اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۂ بقرہ کی آیت 164 میں فرمایا کہ قرآن کریم کے نزول کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کوسوچنے اور سمجھنے کی دعوت دے۔اسی طرح کی سیکڑوں آیات قرآن حکیم میں جابجا بکھری ہوئی ہیں اور لوگوں کو مخلوقات پر غور وفکر کی دعوت دیتی ہیں ۔زیر نظرکتاب’’ اللہ کی نشانیا ں عقل والوں کے لیے ‘‘ عالمی شہرت یافتہ محترم ہارون یحییٰ صاحب کی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔اس کتاب کامقصد بھی یہی کہ لوگوں کو اللہ کی بے شمار نشانیوں میں سے چند کی طرف متوجہ کیا سکے ۔ہارون یحییٰ ترکی کے ایک معروف مصنف ہیں جنہوں نے مادیت اور فری میسزی یہودی تحریکوں کی تردید میں متعددکتابیں لکھی ہیں۔ ہارون یحییٰ اس وقت دنیا میں مادیت پرستی(Materialism) اور ڈاونزم(Darwanism) کا سب سے بڑے ناقد ہیں۔ عموماًہارون یحییٰ کی تحریروں میں اللہ کی قدرتوں، نشانیوں اورتخلیق کے نمونوں کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔مصنف کی یہ کتاب بھی اس کائنات میں بکھرے ہوئے عجائبات کے ذریعے اپنے خالق و رب کی معرفت حاصل کرنے کی ایک سعی وجہد ہے۔اللہ ان کی سربلندی کےلیے تمام کاوشوں کو قبول فرمائے(آمین) (م۔ا)
قرآن حکیم میں عورت پر باہر نکلتے وقت جلباب (ایسا کپڑا جو اس کے جسم ،سر پاؤں اور زینت کوڈھانپ لے ) کو اوڑھنا فرض قرار دیا گیا ہے ۔ لہذا عورت جب احرام کی حالت میں باہرنکلتی ہے تو بھی اس جلباب سے جسم اور چہرہ ڈھانپنا فرض ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں دورانِ حج جلباب نہ اوڑہنے کا کوئی حکم نہیں ملتا۔دوران ِ احرام عورت پر نقاب(سلا ہوا وہ مخصوص کپڑا جوصرف چہرے کوچھپانے کے کام آتاہے ) باندھنا اسی طرح ممنوع ہے جس طرح دستانے یا زغفران سےرنگے ہوئے کپڑے پہننا ممنوع ہے یاجس طرح مرد پر دوران ِ احرام سر ڈھانپنایا سلے ہوئے کپڑے پہننا یا ٹخنے ڈھانپ لینے والے جوتے پہننا ممنوع ہے۔ نقاب ایک مخصوص کپڑے کا نام ہے حجاب کا نام نہیں۔ دورانِ احرام عورت پر نقاب باندھنا ممنوع ہے لیکن حجاب دورانِ حج ہو یا اس کے علاوہ ہر حالت میں اس پر فرض ہے۔ لہذا وہ دورانِ احرام بھی حجاب (چہرے کاپردہ) کرنے کی پابند ہے۔ جیسا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ عنہا دوران ِحج اپنی جلباب(بڑی چادر) کو مردوں کےسامنے پر چہرے پر ڈال لیتی تھیں۔ زیر نظر کتابچہ میں محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے اسی مذکورہ مسئلہ کو قرآن واحادیث اور علمائے اسلام کے فتاویٰ کی روشنی میں اختصار کےساتھ عام فہم انداز میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی اسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے۔آمین( م۔ا)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اوردستور زندگی ہے۔اس کی اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنےرہنے سہنے کے طور طریقے اور اپنے تہوار ہیں ،جو دیگر مذاہب سے یکسر مختلف ہیں۔تہوار یاجشن کسی بھی قوم کی پہچان ہوتے ہیں،اور ان کے مخصوص افعال کسی قوم کو دوسری اقوام سے جدا کرتے ہیں۔جو چیز کسی قوم کی خاص علامت یا پہچان ہو ،اسلامی اصطلاح میں اسے شعیرہ کہا جاتا ہے،جس کی جمع شعائر ہے۔اسلام میں شعائر مقرر کرنے کا حق صرف اللہ تعالی کو ہے۔اسی لئے شعائر کو اللہ تعالی نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔لہذا مسلمانوں کے لئے صرف وہی تہوار منانا جائز ہے جو اسلام نے مقرر کر دئیے ہیں،ان کے علاوہ دیگر اقوام کے تہوار میں حصہ لینا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ کافروں کے تہوار اور ہمارا طرز عمل‘‘ معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے کافر اقوام کے بے شمار تہواروں کو جمع کر کے مسلمانوں کو ان بچنے اور ان میں شرکت نہ کرنے کی ترغیب دی ہے،کیونکہ غیر اسلامی تہوار منانا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
ہمارا معاشرہ اسلامی ہونے کے باوجود غیر اسلامی رسوم ورواج میں بری طرح جکڑچکا ہے،اور ہندو تہذیب کے ساتھ ایک طویل عرصہ تک رہنے کے سبب متعدد ہندوانہ رسوم ورواجات کو اپنا چکا ہے۔کہیں شادی بیاہ پر رسمیں تو نہیں بچے کی ولادت پر رسمیں،کہیں موسمیاتی رسمیں تو کہیں کفن ودفن کی رسمیں۔الغرض ہر طرف رسمیں ہی رسمیں نظر آتی ہیں۔اسلامی تہذیب وثقافت کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا ہے۔الا ما شاء اللہ۔انہیں رسوم ورواج میں سے ایک قبیح ترین رسم بری اور برات کی ہے،جس کا اسلامی تہذیب کے ساتھ کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ان رسوم ورواج میں اسلامی تعلیمات کا خوب دل کھول استخفاف کیا جاتا اور غیر شرعی افعال سر انجام دیئے جاتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "برات اور بری"معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نےبرات اور بری میں کی جانے والی ہندوانہ رسومات پر روشنی دالی ہے اور مسلمانوں کو ان سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
ماہ ذوالحجہ قمری تقویم کے لحاظ سے سال کا بارہواں اور آخری مہینہ ہے ۔ چونکہ اس ماہِ مبارک میں حج جیسا عظیم فریضہ انجام دیا جاتا ہے اس لیے اس کا نام حج ہی کی مناسبت سے مشہور ہے ۔اس ماہ ِمبارک میں عشرہ ذوالحجہ کے ایام بڑے ہی اہمیت وفضیلت والے ہیں۔جسے نبی کریم ﷺ نے سال بھر کے دیگر ایام سے افضل قرار دیا ہے ۔اور اسی طرح اس میں ایام تشریق جیسے اہم دن بھی شامل ہیں ۔اس میں بنیادی عبادات نماز، روزہ، صدقہ، حج ،قربانی جیسی اہم عبادات کی جاتی ہیں اس لیے اس کی بڑی اہمیت وفضیلت ہے۔حج بیت اللہ ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے بیت اللہ کی زیارت او رفریضۂ حج کی ادائیگی ہر صاحب ایمان کی تمنا اور آرزو ہے ہر صاحب استطاعت اہل ایمان کے لیے زندگی میں ایک دفعہ فریضہ حج کی ادائیگی فرض ہے اور اس کے انکار ی کا ایمان کامل نہیں ہے اور وہ دائرہ اسلام سےخارج ہے اجر وثواب کے لحاظ سے یہ رکن بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے تمام كتب حديث وفقہ میں اس کی فضیلت اور احکام ومسائل کے متعلق ابو اب قائم کیے گئے ہیں اور تفصیلی مباحث موجود ہیں ۔حدیث نبوی ہےکہ آپ ﷺنےفرمایا الحج المبرور لیس له جزاء إلا الجنة’’حج مبرور کا ثواب جنت سوا کچھ اور نہیں ۔اس موضوع پر اب تک اردو و عربی زبان میں چھوٹی بڑی بیسیوں کتب لکھی جاچکی ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’ماہ ذوالحجہ کے فضائل‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کا مرتب شدہ ہے جس میں انہوں نے ماہ ذوالحجہ کی فضائل ومسائل کو قرآن حدیث کی روشنی میں عام فہم انداز میں بیان کیا ہے۔ جس سے عام قارئین بھی مستفید ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالی ٰ محترمہ کی تمام دینی ،تبلیغی،تحقیقی وتصنیفی خدمات کوشرف قبولیت سے نوازے ۔آمین(م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے سب سے آخری کتاب ہے ۔جسےاللہ تعالی نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں،عالم اسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، جبکہ مغرب ،الجزائر ،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت امام نافع بروایت ورش ، لیبیا ،تیونس اور متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع ،مصر، صومالیہ، سوڈان اور حضر موت میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج اور متداول ہے۔ہمارے ہاں مجلس التحقیق الاسلامی میں ان چاروں متداول روایات(اور مزید روایت شعبہ) میں مجمع ملک فہد کے مطبوعہ قرآن مجید بھی موجود ہیں۔عہد تدوین علوم سے کر آج تک قراءات قرآنیہ کے موضوع پر بے شمار اہل علم اور قراء نے کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔شاطبیہ امام شاطبی کی قراءات سبعہ پر اہم ترین اساسی اور نصابی کتاب ہے ۔ اللہ تعالی نے اسے بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے،جو قراءات سبعہ کی تدریس کے لئے ایک مصدر کے حیثیت رکھتی ہے۔بڑے بڑے مشائخ اور علماء نے اس قصیدہ کی شروحات لکھنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھا ہے۔ شاطبیہ کے شارحین کی ایک بڑی طویل فہرست ہے،جسے یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے ۔زیر نظر کتاب ''الجواھر الضیائیہ شرح الشاطبیہ'' شیخ القراءقاری محمد سلیمان دیو بندی کی تالیف ہے۔جس میں مولف نے شاطبیہ کو انتہائی آسان اور سہل انداز میں پیش کیا ہے۔ اور قراءات سبعہ سے متعلقہ تمام اہم مباحث کو ایک جگہ جمع فرما دیا ہے۔ اللہ تعالی قراء ات قرآنیہ کے حوالے سے سر انجام دی گئی ان کی ان خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی مخلوقات پیدا کیں ان سب میں انسان اس کی شاہکار تخلیق ہے خوبصورت ایسا ہ کہ اس کے بارے میں خود رب العالمین نے فرمایا:لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيم(التین:4) اس کا نازک اور خوبصورت جسم ہر وقت محوِ حرکت ہے۔ ربِ کریم نے انسان کو دوسری مخلوقات کے مقابلے میں ایک امتیازی حیثیت دی ہے اوراسے وہ کچھ عطا کیا ہے جو مخلوقات میں کسی کو نہیں دیا۔انسان کے امتیازی اوصاف کی وجہ سے انسان اچھائی برائی کا مکلف بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ بھی۔انسان کے بعض افعال وحرکات میں انسان جانوروں سےمشابہ ہے لیکن جانوروں میں علم،عقل اوراختیار نہیں ہے جب کہ انسان کوجو چیز جانوروں سےممتاز کرتی ہے وہ اس کے افعال وحرکات میں شائستگی اور تہذیب ہے ۔کیوں کہ اسلام نے انسانی افعال وحرکات کو ایک خاص ضابطے کے اندر رکھنے کی تلقین کی ہے ۔انسانی جسم بہت سے اختیاری اوغیر اختیاری افعال میں ہر وقت مصروف رہتاہے ۔اسلام نے ان افعال کو بھی شائستگی کا حسن عطا کیا ہے تاکہ انسان حیوانوں سے ممتاز ہوسکے۔ زیر نظرکتابچہ’’جسمانی حرکات اور شائستگی ‘‘محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تحریری کاوش ہے۔ جس میں انہوں نے انسان کی اختیاری اورغیراختیاری حرکات کوبیان کرنےکے ساتھ ساتھ بڑے احسن انداز میں اس کےمتعلق اسلامی تعلیمات کو بھی پیش کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ محترمہ کی اس کاوش کو لوگوں کی اصلاح کاذریعہ بنائے (آمین) محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ (م۔ا)
رمضان میں اعتکاف سنت ہے۔ نبی کریمﷺنے اپنی حیات مبارکہ میں اعتکاف فرمایا اور آپ کے بعد ازواجِ مطہرات بھی اعتکاف فرماتی رہی تھیں۔اہل علم نے بیان کیا ہے کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ اعتکاف مسنون ہے لیکن ضروری ہے کہ اعتکاف اس مقصد سے ہو جس کے لیے اسے مشروع قرار دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ انسان مسجد میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت کے لیے گوشہ نشین ہو، دنیا کے کاموں کو خیر باد کہہ کر اطاعتِ الٰہی کے لیے کمر باندھ لے اور دنیوی امور سے بالکل دست کش ہو کر انواع و اقسام کی اطاعت و بندگی بجا لائے، نماز اور ذکر الٰہی کا کثرت سے اہتمام کرے۔ رسول اللہﷺ لیلۃ القدر کی تلاش و جستجو کے لیے اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ معتکف کو چاہیے کہ وہ دنیوی مشاغل سے بالکل دور رہے، خریدو فروخت کا بالکل کوئی کام نہ کرے، مسجد سے باہر نہ نکلے، جنازہ کے لیے بھی نہ جائے اور نہ کسی مریض کی بیمار پرسی کے لیے جائے۔ بعض لوگوں میں جو یہ رواج پا گیا ہے کہ اعتکاف کرنے والوں کے پاس دن رات آنے جانے والوں کا تانتا باندھا رہتا ہے اور ان ملاقاتوں کے دوران ایسی گفتگو بھی ہو جاتی ہے جو حرام ہے تو یہ سب کچھ اعتکاف کے مقصود کے منافی ہے۔ہاں اعتکاف کے دوران گھر کا کوئی فرد ملنے کے لیے آئے اور باتیں کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی ﷺاعتکاف میں تھے تو حضرت صفیہ ؓ ملاقات کے لیے تشریف لائیں اور انہوں نے آپ سے کچھ باتیں بھی کیں۔خلاصہ کلام یہ کہ انسان کو چاہیے وہ اپنے اعتکاف کو تقرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ بنا لے۔اعتکاف صرف مسجد میں ہوتا ہے، گھر میں نہیں ہوتا ۔ مسجد کے علاوہ کہیں بھی اعتکاف کرنا صحیح نہيں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :’’ جب تم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں ہو تو عورتوں سے مباشرت نہ کرو ‘‘ البقرة ( 187 ) ۔ فرمان الٰہی کے اس حکم میں عورتیں بھی شامل ہیں کہ اگر خواتین نے اعتکاف کرنا ہو تو وہ بھی مسجد میں ہی کریں۔عورتوں کے لیے گھرمیں اعتکاف کرنا جائزنہيں کیونکہ نبی ﷺ کی ازواج مطہرات نے نبی ﷺسے مسجد میں اعتکاف کرنے کی اجازت طلب کی تو آپﷺ نے انہیں اجازت دے دی ۔ گویا اعتکاف کرنے کی جگہ میں مرد اور عورت کےلیے کوئی تخصیص نہیں ہے لہذا عورت بھی مسجد میں ہی اعتکاف کرے گی۔ کیوں کہ قرآن حکیم اوراحادیث نبویہ میں عورت کےلیے کوئی تخصیص نہیں بتائی گئی۔ زیرنظر کتابچہ ’’ اعتکاف اور خواتین ‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کا مرتب شدہ ہے جس میں انہوں نے خواتین کےلیے اعتکاف کرنے کی شرعی حیثیت اور آداب وشرائط کو عام فہم انداز میں قرآن وحدیث کی روشنی میں پیش کیا ہے اللہ تعالیٰ محترمہ کی تمام دینی واصلاحی اور دعوتی کاوشوں کوقبول فرمائے اور اسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین) محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ (م۔ا)
انسان کے دل میں ہر وقت مختلف قسم کے خیالات و جذبات ابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں۔یہی جذبات وخیالات جب کسی کام کا تانا بانا بنتے ہیں تو وہ نیت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں،اور جب نیت اپنے اعضاء وجوارح کو عملی جامہ پہنانے پر پوری طرح چوکس کر دیتی ہے تو یہ عزم کہلاتا ہے۔اگر انسان کے دل میں خیالات وجذبات ،ایمان اور عمل صالح کے تحت اپنا تانا بانا بنتے اور باہر نکل کر کچھ کرنے کے لئے مچلتے ہیں تو انسان کی زبان سے خیر بھرے الفاظ کا اخراج ہوتا ہے لیکن جب انسان کی دل میں فحش قبیح اور گناہ آلود جذبات وخیالات ابھر رہے ہوتے ہیں تو زبان سے بھی گندے اور گناہ پر مبنی الفاظ نکلتے ہیں۔اسلام نے ہمیں سچی اور اچھی بات کہنے،اور فحش گوئی و بے ہودہ گفتگو کرنے سے منع کیا ہے۔حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ حفظ حیا ،گفتگو اور تحریر‘‘ معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے اپنی گفتگو اور تحریر میں حیاء کی حفاظت اور اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور بے حیائی وفحش گوئی کی مذمت کی ہے۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
قرآن مجید اللہ تعالی کی وہ آخری کتاب ہے،جسےاس نے اپنے آخری پیغمبر جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل فرمایا ہے۔ یہ کتاب قیامت تک آنے والے لوگوں کےلئے ذریعۂ ہدایت و رُشد اور راہ نجات ہے۔ یہ کتاب ایک ایسی گائیڈ بک ہے ،جو کسی بھی انسان کے لئے ہرقسم کے حالات وواقعات میں شاندار اور کامیاب رہنمائی کرتی ہے۔ یہ کتاب آسمانی وزمینی علوم کا احاطہ کرنے والی ہے۔ یہ دنیا کی وہ تنہا معجزاتی کتاب ہے، جسے بار بار پڑھنے سے بوریت اوراکتاہٹ کی جھلک بھی محسوس نہیں ہوتی اور ہر بار پڑھتے وقت اس کلام کی گہرائی کا ادراک ہوکر نئی معلومات انسان کے ذہن کو ملتی ہے۔اس کتاب کی حقانیت کے لئےصرف ایک ہی دلیل کافی ہے کہ اس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے، آج تک اس میں سے ایک حرف کی معلومات کو کوئی غلط ثابت نہیں کرسکا اور نہ ہی کبھی کرسکے گا۔ یہ اس کتاب کاکھلم کھلا چیلنج ہے۔اسی طرح اس کتاب کو مضبوطی سے تھام کرچلنے والا انسان کبھی ناکام ونامراد نہیں ہوا ہے اورنہ ہی کبھی ہوگا۔ اس کتاب میں کوئی تحریف وتبدیلی نہیں کرسکتا،جیسا کہ سابقہ کتب (تورات اورانجیل وغیرہ) میں ہوا ہے، کیونکہ اس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ رب العالمین نے اٹھارکھی ہے۔[الحجر:۹] لیکن مستشرقین اور دشمنان اسلام کی جانب سے ہر دور میں اس کی حقانیت پر اعتراضات اور شبہات کئے جاتے رہے ہیں،اور علماء اسلام ان کا کما حقہ جواب دیتے رہے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب"قرآن پاک پرچند شبہات کا ازالہ"محترم سید محمد تقی فاطمی کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نے قرآن مجید کی غیب سے متعلق پانچ معروف باتوں (کہ ان پانچ چیزوں یعنی قیامت ،بارش ،رحم مادر میں جنین،کل کیا کمائے گا اور موت کا علم صرف اللہ تعالی کو ہی ہے)پر کئے گئے اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیا ہے۔ اللہ تعالی اس حوالے سے سر انجام دی گئی ان کی ان خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے سب سے آخری کتاب ہے ۔جسےاللہ تعالی نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں،عالم اسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، جبکہ مغرب ،الجزائر ،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت امام نافع بروایت ورش ، لیبیا ،تیونس اور متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع ،مصر، صومالیہ، سوڈان اور حضر موت میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج اور متداول ہے۔ہمارے ہاں مجلس التحقیق الاسلامی میں ان چاروں متداول روایات(اور مزید روایت شعبہ) میں مجمع ملک فہد کے مطبوعہ قرآن مجید بھی موجود ہیں۔عہد تدوین علوم سے کر آج تک قراءات قرآنیہ کے موضوع پر بے شمار اہل علم اور قراء نے کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔الدرۃ المضیئہ علامہ ابن الجزری کی قراءات سبعہ کے بعد والی قراءات ثلاثہ پر اہم ترین اساسی اور نصابی کتاب ہے ۔ اللہ تعالی نے اسے بھی شاطبیہ کی مانند بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے،جو قراءات ثلاثہ کی تدریس کے لئے ایک مصدر کے حیثیت رکھتی ہے۔متعدد علماء اور قراءنے اس کی شروحات لکھی ہیں، جنہیں یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے ۔زیر نظر کتاب '' قرۃ المرضیۃ شرح الدرۃ المضیئہ"شیخ القراءقاری فتح محمدپانی پتی کی تالیف ہے۔جس میں مولف نے شاطبیہ کو انتہائی آسان اور سہل انداز میں پیش کیا ہے۔ اور قراءات سبعہ سے متعلقہ تمام اہم مباحث کو ایک جگہ جمع فرما دیا ہے۔قاری فتح محمدپانی پتی علم قراءات کے میدان میں بڑا بلند اور عظیم مقام ومرتبہ رکھتے ہیں۔آپ نے علم قراءات پر بیسیوں علمی وتحقیقی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ اللہ تعالی قراء ات قرآنیہ کے حوالے سے سر انجام دی گئی ان کی ان خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالی نے انسان کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے ،اور مرد وعورت میں ظاہری تمیز کرنے کے لئے مرد کو داڑھی جیسے خوبصورت زیور سے مزین کیا ہے۔داڑھی مرد کی زینت ہے ،جس سے اس کا حسن اور رعب دوبالا ہو جاتا ہے۔داڑھی خصائل فطرت میں سے ہے ۔ تمام انبیاء کرام داڑھی کے زیور سے مزین تھے۔یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالی کی عطا کردہ اس فطرت کو بدلنا اپنے آپ کو عورتوں کے مشابہہ کرنا اوراللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنا ہے ،جو بہت بڑا گناہ ہے۔۔۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ داڑھی مرد مومن کا شعار ہے‘‘ معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں داڑھی کی اہمیت وفضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے فطرت کا عطیہ قرار دیا ہے۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
اسلام امن وسلامتی کا دین ہے ۔اسلام کے معنی اطاعت اور امن وسلامتی کے ہیں ۔یعنی مسلمان جہاں اطاعت الٰہی کا نمونہ ہے وہاں امن وسلامتی کا پیکر بھی ہے ۔ اسلام فساد اور دہشت گردی کو مٹانے آیا ہے ۔دنیا میں اس وقت جو فساد بپا ہے اس کا علاج اسلام کے سوا کسی اور نظریہ میں نہیں ۔ بد قسمتی سے اسلام دشمن قوتیں جہاد کو دہشت گردی کا نام دے کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔اسلامی تعلیمات کی رو سے جہاد کا مقصد خوف وہراس پھیلانا نہیں بلکہ ہر وہ کوشش جودین اسلام کی سربلندی کے لیے کی جائے وہ جہاد ہے ۔خواہ وہ کوشش انفرادی ہو یا اجتماعی، زبانی ہو یا قلمی ہو یا جانی بشرطیکہ اس کوشش میں نصب العین غلبہ دین ہو ۔زیر نظر کتاب ’’ جہاد اوردہشت گردی ‘‘مجلس فکر ونظر ، لاہور کے زیر اہتمام 22مارچ 2005ء جہاد اور دہشت گردی کے سلسلے میں منعقدہ سیمینار میں ملک بھر کے جید علماء اور سکالرز کی طرف سے پیش گئے مقالات کا مجموعہ ہے ۔جسے محترم ڈاکٹر محمدامین صاحب نے مرتب کر کے افاد ۂ عام کے لیے شائع کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان اس کاوش کو قبول فرمائے(آمین ) (م۔ا)
کسی بھی قوم کی نشوونما اور تعمیر وترقی کےلیے عدل وانصاف ایک بنیادی ضرورت ہے ۔جس سے مظلوم کی نصرت ،ظالم کا قلع قمع اور جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے اورحقوق کو ان کےمستحقین تک پہنچایا جاتاہے اور دنگا فساد کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں ۔تاکہ معاشرے کے ہرفرد کی جان ومال ،عزت وحرمت اور مال واولاد کی حفاظت کی جا سکے ۔ یہی وجہ ہے اسلام نے ’’قضا‘‘یعنی قیام عدل کاانتہا درجہ اہتمام کیا ہے۔اوراسے انبیاء کی سنت بتایا ہے۔اور نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتےہوئے فرمایا:’’اے نبی کریم ! آپ لوگوں کےدرمیان اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ کریں۔‘‘نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ مسلمانوں کے لیے دین ودنیا کے تمام امور میں مرجع کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کی تنہا ذات میں حاکم،قائد،مربی،مرشد اور منصف اعلیٰ کی تمام خصوصیات جمع تھیں۔جو لوگ آپ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوئے ا ن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سنگین وعید نازل فرمائی اور اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا کہ آپ کے فیصلے تسلیم نہ کرنے والوں کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔نبی کریمﷺ کےبعد خلفاء راشدین سیاسی قیادت ،عسکری سپہ سالاری اور دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ منصف وقاضی کے مناصب پر بھی فائزر ہے اور خلفاءراشدین نےاپنے دور ِخلافت میں دور دراز شہروں میں متعدد قاضی بناکر بھیجے ۔ائمہ محدثین نےنبی ﷺ اور صحابہ کرام کے فیصلہ جات کو کتبِ احادیث میں نقل کیا ہے ۔اور کئی اہل علم نے اس سلسلے میں کتابیں تصنیف کیں ان میں سے اہم کتاب امام ابو عبد اللہ محمدبن فرج المالکی کی نبی کریم ﷺ کے فیصلوں پر مشتمل ’’اقضیۃ الرسول ﷺ ‘‘ ہے ۔ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی ﷾نے جامعہ ازہر ،مصر میں اس کتاب کی تحقیق پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ادارہ معارف اسلامی ،لاہور نے اسکا اردو ترجمہ کرواکر شائع کیا۔اورپندرہ سال قبل حافظ عبد الرحمن مدنی ﷾ نےمجلس التحقیق الاسلامی،لاہور کے تحت الموسوعۃ القضائیۃ (اسلامی عدالتوں کے فیصلوں پر مبنی انسائیکلو پیڈیا) کے سلسلے میں کام کا آغازکیاجوکہ ابھی جاری ہے ۔اور چند سال قبل شیخ ڈاکٹرارکی نور محمد نے صحابہ کرام کے کتب ِحدیث وفقہ اورکتب سیر وتاریخ میں منتشر اور بکھرے ہوئے فیصلہ جات کو ’’اقضیۃ الخلفاء الراشدین ‘‘کے نام سے جمع کرکے جامعہ اسلامیہ ،مدینہ منور ہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ اشاعت کتب کے عالمی ادارے دارالسلام نے نےاسے دو جلدوں میں شائع کیا ۔زیر نظرمقالہ ’’نبی کریم ﷺ عدالتی فیصلے ‘‘ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ﷾(مدیر ماہنامہ محدث،لاہور) کا در اصل وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے پیش کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔موصوف نے اس مقالہ میں 986 فیصلوں کو مستند ذرائع سےجمع کر کے جدید قانونی ترتیب کے مطابق اس طر ح پیش کیا کہ موصوف کے اس کا م کو اس موضوع پر کئے گئے تمام تحقیقی کاموں میں انفرادی اور امتیازی حیثیت حاصل ہے۔اوراس مقالہ میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ موصوف نے اپنے مقالہ کو یونیورسٹی میں پیش کرتے وقت فیصلوں کی کمپیوٹرائزیشن کی اور ایک ایسا سوفٹ وئیر تیار کیا جو نہ صرف سی ڈی بلکہ انٹرنیٹ پر بھی آن لائن کام کرسکتا ہے۔اس سافٹ وئیر میں موضوع کے اعتبار سے نمبر کے لحاظ سے یا کسی بھی لفظ کے ذریعے مطلوبہ مقام تک رسائی ہوسکتی ہے اور کسی بھی فیصلے کوتلاش کرکے اس کو پرنٹ کیا جاسکتا ہے۔ مقالہ نگار ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ﷾ محتر م جناب ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی ﷾ (مدیر اعلی ماہنامہ محدث ، بانی و مدیر جامعہ لاہورالاسلامیہ،لاہور )کے صاحبزادے ہیں۔ موصوف ڈاکٹر حسن مدنی صاحب تکمیل حفظ کے بعد درس نظامی کے لیے جامعہ لاہور میں داخل ہوئے۔درس نظامی کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کو بھی جاری رکھا۔ 1992ء میں جامعہ لاہورالاسلامیہ سے فراغت کے بعد جامعہ تدریس اور مجلس التحقیق الاسلامی اور ماہنامہ محدث سے منسلق ہوگے ۔کئی سال مجلس التحقیق اسلامی کے ناظم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے اس دوران انہوں نے تقریبا ایک درجن کتب شائع کیں۔جن کو اہل علم او ر عوام الناس میں قبولِ عام حاصل ہوا ۔اس کے ساتھ ساتھ آپ طلباء جامعہ کے لیے قائم کے گے ’’لاہورانسٹی ٹیوٹ فار کمپیوٹر سائنسز‘‘کے پرنسپل بھی رہے۔اس کے علاوہ آپ نے جامعہ سے فراغت کے بعد ماہنامہ محدث میں معاون مدیرِ محدث کے طور پر کام کا آغاز کیا اور فروری 2001 سے بطور مدیر محدث خدمات سرانجام دے رے ہیں ۔اور تقربیا 8سال سے جامعہ لاہور الاسلامیہ(رحمانیہ) کے مدیر التعلیم اور اس کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں علوم اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ حال ہی میں ان کی دینی وتحقیقی صحافی خدمات کے اعتراف میں انہیں کتاب وسنت کی اشاعت کے عالمی ادارے 'دار السلام انٹرنیشنل' کے زیر اہتمام قائم ہونے والی اہل علم وقلم کی تنظیم 'اہل حدیث رائٹرز فورم' کا صدر مقرر کیا گیا ہے۔ آپ نے اپنی ادارت میں ماہنامہ محدث کے خاص نمبرز( فتنہ انکار حدیث نمبر،اصلاحی نظریات پر اشاعت خاص ، تصویر نمبر، امامت زن نمبر،اشاعت خاص مسئلہ توہین رسالت ،تہذیب وثقافت پر خصوصی اشاعت ،تحریک نسواں پر اشاعت خاص،اشاعت خاص بر المیہ سوات وغیرہ ) کے علاوہ پر ویزیت اور غامدیت کے رد میں قیمتی مضامین شائع کیے اور کئی کرنٹ موضوعات پر آپ نے بڑے ہی اہم اداریے اور مضامین تحریر کیے بالخصوص مشرف دور میں حدودآرڈیننس اور حقوق نسواں بل پر آپ کی تحریری کاوشیں انتہائی لائق تحسین ہیں۔اور آپ دینی مدارس کی تعلیم وترقی کے حوالے سے بڑے فکر مند ہیں اس حوالے آپ کئی مقالات لکھ چکے ہیں۔ ماہنامہ محدث کے معروف کالم نگار محترم عطاء اللہ صدیقی سے قیمتی مضمون لکھوا کر شائع کرنا بھی آپ ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔اور موصوف کئی قومی وبین الاقوامی کانفرنسز میں مختلف موضوعات پر تحقیقی مقالات بھی پیش کرچکے ہیں ۔اللہ تعالیٰ موصو ف کےعلم وعمل ان کی دینی وتعلیمی اور صحافتی خدمات میں اضافہ فرمائے ۔ اور محدث کی 45 سالہ علمی وتحقیقی روایت کو تسلسل کے ساتھ باقی رکھنے کی توفیق عنائت فرمائے (آمین)(م۔ا)
سلیم رؤف صاحب﷾ ایک معروف مبلغ اور داعی ہیں۔آپ نے تبلیغ دین کے لئےایک منفرد طریقہ اختیار کرتے ہوئے ہر موضوع کو کہانی کی شکل میں پیش کیا ہے اور بے شمار موضوعات پر لکھا ہے۔آپ نے کتابچوں کے نام بڑے پرکشش او ر جاذب نظر ہوتے ہیں،عنوان کو دیکھ کر انہیں پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔مثلا"ننھا مبلغ"،"واہ رے مسلمان"،"نایاب ہیرا"،"شیطان سے انٹرویو"،"بازار ضرور جاوں گی"۔"اور میں مر گیا" وغیرہ وغیرہ۔آپ کے یہ چھوٹے چھوٹے کتابچے عامۃ الناس میں انتہائی مقبول اور معروف ہیں۔ یہ چھوٹا سا کتابچہ"اندر جانا منع ہے" بھی محترم سلیم رؤف صاحب﷾ کے دیگر اصلاحی کتابچوں کی طرح روز مرّہ زندگی میں سرزد ہونے والی عملی کوتاہیوں، دین سے دوری، مغربیت اور مادہ پرستانہ ذہن کی اصلاح کیلئے نہایت سادہ، شستہ اور رواں واقعاتی اسلوب میں تحریر کی گئی ایک عمدہ کاوش ہے۔ چند صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ ہماری معاشرتی کوتاہیوں کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے۔اور ہمیں اپنی اور اپنی اولاد کی اصلاح اور اسلام کے مطابق ان کی تربیت کرنے کی ترغیب دیتا ہے ،تاکہ ہماری دنیا بھی سنور جائے اور ہماری آخرت بھی بن جائے۔اللہ تعالی مولف کی ان کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک ﷾ہندوستان کے ایک معروف مبلغ اور داعی ہیں۔آپ اپنے خطبات اور لیکچرز میں اسلام اور سائنس کے حوالے سے بہت زیادہ گفتگو کرتے ہیں ،اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو کچھ بتا دیا تھا ،آج کی جدید سائنس اس کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔اور یہ کام وہ زیادہ تر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت کرتے ہیں ،تاکہ ان کی عقل اسلام کی حقانیت اور عالمگیریت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔اسلام اگرچہ سائنس کی تائید کا محتاج نہیں ہے ،اور اس کا پیغام امن وسلامتی اتنا معروف اور عالمگیر ہے کہ اسے مسلم ہو یا غیر مسلم دنیا کا ہر آدمی تسلیم کرتا ہے۔لیکن میرے خیال میں سائنس سے اسلام کی تائید میں غیر مسلموں کو کوئی عقلی دلیل پیش کرنے میں کوئی برائی والی بات بھی نہیں ہے۔لیکن بعض احباب ان کے اس طرز عمل سے نالاں ہیں ۔ان کے نزدیک اسلام کے پیغام میں اتنی زیادہ قوت موجود ہے کہ ہمیں سائنس کی تائید وغیرہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔زیر تبصرہ کتاب " اسلام اور جدید سائنس نئے تناظر میں (ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطبات کی روشنی میں)" بھی اسی ضمن میں لکھی گئی ہے۔جو محترم محمد ظفراقبال صاحب کی کاوش ہے۔ ان کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ جس طرح مغرب میں عیسائیت اور سائنس کے اجتماع سے لوگ عیسائیت سے بیزار ہو گئے اور انہوں نے سائنس کو اپنا مذہب بنا لیا۔بہر حال یہ ڈاکٹر ذاکر نائیک﷾ کے اس طریقہ کار پر ایک تحقیقی مقالہ ہے ،جس میں صحت اور ضعف دونوں کا احتمال ہو سکتاہے۔اہل علم سے گزارش ہے کہ وہ کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی آراء سے ضرور آگاہ کریں ،تاکہ صحیح منہج سامنے آ سکے۔(راسخ)
اسلامی نظامِ معیشت کے ڈھانچے کی تشکیل نو کا کام بیسویں صدی کے تقریبا نصف سے شروع ہوا ۔ چند دہائیوں کی علمی کاوش کے بعد 1970ءکی دہائی میں اس کے عملی اطلاق کی کوششوں کا آغاز ہوا نہ صرف نت نئے مالیاتی وثائق ،ادارے اور منڈیاں وجود میں آنا شروع ہوئیں بلکہ بڑے بڑے عالمی مالیاتی اداروں نے غیر سودی بنیادوں پرکاروبار شروع کیے۔بیسوی صدی کے اختتام تک اسلامی بینکاری ومالکاری نظام کا چرچا پورے عالم میں پھیل گیا ۔اسلامی مالیات اور کاروبار کے بنیادی اصول قرآن وسنت میں بیان کردیے گئے ہیں۔ اور قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے امت نے اجتماعی کاوشوں سے جو حل تجویز کیے ہیں وہ سب کے لیے قابل قبول ہونے چاہئیں۔کیونکہ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کے بنیادی مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات میں اختلافی مسائل کےحوالے سےے علماء وفقہاء کی اجتماعی سوچ ہی جدید دور کے نت نئے مسائل سے عہدہ برآہونے کے لیے ایک کامیاب کلید فراہم کرسکتی ہے ۔زیر نظر کتاب ’’اسلامی مالیات‘‘ معروف بینکار اور جدید اسلامی بینکاری اور اسلامی معیشت کےماہرمحترم محمد ایوب کی تصنیف ہے موصوف ایم اے اکنامس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامک اسٹدیز کے ساتھ ایک دینی مدرسے سے بھی فارغ التحصیل ہیں ۔ اس لیے آپ انگریزی زبان میں مہارت کے ساتھ ساتھ عربی زبان بھی سے شناساں ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب موصوف کی اسلامی معیشت کے حوالے سے انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔انگریزی کتاب کی اشاعت پر اس کی مقبولیت اور افادیت کے پیش نظر موصو ف نے خود ہی اس کے اردوترجمے کے فرائض انجام دئیے ۔یہ کتاب اپنے موضوع میں انتہائی جامع او رمستند حوالہ جات سے مزین ہے ۔یہ کتاب اسلامی بینکاری ومالکاری نظام کے فلسفہ ،اصولوں اور عملی شکل کے بارے میں طلباء علماء کاروباری طبقے او ر عوام الناس کی مؤثر آگاہی میں معاون ثابت ہوگی ۔ ان شاء اللہ(م۔ا)
زندہ رہنےکی خواہش کاسب سے بڑا مظہر یادگاریں بنانا اور یاد منانا ہے یادگاریں بنانے کاسلسلہ سیدنا نوح سے قبل کے زمانے میں اس وقت شروع ہوا جب یغوث ،یعوق ،ود سواع اور نسر نامی اللہ کےنیک بندے وفات پاگئے۔جب ان کی وفات کے بعد لوگوں کو ان کی یاد ستانے لگی تو شیطان نے ان دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ کیوں نہ ان کی تصویر یا مجسمہ بنالیا جائے ۔ تاکہ ان کی یاد کوباقی رکھا جاسکے۔تو ان مجسموں کے ساتھ آہستہ آہستہ وہی سلوک کیا جانے لگا جودورِ حاضر میں مزاروں ،بتوں اور محترم شخصیات سے منسوب اشیاء وآثار کےساتھ کیا جارہا ہے اس طرح دنیا میں سب سے پہلے شرک بنیاد رکھ دی گئی۔نبی کریم ﷺ نے یادگار یں مٹانے کے لیے باقاعدہ صحابہ کرام کوبھیجا اور صحابہ کرام نے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں یادگاریں جو شرک کے گڑھ تھے ،قبریں جوباقاعد پوجی جاتی تھیں اورتصوریں جو شرک کادروازہ کھولتی ہیں ان سب کوختم کرنے کےلیے باقاعدہ مہمات چلائیں تاکہ اسلامی رقبہ حکومت میں کہیں بھی ان کے آثار باقی نہ رہیں۔ زیرنظر کتاب ’’یادگاریں بنانا اور یاد منانا‘‘معروف مبلغہ ،مصلحہ،مصنفہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے یادگاریں بنانے اور پھر اس کو مخصوص انداز میں ہر سال منانے کی شرعی حیثت کو بیان کرتے ہوئے مو جودہ دور میں ان درباروں اورمزاروں اور قبروں پر ہونے والی بدعات وخرافات کو واضع کیا ہے ۔ اللہ تعالی کتاب کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔(آمین )محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن،لاہور میں بمع فیملی مقیم رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔(آمین) (م۔ا)
حج بیت اللہ ارکانِ اسلام میں ایک اہم رکن ہے بیت اللہ کی زیارت او رفریضۂ حج کی ادائیگی ہر صاحبِ ایمان کی تمنا اور آرزو ہے ہر صاحبِ استطاعت اہل ایمان کے لیے زندگی ایک دفعہ فریضہ حج کی ادائیگی فرض ہے اور اس کے انکار ی کا ایمان کامل نہیں ہے اور وہ دائرہ اسلام سےخارج ہے اجر وثواب کے لحاظ سے یہ رکن بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے تمام كتبِ حديث وفقہ میں اس کی فضیلت اور احکام ومسائل کے متعلق ابو اب قائم کیے گئے ہیں اور تفصیلی مباحث موجود ہیں ۔حدیث نبوی ہے کہ آپ نےفرمایا : الحج المبرور لیس له جزاء إلا الجنة’’حج مبرور کا ثواب جنت سوا کچھ اور نہیں ۔دیگر عبادات کی طرح حج بھی ایک اہم ترین عبادت ہے اوریہ اسی وقت اللہ تعالیٰ کےقابل قبول ہےجب مناسک حج کو نبیﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ادا کیا جائے ۔ اس موضوع پر اب تک اردو و عربی زبان میں چھوٹی بڑی بیسیوں کتب لکھی جاچکی ہیں ۔ان میں سےاردو زبان کی کئی اہم کتب کتاب وسنت ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ زیرنظر کتاب ’’عمر ہ اورحج رسول اللہ کےطریقے پر‘‘ محترم عادل سہیل ظفر﷾ کی تالیف ہے جس میں انہوں نے عشرہ ذوالحجہ کی اہمیت وفضیلت اور ان ایام میں کی جانے والی غلطیوں کو بیان کرنے کےبعد حج کی فرضیت وفضیلت او ر حج وعمر ہ کے جملہ احکام ومسائل کو مختصراً قرآن احادیث کے دلائل کی روشنی میں بیان کیا ہے ۔قارئین اس کتاب سے استفادہ کرکے حج وعمر ہ کونبی کریم ﷺ کے طریقے کےمطابق ادا کرسکتے ہیں ۔ مصنف موصوف نے یہ کتاب ویب سائٹ کےلیے بطور ہدیۃ عنائت کی ہے۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے( آمین) م ۔ا)
خدمتِ قرآن مجید کے طریقے بے شمار ہیں ۔۔اہل علم نے مختلف انداز میں قرآن مجید کی خدمت کی ہے ۔ ۔قرآن مجید اصلاً ایک کتاب ہدایت اور دستورالعمل ہے ۔ لیکن ضمناً اس میں بہت سے علمی مسائل پربھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔اور عربی زبان وادب کے علاوہ مختلف علوم وفنون کے بھی کتنے ہی عنوانات اس سے منور ہوجاتے ہیں۔یعنی قرآن مجید میں جہاں مختلف علوم وفنون کاذکر موجود ہے وہاں قرآن مجید میں حیوانات کےذکر بھی خاصی تعداد میں آیا ہے ۔زیر تبصرہ کتاب ’’ حیوانات قرآنی‘‘ مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی قرآن مجید میں بیان گئے جانوروں کے متعلق جامع کتاب ہے ۔ جس میں انہوں نے قرآن مجید میں مذکور تمام جانوروں کے ناموں کو بہ ترتیب حروف تہجی اس میں یکجا کرنے کےساتھ ساتھ عہد قدیم اور عہد جدید میں ان جانوروں کے متعلق جو معلومات مل سکیں انہیں بھی اس میں جمع کردیا ہے۔گویا قرآن مجید میں جن حیوانات کا ذکر آیا ہےان کے اسماء صفات ،افعال ومتعلقات کے حوالے سےیہ کتاب ایک جامع لغت ہے (م۔ا)
اسلامی تہذیب شائستگی اور وقار کی حامل ہے ۔ایک مسلمان شعوری طور پر مسلمان بھی ہو اور پھر وہ کسی کے خلاف تہذیب حرکت کا ارتکاب کر ے یہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔دور حاضر میں مسلمانوں کی اکثریت مغربی ممالک کی اس حوالے سے بہت تعریف کرتی ہے کہ ان کےہاں گلیاں ،سرکیں اور دکانیں وغیرہ بہت صاف ہوتی ہیں اور وہ لوگ ایک دوسرے پر کوئی اعتراض اورایک دوسرے کوروک ٹوک نہیں کرتے لیکن وہ ایمان جیسی عظیم نعمت سے محروم ہیں ۔ فرمان نبوی کے مطابق کے 60یا70 سے زیادہ شاخیں ہیں ۔ جن میں افضل شاخ توحید کا اقراراور اس کی ادنی ٰ شاخ رستے سےتکلیف دینے والی چیز کا ہٹا دینا ہے ۔زیرنظرکتابچہ’’ایمان کی ادنی ٰ شاخ راستے سےتکلیف داہ چیز کا ہٹا دینا‘‘ میں محترمہ ام عبد منیبہ صاحبہ نے ایمان کی ادنیٰ شاخ کو موضوع بحث بناتے ہوئے بڑے عام انداز میں اس فرمان نبوی ’’الایمان بضع وسبعون او بضع ستون.....‘‘ کی وضاحت کی ہے اللہ تعالی ٰ ان کی اس کاوش کوعوام الناس کے لیے فائد مند بنائے (آمین) محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ (م۔ا)
اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کا مقصدِحیات محض اپنی عبادت اور اطاعت بنایا ہے اور اسے کئی امور کے کرنے اور کئی ایک سے بچنے کاامر فرمایا ہے ۔کرنے والے امور کو ’’اوامر‘‘ اور نہ کرنے والے امور کو ’’نواہی‘‘ کہا جاتا ہے ۔جس طر ح اللہ کے حکم کے مطابق کوئی کام کرنا عبادت ہے اسی طرح اس کے حکم کے مطابق منہیات سے بچنا بھی عبادت ہے ۔جیسا کہ ارشاد نبوی ﷺ ہے :’’ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا سے بچ جاؤ تمام لوگوں سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤ گے ‘‘ زیر نظر کتابچہ میں شیخ محمد صالح المنجد ﷾نے ایسی منہیات کاذکر فرمایا ہے جو ہماری دنیوی زندگی میں اکثر پیش آتی ہیں اورہم بلا جھجک ان کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ۔ہر مسلمان مرد وزن کو اس کا خوب مطالعہ کرنا چاہیے۔تاکہ وہ اللہ کی حرام کردہ اشیاء سے بچ سکے ۔اللہ تعالیٰ ہر مسلم مومن کو منہیات سے بچائے اور اوامر کی پابندی کرنے کی توفیق فرمائے (آمین) (م۔ ا)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانیت کی ہدایت وراہنمائی کے لیے جس سلسلۂ نبوت کا آغاز حضرت آدم ؐ سےکیاگیا تھا اس کااختتام حضرت محمد ﷺ کی ذات ِستودہ صفات پر کردیا گیا ہے۔اور نبوت کے ختم ہوجانے کےبعددعوت وتبلیغ کاسلسلہ جاری وساری ہے ۔ دعوت وتبلیع کی ذمہ داری ہر امتی پرعموماً اور عالم دین پر خصوصا عائد ہوتی ہے ۔ لیکن اس کی کامل ترین اور مؤثر ترین شکل یہ ہےکہ تمام مسلمان اپنا ایک خلیفہ منتخب کر کے خود کو نظامِ خلافت میں منسلک کرلیں۔اور پھر خلیفۃ المسلمین خاتم النبین ﷺ کی نیابت میں دنیا بھر کی غیر مسلم حکومتوں کو خط وکتابت او رجہاد وقتال کےذریعے اللہ کے دین کی دعوت دیں۔اور ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ کہ وہ دعوت وتبلیع او راشاعتِ دین کا کام اسی طرح انتہائی محنت اور جان فشانی سے کرے جس طرح خو د خاتم النبین ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام کرتے رہے ہیں ۔ مگر آج مسلمانوں کی عام حالت یہ ہے کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ تو بہت دور کی بات ہے وہ اسلامی احکام پرعمل پیرا ہونے بلکہ اسلامی احکام کا علم حاصل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے ۔ اور یہ بات واضح ہی ہے کہ دعوت وتبلیغ سے پہلے عمل کی ضرورت ہوتی اور عمل سے پہلے علم کی ۔زیرنظرکتاب ’’دعوت واصلاح کے چند اہم اصو ل‘‘محترم نعیم الحق نعیم (سابق مدیر ہفت روزہ الاعتصام، وسابق مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور) کی دعوت واصلاح کے حوالےسے اہم کاوش ہے ۔یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے حصہ اول میں دعوت وتبلیغ کی اہمیت، داعی ومبلغ کے اوصاف واخلاق اوردعوت وتبلیغ کے صحیح طریق کار کے متعلق چند اصولی اور انتہائی بنیادی باتیں پیش کی ہیں۔اور دوسرے حصہ میں مصنف موصوف کے اسی موضوع کے سلسلے میں وہ مضامین ہیں جو انہوں نے نورستان کے مجلہ ’’تحریک خلافت‘‘کے لیے بطور اداریہ لکھے تھے۔محترم قای نعیم الحق نعیم ایک پختہ عالم دین اور اچھے محقق، مؤلف ، ہر دلعزیز محنتی استاد اور اعلیٰ درجہ کے انشاء پرداز،شاعر،امت مسلمہ کے لیے درد رکھنے والے تھے ۔مرحوم جماعت کا اثاثہ او رعلماء میں ایک ممتاز حیثیت کے حامل تھے ۔ آپ کے سینکڑوں شاگرد اور ایک بڑاحلقہ اثر آپ کی علمی خدمات او ردینی جذبے کاشاہدہے۔ موصوف کو مولانا عطاء اللہ حنیف کی زیرنگرانی’’تنقیح الرواۃ فی احادیث تخریج مشکاۃ ‘‘ پر علمی کام کے علاوہ بھی تحقیقی وتصنیفی کام کرنے کا موقعہ ملااور کچھے عرصہ آپ نےجماعت کے موقرجریدےہفت روزہ ’’ الاعتصام ‘‘میں بطور مدیر خدمات انجام دیں۔آپ کے مخصوص علمی ذوق اور محنت ولگن کے باعث الاعتصام نے اس عرصہ میں علمی ودینی جرائد میں خاص امتیاز حاصل کیا ۔قاری صاحب مرحوم کاجامعہ لاہور الاسلامیہ اور اس سے متعلقہ اداروں سے بھی بڑا قریبی تعلق رہا ۔جامعہ لاہورالاسلامیہ میں آپ کافی عرصہ مدیر تعلیم اور استاذ کے طور پر اپنی مخلصانہ خدمات انجام دیتے رہے ۔اس عرصہ میں طلبہ میں علمی ذوق کی آبیاری اور خلوص وتقویٰ کی اعلیٰ تربیبت آپ کا خاص امتیاز رہا ۔ جامعہ کے کئی ممتاز فاضلین موصوف کے شاگرد ہیں ۔جامعہ لاہور الاسلامیہ میں کلیۃ القرآن کے آغازکے موقع پر کلیۃالقرآن کی مجلسِ اعلیٰ کے اراکین میں آپ بھی شامل تھے ۔محدث میں آپ کی شرکت اور اس کے اعلیٰ معیار کے لیے آپ کی جدوجہد کا عرصہ بھی 7؍8 سے کم نہیں ۔آپ کے کئی رشحات قلم محدث کی زینت بنتے رہے ۔ قاری صاحب مرحوم 30جنور ی 1999ء کو ایک ٹریفک حادثہ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے (انا للہ واناالیہ راجعون) اللہ تعالی ٰ موصوف کی تحقیقی وتصنیفی ،تبلیغی و تدریسی اورصحافتی خدمات کو شرف ِقبولیت سے نوازے اور ان کی قبر پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے (آمین) (م۔ا)
نبی کریم ﷺنے فرمایا: "دعا عبادت کا مغز ہے۔"یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کو یہ ہر گز پسند نہیں کہ دعا جیسی اہم اور خالص عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کیا جائے۔دعا کے لئے معیار ،نبی کریم ﷺکا اسوہ حسنہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ نبی کریم ﷺدعا کیسے کیا کرتے تھے اور کن الفاظ سے کرتے تھے۔ہماری پیدائش سے لیکر موت تک جو بھی الجھنیں ،پریشانیاں یا ضرورتیں ہمیں پیش آ سکتی ہیں ،اس کے لئے نبی کریم ﷺکی دعاؤں پر مشتمل الفاظ موجود ہیں۔آپ بعض دعائیں ایک ایک دفعہ پڑھتے تھے تو بعض ایک سے زائد بھی پڑھا کرتےتھے،جس کی گنتی کے لئے وہ ہاتھوں کی انگلیوں کو استعمال میں لاتے تھے۔۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ دعا اذکار اور انگلیاں ‘‘ معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے دعا کی اہمیت وفضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے نبی کریم کی مسنون دعائیں جمع فرما دی ہیں۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
انسان کی ان بنیادی ضرورتوں میں ایک ہے جو انسان کو معاشرے کے آغاز سے ہی درکار ہیں۔ سچ تو یہ کہ یہ ضرورت ہی حضرت ِ انسان کی پہلی ضرورت تھی ۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ کی تخلیق کی ، ان میں روح پھونکی تو حوا کی صورت میں ان کی اس معصوم خواہش کو پورا کردیا ۔اس سب سے پہلے انسانی تعلق کے بعد انہیں جنت جیسا بے مثال گھر دیا گیا۔ ہبوط دنیا سے لے کر آج تک یہ سلسلہ چل رہا ہے او رتاقیامت چلتا رہےگا۔انسان کی یہ ضرورت کسی دور میں بغیر کسی لمبی چوڑی تمہید کے والدین کے کسی کو صر ف اتنا کہہ دینے سے پوری ہوجاتی تھی کہ فلاں بیٹا یا فلاں بیٹی میری ہے ۔ اور مناسب موقع پر منگنی یانکاح کے ذریعے بات پکی کر لیتے ۔دور حاضر میں پرانی اقدار دم توڑ رہی ہیں ۔مادیت بلند معیارِ زندگی اور حصول تعلیم نے نکاح کا معیار بھی بدل دیا ہے ۔ ہرکام کاروباری انداز اختیار کر گیا ہے ۔ ہر انسان مصروف ہے اس لیے رشتوں کی تلاش کےلیے بہت سے ادارے کام کررہے ہیں ۔اور اخبارات ورسائل میں ضرورت رشتہ ، تلاش رشتہ، شتہ مطلوب ہے کے نام سے اشتہارات ایک عام معمول ہے ۔اس کے باوجود رشتوں کی تلاش دورحاضر کا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ جس کی وجہ یقینا اسلامی تعلیمات سے دور ی ہے ۔ زیر نظر کتاب’’رشتے کیوں نہیں ملتے ؟‘‘معروف کالم نگار اور مصنفہ کتب کثیرہ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے ہمارے معاشرے میں رشتوں کے حوالے پائی جانے والی ، رکاوٹو ں اور مشکلات اور مصائب کو بیان کرکے شریعت اسلامیہ میں موجود انتخاب رشتہ اور شادی بیاہ کی تعلیمات کو بڑے احسن انداز میں بیان کیا ہے ۔عائلی معاملات کی اصلاح کےلیے اس کا مطالعہ مفید ہوگا ۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن،لاہور میں بمع فیملی مقیم رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔(آمین) (م۔ا )