علم انسانیت کی معراج ہے ،جس کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل کرتا ،دین کی اساسیات سے واقف ہوتا اور مقصد حیات سے آگاہی حاصل کرتاہے ۔علم عظمت و رفعت کی علامت ہے اور علم ہی کی بدولت اللہ مالک الملک نے انسان کو دیگر مخلوقات سے فوقیت دی ۔کتاب وسنت میں دینی علم حاصل کرنے کی کافی ترغیب اور علما کے مراتب عام امتیوں سے اعلیٖ و افع بیان ہوئے ہیں ۔وحی کے علم کی حفاظت و ذمہ داری اور تبلیغ و اشاعت کا فریضہ علمائے امت پر عائد ہے ، اس مناسبت سے علماء کا فرض ہے کہ دینی علوم میں دلچسپی لیں اور کتاب وسنت کے احکام و فرائض ،فقہی مسائل اور ضروریات دین کے متعلقہ امور سے کما حقہ بہرہ مند ہوکر تبلیغ دین کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوں۔دینی علم سیکھنا اور سکھانا بہت معزز پیشہ ہے اور دینی تعلیم سے وابستہ افراد انتہائی قابل احترام ہیں ۔زیر نظر کتاب میں علم کی فضیلت و اہمیت ،علماء کے فضائل ومناقب ، حصول علم کے لیے مصروف طلباء کی عظمت اورتعلیم سیکھنے اور سکھانے کے آداب کا بیان ہے۔یہ کتاب اپنے موضوع بہترین تصنیف ہے ، جو قارئین کی علمی ذوق کو ابھارے گی اوران میں حصول علم کا نیا ولولہ پیدا کرے۔(ف۔ر)
شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری(1868۔1948ء) کی ذات محتاجِ تعارف نہیں۔آپ امرتسر میں پیدا ہوئے ۔ مولانا غلام رسول قاسمی ، مولانا احمد اللہ امرتسری ، مولانا احمد حسن کانپوری ، حافظ عبدالمنان وزیر آبادی اور میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحہم اللہ سے علوم دینیہ حاصل کیے۔ مسلک کے لحاظ سے اہل حدیث تھے اور اپنے مسلک کی ترویج کے لیے تمام زندگی کوشاں رہے۔ اخبار اہل حدیث جاری کیا۔ اور بہت سی کتب لکھیں ۔ فنِّ مناظرہ میں مشاق تھے۔ سینکڑوں کامیاب مناظرے کئے ۔ آب بیک وقت مفسر قرآن ، محدث ، مورخ ، محقق ،مجتہدو فقیہ ،نقاد، مبصر ،خطیب ومقرر ،دانشور ،ادیب وصحافی ، مصنف ، معلم ،متکلم ،مناظر ومفتی کی جملہ صفات متصف تھے۔قادیانیت کی تردیدمیں نمایا ں خدمات کی وجہ سے آپ کو فاتح قادیان کے لقب سے نوازا گیا ۔ برصغیر کے نامور اہل قلم و اہل علم نے آپ کے علم و فضل، مصائب و بلاغت، عدالت و ثقاہت، ذکاوت ومتانت، زہد و ورع، تقوی و طہارت، ریاضت وعبادت، نظم و ضبط اور حاضر جوابی کا اعتراف کیا ہے۔علامہ سید سلیمان ندوی نے آپ کی وفات پر اپنے رسالہ معارف اعظم گڑھ میں لک...
کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت ِشریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اورعمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور ہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘ رہی ہے موجودہ دور میں بھی عوام وخواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند دہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرے فروغ حاصل ہوا ہے ۔ امت کا درد رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں ۔اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں ۔لیکن تقلیدی افکار ونظریات پر تعب وعناد کی چڑھتی ہوئی دبیز چادر کے سامنے جتنی بھی ہوں وہ کم ہی ہیں۔زیر کتاب’’تقلید کیاہے ؟ تقلید کے موضو ع پر مولانا چراغ دین (اہل حدیث) اور مولانا قاضی شمس الدین (دیوبندی ) مابین تحری...
واقعہ افک سیرت نبوی کا ایک اہم واقعہ ہے۔ یہ منافقین کی طرف سے خانوادہ نبوی کو نشانہ بنانے کی سب سے بڑی کوشش تھی جس میں سیدہ عائشہ پر بدکاری کی تہمت لگائی گئی۔اس الزام کی بنا پر سیدہ اور ان کے گھر والے خصوصاً ان کے والد حضرت ابو بکر ؓاور سب سے بڑھ کر ان کے شوہر رسول خدا نبی کریم ﷺ سخت ذہنی اذیت سے دوچارہوگئے ۔ اس دوران میں تمام مسلمان بھی گومگو اور باہمی اختلاف و انتشار کی کیفیت میں مبتلا رہے۔ایک مہینے تک بہتان تراشی اور ایذا رسانی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔اس کے بعد کہیں جاکر سورہ نور کی ابتدائی آیات میں حضرت عائشہ کی براء ت اللہ تعالیٰ نے خود نازل کی اور یہ طوفان تھما۔اس کے بعد تہمت لگانے والے مسلمانوں کو اسی اسی کوڑے مارے گئے ،جو تہمت لگانے کی شرعی سزا ہے۔یہ ایک صحیح اور ثابت شدہ واقعہ ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید اور متعدد احادیث صحیحہ کے اندر موجود ہے۔مگر بعض عقل پرستوں کو یہ واقعہ سمجھ نہیں آتا ،وہ اس کے راویوں پر مختلف قسم کے اعتراضات کر کے ان احادیث کو سرے سے ہی اڑا دیتے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب"واقعہ افک"جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین شیخ الحد...
دار العلوم دیو بند اور اس کے فیض یافتگان کی علمی ودینی خدمات برصغیر پاک وہند کی تاریخ کا ایک اہم باب ہےاور ان دوائر میں اپنے مخصوص فقہی نقطہ نظر کے مطابق انہوں نے جو کام کئے ہیں،اختلاف کے باوجود ان سے مجال انکار نہیں ہے۔لیکن تعلیمی ،تدریسی،تبلیغی اور تصنیفی خدمات کا دائرہ قومی وسیاسی خدمات سے مختلف ہے۔ضروری نہیں کہ تعلیم وتدریس اور تبلیغ سے شغف اور وابستگی رکھنے والا سیاست کا مرد میدان بھی ہو۔افسوسناک بات یہ ہے کہ وابستگان دیو بند نے اپنے اکابر کی سوانح وخدمات بیان کرنے میں اسی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جن تک وہ اپنے اکابر کو میدان سیاست کا رستم وسہراب ثابت نہ کر دیں ،ان کی علمی عظمت اور تاریخی اہمیت ثابت نہیں ہو سکتی ہے۔لہذا انہوں نے تاریخ نگاری کی بجائے تاریخ سازی کا راستہ اختیار کیا اور متعدد ایسے فضائل اپنے نام کرنے کی کوشش کی جن کا ان کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " تحریک جہاد ،جماعت اہل حدیث اور علمائے احناف " جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین، عظیم مفسر قرآن اور انٹر نیشنل مکتبہ دار السلام کے شعبہ ت...
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ(661۔728ھ) کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے جس طر ح اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ او رباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعد رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت ،کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت کی تردید وتوضیح میں بسرکی ۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیا۔آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔ آپ کا فتاوی ٰ 37 ضخیم جلد وں میں مشتمل ہے۔امام ابن تیمیہ کی حیات وخدمات کےحوالے سے عربی زبان میں کئی کتب اور یونیورسٹیوں میں ایم فل ، پی ایچ ڈی کے مقالہ...
برصغیر پاک وہندمیں علمائےاہل حدیث نےاشاعت اسلام ، کتاب وسنت کی ترقی وترویج، ادیان باطلہ اور باطل افکار ونظریات کی تردید اور مسلک حق کی تائید اور شرک وبدعات ومحدثات کےاستیصال اور قرآن مجید کی تفسیر اور علوم االقرآن پر جو گراں قدر نمایاں خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ اہل حدیث کاایک زریں باب ہے ۔مختلف قلمکاران اور مؤرخین نے علمائے اہل حدیث کےالگ الگ تذکرے تحریر کیے ہیں اور بعض نے کسی خاص علاقہ کے علماء کا تذکرہ وسوانح حیات لکھے ہیں۔ جیسے تذکرہ علماء مبارکپور ، تذکرہ علماء خانپور وغیرہ ۔ علما ئے عظام کے حالات وتراجم کو جمع کرنے میں مؤرخ اہل حدیث جناب مولانامحمد اسحاق بھٹی کی خدمات سب سے زیادہ نمایاں ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’علمائے اہل حدیث بستی وگونڈہ‘‘بدر الزماں نیپالی کی تصنیف ہے ۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں بستی وگونڈہ کی جماعتی خدمات کو تین حصوں (دعوت تلیغ،مدارس و تدریس،تصنیف وتالیف وترجمہ وصحافت۔) میں تقسیم کر کے حروف تہجی...