غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی غیب دان ہے اس کے علاوہ غیب کی باتوں کو کوئی نہیں جانتا۔ نہ فرشتے ،انسان اور جنات غیب جانتے ہیں۔اور نہ ہی انسانوں میں سے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے انبیا اور اولیا غیب نہیں جانتے۔ اور نہ ہی سید الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہﷺ غیب کی باتیں جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ غیب کی باتیں نہ جاننے کے دلائل کتاب و سنت کے صفحات میں دوپہر کے سورج کی طرح عیاں اور روشن ہیں۔ لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اس قدر واضح دلائل کے باوجود علم غیب کو اللہ کے علاوہ بہت سے لوگوں کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’ علم غیب کے روحانی دلائل‘‘ ابن رفیق کی کاوش ہے جو کہ مختلف مذہبی اور معاشرتی موضوعات پر لکھا جانے والا حقیقت کے قریب ترین مقبول عام مُنا سیریز ’’آئیے منے سے کچھ سیکھیں‘‘ کا ایک دلچسپ سلسلہ ہے جس میں آسان فہم انداز سوال و جواب (مکالمہ) کی صورت میں ثابت کیا گیا ہے کہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی غیب دان ہے اس کے علاوہ غیب کی باتوں کو کوئی نہیں جانتا۔ (م۔ا)
حبرالامہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم ﷺ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ہیں۔جن کی پیدائش ہجرت سے 3 برس قبل شعب ابی طالب میں محصوریت کے دوران میں ہوئی تھی۔ آپ کی پیدائش کے بعد سیدنا عباس رضی اللّٰہ عنہ آپ کو بارگاہِ رسالت میں لے کر آئے تو آپ ﷺ نے ان کے منہ میں اپنا لعابِ دہن ڈال کر آپ کے حق میں دعا فرمائی۔ سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ 8ھ میں فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے ،سیدنا عبد اللہ کی عمر اس وقت گیارہ برس سے زیادہ نہ تھی، لیکن وہ اپنے والد کے حکم سے اکثر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے، ایک روز انہوں نے واپس آ کر بیان کیا، میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کو میں نہیں جانتا ہوں ، کاش مجھے معلوم ہوتا کہ وہ کون تھے؟، سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے آنحضرت ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا، آپ نے ان کو بلاکر فرطِ محبت سے اپنے آغوش عاطفت میں بٹھایا اور سر پر ہاتھ پھیر کر دعا فرمائی۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے بیدار ہوئے تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے وضو کے لیے پانی لا کر رکھ دیا۔ آپ ﷺ نے وضو سے فراغت کے بعد پوچھا کے پانی کون لایا تھا۔سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے عبد اللہ بن عباس کا نام لیا تو آپ ﷺ خوش ہو کر یہ دعا دی۔ اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ۔ قرآن، تفسیر ، حدیث، فقہ، ادب، شاعری، وغیرہ کوئی ایسا علم نہ تھا جس میں ان کو یدِطولیٰ حاصل نہ رہا ہو۔ بالخصوص قرآن پاک کی تفسیر و تاویل میں جو مہارت اور آیات قرآنی کے شانِ نزول اور ناسخ و منسوخ کے علم میں جو وسعت ان کو حاصل تھی وہ کم کسی کے حصہ میں آئی۔ابن عباس کا انتقال سن 68 ہجری میں ستر سال کی عمر میں طائف میں ہوا اور محمد بن حنفیہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو وہیں دفن کیا گیا۔ زیر نظر تحقیقی مقالہ بعنوان ’’حضرت عبد اللہ عباس رضی اللہ عنہ کے احوال و فضائل و مناقب کا تحقیقی مطالعہ ‘‘ عبد الباقی صاحب کا وہ تحقیقی مطالعہ ہے جسے انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،کلیۃ عربی و علوم اسلامیہ میں پیش کر کے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔(م۔ا)
