تقابل ادیان بے حد دلچسپ اہم اور افادیت کا حامل موضوع ہے کہ جس کے مطالعہ سے تمام مذاہب کی خوبیوں سے آشنا ہوا جا سکتا ہے۔اور تقابل ادیان سے مراد دنیا میں پائے جانے والے مشہور مذاہب اور معروف ادیان کی تعلیمات کا غیر متعصبانہ تقابل اور غیر جانب دارانہ موازنہ کرنا ہوتا ہے، نیز تمام مذاہب کی خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرنا، اسی طرح مختلف مذاہب کے بنیادی عقائد عبادات اور رسوم و عادات کا ایسا عادلانہ جائزہ لینا جس سے ہر ایک مذہب کی قدر و قیمت ، خوبیاں اور خامیاں پوری طرح واضح ہو جائیں ، تقابل ادیان“ کہلاتا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’تقابل ادیان عالم ‘‘ ابو خزیمہ علی مرتضیٰ طاہر حفظہ اللہ کی کاوش ہے ۔یہ کتاب انہوں نے انتہائی آسان اور عام فہم اسلوب ،وفاق المدارس السلفیہ، پاکستان کی ہدایات اور تجاویز کی روشنی میں الشہادۃ العالمیۃ کا امتحان دینے والے طلباء و طالبات کے لیے مرتب کی ہے۔جسے انہوں نے قرآنی آیات اور احادیث سے مزین کیا ہے اور تمام تر نصوص کی تخریج بھی کی ہے۔ہر باب کے آغاز میں باب کا مکمل تعارف پیش کیا ہے اور آخر میں مشقی سوالات تحریر کیے ہیں۔(م۔ا)
روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے قرآن پاک کی آیات میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی ہے۔ یہ بولتا، سنتا، سمجھتا، محسوس کرتا انسان بن گیا۔درحقیقت انسان گوشت پوست اور ہڈیوں کے ڈھانچے کے اعتبار سے ناقابل تذکرہ شئے ہے۔ اس کے اندر اللہ کی پھونکی ہوئی روح نے اس کی تمام صلاحیتوں اور زندگی کے تمام اعمال و حرکات کو متحرک کیا ہوا ہے۔جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کا پورا جسم موجود ہونے کے باوجود اس کی حرکت ختم ہو جاتی ہے۔یعنی حرکت تابع ہے، روح کے۔ درحقیقت روح زندگی ہے اور روح کے اوپر ہی تمام اعمال و حرکات کا انحصار ہے اور جان اور روح آپس میں جُڑی ہوئی ہیں لیکن الگ ہونے کے قابل ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’روحوں کا سفر‘‘ انڈیا کے معروف عالم حافظ جلال الدین قاسمی حفظہ اللہ کے ایک بیان کی کتابی صورت ہے ۔ ڈاکٹر سید بلال ارمان آف انڈیا نے اسے مرتب کر کے اسے تخریج سے مزین کیا ہے اور اس میں مزید اضافہ جات بھی کیے ہیں۔روح کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے اور عقائد کو درست کرنے کے لیے اس مختصر کتابچہ مطالعہ انتہائی مفید ہے۔(م۔ا)
اللہ تعالی نے نبی کریمﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے۔آپﷺ خاتم النبیین اور سلسلہ نبوت کی سب سے آخری اینٹ ہیں۔آپﷺ کی آمد سے سلسلہ نبوی کی عمارت مکمل ہو گئی ہے۔آپﷺ کے بعد کوئی برحق نبی اور رسول نہیں آ سکتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد متعدد جھوٹے اور کذاب آئیں گے جو اپنے آپ کو نبی کہلوائیں گے۔آپ ﷺ کے بعد آنے والے متعدد کذابوں میں سے ایک کذاب مرزا غلام احمد قادیانی ہے ،جس نے نبوت کا دعوی کیا اور شریعت کی روشنی میں کذاب اور مردود ٹھہرا۔شریعت اسلامیہ کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ عمل کفریہ اور دائرہ اسلام سے خارج کر دینے والا ہے۔اور جو شخص بھی اس کے عمل کی تصدیق کرے گا یا اسے نبی قرار دے گا، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اللہ رب العزت نے اس کی حقیقت کو جھوٹ و فریب کو بے نقاب کر دیا ۔چنانچہ کئی اعلیٰ عدالتوں اور پاکستانی پارلیمنٹ نے مرزا قادیانی اور اس کے پیروکاروں کے کفریہ عقائد کی وجہ سے ان کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’قادیانی کافر کیوں؟‘‘ محترم منیر احمد علوی صاحب کی تصنیف ہے اس کتاب کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مرزا قادیانی اور اس کے تمام ماننے والے کافر و مرتد دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور ان کو مسلمان سمجھنا یا ان کے کفر میں شکر کرنا کفر ہے۔(م۔ا)
قادیانیت اسلام کے متوازی ایک ایسا مصنوعی مذہب ہے جس کا مقصد اسلام دشمن سامراجی طاقتوں کی سرپرستی میں اسلام کی بنیادوں کو متزلزل کرنا ہے۔قادیانیت کے یوم پیدائش سے لے کر آج تک اسلام اور قادیانیت میں جنگ جاری ہے یہ جنگ گلیوں ،بازاروں سے لے کر حکومت کے ایوانوں اور عدالت کے کمروں تک لڑی گئی، اہل علم نے قادیانیوں کا ہر میدان میں تعاقب کیا، تحریر و تقریر،سیاست و قانون اور عدالت میں، الغرض ہر میدان میں انہیں شکستِ فاش دی ۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جو قادیانی مبلغین سے متاثر ہو کر مرتد ہو گئے تھے لیکن جب قادیانیت کا کفر ان پر واضح ہوا تو وہ قادیانیت پر لعنت بھیج کر دوبارہ قادیانیت کے کفر کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت عطا فرمائے۔ آمین زیر نظر کتاب ’’ مرزا قادیانی کی شخصیت و کردار‘‘محترم مولانا منیر احمد علوی صاحب کی تصنیف ہے۔نہوں نے اس کتاب میں مرزا قادیانی کی شخصیت و کردار کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کو سپرد قلم کیا ہے۔یہ کتاب اپنے موضوع میں مرزا قادیانی کی شخصیت کے تعارف میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے جس میں مرزا قادیانی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔اس کتاب کے مطالعہ سے قارئین کے پر یہ بات بالکل عیاں ہو جائے گی کہ مرزا قادیانی جیسی شخصیت کا حامل شخص نبی اور رسول تو کیا روحانیت کے کسی معمولی درجے پر بھی فائز نہیں ہو سکتا بلکہ ایسے شخص کو شریف انسان کہنا شرافت کو گالی دینے کے مترادف ہے۔ (م ۔ا)
ماہنامہ ’’محدث ‘‘لاہور ہندوستان سے نکلنے والے ماہنامہ ’’محدث‘‘ دہلی کی ارتقائی شکل ہے۔ نصف صدی قبل دسمبر 1970ء میں محترم ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی حفظہ اللہ نے ’’ مجلس التحقیق الاسلامی‘‘ لاہور کی طرف ملت اسلامیہ کے اس علمی و تحقیقی اور اصلاحی مجلہ ’’محدث‘‘کا پہلا شمارہ شائع کیا۔اس وقت سے ہی اس علمی و تحقیقی مجلہ کی اشاعت جاری و ساری ہے ۔ اس وقت رسالے کی مجلس التحریر میں محدث العصر حافظ عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ کے دو مایہ ناز شاگرد شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی، مولانا عبد السلام کیلانی (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کے علاوہ حافظ ثناء اللہ خاں ، چوہدری عبد الحفیظ اور مولانا عزیز زبیدی رحمہم اللہ کے اسماء گرامی شامل تھے ۔ محدث کے مدیر اعلی ٰ محترم جناب حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ تمام امور خود ہی سرانجام دیتے رہے بعد ازاں مولانا اکرام اللہ ساجد اور مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف رحمہما اللہ بھی اس میں بطور مدیر خدمات انجام دیتے رہے ۔ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب کو درس نظامی سے فراغت کے بعد مجلہ ’’محدث‘‘ کے مدیر کی ذمہ داری تفویض کی گئی ۔انہوں نے اپنی ادارت میں محدث کے مختلف اہم موضوعات (فتنہ انکار حدیث، سود، مسئلہ تصویر ،فتنہ امامت زن، تحفظ حقوق نسواں، شیخ البانی ، شیخ ابن باز اور المیہ سوات) پر بڑے اہم نمبرز شائع کرنے کے علاوہ اور بہت سے علمی و تحقیقی موضوعات پر بے شمار مضامین شائع کیے ۔اس سے قبل محدث کے رسول مقبول نمبر اور خلافت و جمہوریت نمبر کو بھی بڑا قبول عام حاصل ہوا تھا۔محدث کا ہر شمارہ علمی و تحقیقی اور اصلاحی مضامین پر مشتمل ہے اور ہر مضمون ایک مکمل کتابچہ شائع کرنے کے لائق ہے ۔ جدید سودی نظریات اور اسلام، جادو کے شرعی توڑ، فروغ اسلام کے لئے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال اور مغربی تحریک نسواں وغیرہ کے موضوعات پر محدث کے مضامین منفرد اہمیت رکھتے ہیں۔مجلہ محدث اپنے علمی و تحقیقی معیار کی وجہ سے ہر مکتبہ فکر کے افراد اور علماء ، مذہی سکالرز ، پروفیسرز ،قانون دان وکلاء حضرات اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ایم فل پی ایچ ڈی کے طلباء کے ہاں انتہائی پسندیدہ ہے ۔پاکستان پبلک سروس کمیشن، اور مقابلہ کا امتحان پاس کرنے کے لیے احباب مجلہ محدث کے سابقہ مجلات کی طرف رجوع کرتے ہیں۔محدث کی عصر حاصر میں فرقِ باطلہ کے خلاف علمی و تحقیقی خدمات پر یونیورسٹیوں میں ایم اے ،ایم فل کے تحقیقی مقالہ بھی لکھے جا رہے ہیں۔ زیر نظر تحقیقی مقالہ بعنوان ’’ماہنامہ محدث لاہور 2001 تا 2020 کے عائلی مضامین کا تحقیقی جائزہ‘‘محترمہ ام کلثوم صاحبہ کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے ڈاکٹر عبد الغفار (اسٹنٹ پروفیسر یونیورسٹی آف اوکاڑہ) کی زیر نگرانی یونیورسٹی آف اوکاڑہ۔شعبہ علوم اسلامیہ میں پیش کر کے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔مقالہ نگار نے اس تحقیقی مقالہ کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے اور اس میں ماہنامہ محدث و مجلس التحقیق الاسلامی ،عائلی نظام کے تعارف و اہمیت کو بیان کرنے کے بعد ماہنامہ محدث میں شائع ہونے والے عائلی مضامین کو بیان کرنے کے بعد ان کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔ (م۔ا)
ماہنامہ ’’محدث ‘‘لاہور ہندوستان سے نکلنے والے ماہنامہ ’’محدث‘‘ دہلی کی ارتقائی شکل ہے۔ نصف صدی قبل دسمبر 1970ء میں محترم ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی حفظہ اللہ نے ’’ مجلس التحقیق الاسلامی‘‘ لاہور کی طرف ملت اسلامیہ کے اس علمی و تحقیقی اور اصلاحی مجلہ ’’محدث‘‘کا پہلا شمارہ شائع کیا۔اس وقت سے ہی اس علمی و تحقیقی مجلہ کی اشاعت جاری و ساری ہے ۔ اس وقت رسالے کی مجلس التحریر میں محدث العصر حافظ عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ کے دو مایہ ناز شاگرد شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی، مولانا عبد السلام کیلانی (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کے علاوہ حافظ ثناء اللہ خاں ، چوہدری عبد الحفیظ اور مولانا عزیز زبیدی رحمہم اللہ کے اسماء گرامی شامل تھے ۔ محدث کے مدیر اعلی ٰ محترم جناب حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ تمام امور خود ہی سرانجام دیتے رہے بعد ازاں مولانا اکرام اللہ ساجد اور مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف رحمہما اللہ بھی اس میں بطور مدیر خدمات انجام دیتے رہے ۔ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب کو درس نظامی سے فراغت کے بعد مجلہ ’’محدث‘‘ کے مدیر کی ذمہ داری تفویض کی گئی ۔انہوں نے اپنی ادارت میں محدث کے مختلف اہم موضوعات (فتنہ انکار حدیث، سود، مسئلہ تصویر ،فتنہ امامت زن، تحفظ حقوق نسواں، شیخ البانی ، شیخ ابن باز اور المیہ سوات) پر بڑے اہم نمبرز شائع کرنے کے علاوہ اور بہت سے علمی و تحقیقی موضوعات پر بے شمار مضامین شائع کیے ۔اس سے قبل محدث کے رسول مقبول نمبر اور خلافت و جمہوریت نمبر کو بھی بڑا قبول عام حاصل ہوا تھا۔محدث کا ہر شمارہ علمی و تحقیقی اور اصلاحی مضامین پر مشتمل ہے اور ہر مضمون ایک مکمل کتابچہ شائع کرنے کے لائق ہے ۔ جدید سودی نظریات اور اسلام، جادو کے شرعی توڑ، فروغ اسلام کے لئے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال اور مغربی تحریک نسواں وغیرہ کے موضوعات پر محدث کے مضامین منفرد اہمیت رکھتے ہیں۔مجلہ محدث اپنے علمی و تحقیقی معیار کی وجہ سے ہر مکتبہ فکر کے افراد اور علماء ، مذہی سکالرز ، پروفیسرز ،قانون دان وکلاء حضرات اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ایم فل پی ایچ ڈی کے طلباء کے ہاں انتہائی پسندیدہ ہے ۔پاکستان پبلک سروس کمیشن، اور مقابلہ کا امتحان پاس کرنے کے لیے احباب مجلہ محدث کے سابقہ مجلات کی طرف رجوع کرتے ہیں۔محدث کی عصر حاصر میں فرقِ باطلہ کے خلاف علمی و تحقیقی خدمات پر یونیورسٹیوں میں ایم اے ،ایم فل کے تحقیقی مقالہ بھی لکھے جا رہے ہیں۔ زیر نظر تحقیقی مقالہ بعنوان ’’ماہنامہ محدث میں تہذیب و ثقافت سے متعلقہ شائع ہونے والے مضامین کا تحقیقی جائزہ‘‘ محترمہ شبیلہ عبد الرزاق صاحبہ کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے ڈاکٹر عبد الغفار (اسٹنٹ پروفیسر یونیورسٹی آف اوکاڑہ) کی زیر نگرانی یونیورسٹی آف اوکاڑہ۔شعبہ علوم اسلامیہ میں پیش کر کے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔مقالہ نگار نے اس تحقیقی مقالہ کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے اور اس میں ماہنامہ محدث کی علمی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے دیگر دینی رسائل و جرائد میں محدث کے امتیاز کو واضح کیا ہے اور محدث میں شائع ہونے والے تہذیب و ثقافت سے متعلق مضامین کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔ (م۔ا)
اشاعتِ توحید کے سلسلے میں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ ایک متبحر عالم دین،قرآن و حدیث اور متعدد علوم و فنون میں یگانہ روز گار تھے۔آپ نے اپنی ذہانت و فطانت اور دینی علوم پر استدراک کے باعث اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء دین کو متاثر کیا اور انہیں اپنا ہم خیال بنایا۔آپ نے قرآن و سنت کی توضیحات کے ساتھ ساتھ شرک و بدعات کے خلاف علمی و عملی دونوں میدانوں میں زبردست جہاد کیا۔آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔جن میں سے ایک کتاب (کتاب التوحید)ہے۔ مسائل توحید پر یہ آپ کی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے ۔شیخ موصوف نے اس کتاب میں ان تمام امور کی نشاندہی کر دی ہے جن سے عقائد میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور نتیجۃً انسان ایسے عملوں کا ارتکاب کر لیتا ہے حو شرک کے دائرے میں آتے ہیں ۔ اس کتاب میں مصنف رحمہ اللہ نے ہر مسئلہ کے لیے علیحدہ علیحدہ باب باندھا ہے اور ہر بات کے ثبوت کے لیے قرآنی آیات اور احادیثِ صحیحہ بطور دلیل پیش کی ہیں۔ زیر نظر ’’ کتاب التوحید ‘‘کا ترجمہ فضیلۃ الشیخ پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ (سابق مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ) نے کیا ہے۔ یہ ترجمہ نہایت شگفتہ اسلوب میں کیا گیا ہے۔ حافظ ابو محمد مصلح الدین محمدی حفظہ اللہ نے اس کتاب کو تحقیق و تخریج سے مزین کیا ہے۔(م۔ا)
عقل کی اہمیت عقلاً،شرعاً اور عرفاً ہر اعتبار سے ثابت ہے ۔نصوصِ شرعیہ میں جابجا عقل کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔بعض محدثین نے اپنی کتب میں باقدہ عقل کی فضیلت و اہمیت پر باب باندھے ہیں جبکہ بعض نے مستقل تصانیف بھی لکھی ہیں جیسا کہ امام ابوبکر ابن ابی الدنیا کی کتاب العقل و فضله ( عقل اور اس کی فضیلت)اسلام میں عقل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تمام احکام شرعیہ کا مکلف و پابند صرف وہی ہے جس کے پاس عقل ہو اگر کوئی مجنون پاگل ہے اس کی عقل عارضی طور پر چلی جائے تو اسے شریعت کے احکام وقتی طور پر اٹھ جاتے ہیں ۔ زیر نظر کتابچہ ’’کیا علماء عقل کو کوئی حیثیت نہیں دیتے ؟‘‘صاحب تعلیقات سلفیہ مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ کے ایک مضمون کی کتابی صورت ہے کہ جس میں علماء پر عقل کے سلسلے میں کیے جانے والے اعتراض کا جائزہ مختصر و جامع انداز میں لیا گیا ہے۔حافظ محمد طاہر صاحب نے مضمون کی افادیت کے پیش نظر اس پر مقدمہ لکھ کر پی ڈی ایف فارمیٹ میں افادۂ عام کے لیے پیش کیا ہے یہ مضمون ’’آثارِ حنیف بھوجیانی‘‘ جلد سوم سے ماخوذ ہے۔(م۔ا)
امام مہدی علیہ السلام وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ کے ارشادات تمام مستند کتب مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم وغیرہ میں ملتے ہیں۔ حدیث کے مطابق ان کا ظہور قیامت کے نزدیک ہو گا۔ مسلمانوں کے نزدیک امام مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے نزدیک اسلامی حکومت قائم کر کے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ سیدنا عیسی اور امام مہدی کی آمد اور ان کی نشانیوں کی حدیث میں تفصیل موجود ہے ۔اور اس پر عربی و اردو زبان میں کئی مستقل کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ امام مہدی علیہ السلام اور فتنہ قادیانیت ‘‘ محترم مولانا منیر احمد علوی صاحب کی تصنیف ہے۔انہوں نے اس کتاب میں احادیث کی روشنی میں امام مہدی علیہ السلام کا تعارف و حالات اور مہدویت کے جھوٹے دعوے دار مرزا قادیانی کے شبہات کا رد پیش کیا ہے۔(م۔ا)
غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی غیب دان ہے اس کے علاوہ غیب کی باتوں کو کوئی نہیں جانتا۔ نہ فرشتے ،انسان اور جنات غیب جانتے ہیں۔اور نہ ہی انسانوں میں سے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے انبیا اور اولیا غیب نہیں جانتے۔ اور نہ ہی سید الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہﷺ غیب کی باتیں جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ غیب کی باتیں نہ جاننے کے دلائل کتاب و سنت کے صفحات میں دوپہر کے سورج کی طرح عیاں اور روشن ہیں۔ لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اس قدر واضح دلائل کے باوجود علم غیب کو اللہ کے علاوہ بہت سے لوگوں کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’ علم غیب کے روحانی دلائل‘‘ ابن رفیق کی کاوش ہے جو کہ مختلف مذہبی اور معاشرتی موضوعات پر لکھا جانے والا حقیقت کے قریب ترین مقبول عام مُنا سیریز ’’آئیے منے سے کچھ سیکھیں‘‘ کا ایک دلچسپ سلسلہ ہے جس میں آسان فہم انداز سوال و جواب (مکالمہ) کی صورت میں ثابت کیا گیا ہے کہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی غیب دان ہے اس کے علاوہ غیب کی باتوں کو کوئی نہیں جانتا۔ (م۔ا)
حبرالامہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم ﷺ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ہیں۔جن کی پیدائش ہجرت سے 3 برس قبل شعب ابی طالب میں محصوریت کے دوران میں ہوئی تھی۔ آپ کی پیدائش کے بعد سیدنا عباس رضی اللّٰہ عنہ آپ کو بارگاہِ رسالت میں لے کر آئے تو آپ ﷺ نے ان کے منہ میں اپنا لعابِ دہن ڈال کر آپ کے حق میں دعا فرمائی۔ سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ 8ھ میں فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے ،سیدنا عبد اللہ کی عمر اس وقت گیارہ برس سے زیادہ نہ تھی، لیکن وہ اپنے والد کے حکم سے اکثر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے، ایک روز انہوں نے واپس آ کر بیان کیا، میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کو میں نہیں جانتا ہوں ، کاش مجھے معلوم ہوتا کہ وہ کون تھے؟، سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے آنحضرت ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا، آپ نے ان کو بلاکر فرطِ محبت سے اپنے آغوش عاطفت میں بٹھایا اور سر پر ہاتھ پھیر کر دعا فرمائی۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے بیدار ہوئے تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے وضو کے لیے پانی لا کر رکھ دیا۔ آپ ﷺ نے وضو سے فراغت کے بعد پوچھا کے پانی کون لایا تھا۔سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے عبد اللہ بن عباس کا نام لیا تو آپ ﷺ خوش ہو کر یہ دعا دی۔ اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ۔ قرآن، تفسیر ، حدیث، فقہ، ادب، شاعری، وغیرہ کوئی ایسا علم نہ تھا جس میں ان کو یدِطولیٰ حاصل نہ رہا ہو۔ بالخصوص قرآن پاک کی تفسیر و تاویل میں جو مہارت اور آیات قرآنی کے شانِ نزول اور ناسخ و منسوخ کے علم میں جو وسعت ان کو حاصل تھی وہ کم کسی کے حصہ میں آئی۔ابن عباس کا انتقال سن 68 ہجری میں ستر سال کی عمر میں طائف میں ہوا اور محمد بن حنفیہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو وہیں دفن کیا گیا۔ زیر نظر تحقیقی مقالہ بعنوان ’’حضرت عبد اللہ عباس رضی اللہ عنہ کے احوال و فضائل و مناقب کا تحقیقی مطالعہ ‘‘ عبد الباقی صاحب کا وہ تحقیقی مطالعہ ہے جسے انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،کلیۃ عربی و علوم اسلامیہ میں پیش کر کے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔(م۔ا)
بر صغیر پاک و ہند میں ہندوانہ رسوم و رواجات کا چلن اس قدر عام ہے کہ مسلمان رسومِ اختراعیہ کے اس قدر پابند ہیں کہ فرض و واجب کی ادائیگی چھوڑ دیتے ہیں مگر ان رسم و رواج کو پورے کرنے میں رائی برابر بھی کمی نہیں آنے دیتے۔اور ان کی بدولت طرح طرح کی پریشانی اور تنگ دستی اور مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دین و دنیا دونوں کھو دیتے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگ ہندو مذہب سے مسلمان ہوئے ہیں اور ہمیشہ سے ہندوؤں کے ساتھ رہتے بستے چلے آ رہے ہیں۔وہ مسلمان تو ہو گئے لیکن ان کے عام رسم و رواج ہندوانہ ہی ہیں۔ بعض ہندوانہ رسمیں اسلامی پیوندکاری کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ انہی ہندوانہ رسوم و رواجات میں سے ایک میت کے گھر پہلے، تیسرے، ساتویں، اکیسویں اور چالیسویں دن کھانے کا اہتمام کرنا،مولوی صاحب سے ختم پڑھوانا اور تبرک چنے اور پھل مکھانے تقسیم کرنے کی رسوم ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’ گچک یا لچک‘‘ ابن رفیق کی کاوش ہے جو کہ مختلف مذہبی اور معاشرتی موضوعات پر لکھا جانے والا حقیقت کے قریب ترین مقبول عام مُنا سیریز ’’آئیے منے سے کچھ سیکھیں‘‘ کا ایک دلچسپ فرضی سلسلہ ہے جس میں آسان فہم انداز سوال و جواب (مکالمہ)کی صورت میں میں ثابت کیا گیا ہے کہ میت کے گھر پہلے، تیسرے، ساتویں، اکیسویں اور چالیسویں دن کھانے کا اہتمام کرنے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں بلکہ محض یہ ہندووانہ رسوم و رواج ہیں۔(م۔ا)
امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہﷺ سے محبت جزو ایمان ہے اس کے بغیر ایمان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا محبت کے جذبات شعر و نظم کے پیکر میں ڈھلتے ہیں تو انہیں نعت کہا جاتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی مدح و ستائش اور آپ ﷺ کے اوصاف کریمہ کا بیان باعث شادابی ایمان ہے ۔ لیکن نعت کہنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ اور بندے یعنی خالق اور مخلوق میں فرق و امتیاز کو ہر حال میں ملحوظ رکھے ورنہ وہ الحاد اور شرک میں مبتلا ہو جائے گا۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں کئی ایک صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اصحاب النبی ﷺ میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ پہلے نعت گو شاعر اور نعت خواں تھے۔ سیدنا حسان بن ثابت کا نعتیہ کلام ’’ دیوان حسان ‘‘ کے نام سے مدون شکل میں موجود ہے جس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی نعتیہ مجموعے موجود ہیں لیکن اکثر میں مبالغہ آرائی اور شرک کی آمیزش ہے۔ زیر نظر کتاب ’’فردوس سخن‘‘جناب کاشف شکیل صاحب کی کاوش ہے انہوں نے متنوع اسلوب میں اپنے احساسات و جذبات کو صفحہ قرطاس کے حوالے کیا ہے۔ یہ شعری مجموعہ حمد و نعت اور مختلف نظموں پر مشتمل ایک بہترین مجموعہ ہے۔ اس میں موصوف نے نعت رسول مقبول ﷺ کو حب رسول ﷺ سے معمور ہو کر اپنے الفاظ میں موتیوں کی طرح پرویا ہے۔ رسول گرامی کی مدح میں آپ کی ذات و صفات کی بہترین تمثیل اس میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔ (م۔ا)
کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا مشکل کا شکار رہی اس وبائی مرض نے نظامِ حیات تباہ کر کے رکھ دیا ،ہنستے کھیلتے شہر وایرانی کا منظر پیش کرتے رہے ۔ اور انسانوں کو گھروں تک محدود کر دیا ۔ہر طرف نفسا نفسی اور افراتفری کا عالم تھا۔کورونا کی وجہ سے دنیا بھر کے حالات بالکل بدل گئے تھے۔ بہت سے شرعی مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کیا اس وبا کی صورت میں مسجد جا کر نماز ادا کرنی چاہیے یا نہیں۔ بہت سے عرب ممالک میں مساجد نماز کے لیے بند کر دی گئیں اور عرب علماء کی اکثریت اس رائے سے متفق تھی ۔ البتہ پاک و ہند میں اس پر علماء کی مختلف آراء رہیں ۔اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر علماء کرام کی مختلف پہلوؤں(جمعہ و جماعت کے لیے مساجد کو بند کرنے کی پابندی،کورونا وائرس کی حقیقت، کورونا مریضوں کے شرعی حقوق و فرائض) پر مختلف تحریریں آئیں جنہیں بعض احباب نے کتابی صورت میں مرتب کر کے سوشل میڈیا پر وائرل بھی کیا ۔ زیر نظر کتاب ’’کورونا وائرس سے متعلق جدید فقہی مسائل‘‘ محترم عبید الرحمٰن عبد العزیز، ضیاء الرحمٰن عبد العزیز، کلیم الرحمٰن عبد العزیز کی مشترکہ کاوش ہے ۔اس کتابچہ میں مرتبین نے 23 مختلف سوالات کے جوابات قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں پیش کیے ہیں ۔(م۔ا)
قیامت آثار قیامت کو نبی کریم ﷺ نے احادیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے جیسا کہ احادیث میں ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسیٰ بن مریم نازل نہ ہوں گے ۔ وہ دجال اور خنزیر کو قتل کریں گے ۔صلیب کو توڑیں گے۔ مال عام ہو جائے گا اور جزیہ کو ساقط کر دیں گے اور اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قبول نہ کیا جائے گا اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کے سوا سب ادیان کو ختم کر دے گا اور سجدہ صرف اللہ وحدہ کے لیے ہو گا۔علامات قیامت کے حوالے سے ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں ابواب بندی بھی کی ہے اور بعض اہل علم نے اس موضوع پر مستقل بھی کتب لکھی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ عقیدہ رفع و نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام ‘‘ محترم مولانا منیر احمد علوی صاحب کی تصنیف ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے اور قرب قیامت دوبارہ تشریف لانے پر قرآن و حدیث اور اجماع سے دلائل اور مسیحیت کے جھوٹے دعویدار مرزا قادیانی کی چال بازیوں اور فریب کاریوں کے شکوک و شبہات کا عادلانہ جائزہ پیش کیا ہے۔(م۔ا)
حدیث کے صحت و ضعف کے لیے جس طرح اسناد کی بڑی اہمیت ہے کتبِ حدیث اور کتب علوم حدیث میں باقاعدہ اسناد موجود ہیں اسی طرح مختلف قراءات کی اسناد بھی موجود ہیں اہل علم نے اسنادِ حدیث کی طرح اسنادِ قراءات پر مستقل کتب تحریر کی ہیں۔ شیخ القرّاء قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی )کے صاحبزادے و تلمیذ رشید جناب قاری عویمر ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کی زیر نظر کاوش بعنوان جداول الأسانيد القرائية المختصرة بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف کے زور ِقلم میں مزید اضافہ فرمائے اور ان کی دعوتی و تدریسی اور قرآنی جہود کو قبول فرمائے ۔آمین (م۔ا)
’’شاطبیہ‘‘ کی سات اور ’’دُرّہ‘‘ کی تین قراءات کا نام قراءات عشرہ صغریٰ ہے جبکہ طیبۃ النشر کی 10 قراءات کو عشرہ کبریٰ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ الجداول الميسرة في أصول القراء العشرة من طريق الشاطبية و الدرّة ‘‘شیخ القرّاء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی )کے صاحبزادے و تلمیذ رشید جناب قاری عویمر ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کی کاوش ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں شاطبیہ اور درّہ کے طریق سے قراءات عشرہ صغریٰ کے اصولی ابواب کو طلبہ کی سہولت اور آسانی کے لیے جداول (نقشوں) کی صورت میں انتہائی آسان پیرائے میں پیش کیا ہے۔ یہ نقشے طلباء کے لیے بہترین تذکیر اور گرانقدر علمی تحفہ ہے۔اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف کے زور قلم میں مزید اضافہ فرمائے اور ان کی دعوتی و تدریسی اور قرآنی جہود کو قبول فرمائے ۔آمین (م۔ا)
’’شاطبیہ‘‘ کی سات اور ’’دُرّہ‘‘ کی تین قراءات کا نام قراءات عشرہ صغریٰ ہے جبکہ طیبۃ النشر کی 10 قراءات کو عشرہ کبریٰ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ الجداول المحرّرة في اصول القرّاء العشرة من طريق طيّبة النّشر ‘‘شیخ القرّاء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی )کے صاحبزادے و تلمیذ رشید جناب قاری عویمر ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کی کاوش ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں شاطبیہ اور درّہ کے طریق سے قراءات عشرہ صغریٰ کے اصولی ابواب کو طلبہ کی سہولت اور آسانی کے لیے جداول (نقشوں) کی صورت میں انتہائی آسان پیرائے میں پیش کیا ہے۔ یہ نقشے طلباء کے لیے بہترین تذکیر اور گرانقدر علمی تحفہ ہے۔اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف کے زور قلم میں مزید اضافہ فرمائے اور ان کی دعوتی و تدریسی اور قرآنی جہود کو قبول فرمائے ۔آمین (م۔ا)
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی متعدد آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ارشادِ خدا وندی ہے: ما كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا(الاحزاب، 33 : 40)ترجمہ:’’محمد ﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔‘‘اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ ﷺ ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ قرآن حکیم میں متعدد آیات ایسی ہیں جو عقيدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم ﷺ نے متعدد متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنیٰ متعین فرمایا ہے۔ یہی وہ عقیدہ جس پر قرون اولیٰ سے آج تک تمام امت اسلامیہ کا اجماع ہے ۔عقیدہ ختم نبوت کے اثبات اور مرزا قادیانی کی تکذیب کے سلسلے میں ہر مکتب فکر نے گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ منیر احمد علوی صاحب کی مرتب شدہ ہے جس میں انہوں نے عقیدہ ختم نبوت کی عظمت ، اسلام میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت ، قادیانیوں سے چند اہم سوالات ، مرزا قادیانی کے کذب اور عقیدہ ختم نبوت پر قرآن و حدیث سے دلائل کو پیش کیا ہے۔(م۔ا)
نماز دین ِ اسلام کا دوسرا رکن عظیم ہے جو کہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔قرآن و حدیث میں نماز کو بروقت اور باجماعت ادا کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے ۔نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قدر اہم ہے کہ سفر و حضر اور میدان جنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے ۔نماز کی اہمیت و فضیلت کے متعلق بےشمار احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں اور بیسیوں اہل علم نے مختلف انداز میں اس پر کتب تالیف کی ہیں ۔ نماز کی ادائیگی کا طریقہ جاننا ہر مسلمان مرد و زن کے لیے ازحد ضروری ہے کیونکہ اللہ عزوجل کے ہاں وہی نماز قابل قبول ہو گی جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی ۔ زیر نظر کتاب ’’آسان نماز نبوی مدلل‘‘ مولانا ابو رسلان شمیم احمد الفوزی السنابلی المدنی حفظہ اللہ کی تصنیف ہے۔انہوں نے اس کتاب میں انتہائی آسان و سہل انداز میں کتاب و سنت کے واضح دلائل کی روشنی میں نماز کو تکبیر سے تسلیم تک ادا کرنے کا مسنون طریقہ بیان کیا ہے۔ طہارت اور وضو کے چند ضروری مسائل بھی ذکر کئے گئے ہیں ۔عملی تصاویر، مختلف فیہ مسائل میں مختصر اور محققانہ انداز میں دو ٹوک فیصلے نے کتاب کی معنویت کو دو چند کر دیا ہے ۔نیز غلط مروجہ طریقوں پر عمدہ انداز میں ریمارکس نے کتاب کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے اور آخر میں سجدۂ سہو کب اور کیسے کیا جائے اسے بھی قلمبند کیا گیا ہے تاکہ نماز میں سہواً کسی کمی یا اضافے کے وقت نمازی کے لیے تلافی و تدارک کی صورت واضح رہے ۔(م۔ا)
اسلام میں تعزیت کسی کی موت پر اس کے رشتہ داروں سے کی جاتی ہے اس کا مقصد میت کے لیے دعائے استغفار کرنا اور لواحقین کو تسلی دینا ہوتا ہے کیونکہ جس کے گھر وفات ہوتی ہے وہ لوگ غمگین اور اداس ہوتے ہیں۔ اسلام نے ایسے مواقع پر تعلیم دی ہے کہ میت کے گھر والوں کو تسلی دی جائے اسے تعزیت کہتے ہیں ۔ تعزیت سے متعلق متعدد احادیث ملتی ہیں ۔لیکن اہل تشیع کے ہاں جو مجالس اور تعزیہ داری کی رسومات پائی جاتی ہیں وہ من گھڑت اور قعطاً درست نہیں ہیں ۔کیونکہ جب اسلامی تعزیت اور رسم تعزیہ کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسم تعزیہ بالکل اسلام کے خلاف ہے۔ فضیلۃ الشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ نے زیر نظر کتابچہ بعنوان ’’ رسم تعزیہ داری ،اسلام اور شرعی تعزیت کی روشنی میں ‘‘میں اسلامی و شرعی تصور تعزیت کو پیش کر کے اسکا ہمارے معاشرے میں رائج رسم تعزیہ داری سے موازنہ کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا ہے کہ رسم تعزیہ بالکل اسلام کے خلاف ہے،اس کا اسلام سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے اور جو اسلامی شریعت سے تعزیت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے پیچھے سارے اعمال خود سے وضع کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شیخ مقبول احمد سلفی صاحب کی تحقیقی و تصنیفی، دعوتی و تدریسی خدمات کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔ آمین (م۔ا)
متعدد بدعات میں سے ایک بدعت بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی ﷺ منانے کی ہے۔ بہت سارے مسلمان ہر سال بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی ﷺ اور جشن مناتے ہیں ۔عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا ہے ، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، نعت خوانی کے لیے محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اور بعض ملکوں میں سرکاری طور پر چھٹی کی جاتی ہے۔ لیکن اگر قرآن و حدیث اور قرون اولی کی تاریخ کا پوری دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قرآن و حدیث میں جشن عید یا عید میلاد کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔نہ نبی کریم ﷺ نے اپنا میلاد منایا اور نہ ہی اسکی ترغیب دی۔ قرونِ اولیٰ یعنی صحابہ کرام ﷺ ،تابعین، اور تبع تابعین کا زمانہ جسے نبی کریم ﷺ نے بہترین زمانہ قرار دیا ان کے ہاں بھی اس عید کا کوئی تصور نہ تھا۔ معتبر ائمہ دین کے ہاں بھی نہ اس عید کا کوئی تصور تھا اور نہ وہ اسے مناتے تھے اور نہ ہی وہ اپنے شاگردوں کو اس کی تلقین کرتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے جشن منعقد کرنے کا آغاز نبی ﷺ کی وفات سے تقریبا چھ سو سال بعد کیا گیا ہے ۔ زیر نظر کتابچہ ’’ ولادت باسعادت اور ماہِ ربیع الاول ‘‘ مولانا کرم الدین سلفی رحمہ اللہ کا مرتب شدہ ہے۔جس میں انہوں نے بدعت کی تعریف ،بدعتی کا انجام عید میلاد اور اس ضمن میں کی جانے والی دیگر بدعات و خرافات کو بیان کیا ہے نیز دلائل سے ثابت کیا ہے کہ عہد نبوی ،عہد صحابہ اور بعد کے ادوار میں اس مروجہ عید میلاد النبی ﷺ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،اس کو منانا بدعت ہے ۔ اللہ تعالی اس کتابچہ کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔(آمین)(م۔ا)
عیسائیت کے بارے میں جہاں عوام میں پھیلانے کے لئے مختصر اور عام فہم لٹریچر کی ضرورت ہے وہاں اس امر کی بھی شدید ضرورت ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ کو اس مذہب کی تحقیقی معلومات فراہم کی جائیں اور جو لوگ تقریر و تحریر کے ذریعے عیسائیوں میں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، ان کو عیسائیت کے صحیح خدو خال سے آگاہ کیا جائے،ورنہ نامکمل معلومات کی بنیاد پر جو کام کیا جائے وہ بعض اوقات الٹے نتائج پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ زیرنظر کتاب ’’عیسائیوں کو دعوتِ فکر‘‘معروف کالم نگار محترم جناب عطاء محمد جنجوعہ صاحب کی کاوش ہے انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے افراط و تفریط کا شکار ہونے والے یہودیوں اور عیسائیوں کو خوب جھنجوڑا ہے اور ان کو دعوت فکر دی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل شخصیت اور ان کے سیرت و کردار کے اس روشن اور تاباں پہلو کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ کتاب مسیحیت کے لیے دعوت ہدایت بھی ہے اور ہدایت نما بھی ہے۔(م۔ا)
معاشرہ میں بہت سی برائیاں رواج پاتی جا رہی ہیں جن میں ایک گھناؤنا عمل جنسی زیادتی بھی ہے۔ زیادتی کا یہ عمل نوجوان لڑکیوں کے جنسی استحصال سے شروع ہوا بعد ازاں نوجوان لڑکے بھی اس کا بری طرح شکار ہوئے اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پاکستانی معاشرہ میں بچوں پر جنسی استحصال کے کیسز بہت بڑھتے جا رہے ہیں۔ لیکن معاشرہ میں بڑھتی ہوئی اس سماجی برائی کے بہت سے اسباب و محرکات بھی ہیں اور ان اسباب کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے تاکہ اس گھناؤنے جرم پر قابو پانے کی راہ نکالی جا سکے۔معاشرتی برائیوں کے سدباب کے لئے جزا و سزا کا مکمل فلسفہ اسلام نے سکھلایا۔ ان اصول و مبادی پر عمل ہی کی بدولت آج کے دور میں جنسی استحصال جیسے گھناؤنے جرم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ زیر نظر مقالہ بعنوان ’’ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے حالیہ واقعات :اسباب، محرکات اور شریعت اسلامیہ کی روشنی میں سدباب‘‘ محترم محمد ابوبکر صدیق صاحب کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس میں پیش کر کے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔مقالہ نگار نے اپنے اس تحقیقی مقالہ کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے اور اس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کے اسباب اور محرکات کا شریعت اسلامیہ کی روشنی میں سدباب کے متعلق بحث کی ہے۔(م۔ا)
ابو سعید المہلب بن ابی صفرہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے حامیوں میں سے تھے اور اموی دور کے ایک مشہور سپہ سالار تھے۔ جنہوں نے خوارج کے خلاف جنگوں میں ناموری حاصل کی اور اپنی پوری زندگی خوارج کے خلاف جنگوں میں بسر کی اور اس معاملہ میں ان کی خدمات کو بے مثال تسلیم کیا جاتا ہے ۔مہلب یہی وہ سپہ سالار ہے جو خطۂ پاکستان میں محمد بن قاسم سے تقریبا 45 سال قبل داخل ہوا۔ اس لیے مہلب کی شخصیت پاکستان اور اس خطے کے لیے ایک خصوصی اہمیت ہے۔ زیر نظر کتاب ’’المہلب:خطۂ پاکستان میں اسلام کا پہلا علمبردار‘‘محترم جناب ڈاکٹر سید محمد انور صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے المہلب کا شخصی تعارف ، ابتدائی زندگی ، عسکری زندگی ابتدا،المہلب کا اصولی موقف اور فتنہ خوارج،المہلب اور اموی دور حکومت ، المہلب کی وصیت اور اقوال زریں کو دلچسپ انداز میں بیان کرنے کے علاوہ اس بات کو واضح کیا ہے کہ المہلب وہ پہلا واحد مسلم فاتح اور سپہ سالار ہے جس نے خطۂ پاکستان کے چاروں صوبوں میں پہلے خیبر پختون خواہ،پھر پنجاب ،اس کے بعد سندھ اور آخر میں بلوچستان میں اسلام پہلے پہل پھیلایا۔(م۔ا)