زیر تبصرہ کتاب دراصل شیخ محمد عوامہ کی تصنیف "اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الفقہاء" ، جس کا خلاصہ دیوبندی آرگن ماہنامہ بینات میں شائع ہوا ، کے جواب میں تحریر کی گئی ہے۔ شیخ عوامہ نے اپنی کتاب میں ائمہ فقہاء کےاختلافات کے حقیقی عوامل بیان کرنے کے بجائے درحقیقت محدثین کرام رحمہم اللہ کے اس عام تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ میں حفظ و ضبط کی کمی تھی اور وہ دوسرے ائمہ حدیث کی نسبت حدیث کا کم علم رکھتے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے ائمہ حدیث کے بارے میں اپنے روایتی عناد کا مظاہرہ بھی کیا ۔ ان کی انہی بے اصولیوں کا جائزہ اس کتاب میں لیا گیا ہے ۔ جب قرآن ایک، نبی ایک، قبلہ ایک، دین ایک ۔۔ پھر امت میں اتنے اختلافات کیوں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے متمنی ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ یقیناً بصیرت مہیا کرے گا۔ چونکہ یہ ایک دقیق علمی موضوع ہے۔ اس لئے عام حضرات کیلئے یہ کتاب تفہیم کے لحاظ سے کچھ مشکل ہو سکتی ہے۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہم اپنے قارئین سے درخواست کریں گے کہ وہ پھر بھی اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔
عقیدہ توحید ایمان کی بنیادی اساس ہے اس لیے اس کی کوتاہی ناقابل معافی جرم ہے-مصنف نے اس کتاب میں عقیدہ توحید کی اہمیت کے پیش نظر توحید کے معاملے میں پائی جانے والی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے عقیدہ توحید کی وضاحت کی ہے-عقیدے کی خرابیوں میں مذاہب باطلہ کا الہ کے بارے میں تصور اور پھر عقیدے کی خرابی کی چند ایک مثالیں بیان کی ہیں،توحید الوہیت،توحید ربوبیت اور توحید اسماء وصفات،مسئلہ شفاعت كا بيان،وسیلے کا معنی ومفہوم اور اس کا طریقہ کار اور لوگوں کے پائے جانے والے غلط عقائد کی نشاندہی،اور پھر آخر میں دعا کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ہر مسلمان کے لیے ثابت کیا کہ وہ ہر مشکل میں خود اللہ تعالی سے دعا کرے اور کسی غیر کے سامنے جھکنے کی بجائے اللہ کے سامنے ہی سجدہ ریز ہونا چاہیے-
حضور نبی کریم ﷺ نے جس قدر بدعات کی مذمت کی ہے ، بدقسمتی سے امت مسلمہ اسی شدومد کے ساتھ بدعات کے طوفان میں گھرتی چلی جارہی ہے-انہی میں سے ایک خطرناک بدعت آپ ﷺ کے یوم پیدائش پر عیدمیلاد النبی کا خصوصی اہتمام ہے، بہت سے نام نہاد روحانی پیشوا اپنے اپنے مفادات کی خاطر اسے ترویج دینے میں ہمہ تن مصروف ہیں-حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کس تاریخ کو ہوئی؟ اور آپ کی ولادت پر جشن کا اہتمام کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ زیر نظر کتاب میں مصنف نے اس طرح کے سوالوں کے تسلی بخش جواب دیتے ہوئے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور آئمہ کرام کا اس جشن کے حوالے سے مؤقف واضح کیا ہے- کتاب کے آخر میں جشن میلاد النبی منانے والوں کے تمام دلائل کا کتاب وسنت کی روشنی میں تفصیلی رد کیا گیا ہے -
اللہ تعالی نے حضور نبی کریم ﷺ پر اپنے دین کو مکمل کر دیا- آپ ﷺ کی وفات کے بعد جو شخص دین میں نیا کام کرے گا وہ بدعت کے زمرے میں آئے گا-دنیا کے مختلف ممالک میں حضور نبی کریم ﷺ کے یوم پیدائش پر ''جشن عید میلاد النبی'' کے نام سے بدعات وخرافات کا بازار گرم کیا جاتا ہے –اس جشن عید میلاد کی شرعی حیثیت کیاہے؟ یہ خطرناک بدعت اس امت کے اندر کہاں سے در آئی؟ اور اس کے در پردہ مقاصد کیا ہیں؟زیر نظر کتاب میں مصنف نے اس طرح کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئےاس بدعت کے ایجاد کرنے والوں کے مکروہ چہروں سے نقاب کشائی کی ہے-
اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے-پہلے حصہ میں وہ موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں جو قرآن و حدیث یا اجماع صحابہ کے خلاف ہیں جن کی تہذیب اجازت نہیں دیتی اور حصہ دوم میں وہ امور صحیہ اور مسلمہ درج کیے گئے ہیں جن پر بالخصوص اہل حدیث کا عمل ہے –مصنف نے اس کتاب میں جن باتوں پر خصوصی بحث کہ ہے اور اپنا موضوع بنایا ہے وہ رسول اللہ , صحابہ , تابعین کے زمانے کا طرز عمل ہے، اسلام میں فرقہ بندی , تقلید کے معنی , ابتداء و اسباب , تقلید کی تردید کتاب و سنت و تفاسیر ز اقوال صحابہ تابعین و تبع تابعین آ ئمہ اربعہ کے اقوال سے ہے- اس طرح نماز , روزہ , حج, زکوۃ , نکاح , رضاعت , طلاق و بیوع اور کھا نے پینے کے متعلق سب مسائل کا بیان ہے -جبکہ حصہ دوم میں امام ابو حنیفہ , شافعی , ملا علی قاری کے اقوال , کتب احادیث , آئمہ حدیث , کتب فقہ , اور دوسرے اہم موضوع بیان کیے ہیں-ہر بحث کو الگ الگ باب بنا کر اس کے بارے میں احناف کے فقہی مسائل کو بیا ن کر کے قرآن وسنت کی روشنی میں اور علمائے احناف کی آراء کی روشنی میں اس کی وضاحت کی گئی ہے-
فتاوٰی عالمگیری احناف کی مایہ ناز اور مستند فقہ کی کتاب ہے۔ جس کے بارے میں دعوٰی کیا جاتا ہے کہ اس کتاب کو مرتب کرنے والے پانچ سو سے زائد علماء تھے۔ اگرچہ اس دعوٰی کی تائید میں ان علماء کے نام اور حدود اربعہ آج تک پیش نہیں کیا جا سکا۔ لیکن پھر بھی جہاں اسلامی شریعت کے نفاذ کی بات ہو تو فتاوٰی عالمگیری کو تعزیرات اسلامیہ کے روپ میں نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔زیر تبصرہ کتاب میں اسی فتاوٰی عالمگیری سے کتاب و سنت کے خلاف اور شرمناک مسائل کو چن چن کر اکٹھا کیا گیا ہے تاکہ نفاذ فقہ حنفی کا مطالبہ کرنے والے احباب کو آئینہ دکھایا جائے شاید کہ وہ اس آئینہ میں نظر آنے والے مکروہ چہرہ کو دیکھ کر ڈر جائیں اور توبہ توبہ کر اٹھیں۔دل کی آنکھوں کو اجالا بخشتی یہ کتاب انشاء اللہ خشیت الٰہی رکھنے والوں کو صراط مستقیم کی طرف ایک قدم آگے بڑھنے میں ضرور مدد کرے گی۔
یہ کتاب علامہ بدیع الدین شا ہ راشدی کی تصنیف ہے -اس میں موصوف نے فقہ حنفی کے نام سے موجود مسائل پر گفتگو کی ہے اور ان کے بارے میں قرآن وسنت سے دلائل پیش کر یہ ثابت کیا ہے کہ جس فقہ کے لیے اتنا جتن کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے- مثلاً فقہ حنفی کے نام سے موسوم مسائل میں سے چند ایک یوں بھی ہیں کہ ساس سے نکاح کی اجازت , بیوی کو افیون کھلانا , متعہ کے متعلق , مشت زنی کے بارے , دبر میں وطی کرنا بڑاگنا ہ نہیں , بیٹی سے نکاح کی حلت , شراب میں گوندہے ہوئے آٹے کی روٹی , مسئلہ رفع الیدین ,رکعات تراویح کے بارے میں علماء احناف کا موقف اور دوسرے آئمہ کا موقف، گمراہ فرقوں کی بنیاد , عقیدہ اہلحدیث , غلام احمد قادیانی کے بارے میں, ان جیسے تمام مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے علامہ وحید الزمان پر لگائے گئے الزامات کی حقیقت کو واضح بھی کیا گیا ہے
قرآن خوانی کی شرعی حیثیت کے موضوع پر علامہ بدیع الدین راشدی صاحب کی ایک بہترین اور جامع تحریر ہے-یہ کتابچہ اصل میں انہوں نے کسی سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے جس میں انہوں نے مروجہ ایصال ثواب اور قرآنی خوانی کے ذریعے میت کے لیے ایصال ثواب کی شرعی حیثیت کو واضح کیا ہے-اس کتابچہ میں شاہ صاحب نے عقلی ونقلی دلائل سے اس چیز کو ثابت کیا ہے کہ کون سے ایسے امور ہیں جن کے کرنے سے مرنے کے بعد بھی انسان کے نامہ اعمال میں نیکیاں درج ہوتی رہتی ہیں اور کون سے ایسے خود ساختہ طریقے ہیں کہ جن کے کرنے سے میت کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے-مصنف نے اس چیز کو واضح کیا ہے کہ مروجہ قرآنی خوانی کا طریقہ اور ایصال ثواب کا طریقہ نہ تو رسول اللہ ﷺ کے دور میں تھا نہ کسی نے کیا اور نہ ہی صحابہ میں سے کسی نے کیا ہے اور نہ بعد میں تابعین سے اس کی کوئی گنجائش نکلتی ہے-اس لیے اگر اس کتاب کو معتدل مزاج کے ساتھ پڑھا جائے تو اصلاح کے لیے بہت سارے پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے-
اس کتاب میں قرآ ن و حدیث کے دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ تیجا ،ساتواں،دسواں،چہلم اور برسی وغیرہ بدعات مروجہ کا ثواب مردوں کو نہیں پہنچتا , لہذا اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بے شمار مسائل پر گفتگو کی گئی ہے مشروط اور غیر مشروط طریقہ کار , میت کے گھر کھا نا کھانے کی روایت , قبروں پر قرآن خوانی اور ایصال ثواب , قبروں کی زیارت اور آپّ کا معمول , آئمہ حدیث , مذاہب اربعہ , علماء اصول کے اقوال وغیر ہ چالیسویں کی بدعت , مزاروں پر تلاوت قرآن , قبروں پر اجتماع , قبروں پر نذر و ذبیحہ اور ختم قرآن پر بحث کی گئی ہے-نگاہ دوڑائیے تو درگاہیں اور آستانے انسانوں کے ہجوم سے اٹے ہوئے ہیں اور مسجدیں تنہا اور ویران ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے شرک میں مبتلا مسلمانوں کو عام فہم انداز میں آستانوں اور مزاروں پر ہونے والے شرکیہ امور سے متنبہ کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے پاکستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کر کے وہاں کی درگاہوں اور گدیوں پر ہونے والے شرمناک مناظر کی نشاندہی کی ہے اور کتاب و سنت کی روشنی میں ان کا خوب پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ کتاب اپنے اسلوب، دلائل اور مشاہدات کے اعتبار سے ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔
یہ کتاب تقلید کی حقیقت کے بارے میں لکھی گئی ہے وہ تقلید جس میں عرصہ دراز سے لوگ تقلید میں غوطے لگا رہے ہیں اور یہ ایک ایسے شخص کے علمي جواهر هي، جو خود پہلے تقلید کی حقیقت کو ثابت کرتا تھا اب وہ اہلحدیث ہوا ہے اور اس کی وجہ تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے جس کا ہر مسلمان کو پابند کیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی بات آئے تو اس کی تحقیق کر لینی چاہیے- دوسری اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تقلید کا رد قرآن و سنت کی روشنی میں کیا گیا ہے اس میں ابطالِ تقلید کے لیے اقوال صحابہ , آئمہ سلف کا مذہب , میر محمد کا غالیانہ استنباط , تقلید علمائے احناف کے نزدیک , ابطال تقلید کے لیے علمائے احناف کے اقوال , اتباع سنت اور تقلید میں فرق کرنے والی کتاب ہے-اس میں انہوں نے مختلف علماء کے باطل استدلالات کی وضاحت کرتے ہوئے احناف کے مختلف مسائل میں اختلافات کو بھی پیش کرتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں ان کو وضاحت کی ہے-
ہر چیز کا ایک حق ہوتا ہے مسجدکا حق یہ ہے کہ اس کو نمازوں کے ذریعے آباد کیا جائےاور اس میں داخل ہوکر سب سے پہلےدو رکعت نماز اداکی جائے-ايك مسلمان جب خدا کے گھر مسجد میں داخل ہوتا ہے اور بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھتا ہے اس کا نام شریعت کی زبان میں تحیۃ المسجد ہے- زیر نظر مختصر کتابچہ میں مصنف نے تحیۃ المسجد سے متعلق تمام مسائل سے آگاہی فراہم کی ہے- انہوں نے تحیۃ المسجد کا مفہوم اور اس کا شرعی حکم کتاب وسنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے تحیۃ المسجد اقامت کے درمیان پڑھنی چاہییں یا نہیں ؟اور سفر سے واپسی پر تحیۃ المسجد ادا کرنے کا حکم تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے-
اس کتاب میں فاضل مؤلف نے یہودیت اور شیعیت کا باہمی موازنہ کرتے ہوئے ثانی الذکر کو یہودیت کا چربہ اور اس کی ایک نقاب بتایا ہے۔ اور بطور ثبوت قرآن کریم کی آیات سے استدلال پیش کیا ہے۔ روایت شکنی کی یہ کوشش کچھ حلقوں کیلئے بار گراں ہے تو کچھ کیلئے یہ نعمت سے کم نہیں۔ رافضیت کے رد میں ایک منفرد طرز استدلال پر مشتمل لاجواب تحریر۔ -مصنف نے اس کتاب میں یہودیت اور شعییت میں مشترک سازشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہےکہ اسلام کو حقیقی نقصان جیسے غیر مسلموں نے پہنچایا ہے اس سے کہیں زیادہ شیعہ نے پہنچایا ہے-یہودی اپنے آپ کو اللہ کی پسندیدہ قوم تصور کرتے ہیں اسی طرح شیعہ بھی اپنے آپ کو ناصبی کہتے ہیں-جس طرح یہودی نسلی برتری کے قائل ہیں اسی طرح شیعہ بھی-مصنف نے یہ واضح کیا ہے کہ شیعہ اسلام کا بدترین دشمن کیسے ہے،یہودیت اور شیعیت کی مشترک چیزیں مثلا دین میں غلو اور مبالغہ آرائی،اپنے دینی راہنماؤں کو اللہ کے اختیارات سے متصف کرنا،التباس وکتمان حق،مسلمانوں سے شدید عدوات ودشمنی جیسے موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یہودیت اور شیعیت میں ان چیزوں میں اشتراک ہے-اس لیے یہودیت اور شیعیت ایک چیز ہی ہیں-
نماز ہر مسلمان پر فرض ہے اور طوعا وکرہا اس کی ادائیگی لازمی ہے اگر کوئی شخص اس کی ادائیگی میں سستی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اللہ کے وہ شخص مجرم ہے-اس لیے فرائض کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے کچھ نفلی عبادت بھی رکھی ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بندے کا شوق دیکھا جائے کہ وہ عبادت میں کتنا شوق رکھتا ہے-تاکہ وہ فرائض سے پہلے وہ چیزیں ادا کرے جو اس پر فرض نہیں جب وہ ان کو خوش دلی سے ادا کرے گا تو فرائض میں بھی دلچسپی پیدا ہو گی-اس لیے ان نوافل میں سے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں ہیں جن کے بارے میں لوگوں بہت جہالت پائی جاتی ہے حتی کہ کچھ لوگ اس کو ادا تو نہیں کرتے لیکن ادا کرنے والوں کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی تصور نہیں ہے-ديكھنے میں آیا ہے کہ دیگر فرض نمازوں کے بعد تو سنتوں کا اہتمام کرلیا جاتا ہے لیکن مغرب کی فرض نماز سے پہلے اکثر مساجد میں سنتیں ادا کرنے کا اہتمام نہیں ہوتا اور نہ ہی انہیں کوئی خاص اہمیت دی جاتی ہے-زیر نظر کتاب میں مصنف نے ترتیب وار احادیث رسول، آثار صحابہ وتابعین اور مذاہب اربعہ کے مؤقف کی روشنی میں واضح کیا ہے کہ یہ سنت عہد نبوی ﷺ میں رائج تھی اور اہل علم اس کے قائل وعامل تھے-
جنت اور جنہم دنیا میں کیے جانے والے اعمال کی جزا کا نام ہے-اپنے آپ کو اللہ کے حکموں کی پابندی کرنے والے اور اس کے احکامات کے مطابق اپنے زندگی بسر کرنے والوں کے لیے جزا کے طور پر جنت اور اس کی نافرمانی کرنے والوں کے لیےجزا کے طور پر جنہم مقرر کی گئی ہے-اس كتاب کےپہلے حصے میں اللہ تعالی کے مہمان خانے یعنی جنت کی سیر کا تذکرہ ہے جبکہ دوسرے حصے میں زمین پربنی جعلی اور خودساختہ بہشت کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا گیا ہے-تیسرے اور چوتھے حصے میں مصنف نے مزید دودرباروں پر ہونے والے مشاہداتی مناظر کا تفصیلی تذکرہ کیاہے-مثال کے طور پر ڈھول کی تھاپ پر اللہ کا ذکر،قبروں کا طواف،قبروں پر حج،بہشتی دروازے کی حقیقت اور لوگوں کا عقیدہ،درباروں اور مزاروں پر ہونے والے حیا سوز اور اخلاق سوز مناظر،ولیوں کی دھمالیں وغیرہ- اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات بخوبی عیاں ہوجائے گی کہ موجودہ پرفتن اور آندھیوں کے دور میں اس درباری جہنم سے اللہ کی مخلوق کو نکال کر آسمانی جنت میں داخل کرنے کی کوشش کرنا کس قدر ضروری ہے-
انڈیا کے ایک قصبے دیو بند میں قائم دار العلوم سے وابستگان او روہاں کے علما کے فکر وعقیدہ سے متعلق لوگ اپنے آپ کو دیو بندی کہلاتے ہیں ۔یہ فقہ میں حنفی اور عقیدہ میں ماتریدی ہیں۔تصوف کے سلاسل اربعہ کے بھی قائل ہیں اور اپنی نسبت ان کی طرف کرتے ہیں ۔زیر نظر کتاب میں اس گروہ کا تعارف کرایا گیا ہے کہ ان حضرات کے خیالات بھی بہت حد تک بریلوی حضرات سے ملتے ہیں۔برزگان دین اور علماء سے متعلق ان کے بھی وہ نظریات ہیں جو بریلوی کے ہیں مثلا ً دور دراز سے کسی کے پکارنے پر اس کی مدد کے لیے پہنچ جانا،محض اپنی توجہ ہی سے جہاز کو ڈوبنے سے بچالینا،پیش آمدہ واقعات کا علم ہو جانا وغیرہ۔عموماً دیوبندی حضرات انہیں کرامات سے تعبیر کرتے ہیں ،لیکن یہی بات تو بریلوی بھی کہتے ہیں ۔بہر حال اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان میں اور دیو بندیوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے ۔مصنف نے ہر بات کو با حوالہ بیان کیا ہے ،امید ہے بہ نظر انصاف اس کا مطالعہ کیا جائے گا اور حق کو قبول کرنے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔(ط۔ا)
مسلم معاشروں میں ہر قسم کا فسق وفجور اپنی بدترین حالت میں پھیلا ہوا ہے جبکہ حق بات کہنے والے اور کتاب وسنت سے تمسک اختیار کرنے والے بلحاظ تعداد انتہائی قلیل ہیں- امت مسلمہ میں بہت سے فرقے جنم لے چکے ہیں لیکن حضور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق ان میں سے فرقہ ناجیہ وہی ہے جس پر کتاب وسنت کی مہرتصدیق ثبت ہو-زیر نظر مختصر رسالہ اصل میں علامہ البانی ؒ کا ٹیلی فونک خطاب ہے جس کو بعد میں تحریر کی شکل دی گئی اس میں انہوں نے امت مسلمہ کو بیش قیمت پندو نصائح کی ہیں جو بہت ہی اہم ہیں-اس میں علامہ ناصر الدین البانی نے اہل اسلام کے لیے نجات کے واحد راستے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مسلم امہ کے زوال کے اسباب تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں-اس کے علاوہ موصوف نے امت مسلمہ کو لاحق ہونے والے امراض اور ان سے سبیل نجات کیا ہوسکتا ہے کی انتہائی علمی اور محققانہ انداز میں وضاحت کی ہے-کتاب کے آخر میں بیع عینہ اور اسلام کی درست تعبیر کے لیے مسلمانوں کے لیے فہم سلف یا فہم خلف ضروری ہے، کی بھی وضاحت کی گئی ہے-
یہ مجموعہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے تیار کیا ہے جو اصل میں ایک سیمینار کی روداد ہے جو کہ ہندوستان کے مشہور شہر احمد آباد میں نومبر1973میں طلاق ثلاثہ کے حوالے سے ہی منعقد کیا گیا تھا جس میں مختلف مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے شرکت کی اور اس حساس موضوع پر اپنے اپنے خیالات کا مقالہ جات کی روشنی میں اظہار کیا ہے-جس کو بعد میں کتابی شکل دے کر مزید اضافہ جات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے-اس میں طلاق ثلاثہ کے حوالے سے مفصل بحث کی گئی ہے اورطلاق ثلاثہ سے متعلق بعد میں علماء کی ایک متفقہ رائے کو بھی پیش کیا گیا ہے-ایک سوالنامہ بنا کر علماء کی خدمت میں پیش کیا گیا جس پر انہوں نے اپنے اپنے مقالے تصنیف کیے-زیر بحث چیزیں طلاق کا طریقہ،مسنون طلاق،طلاق ثلاثہ کا طریقہ،اور غیر شرعی طلاق ثلاثہ کا طریقہ،غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا واقع ہونایا نہ ہونا اور اس کے علاوہ طلاق سے متعلقہ بے شمار مسائل کو بیان کیا گیا ہے-
حضور نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے اللہ تعالی کی وحدانیت کا درس دیا لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ نے بھی پہلی قوموں کی روش اختیار کرتے ہوئے شرک کی مختلف صورتوں کو اپنا لیا- زیر نظر کتاب میں مصنف نے ''کیا اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور مشکل حل کرنے پر قادر ہے؟''سوال کی مختلف انداز میں دس شکلیں پیش کرتے ہوئے کتاب وسنت کی روشنی میں تسلی بخش جواب پیش کیاہے-جس میں انہوں نے اس چیز کو واضح کیا ہے کہ کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور پکار کو سن سکتا ہے؟اگر سن سکتا ہے تو اس کی کیفیت کیا ہو گی؟کیا وہ سب کی پکار کو ایک ہی لمحے میں سن سکتا ہے؟کیا اس کو دنیا میں پائی جانے والی تمام زبانوں کے علم کا ہونا ضروری ہے یا نہیں-مصنف نے انتہائی سادہ انداز میں امت مسلمہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اہل قبور سے مانگنا ،ان کو تصرفات دینا اور اپنے معاملات میں ان کو بااختیار سمجھنا یہ سب شرک کی اقسام میں ہی آتا ہے –اسی طرح احناف کی معتبر کتب سے پائے جانے والی عقیدے کی خرابیوں کو واضح کیا ہے-جیسے قبروں کو پکا بنانا،ان کو بوسہ دینااور کسی ولی یا پیر فقیر کی قبر کے واسطے سفر کرنا ،ولی کےواسطے سے دعا کرنا،انبیاء اور اولیاء کی قبروں کا طواف کرنا اور نذریں چڑھانا-
عورت کےلیے پردہ اسلامی شریعت کا ایک واضح حکم ہے اور اس کامقصد بھی بالکل واضح ہے اسلام نے انسانی فطر ت کےعین مطابق یہ فیصلہ کیاہے کہ عورت او رمرد کے تعلقات پاکیزگی وصفائی اور ذمہ داری کی بنیادوں پراستوار ہوں اور اس میں کہیں کوئی خلل نہ آنےپائے اسی بناء پر ان تمام اسباب ومحرکات پر مکمل قدغن لگائی ہے جوغلط کا بیش خیمہ ہیں انہی میں سے ایک چہرے کاپردہ بھی ہے کہ اسی سے فتنے جنم لیتے ہیں زیرنظر کتاب شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کے افادات پرمشتمل ہے جس میں یہ بتایاگیا ہے کہ نماز میں عورت کالباس کیسا ہونا چاہیے ضمناً اس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ نماز اور غیرنماز میں عورت کے پردے میں کیا فرق ہے انتہائی علمی اور لائق مطالعہ کتاب ہے
یہ کتاب بھی اصل میں ڈاکٹر صالح الفوزان کی ہے جس کو ایک انداز میں سعودی عرب کے دعوتی ادارے نے شائع کیا تھا جس کا نام عورتوں کے مخصوص مسائل رکھا گیا اور اسی کتاب کو دار لابلاغ نے تحفہ برائے خواتین کے نام سے شائع کیا ہے جس میں مختلف قسم کی اصلاحات ،خوبصورتی اور معیار کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی ہے- مصنف نے اس کتاب میں خواتین کے حوالے سے ان سے متعلقہ مسائل کی قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت کی ہے تاکہ عورت اپنے مسائل سے آگاہ ہو سکے-مثلا کہ ایام مخصوصہ کے مسائل،طہارت و پاکیزگی کے مسائل،پردے سے متعلقہ مسائل،نماز سے متعلق خواتین کے مخصوص مسائل،روزہ سے متعلق احکام،حج وعمرہ سے متعلق مسائل، ازدواجی زندگی سے متعلق مخصوص مسائل اور اسی طرح عورتوں کی عفت وپاک دامنی سے متعلق اہم بحثیں موجود ہیں-اس لیے ان مسائل کی قرآن وسنت میں جس انداز سے وضاحت کی گئی ہے اس وجہ سے یہ کتاب اپنی مثال آپ کی حیثیت رکھتی ہے-
مولانا امیر حمزہ نے اس کتاب میں تصوف کی تباہیوں کے ساتھ ساتھ صوفیانہ عقائد کو پیش کرتے ہوئے ان کے عقیدہ وحدۃ الوجود کو واضح کیا ہے-مصنف نے اپنی کتاب میں چار چیزوں کو موضوع سخن بنایا ہے-1-بلھے شاہ کے کلام کی حقیقت اور عقائد وافکار-2-نصرت فتح علی خان اور اس کی قوالیاں،3-فارسی قرآن اور مولانا روم،4-عقیدہ وحدۃ الوجود-مصنف نے قوالوں کی اللہ اور رسول کے معاملے میں مختلف گستاخیوں کو واضح کرتے ہوئے ان کے باطلانہ عقائد کی تردید کی ہے-اسی طرح قوالوں اور مختلف صوفیوں کے تباہ کن عقائد کو بھی واضح کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی(نعوذ باللہ)بازیگر ہے،اللہ تعالی(نعوذباللہ)سیاپے کرتا ہے،مصلے کو آگ لگا دو،اللہ تعالی آدمی اور چیتا بن کر آ گیا(نعوذ باللہ)،اللہ تعالی کا نام رام رکھ دینا،او ر کبھی اپنے آپ کو اللہ سمجھنا،مسجد ،مندر اور شراب خانے سب برابر ہیں،اللہ لیلی کی اداؤں میں ہے اور سوہنی کو اللہ مہینوال کی صورت میں نظر آتا ہے-اور اسی طرح قوالوں کی بکواسات کو پیش کر کے ان کے کلام کی حقیقت کو واضح کیا ہے-اسی طرح مولانا روم کا تعارف پیش کرتے ہوئے ان کے فارسی قرآن کی نشاندہی بھی کی ہے-اس طرح کے باطل عقائد کو اور گستاخانہ حرکتوں کو بیان کر کے قرآن وسنت سے صحیح عقیدے کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے ایک عام آدمی کے عقیدے کی اصلاح کے ساتھ ساتھ تصوفانہ اور صوفیانہ عقائد سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے –اس لیے اگر کھلے ذہن کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو یہ سراسر اصلاح پر مبنی اور زبردست انکشافات کا ڈھیر ہے– اور عقیدے کی اصلاح کی طرف ایک پیش رفت بھی ہے-
ایک مجلس کی تین طلاقوں کا مسئلہ ایک معرکۃ الآراء مسئلہ ہے –احناف کے نزدیک مجلس واحد میں تين مرتبه کہا گیا لفظ طلاق موثر سمجھا جاتا ہے جس کے بعد زوجین کے درمیان مستقل علیحدگی کرا دی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد ان کو اکٹھا ہونے کے لیے ایک حل دیا جاتا ہے جس کا نام حلالہ ہے-ایک شرعی چیز کو غیر شرعی چیز کے ذریعے حلال کرنے کا ایک غیر شرعی اور ناجائز طریقہ ہے جس کو اب احناف بھی تسلیم کرنے سے عاری ہیں اور ایسے مسائل کے لیے پھر ایسے لوگوں کی طرف رجو ع کیا جاتا ہے جو اس غیر شرعی امر کو حرام سمجھتے ہیں-مصنف نے اس کتاب میں طلاق کے حوالے سے تمام مسائل کو بالدلائل واضح کر دیا ہے جس پر کوئی عالم بھی قدغن نہیں لگا سکتا-جس میں رسول اللہﷺکے دور میں طلاق کی صورت،مجلس واحد میںتین طلاقوں کا حکم، بعد میں صحابہ کرام کا عمل اور حضرت عمر کے بارے میں بیان کیے جانے والے مختلف واقعات کی اصلیت کی نشاندہی اور مجلس واحد کی تین طلاقوں کے موثر ہونے کے دلائل کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں ان کا جواب تحریر کیا گیا ہے-تطلیق ثلاثہ کے بارے میں پائے جانے والے چار گروہوں کا تذکرہ،انکار اور تسلیم کرنے والے علماء کے دلائل کا تذکرہ،تطلیق ثلاثہ سے متعلق ایک سوال کی وضاحت،مسائل میں باہمی اختلاف کی شدت کی وجہ تقلید کو بھی بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے-
زوجین کے باہمی اختلاف کی وجہ سے آپس میں اکٹھے نہ رہنے کی صورت کے پیدا ہونے پر اسلام ان کو علیحدگی کے لیے بھی اصول وقانون دیتا ہے جس سے فریقین میں سے کسی پر زیادتی نہ ہو-مصنف نے اس کتاب میں طلاق کے حوالے سے مختلف پچیدہ مباحث کو انتہائی اچھے انداز سے بیان کرتے ہوئے طلاق کا شرعی حکم اور اس کی حیثیت کو بیان کرتے ہوئےطلاق دینے کا طریقہ اور شرعی طورپر کون سی طلاق واقع ہو گی اور کون سی نہیں ہو گی اس کو واضح کیا ہے-اس کی شاندار بحثوں میں سے یہ بھی ہے کہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں شرعی راہنمائی اور تین طلاقوں کا ایک واقع ہونا عین فطرت سلیمہ کے موافق ہے-اور حضرت عمر کے بارے میں پیدا کیے جانے والے شکوک وشبہات کا جائزہ لیا ہے-طلاق کی مختلف صورتیں،اور ان کی عدتوں کے بیان کے ساتھ ساتھ رجوع یا تجدید نکاح کا طریقہ واضح کیا ہے-اور تین طلاقوں کے وقوع کے جو حلالے کا غیر شرعی طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس کو فریقین کے دلائل کے ساتھ قرآن وسنت کی روشنی میں واضح کی گیا ہے-اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں مفتی سعودیہ عربیہ علامہ عبدالعزیز بن باز کے فتاوی کے ساتھ ساتھ محدث کامل سلطان محمود جلال پوری کے فتاوی کو بھی شامل کیا گيا ہے-
مسلمانوں کے مابین باہمی اختلافات کا ہونا ایک فطری امر ہے لیکن ان اختلافات کی بنیاد پر فرقہ واریت کی راہ ہموار کرنا قابل تحسین فعل نہیں ہے- لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اپنے مسلک کو حق پر ثابت کرنے کے لیے دوسرے مسالک پر دشنام طرازی اور گالی گلوچ کا بازار گرم کیا جاتاہے- زیر نظر رسالہ بھی غیر اہلحدیث حضرات کی جانب سے دی جانے والی گالیوں کے جواب میں تحریر کیا گیا ہے-جس میں مختلف بے بنیاد دلائل کے ساتھ اہل حدیث پر طعن اور دشنام طرازی کی ہے ان تمام غلط دلیلوں کا جواب دیا ہے اور فقہ حنفی کی ہی کتابوں سے احناف کے مسلک کو بیان کر سوچنے پر مجبور کیا ہے-مصنف نے گالی کا جواب گالی سے دینے کی بجائے انتہائی سنجیدگی اور متانت کےساتھ مقلدین حضرات کے شبہات کے ازالے کی کوشش کی ہے-
تقلیدی جکڑبندیوں کے جہاں اور بہت سےنقصانات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے معاشرہ جمود کا شکار ہوجاتا ہے اور اس سے پیش آمدہ نئے مسائل میں شرعی راہنمائی فراہم کرنے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے –زیر نظر کتاب''براءۃ اہل حدیث'' میں شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین الدین شاہ راشدی نےحدیث اور سنت میں فرق، اہل حدیث کے معنی ومفہوم کو بیان کرتے ہوئے اس چیز کو واضح کیا کہ چار مذاہب کیسے وجود میں آئے؟ اس طرح کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انتہائی سنجیدہ انداز میں تقلید شخصی کی خامیوں کا تذکرکیاہے –موصوف نے قرآن وحدیث، تاریخ، دیوبندی کتب اور اخباری حوالہ جات سے ثابت شدہ ایسے ٹھوس دلائل دئیے ہیں جو کسی بھی غیر متعصب شخص کو تقلید کے اندھیرے سے نکال کر کتاب وسنت کی روشنی میں لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں-