیاوی زندگی ایک سفر ہے جوعالم بقا کی طرف رواں دواں ہے ۔ ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے ۔ عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں ، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہ...
پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو جتنی تاکید کے ساتھ شرکیہ امور سے بچنے کی ہدایت فرمائی تھی ۔افسوس ہے کہ آپﷺ کی یہ نام لیوا امت اسی قدر مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا ہے اور اپنے پیغمبر کی تمام ہدایات کو فراموش کر چکی ہے ۔آپ ﷺ نے واضح الفاظ میں اعلان فرمادیا تھا :أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِك۔’’لوگو غور سے سن لو تم سے پہلی امت کے لوگوں نے اپنے انبیاء اور نیک لوگوں ،اولیاء وصالحین کی قبروں کو عبادت گاہ (مساجد) بنالیا تھا ،خبر دار !تم قبروں کو مساجد نہ بنالینا۔میں تم کواس سے روکتا ہوں۔اور آپ ﷺ نےاپنی مرض الموت میں یہود ونصاریٰ کے اس مشرکانہ عمل پر لعنت کرتےہوئے فرما یا: ل...
اس بات سے آج تک کوئی انکار نہیں کرسکا کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جسے زندگی ملی اسے موت بھی دوچار ہوناپڑا، جو آج زندہ ہے کل کو اسے مرنا ہے،موت ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس سے دو چار ہونا اوراس کا تلخ جام پینا ضروری ہے یہ یقین ہر قسم کے کھٹکے وشبہے سے بالا تر ہے کیونکہ جب سے دنیا قائم ہے کسی نفس وجان نے موت سے چھٹکارا نہیں پایا ہے۔ کسی بھی جاندار کے جسم سے روح نکلنے اور جداہونے کا نام موت ہے۔ ہر انسان خواہ کسی مذہب سے وابستہ ہو یا نہ ہو اللہ یا غیر اللہ کو معبود مانتا ہو یا نہ مانتا ہو اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرتا ہےکہ اس کی دنیا وی زندگی عارضی وفانی ہے ایک روز سب کو کچھ چھوڑ کر اس کو موت کا تلخ جام پینا ہے گویا موت زندگی کی ایسی ریٹائرمنٹ ہے جس کے لیے کسی عمر کی قید نہیں ہے اور اس کے لیے ماہ وسال کی جو مدت مقرر ہے وہ غیر معلوم ہے۔ہر فوت ہونے والے انسان خواہ وہ مومن ہے یا کافر کو موت کے بعد دنیا وی زندگی کی جزا وسزا کے مرحلے گزرنا پڑتا ہے۔ یعنی ہر فوت ہونے والے کے اس کی زندگی میں اچھے یا برے اعمال کے مطابق کی اس کی جزا وسزا کا معاملہ کیا...
عقیدہ عذاب وثواب قبر قرآن مجید،احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔جس طرح دنیا میں آنے کے لئے ماں کا پیٹ پہلی منزل ہے،اور اس کی کیفیات دنیا کی زندگی سے مختلف ہیں،بعینہ اس دنیا سے اخروی زندگی کی طرف منتقل ہونے کے اعتبار سے قبر کا مقام اور درجہ ہے،اوراس کی کیفیات کو ہم دنیا کی زندگی پر قیاس نہیں کر سکتے ہیں۔اہل وسنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر بر حق ہے اور اس پر کتاب وسنت کی بہت سی براہین واضح دلالت کرتی ہیں لیکن اسلام کی خانہ زاد تشریح پیش کرنے والے بعض افراد قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے سر مو انحراف کرتے ہوئے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کا انکار کر دیتے ہیں-عالم برزخ کیا ہے؟ اور عذاب قبر کیا ہے؟ زیر تبصرہ کتاب(قرآن مجید اور عذاب قبر) الرحیق المختوم کے مصنف ہندوستان کے معروف عالم دین مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی کاوش ہے جس میں انہوں نے اسی معرکۃ الآراء مسئلے سےمتعلق تمام حقائق کو سپرد قلم کیا گیا ہے۔اللہ تعالی مصنف کی اس کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس سےدوچار ہونا اوراس کا تلخ جام پینا ضروری ہے یہ یقین ہر قسم کےکھٹکے وشبہے سے بالا تر ہے کیونکہ جب سے دنیا قائم ہے کسی نفس وجان نے موت سے چھٹکارا نہیں پایا ہے۔کسی بھی جاندار کے جسم سے روح نکلنے اور جداہونے کا نام موت ہے۔ہر انسان خواہ کسی مذہب سے وابستہ ہو یا نہ ہو اللہ یا غیر اللہ کو معبود مانتا ہو یا نہ مانتا ہو اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرتا ہےکہ اس کی دنیا وی زندگی عارضی وفانی ہےایک روز سب کو کچھ چھوڑ کر اس کو موت کا تلخ جام پینا ہے گویا موت زندگی کی ایسی ریٹائرمنٹ ہےجس کےلیے کسی عمر کی قید نہیں ہے اور اس کےلیے ماہ وسال کی جو مدت مقرر ہے وہ غیر معلوم ہے۔یہ دنیاوی زندگی ایک سفر ہے جوعالم بقا کی طرف رواں دواں ہے ۔ ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے ۔ عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں ، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہماری اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت...