اسلام ایک دین فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام تر مخلوقات میں سے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کی آزمائش کے لیے اسے دنیا میں اتارا پھر ازل سے ابد تک کے لیے نیکی اور برائی کے درمیان ایک آزمائش کے لیے مقررہ مدت تک زمین کو اس کا مسکن بنایا۔ اس کی تربیت و اصلاح کے لیے انبیاء کرام اور رسول مبعوث فرمائے جو حضرت انسان کی شیطان کے پر فریب جالوں کی نشاندہی اور اس سے بچنے کے طریقے بتاتے رہے۔ ان تمام انبیاء کرام اور رسولوں نے آزمائشوں میں کس طرح عزیمت کا رویہ برقرار رکھا، اپنے آپ کو دین پر مضبوطی سے رکھنا اور صبر و استقامت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے ہوئے لوگوں کے درمیان اپنے حسن خلق کے ذریعے اصلاح و تبلیغ کا میدان سجائے رکھا۔ دنیا میں ہر انسان کو آزمایا جاتا ہے، انبیاء کرام سب سے عظیم ترین لوگ تھے اس لیے ان کی آزمائشیں اور مصائب بھی اس لحاظ سے بڑے تھے۔ ہم امت محمدیہ کے لوگ ہمارے لیے نبی کریم ﷺ کی زندگی کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ جدید دور اور حالات کے منظرنامے میں مسلمانوں کے لیے آزمائش کا میدان اور بھی سخت ہو گیا ہے۔ ایک مومن مسلمان کے لیے دنیا آزمائشوں کی آماجگاہ ہے۔ مگر دین اسلام تمام زمینوں اور زمانوں کے لیے رشد و ہدایت کا پیغام ہے اور نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی اس کا عملی ظہور ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ہمیں کوئی تکلیف یا آزمائش آئے اور سیرت النبی ﷺ کے درخشاں باغیچے سے اس کے حوالے سے کوئی معطر رویہ مشعل راہ اور اسوہ حسنہ بن کر ہمارے سامنے نہ آئے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اسوہ حسنہ مصائب سرور کونینﷺ کا مفصل بیان‘‘ مولانا ظفیر الدین کی بے مثال تصنیف ہے۔ فاضل مؤلف نے نبی کریم ﷺ کی زندگی میں مصائب و آلام کا ذکر کیا ہے اور اس حوالے سے آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ پیش کیا ہے تاکہ ہم بھی اس سے سبق حاصل کر کے اپنی زندگیوں کو سنت کے پیرائے میں ڈھال سکیں۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی محنت کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین(عمیر)
کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت ِشریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اور عمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور ہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘ رہی ہے موجودہ دور میں بھی عوام و خواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند دہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرے فروغ حاصل ہوا ہے ۔ امت کا درد رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ تحفۃ المناظر یا تناقضات المقلدین‘‘ شیخ ابو محمد امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ تعالیٰ نے منظور مینگل کی کتاب( تحفۃ المناظر) کے رد میں ایک تحقیقی رسالہ تصنیف کیا ہے۔ شیخ ابو محمد حفظہ اللہ نے اس میں احناف کے تناقضات کا محققانہ جائزہ پیش کیا ہے۔ (م۔ا)
ہر مسلمان پر واجب اور ضروری ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے بعد مسلمانوں کے علماء، مجتہدین اور اولیاء صالحین کی محبت اختیار کرے، خاص کر وہ ائمہ اور علماء جو پیغمبروں کے وارث ہیں، آسمان کے ستاروں کی طرح خشکی و تری کی تاریکیوں میں راستہ دیکھاتے ہیں، مخلوق کے سامنے ہدایت کے راستے کھولتے ہیں۔ خاتم الرسل ﷺ کی بعثت سے پہلے جو امتیں تھیں ان کے علماء بد ترین لوگ تھے، مگر ملت اسلامیہ کے علماء بہترین لوگ ہیں۔ جب کبھی رسول اللہ ﷺ کی سنت مطہرہ مردہ ہونے لگتی ہے تو اس کو یہ علماء ہی زندہ کرتے ہیں، اور اسلام کے جسم میں ایک تازہ روح پھونکتے ہیں۔ اسی طرح چاروں ائمہ مجتہدین اور دوسرے علماء حدیث جن کی مقبولیت کے آگے امت سرنگوں رہتی ہے، ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی کسی حدیث اور سنت کی مخالفت کا اعتقاد دل میں رکھتا ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تاریخ الفقہ و الفقہاء‘‘جو کہ حضرت مولانا مفتی حماد اللہ وحید صاحب کی تاریخ فقہ پر ایک نایاب تصنیف ہے۔ جس میں فاضل مصنف نے ائمہ اربعہ کی حالات زندگی، فقہی خدمات اور آخر میں برصغیر کے چند مشہور و معروف فقہاء کی خدمات اور برگزیدہ شخصیات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان فقہاء دین کی سعی کو قبول و منظور فرمائے اور فاضل مصنف کو اجر عظیم سے نوازے۔ آمین(م۔ا)
سید البشر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی چار بیٹیاں تھیں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سب سے چھوٹی تھیں۔رسول اکرم ﷺ کو ان سے خاص محبت تھی۔اسی لیے فرمایا کہ فاطمہ خواتین جنت کی سردار ہونگی۔ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اکرم ﷺ سے بہت مشابہت رکھتی تھیں،چال ڈھال اور نشست و برخاست میں ہوبہو اپنے والد محمد مصطفیٰﷺ کی تصویر تھیں۔ ان کی زندگی میں خواتین اسلام کے لیے بڑا درس موجود ہے آج جبکہ امت کی بیٹیاں تہذیب کفر کی نقل میں اپنی ناموس و عزت سے بےخبر ہو رہی ہیں انہیں سیرت فاطمہ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ ایک آئیڈیل خاتون اسلام کی زندگی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکیں۔ایک مسلمان خاتون کے لیے سیرت فاطمۃ الزہرا ؓ میں اس کی زندگی کے تمام مراحل بچپن، جوانی، شادی، شوہر، خانہ داری، عبادت، پرورش اولاد، خدمت اور اعزا اقربا سے محبت غرض ہر مرحلہ حیات کے لیے قابل تقلید نمونہ موجود ہے۔ زیر نظر کتاب ’’سیرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا ‘‘ مولانا عبد المجید سوہدروی کی تصنیف ہے۔اس کتاب میں انہوں نے جگر گوشۂ رسول سیدہ بتول حضرت فاطمۃ الزاہراء کی سیرت کردار اور اخلاق و گفتار کو بڑے آسان فہم انداز میں واضح کر دیا ہے۔موجودہ ایڈیشن سے قبل اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔اس ایڈیشن کو مسلم پبلی کیشنز، لاہور کے مدیر جناب محمد نعمان فاروقی﷾ نے نئے انداز میں تخریج کے ساتھ شائع کیا ہے جس اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کتاب کا موجودہ ایڈیشن اولاً مسلم پبلی کیشنز لاہور کی طرف سے تقریبا دس سال قبل شائع ہوا بعد ازاں اسی کتاب کا عکس مکتبہ الفہیم ،انڈیا نے جون 2014ء میں شائع کیا۔ (م۔ا)
اللہ تبارک و تعالیٰ کے تنہا لائقِ عبادت ہونے ، عظمت و جلال اور صفاتِ کمال میں واحد اور بےمثال ہونے کا پختہ اعتقاد کے ساتھ اعتراف کرنے کا نام توحید ہے ۔ شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کو جہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے۔ قرآن کریم میں شرک کو بہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے۔ مشرک انسان کی عقل کام نہیں کرتی۔ اسے ہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے ۔ نیز شرک اعمال کو ضائع و برباد کرنے والا اور ثواب سے محروم کرنے والا ہے ۔ پہلی قوموں کی تباہی و بربادی کا سبب شرک ہی تھا۔ چنانچہ جس کسی نے بھی اللہ کے ساتھ الوہیت، ربوبیت اور اسما و صفات میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنایا وہ مشرک ہے۔توحید کے اثبات اور ردّشرک پر کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ میں روشن براہین اور بےشمار واضح دلائل ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ مختصر عقیدہ توحید اور کفر و شرک کی قسمیں‘‘ حافظ مقصود احمد مدنی (فاضل مدینہ یونیورسٹی) کی کاوش ہے فاضل مصنف نے علمائے محققین اور ائمہ سنت کی تحقیقات سے استفتادہ کر کے اسے مرتب کیا ہے اور اس میں توحید کی اہمیت اجاگر کی ہے اور شرک کی خرابیاں واضح کی ہیں ۔توحید کے متعلق مختلف مباحث اور اصطلاحات کو بڑی وضاحت سے آسان پیرائے میں بیان کیا ہے اور اسی طرح سے شرک کی اقسام اور اس کے متعلق دیگر چیزوں کو بڑی عمدہ ترتیب سے ذکر کیا ہے جس کا ایک عام مسلمان کے لیے اپنے عقیدہ و عمل کی حفاظت کے لیے جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔(م۔ا)
اسلام انسانی مساوات، اخوت اور ہمدردی کا مذہب ہے۔ اور اسلام کے اصولوں نے ہر مسلمان کو یہ سکھایا ہے کہ وہ بلا لحاظ رنگ و نسل اپنے پڑوسیوں اور اقلیتوں کی حفاظت کرے اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو غیر مذاہب کے لوگوں کے لیے رواداری کا سلوک کرنے کی تلقین کی ہے بلکہ انہیں یہ بھی حکم دیا ہے کہ ان کی حفاظت میں غیر مسلموں کی جو عبادت گاہیں ہیں ان کا تحفظ ان کا فرض ہے۔ غیر مسلموں کے لیے ہمارے دین اسلام میں کتنی رواداری اور حسن سلوک کی تعلیم ہے، اس بات کا اندازہ کرنا ہو تو نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ پر ایک نظر ڈالیں۔ آپﷺ نے غیر مسلموں کے ساتھ جو احسان و ہمدردی اور خوش اخلاقی کے معاملات کیے، ان کی دنیا جہان میں نظیر ملنا مشکل ہے۔ زیر نظر کتاب ’’اسلام اور اقلیتیں‘‘ ڈاکٹر خالد علوی صاحب کی کاوش ہے انہوں نے اس مختصر کتاب میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ اسلامی ریاست غیر مسلموں کے حقوق کا نہ صرف یہ کہ تحفظ کرتی ہے بلکہ عدل و احسان کے عمدہ معیارات کو بھی قائم رکھتی ہے۔(م۔ا)
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام اور رسولوں کو مبعوث فرمایا جو شرک و بدعت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم سے ہمکنار کرتے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بندوں تک پہنچاتے۔ اس سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ختم الانبیاء حضرت محمد ﷺ ہیں۔ آپﷺ ایک داعئ انقلاب، معلم، محسن و مربی بن کر آئے۔ جس طرح آپﷺ کے فضائل و مناقب سب سے اعلیٰ اور اولیٰ ہیں اسی طرح آپ ﷺ کی امت کو بھی اللہ رب العزت نے اپنی کلام پاک میں"امت وسط" کے لقب سے نوازہ ہے۔ اسلام نے اپنی دعوت و تبلیغ اور امت کے قیام و بقاء کے لیے اساس اولین ایک اصول کو قرار دیا ہے جو"امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دعوت الی الخیر، برائی سے روکنا اس امت کا خاصہ اور دینی فریضہ ہے۔ جب ہر فرد اپنے حقیقی مشن"امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کو پہچانتے ہوئے عملی جامہ پہنائے گا تو ایک پر امن، باہمی اخوت اور مودّدت کا مثالی معاشرہ تشکیل ہو گا۔ آنحضرت ﷺ نے خود اپنی امت کو حکم دیا:"بلغو عنی ولو اٰیۃ"اسی حدیث مبارکہ کو اپنی بنیاد بنا کر دور حاضر میں بھی ایک جماعت دعوت و تبلیغ کا کام بہت شدّ و مد سے سرانجام دیتی نظر آتی ہے۔ یہ وہ جماعت ہے کہ جس میں کم فہم علماء اور شارٹ کٹ جنت کے خواہشمند امراء نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ باخبر علماء نے مولانا محمد الیاس کو اس بدعت سے باز رکھنے کی کوششیں کیں، جماعت میں علماء کی کمی کی اور عوام الناس کی کثرت کی وجہ سے مولانا محمد الیاسؒ فکرمند ہو گئے کہ یہ جماعت آئندہ وقت میں کہیں فتنے کا سبب نہ بن جائے اور اس کا وبال میری گردن پڑ پڑے۔ آخرکار مولانا الیاسؒ کا اندیشہ حقیقت ہو گیا جماعت کی قیادت اہل علم کے ہاتھ نہ رہی اور جماعت غلو فی الدین کا شکار ہوتی چلی گئی۔ زیر نظر کتاب"انکشاف حقیقت" جو کہ مولانا عبد الرحمٰن صاحب کا تحقیقی مقالہ ہے۔ جس میں جماعت کی مختصر تاریخ، کارگردگی، فوائد و نقصان اور مولانا محمد الیاس دھلویؒ کا محققانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم دعاگو ہیں کہ وہ مصنف کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(عمیر)
دین کے تین بنیادی اصول ہیں رب کی معرفت،دین کی معرفت ،نبی و رسول کی معرفت ہیں ۔لہذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرے اور تنہا اسی کی عبادت کرے نیز اس پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنے دین اور اپنے نبی محمدﷺ کی معرفت حاصل کرے تاکہ حقیقی طور پر اہل ایمان میں سے ہو جائے۔ یہی وہ تین اصول ہیں جن کے بارے میں قبر کے اندر اس سے سوال کیا جائے گا۔ان تین بینادی اصولوں کی معرفت کے لیے شیخ محمد بن عبدالوہاب کے عربی رسالہ بعنوان الاصول الثلاثة و أدلهتا کی زیر نظر شرح بڑی مفید ہے ۔ یہ شرح علامہ محمد امان بن علی جامی نے کی ہے ۔ ڈاکٹر اجمل منظور مدنی حفظہ اللہ نے اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ مترجم موصوف عقیدہ و منہج اور ردّ باطل میں اہل علم کے درمیان اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔(م۔ا)
عقیدے کی بنیاد توحید باری تعالیٰ ہے اور اسی دعوت توحید کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انبیاء کو مبعوث کیا حتی کہ ختم المرسلین محمدﷺ کی بعثت ہوئی ۔عقیدہ توحید کی تعلیم و تفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام نے بےشمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا وہاں علماء اسلام نے بھی دن رات اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا ۔گزشتہ صدیوں میں عقیدۂ توحید کو واضح کرنے کے لیے بہت سی جید کتب و رسائل تحریر کیے گئے ہیں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی کتاب ’’عقیدہ واسطیہ‘‘بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے امام ابن تیمیہ کی اس کتاب کے مفہوم و مطلب کو واضح کرنے کے لیے الشیخ محمد خلیل ہراس،الشیخ صالح الفوزان، الشیخ صالح العثیمین کی شروح قابل ذکر ہیں ۔ الشیخ خلیل ہراس کی شرح العقیدۃ الواسطیۃ پاک و ہند کے اکثر مدارس و جامعات کے نصاب میں شامل ہے ۔ اس کتاب میں عقیدۂ سلف کو قرآن و صحیح احادیث کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے ساتھ ہی ساتھ باطل فرقوں کے اعتقادات کا دلائل کی روشنی میں رد بھی کیا گیا ہے۔ زیرنظر کتاب ’’ ترجمہ و تسہیل شرح عقیدۃ واسطیہ‘‘ فضیلۃ الشیخ خلیل ہراس کی تالیف کردہ شرح عقیدہ واسطیہ کا اردو ترجمہ ہے ۔ یہ شرح عقیدہ سے متعلق تقریباً تمام ہی پہلوؤں کو محیط و متوسط حجم کی ایک جامع شرح ہے۔مولانا مختار احمد سلفی حفظہ اللہ نے سلیس ارد و ترجمہ کے ساتھ اس کے مختصر حواشی ، مشکل الفاظ کی تشریح، اہم اعراب اور صیغوں کی مکمل توضیح اس انداز میں کی ہے کہ اسے ہر عام و خاص کے لیے یکسر مفید بنا دیا ہے۔ (م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجوید کے قواعد و ضوابط اور اصول و آداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔ زیر نظر کتاب ’’القول الجلیل فی حکم الترتیل المعروف تجوید کی اہمیت ‘‘ محترم ابو معاویہ محمد عبد الستار محمود کوٹی صاحب کی تصنیف ہے ۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں تجوید کی اہمیت و ضرورت اور قرآن پاک کو باتجوید پڑھنے کے فوائد اور خلافِ تجوید پڑھنے کے نقصانات کو بہت ہی عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔(م۔ا)
روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء و رسل کی مقدس اصطلاح سے یاد کرتے ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور پیغمبرِ اول ایک ہی شخصیت حضرت آدم کی صورت میں فریضۂ ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے ۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کر دیتا ہے ۔درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانے اور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اور انسان کے لیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں ۔ آج انسانیت کے پاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نے اسوۂ حسنہ قرار دیا اور اس اسوۂ حسنہ کے حامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلا رہی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہیں ۔ حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پورا سامان رکھتی ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’سیرت امام کائنات ﷺ سوالا ؟‘‘ شیخ القراء و المجودین قاری محمد ادریس العاصم رحمہ اللہ کے صاحبزدگان قاری ابوبکر العاصم ،قاری اویس ادریس العاصم کی مشترکہ کاوش ہے۔مرتبین نے اس کتاب میں سیرۃ النبی ﷺ کے بارے میں اہم معلومات سوال و جواب کی صورت میں جمع کیں ہیں جس میں آپ ﷺ کی مکمل حیات مبارکہ بیان کر دی ہے ۔ (م۔ا)
’’ صحاح‘‘صحیح کی جمع ہے۔صحاحِ ستہ سے مراد حدیث پاک کی چھ مشہور و معروف مستند کتابیں ہیں ان چھ کتابوں (صحیح بخاری ،صحیح مسلم،جامع ترمذی،سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ،سنن ابنِ ماجہ ،محمد بن يزيد ابن ماجہ)کو ”اصولِ ستہ، صحاحِ ستہ، کتبِ ستہ اور امہاتِ ست“ بھی کہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’صحاح ستہ‘‘ فضیلۃ الشیخ ابو محمد عزیر یونس السلفی المدنی حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے حدیث کی کتب ستہ کے مصنفین کے حالاتِ زندگی تفصیل سے بیان کر دیے ہیں اور ان کی احادیث نبویہ پر مشتمل تصنیفات کا بڑے احسن انداز میں تعارف پیش کیا ہے۔ (م۔ا)
شراب اور نشہ آور اشیاء معاشرتی آفت ہیں جو صحت کو خراب خاندان کو برباد،خاص و عام بجٹ کو تباہ اور قوت پیداوار کو کمزور کر ڈالتی ہیں۔ان کے استعمال کی تاریخ بھی کم و بیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تہذیب کی تاریخ یہ اندازہ لگانا تو بہت مشکل ہے کہ انسان نے ام الخبائث کا استعمال کب شروع کیا اور اس کی نامسعود ایجاد کا سہرہ کس کے سر ہے ؟ تاہم اس برائی نے جتنی تیزی سے اور جتنی گہرائی تک اپنی جڑیں پھیلائی ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ تمام عالمی مذاہب نے اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’نشہ آور اشیاء ‘‘ اسلامک فقہ اکیڈمی ،انڈیا کے زیر اہتمام مارچ 2012ء میں منعقد کیے جانے والے اکیسویں سیمینار میں اس موضوع پر پیش کیے جانے والے علمی ،فقہی اور تحقیقی مقالات و محاضرات کا مجموعہ ہے ۔اسلامک فقہ اکیڈمی نے منشیات کی کثرت اور اس کے نقصانات نیز مسلم معاشرہ پر اس کے مضر اثرات کو دیکھتے ہوئے اس موضوع کو اپنے اکیسویں سیمینار میں شامل کیا ہے اس موضوع کے حوالے سے جامع سوالنامہ تیار کر کے اہل علم کی خدمت میں پیش کیا۔ بعد ازاں مولانا صفدر زبیر ندوی صاحب نے بڑی محنت سے اسے کتابی صورت میں مرتب کیا۔(م۔ا)
اسلام میں فتویٰ نویسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بذات خود اسلام۔ فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سے متعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کے جواب میں کوئی عالم دین اور احکامِ شریعت کے اندر بصیرت رکھنے والا شخص بیان کرے۔فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کا سلسلہ رسول ﷺ کے مبارک دور سے چلا آ رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ رسالت سے سوال کرنے اور اس سوال کا جواب دینے کے ادب و آداب بھی سکھلائے ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’مفتی اور مستفتی کے لیے فتویٰ کے آداب ‘‘ امام ابو ذر زکریا یحییٰ بن شرف النووی کی کتاب ’’آداب فتویٰ و المفتی و المستفتی ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے امام نووی رحمہ اللہ نے اس کتاب کے مقدمہ میں فتویٰ کی اہمیت، فضیلت اور خطرات پر بحث کرنے کے بعد اِس موضوع پر تین فصلیں قائم کیں۔ جن میں مفتی کا متقی و پرہیزگار، ہونا اور اُس کی شروط بیان کرنے کے ساتھ اس امر کی وضاحت کی ہے کہ فتوئ دینے کا اہل کون ہے؟ پھر مستقل اور غیر مستقل کے عنوان سے فصل قائم کر کے مفتیوں کی اقسام اور ان کے احوال بیان کیے ہیں۔ موجودہ دور میں ہر وہ آدمی جسے لوگوں کے سوال و جواب دینے پڑتے ہیں وہ اس کتاب کا محتاج ہے کیوں کہ اس کے مطالعہ سے وہ احسن انداز کے ساتھ جواب دینا سیکھ لیتا ہے۔ شیخ القراء و المجودین قاری محمد ادریس العاصم رحمہ اللہ کے صاحبزدے قاری اویس ادریس العاصم نے اسے اردو قالب میں ڈھالنے کی سعادت حاصل کی ہے۔(م۔ا)
عربی زبان و ادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی و انسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جو انسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔اس زبان کی نشر و اشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج و اشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان و ادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم و تعلم کا بطور خاص اہتمام کیا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’مبشرات فی حل مختارات من ادب العرب‘‘مولانا ابو اسامہ عبد الرحمن لودھروی کی تصنیف ہے جو کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں شامل سید ابو الحسن علی ندوی کی عربی ادب پر لکھی گئی عربی تصنیف ’’مختارات من ادب العربی‘‘کی شرح ہے۔اس شرح نے صرف طلباء ہی نہیں بلکہ اساتذہ و علماء کی مشکل کو بھی حل کیا ہے یہ شرف صرفی و نحوی اور ادبی و لغوی تحقیق و بامحاورہ مطلب خیز ترجمہ پر مشتمل ہونے کے علاوہ بھی کئی خوبیوں کی حامل ہے۔(م۔ا)
قرآنِ مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے اور اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہترین لوگ قرار دیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پر ثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر عصر حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم و تشریح اور ترجمہ و تفسیر کرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سے باب قائم کیے۔اور مختلف ائمہ نے عربی زبان میں مستقل بیسیوں تفاسیر لکھیں ہیں ۔جن میں سے کئی تفسیروں کے اردو زبان میں تراجم بھی ہو چکے ہیں ۔اور ماضی قریب میں برصغیرِ پاک و ہند کے تمام مکتب فکر کے علماء نے قرآن مجید کی اردو تفاسیر لکھنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ مبادیات تفسیر‘‘ تفسیر اور قرآنی علوم پر مشتمل مولانا محمد کفیل خان صاحب کی کاوش ہے ۔جس میں انہوں نے تفسیر قرآن کے سلسلے میں بہت سے نادر و نایاب جواہرات کو عمدہ اسلوب میں جمع کر دیا ہے ۔ یہ کتاب عوام اور طلبہ و علماء کے لیے یکساں مفید ہے ۔(م۔ا)
علومِ قرآن سے مراد وہ تمام علوم و فنون ہیں جو قرآن فہمی میں مدد دیتے ہیں اور جن کے ذریعے قرآن کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ ان علوم میں وحی کی کیفیت، نزولِ قرآن کی ابتدا اور تکمیل، جمع قرآن، تاریخ تدوین قرآن، شانِ نزول، مکی و مدنی سورتوں کی پہچان، ناسخ و منسوخ، علم قراءات، محکم و متشابہ آیات وغیرہ، اعجاز القرآن، علم تفسیر، اور اصول تفسیر وغیرہ جیسے علوم شامل ہیں۔ علومِ قرآن کے مباحث کی ابتداء عہد نبوی اور دورِ صحابہ کرام سے ہی ہو چکی تھی تاہم دوسرے اسلامی علوم کی طرح اس موضوع پر بھی مدون کتب لکھنے کا رواج بہت بعد میں ہوا۔ قرآن کریم کو سمجھنے اور سمجھانے کے بنیادی اصول اور ضابطے یہی ہیں کہ قرآن کریم کو قرآن اور نبوی علوم کی روشنی میں ہی سمجھا جائے۔ علوم قرآن کو اکثر جامعات و مدارس میں بطور مادہ پڑھایا جاتا ہے اور اس کے متعلق عربی و اردو زبان میں علوم القرآن کے موضوع پر اس کے ماہرین نے متعدد کتب لکھی ہیں ۔ان میں الاتقان فی علوم القرآن ، البرہان فی علوم القرآن ، مناہل العرفان فی علوم القرآن ،المباحث فی علوم القرآن اور علوم القرآن از تقی عثمانی قابل ذکر ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’منازل العرفان فی علوم القرآن‘‘مولانا محمد مالک کاندھلوی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے۔یہ کتاب قرآن کریم کے علوم اس کی حقیقی عظمتوں ، اعجاز و بلاغت اور مقاصد کے لیے ایک رہنما کتاب ہے۔(م۔ا)
قاری محمد ایوب بن محمد یوسف بن سلیمان عمر برمی 1990ء میں مسجد نبوی کے معاون امام مقرر ہوئے اور 1997ء تک امامت کے فرائض انجام دیتے رہے، اور مسجد قباء اور مسجد قبلتین میں بھی امام رہے۔یہ شیخ ایوب کا خاص اعزاز ہے کہ انہوں نے 1410ھ کے رمضان المبارک میں تنہا مسجد نبوی میں تراویح کی نماز پڑھائی۔17؍ اپریل 2016 ء کو نماز فجر کے بعد اچانک حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے 64 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ انتقال سے ایک روز قبل مسجد نبوی میں عشاء کی نماز انہوں نے خود پڑھائی تھی ۔ حرم مدنی کے سب سے بڑے امام فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن علی الحذیفی حفظہ اللہ نے شیخ ایوب کی نماز جنازہ پڑھائی، جس میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ زیر نظر کتاب ’’ غرید المحاریب الشیخ محمد ایوب ‘‘ فضیلۃ الشیخ عمار محمد اعظم حفظہ اللہ کی تصنیف ہے یہ کتاب شیخ ایوب برمی رحمہ اللہ کی سیرت پر لکھی گئی ایک منفرد کاوش ہے۔جس میں فاضل مصنف نے آپ کے قرآنی شب و روز کی نقاب کشائی کرنے کی کوشش کی ہے ، آپ کے مدارس و شیوخ کا ذکر خیر بھی کیا گیا ہے، اس کتاب میں آپ کے فضائل و مناقب کے ساتھ ساتھ آپ کی جہود و آثار کا اعتراف بھی کیا گیا ہے، اس ضمن میں آپ کی تلاوت و قراءت کے بارہ میں کبار قراء کرام کی آراء بھی ذکر کی گئی ہیں ۔اللہ تعالیٰ شیخ ایوب رحمہ اللہ کے جنت الفردوس میں درجات بلند فرمائے ۔(آمین)یہ کتاب چونکہ عربی زبان میں ہے تو شیخ القراء و المجودین قاری محمد ادریس العاصم رحمہ اللہ کے صاحبزدے قاری اویس ادریس العاصم (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) نے اسے اردو قالب میں ڈھالنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔(م۔ا)
علومِ نقلیہ کی جلالت و عظمت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے اسرار و رموز اور معانی و مفاہیم تک رسائی علم نحو کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ علومِ عربیہ میں علم نحو کو جو رفعت و منزلت حاصل ہے اس کا اندازہ اس امر سے بہ خوبی ہو جاتا ہے کہ جو بھی شخص اپنی تقریر و تحریر میں عربی دانی کو اپنانا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے نحو کے اصول و قواعد کی معرفت کا محتاج ہوتا ہے کلام ِالٰہی ،دقیق تفسیری نکات،احادیث رسول ﷺ ،اصول و قواعد ،اصولی و فقہی احکام و مسائل کا فہم و ادراک اس علم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا یہی وہ عظیم فن ہے کہ جس کی بدولت انسان ائمہ کے مرتبے اور مجتہدین کی منزلت تک پہنچ جاتا ہے ۔ قرآن و سنت اور دیگر عربی علوم سمجھنے کے لیے ’’ علم نحو‘‘کلیدی حیثیت رکھتا ہے اس کے بغیر علوم اسلامیہ میں رسوخ و پختگی اور پیش قدمی کا کوئی امکان نہیں ۔ قرنِ اول سے لے کر اب تک نحو و صرف پر کئی کتب اور ان کی شروح لکھی جا چکی ہیں ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ زیر نظر کتاب ’’بدر السعید شرح اردو نحو میر‘‘ قاضی سعید احمد الحسنی کی کاوش ہے انہوں نے سلیس انداز میں عبارتِ ’’نحو میر‘‘ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ شرح ہر درجہ کے طلباء کے لیے ایک بہترین شرح ہے ۔ ’’نحو میر‘‘،ہدایۃ النحو‘‘ اور کافیہ پڑھانے والے اساتذہ کے لیے بھی مفید اور معاون شرح ہے ۔(م۔ا)
برصغیر پاک و ہند کے علمی و دینی خاندانوں میں خاندان غزنویہ (امرتسر) ایک عظیم الشان خاندان ہے اس خاندان کی علمی و دینی اور سیاسی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے جو کہ ایک ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔تحریک آزادئ وطن میں اس خاندان کے افراد نے عظیم کارنامے سرانجام دیئے۔مختلف اہل قلم نے خاندان غزنویہ کی مختلف شخصیات کے تعارف تدریسی و تبلیغی خدمات کے متعلق مضامین لکھے اور کتب تصنیف کیں۔ زیرنظر کتاب ’’ ارمغان پروفیسر سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ ‘‘ شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم رحمہ اللہ بن قاری اویس ادریس العاصم،سید کلیم حسین شاہ بخاری (فاضل مدینہ یونیورسٹی )کی مشترکہ کاوش ہے ۔یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے۔اللہ تعالیٰ مرتبین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں اسلاف کی سیرت سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (م۔ا)
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کے بعد ضروری ہے کے اللہ تعالیٰ کے دوستوں کے ساتھ محبت اور اس کے دشمنوں کے ساتھ عداوت و نفرت قائم کی جائے چنانچہ عقیدہ اسلامیہ جن قواعد پر قائم ہے، اُن میں سے ایک عظیم الشان قاعدہ یہ ہے کے اس پاکیزہ عقیدے کو قبول کرنے والا ہر مسلمان اس عقیدے کے ماننے والوں سے دوستی اور نہ ماننے والوں سے عدوات رکھے۔اسلام میں دوستی اور دشمنی کی بڑی واضح علامات بیان کی گئی ہیں، ان علامات کو پیش نظر رکھ کر ہر شخص اپنے آپ کو تول سکتا ہے کہ وہ کس قدر اسلام کی دوستی اور دشمنی کے معیار پر پورا اُتر رہا ہے۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’انجام کیا ہو گا ‘‘ شیخ سفر بن عبدالرحمٰن الحوالی کے ایک خطاب کی کتابی صورت کا ترجمہ ہے شیخ کا یہ خطاب ’’ الوعد و الوعد و المفتری‘‘ کے عنوان سے اولاً عربی زبان میں کتابی صورت میں شائع ہوا بعد ازاں اسے اردو قالب میں ڈھالا گیا ہے ۔شیخ موصوف نے یہ خطاب اکتوبر1991ء میں منعقد ہونے والی مشرق وسطیٰ امن کانفرنس کے پس منظر میں کیا تھا ۔اس رسالہ میں شیخ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کی اکثریت ذلت و رسوائی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی نافرمانی کے نتیجے میں ہے کہ ہم مسلمان اسلام دشمنوں کو اپنا خیر خواہ سمجھ بیٹھے ہیں۔اسلام کے دشمنوں اور ان کے عزائم کو بروقت اور صحیح تناظر میں جان لینے اور ان کے خلاف عملی طور پر دفاعی تدابیر اختیار کرنے میں ہی امت مسلمہ کی کامیابی کا راز پنہاں ہے ۔اور شیخ موصوف کا یہ خطبہ قیام اسرائیل کے تناظر میں عقیدہ ’’ الولاء والبراء‘‘ کو اجاگر کرتا ہے جسے مسلمان سقوط خلافت کے بعد فراموش کر چکے ہیں ۔(م۔ا)
اسلامی تاریخ کے لحاظ سے مدینہ منورہ دوسرا بڑا اسلامی مرکز اور تاریخی شہر ہے ۔نبی ﷺ کی ہجرت سے قبل اس کا نام یثرب تھا جو کہ غیر معروف تھا لیکن آپ ﷺ کی آمد ،مہاجرین کی ہجرت اور اہل مدینہ کی قربانیوں نے اس غیر معروف شہر کو اتنی شہرت و عزت بخشی کہ اس شہر مقدس سے قلبی لگاؤ اور عقیدت ہر مسلمان کا جزو ایمان بن چکی ہے ۔اس شہر میں بہت سے تاریخی مقامات ، اور بکثرت اسلامی آثار و علامات پائے جاتے ہیں جن سے شہر کی عظمت و رفعت شان کا پتہ چلتا ہے۔مدینہ منورہ کی تاریخ و فضیلت کے متعلق اہل علم نے کئی چھوٹی بڑی کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ المدينة المنورة فضائلها،المسجد النبوي،الحجرة النبوية‘‘ ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ (امام و خطیب مسجد نبوی ) کی تصنیف ہے فاضل مصنف تقریبا 25سال سے مسجد نبوی میں خطابت و امامت کے ساتھ تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے اس کتاب میں صحیح مرویات و نصوص کی روشنی میں مدینۃ الرسولﷺ سے متعلق تمام احکام اور فضائل و مناقب کو جمع کر دیا ہے۔ یہ کتاب چونکہ عربی زبان میں ہے تو شیخ القراء و المجودین قاری محمد ادریس العاصم رحمہ اللہ کے صاحبزدے قاری اویس ادریس العاصم (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) نے اسے اردو قالب میں ڈھالنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔(م۔ا)
برصغیر پاک و ہند کے معروف سیرت نگار اور مؤرخ مولانا سید سلیمان ندوی اردو ادب کے نامور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور چند قابل قدر کتابوں کے مصنف تھے جن میں سیرت النبی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔مولانا سید سیلمان ندوی ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ دیسنہ میں 22 نومبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔تعلیم کا آغاز خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود علی سے کیا۔ اپنے بڑے بھائی حکیم سید ابو حبیب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1899ء میں پھلواری شریف (بہار (بھارت)) چلے گئے جہاں خانقاہ مجیبیہ کے مولانا محی الدین اور شاہ سلیمان پھلواری سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں سے وہ دربانگا چلے گئے اور مدرسہ امدادیہ میں چند ماہ رہے۔1901ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں داخل ہوئے جہاں سات سال تک تعلیم حاصل کی۔ 1913ء میں دکن کالج پونا میں معلم السنۂ مشرقیہ مقرر ہوئے۔1940ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی۔ عالمِ اسلام کو جن علماء پر ناز ہے ان میں سید سلیمان ندوی بھی شامل ہیں۔ انکی علمی اور ادبی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی کی پہلی دو جلدیں لکھ کر 18 نومبر 1914ء کو انتقال کر گئے تو باقی چار جلدیں سید سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔ اپنے شفیق استاد کی وصیت پر ہی دار المصنفین، اعظم گڑھ قائم کیا اور ایک ماہنامہ معارف جاری کیا جو آج بھی جاری و ساری ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’علامہ سید سلیمان ندوی بحیثیت مؤرخ ‘‘ دار المصنفین ،اعظم گڑھ کے رفیق ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے علامہ شبلی کے علمی وارث و جانشین مولانا سید سلیمان ندوی کے رچے ہوئے پختہ تاریخی مذاق اور ان کی تاریخی بصیرت کے مختلف نقوش ابھارے ہیں ۔ کتاب ہذا کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا سید سلمان ندوی نے جو جامع کمالات کی حیثیت سے گونا گوں عظیم الشان خدمات انجام دیں ،بہت سے تاریخی اغلاط و اوہام کی اصلاح و تصحیح کی تاریخ نویسی کے صحیح اور بنیادی اصول بتائے ، غلط تاریخ نویسی کی مضرتیں بیان کیں اور تاریخ نگاری کے غلط اور مسموم رجحان اور گمراہ کن انداز کی تردید کی ۔ اس رسالے میں مثالیں دے کر ان امور کو واضح کیا گیا ہے اور آخر میں سید صاحب کی چند ممتاز تاریخی تصانیف و مقالات کا مبسوط جائزہ لے کر فاضل مصنف نے واضح کیا ہے کہ ان کی تاریخ نگاری کا معیار بلند اور نظریہ تاریخ صائب و متوازن تھا۔(م۔ا)
فواحش کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو، فحش ہے۔بالخصوص قوت شہوانیہ کی بے اعتدالی اور حدود الٰہی سے تجاوز کی وجہ سے جن گناہوں کا صدور ہوتا ہے انہیں فواحش کہاجاتاہے،خواہ وہ قولی ہوں یا فعلی ۔موجودہ دور کی جدید اختراعات کہ جس میں حیا باختگی پائی جاتی ہو اور جدید تہذیب کےاندر پائی جانے والی عریانیت وبے حیائی،اخلاق سوز رسائل وجرائد اورمغرب کی درآمدشدہ آزاد رَو کثافتیں بھی فواحش میں داخل ہیں۔ زیرنظرکتاب’’معاشرے میں پھیلے فواحش ایک جائزہ جدید ایڈیشن‘‘ محترم جناب جمشید عالم عبد السلام سلفی صاحب کی تصنیف ہے۔ فاضل مصنف نےاس کتاب میں سماج ومعاشرے میں پھیلے فواحش سےمتعلق تفصیلی گفتگو کی ہےاور معاشرے میں پھیلے فواحش کی مختلف صورتوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس ضمن میں فواحش کی تفصیلی وضاحت کےبعدسب سے بڑی بے حیائی اور گناہ ِ عظیم شرک کی ہلاکت وسنگینی کو بیان کیا ہے۔ نیز معاشرے میں شرک اور بدکاری کے پھیلاؤ کی قبیح صورتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ساتھ ہی عریانیت وبے حجابی مرد وعورت کےآزادنہ میل جول اور دورجدید کی بے حیاکثافتوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔(م۔ا)
اردو ادب میں سفر ناموں کو ایک مخصوص صنف کا درجہ حاصل ہو گیا ہے ۔ یہ سفرنامے دنیا کے تمام ممالک کا احاطہ کرتے ہیں ۔ اِن کی طرزِ نوشت بھی دوسری تحریروں سے مختلف ہوتی ہے ۔ یہ سفر نامے کچھ تاثراتی ہیں تو کچھ معلوماتی ۔ کچھ میں تاریخی معلومات پر زور دیا گیا ہے تو کچھ ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت کو نمایاں کرتے ہیں جہاں کا انسان سفر کرتا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’تحریک اہل حدیث کے عالمی مراکز کا مطالعاتی سفر‘‘مولانا فضل کریم عاصم رحمہ اللہ (بانی و سابق امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ برمنگھم) کے ان اسفار کا مجموعہ ہے جو انہوں نے دینی اور دعوتی و جماعتی کام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے جذبہ سے کیے تھے۔ یہ سفر نامہ انتہائی دلچسپ، قابل عبرت اور نصیحت آموز واقعات کے ساتھ مفید معلوماتی اضافہ،مشاہیر علماء کا تعارف، تاریخ اہل حدیث اور مسلمان ممالک کی تہذیب و تمدن،جغرافیہ و ثقافت سے مزین ہے۔ یاد رہے یہ سفر مولانا فضل کریم عاصم رحمہ اللہ نے 1969ء میں برطانیہ سے پاکستان بائی روڈ کیا اس سفر میں ان کو تقریباً 15ممالک سے گزرنا پڑا۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے اس طویل سفر کو قلمبند کیا اور نعمانی کتب ،لاہور نے اسے ’’تحریک اہل کے عالمی مراکز کا مطالعاتی سفر‘‘ کے نام سے حسن طباعت سے آراستہ کیا ۔(م۔ا)