مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہیں سیرت سرور عالم پر لکھنے کی سعادت ملی ہے۔آپ کا اسم گرامی جیسے زبان پر آتا ہے ویسے ہی آپ کی عظیم ترین کاوش الرحیق المختوم یاد آجاتی ہے۔آپ عصر حاضر کے ان علماء میں سے تھے جو رسوخ فی العلم رکھتے تھے۔آپ اعظم گڑھ، مبارکپور کی سرزمین پرچھے جون انیس سو بیالیس میں پیدا ہوئے تھے۔بستی کا نام حسین آباد جو قصبہ مبارکپور کے شمال میں تقریبا دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اسی طرح مولانا کی تعلیم ، تدریس اور دیگر کار ہائےنمایاں کے بارےمیں یہ کتاب رقم کی گئی ہے۔جسے موصوف مرتب انتہائی زیادہ کاوشوں کے ساتھ منصہ شہود پر لے کر آئے ہیں۔ساتھ ان کی طرف سے یہ شکوہ کیا گیا ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ ایک اتنی بڑی شخصیت کے آنکھوں سے اوجل ہونے کے باوجود بھی سلفی حضرات کی طرف سے کسی معروف جریدے میں کوئی کلمہء تاسف نہ لکھا گیا۔ اللہ تعالی محتر م مؤلف کی اس عظیم کاوش کو قبول فرمائے۔(ع۔ح)
برصغیر پاک و ہند میں حدیث اور محدثانہ طرز استدلال کے پہلو کو اجاگر کرنے کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہ کا نام بہت یاد رکھا جائے گا۔آپ نے تقلیدی جمود کو توڑ کر تحریک حریت فکر و عمل کی بنیاد رکھی۔آپ کے بعد یہ تحریک عسکری و علمی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔اگرچہ فکری ارتباط دونوں ہی دھاروں میں رہا لیکن ہر کوئی اپنے حلقے کا بہترین نمائندہ بن گیا۔علمی فکری دھارے کی نمائندگی کے لیے جو سرخیل سامنے آئے ان میں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے عظیم شاگرد رشید جناب شمس الحق عظیم آبادی ہیں۔آپ نے حضرت شاہ ولی اللہ کے خواب کو تعبیر کا جامہ پہناتے ہوئے علم حدیث کی ایسی شرح کرنے کی کوشش فرمائی جو فقہائے محدثین کے طرز استدلال پر ہو۔اس سلسلے میں آپ کا یہ ارادہ تھا کہ درس نظامی کےنصاب میں شامل کتب حدیث پر کم از کم حاشیہ چڑھا دیا جائے۔ عون المعبود اسی سوچ کا نتیجہ تھا۔آپ بے پناہ اسلامی اور مسلکی غیرت کے حامل تھے۔منہج اہل حدیث کو اجاگر کرنے کے لئے بیش بہا خدمات سرانجام دیں۔ زیرنظر کتاب میں آپ کی دینی خدمات کو واضح کرتے ہوئے زندگی کے مختلف گوشوں پر حاوی ہ...
امام محمد بن حسن شیبانی صاحبین یعنی امام ابوحنیفہ کے دو جلیل القدر شاگردوں میں سے ایک ہیں جن سے ان کی فقہی روایت آگے بڑھی ہے ، ان کے دوسرے شاگرد امام ابویوسف ہیں ۔امام ابوحنیفہ کی جانب اگر چہ عقائد اور تعلیم و تعلم سے متعلق چند رسائل منسوب ہیں ،مگر حدیث و فقہ پر ان کی اپنی مرتبہ کوئی کتاب محفوظ نہیں، ان کے علمی تبحر اور تفقہ فی الدین کا حاصل ان کے شاگردوں اور بالخصوص صاحبین کی تالیفات میں ملتا ہے ۔ امام ابو یوسف کا تحریری کارنامہ کتاب الخراج اور الرد علی سیر الاوزاعی جیسی کتابوں تک محدود ہے ۔ اس کے برعکس امام محمد بن حسن شیبانی کی تالیفات فقہ و قانون کے سارے پہلووں کی جامع ہیں ، اور نہایت مفصل ہیں ۔ امام محمد بن حسن کے اس کارنامے کے سبب جملہ متاخر حنفی فقہاء ان کے خوشہ چین ہیں ۔ امام شیبانی ، اسلامی فقہی روایت سے قطع نظر بنی نوع انسان کی تاریخ قانون میں منفرد مقام کے حامل ہیں ۔ ان کی کتاب الاصل یا المبسوط کا مقابلہ اگر رومن قانون کی شہرہ آفاق کتاب مجموعہ قوانین جشی نین سے کیا جائے تو امام شیبانی کی ژرف نگاہی اور دقت نظر کا قائل ہونا پڑتا ہے ۔ زیرنظر کتاب امام صاحب کی زند...
اس وقت برصغیر پاک و ہند میں جس قدر بھی جہاد ہو رہا ہے اس کے بارے میں اگر یہ رائے رکھی جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اس کی اساس سید احمد شہید ؒ نے رکھی تھی ۔ آپ ؒ نے اس وقت علم جہاد بلند کیا جب برصغیر میں کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں زوال کے آثار نمایاں تھے ۔ امت کا انتشار و افتراق اور دین سے جہالت بہت بڑھ چکی تھی ۔ انگریز اور سکھ اپنے خونی پنجے گاڑھ چکے تھے ۔ حالات میں مایوسی اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکی تھی ۔ اس صورت حال میں سید صاحب نے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دلائی ۔ اور ایک جماعت کی اساس رکھی ۔ آپ نے خیبر پختونخوا میں ایک ریاست اسلامیہ کی تاسیس بھی رکھی ۔ حتی کہ خطبوں میں بھی آپ کا نام لیا جانے لگا ۔ تاہم اپنے کی غداری کا شکار ہوئے ۔ آپ کے بعد بھی جماعت مجاہدین نے اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔ مسلمانان برصغیر میں جذبہء جہادی و آزادی کی روح آپ کی ہی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے لوگوں کے شرکیہ عقائد اور بدعی اعمال کی اصلاح کا بھی بیڑا اٹھایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میدان میں آپ کو کامیابیوں سے نوازا ۔ زیرنظرکتاب مولانا ابوالحسن ندوی ؒ کی تصنیف سید احمد شہید ؒ کی خدمات و حیات...
نماز اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے ۔یہ مسلمانوں کی اجتماعیت اور مرکزیت کی علامت ہے۔آنحضرتﷺ نے اس رکن عظیم کی بنیاد پر کفر و اسلام کی حدود کھینچی ہیں ۔اسے مؤمن کی معنوی و روحانی معراج قرار دیاگیا ہے۔روز محشر اس فریضہ کی ادائیگی کی سب سے پہلے باز پرس کی جائےگی۔اس میں کوتاہی موجب ہلاکت ہوگی۔اسی وجہ سے اس اہم ترین فریضہ کی ادائیگی پر آنحضرتﷺ نے پرزور تاکید فرمائی ہے۔اس حوالے سے ایک جامع اور آسان ترین طریقے سے رہنمائی کی ضرورت تھی ۔چنانچہ مولانا صادق سیالکوٹی صاحب نے ایک عظیم کوشش کرتے ہوئے ’’ صلوۃ الرسول ‘‘ نامی کتاب تصنیف کی لیکن اس میں متعدد کوتاہیاں موجود تھیں اور اس کی تخریج موجود نہیں تھی ۔چناچہ اس کتاب کی مزید تحقیق کرتے ہوئے مولانا عبدالرؤف بن عبدالحنا ن نے ’’ القول المقبول فی شرح وتعلیق صلوۃ الرسول ﷺ‘‘ نامی کتاب لکھ کر اس کی احادیث کی تخریج اور بعض مقامات پر علمی تعلیق پیش کر دی ہے ۔اللہ تعالی مؤلف محترم اور محقق صاحب کو اجر جزیل سے نوازے۔اور ان کی اس سعی جمیل کو توشہ آخرت بنائے۔آمین...
آپﷺ کے شمائل و خصائل کی خوشبو ہمہ وقت اور ہمہ جہت ہے ۔ رات کے سونے اور جاگنے میں ، دن کے معمولات ، عبادات اور معاملات میں سیاست و سیادت میں ، خوف و تقویٰ میں صبر و ثبات میں صلہ رحمی و ہمدردی میں ، سختی و نرمی میں ، شجاعت و سخاوت میں ، درگزر و معافی میں ، حق گوئی و بے باکی میں ، خوراک و لباس میں، خوشی و غمی میں ، خوشحالی و تنگدستی میں ، یتیمی و مسکینی میں ، اٹھنے اور بیٹھنے میں ، شرم و حیاء میں بیماری و تندرستی میں ، خلوت و جلوت میں ، اپنوں اور بیگانوں میں ، دوستوں اور دشمنوں میں ، امن و جنگ میں ، ہنسنے اور مسکرانے میں مثالی کردار کی خوشبوئیں پھیلتی گئیں ۔ آپﷺ کی ذات مقدس جامع الصفات و الکمالات تھی ۔ شمائل النبی ﷺ پر برصغیر میں لکھی جانے والی کتب میں عام طور پر اس موضوع کا پوری طرح احاطہ نہیں کیا جاتا ۔ شمائل کے نام پر آپﷺ کی پوری سیرت لکھ دی گئی ۔ موصوف نے انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنی تالیف کو مقررہ حدود کے اندر رکھا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ شمائل کے تمام چھوٹے بڑے پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ کتاب کا حجم بھی بہت مناسب ہے بے مقصد طوالت نہیں ۔ اللہ مؤلف کو اجر ج...
شیخ الحدیث مولانا ابوانس محمد یحییٰ گوندلوی ؒ علیہ جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین ، بلندپایہ محقق، منجھے ہوئے مدرس ، حاضر جواب مناظر ، لائق مصنف و مترجم اور شارح اور سلجھے ہوئے خطیب تھے ۔ انہوں نے درس و تدریس ، تصنیف و تالیف ، وعظ و تقریر اور مناظروں اور مباحثوں سے دین اسلام کی صحیح تعلیم کو اجاگر کیا اور بے پناہ خدمات سرانجام دیں ۔ وہ سادی وضع کے عظیم المرتبت عالم دین تھے ۔ حدیث رسولﷺ کو پڑھنا پڑھانا زندگی بھر ان کا مقصد حیات رہا۔ زیرنظر کتا ب ان کی حیات و خدمات پر مشتمل ہے ۔ جسے جماعت اہل حدیث کے معروف قلم کار عبدالرشید عراقی نے رقم کیا ہے اور اسے چھ (6) ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ پہلے باب میں ان کے حالات زندگی ، تعلیم ، تدریس اور ان کے اخلاق و عادات پر روشنی ڈالی گئی ہے ، دوسرے باب میں مولانا گوندلوی کے اساتذہ کا تذکرہ ہے ۔ تیسرے باب میں ان بیس تصانیف کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے چوتھا باب ان کے فتاوی کے متعلق ہے پانچویں باب میں مولانا گوندلوی نے دوسرے مصنفین کی تصانیف پر جو مقدمات و تقریضات اور تعارف لکھا ان کا ذکر ہے ۔ آخر باب میں مولانا گوندلوی کاعلم مناظرہ میں جو...
اس میں بھلا کیا شک ہے کہ آپﷺ کی ذات گرامی او رسیرت مطہرہ ہر مسلمان کے لیے اور زندگی کے ہر شعبہ میں بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہے ۔ انفرادی ، اجتماعی اور گھریلو زندگی تک کوئی پہلو ایسا نہیں جس میں آپ ﷺ کی حیات طیبہ سے رہنمائی نہ لی جا سکے۔اور پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ آپ کے طرز و اطوار میں انتہائی زیادہ اعتدال اور تواز ن ہے۔آپ جو شریعت لے کر آئے تھے وہ ملکی قوانین سے لے کر خلوت نشینی تک کے احکام اپنے اندر رکھتی ہے ۔ اور آپ نے بہترین طریقے کے ساتھ انہیں اپنی زندگی میں لاگو کر کے اپنی امت کو عملی نمونہ پیش فرمایا ہے ۔ لہذا جہاں اللہ کی شریعت سے رہنمائی لینی ضروری ہے وہاں آپ کی حیات طیبہ کو بھی سامنے رکھنا لازم ہے تاکہ اس حکم کی تعمیلی صورت سامنے آجائے ۔ مسلمانوں کے اندر یہی شعور بیدار کرنے کے لیے پاکستان کی مشہور و معروف یونیورسٹی بہاولپور نے سیرت کےحوالے سے دوعالمی کانفرنسیں منعقد کی تھیں ۔ زیر نظرکتاب اس کانفرس میں پیش کیے گئے مختلف مقالات کامجموعہ ہے ۔جو کہ اہل علم کے لیے بیش قیمت رہنمائی کاذریعہ بن گئی ہے۔ (ع۔ح)
قرآن کریم ، اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کیا گیا آخری خطاب ہے ۔ قرآن بظاہر ایک کتاب ہے ، لیکن یہ ایک ایسی نعمت ہے جو ہر ایک دل میں جلوہ فگن ہے ۔ قرآن کریم کی ہر آیت یکتا و بے مثل ہے ، ترتیب اور شفتگی الفاظ ، بیان کی خصوصیات ، سورتوں کا غیر معمولی آغاز و اختتام ، آیات کی وانی ، بے مثل افکار رسانی اور الفاظ کا ایک حسین امتزاج کا نظارہ اور کیف آور اور وجد آفریں ہے ۔ قرآن کریم کے الفاظ و آیات اس قدر جامع اور وسیع المعنی ہیں کہ کسی بھی زبان میں ان کا ترجمہ کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔ الفاظ و آیات کی مفصل تو کی جاسکتی ہے لیکن ان کے معانی و مفہوم کا ہمہ جہت اور مکمل احاطہ کرنا ناممکن ہے ۔ زیر نظر کتاب درحقیقت مقالات کا مجموعہ ہے جو بہاولپور یونیورسٹی میں ایک کانفرس کے ذریعے پیش کیے گئے تھے ۔ اس کا مقصد قرآن مجید کے ان ترجم کا جائزہ لینا تھا جو برصغیر میں مختلف ادوار میں کئے گئے ہیں ۔ برصغیر میں زبان اردو کے اندر ترجمۃ القرآن کی روایت شاہ رفیع الدین سے شروع ہوئی جو ابھی تک بڑی تندہی سے جاری و ساری ہے ۔ اس کانفرس میں یہ...
امت مسلمہ کے اندر مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے شرک و بدعت نے راہ پائی ہے ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ انسانیت اپنے آغاز آفرینش سے ہی راہ ہدایت کو گم کر بیٹھی تھی ۔ لیکن رحمت الہی نے کسی لمحے بھی اسے اپنی توجہ سے دور نہیں رکھا ۔ اور مختلف اوقات میں اس کی طرف انبیاء ورسل بھیجے ۔ حتی کہ آخری نبی و رسول آنحضرتﷺ کے بعد لوگ پھر شرک و بدعات کے دلدل میں پھنس گئے ۔ اب اس کے بعد کوئی نبی یا رسول تو نہیں آنا تھا تاہم اللہ تعالی نے ایک دوسری سنت جاری فرمائی کہ ہرصدی کے بعد ایک مصلح اور مجدد اس امت کے اندر پیدا فرمانے کا وعدہ کیا ۔ ایسے ہی انیسویں صدی میں عالم عرب کے اندر شیخ محمد بن عبد الوہاب آئے ۔ انہوں نے اس وقت کی مروج بدعات و خرافات اور کفر وشرک صورتوں کو ختم کیا ۔ عین انہی لمحات میں ہند میں شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے تربیت یافتگان سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ سے وہی کام لیا جو عرب میں محمد بن عبدالوہاب سے لیا تھا ۔ ان دونوں تحریکوں کا یہ دعوتی و منہجی اشتراک کیا اتفاقی تھا یا بقاعدہ ایک منصوبے کے تحت تھا؟ زیر نظر کتاب اس طرح کے دیگر...
رشوت انسانی سوسائٹی کا وہ بد ترین مہلک مرض ہے جو سماج کی رگوں میں زہریلے خون کی طرح سرایت کر کے پورے نظام انسانیت کو کھوکلا اور تباہ کر دیتا ہے ۔ رشوت ظالم کو پناہ دیتی ہے ۔ اور مظلوم کو جبرا ظلم برداشت کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔ رشوت کے ہی ذریعے گواہ ، وکیل اور حاکم سب حق کو ناحق اور ناحق کو حق ثابت کرتے ہیں ۔ رشوت قومی امانت میں سب سے بڑی خیانت ہے ، جج ، گورنر، وزیر ، سیکرٹری ، عدالتی و دفتری نظام ، محکمہ پولیس اور قضاۃ یہ سب ہی قوم کی امانت ہیں ۔ جب تک یہ قانون ، اخلاق اور انصاف و عدل کے بے لاگ محافظ رہیں گے تب تک انسانیت عدل و انصاف اور رحمت سے مالال مال رہے گی ۔ اسلامی شریعت دنیا میں عدل و انصاف اور حق و رحمت کی داعی ہے ۔ اسلام نے روز اول سے ہی انسانی سماج کی اس مہلک بیماری کی جڑوں اور اس کے اندرونی اسباب پرسخت پابندی عائد کی ۔ اور اس کے انسداد کے لیے انتہائی مفید تدابیر اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ۔ جن کی وجہ سے دنیا ان مہلک امراض سے نجات پا جائے ۔ زیر نظر کتاب اسی موضوع پر بطریق احسن روشنی ڈالتی ہے اور یہ کتاب درحقیقت امام محمد بن سعود یونیورسٹی میں...
سرزمین فیصل آباد کو جن نفوس قدسیہ نے کتاب و سنت کے علم سے سیراب کیا ان میں سے ایک استاذ العلماء ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ محدث امرتسری ہیں ۔ کلیہ دارالقرآن و الحدیث انہی کی یاد گار ہے جو تقریبا نصف صدی سے علم و عمل کے میدان میں اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے ۔ یہ درسگاہ انہوں نے آزادی برصغیر کے بعد قائم کی تھی ۔ جس سے بے شمار حضرات استفادہ کر چکے ہیں ۔ مولانا نے ہمیشہ ہی دنیا سے بے رغبتی اختیار کی بلکہ وغظ و تبلیغ اور تدریس کی جو خدمات سرانجام دیتے اس کا بھی معاوضہ نہ لیتے اور اپنی تجارت شروع کی ۔ انہوں نے اپنی تمام دلچسپیوں کا مرکز اپنے طلباء کو بنا رکھا تھا انہیں اللہ کے دین سے روشناس کرانا ان کی زندگی کا مقصد اولین تھا ۔ آپ نحو ، صرف ، منطق ، بلاغت ، معانی میں یکتائے روز گار تھے ۔ اور علم الفرائض کے تو گویہ امام تھے ۔ اس علم کی معروف کتاب السراجی کی انہوں نے شرح بھی لکھی ہے ۔ آپ علوم میں بہت زیادہ رسوخ رکھتے تھے ۔ اسی وجہ سے آپ کے اساتذہ آپ پر مکمل اعتماد کر تے تھے ۔ ان کی علالت یا عدم موجودگی میں آپ ہی مسند تدریس ارشاد فرمایا کر تے تھے ۔...
کتاب ہذا ’’ فلسفہ الشریع فی الاسلام ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے، جسے ڈاکٹر صبحی محمصانی نے عربی زبان میں تالیف کیا۔ مصنف علام کا شمار زمانہ حال کے نامور ماہرین قانون میں ہوتا ہے۔ آج کل مصنف بیروت میں عدالت مرافعہ کے صدر ہیں۔ اور قانون کے متعلق متعدد کتابیں فرانسیسی اور عربی زبان میں تالیف کرچکے ہیں۔ کتاب ہذا جن اغراض کے تحت لکھی گئی ہے اور اس کی تالیف میں جن اصولوں کی پیروی کی گئی ہے۔ فاضل مصنف نے انہیں مقدمے میں وضاحت سے بیان کردیا ہے۔ یہ کتاب باب ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں قانون کی تعریف اور اس کے اصول کا بیان ہے۔باب دوم میں اسلامی فقہ کے مختلف مذاہب کی مختصر تاریخ ہے۔باب سوم میں اسلامی شریعت کے ماخذ ومصادر پر بحث ہے۔باب چہار میں احکام کی ان تبدیلیوں کا بیان ہے جو زمانے کے اقتضاء سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور باب پنجم میں بعض قواعد کلیہ کا بیان ہے۔(ک۔ح)
مذہب سے اظہاربیزاری کرکےاپنی عقل کی بنیادپرجو سیاسی نظام انسان نے وضع کیاہےاس دورجدیدمیں اسے جمہوریت کہتےہیں ۔ جمہوریت کو اساس اہل یورپ نےفراہم کی ۔پھربعد میں مسلمانوں نے اسےاپنایا۔مسلمانوں جب اسے اپنایاتو اس میں بنیادی طور پر تین طرح کی آراتھیں ۔پہلی یہ کہ اسے مکمل رد کردیاجائےدوسری یہ تھی کہ اسےمکمل قبول کرلیاجائے جبکہ بعض کےہاں اسے قبول توکیا جائے لیکن ترمیم و اضافےکےساتھ ۔زیرنظرکتاب اولیں نقطہ کی حامل ہے جس میں مصنف نے عقلی ،فطری ،اخلاقی اور شرعی بنیادوں پر اس کاکھوکلا پن ثابت کرکےدکھادیاہے۔موصوف کاکہناہےکہ گزشتہ دوصدیوں سے دنیاجمہوریت کاتجربہ کررہی ہے ۔جس میں اسے مسلسل ناکامی کا سامناکرناپڑرہاہے۔اور آئندہ بھی اس کی کامیابی کوئی امکانات نظر نہیں آرہےسو بہتر یہی ہےکہ اسلام کا دیاہوانظام خلافت جوکہ ایک فطر ی نظام ہےمسلمانوں کو چاہیےکہ اسے اپنائیں۔کیونکہ اس میں ہی ان کی کامیابی کاراز ہے۔اس کےعلاوہ یہ ہےکہ دنیاکی دیگر اقوام کو اگرظاہر ی طورپر کچھ کامیابی مل بھی جاتی ہےاس سے یہ دوکھانہیں کھاناچاہیےکہ مسلمانوں کو بھی اس سے کامیابی ممکن ہوکیونکہ اس امت کی اساس ہی دیگرہے۔(ع۔ح)
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ۔ یہاں کے رہنے والے عوام کو اس ملک کے ساتھ جذباتی حد تک وابستگی ہے ۔ لیکن اغیار کی سازشوں سے اس مملکت خداد کی قیادت وسیادت کی باگ دوڑ ان لوگوں کے ہاتھ میں آگئی کہ جو سیکولر ذہنیت کے مالک تھے ۔ وہ نام کی حدتک تو مسلمان ہیں لیکن ان کے طرز و اطوار غیرمسلموں جیسے ہیں ۔ وہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ اس ملک کا نظام تعلیم یا کوئی دیگر شعبہ ہائے حیات اسلام کے مطابق ہو جائے ۔ چناچہ انہوں نے آغاز سے ہی اسے اس خاکے یا نقشے کے مطابق رکھا جو ایک سیکولر قوم نے تشکیل دیا تھا ۔ اور بعض جزوی ترامیم کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ اسلامی بن گیا ہے ۔ تاہم ایک عرصے کے بعد یہ محسوس کیا گیا تو اس وقت کے صدر جناب ضیاءالحق نے نظام تعلیم کو اسلامیت کے مطابق ڈھالنے میں بنیادی تبدیلی کی ۔ لیکن نام نہاد اسی لادین طبقے نے یہ مساعی بارآور نہ ہونے دیں ۔ اور پھر ایک ملحدانہ افکار کے حامل پرویز مشرف جیسے شخص نے اسے خالص سیکولر بنیادیں فراہم کیں ۔ قوم کے وہ حساس حلقے جو اسلامیت کے درد اپنے اندر رکھتے ہیں وہ مسلسل چیخ وپکار کر رہے ہیں لیکن ان...
دو ہزار پانچ میں پاکستان کے اندر زلزلے کے بہت خطرناک جھٹکے آئے تھے ۔ ایک مذہبی و دینی ملک ہونے کے ناطے سے مملکت خداد کے اندر کئی ایک بحثوں نے جنم لیا ۔ مثلا زلزلے کے بارے میں ایک رائے یہ اپنائی گئی کہ یہ عذاب الہی ہے ۔ یعنی متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی برائیاں اس قدر بڑھ گئیں تھیں کہ ان کے اوپر اللہ کا عذاب نازل ہو گیا ۔ چناچہ اس توجیہ کے ضمن میں ایک اہم ترین سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر یہی صورتحال تھی تو پھر دیگر کئی ایک شہروں میں جہاں برائی کی یہی صورت تھی یا اس سے بھی بڑھ کر تھی وہاں کیوں نہیں یہ عذاب نازل ہوا؟ اس سلسلے میں دوسری رائے یہ تھی کہ یہ خدا کی طرف سے عذاب نہیں بلکہ ایک آزمائش تھی ۔ یعنی اللہ نے اپنے بندوں کو آزمایا ہے کہ وہ راہ حق یا صراط مستقیم پر کس قدر گامزن ہیں؟ اس تناظر میں سیکو لر حلقوں کی طرف سے اس خیال کا اظہار کیا گیا کہ اس طرح کی مذہبی توجیہات غیر حقیقی اور غیر سائنسی و علمی ہیں ۔ اس باب میں ہمیں خالصتا سائنٹیفک توجیہ کرنی چاہیے ۔ درج ذیل کتاب میں انہی آراء کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں ان کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔ اس رائے میں قرآن کا اصل...
بحیثیت ہر مسلمان پر کتاب و سنت کی بنیادی تعلیمات سیکھنا اور ان پر عمل کرنا لازم ہے اور ہر مسلمان میں یہ جذبہء صادقہ بیدار ہونا چاہیے کہ کتاب و سنت کی بالادستی اور شرعی احکام کی اتباع اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہو ۔ وہ دنیا میں کتاب و سنت کا سچا پیروکار اور شریعت اسلامیہ کا حقیقی متبع ہو ۔ چناچہ شریعت سے سچی لگن اور اسلام سے دائمی تعلق ہی دنیاوی و اخروی زندگی کی کامیابی کا راز اور عظمت کا ضامن ہے ۔ زندگی کے ہر پہلو اور ہر موقع پر کتاب و سنت سے رہنمائی لینا اور عملی زندگی میں شرعی احکام کی تعمیل ہی مسلمان کی اصلی پہچان ہے ۔ سو عقائد و نظریات ، عبادات و معاملات اور اخلاق و عادات میں شریعت اسلامیہ کی اتباع ہی ملحوظ ہونی چاہیے ۔ لہذا دیگر احکام و فرائض کی طرح شادی شدہ اسلامی جوڑے پر یہ اضافی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نیک اولاد کے حصول کا خواہش مند بھی اور طلب اولاد کا حریص بھی ۔ پھر اولاد طلبی کی شرعی حدود و قیود کی پابندی اختیار کرے اور حصول اولاد کی ناجائز صورتیں اور شرکیہ افعال سے بھی گریز کرے ۔ اور جب اللہ تعالی اس کی التجاؤں کو شرف قبولیت بخشے تو حمل ، وض...
برصغیر پاک و ہند میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص جن لوگوں نے علم دین اور مسلک سلف کی اشاعت میں اپنی زندگی لگائی ہے ان میں نمایاں ترین نام سلطان محمود محدث کا ہے ۔ انہوں نے اپنے اس فرض منصبی سے عہدہ برآ ہونے کے لیے راحت و آرام کو تج دیا اور صدہا قربانیاں بے دریغ دے دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاک و ہند میں ان کے ہزاروں قابل اور لائق شاگردان رشید خدمت دین کے لئے شبانہ روز وقف کئے بیٹھے ہیں ۔ شیخ موصوف کا اپنے مشن کے لئے اخلاص اور ورع بے انتہاء تھا ۔ اللہ تعالی نے انہیں بے پناہ ہمت اور حوصلے سے نوازا تھا ۔ وہ صبر و قناعت میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے ۔ بستر مرگ پر بھی وہ ذکر و تسبیح اور مناجات میں مصروف تھے ۔ اپنے تلامذہ و رفقاء سے بڑی طمانیت کے ساتھ مخاطب ہو تے تھے ۔ زیر نظر کتاب انہی کے ایک تلمیذ خاص جو اپنی تعریف آپ ہیں جناب رفیق اثری صاحب نے اپنے استاذ کے حیات و خدمات کی یاد میں رقم فرمائی ہے ۔ جس میں ان کی سیرت وکردار کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان کی دینی خدمات کو انتہائی احسن طریقے کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا گیا ہے ۔ الل...
انیس سو تئیس میں انحطاط خلافت اسلامیہ کے بعد مسلمانوں کے اندر خلافت کی بحالی کی مختلف تحریکیں اٹھیں ہر ایک نے اپنی اپنی استعداد اور پالیسی کے مطابق اس کی کوششیں کیں ۔ دوسری طرف عالم اسلام پر مغرب کی فکری وتہذیبی یلغار کی وجہ سے مسلمانوں میں اپنی تہذیب کے حوالے سے پسپائی کی روش پیدا ہو گئی ۔ ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے انیس سو بیالیس میں جماعت اسلامی کی اساس رکھی گئی ۔ جس کا اساسی مقصد سیاسی سطح پر اسلامی خلافت کا احیا اور معاشرتی و تہذیبی سطح پر مسلمانوں کے اندر تہذیب اسلامی کا احیاء کرنا تھا ۔ ان کے اندر اپنی تعلیمات کے حوالے سے اعتماد پیدا کر نا تھا ۔ اس سلسلے میں جماعت جب اپنے مشن کو لے کر آگے بڑھنے لگی تو جہاں اسے غیرمسلموں اور کافروں کی طرف سے کئی ایک رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا وہاں ان نام نہاد سیکولر اور لادین مسلمانوں کی طرف سے بھی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کے علاوہ کٹر مذہبی حلقوں کی طرف سے بھی کئی ایک محاذوں سے نبرد آزما ہونا پڑا ۔ تاہم جماعت اپنی پالیسیوں اور مشن کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی منزل کی جانب بڑھتی رہی اس سے جماعت کی ایک الگ سے تاریخ مرتب ہو...
عربی زبان کو ایک ایسا اعزاز حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ قیامت تک رہے گی ۔ اور وہ یہ ہے کہ قرآن جیسی مقدس کتاب اس زبان میں موجود ہے ۔ مسلمان اپنا دین سیکھنے کے لئے ہمیشہ ہی اس زبان کے محتاج رہیں گے ۔ اس کی تفہیم اور تشریح کے لئے ماہرین نے مختلف پہلوؤں سے کام کیا ہے ۔ ایک تو اس کا گوشہ گرائمر کا ہے جس میں اس زبان کے قواعد و ضوابط زیر بحث آیا کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسے براہ راست بولنے کی مشق کی جائے ۔ تاکہ اس کے الفاظ معانی کے ساتھ زبان پر چڑھ جائیں ۔ زیر نظر کتاب مؤخرالذکر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کی گئی ہے ۔ اس میں تقریبا تمام وہ الفاظ آگئے ہیں جو ہماری روزمرہ معمولات میں استعمال ہوا کرتے ہیں ۔ اور اس کے علاوہ یہ ہے کہ زبان کے اساسی اجزا کو ملا کر ایک جملہ کیسے تشکیل دیا جانا چاہیے اس حوالے سے بھی ساتھ ساتھ بطریق احسن مشق ہوتی جاتی ہے ۔ اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر اسے مدارس میں داخل نصاب بھی کیا جا چکا ہے اور ہزاروں مبتدی طلبا اس سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ اللہ مصنف کو اجر سے نوازے ۔ آمین (ع۔ح)
علامہ محمد اقبال کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مشرق کے جذبات و احساسات کی جس طرح ترجمانی کا حق اقبال مرحوم نے ادا کیا ہے اس طرح کسی دوسرے نے نہیں کیا ۔ ان کی شاعری عروج رفتہ کی صدا ہے ۔ ان کے افکار و نظریات عظمت مسلم کے لئے ایک بہترین توجیہ اور جواز فراہم کرتے ہیں ۔ افکار اقبال کو سمجھنے میں لوگوں نے بہت کوشش کی ہے تاہم اس حوالے سے ایک قابل اعتبار حد تک اعزاز ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کو بھی ہے ۔ زیر نظر کتاب ان کے مقالات کا جو تھا مجموعہ ہے اس میں ان کے تیس برس کے مقالات کو یکجا کر دیا گیا ہے ۔ یہ چار بنیادی حصوں میں منقسم ہے ۔ پہلا حصہ اقبال اور اکبر حیدری اور میر انیس اور اقبال کے موضوع پر ہے ۔ دوسرے حصے میں فکر اقبال کے بعض پہلوؤں کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ تیسرے اور چوتھے حصے کا تعلق خالصتا اقبالیاتی تحقیق سے ہے ۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں ہاشمی صاحب نے فکر اقبال کے بعض ایسے گوشوں کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے جنہیں دوسرے نقادوں نے یا تو یکسر نظر انداز کر دیا، یا ان کی طرف معمولی اشارے کر کے آگے نکل گئے ہیں ۔ (ع۔ح)
بدھ مت دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے جو عیسوی صدی سے کئی سال بیشتر اس وجہ سے معرض وجود میں آیا تھا کہ ہندومت کی ظالمانہ رسومات ختم کی جائیں ۔ اور معاشرے کے اندر انصاف پر مبنی شفاف ترین تعلیمات کا بول بالا کیا جائے ۔ یہ دنیا کے معرف ترین مذاہب میں سے ایک ہے اس دنیا میں اس کے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔ یہ مذہب بنیادی طور پر ترک دنیا کی تعلیم دیتا ہے ۔ اس مذہب کے بانی گوتم بدھ بھی پہلے ایک شہزادہ تھے تصوف و رہبانیت اور مادی آلائشوں سے طبعی نفرت رکھتے تھے ۔ ایک روز غم ، دکھ اور تکلیف کی مختلف تین حالتیں دکھیں جس کی وجہ سے دل برداشتہ ہو کر جنگلات کا رخ کیا ۔ اور وہاں گیان دھیان میں مصر ف ہوگئے ۔ عرصہ دراز کی ریاضت کے بعد انکشاف حقیقت کے مدعی ہو گئے ۔ اور پھر الگ طور پر ایک مذہب کی بنیاد رکھی ۔ چناچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بدھ مت ایک غیر سماوی اور خود ساختہ مذہب ہے یہ زندگی کے بنیادی سوالات کے خلا کو جاہلانہ تصورات سے پر کرتا ہے ۔ ظاہر بات ہے جو مذہب سماوی نہیں وہ حقیقت بھی نہیں ہو سکتا بلکہ سماوی دین میں بھی اگر تحریف ہو جائے تو وہ غیرحقیقی بن جاتا ہے...
موجودہ دور میں بعض مسلمان مغرب سے متاثر ہو کر انہی افکار و نظریات اور تہذیب کو اپنانا چاہتے ہیں جو مغرب نے متعارف کروائے ہیں ۔ وہ زندگی کے ہر شعبے کی اسی طرح تشکیل کرنا چاہتے ہیں جس سے بہتر طریقے سے اہل مغرب کی تقلید ہو جائے ۔ کسی بھی انسانی سماج کی ترقی کا انحصار بہت حد تک اس پر ہے کہ وہ سماج اپنے اندر عورت کو کیا مقام دے رہا ہے ۔ اس سلسلے میں انسان نے اکثر طور پر ٹھوکریں ہی کھائی ہیں ۔ تاہم اسلام نے اس باب میں بھی ایک معتدل رائے اپنائی ہے ۔ آج اسلام پر اعتراض اٹھائے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلام عورت کے دائرءکار کو انتہائی محدود کر کے رکھ دیتا ہے ۔ جبکہ ایک غیر جانب دارانہ نظر سے اسلامی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ اعتراض بے بنیاد نظر آتا ہے ۔ کیونکہ تاریخ اسلام میں ہمیں ہرشعبہءزندگی میں خواتین کا نمایاں کردار نظر آتا ہے ۔ زیر نظر کتاب اسی پہلو کو اجاگر کرنے کی ایک کڑی ہے جس میں مختلف اسلامی ادوار کی نمایاں خواتین کی سیرت و سوانح کے مختلف پہلو بیان کیے گئے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک تاریخی ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے چناچہ سب سے پہلے امہات المؤمنین ، اس کے بعد ب...
عقیدہ توحید صرف آخرت کی کامیابی اور کامرانیوں کی ہی ضمانت نہیں ، بلکہ دنیا کی فلاح ، سعادت و سیادت ، غلبہ و حکمرانی اور استحکام معیشت کا علمبردار بھی ہے ۔ امت مسلمہ کے عروج اور زوال کی یہی اساس ہے ۔ اسی بنیاد پر تاریخ کے گزشتہ ایام میں مسلمانوں مشرق و مغرب اور شمال وجنوب میں اپنے جھنڈے لہرائے تھے ۔ اللہ تعالی نے اسی کی بنیاد پر خلافت ارضی کا وارث ٹھہرانے کا وعدہ فرمایا ہے ۔ اور اسے چھوڑ کر یا ترک کرنے سے ذلت و رسوائی کے مقدر بنانے کی وعید سنائی ہے ۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان اس وقت تک قیادت و سیادت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے جب تک وہ اسے تھامے رہے ۔ اور جب انہوں نے اس کو چھوڑ دیا تو ذلیل و رسوا ہو گئے ۔ اسی بنا بر سابقہ امتوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔ اور امت مسلمہ کے اندر بھی جب یونانی فلسفے کی وجہ سے بےجا تاویلات اور تشبیہات کا دروازہ کھلا تو انہو ں بھی توحید کے درس کو بھلا دیا ۔ زیر نظر کتاب اسی جذبہ صالحہ کے پیش نظر لکھی گئی ہے تاکہ امت کے اندر اس عقیدے کے حوالے سے تمام شکوک و شبہات رفع ہو جائیں ۔ اللہ مصنف کو اجر جزیل عطا فرمائے ۔ (ع۔ح)
اخلاقیات کی بنیاد کیا ہو ؟ فلسفہ یا مذہب اس حوالے سے تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمیں مختلف آرا نظر آتی ہیں ۔ اگر انبیاء اور وحی والہامی تعلیمات کو دیکھا جائے تو اس میں اخلاقیات کی بنیاد ہمیں مذہب ہی نظر آتی ہے ۔ اور اس کے بعد اگر یونانیوں کو دیکھا جائے تو ان کے ہاں اخلاقیات کی اساس فلسفہ ہے ۔ یونانیوں نے اخلاقیات کو ایک مستقل علم بنا دیا ۔ حتی کہ ارسطو نے اس پر ایک مستقل کتاب بھی لکھ ڈالی ۔ اس کے بعد عیسائیت اور اسلام نے پھر اخلاقیات کو مذہبی بنیاد فراہم کردی ۔ تاہم تاریخی طور پر یہ کشمکش جاری ہی رہے گی ۔ لیکن آج تک کے اس تاریخی تسلسل کو زیر نظر کتاب میں بحسن و خوبی بیان کر دیا گیا ہے ۔ اگرچہ یہ کتاب اپنے موضوع پر کوئی مستقل اضافہ تو نہیں البتہ اس کی تحریر میں مصنف کا جو بالخصوص جذبہ کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ اردو کو ایک علمی زبان بنایا جائے اور یہ مواد دوسری زبانوں سے اردو میں منتقل کیاجائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کوشش کی گئی ہے کہ مصنف کی نظر میں آج تک اس موضوع پر جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں ہیں وہ سب فلسفہ یا مذہب میں سے کسی ایک کی حمایت میں لکھی گئی ہیں ۔ اس میں کوشش کی گئی ہےکہ یہ م...