قرآن مجید ایک مرتب ومنظم زندہ وجاوید صحیفہ ہے، جسے اللہ تعالی کا کلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس کو پڑھنا باعث اجر وثواب اور اس پر عمل کرنا باعث نجات ہے۔جو قوم اسے تھام لیتی ہے وہ رفعت وبلندی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہو جاتی ہے، اور جو اسے پس پشت ڈال دیتی ہے، وہ ذلیل وخوار ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ کتاب مبین انسانیت کے لئے دستور حیات اور ضابطہ زندگی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ انسانیت کو راہ راست پر لانے والی، بھٹکے ہووں کو صراط مستقیم پر چلانے والی، قعر مذلت میں گرے ہووں کو اوج ثریا پر لے جانے والے، اور شیطان کی بندگی کرنے والوں کو رحمن کی بندگی سکھلانے والی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے خدمت قرآن کو اپنی زندگیوں کا مرکز ومحور بنا کے رکھا۔ کسی نے اپنی توجہ کا مرکز احکام قرآنی اور مسائل فقہیہ کو بنایا ،کسی مفسر کا محور عام وخاص ،مجمل ومفصل اور محکم ومتشابہ رہا، کسی نے نحو وصرف پر زور دیا اور مفردات کے اشتقاق اور جملوں کی ترکیب پر محنت کی تو کسی نے علم کلام کی بحوث کو پیش کیا۔ ان خدمات میں سے ایک خدمت تراجم قرآن کی ہے، جس کے تحت قرآن مجید کا دنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ان تراجم میں سے بعض ترجمے اردو زبان میں کئے گئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" قرآن حکیم کے اردو ترجمے، تاریخ، تعارف، تبصرہ ، تقابلی جائزہ" محترمہ ڈاکٹر صالحہ عبد الحکیم صاحبہ کی کاوش ہے، جس میں انہوں نے قرآن مجید کے اردو تراجم کی تاریخ، تعارف، تبصرہ اور تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ا ن کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ (راسخ)
ٖ اہل اسلام میں یہ بات روز اول ہی سے متفق علیہ رہی ہے کہ شرعی علم کے حصول کے قابل اعتماد ذرائع صرف دو ہیں:ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا اللہ کے آخری رسول ﷺ کی حدیث وسنت ۔امت میں جب بھی کوئی گمراہی رونما ہوتی ہے اس کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں ماخذوں میں سے کسی ایک ماخذ کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگوں نے ’حسبنا کتاب اللہ ‘کے قول حق کو اس گمراہ کن تصور کے ساتھ پیش کیا کہ کتاب اللہ کے بعد سنت رسول ﷺ کی ضرورت ہی نہیں رہی۔اس طرح بعض افراد رسول مقبول ﷺ کے بارے میں یہ تصور پیش کرتے رہے ہیں کہ ان کا کام محض ہرکارے کا تھا۔معاذ اللہ فتنہ انکار حدیث کی تاریخ کے سرسری مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث نبوی کی حجیت و اہمیت کے منکرین دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ جو کھلم کھلا حدیث کا انکار کرتے ہیں اور اسے کسی بھی حیثیت سے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صراحتاً حدیث کے منکرین ،بلکہ زبانی طور پر اس کو قابل اعتماد تسلیم کرتے ہیں لیکن انہوں نے تاویل و تشریح کے ایسے اصول وضع کر رکھے ہیں جن سے حدیث کی حیثیت مجروح ہوتی ہے اور لوگوں پر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ سنت نبوی کو تشریعی اعتبار سے کوئی اہم مقام حاصل نہیں ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب" حدیث پر عمل کیسے؟"محترمہ یاسمین حمیدصاحبہ کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ کی چند معروف احادیث کی تشریح بیان فرمائی ہے۔ (راسخ)
اللہ تعالی نے نبی کریم کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ خاتم النبیین اور سلسلہ نبوت کی سب سے آخری اینٹ ہیں، جن کی آمد سے سلسلہ نبوی کی عمارت مکمل ہو گئی ہے۔ آپ کے بعد کوئی برحق نبی اور رسول نہیں آسکتا ہے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ میرے بعد متعدد جھوٹے اور کذاب آئیں گے جو اپنے آپ کو نبی کہلوائیں گے۔ آپ کے بعد آنے والے متعدد کذابوں میں سے ایک کذاب مرزا غلام احمد قادیانی ہے، جس نے نبوت کا دعوی کیا اور شریعت کی روشنی میں کذاب اور مردود ٹھہرا۔ لیکن اللہ رب العزت نے اس کی حقیقت کو جھوٹ وفریب کا بے نقاب کرد یا۔ چنانچہ اس کے خلاف ایک زبر دست تحریک چلی جو اس کے دھوکے اور فریب کو تنکوں کی طرح بہا لے گئی۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے اسے اور اس کے پیرو کاروں کو غیر مسلم قرار دے کر ایک عظیم الشان فیصلہ کر کے ایک تاریخ رقم کردی۔ زیر نظر کتاب "قادیانیت کے دو چہرے" محترم مولانا مشتاق احمد چنیوٹی صاحب کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے قادیانیوں کے بدترین کفریہ عقائد و عزائم پر مبنی عکسی شہادتیں اکٹھی کر دی ہیں۔ اور اس کی طرف سے کئے جانے والے جھوٹے دعووں اور کفریہ عقائد و قابل اعتراض باتوں کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے، تاکہ ان کے جرائم کو تمام مسلمان پہچان سکیں۔ اللہ تعالی ان کی اس محنت کو قبول ومنظور فرمائے اور تمام مسلمانوں کو قادیانیوں کے اس خطرناک فتنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین (راسخ)
اللہ تعالی نے کائنات کی یہ وسیع وعریض بستی اپنے تمام بندوں کے لئے بسائی ہے۔انسان کے علاوہ اللہ تعالی کی دوسری مخلوقات نے عملی طور پر اس آفاقیت کو باقی رکھا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ایک ملک کے شیر کو کو دوسرے ملک میں جانے کی اجازت نہ ہو، یا ایک خطے کے جانوروں اور پرندوں کو دوسرے ملک میں جانے کے لئے ویزہ لگوانا پڑے۔لیکن انسان کی فطرت میں کچھ ایسی تنگ نظری واقع ہوئی ہے کہ اسے اپنے ہی ہم جنسوں کا وجود گوارہ نہیں ہے۔اسی لئے تو اس نے دنیا کو براعظموں، ملکوں اور صوبوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔اور اسی نام نہاد تقسیم سے شہریت کا مسئلہ پیدا ہو ا ہے۔ہر ملک کے لوگوں نے اپنی سرحدوں کو باہر کے لوگوں کے لئے بند کر رکھا ہے۔سرحد سے باہر کے لوگ چاہے ایک ہی زبان بولنے والے ہوں، ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہوں اور ایک ہی مذہب کو ماننے والے ہوں،انہیں سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں ہےاور نہ ہی انہیں سرحد کے اس پار رہنے والوں کے مماثل حقوق واختیارات حاصل ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" شہریت اور اس سے متعلق مسائل " ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے 23 ویں فقہی سیمینار منعقدہ جمبوسر (گجرات) بتاریخ 28،29 ربیع الثانی ویکم جمادی الاولی 1435ھ بمطابق 1تا 3 مارچ 2014ء میں شہریت کے مسائل کے موضوع پر پیش کئے گئے علمی، فقہی اور تحقیقی مقالات ومناقشات کے مجموعے کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے ،جسے امت کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔امام بخاریکی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ان کی تمام تصانیف میں سے سب سے زیادہ مقبولیت اور شہرت الجامع الصحیح المعروف صحیح بخاری کو حاصل ہوئی ۔جو بیک وقت حدیثِ رسول ﷺ کا سب سے جامع اور صحیح ترین مجموعہ بھی ہے اور فقہ اسلامی کا بھی عظیم الشان ذخیرہ بھی ہے ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے صحت کے اعتبار سےامت محمدیہ میں’’ اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ کادرجہ عطا کیا او ر ندرتِ استباط اور قوتِ استدلال کے حوالے سے اسے کتابِ اسلام ہونے کاشرف بخشاہے صحیح بخاری کا درس طلبۂ علم حدیث اور اس کی تدریس اساتذہ حدیث کے لیے پورے عالم ِاسلام میں شرف وفضیلت اور تکمیل ِ علم کا نشان قرار پا چکا ہے ۔ صحیح بخاری کی کئی مختلف اہل علم نے شروحات ،ترجمے اور حواشی وغیرہ کا کام کیا ہے شروح صحیح بخاری میں فتح الباری کو ایک امتیازی مقام اور قبولِ عام حاصل ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب " عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری "محترم مولانا محمدحسین میمن صاحب کی تصنیف ہے، جس کی نظر ثانی شیخ الحدیث محترم مولانا مقصود احمد سلفی صاحب نے فرمائی ہے اور اس پر تقدیم محقق العصر محترم مولانا ارشاد الحق اثری صاحب نے لکھی ہے۔ یہ کتاب صحیح بخاری کے ابواب اور احادیث میں مناسبت کا بیش بہا مجموعہ ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اوراور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
تاریخ کے جھروکے سے قبطی قوم حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے تعلق رکھتی تھی۔ حضرت اسماعیلؑ کے صاحب زادے نیابت تھے اور ان کا بیٹا نیا بوط تھا جن کے نام پر قبطی قوم کی بنیاد پڑی۔ قبطی نیم خانہ بدوش تاجر تھے لیکن دو تین صدی ق م میں انہوں نے سینائی میں شمالی عرب سے جنوبی شام تک وسیع قلمر و قائم کرلی۔ ان کے شہری مراکز میں ہنجر بصرہ اور قطرہ (سلیج) کو خاصی شہرت حاصل ہے۔ قطرہ ان کا دار الحکومت بھی تھا۔ فینقیوں کے رسم الخط کو آرامیوں نے اپنی سہولت کے مطابق ترمیم و اضافہ کے ساتھ ترقی دی اور جلد ہی اس خط نے قریب کی ریاستوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔ قبطی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انھوں نے دوسری صدی ق م سے پہلے ہی آرامی خط اپنا لیا اور بعد میں اس میں اضافہ کر کے نیا رسم الخط وضع کر لیا جو قبطی خط کہلایا جس کے کئی کتبے اور سکوں پر تحریر دستیاب ہو چکی ہے۔ قبطی خط کے اثرات سینا کے علاقے تک پہنچے اور یہ خط پانچویں صدی عیسوی تک وہاں نظر آتا ہے۔ عربی رسم الخط عربی رسم الخط کے بارے میں محققین خطاطی کا خیال ہے کہ یہ سرزمین عرب اور ارد گرد کی زبانوں خاص طور پر اپنی ہم مآخذ پہلوی، کفروشتی، عبرانی کی نسبت خاصی تاخیر سے متعارف ہوا لیکن بقول ڈاکٹر اعجاز راہی صاحب ان کے نزدیک یہ پہلو قابل قبول نہیں کیونکہ عرب اقوام میں زمانۂ ماقبل تاریخ ایسے شواہد ملتے ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ عربی النسل اقوام میں فن تحریر رائج تھا۔ بہر کیف جس وقت رسول مقبولؐ نے اعلان نبوت فرمایا‘ اس وقت حجاز میں فن تحریر کا آغازہو چکا تھا جس کو آج ہم خط قدیم کوفی حیرہ یا حمیرہ کہتے ہیں۔ یہ دراصل ایک ہی خط تھا اور اسے اسلام کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ترقی کی وہ منزل نصیب ہوئی کہ تاریخ خطاطی کا سب سے مقبول خط بن گیا اور اسلامی حکومت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی وسعت اختیار کرتا چلا گیا۔ زیر تبصرہ کتاب" عربی خط کی تاریخ اور ارتقاء "محترم عبد الحی عابد صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے عربی خط کی تاریخ اور ارتقاء کو بیان کیا ہے۔ یہ کتاب در اصل ان کا ایم اے عربی کا تحقیقی مقالہ ہے جو انہوں نے ایم اے عربی کی ڈگری کے لئے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے جناب ریاض الرحمن قریشی کی زیر نگرانی مکمل کیا تھا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
اللہ تعالی نے انسان کو بہترین قالب اور شکل وصورت میں پیدا فرمایا ہے۔ اور پھر اس کے حسن کو دوبالا کرنے کے لئے اس میں جذبہ آرائش بھی ودیعت فرمایا ہے۔نیز اپنے آپ کو آراستہ کرنے کا ایک سے ایک سلیقہ بھی دیا ہے۔چنانچہ انسان شروع ہی سے زینت وآرائش کے مختلف طریقے استعمال کرتا رہا ہے۔جب سیدنا آدم اوراماں حوا کو جنت سے نکالا گیا اور وہ جنتی لباس سے محروم ہو گئے تو انہوں نے بے ساختہ اپنے جسموں پر درختوں کے پتے لپیٹنا شروع کر دئے۔یہ واقعہ جہاں اس بات کو واضح کرتا ہے کہ شرم وحیا انسان کی فطرت کا بنیادی عنصر ہے، وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی کی فطرت میں لباس وپوشاک کی خواہش رکھی گئی ہے۔اور لباس صرف جسم کو چھپاتا ہی نہیں بلکہ انسان کے لئے باعث زینت بھی ہے۔عصر حاضر میں خوبصورتی میں اضافے کے لئے بے شمار مصنوعات سامنے آ چکی ہیں۔ان میں سے ایک "پلاسٹک سرجری" ہے، جس میں جسم کے ایک حصے سے چمڑہ، گوشت یا ہڈی لے کر جسم کے دوسرے حصے میں پیوست کر دیا جاتا ہے۔اس کا مقصد کبھی اپنی شناخت کو چھپانا، کبھی کسی عیب کو دور کرنا، کبھی جسمانی تکلیف کا ازالہ کرنا اور کبھی خوبصورتی میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"" ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے اٹھارہویں فقہی سیمینار منعقدہ 28 فروری تا 2 مارچ 2009ء میں پلاسٹک سرجری کے موضوع پر پیش کئے گئے علمی، فقہی اور تحقیقی مقالات ومناقشات کے مجموعے کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
انسانی دنیا میں اختلاف کا پایا جانا ایک مسلمہ بات ہے ۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق میں ایک سنت۔ چنانچہ لوگ اپنے رنگ وزبان اور طبیعت وادراکات اور معارف وعقول اور شکل وصورت میں باہم مختلف ہیں ۔امت محمدیہ آج جن چیزوں سے دوچار ہے ،اور آج سے پہلے بھی دو چار تھی ،ان میں اہم ترین چیز بظاہر اختلاف کا معا ملہ ہے جو امت کے افراد وجماعتوں، مذاہب وحکومتوں سب کے درمیان پایا جاتا رہا اور پایا جاتا ہے یہ اختلاف کبھی بڑھ کر ایسا ہوجاتا ہے کہ گروہ بندی تک پہنچ جاتا ہے اور یہ گروہ بندی باہمی دشمنی تک اور پھر جنگ وجدال تک ذریعہ بنتی ہے ۔اور یہ چیزیں اکثر دینی رنگ وعنوان بھی اختیار کر لیتی ہیں جس کے لیے نصوصِ وحی میں توجیہ وتاویل سے کام لیا جاتا ہے ، یا امت کے سلف صالح صحابہ وعلماء واصحاب مذاہب کے معاملات وحالات سے استناد حاصل کیا جاتا ہے ۔اور اختلاف اساسی طورپر دین کی رو سے کوئی منکر چیز نہیں ہے ،بلکہ وہ ایک مشروع چیز ہے جس پر کتاب وسنت کے بے شمار دلائل موجود ہیں۔علم الاختلاف سے مراد ان مسائل کا علم ہے جن میں اجتہاد جاری ہوتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ سلیقۂ اختلاف‘‘ ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید ( سابق امام وخطیب بیت اللہ الحرام ) کے جامعہ ام القریٰ ، مکۃ المکرمہ کے لیکچرز ہال میں اہل علم اور طلبا واساتذہ کے سامنے دئیے گئے محاضرات کی کتابی صورت ’’ ادب الخلاف‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔ان محاضرات کو اہل علم کے ہاں بڑی پزیرائی حاصل ہوئی تو شیخ موصوف کی نظرثانی کےبعد اس کے ’’ ادب الخلاف ‘‘ کےنام سے مختلف مقامات سے متعدد عربی ایڈیشن شائع ہوئے۔بعد ازاں رابط عالم اسلامی نے اپنے ہفتہ وار ترجمان ’’العالم الاسلامی‘‘ میں اسے قسط وار شائع کیا ۔اس کتاب کی افادیت کے باعث اسے اردو داں طبقہ کے لیے اردو قالب میں ڈھال کر وزارت اسلامی امور سعودی عرب نےاسے کثیر تعدا د میں شائع کر کے تقسیم کیا ۔(م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین عطا کیا ہے، یہ محض رسوم عبادت یا چند اخلاقی نصائح کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس دین کو ماننے والوں کے لئے صرف یہی ضروری نہیں کہ وہ اس دین کو نظریاتی طور پر مان لیں بلکہ ا س کا عملی زندگی میں اطلاق بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ العصر میں مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’زمانہ گواہ ہے کہ انسان ضرور ضرور خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ، نیک عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ ‘‘دین کا عملی زندگی میں اطلاق صرف یہی تقاضانہیں کرتا کہ اس پر خود عمل کیا جائے بلکہ یہ بات بھی دین کے تقاضے میں شامل ہے کہ اس دین کو دوسروں تک پہنچایا بھی جائے اور ایک دوسرے کی اصلاح کی جائے۔ جہاں کہیں بھی کوئی شرعی یا اخلاقی خرابی نظر آئے، ا س کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔ زیر تبصرہ کتاب " دعوتی سوالات اور میرے جوابات "محترم شیخ محمد ریاض موسی ملیباری کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے دعوت دین کے میدان میں پیش آنے والے مختلف سوالات کے جوابات جمع فرما دئیے ہیں۔ اللہ تعالی اسے مولف سے قبول فرمائے اور ہمیں دعوتی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے کی توفیق دے۔ آمین(راسخ)
صحت اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور حتی المقدور اس کی حفاظت انسان کا فریضہ اور اس کی ذمہ داری بھی ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں صنعتی انقلاب، ماحولیاتی عدم توازن اور غذائی اجناس میں اضافہ کے لئے نئے نئے تجربات کی وجہ سے بیماریوں بڑھ رہی ہیں اور امراض پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔اس کے ساتھ امراض کی تشخیص اور علاج کے نت نئے زود اثر طریقے بھی دریافت ہو رہے ہیں۔لیکن جدید طریقہ علاج اتنا مہنگا اور گراں ہو چکا ہے کہ متوسط معاشی صلاھیت کے حامل لوگوں کے لئے اس کے اخراجات ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہےکہ طب وعلاج جو خدمت خلق کا ایک ذریعہ اور باعزت پیشہ تھا اب اس نے تجارت کی صورت اختیار کر لی ہے۔اس صورت حال نے میڈیکل انشورنس کو وجود بخشا ، جس کی متعدد صورتیں ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" میڈیکل انشورنس فقہ اسلامی کی روشنی میں" ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں انہوں نے پندرہویں فقہی سیمینار منعقدہ میسور مؤرخہ 11 تا 13 مارچ 2006ء میں میڈیکل انشورنس فقہ اسلامی کی روشنی میں کے موضوع پر اہل علم کی طرف سے پیش کئے گئے تحقیقی مقالات جمع کر دئیے گئے ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
دور جدید کا انسان جن سیاسی ،معاشرتی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے اس پر زمانے کا ہر نقش فریادی ہے۔آج انسان اس رہنمائی کا شدید حاجت مند ہے کہ اسے بتلایا جائے ۔اسلام زندگی کے ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا وہ نقطہ اعتدال کیا ہے؟جس کی بناء پر وہ سیاسی ،معاشی اور معاشرتی دائرے میں استحکام اور سکون واطمینان سے انسان کو بہرہ ور کرتا ہے ۔اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام اپنی مصنوعی اور غیر فطری بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ایک مغرب کا سرمایہ داری نظام ہے ،جس پر آج کل انحطاط واضطراب کا رعشہ طاری ہے۔دوسرا مشرق کا اشتراکی نظام ہے، جو تمام کی مشترکہ ملکیت کا علمبردار ہے۔ان دونوں کے بر عکس اسلام کا معاشی نظام ایک زبر دست نظام ہے۔جس میں انسان کو ملکیت بھی دی گئی ہےاور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں پر خرچ کرنے کی بھی ترغیب دی گئی ہے۔اسلام کے مالی نظام میں ایک اہم باب وصیت ووراثت کا ہے ، جس کے مطابق وارث اپنے موروث کی موت کے بعد اس کے ترکے کا وارث بن جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" میراث ووصیت سے متعلق بعض مسائل "ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے 23 ویں فقہی سیمینار منعقدہ جمبوسر (گجرات) بتاریخ 28،29 ربیع الثانی ویکم جمادی الاولی 1435ھ بمطابق 1تا 3 مارچ 2014ء میں وراثت اور ہبہ کے موضوع پر پیش کئے گئے علمی، فقہی اور تحقیقی مقالات ومناقشات کے مجموعے کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
مسلک اہل حدیث یا سلفی منہج ایک نکھرا ہوا اور نترا ہوا مسلک ہے۔جو حقیقتا خاصے کی شے اور پاسے کا سونا ہے۔ اس کا منبع مصدر کتاب وسنت ہے۔مسلک اہل حدیث کوئی نئی جماعت یا فرقہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مکتب فکر اور تحریک کا نام ہے ۔ تمام اہل علم اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت موجود ہے تب سے یہ جماعت موجود ہے۔ اسی لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے۔ یہ نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔ پہلا لفظ"اہل"ہے۔ جس کے معنی ہیں والے صاحب دوسرا لفظ "حدیث" ہے۔ حدیث نام ہے کلام اللہ اور کلام رسولﷺ کا۔قرآن کو بھی حدیث فرمایا گیا ہے۔ اور آپﷺ کے اقوال اور افعال کے مجموعہ کا نام بھی حدیث ہے۔ پس اہل حدیث کے معنی ہوئے۔”قرآن و حدیث والے” جماعت اہل حدیث نے جس طریق پر حدیث کو اپنا پروگرام بنایا ہے اور کسی نے نہیں بنایا۔ اسی لیے اسی جماعت کا حق ہے۔ کہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہے۔مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہی جماعت حق ہے۔ اہل حدیث مروّجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں، نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے، بلکہ اہل حدیث ایک جماعت اور تحریک کا نام ہے۔ اور وہ تحریک ہے زندگی کے ہر شعبے میں قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنا اور دوسروں کو ان دونوں پر عمل کرنے کی ترغیب دلانا، یا یوں کہ لیجئے کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب وسنت کی دعوت اور اہل حدیث کا منشور قرآن وحدیث ہے۔ اور اصلی اہل سنت یہی ہیں۔اہل حدیث ایک تحریک ہے، ایک فکر ہے، جو دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہے اور لوگوں کو سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے کہ قرآن وسنت ہی شریعت کے اصلی مصادر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "میں نے سلفی منہج کیوں اپنایا" محترم سلیم بن عید الہلالی تلیذ رشید علامہ ناصر الدین البانی کی عربی تصنیف کا اردو ترجمہ ہے، اردو ترجمہ محترم عبد العظیم حسن زئی صاحب نے کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
دور جدید کا انسان جن سیاسی ،معاشرتی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے اس پر زمانے کا ہر نقش فریادی ہے۔آج انسان اس رہنمائی کا شدید حاجت مند ہے کہ اسے بتلایا جائے ۔اسلام زندگی کے ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا وہ نقطہ اعتدال کیا ہے؟جس کی بناء پر وہ سیاسی ،معاشی اور معاشرتی دائرے میں استحکام اور سکون واطمینان سے انسان کو بہرہ ور کرتا ہے ۔اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام اپنی مصنوعی اور غیر فطری بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ایک مغرب کا سرمایہ داری نظام ہے ،جس پر آج کل انحطاط واضطراب کا رعشہ طاری ہے۔دوسرا مشرق کا اشتراکی نظام ہے، جو تمام کی مشترکہ ملکیت کا علمبردار ہے۔ان دونوں کے بر عکس اسلام کا معاشی نظام ایک زبر دست نظام ہے۔جس میں انسان کو ملکیت بھی دی گئی ہےاور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں پر خرچ کرنے کی بھی ترغیب دی گئی ہے۔اسلام کے مالی نظام میں ایک اہم باب 'ہبہ' کا ہے، ہبہ اسلام میں انفرادی ملکیت اور اپنی املاک میں تصرف کے بنیادی حق کا مظہر ہے۔حاکم ہو یا محکوم، آجر ہو یا مزدور، عالم ہو یا جاہل، مرد ہو یا عورت، شریعت نے ہر ایک کو اپنی ملکیت میں تصرف کا آزانہ حق دیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" ھبہ سے متعلق بعض مسائل "ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے 23 ویں فقہی سیمینار منعقدہ جمبوسر (گجرات) بتاریخ 28،29 ربیع الثانی ویکم جمادی الاولی 1435ھ بمطابق 1تا 3 مارچ 2014ء میں ھبہ کے موضوع پر پیش کئے گئے علمی، فقہی اور تحقیقی مقالات ومناقشات کے مجموعے کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
مولانا رحمت اللہ بن خلیل الرحمٰن کیرانوی کیرانہ ضلع مظفر نگر (یوپی ۔بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب اکتیس واسطوں سے سیدنا عثمان غنی سے ملتا ہے۔ مولانا کیرانوی نے بارہ برس کی عمر میں قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں پھر تحصیل علم کےشوق میں دہلی چلے آئے اور مولانا حیات کے مدرسہ میں داخل ہوکر درس نظامی کی تکمیل کی اور شاہ عبد الغنی وغیرہ سے دورہ حدیث پڑھا طب کی تعلیم حکیم فیض محمد حاصل کی۔ تعلیم سےفراغت کے بعد کچھ عرصہ دہلی میں ملازمت کی اس دوران والد کا انتقال ہوگیا تو آپ وطن واپس آکر درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔ رحمت اللہ کیرانوی اسلام بڑے پاسبانوں میں سے تھے۔ جس زمانے میں ہزاروں یورپی مشنری، انگریز کی پشت پناہی میں ہندوستان کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، کیرانوی اور ان کے ساتھی مناظروں، تقریروں کے ذریعے اسلامی عقائد کے دفاع میں مصروف تھے۔ 1270ھ بمطابق 1854ء یعنی جنگ آزادی سے تین سال قبل رحمت اللہ کیرانوی نے آگرہ میں پیش آنے والے ایک معرکہ کے مناظرہ میں عیسائیت کے مشہور مبلغ پادری فنڈر کو شکست دی۔جنگ آزادی 1857ء میں کیرانوی صوفی شیخ حضرت حاجی امداد اللہ (مہاجر مکی) کی قیادت میں انگریز کے ساتھ قصبہ تھانہ بھون میں انگریز کے خلاف جہاد میں شامل ہوئے اور شاملی کے بڑے معرکہ میں بھی شریک ہوئے۔ انگریز کی فتح کے بعد کیرانوی دیگر مجاہدین کی طرح ہجرت کرکے حجاز چلے گئے۔ یہاں آپ نے پادری فنڈر کی کتاب میزان الحق کا جواب اظہار الحق تحریر فرمایا۔ حجاز سے سلطان ترکی کے بلانے پر قسطنطنیہ (حالیہ استنبول) گئے اور وہاں عیسائیوں سے مناظرے کیے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’مجاہد اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی‘‘ محترم جناب اسیرادروی کی مرتب شدہ ہے۔ موصوف نے اس کتاب کو مستند ترین مآخذ سے استفادہ کر کے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے۔ موصوف نے اس کتاب کوبیس ابواب میں تقسیم کیا ہے جن میں مولانا کیرانوی کا نام ونسب، خاندان اور وطن، ولادت، تعلیم وتربیت اور درس وتدریس، اسلامی ہند پر عیسائیت کی یلغار، مولانا کیرانوی میدان عمل میں، پادری فنڈر سے خط وکتابت، مولانا کے مناظر ے اور ان کی تصانیف کا تذکرہ کاکیا ہے۔ آخری ابواب میں مولانا کیرانوی کے مکہ مکرمہ میں زندگی کے شب روز کا تذکرہ کیا ہے۔ (م۔ا)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دین میں تفقہ سب سے افضل عمل ہے۔جو اللہ کی ذات، اس کے اسماء وصفات، اس کے افعال، اس کے دین وشریعت اور اس کے انبیاء ورسل کی معرفت کانا م ہے،اور اس کے مطابق اپناایمان ،عقیدہ اور قول وعمل درست کرنے کا نام ہے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا :اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "فقہ السنہ" معروف عالم دین محمد عاصم صاحب کی کاوش ہے،جسے انہوں نے معروف فقہی ترتیب پر مرتب کرتے ہوئے قرآنی آیات ،واحادیث نبویہ سے مزین کر دیا ہے ۔اور فروعی مسائل میں صرف ایک ہی قول راجح وصحیح کوبیان کر دیا ہے تاکہ پڑھنے والوں کے لئے سمجھنا آسان ہو اور مبتدی قاری اپنا مطلوب پا لے۔انہوں نے اس کتاب کو مختصر اور مفید بنانے کی از حد کوشش کی ہے ،تاکہ اس سے عابد اپنی عبادت کے لئے ،واعظ اپنی وعظ کے لئے ،مفتی اپنے فتوی کے لئے ،معلم اپنی تدریس کے لئے قاضی اپنے فیصلے کے لئے ،تاجر اپنی تجارت کے لئے اور داعی اپنی دعوت کے لئے فائدہ اٹھا سکے۔اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
ہر مسلمان کو اس بات سے بخوبی آگاہ ہونا چاہئے کہ مومن اور مشرک کے درمیان حد فاصل کلمہ توحید لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ شریعت اسلامیہ اسی کلمہ توحید کی تشریح اور تفسیر ہے۔ اللہ تعالی نے جہاں کچھ اعمال کو بجا لانے کا حکم دیا ہے ،وہاں کچھ ایسے افعال اور عقائد کا بھی تذکرہ فرمایا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی بھی عمل بارگاہ الہی میں قبول نہیں ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے جن امور سے منع فرمایا ہے، ان کی تفصیلات قرآن مجید میں، اور نبی کریم نے جن امور سے منع فرمایا ہے ان کی تفصیلات احادیث نبویہ میں موجود ہیں۔124 مسائل ایسے تھے جو نبی کریم اور مشرکین مکہ کے درمیان متنازعہ فیہ تھے۔ اور یہ ایسے اصولی مسائل ہیں جن کا ہر مسلمان کے علم میں آنا انتہائی ضروری ہے، کیونکہ ان میں اور اسلامی تعلیمات میں مشرق ومغرب کی دوری ہے۔ان کا اسلام کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" عقائد باطلہ کا رد " محترم مولانا رحمت اللہ ربانی صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے مستند دلائل کے ساتھ باطل عقائد کا رد فرمایا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
فقہ اسلامی فرقہ واریت سے پاک ایک ایسی فکر سلیم کا نام ہے جو قرآن وسنت ِ رسول کی خالص تعلیمات میں سینچی گئی ۔ جس نے زندہ مسائل کے استدلال، استنباط اور اجتہاد میں قرآن وسنت کواپنایا اور شرعی احکام کی تشریح وتعبیر میں ان دونوں کو ہی ہر حال میں ترجیح دی۔ یہ تعلیمات اللہ تعالیٰ کا ایسا عطیہ ہیں جو اپنے لطف وکرم سے کسی بھی بندے کو خیر کثیر کے طور پر عطا کردیتا ہے۔ اور فقہ اسلامی قرآن وسنت کے عملی احکام کا نام ہے ۔ کچھ قرآن اور سنت کے متعین کردہ ہیں اورکچھ احکام قرآن وسنت کےاصولوں سےمستنبط کیے ہوئے ہیں ۔ ان دونوں قسم کےاحکام سےمل کرفقہ اسلامی عملی قانون بن کر سامنے آتی ہے۔ اس لحاظ سے فقہ اسلامی ہی دراصل انسانی زندگی سے ہر قدم پر اور ہر لمحہ مربوط رہتی ہے ۔ اور یہ قرآن وسنت کی روشن تعلیمات کو نمایاں کرتی ہے ۔فقہ کا علم کتاب وسنت سے سچی وابستگی کے بعد تقرب الٰہی کی صورت میں حاصل ہوتا ہے ۔ یہ علم دھول وغبار کواڑا کر ماحول کوصاف وشفاف بناتا ہے اور بعض ایسے مبہم خیالات کا صفایا کرتا ہے جہاں بظاہر کچھ ہوتا ہے اور اندرون خانہ کچھ ۔ فقہ اسلامی مختلف شبہ ہائے زندگی کے مباحث پر مشتمل ہے اس کے فہم کے بعض نابغۂ روگار متخصصین ایسےبھی ہیں جن کے علم وفضل اوراجتہادات سےایک دنیا مستفید ہوئی اور ہورہی ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ فقہ اسلامی تاریخ اور تعارف ‘‘ اسلامی فقہ کےاجمالی تعارف وتاریخ پر مشتمل پروفیسر اختر الواسع کی گراں قدر تصنیف ہے اس کتاب کو انہوں نے نوابواب میں تقسیم کیا ہے ان ابواب میں انہوں نے فقہ اسلامی کے آغاز سے لے کےموجود دور تک کی عہد بہ عہد تاریخ اور ہر عہد کی خصوصیات وخدمات فقہ اسلامی کی تعریف وتعارف ، فقہ اسلامی کے مصادر ، فقہی مسالک ، فقہی علوم وفنون، فقہی اختلاف کی حیثیت واسباب اور فقہی مسالک میں تطبیق ، اجتہاد وتقلید کی حقیقت وتعارف ، مختلف فقہی مسالک کی معروف فقہی کتابوں کا تعارف پیش کیا ہے اور آخر میں سو سے زائد مروج فقہی اصطلاحات کی فرہنگ بھی پیش کی ہے ۔یہ کتاب موضوع کی متوع ہمہ گیری کے ساتھ ساتھ متوازن ضخامت کی حامل ہے ۔ نہ تو اتنی مفصل ہےکہ مطالعہ کے لیے وقت فرصت مہیا نہ ہوسکے اور نہ اتنی مختصر کہ موضوع پر گفتگو تشنہ رہ جائے ۔کتاب کا موضوع اگرچہ خشک اور اصطلاحات سےگراں بار بھی ۔لیکن فاضل مصنف نے حتی الامکان اسے آسان زبان اور سہل اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔اور جدید اسلوب کے مطابق ضروری معلومات کےبعد ان کےحوالے درج کردیے ہیں تاکہ تفصیلی مطالعہ کےشائقین ان کی طرف رجوع کرسکیں۔(م۔ا)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔ اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات، تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت، اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں، بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام معاشی زندگی کے حوالے سے راہنما اصول مہیا کرتا ہے۔ اسلام نے ہر اس تجارت سے منع کر دیا ہے جس میں بائع یا مشتری میں سے کسی ایک کو بھی دھوکہ ہونے کا اندیشہ ہو۔ زیر تبصرہ کتاب "مچھلی کی خرید وفروخت، فقہ اسلامی کی روشنی میں" ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے نویں فقہی سیمینار مؤرخہ11 تا 14 اکتوبر 1996ء منعقدہ جامعۃ الہدایہ جے پور انڈیا میں مچھلی کی خرید وفروخت کے بارے میں پیش کئے گئے علمی، فقہی اور تحقیقی مقالات ومناقشات کے مجموعے کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
اسلام امن وسلامتی اور باہمی اخوت ومحبت کا دین ہے۔انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ اسلامی شریعت کے اہم ترین مقاصد اور اولین فرائض میں سے ہے۔کسی انسان کی جان لینا، اس کا ناحق خون بہانا اور اسے اذیت دینا شرعا حرام ہے۔کسی مسلمان کے خلاف ہتھیار اٹھانا ایک سنگین جرم ہے اور اس کی سزاجہنم ہے۔ عصر حاضر میں مسلم حکمرانوں اور مسلم معاشروں کے افراد کے خلاف ہتھیار اٹھانے ، اغوا برائے تاوان، خود کش دھماکوں اور قتل وغارت گری نے ایک خطرناک فتنے کی صورت اختیار کر لی ہے۔اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سارے جرائم اسلام اور جہاد کے نام پر کئے جارہے ہیں۔یوں تو بہت سارے زخم ہیں جو رس رہے ہيں لیکن بطور خاص عالم اسلام کو خارجی فکرو نظر کے سرطان نے جکڑ لیا ہے ۔ ہرچہار جانب تکفیر و تفریق اور بغاوت کی مسموم ہوائیں چل رہی ہیں اور سارا تانا بانا بکھرتا ہوا محسوس ہورہا ہے ۔ امت کے جسم کا ایک ایک عضو معطل، اجتماعیت اور وحدت کی دیواروں کی ایک ایک اینٹ ہلی ہوئی سی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اب تب امت کے شاندار عمارت کی کہنہ دیوار پاش پاش ہو جائےگی۔ مسلمانوں کو ہی کافر قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اسلام میں کسی کو کافر قرار دینے کے اصول وضوابط موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول وضوابط"جماعۃ الدعوہ کے مرکزی رہنما محترم مولانا مبشر احمد ربانی صاحب کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نے مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول وضوابط پر گفتگو کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے اور تمام مسلمانوں کو متحد ومتفق فرمائے۔ آمین(راسخ)
انکار حدیث اور حجیت حدیث دراصل دو موضوعات ہیں۔ انکار حدیث سے مراد حدیث کے انکار کا فتنہ ہے کہ جس کی طرف آپ ﷺ ان الفاظ میں اشارہ فرما گئے ہیں کہ میرے بعد ایک شخص پیدا ہو گا جو گاؤ تکیہ لگا کر بیٹھا ہو گا اور یہ کہے گا کہ قرآن مجید کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور جو اس میں حلال ہے، اسے حلال سمجھو۔ اور جو اس میں حرام ہے، اسے حرام قرار دو۔ پس اس کا مقصد یہ ہو گا کہ وہ لوگوں کو باور کروائے کہ قرآن مجید کے علاوہ تمہیں کسی چیز کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس چیز کو اللہ کے رسول ﷺ نے حرام ٹھہرایا ہے تو وہ بھی ویسے ہی حرام ہے جیسا کہ وہ شیء حرام ہے کہ جسے اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں حرام کہا ہے۔ یہ روایت سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن ابو داؤد اورمسند احمد وغیرہ میں موجود ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ التوبہ کی آیت 29 میں اہل کتاب یعنی یہود ونصاری کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اس کو حرام نہیں سمجھتے کہ جسے اللہ اوراس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا ہو۔ قرآن مجید کی اس آیت سے واضح طور معلوم ہواکہ کچھ چیزوں کو اللہ نے حرام قرار دیا اور کچھ کو اللہ کے رسول نے حرام قرار دیا ہے۔پس اس آیت اور روایت سے معلوم ہوا کہ اسلام کے بنیادی مصادر دو ہیں۔ قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ۔ اب جن لوگوں نے سنت رسول ﷺ کو دین کا بنیادی ماخذ ماننے سے انکار کر دیا تو وہ منکرین حدیث کہلائے اور ان کا یہ رویہ انکار حدیث کہلاتا ہے۔ پس اس امت میں کچھ لوگ تو ایسے ہو گزرے کہ جنہوں نے حدیث کا کلیتاً انکار کیا جبکہ کچھ گروہ ایسے بھی پیدا ہوئے کہ جنہوں نے بعض احادیث کو مان لیا اور بعض کا انکار کر دیا۔ اس کتابچے میں ہم نے دونوں گروہوں کے افکار کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے اگرچہ دونوں کا حکم فرق ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ “انکارِحدیث” اور “ردِ حدیث” میں فرق ہے۔ اگر آپ تحقیق کے رستے کسی حدیث کو ضعیف یا موضوع (fabricated) ثابت ہونے کی وجہ سے مردود (rejected) قرار دے رہے ہیں تو یہ رویہ درست ہے لیکن اگر آپ اصول حدیث کی روشنی میں اور ائمہ محدثین کی تحقیق کے نتیجے میں صحیح ثابت ہو جانے والی احادیث کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں تو یہ رویہ انکارِ حدیث کہلاتا ہے۔ انکار حدیث ایک جارحانہ رویہ (aggressive approach) ہے کہ جس میں پہلے سے طے ہوتا ہے کہ ہم نے حدیث کو رد کرنا ہے جبکہ حدیث کا قبول ورد ایک علمی رویہ (academic approach) ہے کہ جس میں اصولِ تحقیق ِحدیث کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کو قبول کیا جائے گا یا رد کیا جائے گا۔ انکارِ حدیث کے جواب میں جو علم مسلمانوں میں مدون ہوا، وہ حجیت حدیث کا فن تھا۔ انکارِ حدیث میں حدیث کا انکار کرنے والوں کے دلائل کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو حجیت حدیث میں حدیث کے حجت (authority) ہونے کے دعوی کے دلائل کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ پس اس کتاب میں حدیث کے بارے ان دونوں پہلوؤں کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ جہاں انکارِ حدیث کے دلائل کا تجزیہ کیا گیاہے، وہاں حدیث کی حجیت کے دلائل بھی بیان کیے گئے ہیں۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ انکارِ حدیث سلبی پہلو ہے تو حجیت حدیث ایجابی پہلو ہے۔حجیت حدیث کے پہلو سے زیادہ تر تحقیقی اورفکری جبکہ انکارِ حدیث کے حوالے سے زیادہ تر تنقیدی اور تجزیاتی ابحاث شامل کتاب کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں اس بحث کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ حدیث کی حجیت کس اعتبار سے ہے کہ حدیث تو مقطوع روایات کو بھی کہہ دیتے ہیں اور حدیث تو تاریخ کے بیان کو بھی شامل ہے اور حدیث تو غیر معمول بہ بھی ہوتی ہے وغیرہ
تحریک تجدد اور متجددین کے عنوان سے میرے کچھ مضامین ماہنامہ میثاق، لاہور میں دسمبر 2010ء سے جولائی 2011ء کے دوران پبلش ہوئے۔ یہی مضامین ماہنامہ الاحرار، ملتان میں بھی جون 2010ء سے مئی 2011ء کے دوران شائع ہوئے۔ انہی مضامین کو اب افادہ عام کے لیے کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔ اس کتاب میں مصر، برصغیر پاک وہند اور ترکی میں تجدد پسندی کی حالیہ تحریک اور افکار کا ایک مختصر اور ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں شیخ جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہ، شیخ رشید رضا، طہ حسین، توفیق الحکیم، شیخ یوسف القرضاوی، شیخ وہبہ الزحیلی، مصطفی کمال پاشا، سر سید احمد خان، غلام احمد پرویز اور پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے افکار کا مختصر انداز میں تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا اسلوب تحقیقی نہیں رکھا گیا کہ ہر اہم بات کا حواشی میں مفصل حوالہ درج کیا جائے۔ یہ کتاب دراصل مصنف کا حاصل مطالعہ ہے کہ جسے تحریر کی صورت میں ڈھال دیا گیا ہے اور مطالعہ کے مصادر کو علیحدہ سے بیان کر دیا گیا ہے۔ جب یہ مضامین مجلہ میثاق اور مجلہ الاحرار میں شائع ہوئے تھے تو اس وقت تو ترتیب یہی تھی کہ ہر مضمون کے آخر میں اس کے مصادر ومراجع بیان کر دیے جاتے تھے۔ اور اب ان تمام مضامین کے مصادر ومراجع کو آخر کتاب میں اسی عنوان سے جمع کر دیا گیا ہے۔
دین اسلام مذہب اور سیاست کے درمیان علیحدگی کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔اسلام اللہ تعالی کی جانب سے انسانوں کے تمام مادی اورروحانی معاملات میں رہنمائی کے لئے آیا ہے۔ نبی کریم ﷺنے یہی کام اپنی مبارک زندگی میں عملی طور پر کر کے دکھایا ہے۔ اسلام میں یہ عقیدہ اور تصور باہر سے آیا ہے کہ دین کی روحانی اور معنوی تعلیمات پر ایک علیحدہ طبقہ عمل کرے گا اور سیاست، نظامِ حکومت اور معاشرے کے معاملات دوسرا طبقہ سنبھالے گا۔ اسی لیے تو آپﷺاور ان کے بعد خلفائے راشدین مسلمانوں کی حکومت اور نظام کے رہنما بھی تھے اور ان کے دینی رہنماء اور امام مسجد بھی۔ تاریخِ اسلام میں جب بھی معاشرے کو سیاسی اعتبار سے مسجد اور محراب سے قیادت اور رہنمائی ملی ہے،مسلمان قوت، سر بلندی اور فتوحات حاصل کرتے رہے۔ اس کے برعکس جب بھی مسلمانوں کی سیاسی قیادت قوم پرستوں نے کی تو مسلمان ذلت اور آپسی جنگوں کا شکار ہو کر حکومت اور نظام گنوا بیٹھے۔ مذہب اور سیاست کے درمیان علیحدگی کے نظریہ کومغربی اصطلاح میں سیکولرازم بھی کہا جاتا ہے، جو کلیسا کے منحرف دین کے خلاف یورپ کی الحادی بغاوت کا نتیجہ ہے۔اس نظریے نے ایک جانب اگر یورپیوں کو کلیسا کے استبداد کے مقابلے کے لیے کھڑا کیا تو دوسری جانب یورپی استعماروں نے اسلامی دنیا میں اپنے نظریے کی اشاعت اور پھیلاؤ کے لیے مسلمانوں کو بھی اسلامی نظام کی حاکمیت سے محروم کر دیا۔اردو زبان میں تقریبا تمام اسلامی علوم پر کتب لکھی جا چکی ہیں لیکن سیاسیات پر کما حقہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلام کا سیاسی نظام" مفتی محمد سراج الدین قاسمی کی مرتب کردہ اور ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں انہوں نے اسلام کے سیاسی نظام کے موضوع پر متعدد اہل علم کے مقالات جمع کر دئیے گئے ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)آمین(راسخ)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔ اس کی اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت ہے جو دنیا کی ساری تہذیبوں اور ثقافتوں سے منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ آج مسلمانان عالم کو کسی بھی احساس محرومی میں مبتلاہوئے بغیر اس سچائی ودیانت پر ڈٹ جاناچاہئے کہ درحقیقت اسلامی تہذیب اور قرآن و سنت کے اصولوں سے ہی دنیاکی دیگر اقوام کی تہذیبوں کے چشمے پھوٹے ہیں۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ مغربی و مشرقی یورپی ممالک اس حقیقت اور سچائی کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں اور الٹا وہ اس حقیقت سے کیوں منہ چراتے ہیں۔ تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے جو اسم بھی ہے اور شائستگی اور خوش اخلاقی جیسے انتہائی خوبصورت لفظوں کے مکمل معنوں کے علاوہ بھی کسی درخت یا پودے کو کاٹنا چھاٹنا تراشنا تا کہ اس میں نئی شاخیں نکلیں اور نئی کونپلیں پھوٹیں جیسے معنوںمیں بھی لیاجاتاہے ا ور اسی طرح انگریزی زبان میں تہذیب کے لئے لفظ ”کلچر“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ میرے خیال سے آج دنیا کو اس سے بھی انکار نہیں کرناچاہے کہ ”بیشک اسلامی تہذیب و تمدن سے ہی دنیا کی تہذیبوں کے چشمے پھوٹے ہیں جس نے دنیاکو ترقی و خوشحالی اور معیشت اور سیاست کے ان راستوں پر گامزن کیا ہے کہ جس پر قائم رہ کر انسانی فلاح کے تمام دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ مورخین نے یہ بھی تسلیم کیاہے کہ اکثر قدیم علوم و فنون بھی مسلمانوں اور اسلامی تہذیب سے ہی یورپ کے لوگوں تک پہنچے ہیں کیوں کہ مشرقی یورپ و مغربی یورپ کی تہذیبوں سمیت چینیوں اور ہندووں کی تہذیبیں بھی ایک دوسرے کی تہذیبوں کو اتنا متاثر نہیں کرپائیں۔ جتنا اسلامی تہذیب نے ان سب کو متاثرکیا ہے کیوں کہ اسلامی تہذیب نے ایک ایسے عالمگیر ضابطہ حیات قرآن کریم فرقان حمید کی روشی میں تشکیل پائی ہے جو رہتی دنیاتک بنی انسان کے لئے سرچشمہ ہدایت ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "عالمی تہذیب وثقافت پر اسلام کے اثرات" محترم محمود علی شرقاوی صاحب کی عربی تصنیف ہے جس کا اردو ترجمہ محترم صہیب عالم اور محترم نجم السحر ثاقب نے کیا ہے۔ اللہ تعالی ان کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین (راسخ)
آج روئے زمین پر واحد دین اسلام ہے جو اپنی اصل حالت میں باقی ہے جس کی تعلیمات زندہ ہیں جس کے مآخذ دستیاب ہیں اور جس کے پاس نبی کریم محمد رسول اللہ جیسی ہستی نمونہ عمل کے لیے ہے ۔ انسانی اذہان کے پیدا شدہ افکار ونظریات دم توڑ چکے ہیں اور اب آنے والا دور اسلام کا دور ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا فیصلہ آنے والی تاریخ کرے گی۔یورپ اور امریکا جیسی مادیت پرست دنیا میں اسلام کی روز افزوں ترقی اس کا واضح ثبوت ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’اسلام اور عصر جدید‘‘ کی جناب محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کے اسلام اور عصر جدید کے متعلق تحریر گئے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتاً وقتاً مختلف رسائل میں اشاعت پذیر ہوئے۔ان مضامین میں انہوں نے مسلمانوں کی توجہ عہد جدید کی روشن حقیقتوں کی طرف مبذول کروائی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام انسانوں کا واحد دین ، نبی کریم ﷺ انسانی زندگی کےواحد رہبر اور قرآن انسانی ہدایت کی کامل کتاب ہے ۔اسلام ایک عالمگیر دین ہے یہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے فریضہ ہے کہ وہ گمراہ انسانیت کو ان کی دولت بے پایاں اور متاع گم گشتہ سےآگاہ کریں۔(م۔ا)
اسلامی تعلیمات کا یہ اعجاز ہے کہ ان کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے میں انتہائی اعلیٰ درجے کے افراد پیدا ہوئے۔ چنانچہ اسلامی تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ مختلف ادوار میں بے مثال کردار اور خوبیاں رکھنے والے حکمران،علماء، سپہ سالار اور ماہرین فن موجود رہے،جن پر آج بھی انسانیت کا سر فخر سے بلند ہے۔ لیکن افسوس کہ بعض غیر محتاط اور متعصب مؤرخین نے اسلامی تاریخ کو اس طرح بگاڑا ہے کہ آج کی نئی نسل اپنے اسلاف سے بد ظن ہو چکی ہے اور ان کی روشن تاریخ کو اپنے ہی منہ سے سیاہ قرار دینے لگی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’صالحین کرام کے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات‘‘ مولانا ابومسعود عبدالجبارسلفی﷾ تاریخی معلومات پر مشتمل بڑی ہی دلچسپ کاوش ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں ہمارے اسلاف کی شجاعت وبسالت، رافت ورحمت، فہم وفراست، جودوسخا، بدل وعطا، عفووحلم، حق گوئی وبیباکی، ہمدردی و غمگساری کے دلچسپ بے نظیر واقعات کو ایسے دل کش ادبی اسلوب میں بیان کیا ہے کہ قارئین ان واقعات کو اطمینان سے پڑھے بغیرسونا پسند نہ کریں اور انہیں یقین ہوجائے گایقیناً ہمارے اسلاف کے اندر یہی وہ خوبیاں تھیں جنہیں سن کر قیصر و روم اوراس کا فوجی دربار جھوم اٹھا تھا اور مان گیا تھا کہ یقیناً ان کی فتوحات کا سبب ان کی یہی خوبیاں ہیں۔ (م۔ا)