یہ کتاب اسلامی شاعری کا مجموعہ ہے ۔ جس میں ایک سچے مسلمان کی طرف اسلامی شعار کو جذبہ خالص کے تحت نذرانہ عقیدت پیش کیا گیا ہے ۔ ام حماد صاحبہ نے اسے بڑے منفرد اور دلکش انداز میں پیش کیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مجموعے میں اسلامی جہاد بھی اس کتاب میں موضوع بحث بنایا گیا ہے ۔ ایک نظم جس کا عنوان رکھا گیا ہے کہ قرآن پکارتا ہے ، ’’اٹھو میرا انتقام لو‘‘یہ نظم بدنام زمانہ جیل گوانتا موبے میں قرآن کی بےحرمتی پر لکھی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی مصنفہ کے کئی ایک شاعری کے مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ جو کہ ایک بندہ مومن کے ایمان کو گرما دینے والے ہیں ۔ اور چونکہ مصنفہ ایک جہادی تحریک سے وابسطہ ہیں اس لئے ان نظموں کا بنیادی مقصد لوگوں کے اندر جہادی شعور بیدار کرنا ہے ۔ اور ویسے بھی شاعری ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں انسان اپنےخیالات کو انتہائی موثر طریقے سے ادا کر سکتا ہے ۔ پھر اس پر مستزاد یہ ہے کہ محترمہ ام حماد صاحبہ جیسا جذبہ صادقہ اس میں شامل ہو تو اسے چار چاند لگ جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی مصنفہ کو اجر جزیل سے نوازے ۔ آمین۔(ع۔ح)
دور جدید میں این جی اوز نے بہت زیادہ اہمیت اختیار کر لی ہے ۔ ہر معاشرے میں ان کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے ۔ بہت زیادہ سول سوسائٹی کو ان کے ذریعے منظم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ این جی اوز کا تصور بذات خود برا نہیں ۔ ان کے اساسی اہداف نیک ہی ہیں ۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث صحت ، تعلیم ، غربت اور سماجی شعور کے متعلق مسائل گھمبیر شکل اختیار کر چکے ہیں ۔حکومتوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ سرکاری سطح پر یہ مسائل حل کر سکیں ۔ اس پس منظر میں این جی اوز کے قیام کا رجحان کسی نیک مشن سے کم نہیں لیکن یہ نیک مشن اس وقت معاشرے کے لیے عذاب بن جاتے ہیں جب ان کے ظاہری اہداف کے پیچھے خفیہ مقاصد بھی دبے پاؤں چلا آتے ہیں ۔ یہ این جی اوز ترقی یافتہ ممالک کے فنڈز اور ڈونر ایجنسیوں کی امداد سے چلتیں ہیں ۔ امداد کے ساتھ ساتھ این جی اوز اپنےمشنری ، مذہبی ، اقتصادی ، جغرافیائی اور دیگر خفیہ مقاصد کو بھی ایکسپورٹ کیا جانے لگا ۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈونر ممالک میں زیادہ تر غیرمسلم مغربی ممالک شامل ہیں ۔ اس لئے ان مخصوص اہداف اور مقاصد کا شکار زیادہ تر تیسری دنیا کے مسلم ممالک ہیں ۔ زیر ن...
آپﷺکی حیات طیبہ کا ہر گوشہ ہی ہمارے لئے بہترین اسوہ ہے ۔ اور انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے بارے میں آپﷺ کی سیرت طیبہ سے رہنمائی نہ ملتی ہو ۔ تجارت ، جنگ ، معلم ، مربی ، لیڈری ، الغرض کوئی شعبہء حیات ایسا نہیں جس کے بارے میں آپ کی سیرت طیبہ روشنی نہ ڈالتی ہو ۔ ایسے ہی آپ ﷺ کی زندگی کا ایک بہترین پہلو والد ہونا ہے ۔ اس حوالے سے آپ نے کیا فرائض سرانجام دیے ۔ اور کونسی تعلیمات دی ہیں؟ آج کے اس مصروف ترین دور میں انسان کا اپنے گھر اور بچوں کے ساتھ ایک جز وقتی سا تعلق رہ گیا ہے ۔ بچوں کی تربیت جیسے حساس پہلو سے بھی غفلت برتی جا رہی ہے ۔ محترم جناب ڈاکٹر فضل الہی صاحب نے اس حوالے سے ذمہ داری کا احساس دلانے کے لیے یہ کتاب رقم فرمائی ہے ۔ اور چونکہ ایک مسلمان اپنی زندگی تمام شعبوں میں آپ کی حیات مبارکہ سے ہی رہنمائی لیتا ہے اس وجہ سے جناب ڈاکٹر صاحب نے اس غفلت شدہ فرض کا احساس بیدار کرنے کے لیے سیرت کا ہی انتخاب فرمایا ۔ اس سلسلے میں آپ نے سترہ اصول دیے ہیں کہ اولاد کی تربیت کے لیے آپ ﷺ نے کیا طریقہ اختیار فرمایا ۔ (ع۔ح)
حیاء وہ عمدہ اخلاق ہے جو انسان کو ہر برائی سے باز رکھتا ہے ارتکاب معاصی میں حائل ہو کر آدمی کو گناہ سے بچاتا ہے حق دار کا حق تلف کرنے سے منع کرتا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد بھی اس معنی پر روشنی ڈالتا ہے کہ لوگوں نے سابقہ انبیاء کی تعلیمات میں سے جو حصہ حاصل کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب حیاء ختم ہو جائے تو پھر جو چاہو کرو ۔ اسلام کا عملا دارو مدار حیاء پر ہے کیونکہ وہی ایک ایسا قانون شرعی ہے جو تمام افعال شرعیہ کو منظم اور مرتب کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کرام نے حیاء دار پر زور دیا ہے ۔ اور تمام عقول سلیمہ اور فطرت مستقیمہ نے بھی اس کا اقرار کیا ہے اور یہ وہ امر ہے جس میں جن وانس کے تمام شیاطین مل کر بھی تحریف و تغیر نہیں کرسکے ۔ اور جس میں حیاء ہوتا ہے اس میں نیکی کے تمام اسباب موجود ہوتے ہیں اور جس شخص میں حیاء ہی نہ رہے اس کے نیکی کرنے کے تمام اسباب معدوم ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ کیونکہ حیاء انسان اور گناہ کے درمیان حائل ہونے والی چیز ہے ۔ اگر حیاء قوی ہے تو گناہ کی قوت ماند پڑ جائے گی ۔ اور اگر حیاء کمزور پڑ جائے تو گناہ کی قوت غالب آجاتی ہے ۔ کتنی ہی برائیاں ہیں ان میں صرف حیا ہی حائل...
مغربی تہذیب اور افکار و نظریات کی مشرق میں آمد کے بعد مسلمانوں کے اندر بالخصوص بنیادی طور پر تین طرح کے طبقات آئے ہیں ۔ پہلا وہ جو مغربی فکر و تہذیب کی مکمل تردید کرتا ہے اور دوسرا وہ جو مکمل تائید کرتا ہے اور تیسرا اور آخری گروہ ان لوگوں کا ہے جو پیوند کاری کرتا ہے ۔ مغرب کے ان گوناگو افکار و نظریات اور تہذیب و تمدن کی دنیا میں ایک جمہوریت بھی ہے چناچہ اس کے بارے میں فطری طور پر مذکورہ بالا تین طرح کی ہی آراء سامنے آئی ہیں ۔ بعض لوگ جمہوریت کی بالکلیہ تردید ، بعض تائید اور بعض بین بین رائے اپناتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اس سلسلے میں زیر نظر کتاب اول الذکر گروہ کی نمائندگی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ فاضل مصنف نے زیر بحث کتاب میں جہاں جمہوری نظام کے مفاسد کا ذکر کیا ہے وہاں ساتھ ساتھ بالخصوص ان لوگوں کی آراء اور دلائل کو چھانٹے کی کوشش کی ہے جو مسلمانوں میں سے جمہوریت کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اگر غیرجانبدارنہ طور پر دیکھا جائے تو کتاب اپنے اندر کئی ایک حقائق کو بھی سموئے ہوئے ۔ اللہ ہماری صحیح رہنمائی فرمائے ۔ آمین۔(ع۔ح)
پوری غیراسلامی دنیا عرب دہشت پسندی کے مترادف سمجھی جانے والی اسلامی بنیاد پرستی سے نفرت کرتی ہے ۔ امریکہ کی کلچر اور دانشور اشرافیہ عیسائی بنیاد پرستی کو جہالت ، اوہام پرستی ، عدم رواداری اور نسل پرستی کے مترادف سمجھتے ہوئے اس سے نفرت کرتی ہے ۔ عیسائی بنیاد پرستی کے پیروکاروں کی تعداد میں حال ہی میں ہونے والا اچھا خاصہ اضافہ اور اس کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثرات امریکہ میں جمہوریت کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہیں ۔ اگرچہ یہودی بنیاد پرستی اسلامی اور عیسائی بنیاد پرستی کے تقریبا تمام عمرانی سائنسی خواص کی حامل ہے ، تاہم اسرائیل اور چند ایک دوسرے ملکوں کے خاص حلقوں کے علاوہ عملی طور پر کوئی اس سے واقف نہیں ہے ۔ جب یہودی بنیاد پرستی کا وجود تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اس کی عم زاد اسلامی اور عیسائی بنیاد پرستی خلقی برائیوں کا شد و مد سے ذکر کرنے والے غیر یہودی اشرافیہ کے اکثر مبصر اس کی اہمیت کو غیر واضح مذہبی سرگرمی تک محدود کر دیتے ہیں یا اسے انوکھا وسطی یورپی لبادہ اوڑھا دیتے ہیں ۔ زیرنظر کتاب اسی تناظر میں لکھی گئی ہے کہ دنیا کے سامنے یہود بنیاد پرستی کو واضح کیا جائے ۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں بنی...
مغرب اور اسلام یا اسلام اور مغرب اس دور کا گرم موضوع ہے ۔ چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی ہمیشہ ہی ستیزہ کار رہا ہے ۔ لیکن ہر دور کے افراد اپنے دور کو ہی تاریخ سمجھتے ہیں ۔ جب کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہوتی ہے ۔ مغرب سے تعامل کی وجہ سے آج جو تہذیبی اور ثقافتی مسائل مسلمانوں کو درپیش ہیں محسوس ہوتا ہے کہ نئے اور جدید ہیں ۔ ماضی قریب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایسے نئے اور جدید بھی نہیں ستر ، پچتر برس قبل اور اس سے بھی قبل ، ہندستان پر برطانوی قبضے کے بعد جو دور گزرا یہ اس دور کے بھی مسائل ہیں ۔ ان مسائل کے حوالے سے اسلامی مؤقف کو پیش کرنے کے لیے بہت کچھ لکھا گیا ۔ لیکن جو بات مغرب کے اپنے فرزندکی زبان و قلم سے ہو سکتی ہے و کسی سکہ بند عالم کے بیان میں شائد ملے ۔ محترم محمد مارما ڈیوک پکتھال ایک نومسلم عالم دین تھے ۔ وہ اپنی ذات میں ایک عالم ، ادیب ، صحافی ، محقق ، مفکر ، مترجم قرآن اور خطیب و مبلغ تھے ۔ انہوں نے اپنی زندگی اسلام کے احیا اور جدید دنیا کے سامنے اسلامی مؤقف واضح کرنے کی بھرپور کوشش فرمائی ۔ اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ۔ موصوف نے امت کے جدید فکر مسائل میں اسلامی مو...
یہ بات ایک بدیہی حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں غالب فکر و فلسفہ سرمایہ داری کا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ فکر اب روبہ زوال ہے ۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے اسے بچانے کی سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ لیکن ہر وہ نظام جو غیرفطری اور غیر حقیقی ہو اسے زوال تو بہر حال آنا ہی ہوتا ہے ۔ اس سب کچھ کے باوجود چند لوگ ابھی بھی اس فکر اور فلسفے کے گن گا رہے ہیں ۔ اور اس کے متوالے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ تاہم کچھ صاحبان حقیقت ایسے بھی ہیں جن کی نگاہ دور رس نے اس کے کھوکھلے پن کا جائزہ لے لیا ہے ۔ اور اس کے بودے پن کو علمی بنیادوں پر واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ زیرنظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ جس میں سرمایہ دارانہ نظام کا معاشی اور سیاسی پہلو سے جائزہ لینے کی کوشش فرمائی ہے ۔ چناچہ وہ لکھتے ہیں کہ انیسویں اور بیسویں صدی کے مخصوص مسائل کے پیش نظر اجتماعی زندگی میں احیائے اسلام کی فکری و عملی جدوجہد کو تین عنوانات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ پہلا اسلامی معاشیات دوسرا اسلامی جمہوریت اور تیسرا اسلامی سائنس جبکہ اس کتاب میں انہوں نے اولیں دو کے حوالے سے رقم فرمایا ہے ۔ یہ کتاب راقم کے مختلف مضامی...
ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں ۔ اگر بچے کی شروع سے اچھی تربیت کی جائے اس میں حق ، نیکی اور خیر کو ترجیح دینے کا جذبہ پیدا کیا جائے تو یہ کام اس کی عادت میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ پھر اس میں حلم ، حوصلہ ، صبر ، تحمل ، بردبار ، کرم شجاعت اور عدل و احسان جیسے اخلاق حسنہ پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر بچے کی تربیت مناسب انداز سے نہ کی جائے تو وہ بری عادت کا شکار ہو جاتا ہے ۔ وہ خیانت ، جھوٹ ، بےصبری ، لالچ ، زیادتی اور سختی جیسے اخلاق سیئہ کا شکار ہو جاتا ہے ۔ چناچہ اسلامی طرز زندگی گزارنے کے لیے اور اپنی زندگی میں اسلام پر عمل کرنے کے لیے ہمیں ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ ﷺ کی زندگی پر عمل پیرا ہونا ہو گا ۔ اپنے بچوں کے اور اپنے سامنے حضور کی حیات مبارکہ کو ماڈل بنانا ہو گا ۔ آپ ﷺ نے ہمارے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں اعلی اور مثالی نمونے چھوڑے ہیں ۔ اور اس کے علاوہ آپ ﷺ کے بہترین فرمودات بھی موجود ہیں ۔ جن پر عمل کر کے ہم اپنی زندگیوں کو ایک جنت کا نمونہ بنا سکتے ہیں ۔ زیر نظر کتاب بچوں اور بڑوں کی اسلامی تربیت کے حوالے سے لکھی گئی...
اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ دو باتیں ہیں ۔اللہ تعالی کی بندگی و اطاعت اور اللہ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک اسی لیے جیسے شریعت میں ہمیں اللہ تعالی کے حقوق ملتے ہیں اسی طرح ایک انسان کے دوسرے انسان پر بھی حقوق رکھے گئے ہیں ۔ اسلام میں انسانی حقوق کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اسی لیے اسلام نے ان حقوق کو بہت واضح طور پر پیش کیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے ، انسان ایک سانپ کی طرح تنہا کسی بل میں اور ایک شیر کی طرح تنہا کسی غار میں زندگی نہیں گزار سکتا ، وہ سماج اور خاندان کا محتاج ہے اور بہت سے رشتے داروں کے حصار میں زندگی بسر کرتا ہے ۔ چناچہ اس نسبت سے بھی انسان کے اوپر بہت سے حقوق عائد ہوتے ہیں ۔ والدین اور اولاد کا حق ، بیوی ، بھائیوں اور بہنوں کا حق اور پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ یہ تمام حقوق اصل اسلامی حقوق کے دائرے میں آتے ہیں ۔ اس لئے شریعت میں انسانی حقوق کا دائرہ بہت وسیع ہے اور انہیں بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ زیر مطالعہ کتاب در اصل انڈیا میں منعقد سمینار میں دیے گئے لیکچرز کا مجموعہ ہے ۔ جس میں اس موضوع کے حوالے سے تقریبا تمام پہلو آچکے ہیں ۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک جامع...
بنی اسرائیل کی تباہی کا بڑا سبب اللہ کی حدود کو توڑنا ، احکام شریعت کا مذاق اڑانا ، مختلف تاویلوں سے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینا تھا ۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے ان پر پے درپے عذاب نازل کیے تھے ۔ ذلت و رسوائی ان کا مقدر ٹھہری ان کو سور اور بندر بنا دیا گیا تھا ۔ امت محمدیہ کو اس خصلت بد سے باز رکھنے کے لیے قرآن و حدیث میں جابجا احکام نازل فرمائے ۔ لیکن بدقسمتی سے آج مسلمانوں نے وہی طور طریقے اختیار کر لیے ہیں ۔ اس لیے حرام چیزوں کا بیان علم دین کا ایک اہم ترین جز ہے اور جب تک آدمی حرام چیزوں سے نہ بچے نہ اس کا اسلام معتبر ہے نہ اس کی عبادت مقبول ۔ اسی لیے حرام چیزوں کو بیان کرنے کے لیے علمائے کرام نے متعدد کتابیں تالیف کی ہیں اور یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے عالم اسلام کے مشہور و معروف عالم دین الشیخ محمد صالح المنجد نے ترتیب دیا ہے ۔ زیرنظر کتاب موصوف کی تالیف محرمات استہان بہا الناس یجب الحذر منہا کا اردو ترجمہ ہے جس میں بیشتر ایسی محرمات پر تنبیہ کی گئی ہے جن میں لوگ آج کل بہت تساہل برتتے ہیں او ران محرمات کو بہت معمولی سمجھتے ہیں ۔ اور بڑی جرت سے...
دنیا میں کوئی بھی فکر اور نظریہ ہو اسے لوگوں تک منتقل کرنے کے لیے یا اسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے اس کی دعوت ضروری ہے ۔ پھر یہ ہے کہ دعوت کے اندر افہام و تفہیم کا پہلو غالب ہو ۔ تاکہ بات سمجھ کر اسے قبول کرنا آسان ہو ۔ یا کہیں ایسا نہ ہو کہ بات بحث و نزاع میں ہی الجھ کر رہ جائے اور اصل مدعا فوت ہو کر رہ جائے ۔ پھر جب آپ کسی کو دعوت دیتے ہیں تو اس وقت کچھ اصولوں کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے یعنی آپ اپنی دعوت کیسے آگے پہنچائیں کہ سامع قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ بات انسان عملی تجربات سے سیکھتا ہے اگرچہ اس باب میں بھی قرآن و حدیث نے کچھ بنیادی اصول دے رکھے ہیں تاہم ان کے ساتھ ساتھ انسان کے عملی تجربات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ اور پھر دوسری بات یہ ہے کہ ہر علاقے اور قوم کے احوال مختلف ہوتے ہیں ہر قوم کی اپنی اپنی نفسیات ہوتی ہیں ۔ اس کے سمجھنے کے اپنے اپنے زاویے ہوتے ہیں تاہم پھر بھی عقل و فہم کے کچھ عمومی اصول ہوتے ہیں جن پر عمل کیا جاسکتا اور انہیں بوقت دعوت عملا استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ زیر نظر کتاب اسی پہلو کے بارے میں روشنی ڈالتی ہے کہ قرآن و حدیث اور عمومی تجرباتی اصول...
انعامات نعمت سے ہے اور نعمت اس کو ملتی ہے جومحنت کرتا ہے،کوئی اچھا کام کرتا ہےکوئی کارنامہ سرانجام دیتا ہے۔کسی کو فائدہ اور نفع پہنچاتا ہے۔کسی کونقصان سےبچاتا ہے یا کسی قسم کی قربانی دیتا ہے۔ یا پھر وہ برے افعال کو ترک کرکے ایک باصلاحیت فائدہ بخش اور نیک فرد بن کر ایک ماڈل ونمونہ بن جاتا ہے۔ پھرمعاشرے میں ہرفرد اس کو عزت وتوقیر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کےلیے دیدۂ دل اور فراش راہ رکھتا ہے۔ اس کےلیے آنکھیں بچھاتا ہے، اس کی عزت واحترام کرتا ہے۔ اور اس کی زندگی کو اپنےلئے بطورنمونہ وماڈل بنا لیتا ہے۔ ایسے ہی افراد رہتی دنیا تک کے لیے قابل نمونہ ومثال بن جاتے ہیں۔ اس کےبرعکس گناہوں کا ارتکاب انسان کےلیے باعث ننگ وعار ہوتا ہے اس کی وجہ سے نہ صرف انسان معاشرےمیں اپنی عزت ووقارکھوتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اپنے خاندان اور اقربا واعزا کا بھی وقار ختم کر دیتا ہے۔گناہوں کی کئی ایک قسمیں ہیں۔ بلکہ اگرکہا جائے توبےجانہ ہوگا کہ جس قدر انسانی خواہشات ہیں اسی قدر گناہ ہیں۔کیونکہ ہر خواہش نیکی اور برائی کے دونوں پہلوو رکھتی ہوتی ہے۔ یہ اب انسان پرہی کہ وہ کس طرف چلتاہے۔ زیرنظرکتاب گناہ کے بارےمیں ہمارا شع...
