کفر کے معنیٰ ہیں انکار کرنا۔ دین کی ضروری باتوں کا انکار کرنا یا ان ضروری باتوں میں سے کسی ایک یا چند باتوں کا انکار کرنا کفر کہلاتا ہے اور جو شخص کفر کا مرتکب ہوتا ہے اس کو شریعتِ اسلامی میں کافر کہتے ہیں۔کفر زیادہ تر شریعت حقہ سے انکار یا دین سے انکار کے لئے استعمال ہوتا ہے اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا اس کے فرستادہ انبیاء سے یا ان کی لائی ہوئی شریعت سے انکار ہے۔جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا اس سے انکار کرنا کفر ہے اور کفر ایمان کی ضد ہے۔ کسی شخص کے عقائد و نظریات کی بنیاد پر اس کو کافر قرار دینا اسلامی اصطلاح میں تکفیر کہلاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ انسان اورکفر ‘‘ڈاکٹر حافظ مبشرحسین ﷾ کے کتابی سلسلہ اصلاح عقائد کی دسویں اور آخری کتاب ہے ۔اس کتاب کو انہوں نے چارابواب میں تقسیم کیا ہے اور ان میں یہ بتایا ہے کہ وہ کون سی صورتیں ہیں جن سے ایک بندۂ مومن کا ایمان ضائع ہوجاتاہے نیز کسی پر کفر کا فتویٰ لگانے سےپہلے وہ کون سے آداب وضوابط ہیں جن کا لحاظ رکھانا از بس ضروری ہے ۔نیز کتاب کے آخر میں ضمیمہ کےطور پر عقیدہ کی معروف کتاب ’’ شرح العقیدہ الطحاویۃ‘‘ کے ان مباحث کا اردو ترجمہ بھی شامل کردیاگیا ہے جو اس موضوع سےبراہ راست تعلق رکھتے ہیں۔(م۔ا)
دینِ اسلام ایک سیدھا اور مکمل دستورِ حیات ہے جس کو اختیار کرنے میں دنیا وآخرت کی کامرانیاں پنہاں ہیں ۔ یہ ایک ایسی روشن شاہراہ ہے جہاں رات دن کا کوئی فرق نہیں اور نہ ہی اس میں کہیں پیچ خم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو انسانیت کے لیے پسند فرمایا اوررسول پاکﷺ کی زندگی ہی میں اس کی تکمیل فرمادی۔عقائد،عبادات ، معاملات، اخلاقیات ، غرضیکہ جملہ شبہائے زندگی میں کتاب وسنت ہی دلیل ورہنما ہے ۔ہر میدان میں کتاب وسنت کی ہی پابندی ضروری ہے ۔صحابہ کرام نے کتاب وسنت کو جان سے لگائے رکھا ۔ا ن کے معاشرے میں کتاب وسنت کو قیادی حیثیت حاصل رہی اور وہ اسی شاہراہ پر گامزن رہ کر دنیا وآخرت کی کامرانیوں سے ہمکنار ہوئے ۔ لیکن جو ں جوں زمانہ گزرتا گیا لوگ کتاب وسنت سے دور ہوتے گئے اور بدعات وخرافات نے ہر شعبہ میں اپنے پیر جمانے شروع کردیئے اور اس وقت بدعات وخرافات اور علماء سوء نے پورے دین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔جید اہل علم نے بدعات اور اس کے نقصانات سے روشناس کروانے کے لیے اردو وعربی زبان میں متعدد چھوٹی بڑی کتب لکھیں ہیں جن کے مطالعہ سے اہل اسلام اپنے دامن کو بدعات سے خرافات سے بچا سکتے ہیں ۔ زیرنظر کتاب ’’اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات‘‘ڈاکٹرابوعدنان سہیل کی تصنیف ہے ۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں بدعت کے اضرار ومفاسد کوکتاب وسنت اورتاریخی حقائق ووقعات کی روشنی میں انتہائی علمی انداز میں اجاگر کیا ہے ۔یہ کتاب اسلام کےقدیم ترین دشمن یہود کی خطرناک سازشوں کو بے نقاب کرتی ہے جوپہلی صدی ہجری سے کبھی رافضیت وباطنیت کے روپ میں اور کبھی درویشوں اور تارک الدنیا فقیروں کا بہروپ دھار کر جاہل وسادہ لوح مسلمانوں کو شرک وبدعت میں مبتلا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔اس کتاب میں موجود تصوف اوراس کےنام نہاد اولیاء کےاصلی خدوخال کو واضح کرتی ہے جوبرسوں سے اسلام کالبادہ اوڑھ کر اس کی جڑ پر کلہاڑی چلانے میں لگے ہوئے ہیں۔نیز مصنف نےاس میں یہ ثاتب کیا ہے کہ دنیا دا رمشائخ اورگمراہ صوفیوں کےجوگیانہ افکار ونظریات نےغیرمسلموں کےاندر اسلام کی اشاعت میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ کتا ب کےناشر جناب ڈاکٹر محمد لقمان سلفی ﷾ کی اس کتاب پر نظر ثانی سے اس کتاب افادیت دوچند ہوگئی ہےاپنی افادیت کےلحاظ سے یہ کتاب اس لائق ہے کہ اسے ہند و پاک کے تمام مدارمیں داخل مطالعہ کیا جائےتاکہ طلبہ وطالبات اسلام دشمن عناصر کی ریشہ دوانیوں سےآگاہ ہوسکیں۔(م۔ا)
لواطت كا جرم سب جرائم سے بڑا، اور سب گناہوں سے سب سے زيادہ قبيح گناہ ہے، اور افعال ميں سے غلط ہے، اس كے مرتكب افراد كو اللہ تعالىٰ نے وہ سزا دى ہے جو كسى اور امت كو نہيں دى، اور يہ جرم فطرتى گراوٹ، اور بصيرت كے اندھے پن، اور عقلى كمزورى، قلت دين پر دلالت كرتا ہے، اور ذلت و پستى كى علامت، اور محرومى كا زينہ ہے، لواطت بدترین قسم کی فحاشی ہے والعیاذ باللہﷺ اس سے اللہ کی پناہ) اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ سے قوم لوط کو تباہ و برباد کر دیا تھا اور انہیں دنیا میں زبردست سزا دی اور وہ یہ کہ ان کے گھروں کو الٹ کر تہہ و بالا کر دیا اور اوپر سے ان پر پے در پے پتھر برسائے ۔ لواطت کی سزا کے بارے میں صحابہ کرام سے یہ وارد ہے کہ جو شخص یہ کام كرے یا جس کے ساتھ کیا جائے دونوں کو قتل کر دیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے‘ یا رجم کر دیا جائے یا کسی بلند پہاڑ کی چوٹی سے گرا دیا جائے اور پھر پتھروں سے مار دیا جائے کیونکہ اس میں بے حد اخلاقی خرابی بھی ہے اور یہ فطرت کے خلاف بھی ہے‘ یہ کام کرنے والے شرعی شادی سے روگردانی کرتے ہیں اور مفعول بہ عورت سے بھی کم تر حالت اختیار کر لیتا ہے۔ زیر تبصرہ کتابب ’’غلیظ ترین گناہ خوفناک انجام‘‘ محترم جناب کی کاوش ہے جس میں انہوں نے لواطت جیسے غلیظ ترین گناہ کا آغاز اور شریعت اسلامیہ میں اس کے حکم کو واضح کرنے کے ساتھ ہمارے معاشرے میں پھیلے ہوئے اس قبیح گناہ اوراس کی معاشرتی تبارکاریوں سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے انسانی صحت پر اثرات کو سپرد قلم کیا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے میں اس برائی کاخاتمہ فرمائے اور اس کتابچہ کو نوجوانوں کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ (آمین) (م۔ا)
ایمان کے چھ بنیادی اجزاء میں ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ الہامی کتابوں پر ایمان لایا جائے کہ وہ سب منزل من اللہ سچی کتابیں تھیں اور قرآن مجید ان میں آخری الہامی کتاب ہے ۔آج آسمان دنیا کے نیچے اگر کسی کتاب کو کتاب ِالٰہی ہونے کا شرف حاصل ہے تووہ صرف قرآن مجید ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن سےپہلے بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کئی کتابیں نازل فرمائیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ سب کی سب انسانوں کی غفلت، گمراہی اور شرارت کاشکار ہوکر بہت جلد کلام ِالٰہی کے اعزاز سے محروم ہوگئیں۔ اب دنیا میں صرف قرآن ہی ایسی کتاب ہے جو اپنی اصلی حیثیت میں آج بھی محفوظ ہے ۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ قرآن اس دنیا میں سب سے بڑی انقلابی کتاب ہے اس کتاب نے ایک جہان بدل ڈالا۔ اس نےاپنے زمانے کی ایک انتہائی پسماندہ قوم کو وقت کی سب سے بڑی ترقی یافتہ اور مہذب ترین قوم میں تبدیل کردیا اور انسانی زندگی کےلیے ایک ایک گوشے میں نہایت گہرے اثرات مرتب کیے۔قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو تاقیامت انسانیت کے لیے ذریعہ ہدایت ہے ۔ اسی پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں سربلند ی او ر آخرت میں نجات کا حصول ممکن ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ انسان اور قرآن ‘‘ڈاکٹر حافظ مبشرحسین ﷾ کی سلسلہ اصلاح عقائد میں سےتیسری کتاب ہے۔اس کتاب میں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ قرآن مجید کےساتھ ہمارا بنیادی طور پر تین طرح کا تعلق ہے ۔ ایک تویہ کہ ہم قرآن مجید پرصدق دل سے ایمان لائیں ۔ دوسرا یہ کہ ہم پورے آداب کےساتھ اس کی تلاوت کو روزانہ کامعمول بنائیں اور تیسرا یہ کہ ہم ممکنہ استطاعت کی حدتک اس کے احکام پر عمل کریں۔نیز اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ جذباتی وابستگی ہی کافی نہیں جب تک کہ اس کے ساتھ ایمان وعمل کی وابستگی نہ پیدا کی جائے ۔اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے بے عمل قرآن سے دور مسلمانوں کو قرآن کےقریب لانے کا ذریعہ بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
نبی کریم ﷺ کےساتھ ہرایک مسلمان کا بنیادی طور پر تین طرح کا تعلق ہوناچاہیے ایک تویہ کہ اہم آپ ﷺ پر صدق دل سے ایمان لائیں، دوسرا یہ کہ اہم آپﷺ سے دنیا جہاں کی ہر چیز سے بڑھ کر محبت کریں اور تیسرا یہ کہ ہم ہر ممکنہ حدتک آپ کی اطاعت واتباع کریں کیونکہ دین اسلام میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه (سورہ نساء:80) جس نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔ اور سورۂ محمد میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ(سورہ محمد:33) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو (اور اطاعت سے انحراف کر کے ) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔اطاعت رسول ﷺ کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ رسو ل اکرم ﷺ کی اطاعت صرف آپﷺ کی زندگی تک محدود نہیں بلکہ آپﷺ کی وفات کے بعد بھی قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے فرض قرار دی گئی ہے ۔ اطاعت رسول ﷺ کے بارے میں صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث بڑی اہم ہے ۔ کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’میر ی امت کے سب لوگ جنت میں جائیں گے سوائے اس شخص کے جس نے انکار کیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا انکار کس نے کیا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا او رجس نے میر ی نافرمانی کی اس نے انکار کیا ۔(صحیح بخاری :7280) گویا اطاعتِ رسول ﷺ اورایمان لازم وملزوم ہیں اطاعت ہے تو ایمان بھی ہے اطاعت نہیں تو ایمان بھی نہیں ۔ اطاعت ِ رسول ﷺ کے بارے میں قرآنی آیات واحادیث شریفہ کے مطالعہ کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ دین میں اتباع سنت کی حیثیت کسی فروعی مسئلہ کی سی نہیں بلکہ بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے ۔اتباع سنت کی دعوت کو چند عبادات کے مسائل تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ یہ دعوت ساری زندگی پر محیط ہونی چاہیے۔جس طر ح عبادات(نماز ،روزہ، حج وغیرہ) میں اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق وکردار ،کاروبار، حقوق العباد اور دیگر معاملات میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔گویا اپنی پوری زندگی میں خواہ انفرادی ہویا اجتماعی ،مسجد کے اندر ہویا مسجدکے باہر، بیوی بچوں کےساتھ ہو یا دوست احباب کے ساتھ ،ہر وقت ،ہرجگہ سنت کی پیروی مطلوب ہے ۔محض عبادات کے چند مسائل پرتوجہ دینا اور زندگی کے باقی معاملات میں سنت کی پیروی کو نظر انداز کردینا کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں کہلا سکتا۔ زیر تبصرہ کتا ب’’انسان اور رہبرانسانیت ‘‘ میں ڈاکٹر حافظ مبشر حسین ﷾ نے ایک مسلمان کا جو رسول اللہ ﷺ کےساتھ تین طرح کا بنیادی تعلق ہونا چاہیے اسے قرآن مجیداور مستند صحیح احادیث کی روشنی میں تین ابواب میں واضح کرتے ہوئے سنت ورسالت سےمتعلقہ تمام اہم مسائل پر قرآن وحدیث کی روشنی میں بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں پائی جانے والی مختلف غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئےنہایت عام فہم اسلوب میں نبی کریم ﷺ سے محبت اور آپ کی سنت پر عمل کاجذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی ہے ۔اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی تمام مساعی جمیلہ کوقبول فرمائے ۔(م۔ا)
دینِ اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے، اﷲ پاک نے اپنے آخری رسول حضرت محمدﷺکو ہدایت یعنی قرآن پاک اور دین حق یعنی اسلام دے کر بھیجا ہے تاکہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرکین جن میں یہود ونصاریٰ بھی شامل ہیں جتنا بھی نہ چاہیں کہ دین اسلام غالب نہ ہو ۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (التوبہ، الفتح، الصف) ترجمہ: اس (اللہ) نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اور اگرچہ مشرک ناپسند کریں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’غلبۂ اسلام کی بشارتیں‘‘ علامہ یوسف القرضاوی کی عربی تصنیف ہے ’’المبشرات بانتصار الاسلام ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں دلائل کی روشنی میں واضح کیا ہے کہ لوگوں کا یہ خیال کہ اب ہم محض برے دن دیکھنے کے لیے زندہ رہیں گے بالکل غلط ہے۔ کیونکہ قرآن اوراحادیث میں ایسی بشارتیں موجود ہیں جن سے اس خیال کی تردید ہوتی ہے۔ علامہ قرضاوی ہے نے ایسی تمام روایات اور احادیث پر گفتگو کی ہے اور ان کے صحیح مفہوم ومنشا کو واضح کیا ہے۔
"تقدیر" کائنات میں ہونے والے تغیرات کے متعلق اللہ کی طرف سے لگائے گئے اندزاے کا نام ہے، یہ تغیرات پہلے سے اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتے ہیں، اور حکمتِ الہی کے عین مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ تقدیر پر ایمان لانے کیلئے چار امور ہیں:اول: اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کے بارے میں اجمالی اور تفصیلی ہر لحاظ سے ازل سے ابد تک علم رکھتا ہے، اور رکھے گا، چاہے اس علم کا تعلق اللہ تعالیٰ کے اپنے افعال کے ساتھ ہو یا اپنے بندوں کے اعمال کے ساتھ۔دوم: اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر کو لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ سوم: اس بات پر ایمان ہو کہ ساری کائنات کے امور مشیئتِ الٰہی کے بغیر نہیں چل سکتے، چاہے یہ افعال اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتے ہوں یا مخلوقات سے، چہارم: اس بات پر ایمان لانا کہ تمام کائنات اپنی ذات، صفات، اور نقل وحرکت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ انسان اور قسمت ‘‘ڈاکٹر حافظ مبشرحسین ﷾ کی سلسلہ اصلاح عقائد میں سےنویں کتاب ہے۔مسئلہ تقدیر کیا ہے ؟ ہے تقدیر پر ایمان لانے کامطلب کیا ہے ؟ کیا انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے؟ کیاانسان اپنی تقدیر بدل سکتا ہے؟ کیاانسان اپنی تقدیر کے بارے پیشگی معلومات حاصل کرسکتا ہے؟ تقدیر پر ایمان کے بعدعملی جدوجہد کی ضروت کیوں باقی رہتی ہے ؟ اس کتاب میں ان تمام سوالات کا قرآن وسنت اور عقلی دلائل کی روشنی میں ایک عمدہ تجزیاتی مطالعہ پیش کیاگیا ہے اورایمان بالتقدیر کی ضرورت واہمیت پر صحیح اسلامی نقطۂ نظر واضح کیاگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کا و ش کو قبول فرمائے اور اسے لوگوں کی اصلاح کاذریعہ بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
صحابہ نام ہے ان نفوس قدسیہ کا جنہوں نے محبوب ومصدوق رسول ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا اور اس خیر القرون کی تجلیات ِایمانی کو اپنے ایمان وعمل میں پوری طرح سمونے کی کوشش کی ۔ صحابی کا مطلب ہے دوست یاساتھی شرعی اصطلاح میں صحابی سے مراد رسول اکرم ﷺکا وہ ساتھی ہے جو آ پ پر ایمان لایا،آپ ﷺ کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا ۔ صحابی کالفظ رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ کے خاص ہے لہذاب یہ لفظ کوئی دوسراا شخص اپنے ساتھیوں کےلیے استعمال نہیں کرسکتا۔ انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام وصحابیات سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔ صحابہ کرام کے ایمان ووفا کا انداز اللہ کو اس قدر پسند آیا کہ اسے بعد میں آنے والے ہر ایمان لانے والے کے لیے کسوٹی قرار دے دیا۔یو ں تو حیطہ اسلام میں آنے کے بعد صحابہ کرام کی زندگی کاہر گوشہ تاب ناک ہے لیکن بعض پہلو اس قدر درخشاں ،منفرد اور ایمان افروز ہیں کہ ان کو پڑہنے اور سننے والا دنیا کا کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ صحابہ کرام وصحابیات ؓن کےایمان افروز تذکرے سوانح حیا ت کے حوالے سے ائمہ محدثین او راہل علم کئی کتب تصنیف کی ہیں عربی زبان میں الاصابہ اور اسد الغابہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔اور اسی طرح اردو زبان میں کئی مو جو د کتب موحود ہیں ۔ زير تبصره کتاب ’’مثالی شخصیات ؍دی آئیڈیلز‘‘ محترم جناب عادل سہیل ظفر کی تصنیف ہے اس مختصر کتاب میں انہوں صحابہ کرام کے مقام ومرتبہ ، فضائل ومناقب کو بیان کرنے کے بعد نبی کریم ﷺکے 13 جلیل القدر صحابہ کرام اور ایک صحابیہ ام ربیع ؓ عنہاکا آسان ا نداز میں مختصراً تعارف پیش کیا ہے۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عوام الناس کے لیے صحابہ کرام کی عظمت وفضلیت کوسمجھنے کا ذریعہ بنائے اور ہمیں صحابہ کرام کو اپنا آئیڈیل بنانے کی توفیق دے ۔ (آمین۔زیر تبصرہ اس کتاب کا انٹرنیٹ ایڈیشن ہے (م۔ا)
اسلام میں ایمان وعقیدہ کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔ اعمالِ صالحہ کی قبولیت ، عقیدہ کی صحت اور درستی ہی پر منحصر ہے۔ عقیدے کی بنیاد توحید باری تعالیٰ ہے اور اسی دعوت توحید کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انبیاء کو مبعوث کیا حتی کہ ختم المرسلین محمدﷺ کی بعثت ہوئی۔ عقیدہ کا سمجھنا دین میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ انبیاء کرام سب سے پہلے آکر عقیدے کی اصلاح کیا کرتے تھے۔ عقیدے کی اصلاح کے ساتھ ہی عمل کی اصلاح ہوتی ہے اور عمل کی اصلاح سے اخلاق و معاملات کی اصلاح ہوتی ہے۔ عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ او رآپ کے صحابہ کرا م نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا و ہاں علماء اسلام نےبھی دن رات اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا۔ زیرتبصرہ کتاب ’’عقیدہ ومنہج‘‘ پروفیسر حافظ محمدسعید ﷾ (امیر جماعۃ الدعوہ پاکستان) کے عقیدہ کے موضوع پر متعدد دوروس وخطابات کی کتابی صورت ہے۔ محترم حافظ صاحب کے لیکچرز کو جناب قاضی کاشف نیاز صاحب نے بڑی محنت سے تحریری اسلوب میں منتقل کیا ہے ۔اس کتاب میں انبیاء کے اسلوب دعوت کو معیار بنا کر عقیدہ ومنہج کو پوری وضاحت اور تفصیل کےساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ فلسفیانہ بحثوں اور علم کلام کے گورکھ دھندوں کی بجائے دین کو سمجھنے کے لیے توحید کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ نیز اس کتاب میں باطل فرقوں معتزلہ اور جہمیوں وغیرہ کے نظریات کے رد کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے جدید سیاسی نظاموں میں جس طرح اسلامی نظریات کو شامل کیا گیا ہے ان کو بھی بڑے شرح وبسط کےسا تھ ذکر کیا گیا ہے۔ یہ مجموعہ مضامین دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔ (م۔ا)
ایمانیات میں سے ایک اہم عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کےفرشتوں کو تسلیم کیا جائے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ایک وہ لطیف اور نورانی مخلوق ہیں اور عام انسان انہیں نہیں دیکھ سکتے۔۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے مقبول بندوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ بعض کم فہم لوگ فرشتوں کے خارجی وجود کا انکار کرتے ہیں اور ان قرآنی آیات کی تلاوت جن میں فرشتوں کا ذکر ہے مجرد قوتوں کے طور پر کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایسے تصورات گمراہی پر مبنی ہیں۔ ملائکہ احکامِ الٰہی کی تعمیل کرنے والی معزز مخلوق ہے۔ ان کے وجود اور ان سے متعلقہ تفصیلات کو ماننا ایمان بالملائکہ کہلاتا ہے۔ فرشتوں کی کوئی خاص صورت نہیں، صورت اور بدن ان کے حق میں ایسا ہے کہ جیسے انسانوں کیلئے ان کا لباس، اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں اختیار کر لیں۔ ہاں قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے بازو ہیں، اس پر ہمیں ایمان رکھنا چاہیےکیونکہ فرشتوں پر ایمان رکھنا ایمان کا حصہ ہے یعنی ارکان ایمان میں سے ہے ۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ انسان اور فرشتے‘‘ ڈاکٹر حافظ مبشرحسین ﷾ کی سلسلہ اصلاح عقائد میں سے چوتھی کتاب ہے ۔اس میں انہوں نے یہ بتایا ہےکہ انسانوں اور فرشتوں کےتعلق کی نوعیت کیا ہے ؟ فرشتوں پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے ؟ مشہور فرشتے کون سے ہیں ؟ فرشتوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ فرشتے انسانوں کےحق میں دعائیں کب کرتے ہیں ؟ کن بدبختوں پر فرشتے بددعائیں کرتے ہیں ؟فرشتےکن انسانوں کی مدد کے لیے اترتے ہیں ؟او ر وہ کب اور کیسے مدد کرتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ اس کتاب میں منکرین ملائکہ کےشبہات واعتراضات کا بھی کافی شافی جواب دیا گیا ہے ۔اللہ اس کتاب کو عامۃ الناس کےعقائد کی اصلاح ذریعہ بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
قرآن مجید جو انسان کے لیے ایک مکمل دستور حیات ہے ۔اس میں بار بار توجہ دلائی گئی ہے کہ شیطان مردود سےبچ کر رہنا ۔ یہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ارشاد باری تعالی ’’ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ‘‘( یقیناًشیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن ہی سمجھو)لیکن شیطان انسان کو کہیں خواہشِ نفس کو ثواب کہہ کر ادھر لگا دیتا ہے ۔کبھی زیادہ اجر کالالچ دے کر او ر اللہ او راس کے رسول ﷺ کے احکامات کے منافی خود ساختہ نیکیوں میں لگا دیتاہے اور اکثر کو آخرت کی جوابدہی سے بے نیاز کر کے دنیا کی رونق میں مدہوش کردیتا ہے۔شیطان سے انسان کی دشمنی آدم کی تخلیق کےوقت سے چلی آرہی ہے اللہ کریم نے شیطان کوقیامت تک کے لیے زندگی دے کر انسانوں کے دل میں وسوسہ ڈالنے کی قوت دی ہے اس عطا شدہ قوت کے بل بوتے پر شیطان نے اللہ تعالی کوچیلنج کردیا کہ وہ آدم کے بیٹوں کو اللہ کا باغی ونافرمان بناکر جہنم کا ایدھن بنادے گا ۔لیکن اللہ کریم نے شیطان کو جواب دیا کہ تو لاکھ کوشش کر کے دیکھ لینا حو میرے مخلص بندے ہوں گے وہ تیری پیروی نہیں کریں گے او رتیرے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ابلیس کے وار سے محفوظ رہنے کےلیے علمائے اسلام اور صلحائے ملت نے کئی کتب تالیف کیں او ردعوت وتبلیغ او روعظ وارشاد کےذریعے بھی راہنمائی فرمائی۔جیسے مکاید الشیطان از امام ابن ابی الدنیا، تلبیس ابلیس از امام ابن جوزی،اغاثۃ اللہفان من مصاید الشیطان از امام ابن قیم الجوزیہ اور اسی طرح اردو زبان میں مولانا مبشر حسین لاہوری اور حافظ عمران ایوب لاہوری کی کتب بھی قابل ذکر اور لائق مطالعہ ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب’’انسان اور شیطان‘‘ مصنف کتب ڈاکٹر حافظ مبشر حسین ﷾ کی تصنیف ہے اس کتاب میں انہوں شیطان کیا ہے ؟ اسے کیوں پیدا کیا گیا ہے؟...اس کاانسان کےساتھ کیا تعلق ہے ؟.... شیطان انسان کو کیسے گمراہ کرتا ہے ؟... شیطان کےمکروفریب کی نوعیت کیا ہے ؟... اس سےبچاو کی تدابیر کیاہیں جیسے سوالات کا جواب قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیا ہے ۔علاوہ ازیں فلسفۂ خیر وشر ، دنیا میں ہونے والی برائیوں میں شیطان کا کردار اور خود انسان کےارادہ واختیار کی نوعیت وغیرہ پر بھی فاضل مصنف نے سیر حاصل بحث کی ہے۔نیزبہت سےگمراہانہ افکار کارد بھی اس کتاب کی زینت ہے ۔(م۔ا)
زندگی کے آخری لمحات میں کی جانے والی نصیحت، دئیے جانے والے احکامات وصیت کہلاتے ہیں۔ نصیحت زبانی یا تحریری صورت دونوں طرح کی جا سکتی ہے۔ قانونی وصیت یا جائیداد وغیرہ کے معاملات سے متعلق وصیت لکھ کر کی جاتی ہے۔ احادیث نبوی کے مطابق کوئی شخص کسی خاص شخص کے حق میں صرف اپنے ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہے۔ کتب تاریخ وسیرت میں صحابہ کرام اور تاریخ اسلام کی نامور شخصیات کی نصیحتیں موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتا ب ’’شاہرا عافیت‘‘ محمد بشیر جمعہ کی کاوش ہے جس میں انہوں نے تاریخ اسلام کی نامور شخصیات کے چند تاریخی وصیت اور نصیحت ناموں کو اس کتاب میں جمع کیا ہے۔ یہ وصیت اور نصیحت نامے علم اور تجربے سے بھر پور اور جامع ہیں۔ (م۔ا)
ہر قمری مہینہ کی گیارہویں رات کو شیخ عبد القادر جیلانی کے نام پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے وہ " گیارہویں شریف " کے نام سے مشہور ہے ۔ خاص کر ربیع الآخر کی گیارہویں شب کو اسے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔گیارہویں ہندوستانی بدعت ہے، جو شیعہ کی تقلید میں اپنائی گئی ہے، کیونکہ وہ بھی اپنے ائمہ کے لیے نیاز برائے ایصال ثواب دیتے ہیں۔ خوب یاد رہے کہ سلف صالحین اور ائمہ اہل سنت سے یہ طریقہ ایصال ثواب ہرگز ہرگز ثابت نہیں۔ اگر اس کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی اور یہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا باعث ہوتا تو وہ اس کا اہتمام کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان : ’’من عمل عملا لیس علیہ امرنا فہو رد ‘‘ کے مطابق یہ گیارھویں منانے کا عمل رسول اللہ ﷺکے بعد شروع ہوا ہےلہذایہ بدعت ہے اور گمراہی والا کام ہے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’حقیقت رسم گیارہویں‘‘پروفیسر نور محمد چودہری کی کاوش ہے جس میں انہوں نے قرآن احادیث کےدلائل کی روشنی میں ثابت کیا ہے رسم گیارہویں کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ محض ایک بدعت ہے جسے نام نہاد ملاؤں نے اپنے پیٹ بھرنے کےلیے نے مسلمانوں میں رواج دیا ہے ۔سادہ لوح مسلمان اس کابدعت کثرت سےشکار ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو اس بدعت کے خاتمے ذریعہ بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
اس روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء و رسل کی مقدس اصطلاح سے یاد رکرتے ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور پیغمبرِ اول ایک ہی شخصیت حضرت آدم کی صورت میں فریضۂ ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کردیتاہے۔ درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانے اور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اور انسان کے لیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں۔ آج انسانیت کےپاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نے اسوۂ حسنہ قراردیا اور اس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہﷺ قیامت تک آنے والےانسانوں کے لیے’’اسوۂحسنہ‘‘ ہیں۔ حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پور سامان رکھتی ہے۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں۔ اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کے لیے معرض وجود میں آئے۔ اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سیرتِ محسن اعظم ﷺ‘‘ سوال و جواب کی صورت میں سیرت النبی ﷺ پر 1001 سوالات وجوابات مشتمل بڑی مفید کتاب ہے۔ یہ کتاب جماعۃ الدعوہ باکستان کے مرکزی راہنما محترم جناب قاری محمد یعقوب شیخ نے مرتب کی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اخلاق عالیہ کے پیکر مجسم حضرت محمدﷺ کی ذات وحیات کے احوال و واقعات کو سوال وجواب کے انداز میں ترتیب دیا ہے۔ (م۔ا)
اسلام کی قدیم تایخ ہمارے سامنے مسلمان عورت کابہترین اور اصلی نمونہ پیش کرتی ہے اور آج جب کہ زمانہ بدل رہا ہے مغربی تہذیب و تمدن او رطرزِ معاشرت ہمارے گھروں میں سرایت کررہا ہے دور حاضر میں مغربی تہذیب وثقافت سے متاثر مسلمان خواتین او رلڑکیاں اسلام کی ممتاز اور برگزید خواتین کوچھوڑ کر راہِ راست سے ہٹی ہوئی خواتین کواپنے لیے آئیڈل سمجھ رہی ہیں اسلام کے ہردور میں اگرچہ عورتوں نےمختلف حیثیتوں سے امتیاز حاصل کیا ہے لیکن ازواجِ مطہرات طیباتؓ اور اکابر صحابیاتؓ ان تمام حیثیات کی جامع ہیں اور ہمار ی عورتوں کے لیے انہی کے دینی ،اخلاقی معاشرتی اور علمی کارنامے اسوۂ حسنہ بن سکتے ہیں اور موجودہ دور کےتمام معاشرتی او رتمدنی خطرات سے ان کو محفوظ رکھ سکتےہیں۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ حیات صحابیات داستانیں عبرتیں اور نصیحتیں‘‘ ایک عربی عالم دین الاستاذ ابو انس ماجد البنکانی کی عربی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔اس کتا ب کا اردو ترجمہ وطن عزیز کےنامور ادیب جناب مولانامحمود احمد غضنفر نے کیا ہے مترجم موصوف صحابہ کرام ، صحابیات کریمات، تابعین عظام اور تابعین عظیمات پر تراجم وتالیفات کوعلم و ادبی حلقوں میں بہت زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں جلیل القدر خواتین کی سوانح حیات کا تذکرہ اس انداز میں کیا ہے کہ یوں محسوس ہوتاہےکہ ان میں سے ہرایک میں اخلاص، تقویٰ، ثابت قدمی، خوشی اخلاقی ، اللہ ورسول کی محبت واطاعت اورایثار وقربانی جیسے اوصاف بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔نیز امہات المومین ، نبی کریم ﷺ کی بیٹیاں، نواسی اور رضاعی بہن ، نبی کریم ﷺ کی پھوپھیاں اور مدرسہ نبوت سے فیض پانے والی جلیل القدر صحابیات کاتذکرہ بھی اس کتاب کی زنیت ہے۔ بلاشبہ آج ہماری خواتین ان عالی مقام صحابیات کریمات کی پاکیزہ زندگیوں سےاستفادہ کر کے اپنے معاشرے کودرست سمت پر استوار کرسکتی ہیں ۔ان شاء اللہ (م۔ا)
اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے۔آپ خاتم النبیین اور سلسلہ نبوت کی بلند مقام عمارت کی سب سے آخری اینٹ ہیں ،جن کی آمد سے سلسلہ نبوی کی عمارت مکمل ہو گئی ہے۔آپ کے بعد کوئی برحق نبی اور رسول نہیں آسکتا ہے ۔لیکن آپ نے فرمایا کہ میرے بعد متعدد جھوٹے اور کذاب آئیں گے جو اپنے آپ کو نبی کہلوائیں گے۔آپ کے بعد آنے والے متعدد کذابوں میں سے ایک جھوٹا اور کذاب مرزا غلام احمد قادیانی ہے ،جس نے نبوت کا دعوی کیا اور شریعت کی روشنی میں کذاب اور مردود ٹھہرا۔لیکن اللہ رب العزت نے اس کےجھوٹ وفریب کوبے نقاب کرد یا اور وہ دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں ذلیل وخوار ہو کر رہ گیا۔ زیر نظر کتاب " دجال قادیان " مرزا غلام احمد قادیانی کی حقیقت پر لکھی گئی ہے۔جو قادیانی فتنے کے خلاف لکھنے والے معروف قلمکار محترم محمد طاہر رزاق کی کاوش ہے۔مولف موصوف کی قادیانیوں کے حوالے سے اس سے پہلے بھی کئی کتب سائٹ پر اپلوڈ کی جا چکی ہیں ۔ان سے پہلے محترم محمد متین خالد بھی اس فتنے کے خلاف ایک موثر آواز اٹھا چکے ہیں۔مولف نے اس میں قادیانیوں کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشافات،ناقابل یقین حقائق اور چشم کشا واقعات سے پردہ اٹھایا گیا ہے،اور قادیانی کلچر سے متعلق ہوش ربا مشاہدات وتجربات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی ان کی اس محنت کو قبول ومنظور فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اس فتنے سے محفوظ فرمائے۔آمین(راسخ)
اس وقت برصغیر ہند و پاک سے لاتعداد رسائل و جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ یہ جرائد ادبی، نیم ادبی، سیاسی، مذہبی،سماجی اور دیگر موضوعات پرمشتمل ہیں۔ رسائل و جرائد کی اشاعت کی ایک طویل تاریخ ہے اور موضوعات کے اعتبار سے ان کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ اہمیت وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے کیونکہ آگے چل کر یہی رسائل و جرائد تاریخ نویسی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض رسائل و جرائد کی اہمیت تو کتابوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور ان کا انتظار قارئین کو بے چین کیے رکھتا ہے۔ ان رسائل میں جرائد میں بکھرے ہوئے قیمتی نادر مواد کے استفادے کے لیے رسائل کے اشاریہ جات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اشاریہ سے مراد کتاب کے آخر میں یا رسالہ کی مکمل جلد کے آخر میں شامل وہ فہرست ہے جو کتاب رسالہ یا دیگر علمی شے میں موجود معلوماتی اجزا ء، الفاظ، نام، کی نشاندہی اور ان تک رسائی کے لیے حوالہ مقام شناخت یا مقام ذکر پر مشتمل ہوتی ہے۔ اشاریہ سازی کی ابتداء مذہبی کتابوں کے لیے مرتب اشاریوں سے ہوئی۔ یہ اشاریے جو سولہویں، سترہویں صدیوں میں مرتب ہوئے الفاظ، نام یا عبارت کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتے تھے، اشاریہ متلاشی معلومات کے لیے درکار معلومات کی نشاندہی کا وسیلہ ہے کتابوں کے برعکس رسائل کی اشاریہ سازی نسبتا زیادہ قدیم نہیں ۔ یوں تو سائنسی علو م میں تحقیق کی روز افزوں رفتار کی بدولت رسائل کی اشاعت کی تعدا د اٹھارہویں صدی سے ہی بڑھنے لگی تھی لیکن انیسویں صدی کے آخری دور تک ان میں شائع مضامین کی تعداد اتنی بڑھ چکی تھی کہ باحثین کو اشاریہ کی مدد کے بغیر واقفیت حاصل کرنا مشکل ہو گیا جس کے نتیجہ میں رسائل کی اشاریہ سازی کی داغ بیل پڑی۔ آج اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے کتابوں کے اشاریے سے کہیں زیادہ رسائل کے اشاریوں کا مقام ہے۔ رسائل کے اشاریہ سازی میں معاون قاعدے اور ضابطے مرتب ہوئے ہیں، جواشاریہ سازی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وضع کیے گئے۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی اردو زبان میں اشاریہ سازی کے کام میں بڑی ترقی ہوئی ہے پچھلے چند برسوں میں معارف برہان فکر و نظر، ماہنامہ محدث ،لاہور ،الحق، ترجمان القرآن اور اور کئی دیگر علمی وتحقیقی رسائل کے اشاریہ جات تیار ہوئے ہیں حتی ٰ کے بعض یونیورسٹیوں میں حصول ڈگری کے لیے رسائل کے اشاریہ سازی پر مقالات بھی لکھے گئے ہیں۔ انفرادی طور پر کئی احباب نے مختلف رسائل کے اشاریہ جات کتابی صورت میں مرتب کرکے شائع کیے ہیں لیکن ان میں ہمارے قریبی دوست محترم شاہد حنیف صاحب کا کام سب سے نمایاں اور معیاری ہے موصوف تقریبا پچاس سے زائد علمی وتحقیقی رسائل کے موضوعاتی اشاریہ جات تیار کر چکے ہیں ان میں سے کئی کتابی صورت میں صورت میں طبع بھی ہوچکے ہیں موصوف ان دنوں اپنی ملازمت کی مصروفیت کے ساتھ ساتھ ادارہ محدث، لاہور کے تعاون سے یونیورسٹیوں اور دینی اداروں سے شائع ہونے والے پچاس اہم علمی و تحقیقی رسائل کا ایک مشترکہ اشاریہ انسائیکلوپیڈپا کی صورت میں مرتب کرنے میں مصروف ہیں اشاریہ سازی کی دنیا میں یہ ایک منفرد کام ہے اشاریہ جات کا یہ انسائیکلوپیڈیا مکمل ہوکر کئی مجلدات پر مشتمل ہوگا (ان شاء اللہ) اللہ تعالیٰ محترم شاہد حنیف صاحب کی ان کاوشو ں کو قبول فرمائے اور انہیں یہ کام جلد پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق دے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ زندگی کا خزانہ ‘‘ تقسیم ہند کے بعدنصف صدی سے زائد عرصہ سے جماعت اسلامی، ہند کی طرف سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’ زندگی نو ‘‘ نئی دہلی کا موضوعاتی اشاریہ ہے یہ اشاریہ 1948ء سے 2015ء تک کے شماروں میں شائع شدہ مضامین کااحاطہ کرتا ہے۔ اس اشاریہ کو ارض ہند کی معروف شخصیت محترم جناب محمد رضی الاسلام ندوی﷾ نے بڑی محنت سے موضوعات ، مضمون نگاران، مترجمین، تبصرہ شدہ کتب ورسائل کے اشاریہ جات کے لحاظ مرتب کیا ہے اور ماہنامہ زندگی کے 67 سال کے شائع شدہ شماروں کی جلد، شمارہ، ماہ وسال (ہجری وعیسوی) کے لحاظ فہرست بھی تیار کر کے شروع میں لگادی ہے۔ تحقیقی وعلمی کام کرنے والے سکالرز اور باذوق قارئین اس اشاریہ کی مددسے ماہنامہ زندگی کے 67 سالوں میں شائع ہونے والے مضامین سے مطلوبہ مواد آسانی سے تلاش کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرتب کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ (آمین) (م۔ا)
اس دنیا میں انسانوں کے مختلف طبقات میں چھوٹے سے لیکر بڑے تک ،بچے سے لیکر بوڑھے تک،ان پڑھ جاہل سے لیکر ایک ماہر عالم اور بڑے سے بڑے فلاسفر تک،ہر شخص کی جد وجہد اور محنت وکوشش میں اگر غور سے کام لیا جائے تو ثابت ہو گا کہ اگرچہ محنت اور کوشش کی راہیں مختلف ہیں مگر آخری مقصد سب کا قدرے مشترک ایک ہی ہے ،اور وہ ہے "امن وسکون کی زندگی"اور نبی کریم اسی امن وسلامتی کا علم بردارمذہب لے کر آئے۔ اسلام ایک امن وسلامتی والا مذہب ہے ،جو نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں کے ساتھ بھی نرمی کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس عظیم دین کا حسن دیکھئے کہ اسلام ’’سلامتی‘‘ اور ایمان ’’امن‘‘ سے عبارت ہے اور اس کا نام ہی ہمیں امن و سلامتی اور احترام انسانیت کا درس دینے کیلئے واضح اشارہ ہے۔نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ ، صبر و برداشت، عفو و درگزر اور رواداری سے عبارت ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" فضائل سید المرسلین فی اقوال شفیع المذنبین" محترم مولانا فضل الرحمن ہزاروی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے سیرت نبوی ﷺ پر متعدد موضوعات کے تحت تفصیلی گفتگو کی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
آج سے چودہ صدیاں قبل جب لوگ ظلمت وکفر اور شرک میں پھنسے ہوئے تھے۔بیت اللہ میں تین سوساٹھ بتوں کو پوجا جاتا تھا۔ قتل وغارت ، عصمت فروشی، شراب نوشی، قماربازی اور چاروں طرف بدامنی کا دوردورہ تھا۔تومولائے کریم کی رحمت کاملہ جوش میں آئی اوراس بگھڑے ہوئےعرب معاشرے کی اصلاح کےلیے خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمائے ۔آپ کی بعثت نبوت کے شروع میں ہی ایک مختصر سی جماعت آپﷺ پر ایمان لائی۔ جوآہستہ آہستہ بڑھ کر ایک عظیم طاقت اور حزب اللہ ،خدائی لشکر کی صورت اختیار کر گئی۔ اس جماعت نے آپﷺ کے مشن کی تکمیل کی خاطر تن من دھن کی بازی لگادی ۔چنانچہ رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی مدد اور سرفروش جماعت کی معیت سے جزیرۃ العرب کی کایا پلٹ کررکھ دی ۔اس جماعت کو اصحاب النبیﷺ کےنام سے پکارا جاتا ہے ۔ان کے بعد میں آنے والی ساری امت مجموعی طور پر تقویٰ اور اتباع کے مراتب عالیہ طے کرنے کے باوجود بھی ان اصحاب رسول ؐ کے مرتبے کو ہر گز نہیں پہنچ سکتی ۔ صحابہ کرام کی جماعت انبیاء ورسل کے بعد سب مخلوق سے افضل ترین جماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ نبوت سے صحابہ کے فضائل ومناقب کو بیان کیا۔کئی اہل علم نے بھی صحابہ کرام کے فضائل اور دفاع کے سلسلے میں کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’گلشن رسالت ﷺکے تیس پھول‘‘ حافظ ثناء اللہ خاں اور حافظ سعید الرحمٰن کی مشترکہ کاوش ہے ۔جس میں انہوں نے براہ راست کئی عربی کتب سے استفادہ کرکے گلشن رسالت مآبﷺ کے30 جلیل القدر عظیم صحابہ کرام کے حالات واقعات اور ان کےتذکرہ کو دلآویز انداز میں جمع کیا ہے ۔اور صحابہ کرام ﷺ سے متعلق صرف وہی باتیں لانے کی کوشش کی گئی ہے جوصحیح اورمستند احادیث سے ثابت ومعروف ہوں ۔(م۔ا)
لفظ رحمت قرآن مجید میں کئی ایک معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ عمومی رحمت الٰہی سےدنیا میں ہرمومن وکافر ، فرماں بردار نافرمان مستفید ہور ہے ہیں جبکہ رحمت خاص سے روزِ قیامت صرف مومن ہی مستفید ہوں گے۔ اللہ کی وسیع رحمت دنیا میں ہر نیکو کار اور نافرمان کو پہنچتی ہے جبکہ روزِ قیامت یہ صرف متقین کے لیے خاص ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’رحمتِ الٰہی سے محروم لوگ‘‘ محترم جنا ب مولانا محمد عظیم حاصلپوری﷾ (مصنف کتب کثیرہ) کی کاوش ہے۔ انہوں اس کتاب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں رحمتِ الٰہی کا معنی ومفہوم، رحمت الٰہی کے اسباب کو بیان کرنے بعد ان اعمال کا ذکر کیا ہے کہ جن کاموں کا ارتکاب کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے اور لوگوں ایسے اعمال کرنے سے بچائے کہ جو کام انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی کا سبب بنتے ہیں۔ (م۔ا)
حقیقی مومن سچی طلب ، محبت، عبودیت ، توکل، خوف وامید،خالص توجہ او رہمہ وقت حاجت مندی کی کیفیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے پھر وہ اللہ کے رسول کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ دریں صورت کہ اس کی ظاہر ی وباطنی حرکات وسکنات شریعت محمدی کے مطابق ہوں ۔ یہی وہ شریعت ہے جو اللہ تعالیٰ کی پسند اور مرضی کی تفصیل کواپنے اندر سموئے ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کے علاوہ کوئی ضابطہ حیات قبول نہیں کرے گا۔ ہر وہ عمل جو اس طریقۂزندگی سے متصادم ہو وہ توشۂ آخرت بننے کی بجائے نفس پرستی کا مظہر ہوگا۔ جب ہرپہلو سے سعادت مندی شریعت محمدیہ پر موقوف ہے تو اپنی خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے تمام لمحات اس کی معرفت اورطلب کے لیے وقف کردے۔ زیر تبصرہ کتا ب’’بستان الواعظین وریاض ا لسامعین‘‘ چھٹی صدی ہجری کےمعروف امام ابن الجوزی کی تصنیف ہے جو کہ واعظ و ارشاد ،نصیحت آموز واقعات وحکایات ،بعض قرآنی آیات کی تشریح،معاملات ، عبادات ودیگر متفرق موضوعات پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب خطبا واور واعظین کےلیے بیش قیمت نادر تحفہ ہے ۔مولانا سعید احمد چنیوٹی﷾ نے اس کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے اسے اردو دان طبقہ کےلیےاردوقالب میں ڈھالا ہے۔ اور پروفیسر حافظ محمد اصغر﷾ نے اس کی تخریج کی ذمہ داری انجام دی ہے جس اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔اللہ تعالیٰ مصنف ، مترجم وناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
مولانا محمد اسحاق بھٹی ﷾ کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں آپ برصغیر پا ک وہند کے اہل علم طبقہ میں او رخصوصا جماعت اہل میں ایک معروف شخصیت ہیں آپ صحافی ،مقرر، دانش ور وادیب ،یاسات حاضرہ سے پوری طرح باخبر اور وسیع المطالعہ شخصیت ہیں عہد حاضر کے ممتاز اہل قلم میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔ تاریخ وسیر و سوانح ان کا پسندیدہ موضوع ہے او ر ان کا یہ بڑا کارنامہ ہے کے انہوں نے برصغیر کے جلیل القدر علمائے اہل حدیث کے حالاتِ زندگی او ر ان کےعلمی وادبی کارناموں کو کتابوں میں محفوظ کردیا ہے مولانا محمداسحاق بھٹی ﷾ تاریخ وسیر کے ساتھ ساتھ مسائل فقہ میں بھی نظر رکھتے ہیں مولانا صاحب نے تقریبا 30 سے زائدکتب تصنیف کیں ہیں جن میں سے 26 کتابیں سیر واسوانح سے تعلق رکھتی ہیں مولانا تصنیف وتالیف کےساتھ ساتھ 15 سال ہفت روزہ الاعصتام کے ایڈیٹر بھی رہے الاعتصام میں ان کےاداریے،شذرات،مضامین ومقالات ان کے انداز ِفکر او روسیع معلومات کے آئینہ دار ہیں الاعتصام نے علمی وادبی دنیا میں جو مقام حاصل کیا ہے اس کی ایک وجہ محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی ﷾ کی انتھک مساعی اور کوششیں ہیں ۔برصغیر پاک وہند کے ا ہل حد یث علما ء نے ہر میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں جن کا بھٹی صاحب نے اپنی کتب میں تذکرہ کیا ہے۔ تدوین قرآ ن سےلےکر اس کے اعراب وتشکیل،تجویدوقراء ات تراجم وتفسیر،اعجاز القرآن،علوم القرآن اور دیگر بیسیوں عنوانات پر ہر دور میں علمائے امت نے ضخیم کتابیں تالیف کی ہیں کررہے اور کرتے رہیں گے ۔ان شاءاللہ زیر تبصرہ کتاب ’’ چمنستان حدیث‘‘ مؤرخ اہل حدیث مولانا اسحاق بھٹی کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنی دیگر کتابوں کی طرح برصغیر کے اہل حدیث علمائے ذی وقار کے حالات کی نقاب کشائی کی ہے ۔یہ وہ بوریا نشیں اور درویشانِ خدامست ہیں جنہوں نےزندگی کے ہرموڑ پر اپنے آپ کو قرآن وحدیث کی خدمت کے لیے وقف کیے رکھا۔اس کتاب میں بھٹی صاحب نے ایک سو علمائے کرام کے سوانح حیات درج کیے ہیں ۔ جن میں پندرہ حضرات کا تعلق تلمذ سید نذیر حسین محدث دہلوی سے ہے اور 33 ان کا حضرات کا تذکرہ ہے جو حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی کے شاگردوں کےشاگرد ہیں۔ او رباون وہ حضرات ہیں حو اللہ کے حیات ہیں او رمختلف مقامات پر تصنیفی وتدریسی خدمات سرانجام ردے رہے ہیں ۔لیکن ان کا سلسلہ بھی بالآخر حضرت میاں صاحب کے شاگردوں کی لڑی سے جاملتا ہے۔اللہ تعالیٰ مولانا اسحاق بھٹی کی مرقد پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے اور ان کی خدمات کوقبول فرماکر انہیں جنت الفرودس میں اعلی ٰ مقام عطافرمائے۔ (آمین) (م۔ا)
اسلام نے تصویر کو حرام قرار دیاہے، اور اس کی حرمت کے حوالے سے قطعی نصوص صحیح بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں بکثرت موجود ہیں۔ ان نصوص میں محض تصویر کی حرمت کا ذکر نہیں بلکہ تصویر کشی سے پیدا ہونے والے ایک ایک ناسور کا ذکر ہے جس میں وضاحت سے بیان کیا گیاہے کہ اگر امت اس گھناؤنے جرم میں مبتلا ہوگئی یہ ایک کینسر ہے جو معاشرے کی رگ رگ میں پھیل جائے گا اور بالآخر لا علاج ہوجائے گا ۔ شرعی نصوص میں تصویر کشی کی جو قباحتیں بیان ہوئی ہیں ان میں چند ایک ملاحظہ ہوں ۔تصویر بنانے والوں کو سب سے سخت ترین عذاب دیا جائے گا، تصویر بنانے والےاللہ تعالیٰ کی صفت خلق میں اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ تصاویر بنانے والوں کو روز قیامت حکم ہوگا کہ جو بنایا ہے اس میں روح ڈالو لیکن وہ ایسا نہ کرسکیں گے۔ رسول اللہ ﷺ تصاویر سے سخت نفرت کرتے تھے اس گھر میں داخل نہ ہوتے جہاں تصاویر پائی جاتیں۔ امام بخاری ومسلم اور اصحاب سنن نے سیدہ عائشہ ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے ایک تکیہ خریدا جس میں تصاویر تھیں ، جب نبی کریم ﷺ نے انہیں دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہوگئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے ، سیدہ عائشہ فرماتی ہیں میں نے ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار محسوس کرلئے ۔ تو کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ’’ میں اللہ اور اس کے رسول کے حضور توبہ کرتی ہوں میں نے کیا گناہ کیاہے ؟ آپ نے فرمایا : اس تکیہ کا کیا ماجرا ہے ؟ میں کہنے لگی :’’ میں نے اسے آپ کیلئے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور ٹیک لگائیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا’’ یہ تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے گا، اور انہیں کہا جائے گا : اسے زندہ کرو جو تم نے پیدا کیا اور بنایا ہے، اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں ہوتی ہیں ‘‘۔(بخاری ومسلم )تصویروں کو مٹانے اور توڑنے کیلئے رسول اللہ ﷺ نےقاصد روانہ کئے ‘‘ سیدنا علی نے ابی ھیاج الاسدی سے کہا کیا میں تمہیں اس مشن پر روانہ نہ کروں جس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے روانہ کیا تھا ۔ کہ کسی تصویر کو نہ چھوڑنا کہ اسے مٹادینا اور کسی قبر کو جو زمین سے بلند ہو اسے زمین کے برابر کردینا ۔‘‘ ( صحیح مسلم )انسانی وجود کے رونگٹے کھڑے کردینے والی وعید پر مشتمل ان نصوص کے باوجود جب انسان عجیب وغریب تأویلات کے ذریعے تصویر کو جائز قرار دے اور معاشرے میں اس کے رواج کا باعث بنےتو یہ کتنی ہی لا پرواہی کی بات ہے ۔اسلام شخصیت پرستی اور بت پرستی سے منع کرتا ہے،جو شرک کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ شرک کی ابتداء اسی امر سے ہوئی کہ لوگوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر پہلے تو اپنے نیک اور بزرگ لوگوں کی تصویریں بنائیں،پھر انہیں مجسمے کی شکل دی اور پھر ان کی پوجا پاٹ شروع کر دی۔مغرب کی بے دین حیوانی تہذیب میں بت سازی ،تصویر سازی اور فوٹو گرافی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، اور بد قسمتی سے مسلمان سیاست دانوں کی سیاست بھی مصورین اور فوٹو گرافروں کے گھیرے اور نرغے میں آ چکی ہے۔نبی کریم ﷺ کی اسلامی تحریک اورسیاست نہ صرف تصویر سے خالی تھی بلکہ تصویروں اور مجسموں کو مٹانا آپ ﷺ کے لائحہ عمل میں شامل تھا۔اگر دعوت وجہاد اور سیاست وحکومت میں تصویروں کی کوئی اہمیت ہوتی تو حرمین میں نبی کریم ﷺ کی تصویروں کے بینر لٹکا دئے جاتے،اور سیرت کی کتب میں اس کا تذکرہ موجود ہوتا۔ فوٹو گرافی تو عہد نبویﷺ اور عہد صحابہ میں موجود نہیں تھی، البتہ تصویر سازی کے ماہرین ہر جگہ دستیاب تھے۔اگر تصویر بنانا جائز ہوتا تو صحابہ کرام ضرور نبی کریم ﷺکی تصاویر بنا کر اپنے پاس محفوظ کر لیتے۔ دورِ حاضر میں مسلمانوں میں بے دینی، فحاشی وعریانی پھیلانے کی جس قدر کوششیں ہور ہی ہیں شاید ہی اس سے پہلے ہوئی ہوں۔ بدعات اور خلاف شرع رسومات سے مسلمانوں کے عقیدے و نظریات کو بگاڑنے اسلامی تعلیمات سے دور کرنے اور کفر کی دہلیز پر پہنچانے کی سرتوڑ کوشش جاری ہیں۔ فحاشی وعریانی پھیلانے میں گانا بجانا، موسیقی، تصاویر چاہے ویڈیو کی شکل میں ہو یا پرنٹ تصاویر ہوں سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تصویر اور سی ڈی کے شرعی احکام ‘‘ کی مولانا مفتی احسان اللہ شائق کی مرتب شدہ ہے انہوں نے اس کتاب میں تصاویر کا استعمال شرعاً کہاں جائز ہے اور کہاں جائز نہیں اور کون سی تصاویر مطلقاً حرام ہیں اور کون سے مختلف فیہ ہیں۔ ڈیجیٹل کیمرہ کی تصاویر اور ہاتھ کی بنی ہوئی تصاویر میں کچھ فرق ہے یا دونوں کاایک ہی حکم ہے اس بارے میں علماء کرام کے مختلف آراء، نیز تصاویر کے استعمال کے مختلف مواقع کے بارے میں علماء کی مختلف آراء اور فتاویٰ پیش کیے ہیں۔ نیز ٹی وی پر دینی پروگرام پیش کرنا اور سی ڈی کی تصویر سےمتعلق فقہاء کے فتاویٰ جات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کے نفع بخش بنائے۔ (آمین) (م۔ا)
اہل لغت نے ہجرت کے متعدد معانی بیان کئے ہیں۔ ہجرت یعنی جدائی ،دوری اختیار کرنا ،وطن کو ترک کرکے دوسری جگہ کو محل سکونت قرار دینا۔ لفظ ''ہجرت ''مادہ'' ھجر'' سے ماخوذ ہے اور'' ہجرت و ہجران'' جدائی اور جدا کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور'' مہاجر'' اس شخص کو کہا جاتا ہے جواپنی جائے پیدائش اور وطن سے نکل کر دوسری جگہ کو اپنا محل سکونت قرار دے تواس عمل کو ہجرت کہا جاتا ہے۔ اور شریعت اسلامیہ میں دار الکفر سے دار الایمان کی طرف جانے کو'' ہجرت'' کہتے ہیں جیسے اوائل اسلام یا آغاز اسلام میں مسلمانوں کا مکہ سے مدینہ کی طرف جانا'' ہجرت'' کہلاتا ہے۔ جو شخص کسی شہر یا ملک میں اپنے دین پر قائم نہ رہ سکتا ہو اور یہ جانے کہ دوسری جگہ جانے سے اپنے فرائض دینی ادا کرسکے گا اس پر ہجرت واجب ہوجاتی ہے۔ دار الکفر سےمراد وہ مقام ہے جہاں کفر کے شعائر نمایاں ہوں ، اور اسلام کے شعائر، جیسے اذان، باجماعت نماز پنجگانہ، عیدین کا انعقاد اور نمازِ جمعہ وغیرہ کا عام اور ہرجگہ اہتمام نہ کیا جاتا ہو۔جبکہ دا ر الاسلام سے مراد وہ علاقے ہوسکتے ہیں ، جہاں مکمل مذہبی آزادی ہو اور وہاں اسلامی شعائر عمومی طور پر اور ہرجگہ منعقد ہوتے ہوں ۔ زیر تبصرہ کتاب"دار الکفر سے دار السلام کے طرف ہجرت کے اسباب "سعودی عرب کے معروف عالم دین فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن صالح الجربوع صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے دار الکفر سے دار السلام کی طرف ہجرت کے اسباب بیان فرمائے ہیں۔اس کتاب کا اردو ترجمہ محترم شیخ عبد العظیم حسن زئی صاحب نے کیا ہے جبکہ نظرثانی محترم محمود الحسن حمیری صاحب نے فرمائی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور مترجم کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اردو ادب میں سفرناموں کو ایک مخصوص صنف کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ سفرنامے دنیا کے تمام ممالک کااحاطہ کرتے ہیں۔اِن کی طرزِ نوشت بھی دوسری تحریروں سے مختلف ہوتی ہے۔یہ سفرنامے کچھ تاثراتی ہیں تو کچھ معلوماتی۔ کچھ میں تاریخی معلومات پر زور دیا گیا ہے تو کچھ ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت کو نمایاں کرتے ہیں جہاں کا انسان سفر کرتاہے۔ سفرمیں انسان دوسرے علاقوں کےرہنے والے انسانوں سےبھی ملتا جلتا ہے۔ ان کےرسم ورواج ، قوانین رہن سہن ،لائف اسٹائل اور لین دین کے طریقوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آثار قدیمہ کے مطالعہ سے قدیم دور کے انسان کی زندگی کے انہی پہلوؤں سے آشنائی حاصل ہوتی ہے۔ اور اس میں سیکھنے کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں جو انسان کی اپنی عملی زندگی میں کام آتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ سفر حجاز‘‘ شہیدملت علامہ احسان الٰہی ظہیر کی مرتب کردہ ۔اس سفرنامہ کا امتیازیہ کہ یہ سفر نامہ دیار حبیب کا سفر اختیار کرنے والے کسی محض حاجی کاسفرنامہ نہیں کہ جس نے ارض حجاز میں چند روز ، چند مہینے گزارے ہوں اور اپنی داستان سفر تصنیف کردی ۔اس سفر نامہ کے راقم علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید نےاپنی زندگی کے کئی سال ارض حجاز میں گزارے اور ارض حجاز کاایک بار نہیں بیسیوں بار سفر کیا ۔انہو ں نے اپنی جوانی کےدور میں جذبات اور لڑکپن کےدور جنوں کوبھی اس سرزمین کےروحانی ماحول میں بسر کیا ہے ۔اس سفرنامے میں مسلمانوں کے لیے تاریخی اہمیت کی جگہ عراق کا تذکرہ بھی ہے ۔(م۔ا)