دین اسلام کے بنیادی عقائد تین ہیں۔اللہ پر ایمان، رسول اللہ ﷺ پر ایمان اور آخرت پر ایمان۔اللہ اور آخرت پر ایمان بھی نبی کریم ﷺ کی وساطت سے ہی ممکن ہوا ہے۔اللہ تعالی کی ذات کیسی ہے؟ اس کی صفات کیا کیا ہیں؟ وہ کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور کن سے ناراض؟اس کو خالق ومالک اور حاکم ورازق مان لینے کے تقاضے کیا ہیں؟آخرت کیوں ہو گی؟ کیسے ہو گی؟ جزا وسزا کے پیمانے کیا ہوں گے؟جزا کے حقداروں کو کیا انعام ملیں گے؟ اور سزا کے مستحقین کو کس انجام سے دوچار ہونا پڑے گا؟ان سب سوالوں کے جواب نبی کریمﷺ کی لائی ہوئی شریعت اور آپ کی تعلیمات ہی سے مل سکتا ہے۔ اسلام اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانے کا نام ہے اور اس ایمان کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبت ہو اللہ کی محبت ایسی محبت کہ اس کے ساتھ کوئی بڑ ے سے بڑ ا انسان بھی اس محبت میں شریک نہیں ہو سکتا۔اور اس محبت کا تقاضا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ زیر تبصرہ کتاب" ایمان بالرسول اور اس کے تقاضے "محترم غلام سرور چٹھہ صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ سے محبت کے تقاضے بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ہمیں آپﷺ سے محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق دے۔آمین(راسخ)
انسان کی زندگی دکھ سکھ، غمی و خوشی، بیماری و صحت، نفع و نقصان اور آزادی و پابندی سے مرکب ہے۔ اس لیے شریعت نے صبر اور شکر دونوں کو لازمی قرار دیا ہے تاکہ بندہ ہر حال میں اپنے خالق کی طرف رجوع کرے۔ دکھ ، غمی، بیماری، نقصان اور محکومیت پر صبر کا حکم ہے اور ساتھ ساتھ ان کو دور کرنے کے اسباب اختیار کرنے کا بھی حکم ہے جبکہ سکھ ، خوشی، صحت، نفع اور آزادی پر شکر کرنے کا حکم ہے اور ساتھ ساتھ ان کی قدردانی کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اگر دونوں طرح کے حالات کو شریعت کے مزاج اور منشاء کے مطابق گزارا جائے تو باعث اجر وثواب ورنہ وبال جان۔لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دونوں حالتوں میں خدائی احکام کو پس پشت ڈالتے ہیں۔ مشکل حالات پر صبر کے بجائے ہائے ہائے، مایوسی و ناامیدی اور واویلا کرتے ہیں جبکہ خوشی کے لمحات میں حدود شریعت کو یکسر پامال کردیتے ہیں۔ اس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جب کسی گھر میں کوئی فوتگی ہو جاتی ہے تو لوگوں کی زبانیں تقدیر خداوندی پر چل پڑتی ہیں اور مرنے والے کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ "ابھی تو تیرا وقت بھی نہیں آیا تھا" وغیرہ وغیرہ۔ آزادی کے مد مقابل یوں تو غلامی کا لفظ آتا ہے اور غلامی کا مفہوم عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ کوئی انسان یا گروہ، قوم یا نسل کسی دوسرے انسان، گروہ، قوم یا نسل کے ہاتھوں غلام بنا دی جائے۔دنیا بھر میں مختلف ممالک سال میں اپنے وطن کے لیے ایک دن ایسا مقرر کرتے ہیں کہ جس میں ان کے عوام اور حکومت وطن کی کی آزادی کا دن مناتے ہوئے ملک کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس دن کو ''وطن کا دن ''یا یوم آزادی کہا جاتا ہے۔ یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے۔ جوکہ شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کےخلاف ہے۔ زیر نظر کتاب ’’اسلام کا تصور آزادی‘‘ اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا کی جانب سے اکتوبر 2012ء میں اسلام کا تصور آزادی جیسے اہم موضوع پر منعقد کیے گئے سیمنیار میں پیش کیے گیے مقالات کا مجموعہ ہے۔ اس سیمینار میں علماء اور دینی جامعات کے فضلاء کے دوش وبہ دوش دانشوروں اور عصری جامعات کے فارغین نے بھی شرکت کی اور بیش قیمت مقالات پیش کیے۔ سکالرز نے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر کھل کر اظہار رائے کیا اور موضوع سے متعلق مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔ توڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے ان قیمتی مقالات کو بڑی خوش اسلوبی سے کتابی صورت میں مرتب کیا اور اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا نے اسے افادۂ عام کے لیے حسنِ طباعت سے آراستہ کیا۔ (م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے جس پر زور طریقے سے شرک کی مذمت کی ہے کسی اور چیز کی نہیں کی ہے۔حتی کہ شرک کی طرف جانے والے ذرائع اور اسباب سے بھی منع فرما دیا ہے۔ شرک کا لغوی معنی برابری جبکہ شرک کی واضح تعریف جو علماء کرام نے کی ہے وہ یہ ہے کہ اَللہ تعالیٰ کے کسی وصف کو غیر اللہ کیلئے اِس طرح ثابت کرنا جس طرح اور جس حیثیت سے وہ اَللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہے ،یعنی یہ اِعتقاد رکھنا کہ جس طرح اَللہ تعالیٰ کا علم اَزَلی، اَبدی ، ذاتی اور غیر محدود ومحیطِ کل(سب کو گھیرے ہوئے ) ہے ،اِسی طرح نبی اورولی کو بھی ہے اور جس طرح اَللہ تعالیٰ جملہ صفاتِ کمالیہ کا مستحق اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے ،اِسی طرح غیر اللہ بھی ہے تو یہ شرک ہو گا اور یہی وہ شرک ہے جس کی وجہ سے اِنسان دائرۂ اِسلام سے خارِج ہو جاتا ہے اور بغیر توبہ مرگیا تو ہمیشہ کیلئے جہنم کا اِیندھن بنے گا۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ میں جس قدر شرک کی مذمت اور توحید کا اثبات کیا ہے اتنا کسی اور مسئلے پر زور نہیں دیا ہے۔سیدنا آدم ؑ سے لے کر نبی کریمﷺ تک ہر رسول و نبی نے اپنی قوم کو یہی دعوت دی ہے۔شرک کی اسی قباحت اور اس کے ناقابل معافی جرم ہونے کے سبب تمام علماء امت نے اس کی مذمت کی اور لوگوں کو اس سے منع کرتے رہے۔ زیر تبصرہ کتاب"حب رسول ﷺ کی آڑ میں مشرکانہ عقائد" محترم ڈاکٹر سید شفیق الرحمن صاحب کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے محبت رسول ﷺ کی آڑ میں پھیلانے جانے والے مشرکانہ عقائد کو ایک جگہ جمع فرما دیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآنِ مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِ ہدایت ہے اور اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اسے پڑھنے پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ نے ایک ایک حرف پر ثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِ صحابہ سے لے کر عصر حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم و تشریح اور ترجمہ و تفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سے باب قائم کیے۔ اور مختلف ائمہ نے عربی زبان میں مستقل بیسیوں تفاسیر لکھیں ہیں۔ جن میں سے کئی تفسیروں کے اردو زبان میں تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ اور ماضی قریب میں برصغیرِ پاک وہند کے تمام مکتب فکر کےعلماء نے قرآن مجید کی اردو تفاسیر لکھنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ارد وتفاسیر بیسویں صدی میں‘‘ ڈاکٹر سید شاہد علی مرتب شدہ ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے بیسویں صدی میں اردو زبان میں لکھی جانی والی مکمل تفسیریں، جزوی تفسیریں، اور حواشی کی صورت میں لکھی جانے والی تفسیروں کا تعارف پیش کیا ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے باب اول میں 26 مکمل تفسیروں کا تعارف۔ باب دوم میں 37 جزوی تفسیروں کا تعارف۔ باب سوم میں چار تفسیری حواشی کاتعارف پیش کیا ہے اور باب چہارم حوالہ جات پر مشتمل ہے۔ صاحب کتاب نے اگرچہ اس کتاب کو بڑی محنت سے مرتب کیا ہے 20 صدی میں اردو زبان میں لکھی جانے والی مکمل جزوی، تفسیری حواشی کو اس میں جمع کرنے کی کوشش کی ہے لیکن راقم کے خیال میں اس کتاب میں ابھی تشنگی ہے کیونکہ مصنف تمام تفسیروں کا احاطہ نہیں کرسکے۔ مثلاً انہوں نے مکمل تفسیروں میں مولاناادریس کاندہلوی کی تفسیر معارف القرآن اور تفسیری حواشی میں اشرف الحواشی کاذکر نہیں کیا۔ تتبع و تلاش سے بیسویں صدی میں لکھی جانے والی مزید تفسیریں بھی مل سکتی ہیں۔ (م۔ا)
دنیا میں انسان کا اس کی رفتارکاپہلا قدم ہے جب سے یہ دنیا میں آیا ہے اس کو ایک منٹ کےلیے قرارنہیں۔دنیا ایک عارضی اور فانی جگہ ہے،ہر انسان نے یہاں سے چلے جانا ہے۔جبکہ آخرت دائمی اور ہمیشہ رہنے والی جگہ ہے،اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔اللہ تعالیٰ دنیا کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اور یہ دنیا کی زندگی تو کھیل تماشا ہے ،آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ،کاش وہ اس حقیقت کو جانتے ۔(عنکبوت:64)نبی کریم ﷺ نے دنیا کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: آدمی کہتا ہے میرا مال میرا مال،حالانکہ اس کا مال صرف تین چیزیں ہیں: ایک وہ جو اس نے کھا لیا۔ دوسرا وہ جو اس نے پہن لیا اور بوسیدہ کرلیا ،اور تیسرا وہ جواپنے ہاتھ سے اللہ کے راہ میں دے دے کل قیامت کو اس کو اس کا بدلہ ملے گا کیونکہ وہ تو اللہ کے پاس چلا گیا اور اللہ کے پاس چلا گیا تو آخرت میں اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔ فرمایا :اس کے علاوہ جو بھی مال اپنے ورثاء کے لیے چھوڑ گئے یہ اس کا مال نہیں ہے۔ یہ تو ورثاء کا مال ہے پھر ورثاء بعد میں لڑتے بھی ہیں۔دوسری جگہ فرمایا: میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کی چھاؤں میں گرمیوں کی کوئی دوپہر گزارنے بیٹھ جائے ۔ وہ کوئی پل آرام کر ے گا تو پھر اٹھ کر چل دے گا۔تیسری جگہ فرمایا: ”یہ دنیا اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر برابر بھی وزن رکھتی تو کافرکوا س دنیا سے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہونے دیتا۔ زیر تبصرہ کتاب" دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی "مولانا سعد حسن خان یوسفی ٹونکی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے دنیا کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے آخرت کی تیاری کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ہمیں آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق دے۔۔آمین۔یہ کتاب اگرچہ پہلے بھی سائٹ پر موجود تھی لیکن وہ اس کتاب کا پرانا ایڈیشن ہے ۔اب ہمیں اس کتاب کا جدید ایڈیشن دستیاب ہو لہٰذا ا سے بھی سائب پر پبلش کیا جارہا ہے ۔(م۔ا)
فال نکالنے پیش گوئی کرنے ، قیافہ شناس، نجومی غیب کی خبر بتانے والے کو کاہن کہتے ہیں ۔اور کاہن کے عمل کو کہانت کہتے ہیں۔ کاہن کا ذکربائبل میں بکثرت پیشن گوئی کرنے والےکے طور پر آیا ہے، عام زندگی میں اس سے جادوگر مراد بھی لیا جاتا ہے۔قرآن کریم میں بھی کاہن دو دفعہ جادوگر کے معنوں میں ہی آیا ہے۔کاہن، عربی زبان میں جیوتشی، غیب گو، اور سیانے کے معنیٰ میں بولا جاتا تھا، زمانہ جاہلیت میں یہ ایک مستقل پیشہ تھا، ضعیف الاعتقاد لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ارواح اور شیاطین سے ان کا خاص تعلق ہے جن کے ذریعہ یہ غیب کے خبریں معلوم کرسکتے ہیں، کوئی چیز کھو گئی ہو تو بتا سکتے ہیں اگر چوری ہوگئی ہو تو چور اور مسروقہ مال کی نشاندہی کرسکتے ہیں اگر کوئی اپنی قسمت پوچھے تو بتا سکتے ہیں ان ہی اغراض و مقاصد کے لئے لوگ ان کے پاس جاتے تھے اور وہ کچھ نذرانہ لیکر بزعم خویش غیب کی باتیں بتاتے تھے اور ایسے گول مول فقرے استعمال کرتے تھے جن کے مختلف مطلب ہو سکتے تھے تاکہ ہر شخص اپنے مطلب کی بات نکال لے۔دین اسلام نے اس کام کوکرنےکی سختی سے تردید کی ہے اور کہانت کا عمل کرنے کروانے کے متعلق سخت وعید بیان کی ہے۔حدیث نبوی ہے : جو شخص عراف (قسمت کا حال اورگمشدہ چیزوں کا پتہ بتانے والے پامسٹ اورنجومی وغیرہ) یا کاہن (علم رمل، علم جعفر اورجادوگر وغیرہ) کے پاس گیا تواس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں کی جائے گی۔ایک اور فرمان نبوی ہے کہ جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس آیا اوراس کی باتوں کو سچ مانا تو اس نے وحی جو نبی ﷺپر نازل ہوئی اس کا انکار کیا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ فتاویٰ برائےکہانت جنات ، آسیب ‘‘ سعودی عرب کے جید مفتیا ن وعلمائے عزام کے جادو، جنات، کہانت کے متعلق جاری کردہ فتاوی جات پر مشتمل کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔ اس کتاب میں جنات او ران کے متعلقہ بعض عقدی وعلمی پہلوؤں پر گفتگو کی گئی ہے اوراس کی مختلف مباحث میں جنات وشیطان سےمحفوظ رہنے کے لیے شرعی اور اد وظائف اور طریقہ ہائے علاج کا بھی تذکرہ کیاگیاہے اورساتھ ہی جادو کے علاج کےلیے اختیار کردہ شیطانی طریقوں سےمنع بھی کیاگیا ہے۔ نیر اس کتاب میں کہانت کی شرعی حیثیت بھی بیان کی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کے مؤلف ، مترجم وناشرین کو جزائےخیر عطافرمائے اوراس کتاب کی تکمیل میں حصہ لینے والے تمام حضرات کے لیے اسے بلندیِ درجات کاسبب بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
پانی اور ہوا انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ کائنات کے وجود و بقا کے لئے خالقِ کائنات کی پیدا کردہ نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہے۔ انسان کی تخلیق سے لے کر کائنات کی تخلیق تک سبھی چیزوں میں پانی اور ہوا کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے۔ وجعلنا من الماءِ کل شیءٍ حی افلا یو منون۔ ترجمہ: اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہ لائیں گے (سورۃ انبیاء، آیت ۳۰) سی کرہِ ارض (زمین) پر جتنے بھی جاندار ہیں خواہ انسان ہوں یا دوسری مخلوق ان سب کی زندگی کی بقا پانی پر ہی منحصر (Depend) ہے۔ زمین جب مردہ ہو جاتی ہے تو آسمان سے آبِ حیات بن کر بارش ہوتی ہے اور اس طرح تمام مخلوق کے لئے زندگی کا سامان مہیا کرتی ہے۔ اللہ نے انسانوں کے لئے پانی کا انتظام مختلف طریقوں سے کر رکھا ہے۔ پانی کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر اس کی بوند بوند کی حفاظت کرنا ہرانسان کاحق ہے۔ نبی کریمﷺ نے احادیث مبارکہ میں پانی کو استعمال کرنے کے متعلق احکامات صادر فرمائے ہیں۔ کتب حدیث وفقہ میں کتاب المیاہ کےنام محدثین و فقہاء نے ابواب قائم کیے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’آبی وسائل شرعی احکام وضوابط‘‘ اسلامک فقہ اکیڈمی ،انڈیا کی جانب سے مارچ 2011ء میں ’’آبی وسائل اور ان کے متعلق احکام‘‘ کے عنوان سےمنعقد کیے گئے بیسویں سیمینار میں پیش کئے گئے علمی وتحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے ۔اس موضوع کے متعلق نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر بھی تقریباً یہ پہلا سیمینار تھا۔ جس میں ارباب فقہ و افتاء کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور اس مسئلہ کی مختلف جہتوں پر سہل اور چشم کشا تحریریں مقالات کی صورت میں سیمینار میں پیش کیں۔ بعدازاں مولانا صفدر زبیر ندوی صاحب نے ان علمی ،فقہی اور تحقیقی مقالات و مناقشات کو بڑے احسن انداز میں کتابی صورت میں مرتب کیا ہے۔ (م۔ا)
دینِ اسلام ایک سیدھا اور مکمل دستورِ حیات ہے جس کو اختیار کرنے میں دنیا وآخرت کی کامرانیاں پنہاں ہیں ۔ یہ ایک ایسی روشن شاہراہ ہے جہاں رات دن کا کوئی فرق نہیں اور نہ ہی اس میں کہیں پیچ خم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو انسانیت کے لیے پسند فرمایا اوررسول پاکﷺ کی زندگی ہی میں اس کی تکمیل فرمادی۔عقائد،عبادات ، معاملات، اخلاقیات ، غرضیکہ جملہ شبہائے زندگی میں کتاب وسنت ہی دلیل ورہنما ہے ۔ہر میدان میں کتاب وسنت کی ہی پابندی ضروری ہے ۔صحابہ کرام نے کتاب وسنت کو جان سے لگائے رکھا ۔ا ن کے معاشرے میں کتاب وسنت کو قیادی حیثیت حاصل رہی اور وہ اسی شاہراہ پر گامزن رہ کر دنیا وآخرت کی کامرانیوں سے ہمکنار ہوئے ۔ لیکن جو ں جوں زمانہ گزرتا گیا لوگ کتاب وسنت سے دور ہوتے گئے اور بدعات وخرافات نے ہر شعبہ میں اپنے پیر جمانے شروع کردیئے ۔ اور اس وقت بدعات وخرافات اور علماء سوء نے پورے دین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔وقت کے راہبوں ،صوفیوں، نفس پرستوں او رنام نہاد دعوتِ اسلامی کے دعوے داروں نے قال اللہ وقال الرسول کے مقابلے میں اپنے خود ساختہ افکار وخیالات اور طرح طرح کی بدعات وخرافات نے اسلام کے صاف وشفاف چہرے کو داغدار بنا دیا ہے جس سے اسلام کی اصل شکل گم ہوتی جارہی ہے ۔اور مسلمانوں کی اکثریت ان بدعات کو عین اسلام سمجھتی ہے۔دن کی بدعات الگ ہیں ، ہفتے کی بدعات الگ ،مہینے کی بدعات الگ،عبادات کی بدعات الگ ،ولادت اور فوتگی کے موقع پر بدعات الگ غرض کہ ہر ہر موقع کی بدعات الگ الگ ایجاد کررکھی ہیں۔ الغرض ہمارے معاشرے میں فی الوقت جو مروج ہے وہ اسلام نہیں کچھ اور ہی چیز ہے ۔ اسلام کو اصل روپ میں دیکھنا ہو تو اس کو رسوم وبدعات سے پاک کرنا ہوگا ہے ۔ تب ہی وہ دین حاصل ہوگا جو عند اللہ مقبول ہے ۔ وہ اعمال سرزد ہوں گے ۔ جو میزان کو بھاری کردیں ان نیکیوں کا ارتکاب ہوگا جورائیگاں نہیں جائیں گی۔ رسوم وبدعات سے اجتناب کے لیے ان سے واقفیت بھی از حد ضروری ہے ۔جید اہل علم نے بدعات اور اس کے نقصانات سے روشناس کروانے کے لیے اردو وعربی زبان میں متعدد چھوٹی بڑی کتب لکھیں ہیں جن کے مطالعہ سے اہل اسلام اپنے دامن کو بدعات سے خرافات سے بچا سکتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ بدعات ورسوم کی تباہ کاریاں ‘‘ مولانا عبد السلام رحمانی کی کاوش ہے ۔ جس انہوں نے مصر کےمعروف شیخ علی محفوظ طنطاوی کی کتاب ’’ الابداع فی مضار الابتداع‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کیا ہے ۔اس کتاب میں فاضل مصنف نے عقائد وعبادات ومعاملات کے اعتبار سےبدعی امور اور روسوم معاشرہ ومنکرات کا قرآن وحدیث کےدلائل کی روشنی میں جائزہ لیا ہے ۔ (م۔ا)
اسلام جہاں غلو اور مبالغے سے منع کرتا ہے وہیں ہر معاملے میں راہ اعتدال اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔اسلام کی شان اور عظمت ہی تو ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کوہر طرح کی مصیبت اور پریشانی سے نجات دیکر دنیا والوں کے سامنے یہ باور کرایا ہے کہ وہی صرف ایک واحددین ہے جوتمام ادیان میں رفعت وبلندی کا مرکز وماویٰ ہے جہاں اس نے عبادت وریاضت کی طر ف ہماری توجہ مرکوزکی ہے وہیں ہمارے معاشرے کی اصلاح کی خاطر ہم کو کچھ احکام سے نوازا ہے تاکہ ان احکام کو اپنا کر اللہ کا قرب حاصل کر سکیں ۔دین اسلام کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے اعتدال،توسط اور میانہ روی کی تلقین کی ہے اور ہمیں امتِ وسط اور میانہ روی اختیار کرنے والی امت بنایا اوراس کو خوب موکد کیا۔اعتدال کواپنانے والوں کو کبھی بھی رسوائی اور پچھتاوے کا منہ نہیں دیکھنا پڑتاہے اسکے برعکس وہ لوگ جو اعتدال اور توسط کی راہ کوچھوڑ کر دوسری راہ کو اپنی حیات کا جزء لاینفک سمجھ بیٹھتے ہیں ایسے لوگ یا تو افراط کاشکار ہو جاتے ہیں یا پھر تفریط کی کھائی میں جا گرتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" دین میں بگاڑ کا سبب غلو، دین میں اعتدال کی راہ" فضیلۃ الشیخ عبد الغفار حسن صاحب، سابق پروفیسر مدینہ یونیورسٹی اورمولانا محمد خالد سیف صاحب کےدو مقالات پر مبنی ہے، جس میں سے پہلا مقالہ دین میں بگاڑ کا سبب غلو کے موضوع پر ہے جبکہ دوسرا مقالہ دین میں اعتدال کی راہ کے موضوع پر ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ دونوں مقالہ نگار حضرات کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
علامہ ابن خلدون 1332ء تیونس میں پیدا ہوئے۔ ابن خلدون مورخ، فقیہ، فلسفی اور سیاستدان تھے۔ مکمل نام ابوزید عبدالرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون ولی الدین التونسی الحضرمی الاشبیلی المالکی ہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد تیونس کے سلطان ابوعنان کا وزیر مقرر ہوا۔ لیکن درباری سازشوں سے تنگ آکر حاکم غرناطہ کے پاس چلا گیا۔ یہ سر زمین بھی راس نہ آئی تو مصر آگیا۔ اور الازھر میں درس و تدریس پر مامور ہوا۔ مصر میں اس کو مالکی فقہ کا منصب قضا میں تفویض کیا گیا۔اسی عہدے پر 74سال کی عمر میں وفات پائی اور اسے قاہر ہ کے قبرستان میں دفن کیاگیا لیکن زمانے کی دست برد سے اس کی قبر کا نشان تک مٹ گیا۔ ابن خلدون کو تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ ابن خلدون نے بہت سے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور مختلف علوم وفنون کے متعلق چھوٹی بڑی کئی کتب تصنیف کیں۔ا س کی شہرت کی بڑی وجہ اس کی تاریخ ’’العبر‘‘ ہےاس کی تاریخ کا پورا نام ’’کتا ب العبر ودیوان المبتدا والخبر فی ایام العرب والعجم والبربر ومن عاصرھم من ذوی السلطان الاکبر ‘‘ ہےاس کتاب میں ابن خلدون نے ہسپانوی عربوں کی تاریخ لکھی تھی۔ جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تاریخ، سیاست ، عمرانیات ، اقتصادیات اور ادبیات کا گراں مایہ خزانہ ہے۔مقدمہ ابن خلدون درحقیقت اس کےزمانۂ تالیف تک کے انسانی علوم اور خیالات پر سب سے پہلا تبصرہ اور تاریخ کےواقعات کو سائنس بنانے کی سب سے پہلی کوشش اور اقتصاد اور سوشیالوجی پر ایک فن کی حیثیت سے سب سے پہلی انسانی نگاہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ابن خلدون‘‘ ڈاکٹر طٰہٰ حسین کے فرنچ زبان میں ابن خلدون پر لکھی گئی کتاب کےعربی ترجمے کا اردو ترجمہ ہے ڈاکٹر طٰہٰ حسین نے یہ کتاب 1917ءمیں لکھی اور اس پر سربون یونیورسٹی سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی ۔پھر کالج دی فرانس نے اسی کتاب کی وجہ سے انہیں سنتور کا مشہور انعام عطا کیا۔ بعد ازاں 1925ء میں محمد عبداللہ عنان نے اس کتاب کو فرنچ زبان سے عربی میں منتقل کیا۔ یہ کتاب اسی عربی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔جوکہ ابن خلدون کے سوانح زندگی اور اس کےفلسفۂاجتماعی کی تشریح وتنقید پر مشتمل ہے ۔علامہ سید سلیمان ندوی کے ایما پر مولانا عبد السلام ندوی نے 1940ء میں اسے اردو قالب میں ڈھالا۔(م۔ا)
اللہ تبارک وتعالیٰ کے تنہالائقِ عبادت ہونے ، عظمت وجلال اورصفاتِ کمال میں واحد اور بے مثال ہونے اوراسمائے حسنیٰ میں منفرد ہونے کا علم رکھنے اور پختہ اعتقاد کےساتھ اعتراف کرنے کانام توحید ہے ۔توحید کے اثبات پر کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ میں روشن براہین اور بے شمار واضح دلائل ہیں ۔ اور شرک کام معنیٰ یہ کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرائیں جبکہ اس نےہی ہمیں پیدا کیا ہے ۔ شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کوجہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے قرآن کریم میں شرک کوبہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے اور شرک ایسا گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے تمام گناہوں کو معاف کردیں گے لیکن شرک جیسے عظیم گناہ کو معاف نہیں کریں گے ۔شرک اس طرح انسانی عقل کوماؤف کردیتا ہےکہ انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے ۔نیز شرک اعمال کو ضائع وبرباد کرنے والا اور ثواب سے محروم کرنے والا عمل ہے ۔ پہلی قوموں کی تباہی وبربادی کاسبب شرک ہی تھا۔ چنانچہ جس کسی نے بھی محبت یا تعظیم میں اللہ کے علاوہ کسی کواللہ کے برابر قرار دیا یا ملت ابراہیمی کے مخالف نقوش کی پیروی کی وہ مشرک ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ عقیدہ توحید اوراس کے منافی امور ‘‘ سعودی عرب کےنامور عالم دین فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان کی توحید اورعقائد کے دیگر امور کےمتعلق تصنیف شدہ عربی کتاب ’’ عقیدۃ التوحید وبیان مایضادہا من الشرک الاکبر والاصغر والتعطیل والبدع وغیر ذلک ‘‘ کا سلیس ورواں ترجمہ ہے ۔شیخ موصوف نےاس کتاب میں توحید کا معنیٰ ،اسکی اقسام ، کلمہ طیبہ کامطلب،اس کے تقاضے ،شرائط، ارکان ونواقض کوبیان کرنےکے بعد عبادت کا معنیٰ واقسام ، دین کے مراتب اورآپس میں ان کے تعلق کو واضح کیا ہے ۔اور ان افعال واعتقادات کو بیان کیا کہ جن کواختیار کرنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے یا اس کےایمان میں کمی آجاتی ہے ۔(م۔ا)
عقیدہ عذاب قبر قرآن مجید،احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔جس طرح دنیا میں آنے کے لئے ماں کا پیٹ پہلی منزل ہے،اور اس کی کیفیات دنیا کی زندگی سے مختلف ہیں،بعینہ اس دنیا سے اخروی زندگی کی طرف منتقل ہونے کے اعتبار سے قبر کا مقام اور درجہ ہے،اوراس کی کیفیات کو ہم دنیا کی زندگی پر قیاس نہیں کر سکتے ہیں۔اہل وسنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر بر حق ہے اور اس پر کتاب وسنت کی بہت سی براہین واضح دلالت کرتی ہیں لیکن اسلام کی خانہ زاد تشریح پیش کرنے والے بعض افراد قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے سر مو انحراف کرتے ہوئے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کا انکار کر دیتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ عذاب قبر کی حقیقت ‘‘ کراچی کی معروف علمی شخصیت ڈاکٹر ابوعبد اللہ جابر دمانوی ﷾ کی کتاب’’ الدین الخالص‘‘ کا اختصار وانتخاب ہے جس میں انہوں نے منکرین حدیث اور منکرین عذاب کے رد کیا اور عقیدہ اثبات عذاب پر قرآن وحدیث سے ٹھوس دلائل پیش کیے ہیں ۔ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی کے اس کتاب کا علمی مقدمہ تحریر کرنے سےکتاب کی افادیت مزید دو چند ہوگئی ہے ۔(م۔ا)
اسلام کی قدیم تایخ ہمارے سامنے مسلمان عورت کابہترین اور اصلی نمونہ پیش کرتی ہے اور آج جب کہ زمانہ بدل رہا ہے مغربی تہذیب و تمدن او رطرزِ معاشرت ہمارے گھروں میں سرایت کررہا ہے دور حاضر میں مغربی تہذیب وثقافت سے متاثر مسلمان خواتین او رلڑکیاں اسلام کی ممتاز اور برگزید خواتین کوچھوڑ کر راہِ راست سے ہٹی ہوئی خواتین کواپنے لیے آئیڈل سمجھ رہی ہیں اسلام کے ہردور میں اگرچہ عورتوں نےمختلف حیثیتوں سے امتیاز حاصل کیا ہے لیکن ازواجِ مطہرات طیباتؓ اور اکابر صحابیاتؓ ان تمام حیثیات کی جامع ہیں اور ہمار ی عورتوں کے لیے انہی کے دینی ،اخلاقی معاشرتی اور علمی کارنامے اسوۂ حسنہ بن سکتے ہیں اور موجودہ دور کےتمام معاشرتی او رتمدنی خطرات سے ان کو محفوظ رکھ سکتےہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’پاکباز خواتین کے عملی کارنامے‘‘ شیخ ازہری احمد محمود کی عربی تصنیف ’’نساء لھن مواقف‘‘ کا اردو ترجمہ ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں ازواج مطہرات صحابیات، اوردیگر نیک خواتین میں سے چند خواتین کی زندگی کے کچھ نمونہ جات پیش کیے ہیں جنہوں نے اعلیٰ شرافت کو اپنایا اور نیک نسل کے لیے سچا نمونہ تھیں اور بلند مقاصد کو حاصل کرنے والی تھیں۔ یہ ایسی عظیم عابدات، صالحات، زاہدات اور عزت و شرف والی خواتین تھیں کہ ہماری خواتین ان نیک خواتین کے راستے کی اقتداء کر کے اوران کی عادات کو اختیار کرکے ان جیسا عزت وشرف حاصل کرسکتی ہیں۔ (م۔ا)
اسلام ایک پاکیزہ دین اور مذہب ہے ،جو اپنے ماننے والوں کو عفت وعصمت سے بھرپور زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ایک مسلمان خاتون کے لئے عفیف وپاکدامن ہونے کا مطلب یہ کہ وہ ان تمام شرعی واخلاقی حدود کو تھامے رکھے جو اسے مواقع تہمت و فتنہ سے دور رکھیں۔اور اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ ان امور میں سے سب سے اہم اور سرفہرست چہرے کو ڈھانپنا اور اس کا پردہ کرنا ہے۔کیونکہ چہرے کا حسن وجمال سب سے بڑھ کر فتنہ کی برانگیختی کا سبب بنتا ہے۔امہات المومنین اور صحابیات جو عفت وعصمت اور حیاء وپاکدامنی کی سب سے اونچی چوٹی پر فائز تھیں،اور پردے کی حساسیت سے بخوبی آگاہ تھیں۔ان کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ پاوں پر بھی کپڑا لٹکا لیا کرتی تھیں،حالانکہ پاوں باعث فتنہ نہیں ہیں۔اور پردہ کرنے میں اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ سے پردہ کیا جائے اور کس سے نہ کیا جائے۔2004 ء میں جب فرانس میں حجاب پر پابندی کا قانون منظور ہوا تو عالمی اسلامی تحریکوں کے ایک اجتماع میں امت مسلمہ کے جید عالم دین مفکر اسلام علامہ یوسف قرضاوی کی قیادت میں یہ فیصلہ ہوا کہ ہر سال 4 ستمبر کو یوم حجاب منایا جائے گا اور اسی سال سے اس کا آغاز ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب " عالمی یوم حجاب، 4 ستمبر "جماعت اسلامی پاکستان کے شعبہ وومن اینڈ فیملی کمیشن کی جانب سے شائع کی گئی ہے، جس میں اسی مسئلے پر گفتگو کی گئی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اسلام پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پردہ کرنے کی راہ میں موجود مشکلات کو دور فرمائے۔آمین(راسخ)
انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ تعالیٰ کا نائب ہے۔ اس لیے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں۔ ان میں اولاد کی تربیت سب سے اہم فریضہ ہے۔اللہ رب العزت قیامت کےدن اولاد سےوالدین کے متعلق سوال کرنے سےپہلے والدین سےاولاد کےمتعلق سوال کرے گا۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ اولاد کی اچھی تربیت میں کوتاہی کے بہت سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ شیر خوارگی سے لڑکپن اور جوانی کےمراحل میں اسے مکمل رہنمائی اور تربیت درکار ہوتی ہےاس تربیت کا آغاز والدین کی اپنی ذات سے ہوتاہے۔ اولادکے لیے پاک اور حلال غذا کی فراہمی والدین کے ذمے ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ رزقِ حلال کمائیں۔ والدین جھوٹ بولنے کےعادی ہیں تو بچہ بھی جھوٹ بولے گا۔ والدین کی خرابیاں نہ صرف ظاہری طور پر بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ باطنی طور پر یہ خرابیاں اس کے اندر رچ بس جاتی ہیں۔ والدین کےجسم میں گردش کرنے والےخون میں اگر حرام ،جھوٹ، فریب، حسد، اور دوسری خرابیوں کے جراثیم موجود ہیں تویہ جراثیم بچے کوبھی وراثت میں ملیں گے۔ بچوں کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کے حقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے۔ اور اس بات میں کوشک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’اسلام میں اولاد کے حقوق‘‘ محترم پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی مرحوم کامرتب کردہ ہے انہوں نےاس رسالے میں حقوق کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور اسلام میں اولاد کے حقوق کووضاحت سے پیش کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہماری اولاد کو اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض بھی یادر رہیں تاکہ انہیں اپنے والدین کی خدمت کی سعادت بھی حاصل رہے۔ (آمین) ( م۔ا)
اس جہانِ رنگ و بو میں شیطان کے حملوں سے بچتے ہوئے شریعتِ الٰہیہ کے مطابق زندگی گزارنا ایک انتہائی دشوار امر ہے۔مگر اللہ ربّ العزت نے اس کو ہمارے لئے یوں آسان بنا دیا کہ ایمان کی محبت کو ہمارے دلوں میں جاگزیں کر دیا۔اسلام اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانے کا نام ہے اور اس ایمان کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبت ہو اللہ کی محبت ایسی محبت کہ اس کے ساتھ کوئی بڑ ے سے بڑ ا انسان بھی اس محبت میں شریک نہیں ہو سکتا۔اور اس محبت کا تقاضا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ زیر تبصرہ کتاب" اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کے تقاضے "محترم ابو تیمیہ ساجد الرحمن چوہدری صاحب کی انگریزی تصنیف ہے، جس کا اردو ترجمہ محترم ابو یحیی محمد زکریا زاہد صاحب نے کیا ہے۔مولف موصوف نے اس کتاب میں اللہ تعالی اور نبی کریم ﷺ سے محبت کے تقاضے بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور مترجم کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ہمیں اللہ تعالی اورآپ ﷺ سے محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق دے۔آمین(راسخ)
خدا کو پا لینا سب سے بڑی حقیقت کو پانا ہے۔کوئی انسان جب خدا کو پاتا ہے تو یہ اس کے لئے ایک ایسی زلزلہ خیز دریافت ہوتی ہے جو اس کی پوری زندگی کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔وہ ایک ناقابل بیان ربانی نور میں نہا اٹھتا ہے۔وہ ایک نیا انسان بن جاتا ہے۔اس کی سوچ نئے رخ پر چلنے لگتی ہے۔اس کا عمل کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔اس کی تمام کاروائیاں ایک ایسے انسان کی کاروائیاں بن جاتی ہیں جو خدا کے ظہور سے پہلے خدا کو دیکھ لے، جو قیامت کی ترازو کھڑی ہونے سے پہلے اپنے آپ کو قیامت کی ترازو پر کھڑا محسوس کرنے لگے۔مومن اور غیر مومن کا فرق یہ ہے کہ غیر مومن پر جو کچھ قیامت میں گزرنے والا ہے، وہ مومن پر اسی دنیا میں گزر جاتا ہے۔غیر مومن جو کچھ آخرت میں دیکھے گا، وہ مومن اسی دنیا میں دیکھ لیتا ہے۔غیر مومن کل کے دن جو کچھ مجبور ہو کر مانے گا اس کو مومن بندہ آج کے دن کسی مجبوری کے بغیر مان لیتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" اللہ اکبر، خدا کی خدائی کا نغمہ، خدا کی عظمت کا بیان"محترم مولانا وحید الدین خاں صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں اللہ تعالی کی ذات کا تعارف قلم بند فرمایا ہے تاکہ انسان اللہ کی معرفت حاصل کر کے اس کی دی ہوئی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکے۔ اللہ تعالی مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ہمیں آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی بھی توفیق دے۔آمین(راسخ)
دینِ اسلام ایک سیدھا اور مکمل دستورِ حیات ہے جس کو اختیار کرنے میں دنیا و آخرت کی کامرانیاں پنہاں ہیں۔ یہ ایک ایسی روشن شاہراہ ہے جہاں رات دن کا کوئی فرق نہیں اور نہ ہی اس میں کہیں پیچ خم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو انسانیت کے لیے پسند فرمایا اوررسول پاکﷺ کی زندگی ہی میں اس کی تکمیل فرمادی۔عقائد،عبادات ، معاملات، اخلاقیات، غرضیکہ جملہ شبہائے زندگی میں کتاب وسنت ہی دلیل ورہنما ہے ۔ہر میدان میں کتاب و سنت کی ہی پابندی ضروری ہے۔ صحابہ کرام نے کتاب وسنت کو جان سے لگائے رکھا۔ ا ن کے معاشرے میں کتاب وسنت کو قیادی حیثیت حاصل رہی اور وہ اسی شاہراہ پر گامزن رہ کر دنیا وآخرت کی کامرانیوں سے ہمکنار ہوئے۔ لیکن جو ں جوں زمانہ گزرتا گیا لوگ کتاب وسنت سے دور ہوتے گئے اور بدعات وخرافات نے ہر شعبہ میں اپنے پیر جمانے شروع کردیئے اور اس وقت بدعات وخرافات اور علماء سوء نے پورے دین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جید اہل علم نے بدعات اور اس کے نقصانات سے روشناس کروانے کے لیے اردو وعربی زبان میں متعدد چھوٹی بڑی کتب لکھیں ہیں جن کے مطالعہ سے اہل اسلام اپنے دامن کو بدعات سے خرافات سے بچا سکتے ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’مروجہ بدعات‘‘ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز کےرد بدعات کے موضوع پر ایک عربی کتابچہ التحذیر من البدع کا اردو ترجمہ ہے۔ شیخ نے اس کتابچہ میں نبی کریمﷺ کی ولادت کے سلسلے میں کی جانے بدعات، معراج کی رات خاص اہتمام کا حکم، شعبان کی پندرھویں رات کو لوگوں کا عبادت کے لیے اکٹھا ہونا، ایک جھوٹے وصیت نامے کی حقیقت جیسے موضوعات کا آیات قرآنی اوراحادیث نبویہ کی روشنی میں جائزہ لیا ہے اور ثابت کیا کہ ان کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں یہ ساری بدعات ہیں جو گمراہی وضلالت پر مبنی ہیں۔شیخ ابن باز کے اس رسالے کا مختلف اہل علم نے ترجمہ کیا ہے۔ زیر تبصرہ ترجمہ شیخ الحدیث کرم الدین سلفی کا ہے اللہ تعالیٰ شیخ مرحوم اورمترجم کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس کتابچہ کو عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ آمین( م۔ا)
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کے بعد ضروری ہے کے اللہ تعالیٰ کے دوستوں کے ساتھ محبت اور اس کے دشمنوں کے ساتھ عداوت ونفرت قائم کی جائے چنانچہ عقیدہ اسلامیہ جن قواعد پر قائم ہے، اُن میں سے ایک عظیم الشان قاعدہ یہ ہے کے اس پاکیزہ عقیدے کو قبول کرنے والا ہر مسلمان اس عقیدے کے ماننے والوں سے دوستی اور نہ ماننے والوں سے عدوات رکھے۔اسلام میں دوستی اور دشمنی کی بڑی واضح علامات بیان کی گئی ہیں، ان علامات کو پیش نظر رکھ کر ہر شخص اپنے آپ کو تول سکتا ہے کہ وہ کس قدر اسلام کی دوستی اور دشمنی کے معیار پر پورا اُتر رہا ہے۔ الولاء عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی دوست ،مدگار، حلیف کے ہیں۔ عقیدہ الولاء کی رو سے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سےاس کےبعد رسول اکرمﷺ سے اور اس کے بعد تمام اہل ایمان سے محبت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے ۔البراء بھی عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا یا دشمنی کا اظہار کرنایا کسی سے قطع تعلق کرنا ہے ۔عقیدہ البراء کی روہ سے اسلام دشمن کفار سے شدید نفرت اور بیزاری کااظہار کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور موقع ملنے پر ان کے خلاف جہاد کرنا ان کی قوت توڑنا او ران سے ظلم کا بدلہ لینا فرض ہے ۔شریعت ِاسلامیہ میں عقیدہ ’’الولاء والبراء‘‘ بہت اہمیت رکھتاہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید کی کوئی ایک سورت بلکہ کوئی ایک صفحہ ایسا نہیں جس میں ’’ الولاء والبراء‘‘ کےبارے میں احکام نہ دئیے گئے ہوں یا کسی نہ کسی طرح ’’ الولاء والبراء‘‘کا تذکرہ نہ کیا گیا ہو۔قرآن مجید کی ابتداء سورۃ الفاتحہ سے ہوتی ہے جس میں صرف سات آیات ہیں لیکن اس میں سورۃ میں بھی ’’ولاء‘‘ اور ’’براء‘‘ کا مضمون بھر پور انداز میں موجود ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’اہل سنت کا منہج تعامل ‘‘ ڈاکٹر سیدشفیق الرحمٰن کی تصنیف ہے ۔ انہوں نے اس کتاب میں نہایت ہی احتیاط اوراعتدال کے ساتھ امت کو جوکہ فرقہ پرستی کی آگ کے شعلہ جوالہ میں جل رہی ہے وحدت واتحاد کا جام شریں پیش کیا ہے ۔ اور خلاف شریعت کاموں پر اور نظریات پر جونفرت ہونی چاہیے اسے بھی روشناس کیا ہے۔اور بہت سےعلمی اور فکری فتنوں کا تذکرہ کر کے فکر صحابہ کو ہی صائب اوردرست قرار دیا ہے ۔یہ کتاب عقائد کا مختصر اورنہایت عمدہ مجموعہ ہے ۔یہ کتاب اپنے عام فہم اسلوب کی وجہ سے جہاں علماء وطلباء کے لیے مفید ہے وہاں عوام الناس کے لیے بھی اس پُرفتن دور میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔(م۔ا)
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس سےدوچار ہونا اوراس کا تلخ جام پینا ضروری ہے یہ یقین ہر قسم کےکھٹکے وشبہے سے بالا تر ہے کیونکہ جب سے دنیا قائم ہے کسی نفس وجان نے موت سے چھٹکارا نہیں پایا ہے۔کسی بھی جاندار کے جسم سے روح نکلنے اور جداہونے کا نام موت ہے۔ہر انسان خواہ کسی مذہب سے وابستہ ہو یا نہ ہو اللہ یا غیر اللہ کو معبود مانتا ہو یا نہ مانتا ہو اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرتا ہےکہ اس کی دنیا وی زندگی عارضی وفانی ہےایک روز سب کو کچھ چھوڑ کر اس کو موت کا تلخ جام پینا ہے گویا موت زندگی کی ایسی ریٹائرمنٹ ہےجس کےلیے کسی عمر کی قید نہیں ہے اور اس کےلیے ماہ وسال کی جو مدت مقرر ہے وہ غیر معلوم ہے۔یہ دنیاوی زندگی ایک سفر ہے جوعالم بقا کی طرف رواں دواں ہے ۔ ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے ۔ عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں ، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہماری اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت ہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ داری سونپ کر ایک محدود وقت کیلئے اس سفر پر روانہ کیا ہے ۔ عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم اپنے ہی گھر واپس جائیں کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جانے والوں کو کوئی بھی دانا نہیں کہتا۔انسان کوسونپی گئی ذمہ داری اورانسانی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔موت کے وقت ایمان پر ثابت قدمی ہی ایک مومن بندے کی کامیابی ہے ۔ لیکن اس وقت موحد ومومن بندہ کے خلاف انسان کا ازلی دشمن شیطان اسے راہ راست سے ہٹانے اسلام سے برگشتہ اور عقیدہ توحید سے اس کے دامن کوخالی کرنے کےلیے حملہ آور ہوتاہے اور مختلف فریبانہ انداز میں دھوکے دیتاہے ۔ ایسےموقع پر صرف وہ انسان اسکے وار سےبچتے ہیں جن پر اللہ کریم کے خاص رحمت ہو ۔موت انسان کےاپنے اصل گھر کی طرف روانگی کی پہلی منزل ہے ۔ دنیا میں رہتے ایک اچھا مسلمان چاہتا کہ اس کاہر قول،عمل اور طرز زندگی اللہ کےحکم کےمطابق ہو اوررسول اللہ ﷺ کی سنت کےموافق ہو ۔ اسے کےچلے جانے کے بعد اس کےلواحقین کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ اس کی آخری رسومات بھی اسی طرح شرعی طریقے سے پوری کرنے کاحق ادا کریں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’آخری سفر کی تیاری ‘‘ محترمہ ام عثمان صاحبہ کی کاوش ہے انہوں نے اس مختصر کتاب میں آسان فہم انداز میں احادیث کی روشنی میں وفات کےفوراً حاضرین کی ذمہ درایاں ،غسل میت کا طریقہ،کفن دینے کاطریقہ،غسل وکفن کے مراحل میں غیر مسنون افعال، جنازہ لے کر جانا، نماز جنازہ کاطریقہ ، میت کی مغفرت کے لیے مسنون دعائیں، تدفین، زیارت قبور، میت کو ثواب پہنچانے کے مسنون وغیر مسنون طریقوں کوبیان کیا ہے۔اللہ تعالیٰ مصنفہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے لوگوں کےلیے نفع بخش بنائے اور تما م اہل اسلام کوخاتمہ بالایمان نصیب فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)
انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کے تحت وہ دانستہ یا نادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے۔ بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تویہ غلطی اس کے خالق و مالک کو اس سے ناراض کردے گی۔ اس سےاپنے معبود ومالک کی ناراضگی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ فوری طور پر اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہو کر گڑگڑاتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتے ہوئے توبہ کرتا ہے کہ اے مالک الملک اس مرتبہ معاف کردے آئندہ میں ایسا کبھی نہ کروں گا۔ گناہ کے بعد ایسے احساسات اور پھر توبہ کے لیے پشیمانی وندامت پر مبنی یہ عمل ایک خوش نصیب انسان کےحصہ میں آتا ہے۔ جب کہ اس جہاںمیں کئی ایسے بدنصیب سیاہ کار بھی ہیں جن کوزندگی بھر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کا مالک ان سے ناراض ہو چکا ہے اور وہ ہیں کہ دن رات گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور رات کوگہری نیند سوتے ہیں یا مزید گناہوں پر مبنی اعمال میں مصروف رہ کر گزار دیتے ہیں۔جبکہ اللہ کریم اس وقت پہلے آسمان پر آکر دنیا والوں کو آواز دیتا ہے کہ: اے دنیا والو! ہے کوئی جو مجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے... ہے کوئی توبہ کرنے والا میں اسے ا پنی رحمت سے بخش دوں...؟ بہت کم ایسے خوش نصیب ہیں کہ جن کو مرنے سے قبل توبہ کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور وہ گناہوں بھر زندگی سےتائب ہوکر ہدایت کوروشن شاہراہ پر سفر کرتے ہیں، پھر شیطان لعین اورانسا ن نما شیاطین کےحملوں سےبچ کر باقی زندگی گزارتے ہیں۔ اور یوں اللہ کریم کو خوش کرنے کے بعد جنتوں کےحقدار بن جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان پر بہت بڑا احسان کیا کہ انسان سے سرزد ہونے والے گناہوں کی معافی کے لیے ایسے نیک اعمال کی کی ترغیب دلائی ہے کہ جس کے کرنے سےانسان کے زندگی بھر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ احادیث مبارکہ میں ان اعمال کی تفصیل موجود ہے اور بعض اہل علم نے اس موضوع پر مستقل کتب بھی تصنیف کی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ’’گناہوں کو مٹانے والے اعمال‘‘ فاضل نوجوان متعدد کتب کے مصنف مولانا محمد ارشد کمال﷾ کی تصنیف ہے ۔اس کتاب میں انہوں نے حسن کمال کے ساتھ کتاب وسنت کے بکھرے ہوئے حسین و جمیل پھولوں کو چن کر ایک ایک شاندار گلدستہ مرتب کردیا ہے۔ یہ کتاب گناہوں کو مٹانے والے اعمال کا شاندار خزینہ، عقیدہ وعمل کا آئینہ اور اخروی نجات کا دفینہ ہے اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اسے عوام الناس کے نفع بخش بنائے۔ آمین (م۔ا)
اسلام سے خارج کر دینے والے امور کو نواقض اسلام کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ باتیں جو آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتی ہیں اور آدمی پر آگ واجب ہو جاتی ہے۔ ان کے پائے جانے کی صورت میں نماز، روزہ اور زکوٰۃ خیرات تو کیا حتیٰ کہ کلمہ بھی فائدہ نہیں دیتا.... تاآنکہ ان سے توبہ نہ کر لی جائے۔ کیونکہ نواقض اسلام ہیں ہی وہ باتیں ہیں جن کی سب سے پہلے کلمہ پر ہی زد پڑتی ہے۔چنانچہ ضروری ہے کہ آدمی کو نواقض اسلام بھی معلوم ہوں۔ کچھ بھی ہو جائے ایسی بات کے تو آدمی قریب تک نہ جائے جس سے اس کا کلمہ ہی ضائع ہو جائے اور یوں اس پر سے اللہ کی رحمت کا سایہ اٹھ جائے اور پھر وہ جتنے بھی اعمال کرے سب کے سب مقبولیت سے محروم رہیں۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’ اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے والے دس امور (نواقض الاسلام) ‘‘شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کا کتابچہ ہے اس میں انہو ں ایسے دس امور پیش کیے ہیں جن کا ارتکاب کر کے انسان دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔اگر انسان اسی حالت میں فوت ہوجائے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا۔اس لیے ہر مسلمان مرد وعورت پر لازم ہے کہ وہ اسلام کو ختم کرنے والے امور کو اچھی طرح جان لے ۔ایسا نہ ہوکہ کوئی مسلمان ان کفریہ امور کا ارتکاب کر بیٹھے اور اسے خبر بھی نہ ہو کہ یہ کفر ہے۔ایسے امور کو جاننے کےلیے اس کتاب کامطالعہ ضرور کریں۔(م۔ا)
یزید، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا، ان کے بعد مومنوں کا حکمران تھا۔ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی بیعت کی تھی۔ علماء نے حدیث « أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ ....»(صحيح بخاری: 2924) کا مصداق اسے قرار دیا ہے کہ یہ اس لشکر کا قائد تھا۔ تاہم یزید کے دور میں بہت سارے فتنوں کی وجہ سے اس کے بارے میں اہل علم کی آراء مختلف ہیں۔ چونکہ یزید کے متعلق کتب سیر و تاریخ میں تمام طرح کی تاریخی روایات موجود ہیں لہذا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے اور یہی موقف احوط ہے واللہ اعلم! زیر تبصرہ کتاب "یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ" انڈیا کے معروف عالم دین فضیلۃ الشیخ ابو فوزان کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ پر کئے گئے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک علمی، تحقیقی اور منفرد و شاندار کتاب ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
مسلک اہل حدیث کوئی نئی جماعت نہیں۔ تمام اہل علم اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت موجود ہے تب سے یہ جماعت موجود ہے۔اسی لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے۔یہ نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔پہلا لفظ"اہل"ہے۔جس کے معنی ہیں والے صاحب دوسرا لفظ"حدیث" ہے۔حدیث نام ہے کلام اللہ اور کلام رسولﷺ کا۔قرآن کو بھی حدیث فرمایا گیا ہے۔اور آپﷺ کے اقوال اور افعال کے مجموعہ کا نام بھی حدیث ہے۔پس اہل حدیث کے معنی ہوئے۔”قرآن و حدیث والے” جماعت اہل حدیث نے جس طریق پر حدیث کو اپنا پروگرام بنایا ہے اور کسی نے نہیں بنایا۔اسی لیے اسی جماعت کا حق ہے۔کہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہے۔مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہی جماعت حق ہے۔ اہل حدیث مروّجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں، نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے، بلکہ اہل حدیث ایک جماعت اور تحریک کا نام ہے۔ اور وہ تحریک ہے زندگی کے ہر شعبے میں قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنا اور دوسروں کو ان دونوں پر عمل کرنے کی ترغیب دلانا، یا یوں کہ لیجئے کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب وسنت کی دعوت اور اہل حدیث کا منشور قرآن وحدیث ہے۔اور اصلی اہل سنت یہی ہیں۔ زیر تبصرہ رسالہ " ہفت روزہ اہلحدیث لاہور، خدمات اہل حدیث نمبر " مرکزی جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے، جس میں قیام پاکستان کے 50 سالوں کے حوالے سے پاک وہند میں اھلحدیث کی ہمہ جہت خدمات کا حسین ودلآویز تذکرہ اور ایک تاریخی دستاویز کو جمع کر دیا گیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مرکزی جمعیت اہل حدیث کی اس کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔آمین(راسخ)
اسلام دینِ فطرت اور ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس طرح اس میں دیگر شعبہ ہائے حیات کی راہنمائی اور سعادت کے لیے واضح احکامات او رروشن تعلیمات موجود ہیں اسی طرح ازدواجی زندگی اور مرد وعورت کے باہمی تعلقات کےمتعلق بھی اس میں نہایت صریح اورمنصفانہ ہدایات بیان کی گئی ہیں۔ جن پر عمل پیرا ہوکر ایک شادی شدہ جوڑا خوش کن اورپُر لطف زندگی کا آغاز کر سکتاہے۔ کیونکہ یہ تعلیمات کسی انسانی فکر وارتقاء اورجدوجہد کانتیجہ نہیں بلکہ خالق کائنات کی طرف سےنازل کردہ ہیں۔ جس نے مرد وعورت کے پیدا کیا اور ان کی فلاح وکامرانی کے لیے یہ ہدایات بیان فرمائیں۔خاوند اور بیوی کی ایک دوسرے سے باہمی محبت تبھی فروغ پائے گی جب ان میں سے ہر کوئی دوسرے کے حقوق اور اپنی ذمہ داری کا خیال رکھے گا۔ اسلام نے ان ذمہ داریوں اور حقوق کی واضح تقسیم کر کے جہاں خاوند کے ذمہ بہت سارے فرائض سے عہدہ برآ ہونا مقرر کیا ہے وہیں اسے مطمئن رکھنے اور خاندان کے نظام کو بہترین اور اعلیٰ اقدار پر استورا کرنے کے لیے گھر کا نگران، افسر اور حاکم بنایا ہے۔اب اس حکومت میں خاوند اگر بادشاہ ہے تو بیوی اس کی وزیر ہے ۔ خاوند اگر حاکم ہے تو بیوی محکوم ہے خاوند اگر افسر ہے توبیوی اس کی ماتحت ہے خاوند اگر آقا ہے تو بیوی اس کی رعایا ہے لہذا جہاں ایک حاکم ایک بادشاہ ایک آقا اور ایک افسر کویہ غور کرنا ہے کہ اس نے اپنی حکومت کا نظام کس طرح بہتر کرنا ہے وہاں اس کے ماتحت کو اپنے مالک اپنے بادشاہ اپنے نگران اپنے آقا اور اپنے خاوند کو خوش رکھنا ہوگا او راس کی نظر میں اپنا مقام بلند کرنے کے لیے اسے و ہ تمام وسائل اور طریقے اختیار کرناہوں گے جس سے وہ خوش رہے۔ اس سے خاندان کی بہتری فروغ، نشو ونما اور تعلق میں خاطر خواں اضافہ ہوگا اور انسان کے شرف اور ارفع اقدار کا ثبوت عملاً فراہم ہوجائے گا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’عورت اپنے خاوند کا دل کیسے جیتے‘‘ شیخ ابراہیم بن صالح المحمود کی عربی تصنیف ’’کیف تکسبین زوجک‘‘ کا اردو ترجمہ ہے اس کتاب میں فاضل مصنف نے عورتوں کو اسی اہم امر کی طرف توجہ دلائی ہے تاکہ وہ جنت کے کسی بھی درازے سے جنت میں داخل ہونے کا پروانہ حاصل کرسکیں۔ نیز انہوں نے عورتوں میں مروج عام غفلتوں کی طرف توجہ دلا کر ان سے نفرت دلانے اوراجتناب کرنے کی ترغیب وتحریص بھی دلائی ہے اور بچوں کی صحیح دینی خطوط پر تربیت کرنے کی اہمیت بھی واضح کی ہے۔ (م۔ا)