اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ دو باتیں ہیں ۔اللہ تعالی کی بندگی و اطاعت اور اللہ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک اسی لیے جیسے شریعت میں ہمیں اللہ تعالی کے حقوق ملتے ہیں اسی طرح ایک انسان کے دوسرے انسان پر بھی حقوق رکھے گئے ہیں ۔ اسلام میں انسانی حقوق کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اسی لیے اسلام نے ان حقوق کو بہت واضح طور پر پیش کیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے ، انسان ایک سانپ کی طرح تنہا کسی بل میں اور ایک شیر کی طرح تنہا کسی غار میں زندگی نہیں گزار سکتا ، وہ سماج اور خاندان کا محتاج ہے اور بہت سے رشتے داروں کے حصار میں زندگی بسر کرتا ہے ۔ چناچہ اس نسبت سے بھی انسان کے اوپر بہت سے حقوق عائد ہوتے ہیں ۔ والدین اور اولاد کا حق ، بیوی ، بھائیوں اور بہنوں کا حق اور پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ یہ تمام حقوق اصل اسلامی حقوق کے دائرے میں آتے ہیں ۔ اس لئے شریعت میں انسانی حقوق کا دائرہ بہت وسیع ہے اور انہیں بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ زیر مطالعہ کتاب در اصل انڈیا میں منعقد سمینار میں دیے گئے لیکچرز کا مجموعہ ہے ۔ جس میں اس موضوع کے حوالے سے تقریبا تمام پہلو آچکے ہیں ۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک جامع...
چندصدیاں پہلے مختلف مذہبی اور نسلی اکائیاں الگ الگ بود و باش اختیار کرتی تھیں اور ان کے درمیان اختلاط و اشتراک بہت کم پایا جاتا تھا ۔ اس لئے اقلیتوں کا وجود کم ہوتا تھا ۔ سترویں صدی کے انقلاب اور جمہوری نظام حکومت کے ارتقاء کے باعث صورتحال میں تبدیلی آئی ۔ اور کثیر مذہبی ، کثیر لسانی ، کثیر تہذیبی اور کثیر نسلی سماج کو ارتقاء حاصل ہوا ۔ چناچہ آج بحثیت مجموع دنیا میں اقلیتیں زیادہ ہیں ۔ خود مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا میں مسلمان اقلیتوں کا تناسب پچاس فی صد ہے ۔ ان حالات نے عالمی سطح پر اقلیتوں کے حقوق کے مسلہ کو اہم بنا دیا ہے ۔ بین الاقوامی قوانین میں بھی اس کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ۔ انسانی حقوق کے چارٹ میں اس کو شامل کیا گیا ہے ۔ اور اسی طرح دنیا کے تمام ممالک کے ملکی قوانین میں بھی اس کی رعایت کی گئی ہے ۔ کیونکہ اکثریت کا استبداد بعض اوقات اقلیت کے لئے معاشرہ کو ظلم و جور کی بھٹی بنا دیتا ہے ۔ اسی لئے اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اپنے اقتدار اور غلبہ کے دور میں بڑی حد تک اس کو ملحوظ...
اسلام ایک ایسا دین ہے جو زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔اب یہ ایک لازمی بات ہے کہ شرعی نصوص محدود جبکہ انسانی مسائل لامحدود ہیں۔انہیں حل کرنے کے لئے اجتہاد و تفقہ کا راستہ اپنانا ضروری ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن اور حدیث نبوی میں زندگی کے بعض مسائل کے بارے میں جزوی تفصیلات بھی موجود ہیں اور بعض مسائل خاص کر معاملات کے بارے میں زیادہ تر اصول و قواعد کی رہنمائی پر اکتفاء کیا گیا ہے تاکہ ہر عہد کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق ان کی تطبیق میں سہولت ہو، اسی لئے ہر دور میں ایسے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں جن کے بارے میں صریح حکم قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور تیز رفتار سیاسی تبدیلیوں، معاشی انقلابات اور وسائل و ذرائع کی ایجات کا ہے، اس لئے اس عہد میں مسائل بھی زیادہ پیش آتے ہیں، چنانچہ ماضی قریب میں مختلف اسلامی ممالک میں اس مقصد کے لئے فقہ اکیڈمیوں کا قیام عمل میں آیا، نئے مسائل کو حل کرنے میں ان کی خدمات بہت ہی عظیم الشان اور قابل تحسین ہیں، اس سلسلہ کی ایک کڑی اسلامک فقہ اکیڈمی ( انڈیا) بھی ہے۔زیرنظر کتاب ...
اسلام ایک ایسا عادلانہ آسمانی دین ہے جو انسانی زندگی کی ہمہ جہت ترقی کاضامن ہے۔خالق کائنات انسان کی جملہ ضرورتوں ، حاجتوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس لیے شریعت اسلامی میں ان تمام پہلوؤں کانہایت حسن و کمال کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہےجن کے ذریعہ انسان کی رہنمائی ہوتی ہے اور اس کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔اور راست جہت میں سنورتا اور ترقی کرتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو منصب قیادت پر سرفراز فرمایاہے۔یہ منصب بہت ساری صلاحیتوں اور خوبیوں کا متقاضی ہے۔ ان میں سے سب سے اہم ترین یہ ہے کہ پیش آمدہ مسائل کا حل پیش کیا جائے۔اس سلسلے میں علمائے اصول جس علم سے استمداد لیتے ہیں اسے اصول فقہ کہتے ہیں۔ جس کا ایک گوشہ تسہیل وتیسیر، رفع حرج، تخفیف وترخیص، اعتدال و توازن ، تسامح او راباحت کے اصولوں کا ہے۔اسلام نے بندوں کے مفادات و مصالح اور ضروریات کی مکمل رعایت رکھی ہے اس لیے مقاصد شریعت میں رفع حرج، دفع ضرر او رمصالح کو نمایاں مقام حاصل ہے۔فقہاء نے ان اصولوں کی روشنی میں امت کی ضرورتوں کا دائرہ متعین کرتے ہوئے ان کا حق پیش کرنے...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،اس کی تعلیمات انسانی فطرت کے مطابق اور اس سے ہم آہنگ ہیں،اور اپنے اندر بے پناہ جامعیت ،ہمہ گیری اور عالمگیریت رکھنے کے سبب ہر دم رواں ،پیہم دواں زندگی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔زندگی کے عملی احکام عبادات ،معاملات ،معاشرتی اور مالیاتی قوانین،اجتماعی اور تعزیری احکام،وہ امور ہیں ،جن میں حالات وزمانہ کی تبدیلی ،اور عرف وعادت کے تغیر کی وجہ سےبہت کچھ تبدیلی بھی روا رکھی جاتی ہے۔اور اجتہاد کے ذریعے پیش آمدہ مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔ کتاب کے مؤلف مولانا بدر الحسن القاسمی دار العلوم دیو بند کے فاضل ،ایک ذہین،بالغ نظر اور باخبر عالم ہیں۔آپ کو فقہ اسلامی اور جدید علم کلام سے خصوصی دلچسپی ہے۔آپ نے اس کتاب میں جدید فقہی مسائل کو دلائل کے ساتھ بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ،اوراجتہادی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر مسئلہ میں راجح موقف کو بیان کرنے کی زبر دست کوشش کی ہے،آپ سے اختلاف رائے تو ہو سکتا ہے ،مگر آپ نے تحقیق کا جو معیار قائم کیا ہے وہ ایک مثالی اور منفرد ہے۔(راسخ)
یہ ایک حقیقت ہےکہ موجودہ دور تیز رفتار سیاسی تبدیلیوں،معاشی انقلابات اور وسائل و ذرائع کی ایجادات کا ہے۔اس لئے اس عہد میں مسائل بھی زیادہ پیش آتےہیں،چنانچہ ماضی قریب میں مختلف اسلامی ممالک میں اس مقصد کے لئے فقہ اکیڈمیوں کاقیام عمل میں آیا، جدید مسائل کو حل کرنے میں ان کی خدمات بہت ہی عظیم الشان اورقابل تحسین ہیں، اس سلسلہ کی ایک کڑی انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی ( جدہ) بھی ہےجوکہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم OIC کے تحت 1983ء میں جدہ میں قائم ہوئی۔اس اکیڈمی کے تحت اب تک مختلف ممالک میں تقریباً 19 سیمینار ہوچکے ہیں ۔ان سیمیناروں میں مجموعی اعتبار سے 133 معاشی ،معاشرتی، طبی اور اجتماعی مسائل پر بحث ہوچکی ہے اور اس کے فیصلے پوری دنیا میں قدر و وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب بھی انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی (جدہ) کے تحت ہونے والا سیمینار زمیں عصر حاضر کے جدید معاشی،طبی،معاشرتی وسیاسی اور سائنسی مسائل کے بارے میں علمائے عالم اسلام کے شرعی فیصلے اور سفارشات پر مشتمل ہے ۔ جسے اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) نے مولانا مفتی محمد فہیم اخترندوی (انچارج علمی امور اس...
فقہ اسلامی کا ایک اہم ماخذ او رسرچشمہ عرف و عادت ہے ۔عرف سے مراد وہ قول یا فعل ہے جو کسی ایک معاشرہ کےیا تمام معاشروں کے تمام لوگوں میں روا ج پاجائے ۔اور وہ اس کے مطابق چل رہے ہوں۔فقہاء کے نزدیک عرف وعادت دونوں کے ایک ہی معنی ہیں ۔عرف شریعت اسلامیہ میں معتبر ہے او ر اس پر احکام کی بنیاد رکھنا درست ہے ۔کتب فقہ میں اس کی حجیت اور اقسام وغیرہ کے حوالے سے تفصیلی مباحث موجود ہیں ۔زیر نظر کتاب ''عرف وعادت '' اسلامک فقہ اکیڈمی کے زیر اہتمام آٹھویں فقہی سیمنیار منعقدہ اکتوبر 1995ء علی گڑھ میں پیش کئے گئے علمی،فقہی اور تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے جس میں عرف وعادت کی حقیقت،عرف اور اس کی اقسام کااعتبار،عرف وعادت کے معتبر ہونے کی شرطیں، عرف وعادت سے متعلق فقہی قواعد،عرف او ر اقوال فقہاء میں تعارض کے حوالے سے تفصیلی مباحث پیش کی گئی ہیں۔(م۔ا)
شریعتظ کا مزاج یہ ہے کہ جو بھی معاملہ کیا جائے ،خواہ وہ قریب ترین رشتہ داروں کے درمیان ہو لیکن اسے واضح ہونا چاہیے،اس میں ایسا ابہام نہیں ہونا چاہیے جو آئندہ نزاع کا باعث بن سکتا ہو۔فقہ میں تجارت کے بہت سے احکام اسی اصول پر مبنی ہیں کہ جو معاملات کسی پہلو میں ابہام کی وجہ سے آئندہ نزاع کا سبب بن سکتے ہیں وہ درست نہیں ہوں گے ۔کاروباری اور تجارت کے مسائل میں ایک اہم مسئلہ کاروبار میں میں اولاد کی شرکت کا ہے کہ کاروبار میں والد کے ساتھ اولاد کی شرکت کس حیثیت سے ہے ؟ کیا وہ اس میں پارٹنر ہیں ؟ یا ان کی حیثت ملازم کی ہے ؟یا وہ محض اپنے والد کے معاون و مددگار ہیں ۔ زیر نظرکتاب'' کاروبار میں اولاد کی شرکت'' معاشرے میں پائے جانے والے مذکورہ کاروباری معاملات ومسائل کے حوالے ایک اہم کتاب ہے ۔جوکہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے زیر اہتمام انیسویں فقہی سیمنیار منعقدہ فروری 2010ءمیں پیش کئے گئے علمی،فقہی اورتحقیقی مقالات ومقاقشات کا مجموعہ ہے جس میں تقرییا 31 ممتاز اہل علم او رارباب افتاء نے اس موضوع پراپنے مقالات پیش کئے ۔ سیمینار میں ان مقالات پر کیے جانے والے...
نکاح دراصل میاں بیوی کے درمیان وفاداری او رمحبت کے ساتھ زندگی گزرانے کا ایک عہدو پیمان ہوتا ہے ۔ نیز نسل نو کی تربیت کی ذمہ داری بھی نکاح کے ذریعہ میاں بیوی دونوں پر عائد ہوتی ہے لیکن اگر نکاح کے بعد میاں بیوی دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی یہ محسوس کریں کہ ان کی ازدواجی زندگی سکون وا طمینان کے ساتھ بسر نہیں ہوسکتی او رایک دوسرے سے جدائی کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو اسلام انہیں ایسی بے سکونی وبے ا طمینانی او رنفرت کی زندگی گزارنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ مرد کو طلاق او ر عورت کو خلع کاحق دے کرایک دوسرے سے جدائی اختیار کر لینے کی اجازت دیتا ہے ۔لیکن اس کے لیے بھی اسلام کی حدود قیود اور واضح تعلیمات موجود ہیں۔ طلاق کے مسائل میں سے ایک مسئلہ حالت نشہ کی طلاق ہے ۔طلاق چونکہ ایک نہایت اہم اور نازک معاملہ ہے اس لیے ضروری ہے کہ پوری طرح غور وفکر کے بعد اس کا فیصلہ کیا جائے ،اور غوروفکر کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی شعور ی کیفیت بحال ہو اسی لیے جب انسان عقل وشعور کو استعمال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو تو اس حالت کی طلاق واقع نہیں ۔اسی بنا پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ مجنون...
شریعت اسلامی انسانیت کے لئے اللہ تعالی کا ہدایت نامہ ہے ،جس میں زندگی کے تمام مسائل کے بارے میں تفصیلی یا اجمالی راہنمائی موجود ہے۔شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں ،جو یقینی ذرائع سے ثابت ہیں،اور الفاظ وتعبیرات کے اعتبار سے اس قدر واضح ہیں کہ ان میں کسی دوسرے معنی ومفہوم کا کوئی احتمال نہیں ہے۔ان کو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ کہا جاتا ہے،اور شریعت کے بیشتر احکام اسی نوعیت کے ہیں۔جبکہ بعض احکام ہمیں ایسی دلیلوں سے ملتے ہیں،جن کے سندا صحیح ہونے کا یقین نہیں کیا جا سکتا ہے،یا ان میں متعدد معانی کا احتمال ہوتا ہے۔اسی طرح بعض مسائل قیاس پر مبنی ہوتے ہیں اور ان میں قیاس کی بعض جہتیں پائی جاتی ہیں۔تو ایسے مسائل میں اہل علم اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق فتوی دیتے ہیں،جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اہل علم اور ائمہ کرام کے ان اختلافات اور اجتہادی آراء کا شرعی حکم کیا ہے۔زیر تبصرہ کتاب " اختلافات ائمہ کی شرعی حیثیت "ایفا پبلیکیشنز دہلی انڈیا کی مطبوعہ ہے،جس میں اسی اہم ترین موضوع پر منعقد سیمینار میں پیش کئے گئے مقالات کو جمع کر د...
اسلام ایک ایسا دین ہے جو زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔روزہ شروع کرنےاور عید منانے کے مسئلے میں شریعت مطہرہ نے جو معیار مقرر کیا ہے وہ یہ ہے کہ چاند دیکھ کرعید منائی جائے او رچاند دیکھ کر ہی روزہ کی ابتداء کی جائے ۔اور اگر گرد وغبار اور ابر باراں کی وجہ سے چاند دکھائی نہ دے تو رواں مہینے کےتیس دن مکمل کر لیے جائیں بالخصوص شعبان اوررمضان المبارک کے ۔ مذکورہ قاعدہ کلیہ تمام مسلمانوں کیلئے ہے خو اہ وہ عربی ہو یا عجمی ۔دور حاضر ہو یا دور ماضی ۔ایک وقت تک مسلمان اس اصول وقاعدہ کے پابند رہےمگر پھر آہستہ آہستہ فقہائے دین و ائمہ مجتہدین اور ان کے مقلدین کی دینی خدمات کے نتیجے میں امت مسلمہ مختلف آراء میں بٹ گئی ۔اس سلسلے میں دو رائے پائی جاتی ہیں ۔ایک نقطۂ نظر کےمطابق مطالع کا اختلاف معتبر نہیں ہے اور ایک جگہ کی رؤیت پوری دنیا کے لیے ہے۔اور دوسرے نقطۂ نظر کے حاملین کے نزدیک اختلاف مطالع معتبر ہے لہٰذا ہر علاقہ کی رؤیت اس علاقہ کے لیے معتبر ہوگی ۔ قر...
اسلام کے نظام معیشت کی بنیادی خصوصیت انفرادی ملکیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ دولت کی زیادہ سے زیادہ تقسیم اور اس کو ارتکاز سے بچانا ہے،اس کی ایک عملی مثال زکوۃ کا نظام ہے۔زکوۃ کو واجب قرار دیا جانا ایک طرف اس بات کی دلیل ہے کہ سرمایہ دار خود اپنی دولت کا مالک ہےاور وہ جائز راستوں میں اسے خرچ کر سکتا ہے۔دوسری طرف اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان کی دولت میں سماج کے غریب لوگوں کا بھی حق ہے ۔یہ حق متعین طور پر اڑھائی فیصد سے لیکر بیس فیصد تک ہے،جو مختلف اموال میں زکوۃ کی مقررہ شرح ہے،اور بطور نفل اپنی ضروریات کے بعد غرباء پر جتنا کرچ کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل مسلمان اس عظیم الشان فریضے کی ادائیگی سے سے بالکل لا پرواہ ہو چکے ہیں۔اور زکوۃ نکالنے کا اہتمام مفقود نظر آتا ہے۔اس پس منظر میں ایک رجحان یہ بھی ہے کہ اموال زکوۃ کی سرمایہ کاری کی جائے تاکہ زیادہ عرصہ تک اور زیادہ سے زیادہ فقراء کو اس سے استفادہ کرنے کا موقع مل سکے۔موضوع کی اہمیت کے پیش نظر انڈیا کی اسلامک فقہ اکیڈمی نے دیگر موضوع...
دین اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور تمام مسلمانوں کا اس کی حرمت پر اتفاق ہے۔سود کو عربی زبان میں ”ربو“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ شریعت اسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں۔" جولوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو ۔اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود کی طرح ہے، حالا...
ہرمسلمان کے لیے اپنے دنیوی واخروی تمام معاملات میں شرعی احکام اور دینی تعلیمات کی پابندی از بس ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :َیا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ(سورۃ البقرۃ:208)’’اے اہل ایمان اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو ،یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ‘‘۔کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ عبادات میں تو کتاب وسنت پر عمل پیرا ہو او رمعاملات او رمعاشرتی مسائل میں اپنی من مانی کرے او راپنے آپ کوشرعی پابندیوں سے آزاد تصور کرے۔ ہمارے دین کی وسعت وجامعیت ہےکہ اس میں ہر طرح کے تعبدی امور اور کاروباری معاملات ومسائل کا مکمل بیان موجود ہے۔ ان میں معاشی زندگی کے مسائل او ران کے حل کو خصوصی اہمیت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے ہر مسلمان بہ آسانی انہیں سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہوسکتاہے۔ تجارت، لین ،دین اورباہمی معاہدہ کی مختلف دور میں مختلف صورتیں رائج رہی ہیں ، بہت سے عقود اورمعاملات بنیادی...
انسانی زندگی میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس کی تکمیل کے لیے ہر دور میں اہتمام کیا جاتا رہا ہے ،لیکن اسلام نے تعلیم کی اہمیت پر جو خاص زور دیا ہے اور تعلیم کو جو فضیلت دی ہے دنیا کے کسی مذہب اور کسی نظام نے وہ اہمیت اور فضیلت نہیں دی ہے۔ اسلام سے قبل جہاں دنیا میں بہت سی اجارہ داریاں قائم تھیں وہاں تعلیم پر بھی بڑی افسوس ناک اجارہ داری قائم تھی۔اسلام کی آمد سے یہ اجارہ داری ختم ہوئی۔ دنیا کے تمام انسانوں کو چاہے وہ کالے ہوں یا گورے، عورت ہو یامرد،بچے ہوں یا بڑے، سب کو کتاب و حکمت کی تعلیم دینے کی ہدایت دی۔اسلام نے نہ صرف یہ کہ علم حاصل کرنے کی دعوت دی،بلکہ ہر شخص کا فرض قرار دیا ہے۔آسمان وزمین، نظام فلکیات، نظام شب وروز،بادوباراں ،بحرودریا ،صحرا و کوہستان،جان دار بے جان ،پرندو چرند، غرض یہ کہ وہ کون سی چیز ہے جس کا مطالعہ کرنے اور اس کی پوشیدہ حکمتوں کا پتہ چلانے کی اسلام میں ترغیب نہیں دی گئی۔ مسلمانوں میں دینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ عہد نبوی ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ دارارقم ،درس گاہ مسجد قبا ، مسجد نبوی اور اصحاب صفہ کے چبوترہ میں تعلیم...
اسلام ساری انسانیت کے لیے آیاہے، ہرزمانے کے لیے ہے، اور ہر خطے میں اس کی تعلیمات کے مطابق ایک پرسکون معاشرے کی تشکیل عمل میں آسکتی ہے ۔اسلام انسان کی بنیادی ضرورتوں کا رکھوالا ہے ۔ بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ اسلام انسانیت کی نجات کا ضامن ہے ، اسلام دین کی حفاظت کرتا ہے، جان کی حفاظت کرتا ہے،عقل کی حفاظت کرتا ہے،عزت کی حفاظت کرتا ہے،اور مال کی حفاظت کرتا ہے ۔ اصولِ فقہ کے ذیلی مباحث میں ایک عنوان " مقاصد شریعت " بھی آتا ہے۔اس موضوع پر متعدد قدیم وجدید علماء نے کتب لکھی ہیں۔ جن میں مقاصد شریعت پر گفتگو کی گئی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" مقاصد شریعت، عصری تناظر میں "ڈاکٹر جمال الدین عطیہ صاحب کی تصنیف ہے ، جسے ایفا پبلیکیشنز انڈیا نے شائع کیا ہے۔اس کتاب میں مولف موصوف نے مقاصد شریعت سے متعلقہ مسائل،مقاصد کا جدید تصور اور مقاصد کی حیویت اور فعالیت، وغیرہ جیسی مباحث بیان فرمائی ہیں۔اپنے موضوع پر یہ ایک تحقیقی اور علمی تصنیف ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس عظیم خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ا...
جب کوئی معاشرہ مذہب کو اپنے قانون کا ماخذ بنا لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں علم فقہ وجود پذیر ہوتا ہے۔ علم فقہ، دین کے بنیادی ماخذوں سے حاصل شدہ قوانین کے ذخیرے کا نام ہے۔ چونکہ دین اسلام میں قانون کا ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اس وجہ سے تمام قوانین انہی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ جب قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے تو اس کے نتیجے میں متعدد سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔قرآن مجید کو کیسے سمجھا جائے؟قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ سنت کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ سنت کہاں سے اخذ کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے جو فن وجود پذیر ہوتا ہے، اسے اصول فقہ کہا جاتا ہے۔اور تمام قدیم مسالک (احناف،شوافع،حنابلہ اور مالکیہ)نے قرآن وسنت سے احکام شرعیہ مستنبط کرنے کے لئے اپنے اپنے اصول وضع کئے ہیں۔بعض اصول تو تمام مکاتب فکر میں متفق علیہ ہیں جبکہ بعض میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " مباحث فقہیہ، اصول فقہ اور فقہ کے چند اہم مسائل پر اہم معاصر تحقیقی ب...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام معاشرتی زندگی کے حوالے سے پاکیزہ تعلیمات اور روشن احکامات دیتا ہے۔اللہ تعالی نے جہاں نکاح کرکےبندھن میں بندھنےکے احکام بیان کئے ہیں ، وہیں اگر یہ بندھن قائم رکھنا مشکل ہو جائے تو اسے طلاق کے ذریعے ختم کرنے کے احکام بھی تفصیل سے بیان کئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " غیر مسلم مم...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام معاشرتی زندگی کے حوالے سے پاکیزہ تعلیمات اور روشن احکامات دیتا ہے، اور نکاح پر مبنی پاکیزہ زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " نکاح میں شرط اور مشروط مہر،فقہ اسلامی کی روشنی میں " ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے آٹھویں فق...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام نے جہاں اعلی اخلاقیات کا حکم دیا ہے وہیں مجرموں اور قیدیوں کے حقوق بھی بیان کر دئیے ہیں تاکہ کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہو سکے۔ زیر تبصرہ کتاب" قیدیوں کے حقوق،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں "ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے اٹھارہویں...
اسلامی علوم میں فقہ اسلامی کوخصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ فقہ کاتعلق ایک طرف کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺ سے جو جو تمام احکام شرعیہ کاماخذ ہیں۔ جس نے زندہ مسائل کے استدلال، استنباط اور اجتہاد میں قرآن وسنت کواپنایا اور شرعی احکام کی تشریح وتعبیر میں ان دونوں کو ہی ہر حال میں ترجیح دی۔ یہ تعلیمات اللہ تعالیٰ کا ایسا عطیہ ہیں جو اپنے لطف وکرم سے کسی بھی بندے کو خیر کثیر کے طور پر عطا کردیتا ہے۔ اور فقہ اسلامی اس علم کا نام ہے جو کتاب وسنت سے سچی وابستگی کے بعد تقرب الٰہی کی صورت میں حاصل ہوتا ہے ۔ یہ علم دھول وغبار کواڑا کر ماحول کوصاف وشفاف بناتا ہے اور بعض ایسے مبہم خیالات کا صفایا کرتا ہے جہاں بظاہر کچھ ہوتا ہے اور اندرون خانہ کچھ ۔ فقہ اسلامی مختلف شبہ ہائے زندگی کے مباحث پر مشتمل ہے اس کے فہم کے بعض نابغۂ روزگار متخصصین ایسےبھی ہیں جن کے علم وفضل اوراجتہادات سےایک دنیا مستفید ہوئی اور ہورہی ہے ۔ہندوستان میں جب اسلامی علوم کی کرنیں طلوع ہونے لگیں تو شروع میں علم حدیث پرزیادہ توجہ دی گئی خاص کر سندھ اور گجرات کے علاقہ میں لیکن اس کے بعد اہل فقہ اہل علم کی ت...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،جس میں معاشرت ومعیشت سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے مکمل راہنمائی موجود ہے۔ اسلام کا نظریہ معیشت فطرت سے ہم آہنگ اور تمام معاشی مشکلات کا واحد حل ہے، اس لئے کہ یہ نظام نہ تجربات کا مرہون منت ہے اور نہ اقتصادی ماہرین کی ذہنی کاوش کا نتیجہ،بلکہ یہ معاشی نظام پروردگار نے تجویز کیا اور پیغمبر اسلام نے پیش کیا، اس لئے یہ نظام ہی وہ واحد نظام معیشت ہے جو اگر تمام عالم پر چھا جائے تو دنیا میں صرف معاشی سکون ہی سکون ہو، اس لئے کہ یہ مالک حقیقی نے بنایا ہے وہ ہم سب کا رب ہے، لہٰذا اس کی ربوبیت کا سایہ بھی سب پر یکساں ہے، اس میں اجتماعی مفاد ہی ملحوظ ہے، شخصی یا گروہی مفاد کا شائبہ تک نہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے حقیقی مالک صرف اللہ ہے، ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز اور بڑی سے بڑی چیز اس کی ملکیت میں داخل ہے، چنانچہ اُس نے مال کی نسبت اپنی ذات کی طرف دیتے ہوئے فرمایا:”خدا کے مال میں سے جو اُس نے تمہیں دیا ہے، اُن کو بھی دو“۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلام کا نظام معیشت، شیئرز اور کمپنی "محترم مولانا قاضی مجاہد الاس...
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت نیک اولاد کا ہونا ہے ۔جسے اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کی ٹھنڈک کہا ہے اس لئے اولاد کا ہونا خوش بختی تصور کیا جاتا ہے۔جنہیں یہ نعمت میسر آتی ہے ۔وہ بہت خوش و خرم رہتے ہیں ،اور جن کے ہاں اولاد نہیں ہوتی ،وہ ہمیشہ اولاد کی محرومیت کے صدمے میں پڑے رہتے ہیں ۔مگر جب انہیں اولاد مل جاتی ہے تو گویا وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہر نعمت مل گئی ۔اولاد کا فطری حق ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے کیونکہ بچے کی پیدائش کا اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ذریعہ بنا رکھا ہے اس لیے اس پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ اپنی اولاد کی حفاظت کرے۔ اسلام سے پہلے اولاد کو جینے کا حق حاصل نہ تھا بلکہ اولاد کی زندگی کو مختلف صورتوں سے ختم کر دیا جاتا تھا ۔اسی طرح اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ جب وہ بالغ ہو جائے تو والدین اس کے لئے مناسب رشتے کا بندوبست کریں، اور رشتے کے انتخاب میں ان پر جبر کرنے کی بجائے ان کی رضامندی کا خیال رکھیں۔ زیر تبصرہ کتاب" جبری شادی کا شرعی حکم" اسلامک فقہ اکیڈمی کے تیرہویں سیمینار منعقدہ 13 تا 16 اپریل 2001ء جامعہ سید احمد شہید کٹ...
احکام شریعت کے فہم صحیح کو تفقہ کہتے ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی فہم صحیح عطا فرماتے ہیں۔دین کے فہم صحیح کے لئے ضروری ہے کہ فقیہ کا ایک طرف خالق کائنات سے اس کا رشتہ استوار ہو، دوسری طرف وہ خلق اللہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے آگاہ ہو۔وہ کتاب وسنت کا غواص بھی ہو اور اپنے عہد کے تقاضوں سے باخبر اور سماج کا نباض بھی ہو۔ دنیا میں ہمیشہ تغیرات اور تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔کبھی کوئی ایسا دور نہیں گزرا کہ اس عالم میں جمود طاری ہو گیا ہو۔انسان کی ساری تاریخ انقلاب اور تغیرات سے بھری پڑی ہے۔لیکن موجودہ صدی میں تغیرات اور تبدیلیوں کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ان تغیرات وتبدیلیوں نے امت مسلمہ کو ایک چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ایسا چیلنج جس کا تعلق براہ راست فقہ اسلامی کے احیاء اور تدوین نو سے ہے۔اس چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لئے جہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ جدید تمدنی مسائل کا حل کتاب وسنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے تلاش کیا جائے وہیں جدید اسلوب کے مطابق فقہی کتب کی تدوین واشاعت کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے۔اس...
ماہِ ذوالحج سال بھرکے بعدجب آتاہے توجذبۂ تسلیم ورضاء اورجذبۂ ایثاروقربانی بھی ہمراہ لاتا ہے۔قمری سال کے اس آخری مہینے کامقدس چاند جونہی طلوع ہوتاہے،تسلیم ورضاکی لازوال داستان کی یادبھی ساتھ لاتا ہے۔ اس ماہ کی دس،گیارہ اوربارہ تاریخ کودنیابھرکے کروڑوں صاحب نصاب مسلمان اسوۂ ابراہیمی کی یادتازہ کرنے کیلئے قربانی کرتے ہیں۔عیدقربان!مسلمانوں کاعظیم مذہبی تہوارہے جوہرسال 12-11-10 ذوالحجہ کوانتہائی عقیدت ومحبت، خوشی ومسرت،ذوق وشوق،جوش وخروش اورجذبۂ ایثارو قربانی کے منایاجاتاہے۔اس دن اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپناتن،من ،دہن قربان کرنے کے عہدکی تجدیدہوتی ہے اوریہی مسلمانوں کی عید ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اوران کے عظیم فرزندحضرت اسماعیل ؑ کا مقدس ذکر قیامت تک فضاؤں اور ہواؤں میں گونجتا رہے گا ۔ زیر تبصرہ کتاب " قربانی کے ایام واوقات " ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں قربانی کے ایام واوقات کے موضوع پر منعقد ہونے والے 19 ویں فقہی سیمینار میں پیش کئے گئے متعدد اہل علم کے مقالات جمع کر دئیے گئے ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیش...