عقیدہ ومنہج کوسمجھنا دین میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔انبیاء سب سے پہلے آکر عقیدے کی اصلاح کیا کرتے تھے ۔عقیدے کی اصلاح کے ساتھ صراط مستقیم کا حصول او رعمل کی اصلاح ہوتی ہے ۔عمل کی اصلاح سے اخلاق ومعاملات کی اصلاح ہوتی اور اسی طرح پورے معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔اس سارے عمل میں بنیاد عقیدہ ہے ۔ ہر مسلمان کو سب سے پہلے اپنے عقیدہ کا فہم وشعور ہونا چاہیے کہ اس کا عقیدہ درست اور عین اسلام کے مطابق ہے یا نہیں۔ کیونکہ نجات کا سارا دارومدار عقیدے پر ہے ۔اگر عقیدہ درست نہ ہوگا تو اچھے سے اچھا عمل بھی بے کار جائے گا۔ زیر نظرکتاب ’’صراط مستقیم اور ہم ‘‘ مشہور ومعروف سعودی عالم دین محمد بن جمیل زینو اور سید سیف الرحمن کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے عقیدہ کی بحث کو پیش کرتے ہوئے مباحث فقہیہ اور مختلف فرقوں اور تفرقہ بازی کے بگاڑ کو بیان کیا ہے ۔اور اسی طرح حنفیت کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے بتایا ہےکہ اصل کامیابی مختلف اماموں اور تقلید کو اختیار کرنے میں نہیں بلکہ صراط مستقیم نبی کریم ﷺ کے کتاب وسنت میں وارد فرامین کو ماننے اور اللہ ورسولﷺ کی اتباع کرنے کا نام ہے ۔اللہ اس کتاب کوشرک وبدعات میں گھیرے ہوئے اور راہ راست سے ہٹے لوگوں کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا )
تفریح فارغ وقت میں دل چسپ سرگرمی اختیار کرنے کو کہتے ہیں ۔ یہ لفظ اردو عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں مستعمل ہے ۔ دور جدید میں تفریح انسانی زندگی کے معمولات کا لازمی حصہ بن چکی ہے ۔تیز مشینی دو راور مقابلے کی فضا میں کام کرنے سے انسان تھک کر چور ہو جاتا ہے اس کا حل اس نے تفریح میں ڈھونڈا ہے ۔مگر بہت سی تفریحی سرگرمیاں انسان کو دوبارہ کام کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ اس سے دین بھی چھین لیتی ہیں۔زیر نظر کتاب ’’تفریح کااسلامی تصور ‘‘محترم نوید احمد شہزاد کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نےتفریح اسلامی تصور اور اس کی حدود،معاصر معاملات پر تحقیقی انداز سے اسلامی نقظہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مصنف نے بنیادی اسلامی مصادر سے استفادہ کرتے ہوئے موجودہ حالات میں موجود مختلف تفریحی سرگرمیوں کی نشاندہی کی ہے ۔امید ہےکہ یہ تحقیقی کام نہ صرف محققین کے لیے بلکہ عام قارئین کے لیے بھی بڑا مفید ہوگا ۔(م۔ا )
انسانی فطرت ہے کہ وہ کہانیوں اور داستانوں کو پڑھ ،سن کر اپنے اندر ایک باطنی تأثر محسوس کرتا ہے۔ایک سلیم الفطرت شخص اپنے ارد گرد پیش آمدہ حادثات وسانحات میں غور کرتا ہے اور اس کے مبادیات ومقدمات اور ان پر مرتب ہونے والے نتائج کا تتبع کرتا ہے،تاکہ مثبت ومنفی پہلوؤں کو واشگاف کرے ۔اور پھر اپنے ہدف ومقصد کے حصول میں وہ ان منفی پہلوؤں سے اجتناب کرتا ہے اور مثبت پہلوؤں کو اختیار کرتا ہے۔یوں اپنے مقصد میں اکثر کامیاب ہی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اور حدیث نبوی ﷺ میں بھی فطرتِ انسانی کے اس تارکو چھیڑا گیا ہے۔حدیث نبوی ﷺ کی سب سے صحیح ترین کتاب امام بخاری کی بخاری شریف ہے،جسے قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح ہونے کا شرف حاصل ہے۔اور اس میں صحیح احادیث پر مبنی متعدد قصص بیان کئے گئے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب" قصص بخاری " کے مولف مولانا محمد ظفر اقبال صاحب نے صحیح بخاری میں منقول انہی قصص وواقعات میں سے 250 دو سو پچاس اہم واقعات کو الگ سے جمع فرما دیا ہے،تاکہ ایک سلیم الفطرت انسان ان کی روشنی میں نصیحت حاصل کرے اور اپنے نفس کی اصلاح کرنے کوشش کرے۔کتاب کی افادیت کے پیش نظر اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ہمیں ان واقعات سے اپنی اصلاح کرنے کی توفیق دے۔آمین(راسخ)
قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے۔اور بعض مفسرین نے بعض سورتوں کی الگ الگ تفسیر اور ان کے مفاہیم ومطالب سمجھا نے کےلیے بھی کتب تصنیف کی ہیں جیسے معوذتین ،سورہ اخلاص، سورۂ فاتحہ ،سورۂ یوسف ،سورۂ کہف، سورۂ ملک وغیرہ کی الگ الگ تفاسیر قابل ذکر ہیں ۔زیر نظر کتاب ’’ تفسیر سورۂ فاطر ‘‘ محقق دوراں مولانا ارشاد الحق اثری ﷾ کے محققانہ قلم سے ہفت روزہ الاعتصام میں شائع ہونے والے دروسِ قرآن کا مجموعہ جو مسلسل الاعتصام میں شائع ہوتے رہے ۔اس کی افادیت کے پیش نظر اس میں مزید حک واضافہ کے ساتھ ادارۃ العلوم اثریہ ،فیصل آباد نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا ہے ۔ جس میں قرآن مجید کے ترجمہ کےلیے استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث التفسیر مولانا حافظ عبد السلام بھٹوی ﷾ کے ترجمہ کاانتخاب کیا گیا ہےجو عام فہم ہے۔ اور آیات سے متعلقہ متفرق فوائد ونکات جو کتب تفاسیر وغیرہ میں پائے جاتے ہیں حتی الوسع انہیں اس تفسیر میں جمع کردیا گیا ہے ۔اللہ تعالی اسے اہل علم ،طلباء اور عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا )
بابائے تبلیغ مولانا محمد عبد اللہ گورداسپوری کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ نے اپنی پوری زندگی دعوت وتبلیغ میں کھپا دی اور تحریک ختم نبوت میں بڑی گراں قدر خدمات انجام دیں۔آپ دین اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے مشن میں متعدد بار پابند سلاسل بھی ہوئے ،اور آپ کو مختلف قسم کی اذیتیں دی گئیں ،لیکن آپ کے ایمان میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی۔آپ نے قادیانیوں سے متعدد مناظرے کئے اور ان کے ایسے چھکے چھڑائے کہ وہ میدان میں کھڑے نہ رہ پائے۔آپ عقلی ونقلی دلائل کا پہاڑ تھے،اور فریق مخالف کو چند ہی لمحوں میں خاموش کرا دیا کرتے تھے۔ موصوف کے بیٹے محترم ڈاکٹر بہاؤالدین ﷾ نے بھی تقریبا 33 جلدوں پر مشتمل کتاب ’’تحرک ختم نبو ت ‘‘اور 6 جلدوں میں تاریخ اہل حدیث لکھ عظیم الشان خدمت سرانجام دے ہے۔ کتب کی تیاری او رمواد جمع کرنے کے لیے ڈاکٹر بہاؤالدین﷾ کے بیٹے سہیل احمدکی خدمات بھی لائق تحسین ہیں ۔ زیر تبصرہ مجلہ عالمی تحریک ختم نبوت اہل حدیث کے زیر اہتمام ڈسکہ سیالکوٹ سے شائع ہوتا ہے،جس کے مدیر اعلی محترم عبد الحفیظ مظہر اور مدیر حافظ عبد الستار بخاری ہیں۔یہ اس کی خصوصی اشاعت ہے،جس میں بابائے تبلیغ مولانا محمد عبد اللہ گورداسپوری کی حیات وخدمات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی مدیران مجلہ اور مقالہ نگار حضرات کی ان محنتوں کو قبول فرمائے اور ہمیں بھی ان جیسے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق اور ہمت دے۔آمین(راسخ)
قرآن کریم چونکہ اللہ رب العزت کا ذاتی کلام ہے ۔تو اس لیے ضروری ہے کہ اس کی تلاوت بھی اسی طرح کی جائے کہ جس نبی کریم ﷺ نے تلاوت کی اور اپنے صحابہ کرام کو سکھائی ۔قرآن کریم کی تلاوت کا حسن بھی یہی ہے کہ تجوید کے ساتھ تلاوت کی جائے حضور نبی کریمﷺ قر آن کریم کی نہایت عمدگی اورخوش الحانی سے تلاوت فرماتے تھے انسان تو انسان حیوان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں ر ہتے تھے ۔تلاوت ِقرآن کا بھر پور اجروثواب اس امر پرموقوف ہے کہ تلاوت پورے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ کی جائے قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ جاننا او رسیکھنا علم تجوید کہلاتا ہے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے تجوید وقراءات پر مختلف چھوٹی بڑی کئی کتب موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ تحفۃ القراء لطالب التجوید والعلماء ‘‘ بھی اسی مذکورہ سلسلے کی کڑی ہے ۔جوکہ استاذ المجودین بابائے قراء ات قاری محمدیحیٰ رسولنگری ﷾( بانی ومدیر دار القراء جامعہ عزیزیہ ،ساہیوال) کی علم تجوید پر آسان فہم تصنیف ہے ۔اس میں انہو ں نے تجوید وقراءات کی اہمیت کوبیان کرنے کے تجوید کے جملہ احکام ومسائل کو آسان فہم انداز بیان کردیا ہے جس سے تجوید وقراءات کے ابتدائی طلباء وطالبات آسانی مستفید ہوسکتے ہیں۔اس کتاب کی نظر ثانی کا کام شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی ﷾ نے انجام دیا ہے جس سے اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالی دونوںمشائخ کی تجوید وقراء ات کے سلسلے میں خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور اس کتاب کو طالبان ِعلوم نبو ت کےلیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
علم حدیث کی قدر ومنزلت اور شرف وقار صرف اس لیے ہےکہ یہ شریعت اسلامی میں قرآن پاک کے بعد دوسرا بڑا مصدر ہے ۔علم حدیث ارشادات واعمال رسول اللہ ﷺ کامظہر اور نبی کریم ﷺ کی پاکیزہ زندگی کا عملی عکس ہے جو ہر مسلمان کی شب وروز زندگی کے لیے بہترین نمونہ ہے ۔جس طرح کسی بھی زبان کو جاننے کےلیے اس زبان کے قواعد واصول کو سمجھنا ضروری ہے اسی طر حدیث نبویﷺ میں مہارت حاصل کرنےکے لیے اصول حدیث میں دسترس اور اس پر عبور حاصل کرناضروری ہے اس علم کی اہمیت کے پیش نظر ائمہ محدثین اور اصول حدیث کی مہارت رکھنےوالوں نے اس موضوع پر کئی کتب تصنیف کی ہیں اولاً امام شافعی نے الرسالہ کے نام سے کتاب تحریرکی پھر اس کی روشنی میں دیگر اہل علم نے کتب مرتب کیں۔زیر نظر کتاب ’’علوم حدیث رسول ﷺ‘‘ ڈاکٹر ر انا محمد اسحاق (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کی علوم حدیث کےسلسلے میں آسان فہم تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے حدیث وسنت کی تعریف اور ان کے فرق کو واضح کر تے ہوئے معروف اصطلاحات ِحدیث کو بیان کرنے کے علاوہ مکتوباتِ نبوی ،کاتبینِ وحی ،کتابتِ حدیث کے ادواراور کتب ِاحادیث کےطبقات کوبھی بڑے احسن انداز میں بیان کیا ہے ۔ اللہ تعالی فاضل مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے طالبانِ علوم نبوت کےلیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
ہر مسلمان کا یہ دیرینہ مطالبہ اور تقاضا ہے کہ پاکستان میں اسلامی قانون نافذ کیا جائے،اور اس کی زندگی کے تمام معاملات کا فیصلہ شریعت اسلامیہ کے مطابق کیا جائے۔کیونکہ اسلام وہ عظیم الشان ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،جس میں تجارت ،عدالت ،معاشرت،سیاست اور ریاست سمیت زندگی کے ہر شعبے سے متعلق راہنمائی موجود ہے۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہر دور میں اس مطالبے اور خواہش کو زور زبر دستی ،لالچ یا حیلوں بہانوں سے دبا دیا گیا یا الجھا دیا گیا۔لیکن بعض ایسے دور اندیش افراد ہمیشہ موجود رہتے ہیں جو حالات کی مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے اپنے مشن پر چلتے رہتے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب " اکیسویں صدی کی جدید مثالی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لئے عظمت اسلام موومنٹ کا مجوزہ منشور "ایسے ہی ایک گمنام سپاہی میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی "عظمت اسلام موومنٹ" نامی اپنی تحریک کے مجوزہ منشور کے طور پر مرتب کی ہے ،جس میں انہوں نے غیر اسلامی طرز حکومت کی خرابیوں اور نقائص کو اجاگر کرنے کے بعد جدید مثالی اسلامی فلاحی ریاست کے فوائد اور خدو خال کو واضح کیا ہے۔یہ کتاب تحریکی ذہن رکھنے والے حضرات اور اسلامی قانون کے نفاذ کے خواہش مند نوجوانوں کو ضرور پڑھنی چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
توحید پرایمان اور شرک سے بیزاری ہی اصل دین ہے ۔اس کے بغیر اللہ تعالی کسی دین کو قبول نہی نہیں فرماتا ۔تمام انبیاء کرام ایک ہی پیغام اورایک ہی دعوت لےکر آئےکہ لوگو! صرف اللہ کی عبادت کرو او راس کےسوا تمام معبودوں سےبچو۔تمام انبیاء کرام سالہاسال تک مسلسل اس فریضہ کو سرانجام دیتے رہے انھوں نے اس پیغام کو پہنچانےکےلیے اس قدر تکالیف برداشت کیں کہ جسکا کوئی انسان تصور بھی نہیں کرسکتاہے ۔ حضرت نوح نے ساڑے نوسوسال کلمۂ توحید کی طرف لوگوں کودعوت دی ۔ اور اللہ کے آخری رسول سید الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نےبھی عقید ۂ توحید کی دعوت کے لیے کس قدر محنت کی اور اس فریضہ کو سر انجام دیا کہ جس کے بدلے آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف ومصائب سے دوچار ہوناپڑا۔ عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ او رآپ کے صحابہ کرا م نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا وہاں توحید کی اہمیت کے پیش نظر ہر دور میں اہل علم نے بہت سی کتب تصنیف فرمائیں ہیں۔زیر نظر کتاب ’’توحید پر ایمان اور شرک سے بیزاری ‘‘ اسی مذکورہ مبارک سلسلہ کی کڑی ہے ۔ جسے محترم حافظ محمد سلیمان (ایم ۔ایڈ) نے بہت سلیس ، اورعام فہم انداز میں مرتب فرمایا ہے۔ مختلف عنوانات کے تحت آیات کریمہ اور احادیث نبویہ ﷺ کا انتخاب کر کے ان کا اردو ترجمہ اور ہلکے پھلکے انداز میں ان کی تشریح بھی کردی ہے ۔تاکہ عامۃ المسلمین کے لیے استفادہ آسان ہواور انہیں توحید کی حقیقت سمجھنے میں کوئی دشواری محسوس نہ ہو۔ اللہ تعالی اس کتاب کو مرتب ناشر اورمعاونین کے لیے باعث نجات اور صدقہ جاریہ بنائے (آمین) ( م۔ا)
اللہ رب العزت نے روح کو انسان کے جسم کا حصہ بنایا ہے ۔انسان اپنے جسم کی غذا کا بندوبست کرنے کے لیے صبح وشام سرگرداں رہتا ہے لیکن اپنی روح کی غذا کی کوئی فکر نہیں کرتا درحقیقت اگر جسم کو غذا نہ ملے یا ناقص غذا ملے تو جسم بیمار ہوجاتاہے اور اس کے علاج معالجے کے لیے دنیا میں ڈاکٹر اور حکیم موجود ہیں ۔بالکل اسی طرح اگر روح کو غذا نہ ملے یا ناقص ملے تو یہ بھی بیمار ہوجاتی ہے اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو دنیا بھی برباد ہوجاتی ہے او ر آخرت بھی۔ اور روح کی غذا اور اس کا علاج صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکرنا ہے اسی عظیم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب او ر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں:«كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ» کہ رسول اللہ ﷺ ہروقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیاکرتے تھے ۔اذکار نبوی ﷺ کے حوالے سے کئی کتب موجود ہیں ۔زیر نظر کتاب’’اللهم ‘‘ محترم مولانا محمد اکرم محمدی ﷾ (مدیر الفلاح پبلی کیشنز ،لاہور) کی مرتب شدہ ہےجس میں فاضل مرتب نے رسول اللہ ﷺ کے شب وروز کے اذکار ووظائف کو صحیح اسناد کے ساتھ جمع کرنے کے ساتھ ساتھ ہر دعا کاپس منظر اور پیش منظر بھی نقل کیا ہے تاکہ قاری کو پڑہنے کے ساتھ ساتھ اس دعا کی اہمیت وفضیلت سے بھی آگاہی حاصل ہو ۔اور اس میں مرتب نے دعاؤں کی ترتیب اور انتخاب کےلیے منفرد اندازاختیار کرتے اس کتاب میں بہت سے وہ دعائیں شامل کردی ہیں جو عام کتابوں میں میسر نہیں ۔اور مولانا عبداللطیف حلیم﷾کی خصوصی محنت اور تحقیق وتخریج سے اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کوانسانیت کی روحوں کی غذا اور علاج کا عظیم ترین ذریعہ بنائے اور اسے مرتبین ،ناشرین کے لیےتوشۂ آخرت بنائے (آمین)(م۔ا)
کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت ِشریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اورعمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور ہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘ رہی ہے موجودہ دور میں بھی عوام وخواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند ہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرے فروغ حاصل ہوا ہے ۔ امت کا در د رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں ۔اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں ۔لیکن تقلیدی افکار ونظریات پر تعب وعناد کی چڑھتی ہوئی دبیز چادر کے سامنے جتنی بھی ہوں وہ کم ہی ہیں۔زیر نظر کتاب ’’ رد تقلید ‘‘مولانا حافظ جلال الدین قاسمی ﷾ کی تقلیدکے حوالے سے قرآن وحدیث ، آثار صحابہ وتصریحات ائمہ عظام واقوال علماء کرام کی روشنی میں اہم کتاب ہے جس میں انہوں نے لوگوں کو تقلید شخصی کے بدترین نتائج سے اگاہ کرنے ساتھ ساتھ انہیں کتاب وسنت کی طرف رجوع کی ترغیب دلائی ہے ۔ فاضل مصنف دار العلوم دیوبند کے فاضل اور اردو ،عربی ،فارسی، انگریزی اور سنسکرت کےعلاوہ اور بھی زبانوں میں آپ کو مکمل دسترس حاصل ہے ۔انہی امیتازی خصوصیات کی بناءپر علمی وادبی حلقوں میں آپ کی شخصیت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔فن خطابت پر جو قدرتی ملکہ آپ کو حاصل ہے وہ کمی ہی لوگوں کے حصہ میں آتا ہے ۔نیز صحافت کے میدان میں بھی آپ کی قابل تحسین خدمات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب وسنت پر زندہ رہنے اور اللہ ورسول کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) (م۔ا)
