سر سید احمد خان کے قائم کردہ ادارے علی گڑھ سے ایک نامور جوان خداداد خان المعروف بہ ظفر علی خاں اپنی خدادا د صلاحیتوں کے ساتھ سرسید کی زیر نگرانی اور علامہ شبلی کے زیر تربیت بی۔ اے کی ڈگری لے کر نکلا۔ وہ ایک با حوصلہ، پر عزم اور باہمت انسان تھا جو ارادے کا پکا اور دھن کا سچا تھا۔ اس نے خدا کا نام لے کر اور علی گڑھ کے ساتھ میدان حیات میں قدم رکھا اور رفتہ رفتہ اپنی ہمت سے کبھی شاعری اور صحافت کے افق پر چمکا اور کبھی سیاست کی گھٹاؤں میں گرجا۔ یہ کتاب اسی اولوالعزم انسان کے حالت زندگی پر مشتمل ہے۔ مصنف نے پوری کوشش کی ہے کہ مولانا ظفر علی خاں کے حالات قابل اعتماد ذرائع سے حاصل کر کے انھیں ایک مربوط صورت میں پیش کیا جائے۔ یوں مولانا کی ایک مستند سوانح عمری مرتب ہو گئی ہے۔ مصنف نے ہر اہم نکتے کے بارے میں ممکن حد تک تحقیق سے کام لیا ہے۔ اس سلسلے میں طویل سفر اختیار کیے ہیں اور متعلقہ شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔امید ہے یہ کتاب اردو ادب کے سوانحی ادب میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوگی اور اسے بیسویں صدی کے نصف اول کی ایک مستند تاریخی دستاویز کی حیثیت بھی حاصل ہوگی۔(ع۔م)
پروفیسر حمید احمد خاں پاکستان کی ایک جامع الحیثیت شخصیت تھے۔ ان کے انتقال کے چند ہی ہفتے بعد ’مجلس یادگارِ حمید احمد خاں‘ کا قیام عمل میں آیا۔اس مجلس میں یہ طے پایا کہ پروفیسر حمید احمد خاں کے کارناموں اور ان کے ذوق وشوق کے معیارکو زندہ رکھنے کے لیے ایک ایسی کتاب ترتیب دی جائےجس میں مرحوم کے مرغوب اور پسندیدہ موضوعات پر معروف اہلِ علم اور اہلِ ادب کے مقالات شامل ہوں۔ پروفیسر صاحب کو جن موضوعات سے بطور خاص دلچسپی رہی وہ تھے اسلام، پاکستان، علامہ اقبال، مرزا غالب اور اردو ادب۔ پھر اس ضمن میں عطاء الحق قاسمی نے نہایت جانفشانی کے ساتھ اٹھارہ مقالات جمع کر لیے جو پشاور سے کراچی تک کے صائب الرائے اربابِ دانش نے تحریر فرمائے تھے۔ فہرست مندرجات پر ایک نظر ڈالنے ہی سے اس حقیقت کا اندازہ ہو جائے گا کہ یہ مقالات بیشتر ان شخصیات کی کاوشِ فکر کا نتیجہ ہیں جو پاکستان میں علم و ادب کی پہچان کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان مقالات میں قرآن مجید کے صوری اور معنوی محاسن، قتل مرتد اور پاکستان، سلطان محمود بکھری کی زندگی کا ایک پہلووغیرہ اور بعض انگریزی مقالات بھی شامل کتاب ہیں۔اس کتاب کو اسلام، پاکست...
تاریخ ایران اردو دان طبقہ کے لیے ایک قیمتی دستاویز ہے جو اپنے اندربیش بہا معلومات کا خزینہ لیے ہوئے ہے ۔اس میں ایران کی تاریخ کے حوالے سے قریبا تمام پہلووں سے بحث کی گئی ہے ۔ مثلا ایران کے حدود اربعہ ، تہذیب و ثقافت ، انداز سیاست ،فنون لطیفہ ،زبان کا ارتقاء اور مذہب کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔کتاب کو مختلف آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔جن میں درج ذیل امور پر بحث کی گئی ہے ۔ ایران کے طبعی حالات، ہمسایہ اقوام، ایران کا دور قبل از تاریخ، قدیم ایران کے آریا او ر آل ماد، ہخامنشی دور، سیلوکی دور، اشکانی دوراور ساسانی دوروغیرہ۔ مذکورہ تالیف دو ضخیم جلدوں میں ہے۔ اس کے مولف پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی ہیں جو ایرانی تاریخ کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کے ادیب بھی ہیں ۔ موصوف متعدد کتب کے مصنف او رفارسی کے پروفیسر ہیں۔(ناصف)
کتاب ہذا ’’ فلسفہ الشریع فی الاسلام ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے، جسے ڈاکٹر صبحی محمصانی نے عربی زبان میں تالیف کیا۔ مصنف علام کا شمار زمانہ حال کے نامور ماہرین قانون میں ہوتا ہے۔ آج کل مصنف بیروت میں عدالت مرافعہ کے صدر ہیں۔ اور قانون کے متعلق متعدد کتابیں فرانسیسی اور عربی زبان میں تالیف کرچکے ہیں۔ کتاب ہذا جن اغراض کے تحت لکھی گئی ہے اور اس کی تالیف میں جن اصولوں کی پیروی کی گئی ہے۔ فاضل مصنف نے انہیں مقدمے میں وضاحت سے بیان کردیا ہے۔ یہ کتاب باب ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں قانون کی تعریف اور اس کے اصول کا بیان ہے۔باب دوم میں اسلامی فقہ کے مختلف مذاہب کی مختصر تاریخ ہے۔باب سوم میں اسلامی شریعت کے ماخذ ومصادر پر بحث ہے۔باب چہار میں احکام کی ان تبدیلیوں کا بیان ہے جو زمانے کے اقتضاء سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور باب پنجم میں بعض قواعد کلیہ کا بیان ہے۔(ک۔ح)
بلاشبہ دنیا کی تاریخ میں عہد نبویﷺ سیاسی ،دینی اور اقتصادی اعتبار سے ممتاز ہے نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کےمختلف گوشوں پر سیرت نگاروں نے کاوشیں کی ۔ کتب احادیث بھی آپ ﷺہی کے کردار کا مرقع ہیں ۔عبادات ومعاملات ،عقائدوغزوات اور محامد وفضائل ،کو نسا باب اور فصل آپ کےتذکرے سے مزین نہیں۔ حدیث ہی کےسلاسل کا ایک حلقہ آنحضرت ﷺ کے فرامین ہیں،کچھ تبلیغی،کچھ تادیبی،بعض میں غیر مسلم حلیفوں کےساتھ معاہدوں کا تذکرہ ہے ۔نبی کریم ﷺ کے بعد ریاست کے جملہ انتظامی امور کی عنان جب حضرت ابو بکر صدیق کو تفویض ہوئی تو آپ نے بھی متعلقہ حوادث پر اطراف وجوانب اور ماتحت عمال وسپہ سالاران کی طرف سے سرکاری فرامین بھیجے ۔ نئے وثیقے بھی لکھے اور رسول اللہﷺ کے جو وثائق آپ کے سامنے پیش ہوئے ان کی توثیق بھی فرمائی۔اسی طرح خلیفۂ دوم ،سوم، چہارم کے عہد میں بھی اس قسم کے فرامین اور وثیقے اور عطایائے جاگیرات کا سلسلہ جاری رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ او...
ہماری قومی زبان اردو اگرچہ ابھی تک ہمارے لسانی و گروہی تعصبات اور ارباب بست و کشاد کی کوتاہ نظری کے باعث صحیح معنوں میں سرکاری زبان کے درجے پر فائز نہیں ہو سکی لیکن یہ بات محققانہ طور پر ثابت ہے کہ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی بولی جانے والی زبان ہے۔ ہر بڑی زبان کی طرح اس زبان میں بے شمار کتب حوالہ تیار ہو چکی ہیں اور اس کے علمی، تخلیقی اور تنقیدی و تحقیقی سرمائے کا بڑا حصہ بڑے اعتماد کے ساتھ عالمی ادب کے دوش بدوش رکھا جا سکتا ہے۔ ایسی زبان اس امر کی متقاضی ہے کہ اسے صحیح طور پر لکھا بولا جا سکے۔ کیونکہ کسی بھی زبان کی بنیادی اکائی اس کے اصول وقواعد ہیں۔ زبان پہلے وضع ہوتی ہے اور قواعد بعد میں لیکن زبان سے پوری واقفیت حاصل کرنے کےلیے قواعد زبان سے آگاہی ضروری ہے۔ اہل زبان نے قواعد کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کیا اس لیے انہوں نے قواعد مرتب نہیں کیے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اردو بولنے یا لکھنے والے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد اپنی قومی زبان کی صحت کی طرف سے سخت غفلت برت رہی ہے۔ سکولوں اورکالجوں کےلیے گرائمر کی متعدد کتابیں شائع ہوئیں ہیں جو کاروباری مقاصد...
سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ محض غلط فہمی ہے۔دونوں کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے ،مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے،سائنس کے دائرہ کار میں یہ باتیں نہیں ہیں،نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان انسان کامل کہلانے کا مستحق ہے۔اسی لئے مذہب اور سائنس کا تصادم محض خیالی ہے۔مذہب کی بنیاد عقل وخرد،منطق وفلسفہ اور شہود پر نہیں ہوتی بلکہ ایمان بالغیب پر زیادہ ہوتی ہے۔اسلام نے علم کو کسی خاص گوشے میں محدود نہیں رکھا بلکہ تمام علوم کو سمیٹ کر یک قالب کر دیا ہےاور قرآن مجید میں قیامت تک منصہ شہود پر آنے والے تمام علوم کی بنیاد ڈالی ہے۔چنانچہ مسلمانوں نے تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل وتدبر سے کام لیا اور متعددسائنسی اکتشافات سامنے لائے ۔تاریخ میں ایسے بے شمار مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں،جنہوں نے بے شمار نئی نئی چیزیں ایجاد کیں اور دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کا نام روشن کیا۔ زیر تبصرہ کتاب" نامور مسلم سائنس دان " محترم حمید عسکری صاحب کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نے نامور مسلم سائنس دانوں کی...
ہم اپنی روز مرہ زندگی میں جو تصدیقات قائم کرتے ہیں ان میں سے چند ایسی تصدیقات کو الگ کرنا نہایت آسان ہے جن کی صداقت سے اخلاقیات بلا شبہ سروکار رکھتی ہے۔جب کبھی ہم کہتے ہیں کہ"فلاں شخص اچھا ہے"یا"فلاں آدمی برا ہے"، جب کبھی ہم پوچھتے ہیں کہ "مجھے کیا کرنا چاہئے؟"یا"کیا ایسا کرنا میرے لئے نادرست ہے؟"جب کبھی ہم یہ کہنے کی جرات کرتے ہیں کہ "عفت فضیلت ہے اور مے نوشی رذالت ہے" تو بلا شبہ یہ اخلاقیات ہی کاکام ہے کہ وہ اس قسم کے سوالات اور بیانات پر بحث کرے۔علاوہ ازیں اخلاقیات کے ذمے یہ کام بھی ہے کہ وہ ہمارے ان بیانات کو جو افراد کے اخلاقسے یا ان کے افعال کے اخلاقی پہلو سے متعلق ہوتے ہیں، غلط یا صحیح ٹھہرانے کے اسباب بیان کرے۔اکثر حالتوں میں ہم"فضیلت، رذالت،فرائض، درست، خیر،شر"جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، جن میں ہم اخلاقی حکم لگا رہے ہوتے ہیں، اگر ہم ان احکام کی صداقت کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اخلاقیات کے کسی نہ کسی نکتے پر بحث کرنا ہوگی۔ زیر تبصرہ کتاب" اصول اخلاقیات "محترم...
فارسی ایک شیریں اور زندہ زبان ہے ۔ دوسری زبانوں کی طرح یہ زبان بھی سلسلہ ارتقاء کی تمام کڑیوں سے گزری ہے اور تاریخی، سیاسی ، جغرافیائی اور علمی اثرات قبول کرکے دنیا کی سرمایہ دار زبانوں کی صف میں شمار ہوتی ہے ۔ اس کا تدریجی ارتقاء بالکل ایک طبیعی اور فطری امر ہے، نیز ہر قسم کے بےجا تصرّف اور تصنع سے پاک ہے ۔ البتہ یہ درست ہے کہ گذشتہ پچاس ساٹھ سال کے عرصے میں فارسی زبان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوا ہے۔ نئے خیالات نے نئےاسالیب بیان تلاش کئے ہیں ۔ پرانے الفاظ کی حسب ضرورت کاٹ چھانٹ کی گئی ہے ۔ بعض ثقیل عربی الفاظ کا استعمال کم کر دیا گیا ہے اور جدید علمی تحقیقات اور مغربی علوم کی مختلف کتابوں کے تراجم کے لیۓ بے شمار نئی اصلاحات وضع کی گئی ہیں ۔ فارسی ادب میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان سے متعلق ہماری معلومات کم اور ہمارا مطالعہ اور نصاب تعلیم چند ایک قدیم ادبی کتابوں تک محدود رہا ہے ۔ زیر تبصر ہ کتاب " اصول فارسی" محترم مولانا الطاف حسین حالی صاحب کی تصنیف ہے ، جسے احمد رضا صاحب نے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں مولف موصوف نے فارسی زبان کے...
مولانا مہر غلام رسول(1895-1971) غلام رسول مہر کا وطن جالندھر ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور میں تعلیم پائی، بعد ازاں حیدراباد دکن تشریف لے گئے اور وہاں کئی برس تک انسپکٹر تعلیمات کی خدمت انجام دی۔ 1921ء میں لاہور سے نکلنے والے اخبار"زمیندار" کے ادارہ تحریر میں شامل ہو گئے کچھ عرصہ بعد"زمیندار" کے مالک بن گئے۔ پھر مولانا سالک کے ساتھ "انقلاب" کے نام سے اپنا وہ مشہور اخبار نکالا جس نے مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ میں بڑا حصہ لیا۔ مولانا مہر گول میز کانفرنس میں علامہ اقبال کے رفیق تھے۔ اس دوران انہوں نے یورپ اور مغربی ایشیا کے بیشتر ممالک کا سفر بھی کیا۔"انقلاب"بند ہو جانے کے بعد تصنیف و تالیف میں ہمہ تن گوش ہو گئے۔ لاہور میں سکونت پذیر رہے۔ اور لاہور میں ہی انتقال ہوا۔مولانا مہر نے ایک صحافی کی حیثیت سے شہرت پائی، لیکن وہ ایک اچھے مؤرخ اور محقق بھی تھے۔ تاریخ و سیرت میں انکا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ اسلام اور دینی علوم کی جانب زیادہ توجہ دی۔ انہوں نے متعدد تصانیف اور تالیفات اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔ ۔ حضرت سید احمد بریلوی کی سوانح ح...
علمی تحقیقات کے ذوق نے عصر حاضر کے انسان پر نئی نئی دریافتوں اور ایجادوں کے دروازے کھول دئیے ہیں ۔جدید انکشافات اور ایجادات نے نوع انسانی کو ایک کنبے اور سطح ارضی کو ایک محدود رقبے کی حیثیت دےدی ہے ہر انسان دنیا بھر کےدور دراز مقامات کی آوازیں اسی طرح سن سکتا ہے جس طرح اپنے ہمسائے کے گھر کی آوازیں سنتا ہے ۔ جدید ذارئع ابلاغ ہر شخص کو ہر صبح دنیا بھر کے حالات سے باخبر کردیتے ہیں۔ دنیا کےایک سرے میں واقعات وحالات کی تبدیلیاں فوری طور پر دوسرے سرے کی آبادیوں پ اثر ڈالتی ہیں ۔ انسان کے فکر وعمل کی تحریکیں عالم گیر حیثیتیں اختیار کررہی ہیں۔ان حالات میں محض کسی ایک قوم ایک گروہ یا ایک ملک کی تاریخ کا مطالعہ انسانی فکر ونظر میں وہ وسعت پیدا نہیں کرسکتا ہے جو موجودہ دور میں زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہے ۔عصر حاضر کی عالم گیر تحریکات کو جو ساری دنیا کےانسانوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں اسے سمجھنے ، جانچنے اور پرکھنے کےلیے ہر فرد ، بشر کو نوع انسانی کی تاریخ سے آگاہ ہونا ضروری ہے ۔ تاکہ اس کے فکر کی قوتوں میں عصر حاضر کی تحریکات کی صحیح طور پر جائزہ لینے کی اہلیت پیدا...