سعودی عرب میں ایک قانون ہے کہ دین پر بولنے کے لیے یا درس وارشاد کے لیے آپ کے پاس حکومت کی طرف سے اجازت نامہ ہونا چاہیے ۔ اس سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہو جاتا ہے کہ دین ایک کھلواڑہ بن کر نہیں رھ جاتا بلکہ وہی اس پر بات کرتا ہے جس میں صلاحیت واہلیت ہوتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس باقی وہ ممالک جن میں اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں وہاں دین بازیچۂ اطفال بن کر رھ گیا ہے۔ اسی سلسلے میں سعودی گورنمنٹ کی طرف سے مختلف جالیات سنٹرز ہیں ۔ زیرنظر کتاب درحقیقت ان چند دروس کا مجموعہ ہیں جو ایک مشہور واعظہ جناب ام عدنان بشری قمر نے جالیات سنٹر کی طرف سے کئی ایک مجالس میں ارشاد فرمائے تھے۔ فی الوقت اس سلسلے کی یہ دو جلدیں ہیں ۔ دروس کے اس مجموعے کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں واہی تباہی قصے کہانیوں، من گھڑت اور ضعیف ومنکر روایات سے ممکن حد تک اجتناب کیا گیا ہے۔ اور صحیح وحسن درجے کی روایات پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ ان دروس کو سات عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے، جس کو سات ابواب کی شکل دی گئی ہے۔ بلکہ اسلام کے ارکان اربعہ کو دو حصوں (نماز ، روزہ ، حج و عمرہ اور زکات) میں الگ الگ کر کے آٹھ ابواب کر دیے گئے ہیں۔ (ع۔ح...
آج کے اس پرفتن دور میں اصلاح معاشرہ کے موضوع پر جو کچھ بھی لکھا جائے وہ جہاد سے کم نہیں۔ ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر اس قدر دیوالیہ ہو چکا ہے کہ مسجد و محراب سے بھی اخلاق سے عاری گفتگو سننے کو مل رہی ہے ۔ مسلک و فرقہ کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کو گالیاں دینا معمول بن چکا ہے ۔ عوام الناس کا یہ حال ہے کہ ان کی گفتگو میں ماں بہن کا نام لے کر ایسی ایسی گالیاں دی جاتی ہیں جن کو سن کر سلیم الطبع آدمی شدید کرب میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ مگر گالیاں دینے والے اور سننے والے اس سے ذرا بھی بدمزہ نہیں ہوتے ۔ قرآن و سنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کی اکثریت صرف اپنی زبان کی وجہ سے جہنم میں اوندھے منہ پڑے گی ۔ پھر اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ علم و تحقیق کے موضوع پر بڑے بڑے پچیدہ موضوعات پر کتابیں اور مقالات شائع ہو رہے ہیں ۔ مگر اصلاح معاشرہ کے موضوع پہ نہ تو خطبات سننے کو ملتے ہیں نہ پڑھنے کو کتابیں ۔ زیرنظر کتابچہ اسی سلسلے کی ایک کاوش ہے جس میں احادیث اور قرآن کی روشنی میں اس گناہ کی قباحت و شناعت واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ دعا ہے اللہ تعالی ہمی...
اسلامی معاشرے میں مسجد اللہ کی عبادت کا مرکز ہے جس کے گرد مومن کی زندگی گھومتی ہے ، اس کی زندگی کا اچھا خاصہ حصہ مسجد میں ہی کٹتا ہے ۔ کیونکہ ہر عاقل ، بالغ اور آزاد مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ دن رات میں پانچ دفعہ مسجد جائے اور اللہ کے ذکر و عبادت سے مسجد کو معمور و آباد رکھے ۔ دنیا کے معمولی درباروں کا حال آپ کو معلوم ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اس کے کچھ خاص آداب ہوتے ہیں ۔ جن کی بجاآوری ہر اس شخص پر لازم ہوتی ہے جو وہاں آئے ۔ دنیاوی حکام کے اجلاسوں کے آداب جنہیں ہم رات دن اپنی اپنی زندگی میں برتتے ہیں ان کو سامنے رکھ کر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ اس دربار کی عزت وقعت کا کیا حال ہوگا جو انسانوں کا نہیں بلکہ ان کے خالق و مالک کا گھر کہلاتا ہے ۔ چناچہ اسی سلسلے میں جمعیت اہل حدیث لندن کی طرف سے یہ کتابچہ شائع کیا گیا ہے ۔ اس میں مسجد کے ان آداب کا ذکر گیا ہے جو قرآن و حدیث میں وارد شدہ ہیں ۔ مثلا مسجد کے من جملہ آداب میں سے یہ ہے کہ اس کی صفائی کا خیال رکھا جائے اس میں لغو اور دنیاوی باتیں نہ کی جائیں ، بلکہ زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کیا جائے ، اس میں نیت پاک ہو اور جب گھر سے نکلا ج...
قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے ہی بنی نوع انسان کافر و مسلم ، حزب اور حزب الشیطان جیسے دو گروہوں میں تقسم ہو گئے ۔ اس طرح انسانیت بنیادی طور پر دونظریات میں بٹ گئی ۔ تاہم یہ بات ایک طےشدہ حقیقت ہے کہ نظریہ دین اور منہج و مسلک کوئی سا بھی ہو اسے اپنے نفاذ کے مرحلے تک پہنچنے کے لیے کئی ادوار سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اگر انسانوں کی طرف سے ہو تو پہلا دور اسے وضع کرنے کا ہوتا ہے ۔ اور اگر خدا کی طرف سے ہو تو پہلا مرحلہ خدا کی طرف سے بذریعہ وحی اسے انسانوں تک پہنچانےکا ہوتا ہے ۔ دوسرا مرحلہ اس کی افادیت سے اگاہ کرنے کے لیے انسانوں کے درمیان اس کی تشہیر و دعوت کا ہوتا ہے ۔ چناچہ اس کام میں مذکورہ بالا دونوں متحارب گروہوں میں سے جس قدر کسی میں اخلاص اور لگن ہوگی وہ اسی کے حساب سے کامیاب ہو گا ۔ پھر تیسرا مرحلہ اس جماعت کے نظریہ اور سوچ کو عملی طور پر نافذ کرنے کا ہوتا ہے ۔ اور یہ تب ممکن ہے جب اس نظریے کو ماننے والی ایک جماعت ہو جو اس نظریے کے اصولوں پر پوری طرح ایمان رکھتی ہو ۔ اسے اپنی زندگی میں نافذ کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہو ۔ زیرنظر کتاب انہی مقاصد کو پیش نظر رکھ ک...
تیرہ سو سال پر محیط برصغیر میں اسلام اور اسلامی شخصیات کی داستان تاریخ اسلام میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے ۔ اس کی ابتدا محمد بن قاسم الثقفی جیسے مہم جو اور انتہائی قابل قائد سے ہوتی ہے اور پھر سندھ کے راستے پورے برصغیر میں اسلام پھیل جاتا ہے ۔ جس کی ایک زندہ تصویر پاکستان اور جنوبی ایشیا کے مشرقی حصے میں بنگلہ دیش کی موجودگی ہے ۔ جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کی دوسری اور تیسری بڑی آزاد مسلمان ریاستیں ہیں ۔ برصغیر میں اسلام کے موضوع پر کئی مصنفین نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق لکھا ہے ۔ لیکن اب بھی کافی تحقیقی کام ہونا باقی ہے ۔ زیرنظر کتاب ڈاکٹر مجیب الرحمان کی اسی موضوع پر ایک قابل قدر اضافہ ہے ۔ پھر اس پر مستزاد یہ ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کا تعلق بنگال سے ہے ۔ اور بنگال کی راج شاہی یونیورسٹی میں ایک طویل عرصہ تدریس و تحقیق کے لیے زندگی بسر کرتے رہے ۔ اس کتاب میں چند ایسے علما اور اسلامی شخصیات کے سوانح اور علمی کارنامے بیان کیے گئے ہیں جن کے متعلق اس سے پہلے اردو میں زیادہ کچھ نہیں لکھا گیا ۔ اسی لیے یہ کتاب قارئین کے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ (ع۔ح)
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دنیا کے کفار بالخصوص ہنود و یہود اور صلیبی امت مسلمہ کی تباہی کے لیے کمر بستہ ہو چکے ہیں۔ انھوں نے یہ سازشی منصوبہ بنایا ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کے اس مضبوط خاندانی نظام کو تباہ کر دیں کہ جس کی بنا پر ایسے افراد جنم لے رہے ہیں جونہ صرف ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرأت کرتے ہیں بلکہ ان کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان کے ذرائع ابلاغ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا وغیرہ خاص طور پر ان کے مشن کو مسلمانوں میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ محترمہ روبینہ نقاش نے یہ کتاب اسی لیے ترتیب دی ہے کہ ان ذرائع و اسباب سے آگاہی حاصل کی جائے کہ جن کے ذریعے کفر ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے، تاکہ اپنے خاندانوں اور مسلم گھرانوں کو تباہی و بربادی سے بچایا جا سکے۔ یہ بربادی کس کس طرح ہمارے گھروں میں داخل ہو رہی ہے؟ اور اس سے ہم نے اپنے آپ کو کیسے بچانا ہے؟ یہی اس کتاب کا موضوع ہے۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصے میں ان محرکات کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی وجہ سے ہمارے گھر بربادی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اور واقعتاً یہ...
عصر حاضر کے بڑے بڑے فتنوں میں سے ایک فتنہ فحاشی و عریانی بھی ہے ۔ مغرب نے عورت کو گھر سے نکال کر اپنے افکار کی ترویج کے لیے بڑی خوش اسلوبی سے استعمال کیا ہے ۔ آج معاشرے میں ہر کہیں فحاشی وعریانی کا بازار گرم ہے ۔ اور یہ تمام تر اثرات مغربی فکر اور فلسفے کے ہیں ۔ اہل مغرب نے پہلے عورت سے کہا کہ وہ معیشت میں یکساں اجرت کا مطالبہ کرنے کے لیے گھر سے نکلے پھر اس کے بعد اس قضیے کو زندگی کے ہر شعبے میں پھیلا دیا۔ زیر نظر کتاب میں ام عبدمنیب نے اسلامی لباس کی وضع وقطع کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے جو کہ ایک فطر ی اور سادہ لباس ہے ۔ جس میں اسراف اور تبذیر سے گریز اختیار کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح رہے کہ لباس کی وضع و قطع تہذیب کے اہم ترین مسائل میں سے ہے ۔ جس میں اسلام اپنا ایک ایسا لباس متعارف کرواتا ہے جو ستر و حجاب کی تعلیمات کے عین مطابق ہو ۔ جبکہ اس کے برعکس مغرب ایک ایسا لباس سامنے لے کر آتا ہے جو اس کے فلسفہء حیات کے عین مطابق ہے ۔ لحاظہ اس حساب سے لباس کا تعلق تہذیب سے بھی ہے ۔ ام عبدمنیب نے اس سلسلے میں بھی بطریق احسن روشنی ڈالی ہے کہ صحیح اسلامی لباس کے بارے میں تع...
اس میں بھلا کیا شک ہے کہ اس وقت امت مسلمہ پرزوال کا دور ہے۔ مسلمان ہر لحاظ سے ابتر کا شکار ہیں۔ ان کی سیاست میں انتشار، ان کی معاشرت میں بے راہ روی، ان کی معیشت میں تباہ حالی اسی طرح تزکیہ نفس اور اصلاح باطن کا شدید فقدان ہے۔ گویہ یہ زوال ہمہ جہتی ہے۔ اور یہ شروع بھی گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہواہے۔ امت کی اس زبوں حالی کو دیکھ کر اسے سدھارنے کےلیے کئی ایک جماعتیں اٹھیں، ان میں سے کچھ دعوتی تھیں اور کچھ عسکری۔ ایسے ان جماعتوں میں سے سب سے اہم ترین جماعت اخوان المسلمین ہے جس نے احیائے امت کےلیے تقریباً ہمہ جہت کام کیا۔ بنیادی طور پر اخوان کامحاذ سیاسی تھا۔ اور گزشتہ صدی میں جو جماعتیں امت کےلیے ایک نمونے کی حیثیت سے سامنے آئی ہیں ان میں سے بھی اخوان کا شمار ہوتا ہے۔ مختصر بات یہ ہےکہ اخوان کانظم ونسق اور اس کے کارکنان کی تربیت واصلاح ایک مثال تھے۔ زیرنظرکتاب میں اس عظیم تحریک کے نظام اصلاح وتربیت کو سمجھانے کی یا اسےآگے پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں مصنف نے اس تحریک کے دعوتی اور تربیتی پہلو کو زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ (ع۔ح)
افراد اور اقوام کے رہن سہن، عادات وخصائل حتی کہ کھانے پینےکےآداب کوبھی تہذیب وتمدن اور ثقافت وکلچرمیں شمارکیاگیاہے۔ ہرمعاشرے اوراقوام کی عادات واطوار، بودوباش او رکھانے پینے کے انداز ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ تہذیب وتمدن انسانوں کی عزت وعظمت کامعیار ہی نہیں بلکہ افراد کو یکجا اورمتحدرکھنے میں اس کا بڑا دخل بھی ہے۔ جس طرح نظریا ت آدمی کو ایک دوسر ےکےقریب اور دور کرتے ہیں یہی قوت تہذیب وتمدن میں کارفرماہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے اپنی تہذیب کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی تہذیب کو اپنایا وہ انہی میں سے ہوگا۔ لہذا ضروری تھا کہ امت کےتہذیب وتمدن کو نمایاں اورمسلم امہ کو ممتاز رکھنےکے لیے اس کو ایک ایسی فکریکسوئی اورحسن عمل سے آراستہ کیا جاتا جس کی کوئی نظیر پیش نہ کرسکے۔ اورپھر امت اس قوت کےساتھ اقوام عالم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے۔ زیرنظرکتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں میاں جمیل صاحب جوکہ ایک مشہور عالم دین ہیں انہوں نےآپ ﷺ کی سیرت اور تاریخ کے دیگراسلامی واقعات کی روشنی میں تہذیب اسلامی کے جملہ پہلووں کو اجاگرکرنےکوشش کی ہے۔ (ع۔ح)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کوآزمانےاوربخشنےکےلیے مختلف طریقے اور حیلے وضع کیے ہیں۔ ان میں ایک روزہ رکھناہے۔ روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ انسان کے ہر نیک عمل کا ثواب اس میں پائے جانے والے خلوص اور جذبہ کے مطابق بڑھا دیا جاتا ہے۔ لیکن روزے کا ثواب اللہ تعالیٰ نےاپنےپاس رکھاہے۔ فرمایا کہ میرا بندہ میرےلئے روزہ رکھتاہے اس لیے اس کابدلہ میں ہی دوں گا۔ ماہ صیام تمام مسلمانوں کو تقویٰ اور ایما ن کے مطابق سکون اور ایمان قلب عطا کرتاہے۔ اس ماہ میں ایک مسلمان تسبیح وتحلیل، ذکرالہی، تلاوت قرآن مجید، ادئیگی نوافل، صدقہ وخیرات کرکے،منکرات اور لغو باتوں سے بچ کر اپنے آپ کو اللہ کی نظر میں سرخروکرلیتا ہے۔ زیر نظر کتابچے میں ڈاکٹر ہمایوں شیخ صاحب نے اسلام کے اس افضل ترین فریضہ اور عبادت کے حوالے سے اس کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔اس کےساتھ یہ ہےکہ رمضان کےفوراً بعد ایک عظیم الشان اسلامی تہوار آتاہے چنانچہ اسی مناسبت سے اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہےکہ اس موقع پر اہل اسلام باہم طور پر کس طریقے سے خوشیاں تقسیم کریں۔ فہم قرآن انسٹی ٹیوٹ کا بنیادی مقصد ہی یہ ہےکہ دورِ جدید میں اسل...
قرآن عظیم اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کی ہدایت کے لیے ایک جامع واکمل کتاب ہے جس کی رسول ﷺاللہ نے اعمال واقوال کے ذریعے تشریح فرمائی ۔ قرآن کریم صرف احکام وتشریحات کی کتاب نہیں بلکہ پوری کائنات کے لیے ایک ضابطہءحیات ہے ۔قرآن میں فکر وتدبر ،حکمت وعبرت،علم ونظر وعقل وافعال پر بےشمار آیات ہیں ۔ رسولﷺکا فرمان ہے (تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اورسکھائے )قرآن کے نزول کا مقصد اس میں تدبر،غور وفکر اور عمل کرناہے۔قرآن مجید ضخامت وحجم میں چھوٹا ہے لیکن مضامین اور معنوی عظمت کے لحاظ سے بہت بڑا ہے ۔ وسعت معلومات اور براہین و دلائل کے لحاظ سے ایسا بحر رواں ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ۔اسکا اسلوب بیاں فطری ہے۔انسانی عقل وفراست اسکی کماحقہ حقیقت سےعاجز ہے ۔اگر مسلمان اپنی سابقہ عظمت رفتہ کی طرف واپس آناچاہتےہیں تو اس عظیم الشان کتاب کو سمجھ کر پڑھیں۔صرف زبانی یاد کرلینے سے اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی طرف متوجہ نہ ہوےتو ہو سکتاہے کہ اللہ کے رسول ﷺکی شکایت ہمیں بدبختی کے گڑھےکی طرف دھکیل دیں۔قرآنی مقاصد کو حاصل کرنےکیلے عربی زبان اور اس کے قوا...
آج پوری دنیا میں مغربی تہذیب اور کلچر کے اثرات ہیں مسلمان خواہ عورت ہو یا مرد وہ حقیقی معنوں میں اپنے اسلام پر عمل کرنا چھوڑ گئے ہیں ۔ اسلام کی جہاں گونا گوں اقدار کو پس پشت ڈالاگیا ہے وہاں ایک اسلامی معاشرے کی نمایاں ترین قدر ، پردہ بھی ہے ۔ سوسائٹی میں جابجا بےپردگی عام ہے ۔ آج عورت فیشن ایبل بن کر ، ننگے منہ ، ننگے سر عطر پرفیوم لگا کر بازاروں ، سٹوڈیوز، کلبوں اور کھیل کے میدانوں میں گھومتی ہے بلکہ بین الاقوامی کھیلوں کے میچ میں بن سنور کر شریک ہوتی ہے اور اس حالت میں بگڑے ہوے معاشرے کے اندر مردوں کو دعوت گناہ دیتی ہے ۔ جیسا کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے ۔ (غلط) دیکھنا آنکھ کا زنا ہے (غلط ) بولنا زبان کا گناہ ہے ۔ اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے ۔ اور شرمگاہ ان تمام امور کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے ۔ (بخاری6612) اسلام نے عورت کو عفت و عصمت اور پاکدامنی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے گھر میں رہنے کی تاکید کی اور جب کبھی ضرورت سے باہر جانا پڑے تو پردے کا حکم دیا ہے ۔ اس کتابچے میں مختصر انداز میں پردے کا شرعی حکم بیان کیا گیا ہے ۔ لمبی لمبی فقہی بحثوں کو نہیں چھیڑا گیا ۔ تاکہ مسلمان خواتین...