قیامِ پاکستان و تحریک پاکستان میں اہل حدیث قائدین اور علمائے اہل حدیث کی جدوجہد اور خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں ۔تحریک پاکستان میں علمائے اہل حدیث نے جو مثالی کردار ادا کیا وہ تاریخ کا سنہری باب ہے۔مولانا شورش کاشمیری نے اسی قافلہ آزادی کے علمبرداروں کے بارے میں لکھا تھا کہ چھ لاکھ علمائے اہل حدیث کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا تھا۔تحریک پاکستان میں علمائے اہل حدیث کا کردار ایک طویل داستان ہے۔مسلک اہل حدیث کے مختلف رسائل و جرائد میں ’’ تحریک پاکستان میں علمائے اہل حدیث کا کردار‘‘ کے عنوان سے مختلف قلم کار گاہے گاہے لکھتے رہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ تحریک پاکستان اور علماءِ اہل حدیث‘‘ مولانا محمد حنیف یزدانی کی تصنیف ہے انہوں نے اس کتاب میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ انگریز کی آمد کے بعد علمائے اہل حدیث نے مذہب و ملت کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں ۔ مذہب و سیاسب کی وہ کون سی تحریک ہے جس میں علمائے اہل حدیث صف اوّل میں نظر نہیں آتے تحریک آزادی ہو یا تحریک پاکستان علمائے اہل حدیث ہر اولین دستہ میں شامل رہے ہیں۔(م۔ا)
اصول ِتفسیر ایسے اصول و قواعد کا نام ہے جو مفسرین قرآن کے لیے نشان ِمنزل کی تعیین کرتے ہیں۔ تاکہ کلام اللہ کی تفسیر کرنے والا ان کی راہ نمائی اور روشنی میں ہر طرح کے ممکنہ خطرات سے محفوظ رہے اور اس کے منشاء و مفہوم کا صحیح ادراک کر سکے ۔ زیر نظر کتاب ’’ تفسیر قرآن کے اصول و مسائل‘‘ محترم جناب الطاف احمد اعظمی کی تحریر کردہ تفسیر ’’تفسیر میزان القرآن ‘‘کا مقدمہ ہے جسے تفسیر قرآن کے اصول و مسائل کے نام سے الگ کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کو پانچ ابواب میں تفسیم کیا ہے۔ باب اول میں وحی کی حقیقت ، قرآن کی وجہ تسمیہ اور اس کے صفاتی اسماء سورتوں کی غیر نزولی ترتیب اور نظم قرآن جیسے اہم موضوعات زیر بحث آئے ہیں ۔ دوسرے باب میں قرآن کے بنیادی علوم، اس کی غایت نزول اس کی زبان ،اس کے اسالیب اس کی مصطلحات ، ظواہر قرآن اور ناسخ و منسوخ جیسے مشکل قرآنی مباحث پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں ان علمی کوششوں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے جو ماضی میں قرآن کی تفسیر و تشریح کے سلسلے میں انجام دی گئی ہیں ۔ چوتھے باب میں اس طریقۂ تفسیر کو بیان کیا گیا ہے جو تمام علماء کے نزدیک تفسیر کا سب سے عمدہ طریقہ ہے۔ جبکہ باب پنجم کا تعلق تفسیر کے ثانوی ماخذوں سے ہے۔(م۔ا)
قرآن و حدیث میں صبح و شام کے اذکار کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔صبح کے وقت کے اذکار پڑھنا بہت بڑی کامیابی کی دلیل ہے جو مسلمان اپنی صبح کا آغاز صبح کے اذکار سے کرتا ہے۔ اس کے لیے شام تک خیر و برکت اور عافیت کے سب دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ صبح کے اذکار کی برکت سے اپنے بندے کو سارا دن بڑے بڑے خطرناک نقصانات سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’ صبح و شام کے اذکار زندگی کی بہار‘‘فضیلۃ الشیخ عبد الرحمٰن علی الاثری حفظہ اللہ کا مرتب شدہ ہے اس میں صبح و شام کے مستند اذکار اور ان کے فضائل و فوائد کو بڑے خوبصورت انداز میں مع اردو ترجمہ بحوالہ جمع کیا گیا ہے۔(م۔ا)
شراب اور نشہ آور اشیاء معاشرتی آفت ہیں جو صحت کو خراب، خاندان کو برباد کر ڈالتی ہے۔شراب نے جتنی تیزی سے اور جتنی گہرائی تک اپنی جڑیں پھیلائی ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ تمام عالمی مذاہب نے اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے۔دین ِ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کے لیے شراب کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کے استعمال کرنے والے پر حد مقرر کی ہے یہ سب اس مقصد کے تحت کیا گیا کہ مسکرات یعنی نشہ آور چیزوں سے پیدا شدہ خرابیوں کو روکا جائے ان کے مفاسد کی بیخ کنی اور ان کے مضمرات کا خاتمہ کیا جائے ۔کتبِ احادیث و فقہ میں حرمت شرات اور اس کے استعمال کرنے پر حدود و تعزیرات کی تفصیلات موجود ہیں ۔ اور بعض اہل علم نے حرمت شراب پر مستقل کتب تصنیف کی ہیں ۔شراب کے نجس و طاہر ہونے میں اہل علم کے اقوال مختلف ہیں ۔اور اسی طرح شراب سے علاج کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ زیر نظر کتاب ’’شراب کی حرمت و مذمت‘‘مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر ﷾ کے متحدہ عرب امارات کے ام القیوین ریڈیو سٹیشن سے اردو پروگرام میں روزانہ نشر ہونے والی تقاریر کا مجموعہ ہے۔جسے افادۂ عام کے لیے جناب مولانا غلام مصطفیٰ فاروق نے کتابی صورت میں مرتب کیا ہے۔اس کتاب میں مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر صاحب نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ شراب کا پینا حرام ہے اور اس کا چھونا باعث نجاست ہے ۔کیونکہ وہ بداتہ نجس و ناپاک ہے ۔ (م۔ا)
قرآن و حدیث میں صبح و شام کے اذکار کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔صبح کے وقت کے اذکار پڑھنا بہت بڑی کامیابی کی دلیل ہے جو مسلمان اپنی صبح کا آغاز صبح کے اذکار سے کرتا ہے۔ اس کے لیے شام تک خیر و برکت اور عافیت کے سب دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ صبح کے اذکار کی برکت سے اپنے بندے کو سارا دن بڑے بڑے خطرناک نقصانات سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’ صحیح اور مستند صبح و شام کے اذکار زندگی کی بہار‘‘فضیلۃ الشیخ عبد الرحمٰن علی الاثری حفظہ اللہ کا مرتب شدہ ہے اس میں صبح و شام کے مستند اذکار اور ان کے فضائل و فوائد کو بڑے خوبصورت انداز میں مع اردو ترجمہ بحوالہ جمع کیا گیا ہے۔(م۔ا)
اصولِ حدیث پر حافظ ابن حجر عسقلانی کی سب سے پہلی اور اہم تصنیف نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر ہے جو علمی حلقوں میں مختصر نام نخبة الفکر کے نام سے جانی جاتی ہے اور اپنی افادیت کے پیش نظر اکثر مدارس دینیہ میں شاملِ نصاب ہے۔ اس مختصر رسالہ میں ابن حجر نے علومِ حدیث کے تمام اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے ۔حدیث اور اصول میں نخبۃ الفکر کو وہی مقام حاصل ہے جو علمِ لغت میں خلیل بن احمد کی کتاب العین کو ۔مختصر ہونے کے باوجود یہ اصول حدیث میں اہم ترین مصدر ہے کیونکہ بعد میں لکھی جانے والی کتب اس سے بے نیاز نہیں ۔حافظ ابن حجر نے ہی اس کتاب کی نزهة النظر فی توضیح نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر کے نام سے شرح لکھی جسے متن کی طرح قبول عام حاصل ہوا۔ اور پھر ان کے بعد کئی اہل علم نے عربی اردو زبان میں نخبۃ الفکر کی شروح لکھی ۔ زیر نظر کتاب ’’عمیق النظر اردو ترجمہ شرح نخبۃ الفکر‘‘امام ابن حجر رحمہ اللہ کی نخبۃ الفکر کی تحریر کردہ شرح بعنوان نزهة النظر فی توضیح نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر کا اردو ترجمہ ہے۔ حافظ عبد القہار محسن صاحب نے یہ سلیس ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اور حتی المقدور آسان فہم انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ کتاب کے آخر میں وفاق المدارس السلفیہ کے پانچ سالوں کے سوالات کے جوابات کی طرف اشارہ کر کے کتاب کو طلبہ و طالبات کے لیے مفید کار بنا دیا ہے۔(م۔ا)
سعودی عرب توحید کا علمبردار ملک اور خالص اسلام کا آہنی قلعہ ہے۔توحید اور منہج کتاب و سنت اس ملک کا طرۂ امتیاز ہے۔یہ مملکت اپنے آغازِ قیام سے لیکر اب تک توحید اور کتاب و سنت کے منہج پر گامزن ہے۔لہذا بت پرستانہ عقائد، غیراللہ کی عبادت اور انکے نام پر قربانی، نذر و نیاز جیسی شرک جلی پر مبنی عقائد، اوہام و خرافات، بدعات و ضلالات کو کہیں جائے پناہ نہیں،دنیا کی کوئی طاقت انہیں انکے مشن اور اصولوں سے نہیں ہٹا سکتی،شرک و بدعت کے لیے یہ حکومت زہر ہلاہل ہے۔سلف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انھوں نے پورے ملک کو خیر و تقوی اور امن و امان کا گہوارہ بنا دیا ہے۔ زیر نظر کتاب شیخ عبد الرحمن بن عبد اللہ السند کی تصنیف جهود المملكة العربية السعودية في صيانة جناب التوحيد کا اردو ترجمہ ہے۔اس کتاب میں انہوں نے تحفظ توحید اور شرک سے آگاہی سے متعلق حکومت سعوی عرب کی گرانقدر خدمات کو پیش کیا ہے۔(م۔ا)
قرآن مجید کے معجزاتی پہلوؤں میں ایک پہلو یہ ہے کہ ہر دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق مختلف اسالیب اور پیرایوں میں اس کی تفاسیر،ترجمہ ،معانی ،تفہیم، و تسہیل کا اور تدریس و تعلیم کے لیے علوم عالیہ وغیرہ کی مدد سے اس پر نصاب سازی کا کام ہوتا رہا ہے۔ اور یہ مبارک سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ خوش بخت اور عالی قدر ہیں وہ نفوس جنہیں اس خدمتِ عالیہ میں حظ اٹھانے کا موقع ملا۔ عصر حاضر میں قرآن مقدس کو عام فہم انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے خانوں میں ترجمے ،رنگوں اور علامات کے ذریعے ترجمہ پیش کرنے نیز اس کے فہم میں مزید دلچسپی پیدا کرنے کے لیے عربی زبان اور اس کے قواعد پر مشتمل نصاب سازی کے اسالیب اپنائے جا رہے ہیں ۔اس سلسلے میں کئی اہل علم نے تعلیم و تدریس اور تصنیف کے ذریعے کوششیں اور کاوشیں کیں۔فہم قرآن کے سلسلے میں الہدیٰ انٹرنیشنل، النور انٹرنیشنل ڈاکٹر اسرار، قرآن انسٹیٹیوٹ،اسلامک انسٹیٹیوٹ،دارالفلاح ،لاہور وغیرہ اور بالخصوص مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ قرانا عجبا سوالاً جواباً پارہ 01 ‘‘ خواتین کی تعلیم و تربیت کے معروف ادارے النور انٹرنیشنل کی بانی و سرپرست محترمہ ڈاکٹر نگہت ہاشمی صاحبہ کی مرتب شدہ ہے ۔انہوں نے اسے سوال و جواب کی صورت مرتب کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ہر آیت کے اہم پہلوؤں کو سوال کی صورت میں اٹھایا ہے اور نکات کی صورت میں ان کا جواب قرآن حکیم ہی سے لینے کی کوشش کی ہے ۔کیونکہ سوال و جواب کے انداز میں سیکھنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے ۔ انسان کو سوالوں کے جواب مل جائیں تو اطمینان ہو جاتا ہے اور دل جمتا ہے ۔قرآن کو اس انداز میں پڑھ کر ہر وہ شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو قرآن کے راستے کا مسافر بننا چاہتا ہے ۔(م۔ا)
رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت لیلۃ القدر وغیرہ )کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔روزہ کے احکام و مسائل سے آ گاہی ہر روزہ دار کے لیے ضروری ہے ۔لیکن افسوس روزہ رکھنے والے بیشتر لوگ ان احکام و مسائل سے لاعلم ہوتے ہیں،بلکہ بہت سے افراد تو ایسے بھی ہیں جو بدعات و خرافات کی آمیزش سے یہ عظیم عمل برباد کر لینے تک پہنچ جاتے ہیں ۔ کتبِ احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے ہیں اور کئی اہل علم نے رمضان المبارک کے احکام و مسائل و فضائل کے حوالے سے کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ تحفہ رمضان ‘‘فضیلۃ الشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ کی کاوش ہے ۔یہ کتاب رمضان المبارک کے مسائل سے متعلق ایک انمول تحفہ ہے جس میں روزہ سے متعلق لوگوں کے نت نئے مسائل کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ شیخ مقبول سلفی حفظہ اللہ کی دعوتی و تبلیغی ،تحقیقی و تصنیفی جہود کو قبول فرمائے اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین (م۔ا)
چند سال قبل انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسلام آباد کے زیر اہتمام ایک اہم پیشرفت تنظیم وفاق ہائے مدارس کے ذمہ داران کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں دو موضوعات پر گفتگو ہوئی: تدریب المعلمين اور تخصصات دینیہ ۔ جس میں تمام وفاق ؍تنظیم کے ذمہ داران (محمد حنیف جالندھری (وفاق المدارس العربیہ ) ، مولانا یاسین ظفر (وفاق المدارس السلفیہ ) ، علامہ وفاق المدارس الشیعہ ) اور شہر نیاز حسین نقوی ) اور شہید مولانا ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی ( تنظیم المدارس اہل سنت ) اور دیگر اہل علم جمع ہوئے ۔ اس پروگرام میں پیش گئے مقالات کو زیر نظر کتاب ’’تدریب المعلمین ‘‘میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ بعنوان عمومی رہنمائی چار مضامین پر مشتمل ہے جس میں قرآن کے انداز تدریس کی جانب توجہ دی گئی ہے۔دوسرے حصے میں مخصوص رہنمائی بلحاظ مضامین کے تحت حدیث، فقہ، اصول فقہ اور علم کلام کی تدریس کے حوالے سے اساتذہ کرام کے سامنے تفصیلی اشارات پیش کیے گئے ہیں ۔جبکہ تیسرے حصے کا عنوان مدرسے کا ماحول ہے۔ جس میں مولانا عبدالقدوس محمدی ، مولانا رفیق شنواری اور سید ندیم فرحت نے اس پہلو سے گفتگو کی ہے کہ تعلیم کے اصل کام کے ساتھ ساتھ مدرسہ میں معاون تعلیمی سرگرمیاں کیا کچھ ہو سکتی ہیں کہ جس سے طالب علموں کی ذہنی، جسمانی، روحانی تحریری اور تقریری صلاحیتوں کو جا ملے۔(م۔ا)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے، جو پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت اخلاق ہے، ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے ۔آپﷺ نے اپنے ہر قول و فعل سے ثابت کیا کہ آپﷺ دنیا میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے تشریف لائے، ارشاد نبوی ہے: ”بعثت لاتتم مکارم الاخلاق“ یعنی ”میں (رسول اللہ ﷺ) اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیا ہوں“۔ پس جس نے جس قدر آپﷺ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا اسی قدر آپﷺ کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا، صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے، ”ان خیارکم احسن منکم اخلاقا“ یعنی ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ حضورﷺ کی ساری زندگی اخلاقِ حسنہ سے عبارت تھی، قرآن کریم نے خود گواہی دی ”انک لعلی خلق عظیم“ یعنی ”بلاشبہ آپﷺ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں“۔ آپ ﷺ لوگوں کو بھی ہمیشہ اچھے اخلاق کی تلقین کرتے آپ کے اس اندازِ تربیت کے بارے میں حضرت انس کہتے ہیں۔ رایته یامر بمکارم الاخلاق(صحیح مسلم :6362) میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ لوگوں کو عمدہ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’سلسلہ احادیث صحیحہ‘‘امام البانی رحمہ اللہ کی معروف کتاب سلسلہ احادیث صحیحہ میں سے کتاب الاخلاق و البر و الصلۃ کا لفظی و بامحاروہ اردو ترجمہ ہے ۔لفظی ترجمہ النور انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نگہت ہاشمی صاحبہ اور بامحاورہ ترجمہ فضیلۃ الشیخ ابو میمون محمد محفوظ اعوان حفظہ اللہ نے کیا ہے افادۂ عام کے لیے اسے کتاب و سنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔ (م۔ا)
تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے ۔ اس کے لیے امانت و دیانت اور صداقت کا ہونا از بس ضروری ہے۔مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تعصب ،حسد بغض، سے کوسوں دور ہو ۔تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہو ۔ذہین و فطین ہو اپنے حافظے پر کامل اعتماد رکھتا ہو۔حالات و واقعات کو حوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو ۔اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتا ہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگاری کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور یہ اس کے امتیازات میں سے ہے ۔بےشمار مسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کے علمی عملی،تصنیفی،تبلیغی اور سائنسی کارناموں کو بڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ یوں تو صدیوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے لیکن ماضی قریب اور موجودہ دور میں تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے میدان میں جماعت اہل حدیث میں اردو مصنفین اور مقالہ نگاروں میں محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی،مولانا حافظ صلاح الدین یوسف، مولانا محمد رمصان یوسف سلفی رحمہم اللہ وغیرہ کی خدمات قابلِ قدر ہیں اللہ تعالی ان بزرگوں کو صحت و عافیت سے نوازے اور ان کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے۔ زیر نظر کتاب ’’ سیرت محدثین‘‘محقق العصر علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کی کاوش ہے۔انہوں نے اس کتاب میں ( ائمہ صحاح ستہ ،امام یحییٰ بن معین،امام ابن خزیمہ،امام وکیع بن جراح، امام بن جراح،امام ابن الجارود،امام طلمنکی،امام طبری،امام فلاس، حافظ ساجی، امام دُحیم،حافظ ابن صاعد،امام ابن صاعد،امام ابن حیان،حافظ موسیٰ بن ہارون حمال،امام محمد بن اسحاق سراج،امام ابن جوصا رحمہم اللہ) 22 ائمہ محدثین کا تذکرہ اپنے محققانہ و عالمانہ انداز میں پیش کیا ہے۔اگرچہ یہ کتاب ابھی غير مطبوع ہے۔افادۂ عام کے لیے علامہ امن پوری صاحب کی اس کاوش کو کتاب و سنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ علامہ امن پوری صاحب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے امت مسلمہ کے لیے نفع بخش بنائے اور ان کی تدریسی، دعوتی ،تحقیقی و تصنیفی مساعی کو قبول فرمائے۔(م۔ا)
اولیاء و صالحین ان کے آثار و نشانات اور ان سے متعلق اوقات و مقامات سے برکت حاصل کرنا ، مسائل عقیدہ کا ایک اہم مسئلہ ہے ،اس میں غلو و مبالغہ آرائی اور اس بارے میں راہِ حق سے انحراف کے نتیجہ میں زمانہ قدیم سے لے کر آج تک لوگوں کا ایک بہت بڑا طبقہ شرک و بدعات کی لپیٹ میں آ گیا ہے ۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض چیزوں اور مقامات کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی خیر و برکت سے نوازا ہے اور اِن کو دیگر مخلوق پر ترجیح دی ہے۔لیکن بعض غالی درجہ کے قبر پرست حصول برکت کے لیے قبر کی مٹی سے اپنے جسم کو خاک آلود کرتے ،بسا اوقات مجاوروں کے جسم اور ان کے کپڑوں تک مبارک گردانتے اور ان سے برکت طلبی کرتے ، یہ سارے امور شرعاً حرام بدعات و خرافات کی قبیل سے ہیں ۔اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر عرب و عجم کے کئی نامور علماء نے اس موضوع پر گراں قدر کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ محقق العصر علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کی محققانہ زیر نظر کتاب ’’تبرکات کی شرعی حیثیت‘‘بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔ یہ کتاب ادارہ محدث کو پی ڈی ایف فارمیٹ میں موصول ہوئی ہے ۔افادۂ عام کے لیے اسے کتاب و سنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے۔(م۔ا)
قادیانیت اسلام کے متوازی ایک ایسا مصنوعی مذہب ہے جس کا مقصد اسلام دشمن سامراجی طاقتوں کی سرپرستی میں اسلام کی بنیادوں کو متزلزل کرنا ہے۔قادیانیت کے یوم پیدائش سے لے کر آج تک اسلام اور قادیانیت میں جنگ جاری ہے یہ جنگ گلیوں ،بازاروں سے لے کر حکومت کے ایوانوں اور عدالت کے کمروں تک لڑی گئی اہل علم نے قادیانیوں کا ہر میدان میں تعاقب کیا تحریر و تقریر،سیاست و قانون اور عدالت میں غرض کہ ہر میدان میں انہیں شکستِ فاش دی ۔ بےشمار لوگ ایسے ہیں جو قادیانی مبلغین سے متاثر ہو کر مرتد ہو گئے تھے لیکن جب قادیانیت کا کفر ان پر واضح ہوا تو وہ قادیانیت پر لعنت بھیج کر دوبارہ قادیانیت کے کفر کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آچکے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں استقامت عطا فرمائے ۔ زیر نظر کتاب ’’ قادیانیوں کو دعوتِ فکر‘‘ معروف کالم نگار محترم جناب عطاء محمد جنجوعہ صاحب کی کاوش ہے انہوں نے اس کتاب میں سیدنا عیسی علیہ السلام کی ذات گرامی سے متعلق یہودیوں، عیسائیوں اور قادیانیوں کے عقائد و نظریات کو خاص طور زیر بحث لاتے ہوئے حیات سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے قرآن و حدیث اور اجماع امت کی روشنی میں عقلی و نقلی دلائل سے امت کا صحیح عقیدہ پیش کیا ہے ۔ قادیانیوں کے باطل عقائد کی تردید کر کے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔ اور مرزا قادیانی کی تحریروں سے بھی اس کے دعوؤں اور مزعومہ باطل عقائد کا ابطال کر کے قادیانیوں کو دعوت فکر دی ہے نیز قادیانیوں کے شبہات و مغالطات کا نہایت علمی انداز میں ازالہ کیا ہے۔(م۔ا)
نظریہ پاکستان سے مراد یہ تصور ہے کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمان، ہندوؤں، سکھوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے ہر لحاظ سے مختلف اور منفرد ہیں ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح اساس دین اسلام ہے اور دوسرے سب مذاہب سے بالکل مختلف ہے، مسلمانوں کا طریق عبادت کلچر اور روایات ہندوؤں کے طریق عبادت، کلچر اور روایات سے بالکل مختلف ہے۔ اسی نظریہ کو دو قومی نظریہ بھی کہتے ہیں جس کی بنیاد پر 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔پاکستان کی تاریخ پر لکھی ہوئی کتابوں میں عموماً منفی نقطۂ نظر پایا جاتا ہے ۔ حالانکہ مسلمانان ہندو پاکستان کی عظیم تاریخ ساز جدوجہد کو محض منفی ردعمل بتانا ان کے ساتھ ناانصافی ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’نظریہ پاکستان اور اس کے تقاضے‘‘ معروف کالم نگار محترم جناب عطاء محمد جنجوعہ صاحب کے ان مضامین کی کتابی صورت ہے جو وقتاً فوقتاً مختلف دینی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ان مضامین کا مرکزی موضوع اسلام اور پاکستان ہے۔انہوں نے ان مضامین میں نظریہ پاکستان سے شروع کر کے پاکستان کے سیاسی، قانونی،معاشی اور معاشرتی مسائل پر غور و خوض کر کے حکمرانوں،دینی قوتوں،اساتذہ اور سارے پڑھے لکھے لوگوں کو اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ جب ہم اسلام کو اپنی عملی زندگی ،انفرادی اور اجتماعی، دونوں میں نافذ و غالب نہیں کریں گے ،ہم دنیا میں بھی عزت و وقار کی زندگی سے محروم رہیں گے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی نعمتوں کے مستحق نہ ہو سکیں گے۔(م۔ا)
آج ملتِ اسلامیہ اپنی تاریخ کے انتہائی نازک ترین دَور سے گزر رہی ہے۔ طاغوتی طاقتیں اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت اسے صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے کے لئے صف آراء ہو رہی ہیں۔ آج قومِ رسولِ ہاشمی ﷺ کے فرزندوں میں نسلی اور لسانی تعصبات کو ہوا دے کر ان کی ملّی وحدت کے عظیم الشان قصر میں نقب لگانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ علاقائی عصبیتوں کو اچھال اچھال کر انہیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جا رہا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’حرم کی پاسبانی ‘‘معروف کالم نگار محترم جناب عطاء محمد جنجوعہ صاحب کے ان مضامین کی کتابی صورت ہے جو وقتاً فوقتاً وطن عزیز کے مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔انہوں نے اس کتاب میں مستند حوالوں اور اعداد و شمار کے ساتھ چشم کشا اور قابل تفکر حقائق بیان کیے ہیں اور عمدگی کے ساتھ قارئین کو سمجھایا ہے کہ مسلمانوں پر ایک صدی سے بیتنے والی درد انگیز بپتا کا واحد علاج اب سوائے احیائے خلافت اسلامیہ کے اور نہیں ہے ۔کیونکہ ایک خلیفہ اور پرچم کے تحت ہی ملت اسلامیہ اب اپنا آپ منوا سکتی ہے اور مغرب کے مدمقابل کھڑی ہو سکتی ہے۔(م۔ا)
آنحضرتﷺ نے جن علمی وتعلیمی روایات کی بنیاد رکھی‘ صحابہ کرامؓ نے آپﷺ کے اسوہ کے مطابق اسے آگے بڑھایا اور تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔ بعد کے مسلمان اساتذہ نے اس روایت کو قائم رکھا اور ایک ترقی یافتہ معاشرہ کی بنیاد رکھی۔ تعلیم کی مختلف تعریفوں کا جائزہ لیں تو دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیاں دوسرے ممالک میں ہیں ودیگر ایجادات کے حوالے سے ہم پیچھے ہیں۔ کیوں؟ ہمارے ہاں ذہین افراد پیدا نہیں ہوتےٰ؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام افراد کی تعلیمی وعملی صلاحیت نکھارنے میں ناکام رہا ہے؟ کیا ہمارے اُستاد کے سامنے رول ماڈل کے طور پر مثالی اُستاد کا نمونہ موجود ہے؟ وجہ صرف یہی ہے کہ ہم اخلاقیات‘ فرض شناسی‘ لگن اور اخلاص جیسے اسلامی اقدار سے دور ہیں۔انسان فانی ہے‘ موت برحق ہے اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا بھی اَٹل حقیقت ہے۔ ہمارے دنیا کے چلے جانے کے بعد صرف تین اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب ہمیں قیامت تک ملتا رہے گا ان میں سے ایک نفع بخش علم کسی کو دے کر چلے جانا۔تدریس سب سے اعلیٰ وارفع پیشہ ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی موضوع پر ہے جس میں اساتذہ کے لیے اعلیٰ اقدار اور رول ماڈل شخصیات کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں قرآن وحدیث کے عربی متن کو احتیاط سے دیکھا گیا ہے۔اس میں رول ماڈل اساتذہ کے حالات‘ واقعات کی صحت کے بارے میں انتہائی احتیاط کی گئی ہے۔ پرائمری وسکینڈری سورسز سے واقعات اکٹھے کیے گئے ہیں۔اس کتاب کو سامنے رکھ کر یا اس کا مطالعہ کر کے ایک استاد عمل کرے تو ایک رول ماڈل ضرور بن سکتا ہے۔اس میں پانچ ابواب ترتیب دیے گئے ہیں۔ پہلے میں علم‘ اساتذہ وغیرہ سے متعلق اہم مضامین کا تعارف دیا گیا ہے اور دوسرے میں متعلقہ لٹریچر کا جائزہ لیا گیا ہے اور تیسرے میں طریقہ تحقیق بتائے گئے ہیں‘ چوتھے میں تجزیہ وضاحت آراء اور چیک لسٹ سے متعلقہ تفصیل اور پانچویں میں خلاصہ‘نتائج۔ حاصلات اور سفارشات اور چیک لسٹ وغیرہ کا بیان ہے۔کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ پاکستانی اساتذہ کے لیے رول ماڈل‘‘ ڈاکٹر محمد اسلام صدیق‘ ثمینہ اسلام کی تالیف کردہ ہے۔آپ دونوں تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ ان کی درجنوں کتب اور بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )
انسانی معاشرہ شدید انتشار اور بحران کا شاہکار ہے ۔ اخلاقی قدریں پامال ہو رہی ہیں اور باہمی تعلقات خود غرضی اور مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں ۔حتیٰ کہ خاندان کا ادارہ بھی اس لپیٹ میں آ گیا ہے ۔افراد خاندان جن کے درمیان عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ قریبی تعلقات ہونے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے ہم درد و غمگسار ہونا چاہیے وہ نہ صرف یہ کہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے بے پروا ہیں بلکہ ان پر ظلم ڈھانے اور ان کے حقوق غصب کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے ہیں۔جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ حیوانی سماج کا منظر پیش کر رہا ہے یہی صورت عالمی سطح پر بھی ہے۔ زیر نظر دو حصوں پر مشتمل کتاب ’’سوشل ورک‘‘ پروفیسر سلمان بشیر ناگی آف گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کی کاوش ہے ۔ یہ انہوں نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے مجوزہ نصاب کے مطابق پنجاب ، سرگودھا ، سندھ ،کراچی ، پشاور اور بلوچستان جامعہ کے طلباء طالبات کے لیے مرتب کی ہے۔اس کتاب کے مطالعہ سے طلباء معاشرہ کے عمومی اور حقیقی مفہوم اور ثقافت کے تصور سے آگاہ ہو سکتے ہیں،سماجی تبدیلی کیسے وقوع پذیر ہوتی ہے،ہمارے معاشرے کے مسائل کون سے ہیں اور ہم ان کو حل کیسے کر سکتے ہیں ،خاندان کیا ہے ؟ اس کی اقسام کیا ہیں کون سی ہیں اور فرد کی زندگی میں سماجی اداروں کی کیا اہمیت ہے کو واضح کیا گیا ہے۔مصنف نے طلباء کی آسانی اور کتاب کو عام فہم بنانے کے لیے انگریزی کا کم سے کم استعمال کیا ہے۔(م۔ا)
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ہیں ،جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے لئے کتابتِ وحی جیسے عظیم الشان فرائض سر انجام دئیے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کا دور حکومت تاریخ اسلام کا درخشاں دور ہے۔جس میں اندرونی طور پر امن و امان کا دور دورہ بھی تھا اور ملک سے باہر دشمنوں پر مسلمانوں کی دھاک بھی بیٹھی ہوئی تھی۔لیکن افسوس کہ بعض نادان مسلمان بھائیوں نے ان پر اعتراضات اور الزامات کا کچھ اس انداز سے انبار لگا رکھا ہے کہ تاریخ اسلام کا یہ تابناک زمانہ سبائی پروپیگنڈے کے گرد و غبار میں روپوش ہو کر رہ گیا ہے۔ کئی اہل علم اور نامور صاحب قلم حضرات نے سیدنا معاویہ ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے متعلق مستند کتب لکھ کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب،اسلام کی خاطر ان کی عظیم قربانیوں کا ذکر کر کے ان کے خلاف کیے جانے والے اعتراضات کی حقیقت کو خوب واضح کیا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حالات،فضائل اور مرویات‘‘ محترم ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی حفظہ اللہ کی کاوش ہے۔یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ (م۔ا)
اسلام میں فتویٰ نویسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بذات خود اسلام۔ فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سے متعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کے جواب میں کوئی عالم دین اور احکامِ شریعت کے اندر بصیرت رکھنے والا شخص بیان کرے۔فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کا سلسلہ رسول ﷺ کے مبارک دور سے چلا آ رہا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’سوالات و جوابات کا ایک سلفی مجموعہ‘‘ علامہ محمد امان بن علی الجامی رحمہ اللہ کی کتاب ’’قرة عيون السلفية بالأجوبة الجامية ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے یہ کتاب دراصل علامہ امان بن علی الجامی سے حرم مدنی میں انکے علمی دروس میں ان سے کئے گئے سوالات و جوابات کی کتابی شکل ہے۔ یہ مجموعہ ایک بہترین مجموعہ ہے جس میں عصر حاضر کے درپیش مسائل اور عقدی و دینی سوالات کے کتاب و سنت پر مبنی منہجی جوابات دئیے گئے ہیں ۔ڈاکٹر اجمل منظور المدنی حفظہ اللہ نے اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ افادۂ عام کے لیے اسے کتاب و سنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے۔(م۔ا)
سلفیت کوئی نیا فرقہ اور خودساختہ نظام زندگی کا نام نہیں بلکہ قرون مفضلہ کے سلف صالحین کے منہج پر چلنے کا نام ہے۔اور سلفی سلف کی طرف نسبت ہے اور اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو سلف کے طریقے پر چلتے ہوئے قرآن و سنت کی پیروی کرتے ہیں، ان کی طرف دعوت دیتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’سلفیت حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہے جو اس میں سوار ہو گا وہی نجات پائے گا ‘‘ فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول کا مرتب شدہ ہے ۔انہوں نے اس کتابچہ میں سلفیت کے اصول،سلفیت کی امتیازی شان،سلفیت کے نزدیک اصلاح کے ضابطوں کو بیان کیا ہے۔(م۔ا)
قرآن مجید کے معجزاتی پہلوؤں میں ایک پہلو یہ ہے کہ ہر دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق مختلف اسالیب اور پیرایوں میں اس کی تفاسیر،ترجمہ ،معانی ،تفہیم، و تسہیل کا اور تدریس و تعلیم کے لیے علوم آلیہ وغیرہ کی مدد سے اس پر نصاب سازی کا کام ہوتا رہا ہے۔ اور یہ مبارک سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ خوش بخت اور عالی قدر ہیں وہ نفوس جنہیں اس خدمتِ عالیہ میں حظ اٹھانے کا موقع ملا۔ عصر حاضر میں قرآن مقدس کو عام فہم انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے خانوں میں ترجمے ، رنگوں اور علامات کے ذریعے ترجمہ پیش کرنے نیز اس کے فہم میں مزید دلچسپی پیدا کرنے کے لیے عربی زبان اور اس کے قواعد پر مشتمل نصاب سازی کے اسالیب اپنائے جا رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں کئی اہل علم نے تعلیم و تدریس اور تصنیف کے ذریعے کوششیں اور کاوشیں کیں۔ فہم قرآن کے سلسلے میں الہدیٰ انٹرنیشنل، قرآن انسٹی ٹیوٹ،اسلامک انسٹی ٹیوٹ،لاہور ،دارالفلاح ،لاہور وغیرہ اور بالخصوص مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’صیغ القرآن(قرآنی صیغے)‘‘ محترم جناب کوثر علی صاحب کی مرتب شدہ ہے۔جو کہ انہوں نے درس نظامی میں زیر تعلیم طلباء کے لیے مرتب کی ہے ۔انہوں نے اس میں قرآنی صیغوں کا ترجمہ اور گردان پیش کی ہے۔ ہر قرآنی صیغے کے ساتھ سورۃ اور آیت کا نمبر درج کیا ہے اور گردان کے آخر میں ہفت اقسام کے لحاظ سے ابواب کی وضاحت کرنے کے بعد ابواب الصرف اور المنجد کا صفحہ نمبر بھی درج کر دیا ہے یہ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔(م۔ا)
شخصیت انسان کی پہچان ہوتی ہے۔انسان جیسے اوصاف اپنے اندر پیدا کر لے وہی اس کی شخصیت ہے ۔اور مومن کا تشخص اس کے اوصاف ،اس کے اعلیٰ اخلاق ہوتے ہیں۔اور انہی اوصاف کی وجہ سے مومن کو شخصیت ملے گی اور جنت میں اس کا چہرہ پہچانا جائے گا۔اعلیٰ اخلاق کو اپنانا شریعت کا بنیادی مقصد ہے،اور اسلام نے اس کی بہت زیادہ ترغیب دی ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اچھے اخلاق کی تعلیم دینے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ زیر نظر کتابچہ ’’ نیت سے اخلاق بدلنا ہے ‘‘النور انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نگہت ہاشمی صاحبہ کی مرتب کردہ موسوعہ نظرۃ النعیم سیریز کا حصہ ہے جسے انہوں نے اپنے ادارے کے تحت خواتین کو کروائے جانے والے مختلف کورسز کے لئے سوال و جواب کی صورت میں مرتب کیا ہے۔یہ کتاب اپنے اخلاق کو سنوارنے کے حوالے سے ایک مفید کوشش ہے افادۂ عام کے لیے اسے کتاب و سنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے۔(م۔ا)
فرض نماز کی اقامت کے بعد فرض کے علاوہ سنتیں یا نوافل پڑھنا درست نہیں احادیث صحیحہ میں اقامت کے بعد سنتیں پڑھنے کی سخت ممانعت موجود ہے ، لیکن بعض الناس کا کہنا ہے کہ اس حکم سے فجر کی سنتیں خارج ہیں یعنی اقامت کے بعد بھی فجر کی سنتیں پڑھی جا سکتی ہیں، صحیح و صریح دلائل کے پیش نظر یہ موقف انتہائی کمزور ہے۔ زیر نظر کتابچہ بعنوان ’’نماز فجر کی اقامت کے بعد سنتیں‘‘ محقق العصر علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کی مسئلہ ہذا کے تمام پہلوؤں کے بارے محققانہ تحریر کی کتابی صورت ہے جس میں انہوں نے کتاب و سنت کے دلائل سے درست مسئلہ کو واضح کیا ہے۔(م۔ا)
نیکی صرف وہ عمل ہے جو رسول کریمﷺ سے حاصل ہو یعنی اس کا ذکر قرآن و حدیث میں ہو۔اور ہر وہ چیز برائی قرار پائے گی جو رسول اللہﷺ کی عطا کردہ نہ ہو یا پھر رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا ہو۔نیکی اور برائی کا معاملہ اس قدر متعین اور انتہائی دقیق ہے کہ ذرہ برابر نیکی اور ذرہ برابر برائی، کامیابی یا ناکامی پر اثر انداز ہو سکتی ہے قرآن مجید نے تو نیکیوں اور برائیوں کے تعلق سے دو ٹھکانے بیان کر کے نیکیوں اور برائیوں کے انجام کا تعین کر دیا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’نیکی اور برائی کتاب و سنت کی روشنی میں پہچان‘‘محترم ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی حفظہ اللہ کی تصنیف ہے یہ کتاب اپنے مباحث میں ایک دلچسپ اور جامع کتاب ہے جو مدلل اور دلنشین پیرایہ میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں وہ تمام مسائل اچھے انداز میں بیان کیے گئے ہیں جو سنت کے عین مطابق ہیں اور جن کا مطالعہ کر کے انسان نیکی اور برائی کی راہ متعین کر سکتا ہے۔نیز غلط اور درست راہوں کی نشاندہی بھی کر دی گئی اور اسوۂ رسولﷺ سے ہٹ کر ملت صد پارہ کے خطرناک نتائج بھی بتا دئیے گئے ہیں۔محترم حافظ حامد محمود خضری حفظہ اللہ کی ترتیب،علمی تخریج اور اضافہ جات سے کتاب کی افادیت میں دو چند ہو گئی ہے۔اللہ تعالیٰ مصنف ،مرتب و ناشر کی اس عظیم کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔آمین(م۔ا)