قادیانیت کی تردید اور مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کے گھروندے کو مسمار کرنے کے لئے خارج سے کسی دلیل کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اس کے لئے تو مرزا قادیانی کی متضاد تحریریں ہی کافی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب بھی اس بات کی شاہد عدل ہے۔ قادیانیت جیسے غلیظ مذہب کو درست ثابت کرنے کیلئے ایک کتاب بنام "احمدیہ پاکٹ بک" لکھی گئی ہےجو کہ اب انٹرنیٹ پر بھی عام دستیاب ہے۔ اور مرزائی حضرات اس کتاب کی تصنیف پر پھولے نہیں سماتے کہ اس کا جواب تو گویا ہو ہی نہیں سکتا۔ زیر تبصرہ کتاب اسی کتاب کے بھرپور اور شافی جواب پر مشتمل ہے۔ جس میں قادیانیت سے متعلقہ کم و بیش تمام مباحث شامل ہیں۔ اور احمدیہ پاکٹ بک کے تمام تر اعتراضات، تاویلات اور شبہات و تحریفات کا خود مرزا قادیانی کی تحریروں سے ایسا رد کیا گیا ہے کہ قاری مصنف کی محنت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ رد قادیانیت کے میدان میں یہ کتاب واقعی ایک لاجواب کتاب ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی جو کہ ایک بلند پایہ علمی شخصیت اور محدث ہیں،نے کچھ عرصہ قبل خواتین کے چہرے کے پردے کے حوالے سے ''الحجاب المرأۃ المسلۃ'' کے عنوان سے ایک رسالہ تحریر کیا جس میں بہت سارے دلائل کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ چہرہ اور ہاتھوں کا پردہ مستحب ضرور ہے مگر واجب نہیں-زیر نظر کتاب میں مولانا عبدالرحمن کیلانی نے موصوف کے تمام دلائل کا کتاب وسنت کی براہین کی مدد سے تفصیلی رد پیش کیا ہے-كتاب کے شروع میں تہذیب حاضر کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اس کے اسباب اور خطرناك نتائج پرروشنی ڈالی گئی ہے-اس کے بعد احکام سترو حجاب سے متعلق چند ضروری وضاحتیں پیش کی گئی ہیں جس میں مرد و عورت کے سترکی حدود کی وضاحت کرتے ہوئے پردے میں عورتوں کے لیے رعایت کے پہلو کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے-پردے اورحجاب کے آغاز پربحث کرتے ہوئے احکام حجاب کی رخصت کس کس سے ہے ؟ پر آراء کا اظہار کیا گیا ہے-اس کے بعد چہرے اور ہاتھوں کے قائلین اور غیر قائلین کے دلائل کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے راجح مؤقف کی وضاحت کی گئی ہے-
یہ کتاب علامہ شیخ رحمت للہ بن خلیل الرحمٰن کیرانوی عثمانی ؒ کی مایہ ناز کتاب "اظہار الحق" کا جامع اختصار ہے۔ جسے "مختصر اظہار الحق" کے نام سے ڈاکٹر محمد عبد القادر ملکاوی نے مرتب کیا ہے۔ اس وقت عیسائی مشنریاں دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص دین اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پھیلانے کی تگ و تاز میں مصروف ہیں۔ 9/11 کے بعد دنیا میں پیدا ہونے والے تغیرات کے نتیجے میں صلیبی دنیا برملا اسلام دشمنی پر اتر آئی ہے۔ یہ کتاب اپنے مواد کے اعتبار سے دشمنان دین و ملت کے سامنے ایک ٹھوس بند کی حیثیت رکھتی ہے۔ عیسائیت کیا ہے؟ اور اہل تثلیث نے مختلف ادوار میں بائبل میں کیا تغیر و تبدل کیا ہے؟ پورے دلائل کے ساتھ یہ سب کچھ اس کتاب میں واضح کر دیا گیا ہے۔ سو خود پڑھنے کے ساتھ یورپ و مغرب کو دعوتِ اسلام کے لیے یہ کتاب ایک گراں قدر خزینہ ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مؤمنین کے لیے فوزو فلاح اور کامیابی کی راہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے لوگ نمازوں میں خشوع وخضوع اختیار کرنے والے،لغوباتوں سے اعراض کرنے والے،زکوۃ ادا کرنے والے،شرمگاہوں و ا مانتوں کی حفاظت کرنے والے،عہد کی پاسداری کرنے والے اور نماز کی حفاظت کرنےوالے ہوتے ہیں-زیر نظر کتاب میں ارشاد الحق اثری صاحب انہی فلاح کے راستوں کو موضوع بحث لائے ہیں- نماز میں خشوع وخضوع کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے خشوع ختم کرنے والے اسباب وذرائع کا ذکرکیا گیاہے اور خاشعین کی نماز کے چند ایمان افروز مناظرکو قلمبند کیا گیاہے-اس کے بعد لغو باتوں سے اعراض پر مدلل بحث کرتے ہوئے زکوۃ وصدقہ کی اہمیت اور زکوۃ کے اجتماعی نظام کے فوائد کو قلمبند کیا گیا ہے-مزید برآں شرمگاہوں کی حفاظت کے ضمن میں صحابہ کرام کے عمل وکردار کی مثالیں بیان کی گئی ہیں اور ساتھ ساتھ زنا کے درجات،اغلام بازی،جانور سے بدفعلی اور استمناء بالید کی دلائل کی روشنی میں شرعی وضاحت کی ہےعلاوہ ازیں امانتوں اور عہدوں کی پاسداری کے سلسلے میں تفصیلی وضاحت کرتے ہوئے نماز کی حفاظت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے-
یہ کتاب دراصل محدث نبیل علامہ ناصر الدین البانی رحمتہ اللہ علیہ کی عربی تصنیف "آداب الزّفاف فی السّنۃ المطھّرۃ" کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب انہوں نے اپنے ایک دوست کی شادی کے موقع پر تحریر فرمائی ہے۔ اس میں انہوں نے وقت کی قلت کے باعث فقط ان مسائل پر قلم اٹھایا ہے جو سہاگ رات سے قبل اور بعد میں پیش آمدہ ہیں۔ اسی طرح مباشرت کے آداب کا تذکرہ بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ ان کی یہ کوشش اس بناء پر بہت خوش آئند ہے کہ انہوں نے ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھا کر لوگوں کیلئے کتاب و سنت کی راہنمائی مہیا کی ہے جس پر لاتعداد مخرب الاخلاق کتابچے، رسائل و جرائد اور مضامین زیر گردش ہیں۔ شیخ موصوف نے اس نازک موضوع پر ایسی پاکیزہ اور اعلٰی معلومات بہم پہنچائی ہیں جن کی بنیاد اللہ تعالٰی کا مقدس کلام اور رسول رحمت ﷺ کی زبان اطہر سے نکلے ہوئے محبوب ترین الفاظ ہیں۔ یہ کتاب اس لحاظ سے بھی انتہائی مفید ہے کہ شادی کرنے والے نوجوان اس سے مناسب رہنمائی لے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے برصغیر میں ایسے مسائل کے متعلق سوال کرتے ہوئے عموماً لوگ جھجک محسوس کرتے ہیں۔
یہ کتاب دراصل اعتکاف کے موضوع سے متعلقہ دو مقالات کا مجموعہ ہے۔ ایک مقالہ فضیلۃ الشیخ ابو المنیب محمد علی خاصخیلی کی کاوش ہے اور دوسرا فضیلۃ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی تحقیق ہے۔ اعتکاف کے مسائل کے حوالے سے عوام میں جو تشنگی پائی جاتی ہے یہ کتاب اس کا کافی حد تک ازالہ کرتی ہے۔ کتاب و سنت کے دلائل سے مزین اس کتاب میں اعتکاف کی تعریف، فضائل و اقسام، مسائل، فضلیت و عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ اس کتاب کا ایک اہم مبحث دور حاضر کا ایک اختلافی مسئلہ کہ کیا خواتین گھر میں اعتکاف کر سکتی ہیں؟ بھی ہے۔اعتکاف کے موضوع پر ایک عمدہ کتاب ہے۔
یہ کتاب دیوبندی عالم اسماعیل جھنگوی کی کتاب "تحفہ اہلحدیث" کے جواب میں تحریر کی گئی لاجواب تصنیف ہے۔ اسلام کو کتاب و سنت ہی میں منحصر سمجھنےوالوں ، اقوال ائمہ کو کتاب و سنت کی میزان میں پیش کر کے موافق کو قبول اور مخالف کو رد کر دینے والوں کو گمراہ اور باطل باور کرانا ناممکن ہے۔ اسی لئے اس طائفہ منصورہ کے خلاف خوب جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا کر کے لوگوں کو اس جماعت حقہ سے بد ظن کرنے اورنفرت دلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ کتنی ہی مثالیں موجود ہیں کہ کتاب و سنت کی حامل جماعت کی طرف ایسے ایسے غلط مسائل منسوب کئے جاتے رہے جن سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ بھی کہ علماء کی طرف سے ان منسوب کردہ جھوٹے مسائل سے علی الاعلان برات کے اظہار کے باوجود جھوٹ ہی کو بار بار دہرایا جاتا رہا۔ تاکہ یک طرفہ لٹریچر کا مطالعہ کرنے والوں کے دلوں میں یہ جھوٹ خوب پختہ ہو جائیں۔ تحفہ اہلحدیث نامی کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اپنے جھوٹ پر شاید دیوبندی مصنف بھی مطمئن نہیں تھے اسی لئے انہوں نے اپنا نام تک مجہول رکھا ہے۔ اور 96 صفحات کی مختصر کتاب میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ پر دو جھوٹ باندھے ہیں۔ تفصیل زیر تبصرہ کتاب ہی میں ملاحظہ فرمائیں۔ جس میں فاضل مصنف نے جھنگوی صاحب کی طرف سے پیش کی جانےوالی جملہ خرافات اور کذبات کا خوب علمی و تحقیقی محاسبہ کیا ہے۔ اندھی تقلید کی بجائے تحقیق سے صراط مستقیم کی تلاش رکھنے والوں کیلئے یہ کتاب یقیناً ایک نادر تحفہ ہے۔
دور حاضر کے فتنوں میں ایک بڑا فتنہ منکرین حدیث کا ہے۔ مغرب کی چکا چوند سے متاثر ، وضع قطع میں اسلامی شعائر سے عاری، نام نہاد روشن خیالی کے سپورٹر، دینی اصولوں میں جدت و ارتقاء کے نام پر تحریف کے قائل و فاعل ، دینی احکام کی عملی تعبیر کو انتہا پسندی اور دقیانوسیت قرار دینے والے، قرآن مجید کی آڑ میں احادیث رسول ﷺ کی تاویل و تحریف کے ساتھ استہزاء کرنے والے اس گروہ کے دور حاضر کے لیڈر جناب جاوید احمد غامدی صاحب ہیں۔ جو میڈیا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے باطل افکار و نظریات کو خوب پھیلا رہے ہیں۔ جن میں معتزلہ کی طرح عقل انسانی کے بجائے فطرت انسانی کو کلی اختیارات عطا کرنا، دین اسلام کی تفہیم و تشریح میں انسانی فطرت و عربی محاورات یا دور جاہلیت کے اشعار کو بنیادی حیثیت دینا اور احادیث کو روایات کہہ کر ثانوی یا ثالثی حیثیت دے کر اور بسا اوقات قرآن سے متصادم کا لیبل چسپاں کر کے اسے پس پشت ڈال دینا، مسئلہ تحلیل و تحریم کو شریعت سے خارج کرنا، علاقائی رسومات کو تواتر عملی کا جامہ پہنا کر اسے دین بنا ڈالنا، قرآن کے نام پر مغرب کے تمام ملحدانہ افکار و نظریات کو امپورٹ کرنا ، سنت کی جدید تعریف کر کے اصلاحات محدثین کو نشانہ ستم بنانا، قرات سبعہ کو فتنہ عجم بتانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان کے باطل نظریات کا احاطہ تو اس کتابچہ میں ناممکن تھا۔ اس کیلئے علیحدہ کتب موجود ہیں۔ اس کتاب میں تو ان کے انہی باطل افکار و نظریات کی ایک جھلک ہی پیش کی گئی ہے۔ غامدی افکار و نظریات کے مختصر تنقیدی جائزے پر مشتمل ایک اچھی کاوش ہے۔
کویت کی اہم سیاسی شخصیت سیدہاشم الرفاعی مذہبی طور پر تصوف کے شیدائی اور بدعات وخرافات کے رسیا، ہیں، دورہ پاکستان پر اپنے ہم مشرب ماہنامہ اہلسنت گجرات کو انٹرویو دیتے ہوئے کویت و سعودیہ کے علماء پر سوقیانہ زبان میں خوب دشنام طرازی فرمائی ۔ اور حرمین شریفین کو شرک و بدعات سے پاک رکھنے کے "جرم" میں بے جا تنقید فرمائی۔ جس کا مسکت جواب علمی وقار اور تہذیب و شرافت کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فاضل مصنف سابق چانسلر و وائس چانسلر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ نے دیا ہے۔ جس کا ترجمہ اس کتاب کی صورت میں آپ ملاحظہ کر رہے ہیں۔ ہمارے برصغیر پاک و ہند میں دو گروہوں کی طرف سے علمائے نجد و حجاز کے متعلق دو متضاد پروپیگنڈے کئے جا رہے ہیں۔ ایک گروہ تو انہیں گستاخ رسول (ﷺ)، آثار صحابہ کا احترام نہ کرنے والے، اولیاء کو نہ ماننے والے وغیرہ قرار دیتا ہے تو دوسرے گروہ کے اسلاف انہیں کافر، گمراہ، گمراہ گر، فاسق اور باغی قرار دیتے رہے۔ جبکہ ان کے اخلاف آج شاید پٹرو ڈالر کی کرامت دیکھنے کے بعد انہی علماء کو مقلدین کی صف میں کھڑا دکھانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب علمائے نجد و حجاز کے عقائد و اعمال کی وضاحت پر مشتمل ان مکاتب فکر کی جانب سے کئے جانے والے پروپیگنڈا کا بھرپور و شافی جواب ہے۔
یہ کتاب دراصل حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے تقلید کے رد پر مشتمل ان پانچ مضامین کا مجموعہ ہے جو ماہنامہ الحدیث حضرو میں قسط وار شائع ہوئے۔ فرق مسالک سے شغف رکھنے والے احباب جانتے ہیں کہ اہلحدیث اور احناف کے درمیان ایمان، عقائد اور اصول کے بعد ایک بنیادی اختلافی مسئلہ تقلید ہے۔ پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں تقلید مطلق اور تقلید شخصی۔ قرآن، حدیث ، اجماع اور آثار سلف صالحین سے تقلید کی یہ دونوں قسمیں باطل اور مردود ہیں۔ لیکن آج یہ مسئلہ امت مسلمہ میں شدید اختلاف کا موجب بنا ہوا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ اگر امت مسلمہ کبھی متفق و متحد ہوئی تو کتاب و سنت ہی پر اتفاق ہو سکتا ہے۔ نہ کہ چار یا بارہ اماموں پر۔ دعوت غور و فکر اور تقلیدی اندھیروں سے کتاب و سنت کے دلائل کی روشنی سے دین کو سمجھنے کی دعوت دیتی یہ کتاب انشاء اللہ بہت سے رہِ گم کردہ مسافروں کو صراط مستقیم کی روشن شاہراہ کا رستہ دکھانے کا سبب بنے گی۔
قیامت تک ایک جماعت کے حق پر قائم رہنے کی نبوی پیشینگوئی کو ہر گروہ اپنے اوپر چسپاں کرتا نظر آتا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ ہر گروہ اپنے طریقہ کار کو کتاب و سنت پر پیش کرے، جو ثابت ہو جائے اس پر سختی سے کاربند رہے جس کا ثبوت نہ ملے اسے بلاجھجک ترک کر دیا جائے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ اپنے اصول و ضوابط اور مقاصد و طریقہ کار کو درست ثابت کرنے کیلئے قرآن و حدیث کی معنوی تحریف سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ برصغیر پاک و ہند میں دیوبندی احباب کی تبلیغی جماعت کا خوب شہرہ ہے۔ تبلیغی جماعت کی کتاب فضائل اعمال (جس کا پرانا نام تبلیغی نصاب تھا) پر کتاب و سنت کی روشنی میں کئی دفعہ تنقید کی گئی۔ لیکن ارباب اختیارات نے کبھی کان نہ دھرے اور فضائل اعمال میں موجود شرکیہ واقعات کو جوں کا توں باقی رکھا گیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں فضائل اعمال میں تحریر شدہ واقعات و اقوال کے حوالے سے یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد کے ضمن میں تبلیغی جماعت کا نقطہ نظر کیا ہے۔ اور تبلیغی جماعت کی تاسیس کا اصل محرک کیا ہے۔ نیز تبلیغی جماعت کے اکابرین کے عقائد کو بھی ان کی کتب سے باحوالہ طشت از بام کیا گیا ہے۔ عوام تبلیغی جماعت کے عامی افراد کی محنت اور تگ و دو کو مد نظر رکھتے ہیں لیکن پس پشت ان خطرناک صوفیانہ عقائد سے ناواقف ہیں جن کی فضائل اعمال کے ذریعے تبلیغ کی جا رہی ہے۔ اس کتاب میں تنقید برائے تنقید کی بجائے تنقید برائے اصلاح کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے افکار و نظریات پر یہ ایک عمدہ تصنیف ہے۔
مولانا سرفراز صاحب صفدر دیوبندی اور ان کے فرزند ارجمند کی طرف سے کتاب و سنت کے داعیوں پر دشنام طرازی اس کتاب کی وجہ تالیف بنی۔ تاریخی حقائق کو خوب موڑ توڑ کر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ مولانا ثناءاللہ (جنہیں فاتح قادیان کا لقب ملا) مرزائیت کے شیدائی تھے، ان کے پیچھے نماز کو جائز سمجھتے تھے۔ اسی طرح انگریزوں کے خلاف جہاد کے موضوع پر شیشے کے گھر میں بیٹھ کر مضبوط قلعوں پر پتھر پھینکے جاتے رہے ہیں۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے نہ صرف یہ کہ علم برداران کتاب و سنت کا دفاع ہی کیا ہے بلکہ علمائے دیوبند کے ماضی کو بھی تاریخی حوالہ جات اور حقائق کی مدد سے خوب واضح کیا ہے۔
انقلابی داعیانہ مضامین پر مشتمل یہ کتاب ثقیل علمی اور تحقیقی اسلوب کی بجائے دعوتی اسلوب میں تحریر کی گئی ہے۔ اس کا موضوع توحیدی دعوت اور شرک سے آگاہی ہے۔ نہایت ہی عام فہم اور سادہ انداز میں کتاب و سنت کے دلائل سے مزین اور مصنف کے مزارات پر کئے جانے والے شرکیہ اعمال کے آنکھوں دیکھے حال و تردید پر مشتمل یہ کتاب دعوت توحید کیلئے ایک بہترین کتاب ہے۔ اب تک اس کتاب کے دس ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور بحمدللہ ہزاروں لوگ اس کتاب کی وجہ سے شرکیہ عقائد و اعمال سے توبہ کر کے شاہراہ بہشت پر گامزن ہو چکے ہیں۔ انٹرنیٹ پر دعوتی سرگرمیوں میں ملوث افراد کیلئے بہترین دعوتی ہتھیار ہے۔ خود بھی پڑھئے دوسروں تک بھی پی ڈی ایف فائلز اور ہارڈ کاپی کی صورت میں پہنچائیے۔
یہ کتاب مولوی عمر پالن پوری دیوبندی کی کتاب "اہلحدیث کا خلفائے راشدین سے اختلاف" کے جواب میں تحریر کی گئی ہے۔ فاضل مصنف حافظ فاروق الرحمٰن یزدانی چونکہ خود پہلے حنفی رہ چکے ہیں۔اور حنفیت ہی ان کا پسندیدہ موضوع بھی ہے۔ لہٰذا پالن پوری صاحب کے جواب میں انہوں نے اپنے رشحہ قلم سے تقلید کی نامرادیوں کو خوب طشت از بام کیا ہے۔ مصنف اس حوالے سے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ نہ صرف خود ہی شاہراہ توحید و سنت پر گامزن ہوئے بلکہ دیگر بھائیوں کی رہائی کیلئے بھی کوشاں نظر آتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ان کی ایسی ہی ایک بہترین کاوش ہے جس کے پہلے حصے میں احناف کی طرف سے تقلید کی تائید میں پیش کئے جانے والے تار عنکبوت دلائل و شبہات کا خوب محاکمہ کیا ہے۔ اور دوسرے حصے میں فقہ حنفی کے ان مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے جو احادیث رسول ﷺ کے خلاف ہیں۔ اس حصے میں مسئلہ کی تشریح و تبیین کیلئے پہلے احادیث ذکر کی گئی ہیں اور بعد میں احناف کے احادیث نبوی کی مخالفت مین اقوال پیش کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب راہ اعتدال کی نشاندہی کرتی ایک لاجواب تصنیف ہے۔
اس کتاب میں تبلیغی جماعت اور اس کی معروف کتاب "فضائل اعمال" کے اصلاح طلب پہلوؤں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے مسلسل چار سالوں تک تبلیغی جماعت کے رائے ونڈ اجتماع میں شرکت کرنے کے بعد اپنے تاثرات و مشاہدات کو قلم بند کیا ہے۔ تبلیغی بھائیوں میں یہ مقولہ زبان زد عام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں اور نبی کریم ﷺ کے طریقوں میں کامیابی ہے، زیر تبصرہ کتاب کی گزارشات جذبہ خلوص کے تحت اسی مقولہ کی بنیاد پر پیش کی گئی ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں تبلیغی جماعت نے اپنے کام اور طریقہ کار میں ایسی چیزیں شامل کر لی ہوں، جو نہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہو اور نہ نبی ﷺ کا طریقہ؟ تبلیغی بھائیوں کے لئے جذبہ ہمدردی اور اخلاص کے تحت لکھی گئی اصلاحی تحریر۔
قرآن نے جو نقشہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل پائے جانے والے نظریات کا کھینچا ہے، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ لوگ یہ تسلیم نہیں کرتے تھے کہ کوئی شخص بشر (انسان) ہو کر اللہ تعالٰی کا رسول بھی ہو سکتا ہے۔ اور آج یہی نظریات مسلمانوں کے ایک خاص گروہ میں پائے جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج کے مسلمان کہلانے والے انہیں رسول مان کر بشر تسلیم نہیں کرتے۔ گویا بشر اور رسول کے ایک ذات میں جمع ہو جانے کے دونوں گروہ منکر ہیں۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے اسی باطل گروہ کے اس باطل عقیدے کا کتاب و سنت کی روشنی سے رد کیا ہے اور ان کی طرف سے پیش کئے جانے والے تار عنکبوت دلائل و شبہات کا خوب علمی محاکمہ کیا ہے۔ نور و بشر کے موضوع پر بے نظیر تصنیف ہے۔
مشہور دیوبندی عالم یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب "اختلاف امت اور صراط مستقیم" کے جواب میں فاضل مؤلف نے نہایت محنت اور دیدہ ریزی سے مدلل اور محققانہ جواب لکھا ہے۔ چونکہ اس کتاب میں فریقین کے موقف سامنے آ گئے ہیں لہٰذا گم گشتان بادہ تقلید کیلئے یہ کتاب اب ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرمسلکی تعصب کی عینک اتار کر للّٰہیت اور خلوص قلب سے اصلاح نفس کی خاطر مطالعہ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلکی موشگافیوں میں صراط مستقیم کو کھو دینے والا شخص دوبارہ اس شاہراہ روشن کا مسافر بن جائے۔ مسلکی اختلافات پر ایک چشم کشا اور عمدہ ترین تصنیف
توحید یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کو اسباب سے بالاتر نہ پکارا جائے۔ لیکن آج کے نام نہاد مسلمانوں نے ہر کام کیلئے الگ الگ پیر بنا لئے ہیں جن سے مختلف قسم کی مافوق الاسباب امداد و استعانت طلب کی جاتی ہے۔ بیٹے دینے والا پیر الگ ہے تو خزانے بخشنے والا کوئی اور۔ بہشتی دروازہ کسی کے پاس ہے تو بیماریاں دور کرنے والا پانی کسی اور کے پاس۔ بالکل اسی طرح جیسے مشرکین الگ الگ بتوں سے الگ الگ کاموں کی توقعات رکھتے تھے۔ فاضل مصنف نے اس نازک اور حساس موضوع پر نہایت ہی عمدہ طریقے سے کتاب و سنت کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کو اسباب سے بالاتر پکارنا شرک ہے۔ غیر اللہ سے مدد طلب کرنے والوں کے تار عنکبوت دلائل اور شبہات کا بھرپور علمی محاکمہ کیا ہے۔
رسول اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم مین لے جانے والی ہے۔ اتنی سخت وعیدیں ہونے کے باوجود آج مسلمانوں کی اکثریت دین کے نام پر بدعات کا شکار ہے۔ "مجلس ذکر" بھی اسی سلسلہ کا ایک شاخسانہ ہے۔ اللہ کے ذکر کے نام پر سادہ لوح مسلمانوں کو اکٹھا کر کے بدعات کا رسیا بنایا جاتا ہے۔ ان خودساختہ مصنوعی اذکار کی اتنی فضیلت بیان کی جاتی ہے کہ اللہ تعالٰی کے بجائے حضرت صاحب اور پیر صاحب سے تعلق گہرا ہوتا ہے۔ پھر امر بھی انہی کا چلتا ہے اور طاعت بھی۔ قرآن کے مطابق یہی تو پیروں کو رب بنانا ہے۔ اس کتابچہ میں مصنف نے ڈائیلاگ کے انداز میں نہایت ہی سادہ اور عام فہم طریق سے مجلس ذکر کی شرعی حیثیت کو واضح کیا ہے ۔
عورت اور مرد کے جسمانی خدوخال کی مخالفت کی وجہ سے شریعت نے ان کے جسم کو چھپانے کے احکامات الگ الگ مقرر کیے ہیں-اس لیے عورت کو ہر وقت پردے میں رہنے کا حکم جبکہ مرد کے مختصر لباس کو بھی جائز قراردیا ہے-عورت کے پردے کے حوالے سے بہت ساری بحثیں موجود ہیں کچھ لوگ عورت کے پردے کے قائل ہیں لیکن چہرے کے پردے کے قائل نہیں اور کچھ چہرے کے پردے کے قائل ہیں-مصنف نے دونوں رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے جانبین کے دلائل کو پیش کرکے قرآن وسنت سے ان کی حیثیت کو واضح کرکے شرعی راہنمائی فراہم کی ہے-علامہ البانی کے چہرے کے پردہ کے قائل نہ ہونے کی وجوہات کچھ اور ہیں اور غامدی اور اس طرح دوسرے لوگوں کے نزدیک عورت کے چہرے کے پردے کا قائل نہ ہونے کی وجوہات کچھ اور ہیں اس لیے مصنف نے ہر گروہ کے افکار ودلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے حساب سے جواب دیتے ہوئے قرآن وسنت سے اپنے موقف کی ترجمانی کو پیش کیا ہے اور اسی طرح کتاب کے آخر میں پردے کے حوالے سے پائے جانے والے مختلف شبہات کو الگ الگ بیان کر کے ان کا بھی علمہ محاکمہ کیا ہے اور کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے ہر بات دلائل کی روشنی میں کی ہے اور ہر باب کے آخر میں تمام حوالہ جات کو بھی پیش کیا ہے تاکہ قاری اگر اصل مراجع ومصادر سے استفادہ کرنا چاہتا ہو تو اس کو آسانی رہے-
عبدالرحمٰن کیلانی صاحب کی یہ کتا ب دراصل ترجمان الحدیث اور محدث میں چھپنے والے سلسلہ وار مضامین کا مجموعہ ہے۔ کتاب کا موضوع کتاب کے نام سے ظاہر ہے اور شاید مسلمانوں کا کوئی فرقہ اور کوئی طبقہ ایسا نہ ہوگا جو اس موضوع سے گہری دلچسپی نہ رکھتا ہو۔ ان مسائل میں کچھ لوگ اگر افراط کی راہ پر نکل کر گمراہ ہوئے تو کچھ رد عمل میں تفریط کا شکار بنے۔ زیر تبصرہ کتاب اس موضوع پر کتاب و سنت کی صحیح راہنمائی مہیا کرتے ہوئے اعتدال کی راہ دکھاتی ہے۔ اس کتاب میں احناف اور توحیدی گروہ کے بانی کیپٹن عثمانی کے افراط و تفریط پر مشتمل عقائد پیش کر کے ان کا علمی محاکمہ کیا گیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے عالم برزخ کی زندگی اور دنیاوی زندگی کی صورت حال کو واضح کیا ہے،روح کا سفر اور شہید کی زندگی کا تصور،سماع موتٰی کے بارے میں مختلف اقوال ورائے اور اس کی استثنائی صورتیں،برزخی جسم اور برزخی قبر کا تعارف، توحیدی گروہ کے بانی کیپٹن عثمانی کے پیدا کردہ مختلف شبہات کا بھرپور علمی رد پیش کیا ہے،اور اسی طرح سماع موتی کی آڑ لے کر اولیاء کو تصرفات کا حامل قرار دینا اور کیا سماع موتی کے عقیدے سے بندہ مشرک ہو جاتا ہے یا نہیں ،ایسی ابحاث کو حتی الامکان معتدلانہ رویے کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے-کتاب کا انداز انتہائی سادہ اور عام فہم ہے اور بات کو نکھارنے اور سمجھانے کی غرض سے مختلف استفسارات اور سوالات کو پیش کرکے ان کا جواب بھی تحریر کر دیا گیا ہے تاکہ سوال کے ساتھ جواب بھی موجود ہو اور بات بالکل واضح ہو کر لوگوں میں حق اور باطل میں فرق کرنے کا شعور بیدار کر سکے-
دین رہبانیت، صوفیت، صوفی ازم، طریقت کے متوالوں کو سنہری شریعت دین اسلام کی طرف راغب کرنے کیلئے لکھی گئی بہترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں طریقت کے حق میں دیے جانے والے دلائل اور شخصیات کا احترم آمیز انداز میں بہترین اور باحوالہ علمی محاسبہ کیا گیا ہے۔ ایسی کتاب ہے جو صراط مستقیم کے غیر متعصب متلاشی کو واقعی راہِ حق دکھانے کی قوت رکھتی ہے۔ دین طریقت کے مختلف بنیادی نظریات، وحدت الشہور، حلول، وحدت الوجود کا علمی محاسبہ۔ ولایت، کرامت، تصوف، باطنی علوم، قیوم،قطب، ابدال، صوفیاء اور محدثین، اولیاء اللہ اور گستاخی، عشق و مستی، سماع و وجد، جام و مے، تصور شیخ، حضرت خضر ؑ کی شخصیت، رجال الغیب، پیران پیر، شیعیت، خرقہ، لوح محفوظ، آستانے، مزارات، درگاہیں، ولایت یا خدائی، علم غیب، تصرف، توجہ ،بیعت،شفاعت، اولیاء اللہ کے مقابلے، ولی بننے کے طریقے، کرامات اور استدراج،صوفیائے کرام کی تعلیمات، اولیاء اللہ کی کرامات اور انبیاء کرام کے معجزات کا تقابلی جائزہ، تصرف باطنی، مشاہدہ حق، دیدار الٰہی، رسول اللہ ﷺ کی حیات و وفات، ذکر قلندریہ، ذکر نور اور کشف قبور، محبت الٰہی، صحبت بزرگان، صوفیائے کرام کا تفسیری انداز، موضوع احادیث و واقعات، شریعت و طریقت کا تصادم، توحید، رسالت،قرآن،نکاح سے گریز، جنت اور دوزخ کا مذاق، ارکان اسلام کا مذاق اشرف علی تھانوی کا اعتراف حقیقت، خورشید احمد گیلانی اور روح تصوف، شریعت و طریقت کاتقابلی جائزہ
اہل تصوف جو خود کو اہل حقیقت کہتے ہیں کی اہل توحید سے چپقلش کوئی نئی بات نہیں۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ کتاب ہے۔ یہ دراصل علامہ سید بدیع الدین شاہ صاحب کا لکھا ہوا مقدمہ ہے جو عبد الکریم بیر شریف کی ایک متصوفانہ تقریر بزبان سندھی "انسان کی عظمت" کے جواب میں ایک حنفی المسلک محمد حیات لاشاری صاحب کی طرف سے لکھے گئے جواب کا مقدمہ ہے۔ لاشاری صاحب کی اصل کتاب تو مفقود ہو گئی۔ لیکن شاہ صاحب کے مقدمہ کا مسودہ باقی رہا۔ رسالہ "انسان کی عظمت" میں بہت سی باتیں اسلام کی روح کے خلاف پیش کی گئی ہیں۔ مثلاً اللہ تعالٰی کیلئے مخلوق سے مثالیں، قرآن مجید کی لفظی و معنوی تحریف، موضوع اور ضعیف روایات، صفات الٰہی کی توہین، (نعوذ باللہ) وغیرہ۔۔صوفیانہ افکار اور باطل عقائد کے رد پر نہایت ٹھوس علمی اور دقیق زبان میں شاندار تصنیف ہے۔
دین اسلام کی اساس عقیدہ توحید پر ہےلیکن صد افسوس کہ امت محمد ﷺ میں سے بہت سے لوگ مختلف انداز میں شرک جیسے قبیح فعل میں مبتلا ہیں- سماع موتٰی یعنی مُردوں کے سننے کا مسئلہ شرک کا سب سے بڑا چور دروازہ ہے- موجودہ دور میں یہ مسئلہ اس قدر سنگینی اختیار کر گیا ہے کہ قائلین سماع موتٰی نہ صرف مردوں کے سننے کے قائل ہیں بلکہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ مردے سن کر جواب بھی دیتے ہیں اور حاجات بھی پوری کرتے ہیں-زیر نظر کتاب میں سماع موتی سے متعلق تمام اشکالات کا حل کتاب وسنت کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے-کتابچہ سوال وجواب کی صورت میں مرتب کیا گی ہے جو افہام وتفہیم کا آسان ترین ذریعہ ہےمعمولی پڑھا لکھا آدمی بھی باآسانی مستفید ہوسکتا ہے-جس میں لوگوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے مختلف شبہات کو سوال کی صورت میں پیش کر کے قرآن سنت کی راہنمائی کو جواب کی صورت میں پیش کیا ہے-
دین اسلام میں جتنی مذمت شرک کی کی گئی ہے کسی اور چیز کی نہیں کی گئی لیکن صد افسوس کہ امت مسلمہ اسی قدر شرک کے اندھیرنگری میں اندھادھند بھٹک رہی ہے- نام نہاد صوفیاء کرام مسلمانوں کے ایمان کے ساتھ آنکھ مچولی کرنے میں مصروف ہیں- زیر نظر کتاب میں مولانا امیر حمزہ نے برصغیر پاک وہند کے بہت سے درباروں کا آنکھوں دیکھا حال پیش کیا ہے –مولانا نے ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کر کے وہاں کی درگاہوں اور گدیوں پر ہونے والے شرمناک مناظر سے نقاب کشائی کی ہے- کتاب کے شروع میں اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کر دیا گیا ہے کہ اہلحدیث حضرات اولیاء کرام کی شان میں گستاخی کرتے ہیں-کتاب اپنے اسلوب، دلائل اور مشاہدات کے اعتبار سے منفرد حیثیت کی حامل ہے-مصنف نے کتاب میں مختلف نام نہاد پیروں فقیروں کی کرتوں سے بھی نقاب اٹھا کر سادہ لوح لوگوں کو یہ دیکھانے کی کوشش کی ہے کہ جن کو وہ ولی اللہ اور پہنچے ہوئے سمجھتے ہیں وہ حقیقت میں کتنے بھیانک چہرے والے ہیں-بے چارے بھٹکے ہوئے لوگوں کی عزتوں کو تار تار کرنا،زنا کے اڈے بنانا،چرس اور افیون کا کھلا استعمال، پھر ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ ولی تقدیر کو بدل دیتا ہے،جھوٹی کرامتیں،شعبدہ بازیاں،مادر زاد ننگے جسم کے ساتھ جلوہ افروز پیر،بابے کا چاند میں نظر آنا یہ وہ غلط نظریات ہیں جو لوگوں میں بڑی گہرائی کے ساتھ سرایت کر گئے ہیں مصنف نے ان چیزوں کا آنکھوں دیکھا مشاہدہ لوگوں کے سامنے بیان کر کے ان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے-