یہ کتاب اصول حدیث کے موضوع پر لکھی گئی ہے اور اس میں حدیث کی فضیلت و اہمیت کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیثیت و منصب و نبوت کے فرائض اور مخالفت رسول اللہ ﷺ پر وعید اور منکرین حدیث کے اعتراضات و جوابات اور ان کے گروہ ، علم اصول حدیث اور اس کا ارتقاء، تقسیم حدیث باعتبار ناقلین، قبول و رد کے اعتبار سے حدیث کی تقسیم، تدلیس کے بارے میں بالتفصیل ذکر، مسند الیہ کےلحاظ سے احادیث کی اقسام، مشترک مابین مقبول و مردو، شرائط قبولیت راوی، باعتبار روایت حدیث کی تقسیم، اخذ حدیث کے طریقے اور جرح و تعدیل جیسے اہم مباحث شامل ہیں۔
انکار رجم ایک فکری گمراہی کے نام سے زیر تبصرہ کتاب ڈاکٹر ابو عدنان سہیل (اصل نام افتخار احمد ) نے مسئلہ رجم کے اثبات کے لیے منکرین رجم کے علمبردار عنایت اللہ سبحانی کے جواب میں تحریر کی –عنایت اللہ سبحانی نے حقیقت رجم نامی کتاب لکھ کر مسئلہ رجم جوکہ امت مسلمہ کا اجماعی مسئلہ ہے اس کوکمزور کرنے کی کوشش کی جس پر ڈاکٹرابو عدنان سہیل نے انکار رجم ایک فکری گمراہی کے نام سے اس کتاب کا جواب دیا ہے-مصنف نے عنایت اللہ سبحانی کے دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا سنجیدہ انداز میں علمی محاکمہ کرتے ہوئے قرآن وسنت کے دلائل اور صحابہ کرام کے عمل سے شادی شدہ زانی کی سزا رجم کوثابت کیا ہے-اور اسی طریقے سے رجم کی سزا کے منکرین جو کہ باطل تاویلات کا سہارا لیتے ہیں ان کی علمی خیانتوں کے بیان کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کی تعلیمات کے حقائق اور ان کی حکمتوں پر سیر حاصل بحث کی ہے-
اللہ تعالی نے امت مسلمہ پر امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کو فرض کیا ہے جن باتوں کےساتھ امت کی دنیا وآخرت میں رفعت ومنزلت،شان وعظمت،سعادت اور خوش بختی کو وابسطہ کیا گیا ہے ان میں سے ایک اہم بات امت کےتمام افراد کااس فریضے کو اپنی استعداد کے بقدر ادا کرناہے۔لیکن یہ بات عام دیکھنے میں آتی ہے کہ دین سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ جو کہ (امر بالمعروف ونہی عن المنکر ) کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھتے اور مانتے ہیں اس کو فکری اور عملی طور پر ،یاکم ازکم عملی طور پر مردوں میں محدود کردیتے ہیں کہ یہ مردوں کے کرنے کے کام ہیں خواتین کی اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں اس بھیانک سوچ سے نمٹنے کےلیے (امر بالمعروف او رنہی عن المنکر)کے متعلق خواتین کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے ارادے سے مولائےعلیم وقدیرپر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے کتاب وسنت اور مسلمان عورتوں کی سیرت کی روشنی میں (نیکی کاحکم دینے او ربرائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری)کےعنوان سے اس کتاب کی تیاری کا عزم کیا گیاہے ۔
پاک و ہند میں علماء اہل حدیث کی خدمت حدیث اسلامی تاریخ کاروشن باب ہے اہل علم نے ہر دور میں اس کی تحسین کی پاک وہند سے کتب حدیث کے نہایت مستند متون شائع ہوئے اس خطہ زمین میں کتب حدیث کی نہایت جامع ومانع شروح وحواشی تحریر کیے گئے۔بر صغیر میں فتنہ انکار حدیث صدیوں سے زوروں پر ہےاس کی بعض صورتیں ایسے صریح انکار حدیث پر مبنی ہیں جس کے حامل کا مسلمان ہونا بھی ایک سوالیہ نشان ہے اس فتنہ کے بنیادی اسباب میں دین سے لاعلمی ،غیر مسلم تہذیب سے مرعوبیت اور سیاسی وفکری محکومی سرفہرست ہے یہ پڑھے لکھے تجدد پسند حضرات کافتنہ ہے جوعلوم اسلامیہ سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے اسلام اور اس کے اوامر ونواہی سے جذباتی عقیدت رکھتے ہیں ۔فتنہ انکار حدیث کو واضح کرنے اور عوام الناس کو اس سے متعارف کروانے کےلیے فدائیان کتاب وسنت نے دن رات محنت کی ان میں سے ایک غازی عزیر بھی ہیں جنہوں نے ’’انکار حدیث کا نیا روپ‘‘جیسی عظیم اور مفصل کتاب لکھ کر حدیث پر اٹھائے جانے والے تمام سوالات کاحل پیش کردیاہے ۔اس کتاب میں جہاں منکرین قرآن وسنت کے تمام اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے وہاں حجیت حدیث...
اولاد انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک امانت بھی ہے جس کی کماحقہ حفاظت انسان پر فرض ہے۔اولاد کی تربیت میں اسلامی ماحول کی فراہمی انتہائی ضروری ہے اور اس میں کوتاہی انسان کی پوری زندگی کے لیے وبال بن جاتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر فضل الہٰی صاحب نے اس موضوع کو کما حقہ ادا کرتے ہوئے بچوں کے احتساب کے نام سے تربیت اولاد کے حوالے سے قیمتی مواد فراہم کیا ہے جس کی روشنی میں کوئی بھی شخص اپنی اولاد کی صحیح نہج پر تربیت کر سکتا ہے۔مصنف نے اپنی کتاب میں جن بنیادی باتوں کو موضوع بنایا ہے وہ درج ذیل ہیں:1۔کیا بچوں کو نیکی کا حکم دینا شرعا ثابت ہے؟کیا نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ بچوں کو نیکی کا حکم دیا کرتے تھے؟2۔کیا بچوں کو برے کاموں سے روکنا ثابت ہے؟کیا ہمارے نبی محترمﷺاور حضرات صحابہ ؓ بچوں کو غلط کاموں سے روکنے کا اہتمام کیا کرتے تھے؟3۔بچوں کا احتساب کرتے ہوئے کون سے درجات،اسالیب اور وسائل استعمال کیے جائیں؟4۔بچوں کا احتساب کون کرے؟ کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بات کی وضاحت کے لیے قرآن وسنت کو بنیاد بنایا گیا ہے،احادیث کو اصلی...
اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم میں سے بہت سے ایسے صاحب عقل و دانش پیدا کیے ہیں جن کا ذکر خیر مشک و عنبر سے زیادہ قیمتی ہے ۔ انہی باہمت ہستیوں میں سے ایک نام علامہ ناصر الدین البانی کا ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی شجر حدیث کی آبیاری کے لیے وقف کیے رکھی۔ شیخ موصوف کے علمی کارناموں کی طویل فہرست میں سب سے نمایاں کارنامہ احادیث رسول ﷺ کے ذخیرہ میں غوطہ زن ہو کر ان کو صحت و ضعف کے اعتبار سے تقسیم کرنا ہے۔ شیخ موصوف نے حدیث رسول ﷺ پر نہایت وقیع کام کرتے ہوئے کھوٹے اور کھرے کو الگ الگ کیا۔ اس وقت آپ کے سامنے ’سلسلہ احادیث صحیحہ‘ کے نام سے احادیث کا ایسا مجموعہ ہے جس کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ کتاب کو اردو قالب میں ڈھالنے اور فوائد کا تذکرہ کرنے کا فریضہ استاذ الحدیث عبدالمنان راسخ اور ابو میمون محفوظ احمد اعوان نے انجام دیا ہے۔ اس اردو ترجمہ کی خاصیت یہ بھی ہے کہ تمام احادیث کو متعدد ابواب کے تحت یکجا کیا گیا ہے۔ کتاب کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہے کہ شیخ البانی معصوم عن الخطاء نہیں تھے آپ کے بعض تفردات پر اہل علم نے نقد...
جاہلیت جدیدہ کے علم برداروں نے آزادی اظہار کے نام پر انبیائے کرام ؑ کو بالعموم او رحضور حتمی المرتبت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تنقیص و اہانت کو اپنا منتہائے نگاہ ٹھہرا لیا ہے،جس کے مظاہر حالیہ چند برسوں میں مختلف یورپی ممالک میں دیکھنے کو ملے۔ان حالات میں یہ لازم تھا کہ جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کی تقدیس و تعظیم کے تصور کو اجاگر کیا جاتا اور توہین رسالت کی شناعت و قباحت اور اس کی سزا وعقوبت کو کتاب وسنت کی روشنی میں واضح کیا جاتا۔اسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کی کرامت کہیے یا عنداللہ ان کی مقبولیت کہ ناموس رسالت کے دفاع و تحفظ پر جو کچھ شیخ الاسلام ؒ کے قلم سے نکلا ہے سات صدیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ اس قدر جاندار،زندہ اور مدلل ہے کہ اس مسئلہ میں آج بھی سند اور اولین مرجع کی حیثیت رکھتا ہے۔زیر نظر کتاب حضرت شیخ الاسلام ؒ نے خاص اسی مسئلہ پر تحریر کی ہے اور اپنے خاص انداز تحریر میں اس قضیہ کے ہر پہلو پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔اس کتاب کے حسن قبول کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جو شیخ الاسلام کے سخت ناقد اور مخالف ہیں وہ بھی اس کا اردو ترجمہ ک...
گناہوں کی دو قسمیں ہیں :صغیرہ اور کبیرہ ،پھر کبیرہ گناہوں میں بعض انتہائی سنگین ہیں ،جن کی بنا پر لوگ شدید اذیت اور مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں ۔ایسے ہی گناہوں میں سے ایک بد ترین گناہ جھوٹ ہے ۔لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جھوت عام ہو چکا ہے ۔بہت سے لوگ دوسرے لوگوں کے جھوٹ پر رنجیدہ ہونے والے اپنے لیے دروغ گوئی کو عقل و دانش کی علامت سمجھتے ہیں ۔کذب بیانی سے بزعم خود دوسروں کو بے وقوف بنانے کا تذکرہ اپنے لیے باعث افتخار گردانتے ہیں ۔عالم اسلام کے عظیم اسکالر ڈاکٹر فضل الہیٰ نے زیر نظر کتاب میں جھوٹ کی ہلاکت خیزی کو واضح کیا ہے اور جھوٹ کی سنگینی ،جھوٹ چھوڑنے کا عظیم الشان صلہ ،جھوٹ کی اقسام اور جھوٹ بولنے کی اجازت کے مواقع جیسے اہم مسائل کو قرآن و حدیث اور علمائے سلف کے اقوال کی روشنی میں اجاگر کیا ہے ۔ہر مسلمان کو یہ کتاب لازماً پڑھنی چاہیے تاکہ معاشرے کو جھوٹ جیسے قبیح جرم سے پاک کیا جا سکے ۔
اللہ رب العزت کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمارے دین کو مکمل کر دیا ہے ۔اس کا شکر یوں ادا ہو سکتا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور ہر معاملے میں اس کی پیروی (اتباع) کی جائے ۔لیکن شیطان انسان کو ہر طریقے سے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔چنانچہ اس نے بعض لوگوں کے ذہن میں یہ خیال ڈالا کہ نیک کام زیادہ سے زیادہ ہونے چائییں،لہذا عبادات کی نت نئی صورتیں ایجاد ہوئیں اور دین سمجھ کر انہیں بھی اپنایا جانے لگا۔اسی شئے کو شریعت میں بدعت کہا گیا ہے ۔بدعت در حقیقت بہت بڑا جرم ہے کہ ’تکمیل دین‘ کے الہیٰ انعام کی تکذیب ونا شکری ہے ۔زیر نظر کتاب میں عبادات میں رائج بدعات کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ کتاب و سنت سے ان کی تردید کی گئی ہے ۔اصل کتاب عربی میں تھی،جس کا ترجمہ مولف سلفی عالم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے کیا ہے ،جس سے کتاب کی ثقاہت پر مہر تصدیق مثبت ہو گئی ہے ۔
’’او میری امت کے جوانان رعنا، او میری قوم کے سپوتو! اٹھو آج تمھارے مسلک اور تمھاری جماعت کو تمھاری ضرورت ہے۔ کس کے لیے؟ حق کی علمبرداری کے لیے! ملک میں کتاب و سنت کی عملداری کے لیے! ملک میں کتاب و سنت کی علمداری کے لیے! شرک و گمراہی کو مٹانے کے لیے اور کتاب و سنت کو پھیلانے کے لیے! اور ان شاء اللہ! وہ دن آنے والا ہے، جب پاکستان کی فضاؤں میں پرچم لہرا ئے گا تو کتاب اللہ کا لہرائے گا اور سنت رسول اللہ کا لہرائے گا.... اور اس دن کو طلوع ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔‘‘ یہ اس شخصیت کے الفاظ ہیں جس نے پاکستان میں اہل حدیث میں نئی روح پھونکی۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کا ایسا ملکہ عطا کیا کہ آغا شورش کاشمیری نے ان کی ایک تقریر سن کر کہا ’’احسان الٰہی اگر تم آئندہ سے خطابت چھوڑ دو تو تمھاری صرف اس ایک تقریر سے تمھیں برصغیر پاک و ہند کے چند بڑے خطیبوں میں شمار کیا جائے گا۔‘‘ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید 31 مئی 1945ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ اور اسلام کا یہ فرزند 23 مارچ 1987ء میں بم دھماکے میں زخمی ہونے کے بعد 30 مارچ 1987ء کو اپنے...
قرآن مجید پڑھنا پڑھانا بہت افضل عمل ہے، انتہائی سعادت مند اور خوش نصیب وہ حضرات ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت پر مامور فرما دیتے ہیں۔ خواہ وہ تدریساً ہوں یا تصنیفاً، اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے قاری عبدالرحمٰن صاحب مہتمم جامعہ رحمانیہ ناصر روڈ، سیالکوٹ، نے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے تدریسی تجربہ کی روشنی میں عام فہم انداز میں بنام ’اقرا قاعدہ‘ مرتب کیا ہے، قاعدہ کے آخر میں مزید دینی معلومات کو شامل کیا گیا ہے۔ اساتذہ اگر محنت سے پڑھائیں گے تو پڑھنے والے ان شاء اللہ قرآن کریم کو کافی حد تک صحیح پڑھنے کی مہارت حاصل کر لیں گے اور بہت سارے فوائد سے مستفید ہوں گے۔(ع۔م)
دینی علوم میں کتاب اللہ کی تفسیر وتاویل کا علم اشرف علوم میں شمار ہوتا ہے۔ ہر دور میں ائمہ دین نے کتاب اللہ کی تشریح وتوضیح کی خدمت سر انجام دی ہے تا کہ عوام الناس کے لیے اللہ کی کتاب کو سمجھنے میں کوئی مشکل اور رکاوٹ پیش نہ آئے۔ سلف صالحین ہی کے زمانہ ہی سے تفسیر قرآن، تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے کے مناہج میں تقسیم ہو گئی تھی۔ صحابہ ؓ ، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللہ اجمعین کے زمانہ میں تفسیر بالماثور کو خوب اہمیت حاصل تھی اور تفسیر کی اصل قسم بھی اسے ہی شمار کیا جاتا تھا۔ تفسیر بالماثور کو تفسیر بالمنقول بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں کتاب اللہ کی تفسیر خود قرآن یا احادیث یا اقوال صحابہ یا اقوال تابعین و تبع تابعین سے کی جاتی ہے۔ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں آپ ایک عظیم محدث اور عظیم مفسر قرآن ہیں۔ مولانا کی مشہور زمانہ تفسیر قرآن اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ یہ تفسیر بھی تفسیر بالماثور ہے جس میں حسب موقع مختصر شرح ساتھ ساتھ کر دی گئی ہے اس کےعلاوہ مخالفین اسلام کے اعتراضات کا جواب بھی وقتاً فوقتاً دیا گیا ہے۔ بعض مقامات کے حل مطالب کے ل...
کتاب وسنت کی روشنی میں مسائل زندگی سے متعلق شرعی راہنمائی کا نام اصطلاحی زبان میں ’فتوی‘ہے۔علمائے امت کے فتاوی کی ہزاروں سے متجاوز کتابیں چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں،جن سے خلق خدا مستفید ہو رہی ہے۔انہی میں ایک ’فتاوی‘مولانا عبیداللہ عفیف دامت برکاتہم کا بھی ہے جو عظیم محدث اور جلیل القدر فقیہ و مفتی ہیں اور عرصہ دراز سے تدریس و افتاء میں مشغول ہیں۔جماعت اہل حدیث کے بزرگ ترین عالم و مفتی ہیں۔آپ مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور قر آن و حدیث اور ائمہ سلف کی کتابوں سے براہ راست استفادہ کرتے ہیں ۔آپ کے فتاوی قوی دلائل پر مشتمل ہو تے ہیں ۔لہذا علماء و عوام میں یکساں لائق اعتماد جانے جاتے ہیں ۔واضح رہے کہ مفتی جماعت مولانا مبشر احمد ربانی بھی مولانا عفیف کے شاگردوں میں شامل ہیں،جس سے استاذ کی جلالت شان کا اندازہ ہوتا ہے۔قارئین اس عظیم الشان فتاوی سے یقیناً بہت فائدہ اٹھائیں گے۔(ط۔ا)
ثلاثیات محدثین کرام کی ایک معروف اصطلاح ہے جیسے ثلاثیاتِ بخاری وغیرہ۔ اس سے مراد وہ احادیث ہیں جو صرف تین واسطوں سے امام بخاری تک پہنچیں، اور انہوں نےاپنی صحیح بخاری میں درج کردیں۔ فاضل مؤلف نے محدثین کی اسی اصطلاح کو بطور عنوان ِکتاب اختیار کیا ہے ۔مصنف نے اس کتاب میں ان چیزوں کوبیان کیا ہے جو قرآن وحدیث میں تین تین مرتبہ یا تین کی تعداد کے حوالےسے مذکور ہیں ۔ فاضل مصنف نے کتاب کے پہلے حصہ میں قرآن مجید سے 248 ایسے مقامات کو بیان کیا ہے،جہاں اللہ نے تین کے عدد کے حوالے سے کلام کیا ہے اور اسی طرح دوسرے حصہ میں 272 ایسی احادیث کوبیان کیا ہے جن احادیث میں نبی کریمﷺنے تین کےعدد کے حوالے سے بات کی ہے قارئین کے لیے یہ ایک اچھوتا اور نادر موضوع ہے، اللہ مصنف کی اس کوشش کو قبول فرمائے (آمین)(م۔ا)
یہ کتاب ان اصحاب علم وقلم کا تذکرہ ہے کہ جن کے شب وروز قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند کرتے ہوئے گزرے ہیں ۔ان میں سے اکثر لوگ حیات فانی سے حیات جاودانی کا مرحلہ طے کر چکے ہیں ۔ترتیب عنوانات کی رو سے ظاہری طور پر یہ روادا چھبیس اصحاب فضل کی نشاندہی کرتی ہے ،لیکن اس کے باطن میں جھانکنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوا کہ اس میں اہل علم کی ایک دنیا آباد ہے۔یعنی ان چھبیس کے اسلاف،اساتذہ،تلامذہ،متاثرین،فیض یافتگان،ہم مکتب،ہم جماعت،دوست احباب اور مستفیدین کی متعدد قطاریں ہیں جو تاحد نگاہ دکھائی دیتی ہیں۔بہ الفاظ دیگر ایک شخص کے حالات میں کئی اشخاص کے حالات کی تہیں کھلتی گئی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ یہ سلسلہ دور تک چلا گیا ہے ۔یہ کتاب اہل حدیث اصحاب علم کی تک وتازنوع بنوع کو اجاگر کرتی اور بتاتی ہے کہ ان میں سے کس کس بزرگ نے کیا کیا معرکہ آرائیاں کیں ا ور ان کے فکر وعمل کے حدود نے کس انداز سے کہاں تک وسعت اختیار کی۔تصنیف وتالیف میں یہ حضرات کہاں تک پہنچے،تحقیق وکاوش کی کن کن وادیوں میں قدم زن ہوئے ،درس وتدریس میں کہاں تک رسائی حاصل کی اور وعظ وتبلیغ کے میدانوں میں انہوں نے کیا ا...
عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کا احتساب کرنا چاہیے اور ان کی تربیت کی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے لیکن یہ سوال بھی ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنے والدین کو کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی کا مرتکب دیکھے تو وہ کیا کرے؟کیا وہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے کہ وہ شرعی فریضہ ترک کریں اور ناجائز کام میں لگے رہیں یا اپنے ذمے شرعی واجب کوادا کرنے کا حکم دے ارو برائی سے منع کرے ۔یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ والدین کے ادب واحترام اور ان سے حسن سلوک پر انتہائی زور دیا گیا ہے لہذا کسی صورت میں بھی ان کی بے ادبی کی اجازت نہیں۔مزید برآں والدین کی ناراضگی کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔زیر نظر کتاب میں عالم اسلام کے عظیم اسکالر ڈاکٹر فضل الہیٰ حفظہ اللہ نے قرآن وحدیث یک روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت کی ہے جس کا مطالعہ ہر مسلمان کو لازماً کرنا چاہیے۔(ط۔ا)
حدیث پاک کی نشرواشاعت اور خدمت میں برصغیر کے علمائے کرام کا کردار انتہائی اہم ہے ۔تاریخ کے اوراق میں ان کے کارہائے نمایاں محفوظ ہیں۔اس خطے میں پیدا ہونے والے علمائے حدیث نے کتب حدیث کی بے مثال شروحات لکھیں اور اپنے اپنے انداز میں یہ عظیم خدمت سرانجام دی۔اس ضمن میں اہل حدیث علما کی مساعی بہ طور خاص لائق تذکر ہ ہیں،کیونکہ یہ کسی خاص شخصیت یا مکتب فکر کے اصولوں کی روشنی میں حدیث کی تشریح نہیں کرتے بلکہ حدیث کو اصل قرار دیتے ہوئے اس سے مسائل اخذ کرتے ہیں ۔جماعت اہل حدیث کے معروف قلمکار جناب مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب نے زیر نظر کتاب میں برصغیر کے ان ساٹھ اہل حدیث علمائے کرام کا تذکرہ کیا ہے ،جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ کی تدریسی یا تصنیفی صورت میں تبلیغ واشاعت کا اہتمام کیا یا کسی مدرسے میں طلبا کو کتب حدیث پڑھائیں یا حدیث کی کئی کتب کا ترجمہ کیا یا اس کی شرح لکھی یا فتوی نویسی کی۔اس سے علمائے اہل حدیث کی سوانح زندگی اور حدیث شریف سے ان کی محبت وتعلق سے آگاہی حاصل ہوگی۔(ط۔ا)
خطابت دعوت دین کا اہم ذریعہ اور عوام الناس کو دین کا پابند بنانے کا بہترین محرک ہے۔لہذا داعی کےلیے لازم ہے کہ وہ اوصاف خطابت سے کما حقہ بہرہ ور ہو اور لوگوں کو اپنی بات سمجھانے کا خاص ملکہ رکھتا ہو۔ماضی وحال میں جتنے بھی اچھے خطیب ہوئے ہیں ان کا اچھا خاصہ حلقہ اثر بھی ہے اور باعمل وباکردار خطبا کے عوام پر اچھے اثرات بھی قائم ہیں۔سو منبر ومحراب کی ذمہ داری کو ماحذ عوام پر خطابت کی دھاک بٹھانے ،فنے خطابت سے لوگوں کو اپنا درویدہ بنانے اور معاش کا ذریعہ بنانا ہی مقصود نہ ہو۔بلکہ زور خطابت سے دین کی اشاعت جاہل عوام تک اسلام کا پیغام پہنچانا ،مستشرقین کے باطل نظریات کا توڑ کرنا اور کتاب وسنت سے مدلل دلائل کے ذریعے اسلام کی حقانیت ثابت کرنا مقصود ہو۔جمعہ اور درس کی تیاری کے لیے خود ساختہ واقعات کے انتخاب اور لوگوں کی خوشنودی اور واہ واہ حاصل کرنے کے بجائے آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ سے مواد لیا جائے۔اور خوب تیاری کر کے منتخب موضوع کا حق ادا کیا جائے۔ان چیزوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمارے ممدوح فضیلت الشیخ عبدالمنان راسخ حفظہ اللہ کا یہ مجموعہ ترتیب دیا گیا ہے ۔جو فن خطابت کا حسین شاہکار...
ایمان ایقان وعمل کا نام ہے،جس میں نیک اعمال کی ادائیگی کی پر زور تاکید ہے۔اس اعتبار سے کتاب وسنت میں جابجا عبادات و اعمال کے فضائل کا بیان ہے ، جنہیں حیطہ اعمال میں لا کر انسان ایمان میں رسوخ پیدا کر سکتاہے ۔فضائل اعمال کا بیان کتاب وسنت میں منتشر ہے ،جن سے صحیح طور مستفید ہونا مشکل ہے ۔فضائل اعمال سے باآسانی مستفید ہونے اور ان سے بہتر طور بہرہ مند ہونے کی لیے زیر نظر کتاب ترتیب دی گئی ہے۔یہ کتاب فضائل اعمال پر مشتمل بہترین مجوعہ ہے ،جس میں تقریبا قرآن و حدیث میں موجود تقریبا بیشتر فضائل اعمال کا احصا کیا گیا ہے۔(ف۔ر)
دعوت دین ایک اہم دین فریضہ ہے ،جو اہل اسلام کی اصلاح ، استحکام دین اور دوام شریعت کا مؤثر ذریعہ ہے۔لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اسے شریعت کا جتنا علم ہو ،شرعی احکام سے جتنی واقفیت ہو اوردین کے جس قدر احکام سے آگاہی ہو وہ دوسر وں تک پہنچائے۔علماو فضلا اور واعظین و مبلغین پر مزید ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فریضہ دعوت کو دینی وشرعی ذمہ داری سمجھیں اور دعوت دین کے کام کو مزید عمدہ طریقے سے سرانجام دیں۔دین کا پیغام حق ہر فرد تک پنہچانے کے لیے ضروری ہے کہ دعوت کے کام کو متحرک کیا جائے،دعوتی تحریک اور تبلیغی جذبہ پیدا کرنے کےلیے ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب کی یہ ایک اچھی کاوش ہے ،جو دعوت دین کا ذوق ،شوق اور دعوتی بیداری پیدا کرنے میں ممد و معاون ہے۔(ف۔ر)
دعوت دین اور احکام شرعیہ کی تعلیم دینا شیوہ پیغمبری ہے ۔تمام انبیاء و رسل کی بنیادی ذمہ داری تبلیغ دین اور دعوت وابلاغ ہی رہی ہے،امت مسلمہ کو دیگر امم سے فوقیت بھی اسی فریضہ دعوت کی وجہ سے ہے-دین کی اصلاح اور بقا بھی اسی میں ہے کہ دعوت واصلاح اور تبلیغ دین کے شعبہ کو فعال رکھا جائے،دعوت و تبلیغ کا شعبہ جتنا مؤثر ہوگا عامۃ المسلمین کی دین سے وابستگی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔پھر کتاب وسنت میں دعوت و تبلیغ کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہےاور داعیوں اور واعظوں کے بہت اوصاف بیان ہوئے ہیں،موجودہ دور میں شعبہ تبلیغ کو فعال کرنے کی اشد ضرورت ہےاور علما و فضلا اور مبلغین کو اصلاح امت کے حوالہ سے اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے ۔دعوت دین کی فضیلت واہمیت اور ضرورت کے پیش نظر ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب نے اچھی کتا ب مرتب کی ہے ،جو مبلغین کی میں دعوت دین کا شوق پیداکرنے اور انہیں نیا ولولہ دےگی۔(ف۔ر)
امر بالمعروف و النھی عن المنکر دین اسلام کا اہم فریضہ ہے ، امت مسلمہ کو اسی فریضہ کی انجام دہی پر دیگر امتوں پر فوقیت حاصل ہے ۔کتاب و سنت میں اس ذمہ دار ی کو بطریق احسن ادا کرنے کی پر زور تاکید ہے،کیونکہ اس فریضہ ہی دین کا استحکام ، امت کی دین سے وابستگی ممکن ہے اور اس کی بدولت ہی شیطانی سازشوں ،باطل نظریات اور شرک و بدعا ت کی راہیں مسدود ہوتی ہیں۔اس فریضہ سے کوتاہی اور انحراف کی وجہ سے امت مختلف فتنوں اور سازشوں کا شکار ہے اور اس فریضہ سے غفلت ہی کی وجہ سےامت میں باطل نظریات اور من مانی تاویلات کا منہ زور سیلاب در آیا ہے۔پھر اس فریضہ سے گلو خلاصی کےلیے مختلف اعتراضات واشکلات وارد کیے جاتے ہیں ،ان اعتراضات و اشکلات کا زیر نظر کتاب میں خوب محاسبہ کیا گیاہے۔(ف۔ر)
دنیوی و اخروی فوز وفلاح کیلئے تعلیم و تعلم کا ذہبی سلسلہ ایک سنگ میل ہے۔حصول تعلیم سےلیکر مقاصد تعلیم تک ،متعلم کے آداب سے لیکر معلم کے اوصاف تک اور فضیلت علم سے لیکر طریقہ ہائے تعلیم تک کے تمام مراحل کے بارے ،سیرت طیبہ ہماری مکمل رہنمائی کرتی ہے۔تعلیمی میدان میں متعلمین کی نفسیات کا لحاظ رکھنا،متعلمین کا خیر مقدم کرنا،میسر تعلیمی وسائل کو بر وئے کار لانااور ہمہ وقت اسالیب تعلیم کو ملحوظ خاطر رکھنا،ایک کامیاب اور کامران معلم کے بنیادی اوصاف ہوتے ہیں۔بلا شبہ نبی کریم کی ذات ستو دہ ذکر کردہ تمام اوصاف سے متصف تھی۔زیر نظر کتاب اس حوالے سے نا قابل فر اموش ہے۔(م۔آ۔ہ)
’بزم ارجنداں‘ کے نام سے ہم مولانا اسحاق بھٹی کے تیار کردہ سوانحی خاکوں کو ’کتاب و سنت ڈاٹ کام‘ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ جس میں مولانا نے برصغیر کی 19 مشہور شخصیات کا انتخاب کر کے ان کے زندگی کے بارے میں اپنے تاثرات قلمبند کیے ہیں۔ مولانا ان حضرات کے بارے میں اپنے تاثرات و مشاہدات ضبط تحریر میں لائے ہیں جن سے ان کے تھوڑے یا زیادہ مراسم و تعلقات رہے ہیں۔ اس فہرست میں مقرر و واعظ بھی ہیں، میدان صحافت کے شہسوار بھی اور درس و تدریس سے تعلق رکھنے والے بھی۔ مولانا ہر ایک بارے میں اپنی یادداشتیں اور واقعات نہایت بے تکلفی سے صفحات قرطاس پر منتقل کرتے چلے گئے ہیں۔ بھٹی صاحب کا اسلوب نگارش ایسا دلچسپ ہے کہ قاری اسے پڑھنا شروع کر دے تو اس میں جذب ہو جاتا ہے۔ الفاظ دست بستہ ان کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں اور لاکھوں کا جم غفیر ان کی مٹھی میں ہوتا ہے۔ انھوں نے جس شخصیت پر بھی لکھا ہے اس کا پورا سراپا اپنے قارئین کے سامنے لے آئے ہیں۔(ع۔م)
نبی اکرمؐ کے وصال پر ملال کے بعد آپ ﷺ کے رفقائے عالی مقام کا دور آتا ہے جنہیں صحابہ کرام کے پر عظمت لقب سے پکارا جاتا ہے۔ تاریخ انتہائی فخر اور احترام کے ساتھ اس گروہ کا ذکر کرتی ہے اور فیصلہ دیتی ہے کہ انبیاء و رسلؑ کے بعد اس سطح ارض پر اور آسمان کی نیلی چھت کے نیچے آج تک کوئی ایسی جماعت پیدا نہیں ہوئی جو صحابہ کرامؓ کی ہم سری کا دعویٰ کر سکے اور نہ آئندہ قیامت تک پیدا ہو گی۔ صحابہ کرامؓ کی مقدس و مبارک جماعت بے شمار خصوصیات کی حامل تھی اور ان میں سے بعض حضرات میں بعض خصوصیات خاص طور پر بے حد نمایاں تھیں جن میں ایک خصوصیت ’’طرزِ حکمرانی‘‘ تھی۔ جن حضرات بلند مرتبت میں یہ خصوصیت پائی جاتی تھی انہیں خود نبی کریم ﷺ نے بھی بعض مقامات پر والی اور حاکم مقرر فرمایا اور آپ کے بعد خلفاء راشدین کے عہد بابرکت میں بھی ان کی اس خصوصیت و صلاحیت سے فائدہ اُٹھایا گیا۔ زیر نظر کتاب میں مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے صحابہ کرام کی اسی خصوصیت کو دادِ تحسین سے نوازا ہے۔ اسلامی ریاست و حکومت کے موضوع پر یہ نہایت اہم کتاب ہے کہ جس میں ان صحابہ کرام کو جمع کر دیا گیا ہے جنہو...