مولانا ابو الکلام آزاد کی ذات تعارف کی محتاج نہیں ۔ آپ ایک منفرد حیثیت کی حامل شخصیت تھے ۔ آپ علوم اسلامیہ کے بحرذ خار تھے ۔ وہ اپنے علمی تبحر اور اپنے علم و فضل کے ساتھ جامع الکمالات شخصیت کے حامل تھے ۔ وہ بیک وقت مفسر قرآن ، محدث ، مؤرخ ، محقق ، متکلم ، فلسفی ، فقیہ ، معلم ، ادیب ، شاعر ، نقاد ، دانشور ، سیاست دان اور مبصر بھی تھے ۔ غرض ان کے راہوار قلم کی جولانیوں سے کوئی میدان بھی محروم نہیں رہا ۔ ادب و تنقید کا میدان ہو ، یا تاریخ و سیر کا ، قرآن مجید کی تفسیر ہو یا حدیث نبوی ﷺ کی تشریح و توضیح ، سیاسی موضوعات ہو یا دقیق علمی مباحث ، ہر موضوع پر ہر وقت ان کا اشہب قلم یکساں جولانی دکھاتا تھا۔ اور ان سب تخلیقات کے پس منظر میں مولانا ابوالکلام آزاد کی رنگا رنگ شخصیت قوس و قزح کی طرح نمایاں رہتی ہے ۔ ان اعتدال اور توازن بدرجہ اتم موجود تھا ۔ خود آرئی سے نفرت ، انکسار، تواضع ، سادگی ، خاکساری حق گوئی ، عالی ظرفی ، ثابت قدمی جیسی صفات پائی جاتی تھیں ۔ وہ اپنی ذات میں مرقع حیات تھے ۔ شورش کے الفاظ میں وہ ہندستان کے ابن تیمیہ تھے ۔ زیرنظر کتاب میں بھی ان کی شخصی...
صحابہ کرام ؓ اجمعین کے دور میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے متعلق کچھ لکھنا تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے۔ذرا سا توازن بگڑنے سے انسان کسی گہری کھائی میں گر سکتا ہے۔یہ موضوع جتنا حساس ہے اس میں اتنی ہی بے احتیاطی برتی گئی ہے۔ایک طرف تو لوگ اس حد تک چلے گئے ہیں کہ سیدہ عائشہ ،سیدنا طلحہ،سیدنا زبیر،سیدنا معاویہ،سیدنا عمرو بن عاص اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں تو دوسری طرف اس حد تک جا پہنچے ہیں کہ سیدنا حسین کو باغی قرار دے دیا ہے۔ان کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ وہ یہ کہتے ہوئے بھی نہیں چوکتے کہ سیدنا حسین کا مقصد محض دنیاوی اقتدار کا حصول تھا۔حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنگ جمل ،جنگ صفین اور واقعہ کربلا ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں اور یہ اسی فتنے کا تسلسل ہے جو سیدنا عمر کی شہادت سے شروع ہوا اور سیدنا عثمان کے عہد خلافت میں پروان چڑھا۔زیر تبصرہ کتاب " سیرت حسین مع سانحہ کربلا "مسلم پبلیکیشنز کے مدیر محترم نعمان فاروقی کے والد گرامی ماہنامہ ضیائے حدیث کے بان...
علم دين اہل اسلام کی بنیادی ضرورتوں میں سے سب سے زیادہ ضروری ہے اس لیے کہ یہ دنیا میں سعادت مندی اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ہر دور میں علم ِدین کی مشتاق رہی ہے اور علماء وشیوخ کے حلقاتِ دروس سے مستفید ہونے کے لیے اہل ایمان نے اپنے گھر بار چھوڑے، دوسرے شہروں اور ممالک کی طرف لمبے لمبے سفر کیے اور علم کی پیاس بجھانے کی خاطر طرح طرح کی صعوبتیں اٹھائی ہیں ۔حصو ل علم کاشوق اور رغبت پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ علم ایسی دولت ہے جوصرف اسے ملتی ہے جس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے ۔اس عظیم وپاکیزہ علم کو پانے کے لیے بہت سے احباب جب تیار ہوجاتے ہیں تو طرح طرح کے سوالات ان کےذہنوں میں تذبدب پیدا کرنے لگتے ہیں کہ میں کہاں سے تعلیم حاصل کروں؟ کو ن سا ادارہ اور کس ادارے کا نصاب میرے لیے مفید ہوگا؟ اور تعلیم کےبعد میرا مستقبل کیا ہوگا ؟ توایسی صورت حال میں ان سوالات کےجوابات مہیا کرنا ا...
زیر تبصرہ کتاب کتب احادیث کا وہ با برکت سلسلہ ہے جو محترم مولانا عبد المجید سوہدروی نے بچوں اور نوجوانوں میں حدیث کا شوق پیدا کرنے کے لئے شروع کیا تھا۔جس وقت آپ نے یہ مبارک سلسلہ شروع فرمایا تھا اس وقت بچوں اور نوجوانوں کے لئے اردو میں حدیث کے موضوع پر بہت کم کتب دستیاب تھیں۔بہرحال آپ نے نونہالان چمن کی اصلاح وتربیت کے لئے جو کتب لکھیں اور ان کی جو تشریح فرمائی وہ اپنی سلاست اور افادیت کی بناء پر بہت پسند کی گئیں۔اس وقت کے تقریبا 500 علماء کرام نے ان کتب کی بابت اپنے اچھے ریمارکس دئیے۔بطور نمونہ چند معروف علماء کرام کے ریمارکس کتاب کے شروع میں بھی درج کر دئیے گئے ہیں۔جنہیں پڑھ کر اس کتاب کی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے۔یہ حدیث کی کل چار کتب ہیں ۔ہر کتاب میں متعدد احادیث جمع ہیں ۔پہلی کتاب میں 40 احادیث ہیں،دوسری میں 32،تیسری میں بھی 32 اور چوتھی میں 33 احادیث جمع ہیں۔اس طرح یہ نورانی سلسلہ کل 137 احادیث پر مشتمل ہے۔اس کتاب کی تخریج وتحقیق کا کام محترم مولانا محمد ادریس فاروقی صاحب نے کیا ہے۔یہ کتاب مدارس ،مساجد اور گھروں میں اسلامی تعلیم وتر...
اہل حدیث کوئی نئی جماعت نہیں، تمام اہل علم اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت ہے اس وقت سے یہ جماعت ہے، اس لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے۔ اصحاب اہل حدیث، اہل حدیث، اہل سنت یہ سب مترادف لفظ ہیں، اہل یا اصحاب کے معنی " والے" اب اس کے نسبت حدیث کی طرف کردیں تو معنی ہونگے، " حدیث والے" اور قرآن کو بھی اللہ نے حدیث کہا ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے- اب یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اسلام سے مراد" قرآن و حدیث" ہے اور قرآن و حدیث سے مراد اسلام ہے- اور مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہی جماعت حق ہے۔ اہل حدیث مروّجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں، نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے ،بلکہ اہل حدیث ایک جماعت اور تحریک کا نام ہے۔ اور وہ تحریک ہے زندگی کے ہر شعبے میں قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنا اور دوسروں کو ان دونوں پر عمل کرنے کی ترغیب دلانا، یا یوں کہ لیجئے کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب وسنت کی دعوت اور اہل حد...
مسلمانوں میں عام طور پر یہ خیال رائج ہو رہا ہے کہ دنیا اور دنیا کی دولت بہت بری چیز ہے۔اور اسلام حصول دولت اور سیم وزر جمع کرنے کے بہت خلاف ہے اور فقر وفاقہ ہی کی تعلیم دیتا ہے،چنانچہ اکثر ملا اور واعظ بھی اپنے وعظوں میں اسی قسم کی ذہنیت پیدا کرنے اور اسی کو تقویت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ مسلمان دن بدن کمزور اور نادار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔افلاس اس کے سروں پر مسلط ہو رہا ہے،قرض بڑھتا جا رہا ہے ،اور اغیار سونے چاندی میں کھیلتے نظر آتے ہیں۔مسلمانوں کا وہ طبقہ جو دیندار یا روحانیت کا علمبردار کہلاتا ہے وہ تو یہی کہتا ہے کہ مسلمان دنیوی ترقی نہیں کر سکتے نہ ہی کرنی چاہئے۔ زیر تبصرہ کتاب " دولت مند صحابہ " جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین محترم مولانا حکیم عبد المجید سوہدروی کی تصنیف ہے ۔جس میں انہوں نے بطور نمونہ دولت مند صحابہ کرام ،صحابیات کرام اور تابعین عظام کے ایمان افروز تذکرے جمع فرما کر مسلمانوں کو یہ بتایا اور سمجھایا ہے کہ وہ دولت کمانا،بچانا اور پھر اسے صحیح جگہ پر لگانا سیکھیں۔جن تک و...
کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺدینِ اسلامی کے بنیادی مآخذ ہیں۔ احادیث رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اہل علم نے خدمات انجام دیں۔ تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی ﷺ سے ہوا صحابہ وتابعین کے دور میں پروان چڑھا او ر ائمہ محدثین کےدور میں خوب پھلا پھولا ۔مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے او رپھر بعدمیں اہل علم نے ان مجموعات کے اختصار اور شروح ،تحقیق وتخریج او رحواشی کا کام کیا۔مجموعاتِ حدیث میں اربعین نویسی، علوم حدیث کی علمی دلچسپیوں کا ایک مستقل باب ہے ۔عبداللہ بن مبارک وہ پہلے محدث ہیں جنہوں نے اس فن پر پہلی اربعین مرتب کرنے کی سعادت حاصل کی ۔بعد ازاں علم حدیث ،حفاظت حدیث، حفظ حدیث اورعمل بالحدیث کی علمی او رعملی ترغیبات نے اربعین نویسی کو ایک مستقل شعبۂ حدیث بنادیا۔ اس ضمن میں کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں اربعین کے سینکڑوں مجموعے اصول دین، عبادات، آداب زندگی، زہد وتقویٰ او رخطبات و جہاد جیسے موضوعات پر مرتب ہوتے رہے ۔اس سلسلۂ سعادت میں سے ایک معتبر اور نمایاں نام ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی کا ہے جن کی اربعین اس سلسلے ک...
علماء علوم نبوت کے وارثوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ ہماری اسلامی درسگاہیں انہی علوم ِنبوت کی درس وتدریس ،تعلیم وتعلم اوراس حوالے سے تزکیۂ نفوس کےادارے ہیں۔برصغیر میں اسلامی درسگاہوں کی ایک مستقل اورمسلسل روایت رہی ہے۔ اٹھارویں صدی میں شاہ ولی اللہ کےخاندان نے اس روایت کا سب سےروشن مرکز تشکیل دیا۔ اس خاندان کےایک چشم وچراغ شاہ محمداسحاق دہلوی سے سید نذیر حسین محدث دہلوی نے تیرہ سال تک تعلیم حاصل کی ۔شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی نے کامل 63 سال تک درس وتدریس کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ برصغیر میں علم حدیث کی تدریس کا سب سے مضبوط مرکز اورقلعہ انہیں کی قائم کردہ درسگاہ تھی ۔جس میں شبہ قارہ کے ہر حصے سےطلبہ استفادے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ایسے ہی تلامذہ میں ایک تلمیذ الرشید حافظ عبد المنان وزیرآبادی ہیں۔بیسویں صدی میں علوم حدیث کی روایت کومستحکم کرنے میں حافظ عبد المنان وزیر آبادی نےپنجاب میں سب سے زیاد فیض رسانی کےاسباب پیدا کیے ۔ حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی اپنےعہد میں پنجاب میں حدیث کے سب سےممتاز استاد تھےجن کےتلامذہ پنجاب کےہر حصے میں بالعموم اوراس علمی اور سلفی ر...
کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت ِشریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اورعمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور اہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘ رہی ہے موجودہ دور میں بھی عوام وخواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چندد ہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرے فروغ حاصل ہوا ہے ۔امت کا درد رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں ۔اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں۔لیکن تقلیدی افکار ونظریات پر تعب وعناد کی چڑھتی ہوئی دبیز چادر کے سامنے جتنی بھی ہوں وہ کم ہی ہیں۔ تقلید جامد کے رسیا اور قرآن وحدیث کے علمبردار علماء ومصلحین اس موضوع پر سیر حاصل بحث کر کے خو ب خوب داد تحقیق دے چکے ہیں۔خیر القرون کے سیدھے سادھے دور کے مدتوں بعد ایجاد ہونے والے مذاہب اربعہ کے جامد مقلد فقہاء نے...
فتنہ انکار حدیث تاریخ اسلام میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے پیدا کیا۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں سنت رسول ﷺ حائل تھی۔ لہذا نہوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کا مسئلہ یہ تھا کہ یونانی فلسفے نے اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے جو شکوک و شبہات عقل انسانی میں پیدا کر دیے تھے، وہ انہیں سمجھنے سے پہلے ہی حل کر دینا چاہتے تھے لہذا انہوں نے فلسفہ کے نام سے منقول ہر بات کو عقل کا لازمی تقاضا سمجھا اور اسلامی عقائد اور اصول و احکام کی ایسی تعبیر کرنا شروع کر دی جو ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو۔آج بھی بعض لوگ سرسری طور پر حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور جب انہیں کسی حدیث کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تو وہ جھٹ سے اسے قرآن مجید کے کی خلاف یا دو صحیح احادیث کو متصادم قرار دے کر باطل ہونے کا فتوی دے دیتے ہیں،جو جہالت اور انکار حدیث کی سازش کا ہاتھ بٹانے کے مترادف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " مقالم رس...
سیدہ خدیجہ مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے حضرت محمد ﷺ کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ ﷺکی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلی اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ ﷺکو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو نبی ﷺ نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ نبی ﷺ صرف پچیس سال کے تھے۔ سیدہ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ نبی ﷺ کی ساری کی ساری اولاد سیدہ خدیجہ سے پیدا ہوئی اورصرف ابراہیم جوکہ ماریہ قبطیہ سے تھے جوکہ اسکندریہ کے بادشاہ اورقبطیوں کےبڑے کی طرف سے نبیﷺکوبطورہدیہ پیش کی گئی تھیں۔سید ہ خدیجہ کی وفات کے بعد نبی ﷺ ان کو بہت یاد کرتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن حضور ﷺنے ان کے سامنے حضرت خدیجہ ؓکو یاد کر کے ان کی بہت زیادہ تعریف و توصیف فرمائی تو حضرت عائشہ کے بیان کے مطابق ان پر و...
کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺدینِ اسلامی کے بنیادی مآخذ ہیں۔ احادیث رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اہل علم نے خدمات انجام دیں۔ تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی سے ہوا او ر صحابہ وتابعین کے دور میں پروان چڑھا ۔ ائمہ محدثین کےدور میں خوب پھلا پھولا ۔مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے۔ان ضخیم مجموعہ جات سے استفتادہ عامۃ الناس کےلیے انتہائی دشوار ہے ۔عامۃ الناس کی ضرورت کے پیش نظر کئی اہل علم نے مختصر مجموعات حدیث تیار کیے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’200 احادیث مبارکہ ‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جوکہ مسلم پبلی کیشنز کے مدیر جناب مولانا محمد نعمان فاروقی ﷾ کی کاوش ہےجس میں انہوں نے غیر معروف مگر صحیح یا حسن 200 احادیث مبارکہ جمع کی ہیں۔موصوف نے احادیث کی تصحیح وتحسین میں زیاد ہ تر انحصار علامہ ن...
رسول اکرمﷺ کی مبارک زندگی ہر شعبے سے منسلک افراد کے لیے اسوۂ کامل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کوئی مذہبی پیشوا، سیاسی لیڈر، کسی نظریے کا بانی حتی کہ سابقہ انبیائے کرام کےماننے والے بھی اپنے پیغمبروں کی زندگیوں کو ہرشعبے سے منسلک افراد کےلیے نمونہ کامل پیش نہیں کرسکتے۔ یہ یگانہ اعزاز وامتیاز صرف رسالت مآب ﷺ ہی کو حاصل ہے ۔اور ہر دلعزیز سیرتِ سرورِ کائنات کا موضوع گلشنِ سدابہار کی طرح ہے۔ جسے شاعرِ اسلام سیدنا حسان بن ثابت سے لے کر آج تک پوری اسلامی تاریخ میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے جملہ گوشوں پر مسلسل کہااور لکھا گیا ہے او رمستقبل میں لکھا جاتا رہے گا۔اس کے باوجود یہ موضوع اتنا وسیع اور طویل ہے کہ اس پر مزید لکھنے کاتقاضا اور داعیہ موجود رہے گا۔ دنیا کی کئی زبانوں میں بالخصوص عربی اردو میں بے شمار سیرت نگار وں نے سیرت النبی ﷺ پر کتب تالیف کی ہیں۔ اردو زبان میں سرت النبی از شبلی نعمانی، رحمۃللعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری اور مقابلہ سیرت نویسی میں دنیا بھر میں اول آنے والی کتاب الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کو بہت قبول عام حاصل ہوا۔ زیر تبصرہ...
جب سیلاب آتا ہے تو حکومت ، میڈیا ، ادارے، جماعتیں، شخصیات او رعوام سبھی اس سے بچاؤ کی چارہ جوئی کرتے ہیں اور ایسے ہمدرد لوگوں کو معاشرے میں وقار اوراحترام ملتا ہے ۔ اس سیلاب سے روک تھام کے نتیجے میں جان ومال کو تحفظ ملتا ہے اور یہ کتنا اچھا جذبہ ہے ۔اسی طرح ایک فحاشی کاسیلاب بھی ہے جس کے مقابلے میں حکومت ،میڈیا ،ادارے ،جماعتیں اور عوام کچھ اقدام کرنے کی بجائے اسے فروغ دیتے ہیں (الا ماشاء اللہ )حالانکہ فحاشی کے سیلاب سے ہمارے ایمان ویقین اور اقدار روایات کو خطرہ ہے اور فحاشی کا یہ سیلاب اونچے اونچے گھرانوں تک پہنچ چکا ہے۔اس فحاشی کےسیلاب کوروکنا معاشرے کےہرفرد کی ذمہ داری ہے ۔ زیر تبصرہ کتابچہ’’ فحاشی کاسیلاب اور اس کا سدِّ باب‘‘ ایڈیٹر ماہنامہ’’ ضیائے حدیث ‘‘ ،مدیر مسلم پبلی کیشنزمحترم محمد نعمانی فاروقی ﷾ کی کاوش ہے۔اس کتابچہ میں انہوں نے فحاشی کا مفہوم ، اثرات اور اس پر ملنے والی سزاؤں کے حوالے سے قرآن وسنت کے دلائل کی روشنی میں بحث پیش کی ہے۔اللہ تعالیٰ ملت اسلامیہ کو فحاشی کے سیلاب میں تنکوں کی طرح ب...
مسلمانوں کا امتیازی وصف دن اور رات میں پانچ دفعہ اپنے پروردگار کے سامنے با وضوء ہوکر کھڑے ہونا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا اور اپنے رب سے اس کی رحمت طلب کرنا ہے۔ نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اورا سلام کا دوسرا رکن ِ عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کلمۂ توحید کے اقرار کے بعد سب سے پہلے جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہی ہے۔ اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے ۔ بے نماز کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ قیامت کے دن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا۔ نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے۔ بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سے نماز کا پابند بنایا جائے۔ نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قدر اہم ہے کہ سفر وحضر، میدان ِجنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ اس لیے ہرمسلمان مرد اور عورت پر پابندی کے ساتھ وقت پر نماز ادا کرنا لازمی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ’’نیکیوں کی مالا‘‘شیخ ابو عبد اللہ عادل بن عبداللہ آل حمدان کی نماز کی اہمیت وفضیلت کے موضوع پر ایک عربی کتاب&rsquo...
مولانا ابو الکلام11نومبر1888ء کو پیدا ہوئے اور 22 فروری1958ءکو وفات پائی۔مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔آپ کے والد بزرگوارمحمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا ۔سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا ۔ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہرمصر چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔آپ ایک سنی المسلک انس...
سوہدرہ ضلع گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد کا ایک قصبہ ہےاور اس کاشمار پنجاب کےان قصبات میں ہوتا ہے جو اپنی علم دوستی اور دینی ودنیاوی خدمات کےلحاظ سے پاک وہند میں غیر معمولی شہرت واہمیت کے مالک ہیں ۔ اس قصبہ نے شعر وادب سے لے کر صحافت واور علم فن سےلے کر مذہب تک بہت سےایسے ارباب فکر کو جنم دیا ہے جن کا مسلمان ہند کی تقدیر بنانے میں بڑا حصہ ہے۔کئی نامور علماء کا تعلق اس قصبہ سے ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تذکرہ بزرگان علوی سوہدرہ‘‘ پاکستان کے معروف مؤرخ وسیرت نگار جناب مولانا عبد الرشید عراقی ﷾ کی تصنیف ہے۔انہوں نے اس کتاب میں سوہدرہ کی تاریخ، سوہدرہ کے علوی خاندان کی اشاعت دین کے سلسلے میں خدمات اور ممتاز بزرگوں کا تذکرہ بڑے دلنشیں انداز میں کیا ہے۔ان بزرگوں میں مولانا غلام نبی الربانی ،مولانا عبدالحمید سوہدروی، مولانا عبد المجید خادم سوہدری، مولانا حافظ محمد یوسف سوہدروی ،مولانا محمد ادریس فاروقی ، حافظ عبدالوحید سوہدروی ، حافظ حبیب الرحمٰن سوہدروی ، وغیرہ کے اسماء گرامی شامل ہیں ۔(م۔ا)
دنیا دارالامتحان ہے اس میں انسانوں کو آزمایا جاتا ہے۔ آزمائش سے کسی مومن کوبھی مفر نہیں۔ اسے اس جہاں میں طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑتاہے۔ قسم قسم کےہموم وغموم اس پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اور یہ تمام مصائب وآلام بیماری اور تکالیف سب کچھ منجانب اللہ ہیں اس پر ایمان و یقین رکھنا ایک مومن کے عقیدے کا حصہ ہے کیوں کہ اچھی اور بری تقدیر کا مالک ومختار صر ف اللہ کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سےجنہیں چاہتا ہے انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ اطاعت پر مضبوط ہوکر نیکی کے کاموں میں جلدی کریں اور جو آزمائش انہیں پہنچی ہے۔ اس پر وہ صبر کریں تاکہ انہیں بغیر حساب اجر و ثواب دیا جائے۔ اور یقیناً اللہ کی سنت کا بھی یہی تقاضا ہےکہ وہ اپنے نیک بندوں کو آزماتا رہے تاکہ وہ ناپاک کو پاک سے نیک کو بد سے اور سچے کو جھوٹے سے جدا کردے ۔ لیکن جہاں تک ان کے اسباب کا تعلق ہے تو وہ سراسر انسان کے اپنے کئے دھرے کا نتیجہ سمجھنا چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو کچھ تمہیں مصائب پہنچتے ہیں وہ تمہارے ہی کردار کا نتیجہ ہیں جبکہ تم...
ادب و آداب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرہ امتیاز ہے گو کہ دیگر اقوام یا مذاہب نے اخلاق و کردار اور ادب و آداب کو فروغ دینے میں ہی اپنی عافیت جانی مگر اس کا تمام تر سہرا اسلام ہی کے سر جاتا ہے جس نے ادب و آداب اور حسن اخلاق کو باقاعدہ رائج کیا اور اسے انسانیت کا اولین درجہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بات کی جاتی ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں زبان (یعنی اخلاق) سے پھیلا۔ حسنِ اخلاق اور ادب پر لاتعداد احادیث مبارکہ ہیں کہ چھوٹے ہوں یا بڑے‘ سب کے ساتھ کس طرح ادب سے پیش آنے کی تلقین اور ہدایت فرمائی گئی ادب اور اخلاق کسی معاشرے کی بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے جو معاشرے کو بلند تر کر دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ادب سے عاری انسان اپنا مقام نہیں بنا سکتا۔ باادب بامراد اور بے ادب بے مراد ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ادب کس کاکیوں اور کیسے ‘‘ماہنامہ ضیا حدیث کے ایڈیٹر جنا ب نعمان فاروقی ﷾ کے والد گرامی محترم مولانا حکیم محمد ادریس فاروقی کے ماہنامہ ضیائے حدیث میں لکھے گئے قسط وار کالم ’’ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں&lsquo...
عصرحاضر میں مسلمانوں کے اندر بہت سی خرافات ورسومات نےجنم لے لیا ہے جن میں سے کسی آدمی کے فوت ہوجانے کے بعد ایصالِ ثواب کا مسئلہ بہت غلط رنگ اختیار کرچکا ہے بالخصوص قرآن خوانی کے ذریعے مردوں کوثواب پہنچانے کارواج عام ہے ۔ قرآن خوانی اورگٹھلیوں وغیرہ پر کثرت سے تسبیحات پڑھ کر مرنے والے کو اس کا ثواب بخشا جاتاہے ۔حتی کہ قرآنی اور اایصال ثواب توایک پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پڑھنے کا میت کوثواب نہیں پہنچتا۔ البتہ قرآن پڑھنےکے بعد میت کے لیے دعا کرنے سے میت کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ہمارے ہاں جو اجتماعی طور قرآن خوانی ایک رواج ہے جس کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ احادیث کی رو سے چند ایک چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
1۔کسی مسلمان کا مردہ کےلیے دعا کرنا بشرطیکہ دعا آداب وشروط قبولیت دعا کے مطابق ہو۔2 میت کے ذمے نذرکے روزے ہوں جو وہ ادا نہ کرسکا تو اس کی طرف سے روزے رکھنا بھی باعث ثواب ہے ۔3 نیک بچہ جوبھی اچھے کام کرے گا والدین اس کے ثواب میں شریک ہوں گے۔4مرنے کے بعد اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑجانے سےبھی میت ک...
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے یہ مہینہ اپنی عظمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے دیگر مہینوں سے ممتاز ہے ۔رمضان المبارک ہی وہ مہینہ ہےکہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ جنت کے دروازے کھول دیتا ہے اور جہنم کے دروازے بند کر دیتا ہے اور شیطان کو جکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندے کو اس طرح گمراہ نہ کر سکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت لیلۃ القدر وغیرہ )کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔ کتب احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے ۔ اور کئی علماء...
سید البشرحضرت محمد رسول اللہ ﷺکی چا ربیٹیاں تھیں،سیدہ فاطمہ ؓ سب سے چھوٹی تھیں۔رسول اکرم ﷺ کو ان سے خاص محبت تھی۔اسی لیے فرمایا کہ فاطمہ خواتین جنت کی سردار ہونگی۔،فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔حضرت فاطمہ ؓ رسول اکرم ﷺ سے بہت مشابہت رکھتی تھیں،چال ڈھال اور نشست وبرخاست میں ہوبہو اپنے والد محمد مصطفیٰﷺکی تصویر تھیں۔ان کی زندگی میں خواتین اسلام کے لیے بڑا درس موجود ہے آٖج جبکہ امت کی بیٹیاں تہذیب کفر کی نقل میں اپنی ناموس وعزت سے بے خبر ہورہی ہیں انہیں سیرت فاطمہ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ ایک آئیڈیل خاتون اسلام کی زندگی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکیں۔ایک مسلمان خاتون کے لیے سیرت فاطمۃ الزہرا ؓ میں اس کی زندگی کے تمام مراحل بچپن، جوانی، شادی، شوہر، خادنہ داری، عبادت، پرورش اولاد، خدمت اور اعزا اقربا سے محبت غرض ہر مرحلہ حیات کے لیے قابل تقلید نمونہ موجود ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سیرت فاطمہ ؓ عنہا‘‘ مولانا عبدالمجید سوہدروی کی تصنیف ہے۔اس کتاب میں انہوں نے جگر گوشۂ رسول سیدہ بتول حضرت فاطمۃ الزاہراء کی سیرت کردار اوراخلاق وگفتار...
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ ، حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کا نام زینب تھا۔ ان کا نام عائشہ لقب صدیقہ اور کنیت ام عبد اللہ تھی۔ حضور ﷺ نے سن 11 نبوی میں سیدہ عائشہ ؓ سے نکاح کیا اور 1 ہجری میں ان کی رخصتی ہوئی۔ آپ حضور ﷺ کی سب سے کم عمر زوجہ مطہرہ تھیں۔ انہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ نو برس گذارے۔ام الموٴمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ عنہاوہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضور کی زوجہ محترمہ اور ”ام الموٴمنین“ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ عنہاسے شادی سے قبل حضور نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہے… پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی بیوی ہے، آپ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت عائشہ ہیں۔صحیح بخاری میں حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا " مردوں میں سے تو بہت تکمیل کے درجے کو پہنچے مگر عورتوں میں صرف مریم دختر عمران، آسیہ زوجہ فرعو...
اللہ تعالی ٰ کے با برکت نام او رصفات جن کی پہچان اصل توحید ہے ،کیونکہ ان صفات کی صحیح معرفت سے ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ عقیدۂ توحید کی معرفت اور اس پر تاحیات قائم ودائم رہنا ہی اصلِ دین ہے۔ اور اسی پیغامِ توحیدکو پہنچانے اور سمجھانے کی خاطر انبیاء و رسل کومبعوث کیا گیا او رکتابیں اتاری گئیں۔ اللہ تعالیٰ کےناموں او رصفات کے حوالے سے توحید کی اس مستقل قسم کوتوحید الاسماء والصفات کہاجاتاہے۔ قرآن واحادیث میں اسماء الحسنٰی کوپڑھنے یاد کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’ وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا‘‘اور اللہ تعالیٰ کے اچھے نام ہیں تو اس کوانہی ناموں سےپکارو۔اور اسی طرح ارشاد نبویﷺ ہے«إِنَّ لله تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ»یقیناً اللہ تعالیٰ کے نناوےنام ہیں یعنی ایک کم 100 جس نےان کو یاد (یعنی پڑھنا سمجھنا،یادکرنا) کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح بخاری )اسماء الحسنٰی کے سلسلے میں اہل علم نے عربی اردو زبان میں مستقل کتب...
یہ بات مسلم ہے کہ عورت معاشرے کا ایک ایسا ناگزیر عنصر ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بلکہ سماجی اور تمدنی اصلاح و بقا کا انحصار تقریباً اسی نوع کی حیثیت پر ہے۔ عورت کی حیثیت، اس کا کردار و عمل اور اس کی حیات بخش صلاحیتیں معاشرے کے عروج و زوال کا سامان ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورت کو انسانی معاشرے نے اُس کا صحیح حق نہیں دیا۔ دنیا کے مختلف معاشروں میں بنیادی خرابی اس امر سے پیدا ہوئی کہ عورت اور مرد کے درمیان تخلیقی طور پر امتیاز رکھا گیا، اور عورت کو ہمیشہ کم تر اور کم اہم سمجھا گیا جبکہ مرد برتر اور اہم حیثیت کا حامل رہا۔ یہی وجہ تھی کہ قبل از اسلام عورت کو اس کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا، یہ صنف بھیڑ بکریوں کی طرح بکتی تھی، ظلم کی انتہا یہ تھی کہ لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، کیونکہ اس کی پیدائش نہ صرف منحوس تصور کی جاتی تھی، بلکہ باعث ذلت سمجھی جاتی تھی۔ البتہ اسلام جو ایک نظام حیات کے طور پر آیا تھا، نے اس مسئلہ پر خصوصی توجہ دی۔عورت کی عزت و شرف اور اہمیت و افادیت کے بارے میں اسلام نے ہماری رہنمائی فرمائی۔ زیرِ تب...