امانت داری ایک اعلی اخلاق ہے ۔ دین کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔ یہ ایک نادر اور بیش بہا صفت ہے۔ انسانی معاشرہ کے لیے جزء لا ینفک ہے۔ اس صفت میں حاکم و محکوم کے ما بین کوئی فرق نہیں ہے‘ تاجر وکاریگر ‘مزدور وکاشت کار ‘ امیر و فقیر ‘ بڑا اور نہ چھوٹا اور نہ ہی شاگرد و استاذ بلکہ ہر ایک کے لیے باعث شرف ومنزلت ہے۔انسان کا اصل سرمایاہے۔اور اس کے کامیابی وکامرانی کا ضامن ہے۔اور ترقی وارتقاء کی چابی ہے۔ہر ایک کے لیے باعث سعادت ہے۔امانت کا معنی بہت وسیع وعریض ہے اور جو لوگ امانت کے معنی کو صرف اس معنی میں محصور کردیتے ہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے پاس کوئی چیز(سونا‘چاندی‘ روپیے پیسے وغیرہ ) ایک معین مدت تک جمع رکھے۔تو اس جمع شدہ چیز کو صاحب مال تک واپس کر دینا ہی امانت داری ہے تو ایک بہت بڑی کج فہمی ہے لیکن حقیقت یہ کہ امانت داری بہت وسیع معنی پر دلالت کرتاہے۔ زیر تبصرہ کتاب"" محترم مولانا ابو اسعد محمد صدیق صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے امانت کے اسی وسیع مفہوم کو بیان کرتے ہوئے امانت کی مختلف اقسام کی تفصیل...
علومِ نقلیہ کی جلالت وعظمت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر یہ بھی حقیقت کہ ان کے اسرار ورموز اور معانی ومفاہیم تک رسائی علم نحو کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ علومِ عربیہ میں علم نحو کو جو رفعت ومنزلت حاصل ہے اس کا اندازہ اس امر سے بہ خوبی ہو جاتاہے کہ جو بھی شخص اپنی تقریر وتحریر میں عربی دانی کو اپنانا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے نحو کےاصول وقواعد کی معرفت کا محتاج ہوتا ہے کلام ِالٰہی ،دقیق تفسیر ی نکات،احادیث رسول ﷺ ،اصول وقواعد ،اصولی وفقہی احکام ومسائل کا فہم وادراک اس علم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا یہی وہ عظیم فن ہےکہ جس کی بدولت انسان ائمہ کےمرتبے اور مجتہدین کی منزلت تک پہنچ جاتاہے ۔عربی مقولہ ہے : النحو فی الکلام کالملح فی الطعام یعنی کلام میں نحو کا وہی مقام ہے جو کھانے میں نمک کا ہے ۔ قرآن وسنت اور دیگر عربی علوم سمجھنےکے لیے’’ علم نحو‘‘کلیدی حیثیت رکھتاہے اس کے بغیر علوم ِاسلامیہ میں رسوخ وپختگی اور پیش قدمی کاکوئی امکان نہیں ۔ قرنِ اول سے لے کر اب تک نحو وصرف پرکئی کتب اور ان کی شروح لکھی کی جاچکی ہیں ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ زیر تبصرہ کتاب &...