ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر عمل میں سنت رسول کو ملحوظ خاطر رکھے کیونکہ ہر وہ عمل جو سنت رسول سے مخالف ہو نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ روز قیامت وبال بھی بن جائے گا- بہت سے مسلمان نماز تو ادا کرتے ہیں لیکن اس میں سنت رسول کا خاص اہتمام نہیں کرتے انہی میں سے ایک اہم سنت رفع الیدین ہے- زیر نظر کتاب میں مولانا ابوخالد نور گھرجاکھی نے احادیث، صحابہ وتابعین، آئمہ اور محدثین کے اقوال کی روشنی میں رفع الیدین کا اثبات پیش کیا ہے اور محکم دلائل کے ساتھ رفع الیدین کے تارکین کا رد بھی کیا ہے-اثبات رفع الیدین کے لیے انہوں نے صحابہ کی ایک بہت بڑی جماعت کا قولی اور فعلی ثبوت پیش کیا ہے –یعنی کہ صحابہ کی ایک بہت بڑی جماعت سے اثبات الیدین سے متعلقہ روایات کو پیش کیا اور اس کے بعد صحابہ کی ہی ایک بہت بڑی جماعت سے عملی طور پر رفع الیدین کا ثبوت پیش کیا ہے کہ وہ سب رفع الیدین کے قائل بھی تھے اور فاعل بھی تھے-
اس کتاب میں توحید کی حقیقت کے بیان کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان ہے کہ جوشبہات مشرکین مکہ پیش کرتے تھے وہی شبہات آج کے مشرکین بھی پیش کرتے ہیں-مصنف نے مشرکین مکہ کے توحید کے متعلق شبہات کو پیش کر کے ان کا رد کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عقیدہ توحید کی بھی وضاحت کی ہے اور اس چیز کو واضح کیا ہے کہ دین کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے-اس لیے عقیدہ توحید کی پہچان کے لیے علوم شرعیہ سے وافقیت ضروری ہے۔
نماز اللہ تعالی کی طرف سے عائد کردہ ایک ایسا فریضہ ہے جس کی ادائیگی ہر مسلمان پر ایک دن میں پانچ بار ضروری ہے- بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو نماز تو ادا کرتے ہیں لیکن اس میں سنت نبوی کو ملحوظ نہیں رکھتے جبکہ یہ فریضہ جتنا اہم ہے اس کی ادائیگی میں احتیاط بھی اتنی ضروری ہے-اس لیے مصنف نے اسی احتیاط کو پیش نظر رکھتے ہوئے نماز کی درست ادائیگی کے لیے یہ کتاب تصنیف فرمائی- زیر نظر کتاب میں مصنف نے بہت سادگی اور۔ آسان انداز میں مسنون نماز کا مکمل طریقہ بیان کیا ہے- اس کتاب کا مطالعہ جہاں آپ کو نماز کے مکمل طریقے سے روشناس کروائے گا وہاں نماز میں پڑھی جانے والی مسنون دعائیں اور دیگر احکامات سے بھی آگاہ کرے گا-مصنف نے نماز کے لیے بنیادی شرط طہارت سے لے کر سلام تک تمام ارکان کو بالتفصیل اور سنت کے مطابق ادا کرنے کا طریقہ بیان کیا ہے۔
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام اعمال سنت نبوی کے مطابق بجا لائے- نماز ایک ایسا عمل ہے جودین اسلام کی اساس اور نبیاد ہے اگر اسی میں سنت رسول کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو دیگر تمام اعمال رائیگاں ہیں- نماز کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کتاب میں مصنف نے مسنون نماز، تکبیر سے لے کر سلام تک کا مکمل طریقہ ترتیب کے ساتھ پیش کر دیا ہے- زیر نظر کتاب میں جہاں بہت سی خوبیاں پائی جاتی ہیں وہاں ایک دو خامیاں یہ ہیں کہ احادیث اور اقوال صحابہ کے حوالوں کا خاص اہتمام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے بعض ضعیف احادیث بھی شامل ہو گئی ہیں اور بعض مسائل میں شدید مؤقف اختیار کیا گیا ہے جو کہ محل نظر ہیں-لیکن مجموعی اعتبار سے طریقہ نماز سنت نبوی کے مطابق پیش کیا گیا ہے اور اسی کی طرف ترغیب دلائی گئی ہے-اس لیے خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اچھی باتوں کو اختیار کرنے کی نیت سے قبول کرنا چاہیے-نماز کے تمام ارکان کو ترتیب سے بیان کرتے ہوئے ہر کی تسبیحات اور اذکار کا بھی تذکرہ کیا گیا۔
اسلام نے عبادات میں سے نماز پرجتنا زور دیا ہے شاید ہی کسی دوسری عبادت پر دیا ہو-حضور نبی کریم ﷺ نے نماز کی اہمیت کے پیش نظر اس کو دیگر ارکان سے واضح شکل میں پیش کیا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذہبی تقلید کی جکڑبندیوں کی وجہ سے نہ صرف عوام بلکہ علمائے کرام بھی نماز کی صحیح کیفیات سے نابلد ہیں-اس کتاب میں مصنف نے نماز کا مکمل طریقہ ان احادیث اور اقوالِ آئمہ کی روشنی میں پیش کیا ہے جو صحت کے قواعد وضوابط کے معیار کے مطابق ہوں- نیز کتاب کے شروع میں اتباع سنت اور رد تقلیدکے حوالےسے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے- جس میں مختلف آئمہ کرام کے فتاوی کے ذریعے اتباع اور اطاعت کے مفہوم کو واضح کیا ہے اور تقلید کے بارے میں آئمہ کے اقوال کو بیان کر کے اس کی حقیقت کو بھی واضح کیا ہے-مصنف نے ان چیزوں کے بعد نماز کی ابتدا سے لے کر آخر تک تمام ارکان کی ادائیگی کےبارے میں مسنون طریقہ بیان کیا ہے اور پوری نماز کو نکھار کر پیش کر دیا ہے-اس کتاب کی خاصیت یہ ہےکہ مترجم مولانا محمد صادق خلیل نے شیخ ناصر الدین البانی کو لاحق ہونے والے سہو مثلا فاتحہ خلف الامام کے حوالے سے غلط مؤقف کی بھی محکم دلائل سے نشاندہی کر دی ہے- نیز کتاب کے آخر میں علامہ ناصر الدین البانی کا مختصر تعارف اور ان کی علمی خدمات پر ایک جامع
اللہ تعالی نے انسان کو بہت سے انعامات سے نوازا ہے -ان نعمتوں کے شکرانے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اپنی خواہشات کو خالق حقیقی کے سامنے جھکا دے-اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے عائد کردہ فریضہء نماز کو احسن طریقے سے سرانجام دیا جائے- زیر نظر کتابچہ میں مصنف نے جہاں نماز کے انسانی زندگی پر ظاہری ومعنوی اثرات کا جائزہ پیش کیا ہے وہاں نماز کے دنیوی و اخروی فوائد کا بھی تذکرہ کیا ہے-اور یہ واضح کیا ہے کہ نماز کو قائم کرنے سے اللہ تعالی کی طرف سے روحانی اور جسمانی ہر دو اعتبار سے بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں-مثلا راحت وسکون کے لیے نماز سب سے بہترین ذریعہ ہے،اسی طرح نماز نور ہے، انسانی غفلتوں کا علاج ہے، انسان کے رنج وغم کو دور کرتی ہے، بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے،اوراس کے علاوہ بے شمار فوائد ہیں جو اللہ تعالی نے نماز میں پوشیدہ رکھے ہیں-ان تمام موضوعات پر بڑی مفصل اچھی گفتگو کی گئی ہے
نماز اركان اسلام ميں سے اہم ترین رکن ہے- اسلام کی بنیاد اور اساس نماز ہے اور اسی پر اسلام کی عمارت قائم ہے- یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے بارہا قرآن کریم میں اس کا تذکرہ فرمایا ہے اور کلمہ شہادت کے اقرار کے بعد کسی بھی مسلمان پر جو چیز سب سے پہلے فرض ہے وہ نماز ہے-اور قیامت کے دن بھی رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے طابق بندے کے نامہ اعمال کے متعلق سب سے پہلے نماز کا ہی سوال کیا جائے گا- یہ کتاب تین کتابوں کا مجموعہ ہے-ان میں سے پہلا حصہ جو بے نماز کے شرعی حکم کے بارے میں ہے یہ حصہ الشیخ صالح العثیمین کی تحریر ہے اور نماز باجماعت کی اہمیت وفضیلت والا حصہ الشیخ عبد اللہ بن عبدالعزیز بن باز کا تحریر کردہ ہے اور ان دونوں حصوں کا ترجمہ جناب ابو عبدالرحمن شبیر بن نور صاحب نے کیا ہے-اور اس کا تیسرا حصہ نماز مسنون کےنام سے ہے جو کہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی تحریر ہے-زیرنظرکتاب میں مصنف نے شیخ محمد بن صالح العثمین اور شیخ عبدالعزیز عبداللہ بن بازکے فتاوی جات کی روشنی میں نماز کی اہمیت وفضیلت اور تارک نماز کا حکم تفصیلا بیان کیا ہے-اس کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں نماز کا مکمل طریقہ، دعائیں ، وظائف اور دعائے قنوت کابھی احاطہ کیا گیا ہے۔
نماز کی قبولیت کے لیے جہاں اس کے ارکان وشرائط کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اسے ہوبہو حضور نبی کریم ﷺ کے بیان کیے گئے طریقے کے مطابق ادا کیا جائے-ارکان نماز کو انتہائی اطمینان اور خضوع وخشوع کو مدنظررکھتے ہوئے ادا کرنا چایہے-رکوع سے سجدے میں کس طریقے سے جھکا جائے اس بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں-کہ رکوع سے سجدے میں جاتےوقت پہلےگھٹنے زمین پر لگائے جائیں گے یا کہ ہاتھ؟زیر نظر کتابچہ میں ابوعدنان محمد منیر قمر نے رکوع سے سجدے میں جاتے ہوئے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے جائیں یا ہاتھ ، اس حوالے سے محدثین وسلف صالحین کی تصدیقات وحوالہ جات کی روشنی میں مسئلے کی مکمل وضاحت کی ہے- ان کا کہنا ہے کہ احادیث رسول اور عمل صحابہ سے سجدےمیں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ زمین پر رکھنا ہی ثابت ہے
توحید و رسالت اسلامی عقیدے کی بنیاد ہے اس عقیدے پر دل سے یقین رکھنا،زبان سے اقرار کرنا اور جوارح کے ساتھ اعمال کر کے اسلام کی بنیاد ہے-اس کے بعد ہی اعمال کی قبولیت ہو گی اگر پہاڑ پہاڑ جیسے اعمال اللہ کے ہاں بھیجے جائیں لیکن عقیدہ توحید درست نہیں ہو گا تو ان اعمال کا اللہ کے ہاں کوئی درجہ اور اہمیت نہیں ہوگی-توحید کا علم جس طرح سے سیکھنا بہت ضروری ہے اسی طرح اس پر کاربند رہنا بھی ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہے-اس لیے ابن قدامہ نے اس کو بڑی حکمت اور نہایت اچھے اسلوب سےبیان کیا ہے-جس میں توحید ربوبیت ،توحید الوہیت،توحید اسماء وصفات کے ساتھ ساتھ علم غیب اور قضا وقدر کے مسئلے انتہائی اچھے اندازسے بیان کیا ہے-اور انداز بیان میں سلاست پیدا کرنے کے لیے ہر بحث کو الگ الگ فصلوں میں تقسیم کر دیا ہے جس سے بات کو سمجھنا اور بھی آسان ہوجاتا ہے ۔
نماز کے ارکان کی ادائیگی اگر سنت کے مطابق ہو گی تو نماز قابل قبول ہو گی –نماز کےمسائل میں جس طرح سے فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کتنا محتاط پہلو ہے کہ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ اس میں کوئی کوتاہی باقی نہ رہ جائے-اسی طرح نماز کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص رکوع میں آکر ملتا ہے تو کیا اس کی رکعت شمار کی جائے گی یا اس کو وہ رکعت دوبارہ پڑھنی ہو گی؟زير نظر كتابچہ میں ابوعدنان محمد منیر قمر نے تجزیہ پیش کیا ہے کہ رکوع میں آکر ملنے والے کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں؟ انہوں نے رکعت ہونے یا نہ ہونے والے دونوں مؤقف کے دلائل کا حقیقی موازنہ پیش کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ ایسے شخص کو وہ رکعت دوبارہ ادا کرنا ہوگی کیونکہ جمہور سلف صالحین کا یہی مؤقف ہے-
حالات کے ساتھ ساتھ لوگوں نے دین میں مختلف قسم کی بدعات اور خرافات کو داخل کر دیا ہے جس کی وجہ سے ایک عام انسان کے لیے دین کی اصل شکل دیکھنا مشکل ہو گئی ہے-لوگوں کو دین کے فوائد حاصل کرنے کے لیے شارٹ کٹ طریقے بتائے جا رہے ہیں-اور انہی فتنوں میں سے ایک قضائے عمری بھی ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی قضا کیسے دی جائے؟اس کتاب میں قضائے عمری کے بارے میں بحث کی گئی ہے جس میں قضائے عمری کی شرعی حیثیت , مقاصد و احکام , قتل عمد اور قتل خطاء کے مابین فرق کو واضح کرتے ہوئے صحابہ کرام , تابعین اور دیگر محققین عظام جو قضائے عمری کے بجائے توبہ کو کافی سمجھتے هيں، کے دلائل و اقوال کو بالتفصیل بیان کیا گیاہے -اسی طرح گناہوں سے توبہ کرنے کے بارے میں بھی وضاحت ہے کہ کس طرح گناہ سے توبہ کرنی ہے اورتوبہ کرنےکے بعدجو آدمی پھر گنا ہ کرلیتا ہے کیا اس کی پہلی توبہ قبول ہوتی ہے یا نہیں ؟اس کے علاوہ توبہ کی شرائط کوبھی بیان کیا گیا ہے نیزجو افعال عمل کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں ان کے بیان کے ساتھ ساتھ نماز کی فضیلت و فرضیت ,ترک نماز پر وعید و حکم اور حقوق اللہ کی توبہ سے معافی کی بھی وضاحت موجود ہے -
اركان اسلام ميں سے نماز ایک بنیادی رکن ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے وفات کے وقت بھی نماز کی تاکیدفرمائی- لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ وہ نماز کو اس کی مکمل شروط کے ساتھ ادا کرے-زیر نظر کتاب میں مصنف نے نماز سے متعلقہ تمام دعاؤں کو کتاب وسنت کی روشنی میں جمع کردیا ہے-جن میں اذان وتکبیر اور سجدہ تلاوت وغیرہ کی دعائیں شامل ہیں-
اسلام میں نماز کی مسلمہ اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے بارہا صحابہ کرام کے سامنے نماز ادا کی تاکہ وہ اس کے ارکان وشروط کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں اور آپ کا ارشاد پاک بھی ہے کہ مجھ سے طریقہ نماز سیکھ لو لہذا اسوہ رسول کے مطابق نماز کا ادا کرنا انتہائی ضروری ہے-جیسا کہ نماز کے ہر جز پر مختلف علماء نے تفصیلی گفتگو کی ہے تاکہ وضاحت ہو سکے تو انہی موضوعات میں سے ایک موضوع رکوع سے کھڑے ہو کر پڑھی جانے والی مشہور دعا ربنا ولک الحمد کا مسئلہ ہے کہ اس کو جہری انداز سے پڑھا جائے یا آہستہ پڑھا جائے؟تو زیر نظر کتاب نماز میں رکوع کے بعد اٹھ کر ربنا ولک الحمد کو جہر پڑھنے سے متعلق ہے-مصنف کے نزدیک جہرا پڑھنا زیادہ بہترہے تو انہوں نے اسی اعتبار سے مختلف دلائل پیش کیے ہیں-شاہ صاحب نے اپنا مؤقف احادیث صحیحہ اور آثار سلف صالحین کی روشنی میں مدلل ومبرہن بیان کردیا ہے-
اس بات ميں تو شک کی قطعی کوئی گنجائش نہیں کہ ہر عمل کی قبولیت کے لیے نیت کی درستگی شرط ہے لیکن اختلاف اس بات میں ہے کہ نیت کا زبان سے ادا کرنا لازمی ہے یایہ دل کی کیفیت کانام ہے اس کتاب میں مصنف نے نماز اور روزہ کی نیت کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئےکی لغوی واصطلاحی تعریف کی وضاحت کی ہے-اور ساتھ ساتھ کبار آئمہ کی تصریحات، علماوفقہاء کے اقوال کا تذکرہ کرتے ہوئے نیت کا صحیح مفہوم واضح کیاہے
ہمارے ہاں فقہی جمود اور تعصب کی وجہ سے یہ رجحان بہت تقویت اختیار کر گیاہے کہ نماز میں اسوہ رسول کو مدنظر رکھنے کی بجائے اسے اپنے آباؤ اجداد کے طریقہ کے مطابق ہی ادا کرنے کوشش کی جاتی ہے- حالانکہ نماز کی قبولیت کے لیے طریقہ نبوی ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے-نماز کی دیگر جزئیات کی طرح اس مسئلے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے کی جگہ کون سی ہے-کچھ لوگوں کا خیال ہے ہاتھ زیر ناف باندھے جائیں اور کچھ لوگ ہاتھوں کو سینے پر باندھنے کے قائل ہیں-زیر نظر کتاب میں سید بدیع الدین شاہ راشدی نے سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق بالدلائل گفتگو کی ہے انہوں نے اس حوالے سے احادیث، آثار صحابہ اور اقوال تابعین کا تذکرہ کرتے ہوئے سینے پر ہاتھ نہ باندھنے والوں کے دلائل کا بھی رد پیش کیا ہے-
ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی ہر قسم کی عبادات اور معاملات میں اسوہ رسول کو ملحوظ خاطر رکھے- دین اسلام میں عبادات میں سے اہم ترین عبادت نماز ہے جس کے ترک سے ایک مسلمان اسلام سے خارج قرار پاتا ہے- رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو نماز کے مکمل ارکان وشرائط سے پوری طرح آگاہ فرما دیا تھا لہذا ضروری ہے کہ نماز کو اس کی مکمل شرائط کے ساتھ اسوہ رسول کے مطابق ادا کیا جائے- نماز کی ادائیگی میں جو فروعی اختلافات پائے جاتے ہیں ان میں سےایک مسئلہ ہاتھوں کو باندھنے کا ہے کہ قیام کی حالت میں ہاتھ سینے پر باندھے جائیں گے یا سینے سے نیچے یا زیر ناف؟اس کتاب میں مصنف نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھنے چاہیں؟ اس حوالے سے انہوں نے بہت سی احادیث،آثار صحابہ اور ائمہ کے اقوال کا تذکرہ کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے کااصل محل کیا ہے؟
نماز کے دیگر مسائل کی طرح ایک اختلافی مسئلہ نماز میں حالت قیام میں ہاتھ باندھنے کے مقام کا بھی ہے۔ ہمارے برصغیر میں اکثریت نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتی نظر آتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔ اس کتاب میں رسول اکرم ﷺ کی نماز میں حالت قیام میں ہاتھ باندھنے کے مقام کی وضاحت اور ہاتھ باندھنے کا حکم مستند احادیث کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے۔ طرفین کے دلائل اور ان پر کئی طرق سے بحث ہے۔ فاضل مصنف نے نفس مسئلہ پر ہی راست گفتگو کی ہے جو کہ اکثر یا تو احادیث و آثار پر مشتمل ہے ، یا مخالفین پر اتمام حجت کیلئے سلف صالحین کے زیر بحث مسئلہ سے متعلقہ اقوال پر۔ اپنے موضوع کے لحاظ سے مختصر مگر جامع کتاب ہے۔
نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے اور اس کی ادائیگی کے لیے طہارت اور پاکیزگی لازمی امر ہے-کیونکہ اس کے بغیر نماز قبول نہیں ہو گی اور یہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد عالیہ سے ثابت ہے-اور اسی طرح طہارت اور صفائی کو ایمان کا حصہ بتایا گیا ہے اس لیے شریعت نے نماز کی ادائیگی کے لیے بھی طہارت کو لازمی قرار دیا ہے-اس لیے مصنف نے اس کتاب میں اختصار کے ساتھ طہارت و نماز کے مسائل کو بیان کرتے ہوئے ہر بندے کے لحاظ سے تقسیم کو بھی واضح کیا ہے کہ عام انسان کے لیے طہارت حاصل کرنے اور عبادت کو بجا لانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو گا اور ایک بیمار اور لاغر انسان کے لیے طہارت اور نماز کے لیے کیا طریقہ کار ہو گا-مصنف نےان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئےغسل، وضو و تيمم كا طريقه اورنمازکی مسنون کیفیت جس ميں سجدہ سہووغيره کے احکام و مسائل شامل ہیں کے حوالے سے بالدلائل گفتگو کی ہے-
عبادات میں سے سب سے افضل عبادت نماز ہے اسی لیے اس کی ادائیگی میں مسنون طریقے کو اختیار کرنا بہت ہی زیادہ ضروری ہے اسی لیے علماء نے نماز کے موضوع پر بے شمار کتب لکھیں ہیں تاکہ اس اہم فرض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ رہ جائے-نماز کے اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا نماز پڑھتے وقت سر ڈھانپنا ضروری ہوتا ہے یا اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی-کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سر ڈھانپے بغیر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر سر نہ بھی ڈھانپا جائے تو اس میں سنت کی مخالفت نہیں ہوتی-اس لیے اس کتاب میں نماز کے متعلق تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے اوراس میں ٹوپی یا پگڑی سے سر کو ڈھانپنے اور نماز میں پگڑی کے فضائل و برکات کے بارے میں وضاحت موجود ہے جس کو احادیث نبویہ سے ثابت کیا گیا ہے تو اس طرح ننگے سر نماز , باطل راویات کے اثرات اور ننگے سر نماز کے دلائل کی استنادی حیثیت کو ثابت کیا گیا ہے -
دنیا میں مختلف ناموں اور کاموں کے اعتبار سے فرقے موجود ہیں-کچھ فرقے فکری ونظریاتی بنیادوں پر وجود میں آتے ہیں اور کچھ فرقے سیاسی بنیادوں پر وجود پکڑتے ہیں-فکری ونظریاتی فرقوں میں سے ایک باطل فرقہ قادیانیت ہے جس کی بنیاد ہی غلط ہے-اور وہ ان کی سب سے بڑی غلطی نبوت اور رسالت پر حملہ ہے-ان کی اسی غلط بنیاد کی وجہ سے حکومت پاکستان بالخصوص اور دوسرے ممالک میں ان کو غیر مسلم قرار دیا جاتا ہے-اس فرقے کو دبانے کے لیے علماء کو بہت محنتیں کرنی پڑیں اور قربانیاں بھی دینی پڑیں-اسی سلسلے میں ایک بہترین کوشش علامہ احسان الہی ظہیر شہید کی ہے جنہوں نے ابتدا میں اس باطل فرقے کی نقاب کشائی کرتے ہوئے خوب خبر لی-مصنف نے اس کتاب میں نبوت کے خصائل بیان کرتے ہوئے مرزا قادیانی کے افکار اور ان کے خلیفوں کی پشت پناہی کو عریاں کرتے ہوئے اس فرقے کے حاملین کی کرتوتوں کو بھی واضح کیا ہے جس میں ان کے اخلاقی کردار کے خراب ہونے کے ساتھ ساتھ دینی افکار کی خرابی کو بھی پیش کیا ہے-
جس طرح دیگر اعمال میں اللہ کےرسول ﷺ ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں اسی طرح نماز پڑھنے کی ہیئت اور کیفیت میں بھی اللہ کے رسول کو نمونہ سمجھنا چاہیے-نماز کی ادائیگی میں مرد و زن کے جس فرق کو بیان کیا جاتا ہے اس کا شریعت سے کوئی ثبوت نہیں ملتا یہی وجہ ہے ایک گروہ کے نزدیک مردو زن کی نماز میں کوئی فرق نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی فرق بیان نہیں فرمایا اور کچھ لوگ فرق کرتے ہیں اور اس چیزکی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی سوائے اپنی ذاتی توجیہات کے-تو اس کتاب میں مصنف نے اس حوالے سے پائے جانے والے احناف کے شبہات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے دلائل کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا جواب دیتے ہوئے کتاب وسنت کی روشنی میں صحیح مؤقف کی ترجمانی کی ہے-مثلا مرد اور عورت کے درمیان رفع الیدین کا مسئلہ،قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنے کا مسئلہ،سجدے کی کیفیت میں فرق اور تشہد میں بیٹھنے کے فرق کو کتاب وسنت کی روشنی میں حل کیا ہے-
سورہ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا ایک لازمی جز ہے جو کہ احادیث سے با صراحت ثابت ہے اور نماز میں سورہ فاتحہ کے نہ پڑھنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اس لیے علما نے اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر بہت کچھ لکھا ہے جس کی ایک مثال بدیع الدین راشدی کی زیر نظرکتاب فاتحہ خلف الامام ہے –نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں لوگوں میں مختلف گروہ پائے جاتے ہیں ان میں سے کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ جہری نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی اور پھر اس موقف کو تقویت دینے کے لیے اور اس کو ثابت کرنے کےلیے دلائل دیے جاتے ہیں-تو ان دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے سورہ فاتحہ کے بارے میں کیا موقف ہونا چاہیے مصنف نے فاتحہ خلف الامام کے نام سے کتاب تصنیف کر کے اس بات کو بڑے اچھے انداز واضح کیا ہے-اس کتاب میں مصنف نے فاتحہ خلف الامام کے بارے میں صحیح اور مرفوع احادیث کا ذکر کیا ہے اور ان راویوں کا ذکر بھی کیا ہے جن سے یہ احادیث مروی ہیں اور اس کے علاوہ ایسے آثار کو بیان کیا ہے جو صحابہ کرام سے منقول ہیں اور آخر میں دو اہم فتوے بیان کیے ہیں جوکہ امام کے سکتات میں مقتدیوں کا سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں ہیں-
دين اسلام میں اس بات کاتصور بھی نہیں کہ ایک شخص مسلمان ہونے کے باوجود نماز ادا نہ کرے- نماز کی اس اہمیت کے پیش نظر اس کے لوازمات کویقنینی بنانا انتہائی ضروری ہے- انہی لوازمات سے ایک امام كا بدعتی خرافات سے محفوظ ہوناہے- زيرنظر کتاب میں ملک کی نامور شخصیت حافظ زبیر علی زئی نے بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے- مصنف نے قرآن وسنت،اقوال صحابہ اورتبع تابعین کی روشنی میں ثابت کیاہے کہ ایک مسلمان کے لیے کسی طرح بھی روانہیں کہ وہ ایک بدعتی امام کے پیچھے نماز ادا کرے- مصنف نے مختلف موضوعات پر بڑی اچھی گفتگو کی ہے مثال کے طور پر بدعت کی تعریف،اس کی اقسام اور بدعت کے بارے میں آئمہ اربعہ کےساتھ ساتھ دیگر آئمہ کے اقوال اور بدعت کا حکم بیان کیا ہے-اور اسی طرح مختلف گروہوں میں مختلف ناموں سے جو بدعتیں رائج ہیں ان کی نشاندہی کی ہے-
نمازاركان اسلام میں سے دوسرا رکن اور دین اسلام کی بنیاد ہے- اس موضوع پر بہت سی کتب لکھی گئیں لیکن بدقسمتی سے اکثر کتب میں صحیح طریقہ نبوی کواجاگر کرنے کی بجائے اپنے اپنے مسلک کے اثبات کو زیادہ اہمیت دی گئی-اسی تناظر میں ایک کتاب مولانا مفتی جمیل نذیری صاحب نے تالیف کی جس میں ان کی پوری کوشش ہے کہ صحیح حدیث پر عمل کی دعوت کے بجائے اپنے فقہی مسلک کادفاع کیا جائے-لہذا وہ تمام مسائل جن میں نذیری صاحب نے ٹھوکر کھائی ہے کا مدلل جواب دینے کے لیے مولنارئیس ندوی صاحب نے قلم اٹھایا ہے-مصنف نے نذیری صاحب کے ان تمام مسائل کا کتاب وسنت کی روشنی میں مدلل جواب پیش کیا ہے جس میں انہوں نے قرآن وسنت كے بجائے اپنے فقہی مسلک کو ترجیح دی ہے-ان مسائل ميں رفع الیدین، نمازوں کے اوقات، ہاتھ باندھنے کے احکام اور مسئلہ رفع الیدین قابل ذکر ہیں-اس کے علاوہ نماز عیدین اور تراویح سے متعلق نذیری صاحب کے مؤقف کا رد کرتے ہوئے جمع صلوتین کے حوالے سے سلف صالحین کے صحیح مؤقف کی ترجمانی کی ہے-
انسان کی زندگی کا مقصد اللہ تعالی نے اپنی عبادت رکھا اور ہر وہ کام جس کو دین یا ثواب سمجھ کر کیا جائے وہ عبادت کے زمرے میں آتا ہے اس لیے ہر وہ معاملہ جس کو ثواب سمجھ کر کیا جائے وہ خالصتا اللہ تعالی کی رضا کے لیے اور اسی کے نام پر ہونا چاہیے اگر کوئی شخص کسی بھی ثواب والے کام کو اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا حاصل کرنے کے لیے سر انجام دے گا تو یہ اللہ کے ہاں ناقابل قبول ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ شر ک جیسے قبیح گناہ کا ارتکاب ہو جائے گا-اس لیے مصنف نے اس کتاب میں عبادت كا لغوي اور اصطلاحي مفهوم بيان كرنے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کا مقصد بھی واضح کیا ہے- اوراس کےساتھ ساتھ بہت ہی اہم مسائل پر روشنی ڈالی ہے جن میں سے مسئلہ شفاعت،شرک کی اقسام ،وسیلہ کی پہچان اور قبروں پر عمارت تعمیر کر نے کے بارے میں بیان ہے-سب سے اہم خوبی یہ ہےکہ ہرموضوع کو الگ الگ فصل کے تحت بیان کیا ہے۔