حضرت ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کی امارت حضرت عمر کواس وقت سونپی گئی جب حضرت ابو بکر فتنہ ارتدار کا استیصال کرچکے تھے اور اسلامی فوجیں عراق وشام کی سرحدوں پر ایران اور روم کی طاقتوں سے نبرد آزما تھیں لیکن جب حضرت عمر ؓ کی وفات ہوئی تو عراق وشام کلیۃً اسلامی سلطنت کے زیر اقتدار آچکے تھے ،بلکہ وہ ان سے گزر کر ایران او رمصر میں بھی اپنے پرچم لہرا چکی تھی جس کی وجہ سے اس کی حدوو مشرق میں چین مغرب میں افریقہ ،شمال میں بحیرہ قزوین اورجنوب میں سوڈان تک وسیع ہوگئی تھیں۔سیدنا فاروق اعظم کی مبارک زندگی اسلامی تاریخ کاوہ روشن باب ہے جس نےہر تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آپ نے حکومت کے انتظام وانصرام بے مثال عدل وانصاف ،عمال حکومت کی سخت نگرانی ،رعایا کے حقوق کی پاسداری ،اخلاص نیت وعمل ،جہاد فی سبیل اللہ ،زہد وعبادت ،تقویٰ او رخوف وخشیت الٰہی او ردعوت کے میدانوں میں ایسے ایسے کارہائےنمایاں انجام دیے کہ انسانی تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ انسانی رویوں کی گہری پہچان ،رعایا کے ہر فرد کے احوال سے بر وقت آگاہی او رحق وانصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کر نےکے اوصاف میں کوئی حکمران فاروق اعظم کا ثانی نہیں۔ آپ اپنے بے پناہ رعب وجلال اور دبدبہ کے باوصف نہایت درجہ سادگی فروتنی اورتواضع کا پیکر تھے ۔ آپ کا قول ہے کہ ہماری عزت اسلام کے باعث ہے دنیا کی چکا چوند کے باعث نہیں۔ سید ناعمر فاروق کے بعد آنے والے حکمرانوں میں سے جس نے بھی کامیاب حکمران بننے کی خواہش کی ،اسے فاروق اعظمؓ کے قائم کردہ ان زریں اصول کو مشعل راہ بنانا پڑا جنہوں نے اس عہد کے مسلمانوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔ سید نا عمر فاروق کے اسلام لانے اور بعد کے حالات احوال اور ان کی عدل انصاف پر مبنی حکمرانی سے اگاہی کے لیے مختلف اہل علم اور مؤرخین نے کتب تصنیف کی ہیں۔اردو زبان میں شبلی نعمانی ، ڈاکٹر صلابی ، محمد حسین ہیکل ،مولانا عبد المالک مجاہد(ڈائریکٹر دار السلام) وغیرہ کی کتب قابل ذکر ہیں ۔زیر نظر کتاب ’’سیدنا حضرت عمر فاروق‘‘ محمد حسین ہیکل کی کتاب الفاروق کا ترجمہ ہے ۔اس میں مصنف نے حضرت عمر فاروق کے عہد جاہلیت سے وفات کے حالات واقعات کو پچیس ابو اب میں تقسیم کر کےاس انداز سے بیان کیا ہے کہ جس سے حضرت عمر فاروق کے تفصیلی حالات ایک جگہ مرتب ہوگئے ۔اللہ تعالی مصنف ومترجم کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)
فی زمانہ کسی بھی بین الاقوامی اجتماع میں جب تمام مذاہب کے ماننے والوں کو جمع کیا جاتا ہے تو مشترکہ طور پر اس اجتماع کا پیغام یہ ہوتا ہے کہ ’’ تمام مذاہب یکساں اور بر حق ‘‘ ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی پیروی سے کا ٰئنات کے خالق اللہ رب العالمین کی رضا اور خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے۔لہذا کسی ایک مذہب والے (خصوصاٌ اھل اسلام) کا اس بات پر اصرار کے اب تا قیا مت نجات کی سبیل صرف ہمارا دین و مذہب ہے یہ ایک بے جا سختی اور تشدد یا انتہا پسندی ہے، جس کا خاتمہ از حد ضروری ہے۔پھر اس’’ نظریہ وحدت ادیان‘‘ کی تفصیل کچھ یوں بیا ن کی جاتی ہے کہ ’’ جب منزل ایک ہو تو راستوں کے جدا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘ یعنی ہر مذہب والا ایک بزرگ و بر تر ذات کی بات کرتا ہے جسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ، کبھی اللہ تو کبھی بھگوان اور کبھی God جبکہ حقیقتاٌ تمام مذاہب اللہ کی بندگی اور خوشنودی حاصل کرنے کے ذرائع ہیں ، اس لئے ہر مذہب میں حق و انصاف ، انسان دوستی اور انسانی بھائی چارے کی تعلیم دی گئی ہے لھذا تمام انسانوں کو تمام مذاہب کا برابر کا احترام کرنا چاہیے، کسی ایک مذہب یا دین کی پیروی پر اصرار تشدد اور بے جا سختی ہے ، وغیرہ وغیرہ۔صاحب علم و صاحب مطالعہ حضرات یقیناًاس بات سے اتفاق کرینگے کہ یہ ’’نظریہ وحدت ادیان ‘‘ ایک جدید اصطلاح ہے جسے اسلام دشمن عناصر نے یا احباب نما اغیار نے ایجاد کیا ہے۔اور یہ ایک انتہائی اور اسلام مخالف اصطلاح ہے ،جس کا اسلام نے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔چنانچہ متعدد اہل علم میدان میں آئے اور انہوں نے اس باطل نظرئیے کا مدلل اور مسکت جواب دیا۔جن میں سے مولانا سلطان احمد اصلا حی کی کتاب ’’وحدت ادیان کا نظریہ اور اسلام ‘‘ بہت مفید دکھائی دیتی ہیں۔شیخ امین اللہ پشاوری نے بھی اپنے فتاویٰ ’’الدین الخالص‘‘ مجلہ نمبر ۹ میں گرفت فرمائی ہے۔شیخ ابن بازؒ نے بھی علمی انداز سے نکیر فرمائی ہے جسے ’’مجموع فتاویٰ و مقالات متنوعہ ‘‘ کی جلد نمبر ۲ میں دیکھا جا سکتا ہے ۔انہی کوششوں میں سے ایک یہ کاوش ڈاکٹر بکر ابو زید کی کتاب ’’الابطال لنظریۃ الخلط بین الادیان‘‘ ہے، جس کا اردو ترجمہ " اسلام کےساتھ یہودیت اور عیسائیت کی وحدت کے باطل نظریات کا رد "پاکستان کے معروف عالم دین مولانا ارشاد الحق اثری نے کیا ہے۔مولف نے اس کتاب میں اس باطل نظریئے کی ابتداء ،اس کے علم بردار اور اسے فروغ دینے والوں کو منکشف کرتے ہوئے قرآن وحدیث سے اس کا رد کیا ہے۔اللہ تعالی ان کی ان مبارک کوششوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ بڑا طویل اورالمناک ہے ۔مسلمان پہلے صرف ایک امت تھے ۔ پہلے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ کر ایک شخص مسلمان ہوسکتا تھا لیکن اب اس کلمہ کے اقرار کے ساتھ اسے حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی بھی ہونے کا اقرار کرنا ضروری ہوگیا ہے ۔ضرورت اس امر کی مسلمانوں کو اس تقلیدی گروہ بندی سے نجات دلائی جائےاور انہیں براہ راست کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دی جائے ۔اہل حدیث تحریک در اصل مسلمانوں کوکتاب وسنت کی بنیاد پر اتحاد کی ایک حقیقی دعوت پیش کرنےوالی تحریک ہے۔زیر نظر کتابچہ ’’ مسلک اہل حدیث پرایک نظر ‘‘ برصغیر کے ایک جید عالم دین مولانا ابو القاسم بنارسی کے 1943ء میں ضلع الہ آباد میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرس کے اجلاس میں صدر ِاجلاس کی حیثیت سے جو صدارتی خطبہ ارشاد فرمایا اس کی کتابی صورت ہے جس میں مولانا مرحوم نے اہل حدیث کی تعریف اور تاریخ کو بڑے احسن انداز میں دلائل کےساتھ پیش کیا ہے ۔ مولانا موصوف کا شمار بر صغیر کے کبار وفحول علماء ہوتاہے ۔ آپ نے تدریسی ،تحریری، اور تقریری میدان میں جو خدمات انجام دیں ان کے نقوش تاریخ کےصفحات میں محفوظ ہیں اور جماعت اہل حدیث کے لیے سرمایہ افتخار ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی مساعی جمیلہ کوشرف قبولیت سے نوازے (آمین) (م۔ا )
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی ملک کے طالب علم ہی اس کا بہترین سرمایہ اور اس کے درخشاں مستقبل کی ضمانت ہوتے ہیں۔علم وجہِ فضیلت ِآدم ہے علم ہی انسان کے فکری ارتقاء کاذریعہ ہے ۔ علم ہی کے ذریعے سے ایک نسل کے تجربات دوسری نسل کو منتقل ہوتے ہیں۔سید الانام خیر البشر حضرت محمد ﷺ کو خالق کائنات نے بے شمار انعامات وامتیازات سے سرفراز فرمایا تھا مگر جب علم کی دولت سے سرفراز فرمانے کا ارشاد گرامی ہوا تو اسے ’’ فضلِ عظیم‘‘ قرار دیا ارشاد ربانی ہے :وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا(النساء:113)اسلام حصول علم کےلیے جس راہ کو متعین کرتا ہے وہ تعلیم وتربیت کا آمیزہ ہے فکر وعمل کی راستگی اسلام کا حقیقی مطلوب ’’علم ‘‘ ہے زیر نظر کتاب ’’ مسلمان طالب علم ‘‘ محترم جناب محمد عاشق بھٹی کی قابلِ ستائش فکر ی کاوش ہے ۔ جس میں انہوں نے ایک مسلمان طالب علم کی خصوصیات کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ دل نشیں انداز میں وعظ وتلقین بھی فرمائی ہے ۔اللہ تعالی ان کی کاوش کو قبول فرمائے اور اسے افادۂ عام کاذریعہ بنائے (آمین)(م۔ا)
اللہ تعالیٰ اور نبی کریم ﷺ نے بازار کو ناپسندیدہ ترین جگہ قرار دیا ہے ۔کیونکہ بازار جھوٹ ،فریب، دھوکہ بازی اور فتنہ اور شیطان کےانڈے دینےاور بچے دینے کی جگہ ہے جیسے سیدنا سلمان فارسی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’توبازار میں سب سے پہلے داخل ہونے والا نہ ہو اور نہ ہی اس سے سب سے آخر میں نکلنے والا،اس لیے کہ اس میں شیطان انڈے اور بچےدیتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم :4251)اور اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ:’’تمام جگہوں میں سے اللہ کی محبوب ترین جگہیں مساجد ہیں اور اللہ کی سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں۔‘‘(صحیح مسلم:430)اس لیے فضول بغیرکسی ضرورت کے بازاروں میں جاکر اپنا ٹائم ضائع کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور بالخصوص اور عورتوں کا آزادانہ بے پردہ ہوکر بغیر محرم کے بازاروں میں جانا فتنے سے خالی نہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’ عورتیں اور بازار ‘‘معروف مبلغہ ،مصلحہ،مصنفہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی کاوش ہے ۔ جس میں انہوں نے عور توں کا بے پردہ ہوکر ،زیب وزینت کر کے بازار میں جاکر خریداری کرنے کے نقصانات اور خرابیوں اور دور حاضر میں بازاروں میں پائے جانے والے موجود فتنوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔خواتین کے لیے اس کتابچہ کا مطالعہ انتہائی مفید ہے ۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن،لاہور میں بمع فیملی مقیم رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔(آمین) (م۔ا)
اللہ تعالی نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے، اور اسے ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی اس فطرت پر قائم رہے جس پر اسے بنایا گیا ہے۔اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ساخت اور فطرت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کرنا ممنوع اور حرام ہے۔نبی کریم ﷺنے ایسی عورتوں لعنت فرمائی ہے جو اللہ تعالی کی ساخت میں تبدیلی کرتی ہیں۔تاہم اس حکیم وخبیر شارع نے جسم کو صاف ستھرا رکھنے اور صحت کے تحفظ کے لئے چند ایسی چیزوں کو ختم کرنے کی اجازت دے دی ہے ،جنہیں ہم طبی زبان میں "جلد کے لاحقے " کہتے ہیں۔ان کے خاتمے کو عین فطرت اور سنتیں قراردیا گیا ہے۔مثلا ناخن کاٹنا،زیر ناف اور زیر بغل بالوں کو نوچنا،مونچھیں تراشنا اور مرد کے عضو تناسل کی سپاری کے سرے کو ڈھانکنے والے کھال کے ٹکڑے کو ،جسے قلفہ کہا جاتا ہے کاٹنا۔اگر ان چیزوں کی صفائی کو نظر انداز کر دیا جائے تو بہت ساری بیماریوں کے پھیلنے کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔صفائی ستھرائی کے انہی امور میں سے ایک لڑکیوں کا ختنہ کرنابھی ہے،جس کا احادیث نبویہ میں کچھ تذکرہ آتا ہے،لیکن مولف کے نزدیک ان احادیث کی سند کمزور ہے۔زیر تبصرہ کتاب(لڑکوں اور لڑکیوں کے ختنے کا شرعی حکم) کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے لڑکوں اور لڑکیوں کے ختنے کے حوالے سے وارد احادیث نبویہ کی استنادی حیثیت پر ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا ہے کہ شریعت میں ان کا کیا حکم ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول ومنظور فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن کریم ہمارے لیے اصل ایما ن اور مسلمانوں کے لیے سرچشمہ ہدایت ہے ا، انسانیت کے لیے ایک دائمی دستور حیات ہے اورکائنات کے لیے ایک مینارۂ نور ہے جس کی روشنی ہمیشہ قائم رہنے والی ہے ۔ اور جس کی روشنی سے وہ قلوب منور ہوتے ہیں جو ایمان کی لذت سے آشنا ہیں-قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔اسے پڑھنے اور سمجھنے کا شعور اس وقت تک پیدار نہیں ہوتا جب تک اس کی اہمیت کا احساس نہ ہو۔کسی بھی اسلامی ادارے ،اسلامی درس گاہ کا نصابِ تعلیم بغیر قرآن کریم کے کبھی بھی مکمل نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم کی تفسیر ،ترجمہ،معانی ومفہوم کی تدریس جس نصاب تعلیم کا جزو ہو اس نصاب تعلیم کا کامیاب ہونا او رنصاب تعلیم کےپڑہنے والوں کاباسعادت ہونا یقینی ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’مدارس کے نصاب میں تعلیم میں قرآن کریم کا مقام اوراس کا منہج تدریس‘‘2005ء صفا شریعت کالج(انڈیا) کی طرف سے منعقدکیے جانے والے سیمینار میں تمام مکتب فکر کی طرف سے پیش کیے گئے 32 مقالات کا مجموعہ ہے ۔اس سیمینار میں افتتاحی خطاب ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی (ندوۃ العلماء لکھنو) او رصدارتی کلمات جامعہ سلفیہ ۔بنارس کے صدر ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہر ی نے پیش کیے ۔ صفا شریعت کالج کے مدیر رفیق احمد سلفی نے ان مقالات کی افادیت کے پیش نظر انہیں مرتب کرکے شائع کیا ۔ اللہ تعالیٰ صفا شریعت کالج کے ذمہ دران کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے طالبان ِعلوم نبوت کے لیے مفید بنائے ( آمین) ( م۔ا)
انبیاء کرام ؑ کی عصمت کاعقیدہ رکھنا ضروریات دین میں سے ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی جھول ایمان کے لئے خطرناک ہوسکتی ہے۔شاہ اسماعیل شہید عصمت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔:عصمت کامعنیٰ یہ ہے کہ انبیاء کرام کے اقوال وافعال، عبادات وعادات، معاملات ومقامات اوراخلاق واحوال میں حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کی بدولت اُن کومداخلتِ نفس وشیطان اورخطاونسیان سے محفوظ رکھتا ہے اورمحافظ ملائکہ کو ان پر متعین کردیتا ہے تاکہ بشریت کاغُبار اُن کے پاک دامن کو آلودہ نہ کردے اورنفس بہیمیہ اپنے بعض اموراُن پر مسلّط نہ کردے اور اگر قانون رضائے الٰہی کے خلاف اُن سے شاذ ونادر کوئی امرواقع ہو بھی جائے تو فی الفور حافظ حقیقی(اللہ تعالیٰ)اس سے انہیں آگاہ کردیتا ہے اور جس طرح بھی ہوسکے غیبی عصمت ان کوراہ راست کی طرف کھینچ لاتی ہے‘‘(منصب امامت:۷۱) زیر تبصرہ کتاب "عصمت انبیاء"جماعت اہل حدیث کے مایہ ناز داعی اور معروف عالم دین مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی کاوش ہے ،جو انہوں نے عیسائی پادری مسٹر جیمس منرو کی کتاب "عدم معصومیت محمد" کے جواب میں لکھی ہے۔عیسائی پادری نے اپنے عیسائی مذہب کے مطابق اس کتاب میں نبی کریمﷺسمیت تمام انبیاء کی عصمت کا انکار کیا ہے،اور اپنے اس عیسائی مذہب کی تائید میں قرآن مجید کی بعض آیات مبارکہ اور احادیث نبویہ سے استدلال کیا ہے ،چنانچہ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے اس کا ایک مدلل اور مسکت جواب لکھ کر اس کا منہ بند کر دیا ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
انسان اپنی فطری ،طبعی، جسمانی اور روحانی ساخت کے لحاظ سے سماجی اور معاشرتی مخلوق ہے ۔یہ اپنی پرورش،نشو ونما،تعلیم وتربیت،خوراک ولباس اور دیگر معاشرتی ومعاشی ضروریات پور ی کرنے کے لیے دوسرے انسانوں کا لازماً محتاج ہوتا ہے ۔یہ محتاجی قدم قدم پر اسے محسوس ہوتی او رپیش آتی ہے۔ اسلام ایک دین فطرت ہے اس لیے اس نے اس کی تمام ضروریات اور حاجات کی تکمیل کاپورا بندوبست کیا ہے۔ یہ بندو بست اس کےتمام احکام واوامر میں نمایا ں ہے ۔ اسلام نے روزِ اول سے انبیاء کرام کے اہم فرائض میں اللہ کی مخلوق پر شفقت ورحمت او ران کی خدمت کی ذمہ داری عائد کی ۔اس ذمہ داری کو انہوں نے نہایت عمدہ طریقہ سے سرانجام دیا ۔اور نبی کریم ﷺ نے بھی مدینہ منورہ میں رفاہی، اصلاحی اور عوامی بہبود کی ریاست کی قائم کی ۔زیر نظر کتابچہ ’’ خدمت خلق قرآنی تعلیمات کی روشنی میں‘‘مولانا امیر الدین مہر کا مرتب شدہ ہے جس میں انہوں نے مختلف طبقات کے حقوق اوران کی ادائیگی سے متعلق قرآنی احکام کونہایت عمدہ اسلوب میں بیان فرمایا ہے ۔اللہ تعالی مولانا کی اس کوشش کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
عصر حاضر کے جدید مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ فوٹو گرافی یا عکسی تصاویر کا بھی ہے، جسے عربی زبان میں صورۃ شمسیہ کہا جاتا ہے، جو دور حاضر میں انسانی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔آج کوئی بھی شخص جو فوٹو گرافی کو جائز سمجھتا ہو یا ناجائز سمجھتا ہو ،بہر حال اپنی معاشی ،معاشرتی اور سماجی تقاضوں کے باعث فوٹو بنوانے پر مجبور ہے۔اس مسئلہ میں اگر افراد کے اذہان ورجحانات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت دو متضاد انتہاؤں پر پائی جاتی ہے۔کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہر قسم کی تصاویر ،عکسی تصاویر اور مجسموں کو سجاوٹ اور (مذہبی اور غیر مذہبی)جذباتی وابستگی کے ساتھ رکھنے اور آویزاں کرنے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج محسوس نہیں کرتے ہیں۔ان میں عام طور پر وہ لوگ شامل ہیں جن کا دین سے کوئی بھی تعلق برائے نام ہی ہے۔جبکہ دوسری انتہاء پر وہ لوگ پائے جاتے ہیں ،جو ہر قسم کی تصاویرخواہ وہ ہاتھ سے بنائی گئی ہوں یا مشین اور کیمرے کے ذریعے سے،انہیں مطلقا حرام سمجھتے ہیں ،مگر اس کے باوجود قومی شناختی کارڈ،پاسپورٹ ،کالج اور یونیورسٹی میں داخلے کا فارم اور بعض دیگر امور کے لئے بھی عکسی تصاویر بنواتے اور رکھتے ہیں۔ زیر تبصرہ مضمون " عکسی تصاویر یا فوٹو کی شرعی حیثیت " ابو الوفاء محمد طارق عادل خان﷾ کی کاوش ہے جس میں انہوں تصویر سازی سے متعلق ایک شاندار بحث کی ہے اور اس موضوع کو تین بنیادی اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ان کے مطابق بعض تصاویر حرام ،بعض مکروہ اور بعض مباح یعنی جائز ہیں ۔اور پھر ہر قسم پر قرآن وحدیث سے استدلال کیا ہے۔یہ اپنے موضوع پر ایک مفید بحث ہے۔اللہ تعالی اس کے مولف کو جزائے خیر سے نوازے۔اس موضوع پر مزید استفادہ کے لیے ماہنامہ محدث ،لاہور کا تصویر نمبر(جون 2008) ملاحظہ فرمائیں(راسخ)
اسلام امن وسلامتی کا دین ہے ۔اسلام کے معنی اطاعت اور امن وسلامتی کے ہیں ۔یعنی مسلمان جہاں اطاعت الٰہی کا نمونہ ہے وہاں امن وسلامتی کا پیکر بھی ہے ۔ اسلام فساد اور دہشت گردی کو مٹانے آیا ہے ۔دنیا میں اس وقت جو فساد بپا ہے اس کا علاج اسلام کے سوا کسی اور نظریہ میں نہیں ۔ بد قسمتی سے فسادیوں اور دہشت گردوں نے اسلام کو نشانہ بنایا ہے اور اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے اس مہم کا جواب ضروی ہے ۔یہ جواب فکر ی بھی ہونا چاہیے اورعملی بھی۔زیر نظر کتاب ’’ اسلام اور دہشت گردی‘‘ محترم ڈاکٹر خالد علوی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے اختصار کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہےکہ اسلام امن ہے اور کفر فساد ودہشت گردی ہے ۔اللہ تعالی عالم ِاسلام اور مسلمانوں کو کفار کی سازشوں اور فتنوں سے محفوظ فرمائے (آمین)(م۔ا)
نماز دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔قیامت کےدن سب سے پہلے اس کے متعلق باز پرس ہوگی اس ذمہ داری سے عہدہ برآہ ہونے کےلئے کچھ لوازمات وارکان اور شرائط ہیں ان میں سے قیام اور قراءت سورۂفاتحہ سر فہرست ہیں ان کی ادائیگی کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔نماز میں بحالت رکوع شامل ہونے والا ان دونوں سے محروم رہتا ہے۔ لہذا اس حالت میں امام کے ساتھ شامل ہونے والے کو رکعت دوبارہ اداکرنا ہوگی چنانچہ حدیث میں ہے۔:'' کہ جس قدر نماز امام کے ساتھ پاؤوہ پڑھ لو اور جو (نماز کا حصہ) رہ جائے اسے بعد میں پورا کرلو۔(صحیح بخاری )اہل علم کے ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے ۔زیر نظر کتابچہ ’’ اتمام الخصوع باحکام مدرک الرکوع ‘‘ شیخ الحدیث مولانا محمد یونس قریشی کی کاوش ہے جس میں انہوں احادیث اور کبار علماء اہل حدیث کے فتاویٰ جات کو پیش کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ نماز میں بحالت رکوع شامل ہونے والے شخص کی رکعت نہیں ہوتی ۔اللہ تعالی اس کتابچہ کوعوام الناس کے لیے مفید بنائے آمین) (م ۔ا )
بلاشبہ دنیا کی تاریخ میں عہد نبویﷺ سیاسی ،دینی اور اقتصادی اعتبار سے ممتاز ہے نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کےمختلف گوشوں پر سیرت نگاروں نے کاوشیں کی ۔ کتب احادیث بھی آپ ﷺہی کے کردار کا مرقع ہیں ۔عبادات ومعاملات ،عقائدوغزوات اور محامد وفضائل ،کو نسا باب اور فصل آپ کےتذکرے سے مزین نہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی حیات پاکیزہ سے متعلق صدہا مصنفینِ اسلام نےقابل قدر تصانیف لکھی ہیں اور اس کثرت سے لکھی ہیں کہ آج تک کسی علمی یا ادبی موضوع پر اس قدر سیر حاصل کتابیں نہیں کی گئیں۔ سیرت مقدسہ کی ا ن کتابوں میں مصنفین نے جہاں رسول اکرم ﷺ کی پاک زندگی کے مختلف گوشوں پر پوری شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔اسی کے ذیل میں انہوں نے آپ کے ان فرامین مکاتیب عالیہ کابھی ذکر کیا ہے جو مختلف حالات کے زیر اثر دنیا کےمختلف حصوں میں ارسال کئے گئے۔ سیرت مقدسہ کی کوئی تصنیف مکاتیب النبیﷺ سے خالی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’بلاغ المبین یعنی مکاتیب سید المرسلین‘‘ہندوستان کے معروف عالم دین مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی تصنیف ہے ۔ مصنف موصوف نے اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے حصہ اول اصول تبلیغ ،حصہ ثانی فرامیں سید المرسلین ،حصہ ثالث :نتائج وعبر۔ کتاب کادوسراحصہ بہت زیاد ہ مہتم بالشان ہے۔ اس میں آپ ﷺ کے ان فرامین مقدسہ کوجمع کیا گیا ہے جو آپ نے دنیا کے مختلف بادشاہوں کے نام روانہ فرمائے تھےاو ر ان فرامین کے ساتھ ان سے متعلق تاریخی وحدیثی حالات کو بیان کیاگیا ہے ۔(م۔ا)
دین کی سہولت اور نبی کریم ﷺکےآسانی کرنے کے مظاہر دین کے ہرگوشے میں ہیں ۔اعتقادات،عبادات اورمعاملات کو ئی پہلو اس سے خالی نہیں۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے بیت اللہ کا حج ہے ۔بیت اللہ کی زیارت او رفریضۂ حج کی ادائیگی ہر صاحب ایمان کی تمنا اور آرزو ہے ہر صاحب استطاعت اہل ایمان کے لیے زندگی میں ایک دفعہ فریضہ حج کی ادائیگی فرض ہے ۔ا ور اس کے انکار ی کا ایمان کامل نہیں ہے اور وہ دائرہ اسلام سےخارج ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی عطاہ کردہ اور نبی کریم ﷺ کی بیان کردہ آسانیاں کثرت سے موجود ہیں ۔حج کےآغازہی میں آسانی ہے حتی کہ اس کی فرضیت صرف استطاعت رکھنے والے لوگوں پر ہے۔اس کے اختتام میں بھی سہولت ہے ۔مخصوص ایام والی عورت کی روانگی کا وقت آجائے تو طواف کیے بغیر روانہ ہوجائے۔ایسا کرنے سے نہ اس کے حج میں کچھ خلل ہوگا او رنہ ہی اس پر کوئی فدیہ لازم آئے گا۔اللہ کریم نےاپنے دین کو سراپا آسانی بنانے اور آنحضرت ﷺ کوسہولت کرنے والا بناکر مبعوث کرنے پر ہی اکتفا نہیں ،بلکہ امتِ اسلامیہ کو بھی آسانی کرنے والی امت بناکر بھیجا جیساکہ ارشاد نبوی ہے : فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ، وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ (صحیح بخاری :6128)’’ یقیناً تم آسانی کرنے والے نبا کر بھیجے گئے ہو ،تنگی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے‘‘۔ اجر وثواب کے لحاظ سے یہ رکن بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے تمام كتب حديث وفقہ میں اس کی فضیلت اور احکام ومسائل کے متعلق ابو اب قائم کیے گئے ہیں اور تفصیلی مباحث موجود ہیں ۔حدیث نبویﷺ ہے کہ آپ نےفرمایا الحج المبرور لیس له جزاء إلا الجنة ’’حج مبرور کا ثواب جنت سوا کچھ اور نہیں ۔مگر یہ اجر وثواب تبھی ہےجب حج او رعمر ہ سنت نبوی کے مطابق اوراخلاص نیت سے کیا جائے ۔اور منہیات سےپرہیز کیا جائے ورنہ حج وعمرہ کےاجروثواب سےمحروم رہے گا۔حج کے احکام ومسائل کے بارے میں اردو و عربی زبان میں چھوٹی بڑی بیسیوں کتب بازار میں دستیاب ہیں اور ہر ایک کا اپنا ہی رنگ ڈھنگ ہےزیرنظر کتاب ’’حج وعمرہ کی آسانیاں‘‘ شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر کے برادرگرامی محترم ڈاکٹر فضل الٰہی ﷾(مصنف کتب کثیرہ) کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے نہایت عمدہ اسلوب کے ساتھ حج وعمرہ کی آسانیوں کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔اور کتاب کو تیرہ حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصہ سے متعلقہ آسانیاں کی بیان کردی ہیں جن کی مجموعی تعداد ایک سو چار ہےان میں سے ہر ایک آسانی مستقل عنوان کےضمن میں پیش کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی اس منفرد کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
علم حدیث کی قدر ومنزلت اور شرف وقار صرف اس لیے ہےکہ یہ شریعت اسلامی میں قرآن پاک کے بعد دوسرا بڑا مصدر ہے ۔علم حدیث ارشادات واعمال رسول اللہ ﷺ کامظہر اور نبی کریم ﷺ کی پاکیزہ زندگی کا عملی عکس ہے جو ہر مسلمان کی شب وروز زندگی کے لیے بہترین نمونہ ہے ۔جس طرح کسی بھی زبان کو جاننے کےلیے اس زبان کے قواعد واصول کو سمجھنا ضروری ہے اسی طر حدیث نبویﷺ میں مہارت حاصل کرنےکے لیے اصول حدیث میں دسترس اور اس پر عبور حاصل کرناضروری ہے اس علم کی اہمیت کے پیش نظر ائمہ محدثین اور اصول حدیث کی مہارت رکھنےوالوں نے اس موضوع پر کئی کتب تصنیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ علو م حدیث ‘‘ لبنان کے پروفیسر ڈاکٹر صبحی صالح کی عربی تصیف ’’مباحب فی علوم الحدیث‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔ مؤلف موصوف نے اس کتاب میں اصول حدیث سے متعلق جملہ امور پر سیر حاصل بحث کی ۔طریق بحث میں قدیم وجدید اسلوب کاا متزاج ہے اور اجتہادی شان نمایاں ہے ۔علاوہ اازیں اس میں مستشرقین اور منکرین حدیث کے پھیلائے ہوئے شکوک وشبہات کا شافی وکافی جواب دیا گیا ہے۔ الغرض اپنے موضوع پر یہ ایک جامع کتاب ہے اور تدریسی نقظۂ نظر سے بہت مفید ہے۔ مولانا محمد رفیق چودھری﷾ نے اسے طلبائے علوم اسلامیہ اور اردو خوان طبقے کےلیے آسان ، رواں اور سلیس ترجمہ کی صورت میں پیش کیا ہے ۔اللہ تعالی مترجم ومصنف کے کاوشوں کوشرف قبولیت سے نوازے (آمین) م ۔ا
حدوداللہ سےمراد وہ امور ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے حلت وحرمت بیان کردی ہے اوراس بیان کے بعد اللہ کے احکام اورممانعتوں سے تجاوز درست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حددو سے تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ پر ظلم کرنے والا قرار دیا ہے اور ان کے لیے عذاب مہین کی وعید سنائی ہے ۔زیر نظر کتاب ’’حددو کی حکمت نفاذ اور تقاضے‘‘معروف مبلغہ ،مصلحہ،مصنفہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے حد کی لغوی واصطلاحی تعریف، قوانین شرعیہ میں حدود کامفہوم، حدود آرڈیننس اور اسلامی جہوریہ پاکستان، حدود آرڈیننس اور خواتین،اسلامی حدودکے نفاذ کی برکات وغیرہ جیسے موضوعات کو آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے ۔۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام تدریسی وتصنیفی اور دعوتی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین)محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن،لاہور میں بمع فیملی مقیم رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔(آمین) (م۔ا)
حدیث شریف دین کا دوسرا بڑا ماخذ ہے ۔ اور بلاشبہ اسلام کے جملہ عقائد واعمال کی بنیاد کتاب وسنت پر ہے اور حدیث درحقیقت کتاب اللہ کی شارح اور مفسر ہے اور اسی کی عملی تطبیق کا دوسرا نام سنت ہے ۔نبی کریمﷺکو جوامع الکلم دیئے اور آپ کوبلاغت کے اعلیٰ وصف سے نوازہ گیا ۔ جب آپﷺ اپنے بلیغانہ انداز میں کتاب اللہ کے اجمال کی تفسیر فرماتے تو کسی سائل کو اس کے سوال کا فی البدیع جواب دیتے۔ تو سامعین اس میں ایک خاص قسم کی لذت محسوس کرتے اوراسلوبِ بیان اس قدر ساحرانہ ہوتا کہ وقت کے شعراء اور بلغاء بھی باوجود قدرت کے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے ۔احادیثِ مبارکہ گوآپﷺ کی زندگی میں مدون نہیں ہوئیں تھی تاہم جو لفظ بھی نبیﷺ کی زبانِ مبارکہ سے نکلتا وہ ہزار ہا انسانوں کے قلوب واذہان میں محفوظ ہو جاتا اور نہ صرف محفوظ ہوتا بلکہ صحابہ کرام ا س کے حفظ وابلاغ اور اس پر عمل کے لیے فریفتہ نظر آتے ۔یہی وجہ تھی کہ آنحصرت ﷺ کے سفر وحضر،حرب وسلم، اکل وشرب اور سرور وحزن کے تمام واقعات ہزارہا انسانوں کے پاس آپ کی زندگی میں ہی محفوظ ہوچکے تھے کہ تاریخ انسانی میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور نہ ہی آئندہ ایسا ہونا ممکن ہے-۔خیر القرون کے گزر نے تک ایک طرف تو حدیث کی باقاعدہ تدوین نہ ہوسکی اور دوسری طرف حضرت عثمان کی شہادت کے ساتھ ہی دور ِ فتنہ شروع ہوگیا جس کی طرف احادیث میں اشارات پائے جاتے ہیں۔ پھر یہ فتنے کسی ایک جہت سے رونما نہیں ہوئے بلکہ سیاسی اور مذہبی فتنے اس کثرت سے ابھرے کہ ان پر کنٹرول ناممکن ہوگیا۔ان فتنوں میں ایک فتنہ وضع حدیث کا تھا۔اس فتنہ کے سد باب کے لیے گو پہلی صدی ہجری کے خاتمہ پر ہی بعض علمائے تابعین نے کوششیں شروع کردی تھی۔اور پھر اس کے بعد وضع حدیث کے اس فتہ کوروکنے کےلیے ائمہ محدثین نے صرف احادیث کوجمع کردینے کو ہی کافی نہیں سمجھا بلکہ سنت کی حفاظت کے لیے علل حدیث، جرح وتعدیل، اور نقد رجال کے قواعد اور معاییر قائم کئے ،اسانید کے درجات مقرر کئے ۔ ثقات اور ضعفاء رواۃ پر مستقل تالیفات مرتب کیں۔ اور مجروح رواۃ کے عیوب بیان کئے ۔موضوع احادیث کو الگ جمع کیا او ررواۃ حدیث کےلیے معاجم ترتیب دیں۔جس سے ہر جہت سے صحیح ، ضعیف ،موضوع احادیث کی تمیز امت کے سامنے آگئی۔اس سلسلے میں ماضی قریب میں شیخ البانی کی کاوشیں بھی لائق تحسین ہیں۔ امت محمدیہ ﷺ میں جہاں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو حدیثِ رسول کودین کے مآخذ کی حیثیت سے تسلیم کرنے سے منکر رہے ہیں وہاں چند ایسے جری دروغ گو بھی موجود رہے ہیں جنہوں نے صدہا احادیث وضع کر کے نبی کریم ﷺ کے نام مبارک سے لوگوں میں پھیلا کر حدیث مبارکہ ’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا اس نے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنایا‘‘ کا مصداق بنے۔جبکہ صحیح حدیث باتفاق امت واجب العمل ہے ۔البتہ ضعیف احادیث کے متعلق علماء امت کا نظریہ مختلف رہا ہے ۔ چند علماء فضائل اعمال کے بارے میں وارد احادیث پر عمل کے جواز کے قائل ہیں جبکہ کچھ علماء اس بات کے قائل ہیں کہ جب تک کوئی حدیث مکمل طور پر محقق نہ ہو اس پر عمل کے لیے ایک مسلمان کو کسی طور پر بھی مکلف نہیں ٹھرایا جا سکتا۔ زیر نظر کتاب ’’ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت‘‘ ہندوستان کے ممتاز عالم دین غازی عزیر مبارکپوری ﷾ کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے ضعیف حدیث کی پہنچان اور اس کی شرعی حیثیت کے حوالے سے مستند حوالہ جات سے مزین مباحث کی پیش کی ہیں ۔اس موضوع پر اس کتاب سے قبل عربی زبان میں تو کافی مواد موجود تھا لیکن اردو زبان میں اتنا مستند اور تفصیلی مواد نہ تھا۔ لیکن کتاب ہذا کے مصنف موصوف نے بڑی محنت سے اردو داں طبقہ کےلیے یہ کتاب مرتب کی جو کہ طالبان ِعلوم نبوت کے لیے گراں قدر علمی تحفہ ہے ۔کتاب کے مصنف طویل عرصہ سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔اپنی روز مرہ کی مصرفیت کے علاوہ اچھے مضمون نگار ، مصنف ، مترجم بھی ہیں۔ موصوف نے جامعہ لاہور الاسلامیہ،لاہور کے زیر نگر انی چلنے والے ادارے ’’معہد العالی للشریعۃ والقضاء ‘‘ میں حصول شہادہ کے لیے 1995ء میں ایک تحقیقی وعلمی ضخیم مقالہ بعنوان ’’اصلاحی اسلو ب تدبر حدیث ‘‘ تحریر کیا ۔ جو کہ بعد میں پہلے انڈیا اور پھر پاکستان میں مکتبہ قدوسیہ کی طرف سے ’’انکار حدیث کا نیا روپ‘‘ کے نام سے دوجلدوں میں شائع ہوا۔ یہ مقالہ الحمد للہ کتاب وسنت ویب سائٹ پر موجود ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے کئی علمی وتحقیقی مضامین پاک وہند کے علمی رسائل وجرائد میں شائع ہوچکے ہیں ۔ اللہ تعالی ان کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے اور ان کی جہود کو قبول فرمائے (آمین)۔ م۔ا
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین عطا کیا ہے، یہ محض رسوم عبادت یا چند اخلاقی نصائح کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس دین کو ماننے والوں کے لئے صرف یہی ضروری نہیں کہ وہ اس دین کو نظریاتی طور پر مان لیں بلکہ ا س کا عملی زندگی میں اطلاق بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ العصر میں مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’زمانہ گواہ ہے کہ انسان ضرور ضرور خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ، نیک عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ ‘‘دین کا عملی زندگی میں اطلاق صرف یہی تقاضانہیں کرتا کہ اس پر خود عمل کیا جائے بلکہ یہ بات بھی دین کے تقاضے میں شامل ہے کہ اس دین کو دوسروں تک پہنچایا بھی جائے اور ایک دوسرے کی اصلاح کی جائے۔ جہاں کہیں بھی کوئی شرعی یا اخلاقی خرابی نظر آئے، ا س کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔ زیر تبصرہ کتاب "دعوت دین کی ذمہ داری " جماعت اسلامی پاکستان کے بانی مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے دعوت دین کی ذمہ داریوں،مبلغین کے اوصاف اور اس کے طریقہ کار پر بڑی مفید اور شاندار بحث کی ہے۔مبلغین اسلام کے لئے یہ کتاب ایک نادر تحفہ ہے۔اللہ تعالی اسے مولف سے قبول فرمائے اور ہمیں دعوتی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے کی توفیق دے۔ آمین(راسخ)
لڑائی جھگڑوں کے اسباب میں سے ایک بہت بڑا سبب غلط فہمی ہے۔ یو ں سمجھ لیجئے کہ دنیا میں تقریبا پچاس فیصد بداعمالیاں غلط فہمی کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں ۔غلط فہمی سے انسان کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتا ہے بستے گھر برباد ہوجاتے ہیں دوست دشمن بن جاتے ہیں اور غیر تو غیر سہی اپنے بھی پرائے بن جاتے ہیں۔’’جھگڑا ‘‘دیکھنے میں ایک چھوٹا سے لفظ ہے لیکن اس میں خاندانوں کی بربادی نسلوں کی تباہی،خونی رشتوں کا انقطاع اوراخلاق وتہذیب کاخون شامل ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ جھگڑوں میں ذہنی پریشانی،اعصابی دباؤ اور دن رات کی بے چینی بھی شامل ہے ۔ معمولی سے بات بھی جھگڑے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اور معمولی سے دانشمندی بھی بہت جھگڑوں سے بچا سکتی ہے ’’ایسی دانشمندی یا میٹھا بول جوکہ گریبان پکڑنے والوں کوآپس میں شیروشکر کردے ایک مومن کے اوصاف میں سے بلند وصف ہے ۔زیر نظر کتاب ’’جھگڑے کیو ں ہوتے ہیں ‘‘ محترم تفضیل احمد ضیغم﷾ کی تصنیف ہے ۔ جس میں ایسے تمام اسباب کو مختصراً بیان کیا گیا ہے جوجھگڑوں کی بنیاد بنتے ہیں اوران جھگڑوں سے کس طرح بچا جا سکتا ہے اس ضمن میں کائنات کے سب سے عظیم انسان جناب محمد الرسول اللہ ﷺ کے فرامین کو اس کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔یہ کتاب دراصل مصنف کے مختلف اوقات میں دئیے گئے خطابات ولیکچرز کا مجموعہ ہے جسے مختلف احباب کے اصرار پر موصوف نے کتابی صورت میں شائع کیا ہے ۔اس مختصر کتابچہ کا مطالعہ جھگڑوں کی دہکتی بھٹیاں سرد کرنے میں مفید ہوسکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور کتابچہ کو ایک دوسرے میں نفرتیں دور کرکے آپس محبت والفت کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
ایمان بااللہ کے ارکان میں سے ایک اہم رکن اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات پر ایمان لانا ہے ۔توحید اسماء وصفات توحید کی تین اقسام میں سے ایک مستقل قسم ہے ۔توحید اسماء وصفات کا دین میں مقام ومرتبہ بہت اونچا ہے اور اس کی اہمیت نہایت عظیم ہے۔ انسان کے لیے اس وقت تک مکمل واکمل طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت ممکن نہیں ہے جب تک اسے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا علم نہ ہو ۔عقائد کی کتب میں توحید کی اس قسم پر تفصیلی مباحث موجود ہیں ۔ او ربعض علماء نے توحید اسماء وصفات پر الگ سے کتب تحریر کیں ہیں۔ زیرنظر کتاب ’’توحید اسماء وصفات ‘‘ سعودیہ کے ممتاز عالم دین فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین کی اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے متعلق انتہائی اہم بنیادی اور زریں قواعد پر مشتمل کتاب ’’ القواعد المثلیٰ فی الاسماء الصفات ‘‘کا اردو ترجمہ ہے ۔ ترجمہ کی سعادت پاکستان کے ممتاز عالم دین مولانا عبد اللہ رحمانی﷾ نے حاصل کی ہے ۔اللہ تعالیٰ مترجم ومصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے اہل اسلام کے لیے مفید بنائے (آمین) م۔ا
آج سے چودہ صدیاں قبل جب لوگ ظلمت وکفر اور شرک میں پھنسے ہوئے تھے۔بیت اللہ میں تین سوساٹھ بتوں کو پوجا جاتا تھا۔ قتل وغارت ، عصمت فروشی، شراب نوشی، قماربازی اور چاروں طرف بدامنی کا دوردورہ تھا۔تومولائے کریم کی رحمت کاملہ جوش میں آئی اوراس بگھڑے ہوئےعرب معاشرے کی اصلاح کےلیے خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمائے ۔آپ کی بعثت نبوت کے شروع میں ہی ایک مختصر سی جماعت آپﷺ پر ایمان لائی۔ جوآہستہ آہستہ بڑھ کر ایک عظیم طاقت اور حزب اللہ ،خدائی لشکر کی صورت اختیار کر گئی۔ اس جماعت نے آپﷺ کے مشن کی تکمیل کی خاطر تن من دھن کی بازی لگادی ۔چنانچہ رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی مدد اور سرفروش جماعت کی معیت سے جزیرۃ العرب کی کایا پلٹ کررکھ دی ۔اس جماعت کو اصحاب النبیﷺ کےنام سے پکارا جاتا ہے ۔ان کے بعد میں آنے والی ساری امت مجموعی طور پر تقویٰ اور اتباع کے مراتب عالیہ طے کرنے کے باوجود بھی ان اصحاب رسول ؐ کے مرتبے کو ہر گز نہیں پہنچ سکتی ۔ صحابہ کرام کی جماعت انبیاء ورسل کے بعد سب مخلوق سے افضل ترین جماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ نبوت سے صحابہ کے فضائل ومناقب کو بیان کیا۔کئی اہل علم نے بھی صحابہ کرام کے فضائل اور دفاع کے سلسلے میں کتب تصنیف کی ہیں ۔زیرنظر کتاب ’’بستان صحابہ ‘‘ مولانا محمد ادریس بھوجیانی کی تصنیف ہے ۔جس میں انہوں نے لفظ صحابہ کی لغوی و اصولی تعریف،ایمان صحابہ ، صحابہ کرام کی آپس میں دوستی ،خلافت راشدہ صحابہ کرام پر سب وشتم کرنے والوں کاانجام وغیرہ جیسے موضوعات کو دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو عوام الناس کے لیے صحابہ کرام کی عظمت وفضلیت کوسمجھنے کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کے اندر نیکی اور بدی کے پہچاننے کی قابلیت اور نیکی کے اختیار کرنے اور بدی سے بچنے کی خواہش وودیعت کردی ہے ۔تمام انبیاء کرام نے دعوت کے ذریعے پیغام الٰہی کو لوگوں تک پہنچایا او ران کو شیطان سے بچنے اور رحمنٰ کے راستے پر چلنے کی دعوت دی ۔دعوت دین اور احکام شرعیہ کی تعلیم دینا شیوہ پیغمبری ہے ۔تمام انبیاء و رسل کی بنیادی ذمہ داری تبلیغ دین اور دعوت وابلاغ ہی رہی ہے،امت مسلمہ کو دیگر امم سے فوقیت بھی اسی فریضہ دعوت کی وجہ سے ہے اور دعوت دین ایک اہم دینی فریضہ ہے ،جو اہل اسلام کی اصلاح ، استحکام دین اور دوام شریعت کا مؤثر ذریعہ ہے۔لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اسے شریعت کا جتنا علم ہو ،شرعی احکام سے جتنی واقفیت ہو اوردین کے جس قدر احکام سے آگاہی ہو وہ دوسر وں تک پہنچائے۔علماو فضلا اور واعظین و مبلغین پر مزید ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فریضہ دعوت کو دینی وشرعی ذمہ داری سمجھیں اور دعوت دین کے کام کو مزید عمدہ طریقے سے سرانجام دیں۔دین کا پیغام حق ہر فرد تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ دعوت کے کام کو متحرک کیا جائے، منہج دعوت اور اصول دعوت کے حوالے سے اہل علم عربی اور زبان میں کئی کتب تصنیف کی ہیں ۔ان میں سے ڈاکٹر فضل الٰہی ﷾ کی کتب قابل ذکر ہیں جوکہ آسان فہم او ردعوت دین کا ذوق ،شوق اور دعوتی بیداری پیدا کرنے میں ممد و معاون ہیں۔زیر نظر کتاب ’’ دعوت دین کی اہمیت اور تقاضے ‘‘ مولانا امین احسن اصلاحی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے دعو ت کی اہمیت وضرورت کو آسا ن فہم انداز میں بیان کیا ہے ۔ اللہ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے او راسے عوام الناس کے نفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
اصولِ حدیث پر حافظ ابن حجر عسقلانی کی سب سے پہلی اور اہم تصنیف ’’نخبۃ الفکر فی مصطلح اھل الاثر‘‘ ہے جو علمی حلقوں میں مختصر نام ’’نخبۃ الفکر‘‘ سے جانی جاتی ہےاور اپنی افادیت کے پیش نظر اکثر مدارس دینیہ میں شامل نصاب ہے۔ اس مختصر رسالہ میں ابن حجر نے علومِ حدیث کے تمام اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے ۔حدیث اوراصو ل میں نخبۃ الفکر کو وہی مقام حاصل ہے جو علم لغت میں خلیل بن احمد کی کتاب العین کو ۔مختصر ہونے کے باوجود یہ اصول حدیث میں اہم ترین مصدر ہے کیونکہ بعد میں لکھی جانے والی کتب اس سے بے نیاز نہیں ۔حافظ ابن حجر نے ہی اس کتاب کی شرح ’’نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر فی مصطلح اھل الاثر‘‘ کے نام سے لکھی جسے متن کی طر ح قبول عام حاصل ہوا۔ اور پھر ان کے بعد کئی اہل علم نے نخبۃ الفکر کی شروح لکھی ۔ زیر نظر کتاب ’’تحفۃ الدرر ‘‘ بھی اردو زبان میں نخبۃ الفکر کی اہم شرح ہے۔جس سے طلباء و اساتذہ کے لیے نخبۃ الفکر سے استفاد ہ اور اس میں موجود اصطلاحات حدیث کو سمجھنا آسا ن ہوگیا ہے ۔یہ شرح مولانا سعید احمد پالن پوری کی کاوش ہے ۔اللہ تعالی ٰ مصنف وشارح کی علمی کاوش کو قبول فرمائے اور اسے طلباء کے لیے مفیدبنائے (آمین) م۔ا)
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسول کی تصدیقات ارکان ایمان ہیں۔قرآن مجیدکی متعدد آیات بالخصوص سورۂ بقرہ کی ایت 285 اور حدیث جبریل اور دیگر احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے ۔لہذا اللہ تعالی اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اوراس کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کو تسلیم کرنا اور یوم حساب پر یقین کرنا کہ وہ آکر رہے گا اور نیک وبدعمل کا صلہ مل کر رہے گا۔ یہ پانچ امور ایمان کے بنیادی ارکان ہیں ۔ان کو ماننا ہر مومن پر واجب ہے ۔زیر نظر کتاب ’’ارکان ایمان‘‘مولانا عبد الرحمن عاجز مالیرکوٹلوی کی تصنیف ہے جس میں انہو ں آیات واحادیث کی روشنی میں ارکانِ ایمان کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی کاوش کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ِ ہدایت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے 23 سال کے طویل عرصہ میں نبی کریم ﷺ پر جبریل آمین کے ذریعے نازل فرمایا ۔ اس میں امت محمدیہ کے لیے احکام ونواہی کے علاو ہ بہت سارا حصہ سابقہ امم واقوام ااو ر سابقہ آسمانی کتب وصحائف کے حالات واقعات پر مشتمل ہے۔ لیکن جب ہم قرآن مجید کی کو پڑھتے ہیں تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے کچھ حصوں یا اندراجات کا حوالہ یا ذکر کس اور آسمانی کتاب (بائبل،تورات،انجیل) میں دیا گیاہے ۔قرآن مجید میں کئی ایک واقعات اور مضامین کو باربار دہرایا گیا ہے جیسے حضرت نو ح ، حضرت ابراہیم ،حضرت لوط اور بنی اسرائیل کےواقعات۔زیرنظر کتاب ’’بائبل اور قرآن مجید کی مشترکہ باتیں‘‘ محترم فضل الٰہی اصغر کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے ایک ہی مضمون یا واقعہ کے بارے میں کتابوں کے الگ الگ بیانات کو یکجا کرکے بائبل ،انجیل،اور قرآن مجید کے بیانات کا موازنہ کردیا ہے اور ہر مضمون کے بارے میں بائبل ، انجیل یا قرآن مجید کے بیانوں کو یکجا کر کے لکھ دیا گیا ہے جس کو پڑھ کر مکمل کہانی سمجھ میں آسکتی ہے (م۔ا )