بر صغیر پاک و ہند میں ہندوانہ رسوم و رواجات کا چلن اس قدر عام ہے کہ مسلمان رسومِ اختراعیہ کے اس قدر پابند ہیں کہ فرض و واجب کی ادائیگی چھوڑ دیتے ہیں مگر ان رسم و رواج کو پورے کرنے میں رائی برابر بھی کمی نہیں آنے دیتے۔اور ان کی بدولت طرح طرح کی پریشانی اور تنگ دستی اور مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دین و دنیا دونوں کھو دیتے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگ ہندو مذہب سے مسلمان ہوئے ہیں اور ہمیشہ سے ہندوؤں کے ساتھ رہتے بستے چلے آ رہے ہیں۔وہ مسلمان تو ہو گئے لیکن ان کے عام رسم و رواج ہندوانہ ہی ہیں۔ بعض ہندوانہ رسمیں اسلامی پیوندکاری کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ انہی ہندوانہ رسوم و رواجات میں سے ایک میت کے گھر پہلے، تیسرے، ساتویں، اکیسویں اور چالیسویں دن کھانے کا اہتمام کرنا،مولوی صاحب سے ختم پڑھوانا اور تبرک چنے اور پھل مکھانے تقسیم کرنے کی رسوم ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’ گچک یا لچک‘‘ ابن رفیق کی کاوش ہے جو کہ مختلف مذہبی اور معاشرتی موضوعات پر لکھا جانے والا حقیقت کے قریب ترین مقبول عام مُنا سیریز ’’آئیے منے سے کچھ سیکھیں‘‘ کا ایک دلچسپ فرضی سلسلہ ہے جس میں آسان فہم انداز سوال و جواب (مکالمہ)کی صورت میں میں ثابت کیا گیا ہے کہ میت کے گھر پہلے، تیسرے، ساتویں، اکیسویں اور چالیسویں دن کھانے کا اہتمام کرنے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں بلکہ محض یہ ہندووانہ رسوم و رواج ہیں۔(م۔ا)
امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہﷺ سے محبت جزو ایمان ہے اس کے بغیر ایمان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا محبت کے جذبات شعر و نظم کے پیکر میں ڈھلتے ہیں تو انہیں نعت کہا جاتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی مدح و ستائش اور آپ ﷺ کے اوصاف کریمہ کا بیان باعث شادابی ایمان ہے ۔ لیکن نعت کہنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ اور بندے یعنی خالق اور مخلوق میں فرق و امتیاز کو ہر حال میں ملحوظ رکھے ورنہ وہ الحاد اور شرک میں مبتلا ہو جائے گا۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں کئی ایک صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اصحاب النبی ﷺ میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ پہلے نعت گو شاعر اور نعت خواں تھے۔ سیدنا حسان بن ثابت کا نعتیہ کلام ’’ دیوان حسان ‘‘ کے نام سے مدون شکل میں موجود ہے جس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی نعتیہ مجموعے موجود ہیں لیکن اکثر میں مبالغہ آرائی اور شرک کی آمیزش ہے۔ زیر نظر کتاب ’’فردوس سخن‘‘جناب کاشف شکیل صاحب کی کاوش ہے انہوں نے متنوع اسلوب میں اپنے احساسات و جذبات کو صفحہ قرطاس کے حوالے کیا ہے۔ یہ شعری مجموعہ حمد و نعت اور مختلف نظموں پر مشتمل ایک بہترین مجموعہ ہے۔ اس میں موصوف نے نعت رسول مقبول ﷺ کو حب رسول ﷺ سے معمور ہو کر اپنے الفاظ میں موتیوں کی طرح پرویا ہے۔ رسول گرامی کی مدح میں آپ کی ذات و صفات کی بہترین تمثیل اس میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔ (م۔ا)
کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا مشکل کا شکار رہی اس وبائی مرض نے نظامِ حیات تباہ کر کے رکھ دیا ،ہنستے کھیلتے شہر وایرانی کا منظر پیش کرتے رہے ۔ اور انسانوں کو گھروں تک محدود کر دیا ۔ہر طرف نفسا نفسی اور افراتفری کا عالم تھا۔کورونا کی وجہ سے دنیا بھر کے حالات بالکل بدل گئے تھے۔ بہت سے شرعی مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کیا اس وبا کی صورت میں مسجد جا کر نماز ادا کرنی چاہیے یا نہیں۔ بہت سے عرب ممالک میں مساجد نماز کے لیے بند کر دی گئیں اور عرب علماء کی اکثریت اس رائے سے متفق تھی ۔ البتہ پاک و ہند میں اس پر علماء کی مختلف آراء رہیں ۔اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر علماء کرام کی مختلف پہلوؤں(جمعہ و جماعت کے لیے مساجد کو بند کرنے کی پابندی،کورونا وائرس کی حقیقت، کورونا مریضوں کے شرعی حقوق و فرائض) پر مختلف تحریریں آئیں جنہیں بعض احباب نے کتابی صورت میں مرتب کر کے سوشل میڈیا پر وائرل بھی کیا ۔ زیر نظر کتاب ’’کورونا وائرس سے متعلق جدید فقہی مسائل‘‘ محترم عبید الرحمٰن عبد العزیز، ضیاء الرحمٰن عبد العزیز، کلیم الرحمٰن عبد العزیز کی مشترکہ کاوش ہے ۔اس کتابچہ میں مرتبین نے 23 مختلف سوالات کے جوابات قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں پیش کیے ہیں ۔(م۔ا)
قیامت آثار قیامت کو نبی کریم ﷺ نے احادیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے جیسا کہ احادیث میں ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسیٰ بن مریم نازل نہ ہوں گے ۔ وہ دجال اور خنزیر کو قتل کریں گے ۔صلیب کو توڑیں گے۔ مال عام ہو جائے گا اور جزیہ کو ساقط کر دیں گے اور اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قبول نہ کیا جائے گا اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کے سوا سب ادیان کو ختم کر دے گا اور سجدہ صرف اللہ وحدہ کے لیے ہو گا۔علامات قیامت کے حوالے سے ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں ابواب بندی بھی کی ہے اور بعض اہل علم نے اس موضوع پر مستقل بھی کتب لکھی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ عقیدہ رفع و نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام ‘‘ محترم مولانا منیر احمد علوی صاحب کی تصنیف ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے اور قرب قیامت دوبارہ تشریف لانے پر قرآن و حدیث اور اجماع سے دلائل اور مسیحیت کے جھوٹے دعویدار مرزا قادیانی کی چال بازیوں اور فریب کاریوں کے شکوک و شبہات کا عادلانہ جائزہ پیش کیا ہے۔(م۔ا)
حدیث کے صحت و ضعف کے لیے جس طرح اسناد کی بڑی اہمیت ہے کتبِ حدیث اور کتب علوم حدیث میں باقاعدہ اسناد موجود ہیں اسی طرح مختلف قراءات کی اسناد بھی موجود ہیں اہل علم نے اسنادِ حدیث کی طرح اسنادِ قراءات پر مستقل کتب تحریر کی ہیں۔ شیخ القرّاء قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی )کے صاحبزادے و تلمیذ رشید جناب قاری عویمر ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کی زیر نظر کاوش بعنوان جداول الأسانيد القرائية المختصرة بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف کے زور ِقلم میں مزید اضافہ فرمائے اور ان کی دعوتی و تدریسی اور قرآنی جہود کو قبول فرمائے ۔آمین (م۔ا)
’’شاطبیہ‘‘ کی سات اور ’’دُرّہ‘‘ کی تین قراءات کا نام قراءات عشرہ صغریٰ ہے جبکہ طیبۃ النشر کی 10 قراءات کو عشرہ کبریٰ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ الجداول الميسرة في أصول القراء العشرة من طريق الشاطبية و الدرّة ‘‘شیخ القرّاء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی )کے صاحبزادے و تلمیذ رشید جناب قاری عویمر ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کی کاوش ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں شاطبیہ اور درّہ کے طریق سے قراءات عشرہ صغریٰ کے اصولی ابواب کو طلبہ کی سہولت اور آسانی کے لیے جداول (نقشوں) کی صورت میں انتہائی آسان پیرائے میں پیش کیا ہے۔ یہ نقشے طلباء کے لیے بہترین تذکیر اور گرانقدر علمی تحفہ ہے۔اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف کے زور قلم میں مزید اضافہ فرمائے اور ان کی دعوتی و تدریسی اور قرآنی جہود کو قبول فرمائے ۔آمین (م۔ا)
’’شاطبیہ‘‘ کی سات اور ’’دُرّہ‘‘ کی تین قراءات کا نام قراءات عشرہ صغریٰ ہے جبکہ طیبۃ النشر کی 10 قراءات کو عشرہ کبریٰ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ الجداول المحرّرة في اصول القرّاء العشرة من طريق طيّبة النّشر ‘‘شیخ القرّاء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی )کے صاحبزادے و تلمیذ رشید جناب قاری عویمر ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کی کاوش ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں شاطبیہ اور درّہ کے طریق سے قراءات عشرہ صغریٰ کے اصولی ابواب کو طلبہ کی سہولت اور آسانی کے لیے جداول (نقشوں) کی صورت میں انتہائی آسان پیرائے میں پیش کیا ہے۔ یہ نقشے طلباء کے لیے بہترین تذکیر اور گرانقدر علمی تحفہ ہے۔اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف کے زور قلم میں مزید اضافہ فرمائے اور ان کی دعوتی و تدریسی اور قرآنی جہود کو قبول فرمائے ۔آمین (م۔ا)
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی متعدد آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ارشادِ خدا وندی ہے: ما كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا(الاحزاب، 33 : 40)ترجمہ:’’محمد ﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔‘‘اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ ﷺ ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ قرآن حکیم میں متعدد آیات ایسی ہیں جو عقيدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم ﷺ نے متعدد متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنیٰ متعین فرمایا ہے۔ یہی وہ عقیدہ جس پر قرون اولیٰ سے آج تک تمام امت اسلامیہ کا اجماع ہے ۔عقیدہ ختم نبوت کے اثبات اور مرزا قادیانی کی تکذیب کے سلسلے میں ہر مکتب فکر نے گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ منیر احمد علوی صاحب کی مرتب شدہ ہے جس میں انہوں نے عقیدہ ختم نبوت کی عظمت ، اسلام میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت ، قادیانیوں سے چند اہم سوالات ، مرزا قادیانی کے کذب اور عقیدہ ختم نبوت پر قرآن و حدیث سے دلائل کو پیش کیا ہے۔(م۔ا)
نماز دین ِ اسلام کا دوسرا رکن عظیم ہے جو کہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔قرآن و حدیث میں نماز کو بروقت اور باجماعت ادا کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے ۔نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قدر اہم ہے کہ سفر و حضر اور میدان جنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے ۔نماز کی اہمیت و فضیلت کے متعلق بےشمار احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں اور بیسیوں اہل علم نے مختلف انداز میں اس پر کتب تالیف کی ہیں ۔ نماز کی ادائیگی کا طریقہ جاننا ہر مسلمان مرد و زن کے لیے ازحد ضروری ہے کیونکہ اللہ عزوجل کے ہاں وہی نماز قابل قبول ہو گی جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی ۔ زیر نظر کتاب ’’آسان نماز نبوی مدلل‘‘ مولانا ابو رسلان شمیم احمد الفوزی السنابلی المدنی حفظہ اللہ کی تصنیف ہے۔انہوں نے اس کتاب میں انتہائی آسان و سہل انداز میں کتاب و سنت کے واضح دلائل کی روشنی میں نماز کو تکبیر سے تسلیم تک ادا کرنے کا مسنون طریقہ بیان کیا ہے۔ طہارت اور وضو کے چند ضروری مسائل بھی ذکر کئے گئے ہیں ۔عملی تصاویر، مختلف فیہ مسائل میں مختصر اور محققانہ انداز میں دو ٹوک فیصلے نے کتاب کی معنویت کو دو چند کر دیا ہے ۔نیز غلط مروجہ طریقوں پر عمدہ انداز میں ریمارکس نے کتاب کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے اور آخر میں سجدۂ سہو کب اور کیسے کیا جائے اسے بھی قلمبند کیا گیا ہے تاکہ نماز میں سہواً کسی کمی یا اضافے کے وقت نمازی کے لیے تلافی و تدارک کی صورت واضح رہے ۔(م۔ا)
اسلام میں تعزیت کسی کی موت پر اس کے رشتہ داروں سے کی جاتی ہے اس کا مقصد میت کے لیے دعائے استغفار کرنا اور لواحقین کو تسلی دینا ہوتا ہے کیونکہ جس کے گھر وفات ہوتی ہے وہ لوگ غمگین اور اداس ہوتے ہیں۔ اسلام نے ایسے مواقع پر تعلیم دی ہے کہ میت کے گھر والوں کو تسلی دی جائے اسے تعزیت کہتے ہیں ۔ تعزیت سے متعلق متعدد احادیث ملتی ہیں ۔لیکن اہل تشیع کے ہاں جو مجالس اور تعزیہ داری کی رسومات پائی جاتی ہیں وہ من گھڑت اور قعطاً درست نہیں ہیں ۔کیونکہ جب اسلامی تعزیت اور رسم تعزیہ کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسم تعزیہ بالکل اسلام کے خلاف ہے۔ فضیلۃ الشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ نے زیر نظر کتابچہ بعنوان ’’ رسم تعزیہ داری ،اسلام اور شرعی تعزیت کی روشنی میں ‘‘میں اسلامی و شرعی تصور تعزیت کو پیش کر کے اسکا ہمارے معاشرے میں رائج رسم تعزیہ داری سے موازنہ کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا ہے کہ رسم تعزیہ بالکل اسلام کے خلاف ہے،اس کا اسلام سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے اور جو اسلامی شریعت سے تعزیت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے پیچھے سارے اعمال خود سے وضع کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شیخ مقبول احمد سلفی صاحب کی تحقیقی و تصنیفی، دعوتی و تدریسی خدمات کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔ آمین (م۔ا)
متعدد بدعات میں سے ایک بدعت بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی ﷺ منانے کی ہے۔ بہت سارے مسلمان ہر سال بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی ﷺ اور جشن مناتے ہیں ۔عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا ہے ، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، نعت خوانی کے لیے محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اور بعض ملکوں میں سرکاری طور پر چھٹی کی جاتی ہے۔ لیکن اگر قرآن و حدیث اور قرون اولی کی تاریخ کا پوری دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قرآن و حدیث میں جشن عید یا عید میلاد کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔نہ نبی کریم ﷺ نے اپنا میلاد منایا اور نہ ہی اسکی ترغیب دی۔ قرونِ اولیٰ یعنی صحابہ کرام ﷺ ،تابعین، اور تبع تابعین کا زمانہ جسے نبی کریم ﷺ نے بہترین زمانہ قرار دیا ان کے ہاں بھی اس عید کا کوئی تصور نہ تھا۔ معتبر ائمہ دین کے ہاں بھی نہ اس عید کا کوئی تصور تھا اور نہ وہ اسے مناتے تھے اور نہ ہی وہ اپنے شاگردوں کو اس کی تلقین کرتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے جشن منعقد کرنے کا آغاز نبی ﷺ کی وفات سے تقریبا چھ سو سال بعد کیا گیا ہے ۔ زیر نظر کتابچہ ’’ ولادت باسعادت اور ماہِ ربیع الاول ‘‘ مولانا کرم الدین سلفی رحمہ اللہ کا مرتب شدہ ہے۔جس میں انہوں نے بدعت کی تعریف ،بدعتی کا انجام عید میلاد اور اس ضمن میں کی جانے والی دیگر بدعات و خرافات کو بیان کیا ہے نیز دلائل سے ثابت کیا ہے کہ عہد نبوی ،عہد صحابہ اور بعد کے ادوار میں اس مروجہ عید میلاد النبی ﷺ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،اس کو منانا بدعت ہے ۔ اللہ تعالی اس کتابچہ کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔(آمین)(م۔ا)
عیسائیت کے بارے میں جہاں عوام میں پھیلانے کے لئے مختصر اور عام فہم لٹریچر کی ضرورت ہے وہاں اس امر کی بھی شدید ضرورت ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ کو اس مذہب کی تحقیقی معلومات فراہم کی جائیں اور جو لوگ تقریر و تحریر کے ذریعے عیسائیوں میں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، ان کو عیسائیت کے صحیح خدو خال سے آگاہ کیا جائے،ورنہ نامکمل معلومات کی بنیاد پر جو کام کیا جائے وہ بعض اوقات الٹے نتائج پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ زیرنظر کتاب ’’عیسائیوں کو دعوتِ فکر‘‘معروف کالم نگار محترم جناب عطاء محمد جنجوعہ صاحب کی کاوش ہے انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے افراط و تفریط کا شکار ہونے والے یہودیوں اور عیسائیوں کو خوب جھنجوڑا ہے اور ان کو دعوت فکر دی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل شخصیت اور ان کے سیرت و کردار کے اس روشن اور تاباں پہلو کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ کتاب مسیحیت کے لیے دعوت ہدایت بھی ہے اور ہدایت نما بھی ہے۔(م۔ا)
معاشرہ میں بہت سی برائیاں رواج پاتی جا رہی ہیں جن میں ایک گھناؤنا عمل جنسی زیادتی بھی ہے۔ زیادتی کا یہ عمل نوجوان لڑکیوں کے جنسی استحصال سے شروع ہوا بعد ازاں نوجوان لڑکے بھی اس کا بری طرح شکار ہوئے اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پاکستانی معاشرہ میں بچوں پر جنسی استحصال کے کیسز بہت بڑھتے جا رہے ہیں۔ لیکن معاشرہ میں بڑھتی ہوئی اس سماجی برائی کے بہت سے اسباب و محرکات بھی ہیں اور ان اسباب کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے تاکہ اس گھناؤنے جرم پر قابو پانے کی راہ نکالی جا سکے۔معاشرتی برائیوں کے سدباب کے لئے جزا و سزا کا مکمل فلسفہ اسلام نے سکھلایا۔ ان اصول و مبادی پر عمل ہی کی بدولت آج کے دور میں جنسی استحصال جیسے گھناؤنے جرم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ زیر نظر مقالہ بعنوان ’’ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے حالیہ واقعات :اسباب، محرکات اور شریعت اسلامیہ کی روشنی میں سدباب‘‘ محترم محمد ابوبکر صدیق صاحب کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس میں پیش کر کے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔مقالہ نگار نے اپنے اس تحقیقی مقالہ کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے اور اس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کے اسباب اور محرکات کا شریعت اسلامیہ کی روشنی میں سدباب کے متعلق بحث کی ہے۔(م۔ا)
ابو سعید المہلب بن ابی صفرہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے حامیوں میں سے تھے اور اموی دور کے ایک مشہور سپہ سالار تھے۔ جنہوں نے خوارج کے خلاف جنگوں میں ناموری حاصل کی اور اپنی پوری زندگی خوارج کے خلاف جنگوں میں بسر کی اور اس معاملہ میں ان کی خدمات کو بے مثال تسلیم کیا جاتا ہے ۔مہلب یہی وہ سپہ سالار ہے جو خطۂ پاکستان میں محمد بن قاسم سے تقریبا 45 سال قبل داخل ہوا۔ اس لیے مہلب کی شخصیت پاکستان اور اس خطے کے لیے ایک خصوصی اہمیت ہے۔ زیر نظر کتاب ’’المہلب:خطۂ پاکستان میں اسلام کا پہلا علمبردار‘‘محترم جناب ڈاکٹر سید محمد انور صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے المہلب کا شخصی تعارف ، ابتدائی زندگی ، عسکری زندگی ابتدا،المہلب کا اصولی موقف اور فتنہ خوارج،المہلب اور اموی دور حکومت ، المہلب کی وصیت اور اقوال زریں کو دلچسپ انداز میں بیان کرنے کے علاوہ اس بات کو واضح کیا ہے کہ المہلب وہ پہلا واحد مسلم فاتح اور سپہ سالار ہے جس نے خطۂ پاکستان کے چاروں صوبوں میں پہلے خیبر پختون خواہ،پھر پنجاب ،اس کے بعد سندھ اور آخر میں بلوچستان میں اسلام پہلے پہل پھیلایا۔(م۔ا)
لفظ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے کہ جس کے معنی تعظیم کے ہیں ۔ماہ رجب اسلامی سال کا ساتواں قمری مہینہ ہے اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ،اس مہینے کی تعظیم اور حرمت کی وجہ سے اس کا نام ’’رجب ‘‘رکھا گیا کیونکہ عرب اس مہینے میں لڑائی سے مکمل اجتناب کرتے تھے ۔اس مہینے میں کسی نیک عمل کو فضیلت کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا جن بعض اعمال کو فضیلت کے ساتھ بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے وہ محض فرضی قصے اور ضعیف و موضوع روایات پر مبنی داستانیں ہیں۔ مسلمان اس ماہِ رجب میں کئی قسم کے کام کرتے ہیں مثلا صلاۃ الرغائب، نفلی روزوں کا اہتمام ، ثواب کی نیت سے اس ماہ زکوۃ دینا ،22 رجب کو کونڈوں کی رسم ادا کرنا 27 رجب کو شب معراج کی وجہ سے خصوصی عبادت ، مساجد میں چراغاں ، جلسے و جلوس کا اہتمام ،آتش بازی اور اس جیسی دیگر خرافات پر عمل کرنا یہ سب کام بدعات کے دائرے میں آتے ہیں ۔ فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان بن عبد اللہ الفوزان حفظہ اللہ نے زیر نظر پملفٹ ’’النهي عن الإبتداع في شهر رجب ‘‘ میں اختصار کے ساتھ قرآن و احادیث کی روشنی میں اس ماہ رجب میں رواج پا جانے والی بدعات و خرافات کا ردّ کیا ہے اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ان بدعات اور رسوم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مولانا محمد اختر صدیق حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) نے اردو قارئین کے لیے اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ (م۔ا)
معاشرہ اور ملک کی ترقی انصاف کی فراہمی کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ انصاف کے بغیر کسی بھی قوم کے لئے خوشحالی ، امن و سلامتی کے قیام ، جہالت اور غربت کے خاتمے کے اہداف کا حصول ممکن نہیں ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس نے انصاف کئے بغیر ترقی حاصل کی ہو۔معاشرتی انصاف ، سماجی ہم آہنگی اور فسادات کی روک تھام ہی معاشرہ اور ملک کی ترقی کی ضامن ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اور ملک اس وقت ہی حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ کہلا سکتا ہے جب وہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عبد الغفار(چیئرمین شعبہ علوم اسلامیہ یونیورسٹی آف اوکاڑہ) نے زیر نظر کتابچہ ’’سماجی عدل کی ترقی اور عملی اقدامات کا جائزہ سیرت طیبہﷺ کے تناظر میں ‘‘ میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ سماجی انصاف اور فلاح و بہبود کیلئے ضروری ہے کہ سماج سے سرمایہ دارانہ نظام اور جاگیر دارانہ نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ اور یہی دو بنیادی خرابیاں ہیں جو اسلام کے معاشی عادلانہ نظام میں بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔(م۔ا)
نماز دین اسلام کا دوسرا رکن عظیم ہے جو کہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔قرآن و حدیث میں نماز کو بروقت اور باجماعت ادا کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے ۔نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قدر اہم ہے کہ سفر و حضر اور میدان جنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے ۔نماز کی اہمیت و فضیلت کے متعلق بےشمار احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں اور بیسیوں اہل علم نے مختلف انداز میں اس پر کتب تالیف کی ہیں ۔ نماز کی ادائیگی کا طریقہ جاننا ہر مسلمان مرد و زن کے لیے ازحد ضروری ہے کیونکہ اللہ عزوجل کے ہاں وہی نماز قابل قبول ہو گی جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی۔اور ہمارے لیے نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہی اسوۂ حسنہ ہے ۔انہی کے طریقے کے مطابق نماز ادا کی جائے گئی تو اللہ کے ہاں مقبول ہے ۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا : صلو كما رأيتموني اصلي لہذا ہر مسلمان کے لیے رسول اللہ ﷺ کے طریقۂ نماز کو جاننا بہت ضروری ہے۔ زیر نظر کتابچہ ’’ رنگین اور باتصویر نماز نبوی اور وضو کا طریقہ‘‘ فضیلۃ الشیخ امام ابن باز رحمہ اللہ کے مسنون وضو و نماز کے متعلق ایک رسالہ کا اردو ترجمہ ہے۔اس کتابچہ میں مسنون وضو کرنے کا طریقہ اور نماز نبوی کی کیفیت کو مختصراً باتصویر بیان کیا گیا ہے۔ (م۔ا)
رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔روزہ کے احکام و مسائل سے آ گاہی ہر روزہ دار کے لیے ضروری ہے ۔لیکن افسوس روزہ رکھنے والے بیشتر لوگ ان احکام و مسائل سے لا علم ہوتے ہیں،بلکہ بہت سے افراد تو ایسے بھی ہیں جو بدعات و خرافات کی آمیزش سے یہ عظیم عمل برباد کر لینے تک پہنچ جاتے ہیں ۔ کتبِ احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے ہیں اور کئی اہل علم نے رمضان المبارک کے احکام و مسائل و فضائل کے حوالے سے کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ رمضان سے متعلق 50 سوالات ‘‘محترم ابو زید ضمیر حفظہ اللہ کی کاوش ہے ۔ جس میں انہوں نے رمضان المبارک ، روزہ سے متعلق احکام و مسائل کو سوال و جواب کی صورت میں قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کیا ہے ۔آمین (م۔ا)
پاکستان میں ماحولیاتی مسائل میں فضائی آلودگی، آبی آلودگی، شور کی آلودگی، موسمیاتی تبدیلی، کیڑے مار ادویات کا غلط استعمال، مٹی کا کٹاؤ، قدرتی آفات، صحرائی اور سیلاب شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں اور گلوبل وارمنگ ملک بھر میں لاکھوں زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والے سب سے زیادہ خطرناک مسائل ہیں۔ ان ماحولیاتی مسائل کی بڑی وجوہات کاربن کا اخراج، آبادی میں اضافہ اور جنگلات کی کٹائی ہیں۔ ڈاکٹر عبد الغفار(چیئرمین شعبہ علوم اسلامیہ یونیورسٹی آف اوکاڑہ) نے زیرنظر کتابچہ بعنوان ’’ پاکستان میں موحولیات زمین،ہوا،روشنی کا تحفظ ‘‘ میں موضوع سے متعلق سیرت طیبہﷺ سے رہنمائی پیش کرنے کے علاوہ چند تجاویز بھی پیش کی ہیں جن کو اس کتاب کے آخر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔(م۔ا)
نماز کے اختلافی مسائل میں سے ایک اختلافی مسئلہ نماز میں حالت قیام میں ہاتھ باندھنے کی کیفیت و مقام کا بھی ہے۔ برصغیر میں اکثریت نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتی نظر آتی ہے جبکہ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔صحیح احادیث کے مطابق سینے پر ہاتھ باندھنا ہی مسنون ہے۔ نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام سے متعلق اہل علم نے مستقل متعدد کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیرنظر فولڈر ’’نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی مختلف شکلیں‘‘ میں اسی موضوع کو مختصراً پیش کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا ہے کہ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھیں یا دائیں سے بائیں کو پکڑ لیں دونوں طرح ہی جائز اور سنت ہے ۔جو شخص جس پر چاہے عمل کر لے صحیح و درست ہے مزید کسی تکلف کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔(م۔ا)
کفالت عامہ سے مراد اسلامی ریاست کے تمام باشندگان کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کا اہتمام کرنا۔ ان بنیادی ضروریات میں خوراک، لباس، رہائش، تعلیم ، علاج اور انصاف خصوصی طور پر شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبد الغفار نے زیر نظر کتابچہ بعنوان ’’کفالت عامہ کا تصور(حکام و عوام کی ذمہ داریاں) میں کفالت عامہ کا اسلامی تصور پیش کرنے کے علاوہ اس کے عملی اقدامات کا جائزہ مطالعہ سیرت النبیﷺ کے تناظر میں پیش کیا ہے ۔(م۔ا)
شجر کاری نہ صرف ایک صدقہ و ثواب کا ذریعہ ہے، بلکہ اس کے ذریعے گلوبل وارمنگ ، ہیٹ اسٹروک جیسے سنگین مسائل سے بھی نمٹا جا سکتا ہے ۔ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کو روکا نہیں گیا تو یہ دنیا کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے اور اس کا حل ہے تو صرف اور صرف درخت۔ درخت سے گلوبل وارمنگ کو زیر کیا جا سکتا ہے ، مگر افسوس آج بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلی ہیں۔ ڈاکٹر عبد الغفار نے زیر نظر کتابچہ بعنوان ’’گلوبل وارمننگ شجر کاری کے لیے عملی اقدامات‘‘ میں قرآن و حدیث سے شجر کاری کی اہمیت و فضیلت اور فوائد کو بیان کیا ہے اور سیرت طیبہ ﷺ سے بھی اس کے متعلق راہنمائی پیش کی ہے نیز شجر کاری کے عملی اقدامات کے لیے تجاویز بھی پیش کی ہیں ۔(م۔ا)
احکامِ شریعت سمجھنے کے لیے جہاں دیگر علومِ اسلامیہ کی اہمیت ہے وہاں عربی زبان سیکھنے کے لیے ’’ فن صرف‘‘ کو بنیادی درجہ حاصل ہے ۔جب تک کوئی شخص اس فن میں مہارت تامہ حاصل نہ کرے اس وقت تک اس کے لیے علوم ِاسلامیہ میں دسترس تو کجا پیش رفت ہی ممکن نہیں۔ قرآن و سنت کے علوم سمجھنے کے لیے یہ ہنر شرط ِ لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ میں اس فن کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اسی کی تدریس و تفہیم کے لیے درجہ بدرجہ مختلف ادوار میں علمائے کرام نے اس موضوع پر گرانقدر کتابیں لکھیں ہیں اور اسے آسان سے آسان تر بنانے کی سعی جمیل کی ۔ زیر نظر کتاب ’’تدریب الصرف‘‘فضیلۃ الشیخ ابو عدنان مشتاق احمد حفظہ اللہ کی تصنیف ہے۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں اصطلاحات صرفیہ کی تعریفات جامع اور آسان فہم انداز میں پیش کرتے ہوئے جدید اور قرآنی امثلہ کی مدد سے قواعد کی توضیح پیش کی ہے اور ہر بحث کے آخر میں مشکل صیغہ جات کی قواعد کے مطابق تعطیل، مشکل ابواب کی گردانیں مع اعراب پیش کی ہیں۔یہ مصنف موصوف کی سولہ سالہ محنت اور تجربات ِتدریس کا نچوڑ اور عربی گرائمر میں مہارت حاصل کرنے کے لیے منفرد کتاب ہے۔(م۔ا)