بلاشبہ دنیا کی تاریخ میں عہد نبویﷺ سیاسی ،دینی اور اقتصادی اعتبار سے ممتاز ہے نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کےمختلف گوشوں پر سیرت نگاروں نے کاوشیں کی ۔ کتب احادیث بھی آپ ﷺہی کے کردار کا مرقع ہیں ۔عبادات ومعاملات ،عقائدوغزوات اور محامد وفضائل ،کو نسا باب اور فصل آپ کےتذکرے سے مزین نہیں۔ حدیث ہی کےسلاسل کا ایک حلقہ آنحضرت ﷺ کے فرامین ہیں،کچھ تبلیغی،کچھ تادیبی،بعض میں غیر مسلم حلیفوں کےساتھ معاہدوں کا تذکرہ ہے ۔نبی کریم ﷺ کے بعد ریاست کے جملہ انتظامی امور کی عنان جب حضرت ابو بکر صدیق کو تفویض ہوئی تو آپ نے بھی متعلقہ حوادث پر اطراف وجوانب اور ماتحت عمال وسپہ سالاران کی طرف سے سرکاری فرامین بھیجے ۔ نئے وثیقے بھی لکھے اور رسول اللہﷺ کے جو وثائق آپ کے سامنے پیش ہوئے ان کی توثیق بھی فرمائی۔اسی طرح خلیفۂ دوم ،سوم، چہارم کے عہد میں بھی اس قسم کے فرامین اور وثیقے اور عطایائے جاگیرات کا سلسلہ جاری رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ اور خلفاء اربعہ کے معاہدات ،مکاتیب کتب سیرت وتاریخ میں موجود ہیں۔زیر نظر کتاب ’’سیاسی وثیقہ جات ‘‘ ڈاکٹر حمید اللہ کی آنحضرت ﷺ کےفرامین،معاہدات ،مکاتیب اور خلفائے راشدین کے احکام پر مشتمل جامع کتاب ہے ۔ موصوف نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے چاروں جانشینوں کے سرکاری فرامین کو بڑی تحقیق اور محنت شاقہ سے اس کتاب میں جمع کردیا ہے ۔اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
شریعت اسلامی انسانیت کے لئے اللہ تعالی کا ہدایت نامہ ہے ،جس میں زندگی کے تمام مسائل کے بارے میں تفصیلی یا اجمالی راہنمائی موجود ہے۔شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں ،جو یقینی ذرائع سے ثابت ہیں،اور الفاظ وتعبیرات کے اعتبار سے اس قدر واضح ہیں کہ ان میں کسی دوسرے معنی ومفہوم کا کوئی احتمال نہیں ہے۔ان کو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ کہا جاتا ہے،اور شریعت کے بیشتر احکام اسی نوعیت کے ہیں۔جبکہ بعض احکام ہمیں ایسی دلیلوں سے ملتے ہیں،جن کے سندا صحیح ہونے کا یقین نہیں کیا جا سکتا ہے،یا ان میں متعدد معانی کا احتمال ہوتا ہے۔اسی طرح بعض مسائل قیاس پر مبنی ہوتے ہیں اور ان میں قیاس کی بعض جہتیں پائی جاتی ہیں۔تو ایسے مسائل میں اہل علم اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق فتوی دیتے ہیں،جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اہل علم اور ائمہ کرام کے ان اختلافات اور اجتہادی آراء کا شرعی حکم کیا ہے۔زیر تبصرہ کتاب " اختلافات ائمہ کی شرعی حیثیت "ایفا پبلیکیشنز دہلی انڈیا کی مطبوعہ ہے،جس میں اسی اہم ترین موضوع پر منعقد سیمینار میں پیش کئے گئے مقالات کو جمع کر دیا گیا ہے ،اور تمام مقالہ نگار اہل نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ان قیمتی مقالات کو جمع کرنے کی سعادت مولانا صفدر زبیر ندوی صاحب نے حاصل کی ہے۔ادارہ کتاب وسنت ڈاٹ کام کا مقالہ نگار حضرات سے کلی اتفاق ضروری نہیں ہے،لیکن چونکہ یہ ایک خالص علمی اور تحقیقی مجموعہ ہے ،چنانچہ افادہ کی غرض سے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔اللہ تعالی تمام مقالہ نگار اور مرتب وتمام معاونین کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ ایزدی میں قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
قربانی وہ جانور ہے جو اللہ کی راہ میں قربان کیا جائے اور یہ وہ عمل ذبیحی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کیا جائے ۔تخلیق انسانیت کے آغازہی سے قربانی کا جذبہ کار فرما ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت آدم کے دو بیٹوں کی قربانی کا واقعہ موجود ہے۔اور قربانی جد الانبیاء سیدنا حضرت ابراہیم کی عظیم ترین سنت ہے ۔یہ عمل اللہ تعالیٰ کواتنا پسند آیا کہ اس عمل کوقیامت تک کےلیے مسلمانوں کے لیے عظیم سنت قرار دیا گیا۔ قرآن مجید نے بھی حضر ت ابراہیم کی قربانی کے واقعہ کوتفصیل سے بیان کیا ہے ۔ پھر اہلِ اسلام کواس اہم عمل کی خاصی تاکید ہے اور نبی کریم ﷺ نے زندگی بھر قربانی کے اہم فریضہ کو ادا کیا اور قرآن احادیث میں اس کے واضح احکام ومسائل اور تعلیمات موجو د ہیں ۔کتب احادیث وفقہ میں کتاب الاضاحی کے نام سے ائمہ محدثین فقہاء نے باقاعدہ ابواب بندی قائم کی ہے ۔ اور بعض اہل علم نے قربانی کےاحکام ومسائل اور فضائل کے سلسلے میں کتابیں تالیف کی ہیں ۔زیر نظر کتاب ’’ قربانی اور عقیقہ کےمسائل‘‘استاذ حدیث ومحقق مولانا محمد فاروق رفیع﷾(مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور) کی اس مسئلہ پر تحقیقی وعلمی کاوش ہے ۔ جس میں موصوف نے قربانی کے تمام متعلقہ احکام ومسائل کو کو حتی الامکان خوب کھول کر بیان کیا ہے۔ہر مسئلہ کو قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے ٹھوس دلائل سے ثابت کیا گیا ہے ۔پھر کسی مسئلہ میں اگر کچھ اختلاف ہے تومختلف مذاہب وآراء کو نقل کرنے کےبعد کتاب وسنت کے قریب ترین مذہب کے راجح ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پھر قربانی کے مسائل کے ساتھ عقیقہ کے مسائل کافی مشابہت رکھتے ہیں ۔ فاضل مصنف نے حتیٰ الوسع اس کتاب میں عقیقہ کے تمام مسائل بھی یکجا کردیے ہیں۔اللہ تعالی اسے مؤلف،اس کے والدین،اساتذۂکرام اور اہل خانہ کے لیے اجر وثواب کا ذریعہ اور توشۂ آخرت بنائے (آمین) (م۔ا )
اسلام نے عورت کے لیے حصول علم دین فرض قرار دیا ہے ۔چنانچہ ایک مسلمان خاتون کےلیے زیبائش وآرائش، ستر عورت،حجاب شرعی کی شرائط نگاہ ونظر ،خلوت وجلوت اور اختلاط کے متعلقہ احکام کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق جاننا ضروری ہے۔جس طر ح عورت کے لیے اپنے دن رات کے متعلقہ احکام کا جاننا ضروری ہے اس کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کس طرح شرک ومعاصی اور آفات وامراض قلبیہ سے بچ سکتی ہے اور ان کے نقصانات کیا ہیں ؟ اور کون سا راستہ ان بیماریوں سے محفوظ وسالم ہے۔ نبی کریم ﷺ کے مبارک اور خیر القرون زمانے میں عورتوں نےجب علمی ضرورت کو محسوس کیا تو آپﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے لیے ایک علمی مجلس کے قیام کا مطالبہ کیا ۔اور خواتین کا یہ علمی سلسلہ صرف طلب علم ہی پر موقوف نہیں رہا ۔بلکہ انکا یہ سلسلہ علم کی نشر واشاعت اور کتب حدیث کی روایت اور درس وتدریس پر بھی اس طرح مشتمل او ر حاوی رہاکہ خواتین اس میں امت کے بہت سے رجال کار پر فائق رہیں اور ان سےسبقت لے گئیں۔کتب تراجم میں بے شمار مشاہیر خواتین کےحالات واقعات موجو د ہیں ۔زیر نظرکتاب ’’روایت حدیث میں خواتین کا مقام ‘‘ ابو عبیدہ مشہور بن حس آ ل سلمان کی عربی کتاب ’’عنایۃ النساء بالحدیث النبوی‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔ صاحب کتاب نے اس میں تیر ہویں صدی ہجری تک راویات اور محدثات اسلام کے حالات اور کارنامے جمع کردئیے ہیں جو انہوں نے خاص طور پر خدمت حدیث میں انجام دئیے۔اس کتاب کے ترجمے کی سعادت نور محمد انیس نے حاصل کی ہے ۔نہایت آسان اور رواں ترجمہ کیا ہے ۔ اب اردو داں خواتین بھی اس کتاب سےخوب استفادہ کرسکتی ہیں۔ مدارس ،کالجزکی طالبات اور معلمات کے لیے یہ کتاب بڑا علمی ذخیرہ ہے۔اللہ تعالی خواتین اسلام کے لیے اس کتاب کو نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا )
اسلام ایک پاکیزہ دین اور مذہب ہے ،جو اپنے ماننے والوں کو عفت وعصمت سے بھرپور زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ایک مسلمان خاتون کے لئے عفیف وپاکدامن ہونے کا مطلب یہ کہ وہ ان تمام شرعی واخلاقی حدود کو تھامے رکھے جو اسے مواقع تہمت و فتنہ سے دور رکھیں۔اور اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ ان امور میں سے سب سے اہم اور سرفہرست چہرے کو ڈھانپنا اور اس کا پردہ کرنا ہے۔کیونکہ چہرے کا حسن وجمال سب سے بڑھ کر فتنہ کی برانگیختی کا سبب بنتا ہے۔امہات المومنین اور صحابیات جو عفت وعصمت اور حیاء وپاکدامنی کی سب سے اونچی چوٹی پر فائز تھیں،اور پردے کی حساسیت سے بخوبی آگاہ تھیں۔ان کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ پاوں پر بھی کپڑا لٹکا لیا کرتی تھیں،حالانکہ پاوں باعث فتنہ نہیں ہیں۔زیر تبصرہ کتاب" چہرے اور ہاتھوں کا پردہ،شرعی حیثیت اور شبہات کا ازالہ"سعودی عرب کے معروف عالم دین فضیلۃ الشیخ علی بن عبد النمی کی تصنیف ہے۔جس پر فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن الجبرین اور فضیلۃ الشیخ عبد اللہ ناصر رحمانی کی تقدیم ہے۔مولف نے اس کتاب میں قرآن وسنت کی روشنی میں مضبوط دلائل سے چہرے اور ہاتھوں کے پردے کو ثابت کیا ہے۔اور چہرے کے پردے کا انکار کرنے والوں کا مدلل رد کیا ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور تمام مسلمان ماؤں اور بہنوں کو عفت وعصمت کا مجسمہ بننے اور پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے۔آپ خاتم النبیین اور سلسلہ نبوت کی بلند مقام عمارت کی سب سے آخری اینٹ ہیں ،جن کی آمد سے سلسلہ نبوی کی عمارت مکمل ہو گئی ہے۔آپ کے بعد کوئی برحق نبی اور رسول نہیں آسکتا ہے ۔لیکن آپ نے فرمایا کہ میرے بعد متعدد جھوٹے اور کذاب آئیں گے جو اپنے آپ کو نبی کہلوائیں گے۔آپ کے بعد آنے والے متعدد کذابوں میں سے ایک جھوٹا اور کذاب مرزا غلام احمد قادیانی ہے ،جس نے نبوت کا دعوی کیا اور شریعت کی روشنی میں کذاب اور مردود ٹھہرا۔لیکن اللہ رب العزت نے اس کےجھوٹ وفریب کوبے نقاب کرد یا اور وہ دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں ذلیل وخوار ہو کر رہ گیا۔زیر نظر کتاب ’’ مرگ مرزائیت‘‘ قادیانی فتنے پر کی حقیقت پر لکھی گئی ہے۔جو قادیانی فتنے کے خلاف لکھنے والے معروف قلمکار محترم محمد طاہر عبد الرزاق کی کاوش ہے۔مولف موصوف نے مختلف اوقات میں قادیانیت کے خلاف آرٹیکل لکھے ،جنہیں اہل علم کی طرف سے خوب پذیرائی حاصل ہوئی ،اور پھر احباب کے اصرار پر ان مضامین کو ایک کتاب کی شکل دے دی گئی ،جو اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ان سے پہلے محترم محمد متین خالد بھی اس فتنے کے خلاف ایک موثر آواز اٹھا چکے ہیں۔مولف نے اس میں قادیانیوں کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشافات،ناقابل یقین حقائق اور چشم کشا واقعات سے پردہ اٹھایا گیا ہے،اور قادیانی کلچر سے متعلق ہوش ربا مشاہدات وتجربات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی ان کی اس محنت کو قبول ومنظور فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اس فتنے سے محفوظ فرمائے۔آمین(راسخ)
شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی مسلک اہل حدیث کے ترجمان ،تقریر وخطابت ،تحریر وانشاء او ردرس وتدریس کے شہسوار تھے او رجماعت اہل حدیث کے متعلق اپنے پہلومیں ایک درمند دل رکھتے تھے ۔پاکستان میں میں جمعیت اہل حدیث کے وہ پہلے ناظم اعلیٰ اور پھر امیر مرکزیہ کی ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برآہوئے ۔ اہل حدیث کانفرنس میں ان کی عموماً گفتگو حجیت حدیث ،مقام حدیث ،مسلک اہل حدیث ،تاریخ اہلحدیث کے عنوان پر ہوتی اور اکثر وبیشتر ان کی تحریر کے عنوان بھی یہی ہوتے اور عالم اسلام کےعلمی حلقے ان کے قلم کی روانی سے بخوبی آگاہ ہیں۔مولانا مرحوم بيک وقت ايک جيد عالمِ دين مجتہد ، مفسر ،محدث ، مؤرخ ، محقق ، خطيب ، معلم ،متکلم ، نقاد ، دانشور ، مبصر تھے ۔ تمام علوم اسلاميہ پر ان کو يکساں قدرت حاصل تھی ۔ تفسیر قرآن ، حديث ، اسماء الرجال ، تاريخ وسير اور فقہ پر ان کو عبور کامل حاصل تھا ۔ حديث اور تعليقات حديث پر ان کا مطالعہ بہت وسيع تھا حديث کے معاملہ ميں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہيں کرتے تھے۔مولانا محمد اسماعيل سلفیايک کامياب مصنف بھی تھے ۔ان کی اکثر تصانيف حديث کی تائيد وحمايت اور نصرت ومدافعت ميں ہيں آپ نے دفاع سنت کابیڑا اٹھایا اور اس کا حق ادا کیا ۔ اپنے مخاطب کا بھر پور تعاقب کرتے مگر اس کے ادب واحترام کے منافی کوئی چیز نوک قلم پر نہیں لاتے ۔زیر نظر کتابچہ’’مسلک اہل حدیث اور تحریکات جدیدہ‘‘ مولانا سلفی کے ان مضامین پر مشتمل ہے جو انہوں نے نصف صدی پہلے ’’ مسلک ا ہل حدیث او رتحریکات جدیدہ‘‘ کے عنوان سے شیخ الاسلام فاتح قادیان امام المناظرین مولانا ثناء اللہ امرتسری کے ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ کے لیے 1945ء مین لکھے ۔ یہ مضمون تین اقساط میں مذکورہ رسالہ میں شائع ہوا۔مولانا امرتسری نے ان کی قدر افزائی فرمائی اور اس کی پہلی قسط بطور اداریہ شائع کی۔اللہ تعالیٰ مولانا سلفی مرحوم کی مسلک حقہ اہل حدیث کےلیے خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت نوازے (آمین) (م ۔ا)
صحاح ستہ اور دیگر کتب حدیث کی بعض احادیث مبارکہ کو ہمارے بعض بڑے بڑے علماء مشکل یعنی ناقابل فہم اور ناقابل حل سمجھ بیٹھے تھے۔بعض کو طبی نقطہ نظر سے، بعض کو سیاسی نقطہ نظر سے، بعض کو علمی نقطہ نظر سے، بعض کو حسی نقطہ نظر سے اور بعض کو دینی نقطہ نظر سےناقابل فہم اور ناقابل حل سمجھ لیا گیا تھا۔چنانچہ بعض نے انہیں جھوٹ اور غلط قرار دیا اور ان کے راویوں پر بے جا حملے کئے۔جس سے عامۃ الناس شکوک وشبہات کا شکار ہو گئے،اور دین سے دور ہونے لگے۔اس پوری صورتحال کو دیکھ کر سعودی عرب کے معروف عالم دین علامہ عبد اللہ القصیمی میدان میں آئے اور "مشکلات الاحادیث النبویۃ وبیانھا" نامی کتاب لکھ کر ان تمام مشکل احادیث کا معنی ومفہوم واضح کر کے امت کی اس مشکل کو حل کر دیا۔اصل کتاب عربی میں ہے ،جس کے اردو ترجمہ کی سعادت مولانا محمد نصرت اللہ مالیر کوٹلوی نے حاصل کی ہے۔اردو ترجمے کا نام "بینات ترجمہ مشکلات"رکھا گیا ہے۔کتاب انتہائی تحقیقی، مدلل اور اپنے موضوع پر بڑی شاندار ہے،جس کا ہر اہل علم اور طالب علم کوضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس خدمت کو قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
حکیم عمر خیام چھٹی صدی ہجری کے معروف فارسی شاعر اور فلسفی ہیں۔آپ نیشاپور میں پیدا ہوئے۔ علوم و فنون کی تحصیل کے بعد ترکستان چلےگئے۔ جہاں قاضی ابوطاہر سے تربیت حاصل کی ۔ اور آخر شمس الملک خاقان بخارا کے دربار میں جا پہنچے۔ ملک شاہ سلجوقی نے انہیں اپنے دربار میں بلا کر صدر خانۂ ملک شاہی کی تعمیر کا کام ان کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے یہیں سے فلکیاتی تحقیق کا آغاز کیا، اور زیچ ملک شاہی لکھی۔ وہ اپنی رباعیات کے حوالے بہت مشہور ہیں۔ ان کا ترجمہ دنیا کی تقریباً تمام معروف زبانوں میں ہوچکا ہے۔ آپ علوم نجوم و ریاضی کے بہت بڑے عالم تھے۔ آپ کی تصانیف میں ما الشکل من مصادرات اقلیدس ، زیچ ملک شاہی ، رسالہ مختصر در طبیعیات ، میزان الحکم ، رسالۃ اکلون و التکلیف ، رسالہ موضوع علم کلی وجود ، رسالہ فی کلیات الوجود ، رسالہ اوصاف یا رسالۃ الوجود ، غرانس النفائس ، نوروزنامہ ، رعبایات خیام ، بعض عربی اشعار ، مکاتیب خیام فارسی ’’ جو اب ناپید ہے‘‘قابل ذکر ہیں۔زیر تبصرہ کتاب (خیام)ہندوستان کے معروف اہل علم مورخ سید سلیمان ندوی کی کاوش ہے،جس میں انہوں نے حکیم عمر خیام کی سوانح اور شاعری پر لکھی گئی کتب کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے ،اور ان کی زندگی کے مخفی حقائق کو منکشف کیا ہے۔یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد اور تحقیقی کتاب ہے ،جس کا مطالعہ شعر وادب اور فلسفہ سے کا ذوق رکھنے والے با ذوق لوگوں کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔(راسخ)
دین اسلام میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه (سورہ نساء:80) جس نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔ اور سورۂ محمد میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ(سورہ محمد:33)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو (اور اطاعت سے انحراف کر کے ) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔اطاعت رسول ﷺ کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ رسو ل اکرم ﷺ کی اطاعت صرف آپﷺ کی زندگی تک محدود نہیں بلکہ آپﷺ کی وفات کے بعد بھی قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے فرض قرار دی گئی ہے ۔ اطاعت رسول ﷺ کے بارے میں صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث بڑی اہم ہے ۔ کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’میر ی امت کے سب لوگ جنت میں جائیں گے سوائے اس شخص کے جس نے انکار کیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا انکار کس نے کیا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا او رجس نے میر ی نافرمانی کی اس نے انکار کیا ۔(صحیح بخاری :7280)گویا اطاعتِ رسول ﷺ اورایمان لازم وملزوم ہیں اطاعت ہے تو ایمان بھی ہے اطاعت نہیں تو ایمان بھی نہیں ۔ اطاعت ِ رسول ﷺ کے بارے میں قرآنی آیات واحادیث شریفہ کے مطالعہ کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ دین میں اتباع سنت کی حیثیت کسی فروعی مسئلہ کی سی نہیں بلکہ بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے ۔اتباع سنت کی دعوت کو چند عبادات کے مسائل تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ یہ دعوت ساری زندگی پر محیط ہونی چاہیے۔جس طر ح عبادات(نماز ،روزہ، حج وغیرہ) میں اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق وکردار ،کاروبار، حقوق العباد اور دیگر معاملات میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔گویا اپنی پوری زندگی میں خواہ انفرادی ہویا اجتماعی ،مسجد کے اندر ہویا مسجدکے باہر، بیوی بچوں کےساتھ ہو یا دوست احباب کے ساتھ ،ہر وقت ،ہرجگہ سنت کی پیروی مطلوب ہے ۔محض عبادات کے چند مسائل پرتوجہ دینا اور زندگی کے باقی معاملات میں سنت کی پیروی کو نظر انداز کردینا کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں کہلا سکتا۔زیر نظر کتاب ’’اتباع سنت کی اہمیت اورفضیلت‘‘ محترم قاری محمد موسیٰ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے قرآنی آیا ت او ر احادیث کی روشنی میں سنت کی اہمیت کواجاگر کیا ہے ۔ اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔اور اہل اسلام کے لیے اتباع رسولﷺکا ذریعہ بنائے (آمین )(م۔ا)
بیسویں صدی کا ابتدائی عہد ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بڑا صبر آزما تھا۔مسلمان انگریزی حکومت کے جبر واستبداد کا شکار تھے۔انگریزی استعمار کا فتنہ زوروں پر تھا ۔پورے ملک میں عیسائی مشنریاں سر گرم تھیں۔ہندووں میں ایک نیا فرقہ آریہ سماج وجود میں آچکا تھا۔جس کے بانی پنڈت دیانند شرما اور ان کے ہم نواوں کا قلم اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ایسا زہر اگل رہا تھا ،جس سے مسلمانوں میں ارتداد کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔"سنیارتھ پرکاش" اور"رنگیلا رسول" جیسی دل آزار کتابیں اسی دور کی یاد گار ہیں۔ان صبر آزما حالات میں ہندوستان کے معروف عالم دین ابو الوفاء مولانا ثناء اللہ امرتسری نے تمام داخلی وخارجی محاذ پر اپنے مسلسل مناظروں ،تحریروں اور تقریروں کے ذریعے جو چومکھی لڑائی لڑی اور اسلام اور مسلمانوں کا جس کامیابی سے دفاع کیا ،وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔زیر تبصرہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔جو مہاشہ دھرمپال کی کتاب"ترک اسلام" کے جواب میں لکھی گئے ہے۔یہ شخص گوجرانوالہ کا ایک مسلمان تھا۔جس کا نام عبد الغفور تھا۔1903ء میں پنڈت دیانند شرما کی تحریروں اور آریہ سماج کی شدھی تحریک سے متاثر ہو کر اسلام سے مرتد ہو گیا اور آریہ سماج میں داخل ہو گیا ہے،اور عبد الغفور سے دھرمپال بن گیا۔جس پر سماجیوں نے بڑی خوشی منائی اور جگہ جگہ جلوس نکالے۔اس موقع پر آریہ سماج نے ایک لیکچر کا بھی اہتمام کیا جس میں اس نے اپنے مذہب کی تبدیلی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے قرآن مجید پر ایک سو پندرہ اعتراضات کئے،جسے آریہ سماج نے مرتب کر کے " تَرک اسلام" کے نام سے شائع کر دیا ۔جب یہ کتاب چھپ کر منظر عام پر آئی تو مسلمان بے چین ہو کر اٹھے اور ہر طرف سے اس کے جواب کا مطالبہ ہونے لگا۔چنانچہ علامہ امرتسری کا قلم حرکت میں آیا اور " تُرک اسلام بر تَرک اسلام" کے نام سے اس دل آزار کتاب کا خود ان کی مذہبی کتابوں سے ایسا دندان شکن جواب دیا کہ اس کے تمام اعتراضات کے تاروپود نہ صرف بکھیر کر رکھ دئے ،بلکہ ایک سو پندرہ اعتراضات کے جواب میں اس پر ایک سو سولہ اعتراضات جڑ دیئے۔جس کا آج تک کوئی جواب نہ دے سکا۔ اللہ تعالی مولف کی اس عظیم الشان کاوش کو قبول ومنظور فرمائے اور مسلمانوں کے لئے باعث ہدایت بنائے۔آمین(راسخ)
قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی یہ سوال بہت اہمیت اختیار کرگیا کہ پاکستان میں کس قسم کانظام نافذ ہونا چاہیے ۔ مختلف ادوار میں مختلف ادارےوجود میں آئے جو ہمارے ارباب اقتدار کو یہ مشورہ دے سکیں کہ ہمارے ملک کانظام کس طرح اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق ترتیب دیا جائے ۔اس سلسلے میں ڈاکٹر حمید اللہ او ر محمد اسد بھی مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔زیر نظر کتاب ’’اسلامی مملکت وحکومت کے بنیادی اصول‘‘ محمداسد کے حکومتِ پاکستان کو ایک اسلامی مملکت بنانےکے لیے کتابی صورت میں دیئے جانے والے مشورں کا اردو ترجمہ ہے ۔ کتاب کے مصنف نو مسلم ہیں ۔انہوں نے بڑی محنت سے عربی زبان وادب اور علوم اسلامی کاعلم حاصل کیا اورقرآن مجیدکا انگریزی ترجمہ بھی کیا اوراس پر
قرآن کریم تمام شرعی دلائل کا مآخذ ومنبع ہے۔اجماع وقیاس کی حجیت کے لیے بھی اسی سے استدلال کیا جاتا ہے ،اور اسی نے سنت نبویہ کو شریعت ِاسلامیہ کا مصدرِ ثانی مقرر کیا ہے مصدر شریعت اور متمم دین کی حیثیت سے قرآن مجید کے ساتھ سنت نبویہ کوقبول کرنےکی تاکید وتوثیق کے لیے قرآن مجید میں بے شمار قطعی دلائل موجود ہیں۔اہل سنت الجماعت کا روزِ اول سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی ایک مستقل شرعی حیثت ہے ۔اتباعِ سنت جزو ایمان ہے ۔حدیث سے انکا ر واعراض قرآن کریم سے انحراف وبُعد کازینہ اور سنت سے اغماض ولاپرواہی اور فہم قرآن سے دوری ہے ۔سنت رسول ﷺکے بغیر قرآنی احکام وتعلیمات کی تفہیم کا دعو یٰ نادانی ہے ۔ اطاعت رسول ﷺ کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ رسو ل اکرم ﷺ کی اطاعت صرف آپﷺ کی زندگی تک محدود نہیں بلکہ آپﷺ کی وفات کے بعد بھی قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے فرض قرار دی گئی ہے ۔گویا اطاعتِ رسول ﷺ اورایمان لازم وملزوم ہیں اطاعت ہے تو ایمان بھی ہے اطاعت نہیں تو ایمان بھی نہیں ۔ اطاعت ِ رسول ﷺ کے بارے میں قرآنی آیات واحادیث شریفہ کے مطالعہ کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ دین میں اتباعِ سنت کی حیثیت کسی فروعی مسئلہ کی سی نہیں بلکہ بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے ۔اتباع سنت کی دعوت کو چند عبادات کے مسائل تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ یہ دعوت ساری زندگی پر محیط ہونی چاہیے۔جس طر ح عبادات(نماز ،روزہ، حج وغیرہ) میں اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق وکردار ،کاروبار، حقوق العباد اور دیگر معاملات میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔اللہ تعالیٰ نے ’’ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه (سورہ نساء:80) کا فرمان جاری فرماکر دونوں مصادر پر مہر حقانیت ثبت کردی ۔ لیکن پھر بھی بہت سارے لوگوں نے ان فرامین کو سمجھنے اور ان کی فرضیت کے بارے میں ابہام پیدا کرکے کو تاہ بینی کا ثبوت دیا ۔مستشرقین اور حدیث وسنت کے مخالفین نے سنت کی شرعی حیثیت کو مجروح کر کے دینِ اسلام میں جس طرح بگاڑ کی نامسعود کوشش کی گئی اسے دینِ حق کے خلاف ایک سازش ہی کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن الحمد للہ ہر دو ر میں محدثین اور علماءکرام کی ایک جماعت اس سازش اور فتنہ کا سدباب کرنے میں کوشاں رہی اور اسلام کے مذکورہ ماخذوں کے دفاع میں ہمیشہ سینہ سپر رہی ۔زیر نظر کتاب ’’ اسلام میں سنت کا مقام ‘‘ ہندوستان کے جید عالم دین مفسر قرآن ڈاکٹر محمد لقمان سلفی ﷾ کی حجیت سنت کے اثبات اور منکرین سنت ومستشرقین کی تردید کے سلسلہ میں ان کی مایہ ناز عربی تصنیف مكانة السنة فى التشريع الإسلامى کا سلیس ورواں اردو ترجمہ ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں شریعت ِاسلامیہ میں سنت کا جو عظیم مقام ہے اسے قرآن کریم کی آیات مبارکہ اور صحیح احادیث کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جس طرح قرآن کریم دینِ اسلام کے بنیادی عقائد اور شرائع اسلامیہ کو جاننے کا پہلا ذریعہ ہے اسی طرح نبی کریم ﷺکی احادیث کریمہ دوسرا ذریعہ ہیں ۔ان کے بغیر اسلام کی تکمیل کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ا س کےبعد تاریخی حوالہ جات کی مدد لیتے ہوئے سنت کی جمع وتدوین پر روشنی ڈالنے کے علاوہ محدثین عظام کی ان کوشش کو اجاگر کیا ہے جن کے نتیجہ میں یہ علم شریعت بحفاظت تمام اکٹھا کردیا گیا ۔ فاضل مصنف ڈاکٹر لقمان سلفی ﷾ اس کتاب کے علاوہ کئی کتب کے مصنف جامعہ ابن تیمیہ ،ہنداور دار الداعی للنشر والتوزیع ،الریاض کے مؤسس ومدیر ہیں۔ سعودی عرب میں ڈاکٹریٹ کی تکمیل کے بعد وہیں تصنیف وتدریس میں مصروف ہیں ۔ان کی خدمات اور کارناموں کی وجہ سے انہیں سعودی شہریت بھی حاصل ہے ۔اور موصوف مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیداور استاذ الاساتذہ حافظ ثناء اللہ مدنی ﷾ (شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور) وغیرہ کے ہم کلاس ر ہے ہیں اور ان کا شمارشیخ ابن باز کےخاص تلامذہ میں سے ہوتا ہے ۔اللہ تعالی دین اسلام کے لیے ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ اور اس کتاب کو مستشرقین و منکرین سنت کے تمام مکائد اور شبہات واوہام اور ان کے مکر وفریب کے خاتمہ کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
بیسویں صدی کا ابتدائی عہد ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بڑا صبر آزما تھا۔مسلمان انگریزی حکومت کے جبر واستبداد کا شکار تھے۔انگریزی استعمار کا فتنہ زوروں پر تھا ۔پورے ملک میں عیسائی مشنریاں سر گرم تھیں۔ہندووں میں ایک نیا فرقہ آریہ سماج وجود میں آچکا تھا۔جس کے بانی پنڈت دیانند شرما اور ان کے ہم نواوں کا قلم اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ایسا زہر اگل رہا تھا ،جس سے مسلمانوں میں ارتداد کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔"سنیارتھ پرکاش" اور"رنگیلا رسول" جیسی دل آزار کتابیں اسی دور کی یاد گار ہیں۔ان صبر آزما حالات میں ہندوستان کے معروف عالم دین ابو الوفاء مولانا ثناء اللہ امرتسری نے تمام داخلی وخارجی محاذ پر اپنے مسلسل مناظروں ،تحریروں اور تقریروں کے ذریعے جو چومکھی لڑائی لڑی اور اسلام اور مسلمانوں کا جس کامیابی سے دفاع کیا ،وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔زیر تبصرہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔جو مہاشہ دھرمپال کی کتاب"نخل اسلام" کے جواب میں لکھی گئے ہے۔یہ شخص گوجرانوالہ کا ایک مسلمان تھا۔جس کا نام عبد الغفور تھا۔1903ء میں پنڈت دیانند شرما کی تحریروں اور آریہ سماج کی شدھی تحریک سے متاثر ہو کر اسلام سے مرتد ہو گیا اور آریہ سماج میں داخل ہو گیا ہے،اور عبد الغفور سے دھرمپال بن گیا۔جس پر سماجیوں نے بڑی خوشی منائی اور جگہ جگہ جلوس نکالے۔اللہ تعالی مولف کی اس عظیم الشان کاوش کو قبول ومنظور فرمائے اور مسلمانوں کے لئے باعث ہدایت بنائے۔آمین(راسخ)