دین کی سہولت اور نبی کریم ﷺکےآسانی کرنے کے مظاہر دین کے ہرگوشے میں ہیں ۔اعتقادات،عبادات اورمعاملات کو ئی پہلو اس سے خالی نہیں۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے بیت اللہ کا حج ہے ۔بیت اللہ کی زیارت او رفریضۂ حج کی ادائیگی ہر صاحب ایمان کی تمنا اور آرزو ہے ہر صاحب استطاعت اہل ایمان کے لیے زندگی میں ایک دفعہ فریضہ حج کی ادائیگی فرض ہے ۔ا ور اس کے انکار ی کا ایمان کامل نہیں ہے اور وہ دائرہ اسلام سےخارج ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی عطاہ کردہ اور نبی کریم ﷺ کی بیان کردہ آسانیاں کثرت سے موجود ہیں ۔حج کےآغازہی میں آسانی ہے حتی کہ اس کی فرضیت صرف استطاعت رکھنے والے لوگوں پر ہے۔اس کے اختتام میں بھی سہولت ہے ۔مخصوص ایام والی عورت کی روانگی کا وقت آجائے تو طواف کیے بغیر روانہ ہوجائے۔ایسا کرنے سے نہ اس کے حج میں کچھ خلل ہوگا او رنہ ہی اس پر کوئی فدیہ لازم آئے گا۔اللہ کریم نےاپنے دین کو سراپا آسانی بنانے اور آنحضرت ﷺ کوسہولت کرنے والا بناکر مبعوث کرنے پر ہی اکتفا نہیں ،بلکہ امتِ اسلامیہ کو بھی آسانی کرنے والی امت بناکر بھیجا جیساکہ ارشاد نبوی ہے : فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ، وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ (صحیح بخاری :6128)’’ یقیناً تم آسانی کرنے والے نبا کر بھیجے گئے ہو ،تنگی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے‘‘۔ اجر وثواب کے لحاظ سے یہ رکن بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے تمام كتب حديث وفقہ میں اس کی فضیلت اور احکام ومسائل کے متعلق ابو اب قائم کیے گئے ہیں اور تفصیلی مباحث موجود ہیں ۔حدیث نبویﷺ ہے کہ آپ نےفرمایا الحج المبرور لیس له جزاء إلا الجنة ’’حج مبرور کا ثواب جنت سوا کچھ اور نہیں ۔مگر یہ اجر وثواب تبھی ہےجب حج او رعمر ہ سنت نبوی کے مطابق اوراخلاص نیت سے کیا جائے ۔اور منہیات سےپرہیز کیا جائے ورنہ حج وعمرہ کےاجروثواب سےمحروم رہے گا۔حج کے احکام ومسائل کے بارے میں اردو و عربی زبان میں چھوٹی بڑی بیسیوں کتب بازار میں دستیاب ہیں اور ہر ایک کا اپنا ہی رنگ ڈھنگ ہےزیرنظر کتاب ’’حج وعمرہ کی آسانیاں‘‘ شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر کے برادرگرامی محترم ڈاکٹر فضل الٰہی ﷾(مصنف کتب کثیرہ) کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے نہایت عمدہ اسلوب کے ساتھ حج وعمرہ کی آسانیوں کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔اور کتاب کو تیرہ حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصہ سے متعلقہ آسانیاں کی بیان کردی ہیں جن کی مجموعی تعداد ایک سو چار ہےان میں سے ہر ایک آسانی مستقل عنوان کےضمن میں پیش کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی اس منفرد کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
پیش لفظ |
|
|
اللہ تعالیٰ کا بندوں کے ساتھ آسانی اور تخفیف کا ارادہ فرمانا |
|
36 |
دین میں تنگی کا نہ ہونا اور اس کا سراپا آسانی ہونا |
|
37 |
نبی کریم ﷺ کا آسانی کرنے والا بنا کر مبعوث کیا جانا |
|
37 |
امت کو آسانی کرنے کا حکم نبوی ﷺ |
|
39 |
تالیف کتاب حکم نبوی ﷺ کی تعمیل کی ایک حقیر کوشش |
|
39 |
کتاب کی تیاری میں پیش نظر باتیں |
|
40 |
خاکہ کتاب |
|
41 |
شکر و دعا |
|
42 |
۔ا۔ |
|
|
فرضیت حج سے متعلقہ آسانیاں |
|
|
1۔استطاعت کے بغیر حج کا فرض نہ ہونا : |
|
|
آیت شریفہ |
|
43 |
مردوں کے لیے استطاعت میں شامل چار باتیں |
|
43 |
خواتین کے لیے استطاعت میں شامل پانچویں بات |
|
44 |
2۔زندگی میں صرف ایک حج فرض ہونا : |
|
|
دو حدیثیں |
|
46 |
ان حدیثوں کے متعلق دو باتیں : |
|
|
ا: حدیثوں پر ائمہ کے تحری کردہ عنوانات |
|
47 |
ب: صرف ایک دفعہ حج فرض ہونے پر اجماع امت |
|
48 |
3۔پیدل یا سواری پر حج کرنے کا اختیار : |
|
|
دو دلیلیں |
|
48 |
ان دلیلوں کے حوالے سے تین باتیں : |
|
|
ا: سواری کے وجود راستے کی شرط نہ ہونا |
|
49 |
ب: دونوں طرح حج کرنے کے جواز پر اتفاق |
|
49 |
ج: دونوں کی افضلیت میں علماء کا اختلاف |
|
49 |
4۔ حج و عمرہ پیدال کرنے کی نذر ماننے والوں کے لیے آسانی : |
|
|
دو حدیثیں |
|
50 |
ان کے حوالے سے چار باتیں : |
|
|
ا: عدم استطاعت کی صورت میں سوار ہونے کی اجازت |
|
52 |
ب: تا حد استطاعت پیدل جانا |
|
52 |
ج: سوار ہونے پر کفارہ |
|
52 |
د: کفارہ میں اونٹ ذبح کرنے کا مستحب ہونا اور بکری کفایت کرنا |
|
53 |
تنبیہ : |
|
|
صحیح حدیث سے کفارہ کے ثبوت کے بعد انکار کی گنجائش نہ ہونا |
|
53 |
5۔وقف فی سبیل اللہ سواری پر حج وعمرہ کی اجازت : |
|
|
دو حدیثیں |
|
54 |
پہلی حدیث پر امام ابن خزیمہ کا تحریر کردہ عنوان |
|
57 |
۔ب۔ |
|
|
حج میں رزق حلال طلب کرنےکی اجازت |
|
|
تین روایات |
|
58 |
ان کے حوالے سے چار باتیں |
|
61 |
ا: اعمال حج سے فراغت کے اوقات میں تجارت کا جواز |
|
61 |
ب: حجاج کو کرایہ پر سواریاں مہیا کرنے کاحج میں رکاوٹ نہ ہونا |
|
62 |
ج: خدمت حجاج کے لیے ملازمت کا حج میں رکاوٹ نہ ہونا |
|
62 |
د: سعودی دائمی مجلس افتاء کا فتویٰ |
|
62 |
۔ج۔ |
|
|
عمرے سے متعلقہ آسانیاں |
|
|
1۔ عمرے کی سارا سال اجازت ہونا : |
|
|
پانچ دلائل |
|
64 |
ان کے حوالے سے پانچ باتیں |
|
66 |
سعودی دائمی مجلس افتاء کا فتوی |
|
67 |
تنبیہ : 9تا13ذوا الحجہ کے دوران عمرہ کے متعلق دو آراء اور ان میں ترجیح |
|
68 |
2۔ سفر میں حج میں عمر : |
|
|
3۔ حج کو ختم کر کے عمرہ میں بدلنا : |
|
|
تین روایات |
|
70 |
ان روایات کے حوالے سے چار باتیں : ا: صحابہ کو سفر حج میں عمرہ کرنے کاحکم نبوی ﷺ |
|
72 |
ب: حج کو عمرہ میں بدلنے کا حکم نبوی ﷺ |
|
73 |
ج: ایسے لوگوں کی عمرے کے بعد احرام کی پابندی سے آزادی |
|
73 |
د: ان آسانیوں کا قیامت تک کے لیے ہونا |
|
73 |
۔د۔ |
|
|
حج و عمر میں نیابت سے متعلقہ آسانیاں |
|
|
چھ احادیث |
|
74 |
ا: استطاعت نہ رکھنے والے بوڑھے شخص کی طرف سے بیٹے کا حج و عمرہ |
|
74 |
ب: استطاعت نہ رکھنے والے معمر باپ کی طرف سے بیٹی کا حج |
|
75 |
ج: حج کیے بغیر فوت ہونے والے باپ کی طرف سے بیٹے کا حج |
|
75 |
د: نذر ماننےوالے فوت شدہ خاتون کی جانب سے بیٹی کاحج |
|
76 |
ہ: اپنے حج سے پہلے کسی دوسرے کی طرف سے حج نہ کرنا |
|
77 |
ان کے حوالے سے چھ باتیں : |
|
|
۔ہ۔ |
|
|
1۔ میقات سے پہلے احرام پہننا : |
|
|
ایک حدیث |
|
82 |
اس کے حوالے سے دو باتیں : |
|
|
ا: آنحضرت ﷺ اور صحابہ کا مدینہ طیبہ میں احرام پہننا |
|
83 |
ب: آپﷺ اور صحابہ کا میقات سے احرام کی نیت کرنا |
|
83 |
2۔ احرام سے پہلے سر کےبالوں کو جمانا : |
|
|
دو حدیثیں |
|
84 |
ان کے حوالے سے تین باتیں : |
|
|
ا: [تلبید] سے مراد |
|
85 |
ب: حدیث کی شرح میں امام نووی کا بیان |
|
86 |
ج: بالوں کے جمانے کادوسری حدیث سے بظاہر تعارض کا جواب |
|
86 |
3۔ میقات کے اندر موجود لوگوں کے لیے جائے احرام میں آسانی : |
|
|
دو روایتیں |
|
87 |
ان کے حوالے سے پانچ باتیں |
|
|
ا: مقامات میقات اور مکہ کے درمیان رہنے والوں کا اپنی جگہوں سے احرام باندھنا |
|
88 |
ب: اہل مکہ کا حج کا احرام مکہ سے باندھنا |
|
89 |
ج: مکہ میں موجود بیرونی لوگوں کا حج کا احرام مکہ سے باندھنا |
|
90 |
د: ارادہ حج کے بغیر میقات سے گزرنے والوں کا جائے ارادہ سے احرام باندھنا |
|
91 |
ہ: اہل مکہ کا احرام عمرہ کے لیے حدود حرم سے نکلنا |
|
93 |
4۔ جوتے اور تہبند نہ پانے والے محرم کے لیے آسانی : |
|
|
دو حدیثیں |
|
93 |
ان کے متعلق چار باتیں : |
|
|
ا: جوتے اور تہبند نہ آنے پر موزے اورشلوار پہننا |
|
95 |
ب: صحیح حدیث کے مطابق موزوں کا ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا |
|
95 |
ج: بحالت مجبوری شلوار پہننے پر اسے نہ پھاڑنا |
|
96 |
د: بحالت مجبوری موزے اورشلوار پہننے پر فدیہ کا نہ ہونا |
|
96 |
5۔ احرام کے لیے مخصوص نماز کا نہ ہونا : 6۔احرام باندھنے کے لیے وقت کی پابندی کا نہ ہونا |
|
97 |
ایک حدیث |
|
97 |
اس حوالے سے دو باتیں : |
|
|
ا: آنحضرت ﷺ کا احرام کی خاطر کوئی مخصوص نماز نہ پڑھنا |
|
97 |
ب: آنحضرت ﷺ کا اس کے لیے نہ وقت مخصوص کرنا اور نہ کسی وقت سے روکنا |
|
99 |
7۔معلق احرام باندھنے کا جواز : |
|
|
دو حدیثیں |
|
99 |
ان کے حوالے سے تین باتیں : ا : امام نووی کا بیان |
|
101 |
ب: امام بخاری اور امام نووی کے تحریر کردہ عنوانات |
|
101 |
ج : اسے اب نا درست کہنے کے لیے استدلال اور اس کے دو جوابات |
|
102 |
8۔ مطلق احرام کا معتبر ہونا : تین علماء کا اقوال |
|
103 |
ا ن کے حوالے سے تین باتیں |
|
|
ا : جمہور علماء کا اسے درست قرار دینا |
|
104 |
ب : اس کا معلق احرام جیسا ہونا |
|
104 |
ج : اس کے تعین کا بعد میں اختیار ہونا |
|
104 |
9۔ مشروط احرام باندھنا : |
|
|
ایک حدیث |
|
105 |
اس کے حوالے سے چھ باتیں : |
|
|
ا : اس پر امام نووی کا تحریر کردہ عنوان |
|
106 |
ب : ابن عمر کے علاوہ کسی صحابی سے اس کی مخالفت کا ثابت نہ ہونا |
|
106 |
ج : حدیث کے نہ پہنچنے کی بنا پر ابن عمر کا اس کا مخالف ہونا |
|
107 |
د : حدیث کے مقابلے میں کسی کی رائے کی کوئی حیثیت نہ ہونا |
|
107 |
ہ : اس حدیث پر اعتراضات اور ان کے جوابات |
|
108 |
و : مشروط احرام کے فوائد |
|
109 |
10۔ ناگہانی حالات میں غیر مشروط احرام سے نکلنے سے آسانی : |
|
|
ایک آیت شریفہ اور ایک حدیث |
|
110 |
ان دونوں کے متعلق پانچ باتیں : |
|
|
ا : آیت شریفہ میں موجود حکم کا ہر رکاوٹ پر چسپاں ہونا |
|
111 |
ب : صحیح بخاری میں ذکر کردہ قول کے مطابق ہر روکنے والی چیز سے [احصارہونا ] |
|
112 |
ج : [مَااسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ] [میسر آنے والی قربانی ] سے مراد |
|
112 |
د: روکے جانے پرقربانی کے وجوب کے متعلق دو آراء |
|
113 |
ہ : نفلی حج سےروکے جانے پر آئندہ سال حج کا فرض نہ ہونا |
|
113 |
11۔ قربانی نہ پانے والے [محصر] کے لیے آسانی : |
|
|
دس روزے رکھ کر حلال ہونا |
|
114 |
دو آراء |
|
114 |
12۔ محرم کا غسل کرنا |
|
115 |
ایک حدیث ائمہ اور ائمہ کے اس پر تحریر کردہ عنوانات |
|
115 |
13۔ محرم کا سر میں کھجلی کرنا : |
|
|
سابقہ حدیث سے اس کا ثبوت |
|
117 |
عائشہ ، ابن عمر ، ابن تیمیہ ، ابن باز کے فتاویٰ |
|
118 |
14۔ احرام دھونا یا تبدیل کرنا : |
|
|
چار علماء کے اقوال |
|
119 |
15۔ محرم کا سائے تلے آنا : |
|
|
دو حدیثیں |
|
120 |
ان کے متعلق چار باتیں : |
|
|
ا : نمرہ میں سورج ڈھلنے تک آنحضرت ﷺ کا خیمے کے سائے تلے بیٹھنا |
|
122 |
ب : دوسری حدیث پر امام ابو داؤد کاتحریر کردہ عنوان |
|
122 |
ج : علامہ ابن قدامہ کا بیان |
|
122 |
د: شیہ ابن باز کا فتویٰ |
|
123 |
16۔ لاعلمی میں کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے پر دم کا واجب نہ ہونا : |
|
|
17۔ لا علمی میں پہنی ہوئی قمیص سر کی جانب سے اتارنا : |
|
|
دو حدیثیں |
|
124 |
ان کے حوالے تین باتیں |
|
126 |
ا : لاعلمی سے جبے میں احرام باندھنے ، خوب خوشبو لگانے اور بحالت احرام قمیص میں ہونے پر فدیہ نہ ہونا |
|
126 |
ب : لاعلمی میں پہنی ہوئی قمیص سر کی طرف سے اتارنا |
|
127 |
ج: قمیص اتارتے وقت سر ڈھانپنے پر فدیہ نہ ہونا |
|
127 |
18۔ بوقت ضرورت محرم کا ہتھیار بند ہونا: |
|
|
ایک حدیث |
|
127 |
اس حوالے سے تین باتیں : |
|
|
ا : امام بخاری کا اس پر تحریر کردہ عنوان |
|
128 |
ب: علامہ ابن قدامہ کی تحریر |
|
128 |
ج: مکہ مکرمہ میں ہتھیار اٹھانے کی ممانعت کا عام حالات میں ہونا |
|
128 |
19۔ محرم کے لیے آنکھوں کے علاج کی اجازت : |
|
|
ایک حدیث |
|
129 |
عائشہ ؓ کا فتویٰ اور ابن عمر ؓ کا عمل |
|
130 |
ان تینوں روایات کے متعلق چھ باتیں : |
|
|
ا : پہلی حدیث پر بعض محدثین کے تحریر کردہ عنوانات اور اس کی شرح میں ا قوال |
|
131 |
ب : عائشہ ؓ کا باعث زینت علاج کو ناپسند کرنا |
|
132 |
ج: ابن عمر کا خوشبو پر مشتمل علاج سے روکنا |
|
132 |
د : بوقت ضرورت خوشبو پر مشتمل علاج کرنے کی بنا پر فدیہ |
|
132 |
ہ : بوقت ضرورت خالی از خوشبو سرمہ استعمال کرنے اور اس پر فدیہ نہ ہونے پر اتفاق |
|
132 |
و: زینت کے لیے سرمے کا استعمال |
|
132 |
20۔ حالت احرام میں پچھنا لگوانا : |
|
|
اس کے متعلق دو حدیثیں |
|
133 |
محدثین کے عنوانات |
|
134 |
21۔ محرم کو بوقت ضرورت سر منڈانے کی اجازت : |
|
|
22۔ سرمنڈانے کے فدیے میں آسانی : |
|
|
ایک آیت شریفہ اورایک حدیث |
|
136 |
ان دونوں کے حوالے سے دو باتیں : |
|
|
ا : مجبوری کی حالت میں محرم کے لیے سرمنڈانے کا ثبوت |
|
138 |
ب: روزے ، صدقے یا قربانی میں سے ایک بطور فدیہ اختیار کرنا ۔ |
|
138 |
23۔ حالت احرام میں موذی جانوروں کو مانرے کی اجازت : |
|
|
دو حدیثیں |
|
139 |
ان کے حوالے سے آٹھ باتیں : |
|
|
ا : حدیث کا مقصود غیر مذکور جانوروں کے مارنے کی نفی نہیں |
|
140 |
ب: احناف کے نزدیک حدیث میں ذکر کردہ پانچ حیوانات ، سانپ ، بھیڑیے او رحملہ آور موذی جانور کو مارنے کی اجازت |
|
141 |
ج: امام مالک اورامام شافعی کے نزدیک حدیث میں مذکورہ حیوانات اور ان ایسی خصلت والے جانوروں کو مارنے کی اجازت |
|
141 |
د: خصلت کی تعیین میں اختلاف اور ترجیح |
|
141 |
ز : ان جانور کا مارنا واجب نہیں بلکہ جواز ہے |
|
142 |
ہ: (القلب العقور) سے مراد کے متعلق اقوال علماء |
|
142 |
و : [نماز میں بھی ] انہیں مارنے سے مقصود |
|
142 |
ح: انہیں [ فواسق] کہنے کے دو اسباب |
|
144 |
24۔ محرم کے لیے آبی شکار کرنے اور سمندری کھانے کا حلال ہونا : |
|
|
ایک آیت شریفہ |
|
145 |
اس کےحوالے سے چار باتیں : |
|
|
ا : [صید البحر] سے مراد |
|
145 |
ب : سمندری شکار اور اس کے کھانے میں فرق |
|
146 |
ج : اس حکم کا حج و عمرہ دونوں کے احرام والوں کے لیے ہونا |
|
146 |
د : اس بارے میں اہل علم کا اجماع |
|
146 |
25۔ محرم کے تعاون کے بغیر حلال شخص کے کیے ہوئے بری شکار کا کھانا : |
|
|
دو حدیثیں |
|
147 |
ان کے حوالے سے پانچ باتیں : |
|
|
ا : پہلی حدیث کی شرح میں امام نووی کا قول |
|
149 |
ب: پہلی حدیث پر امام ابن حبان کے تحریر کردہ دو عنوانات |
|
149 |
ج: حالت احرام میں تفصیل پوچھے بغیر شکار کا گوشت کھانے پر امام ابن خزیمہ کا تبصرہ |
|
150 |
د: حالت احرام میں تفصیل پوچھے بغیر گوشت رد کرنا پر امام ابن خزیمہ کا تبصرہ |
|
151 |
ہ : دوسری حدیث پر امام ابن خزیمہ کا تحریر کردہ عنوان |
|
151 |
26۔حالت احرام میں بری شکار کرنے کی سزا میں آسانیان : |
|
|
آیت شریفہ |
|
152 |
اس کے حوالے سے دو باتیں : |
|
|
ا : شکار کرنے والے کی تین حالتیں |
|
152 |
ب : آیت شریفہ کی تین آسانیاں : 1: قصداً شکار کے باوجود حج و عمرہ کا باطل نہ ہونا |
|
152 |
2: غلطی اوربھول سے شکار کرنے پر سزا کا نہ ہونا |
|
153 |
3: قربانی ، مسکینوں کو کھانا کھلانے یا روزوں میں سے ایک کو اختیار کرنا |
|
154 |
27۔ فوت ہونے والے محرم کے بقیہ اعمال کی ادائیگی کی پابندی نہ ہونا : |
|
|
اس بارے میں ایک حدیث اور اس پر امام بخاری کا تحریر کردہ عنوان |
|
155 |
۔و۔ |
|
|
مکہ مکرمہ آنے سے متعلقہ آسانیاں |
|
|
1۔ محرم کے لیے رات دن میں ہر وقت مکہ مکرمہ آنے کا جواز : |
|
|
دو حدیثیں |
|
157 |
ان کے حوالے سے تین باتیں : |
|
|
ا : آنحضرت ﷺ سے دن اور رات دونوں میں داخلے کا ثبوت |
|
158 |
ب : ایک رائے کے مطابق دن کو آنے کا مستحب ہونا |
|
159 |
ج: دوسری رائے کے مطابق دونوں میں آنے کی فضیلت میں برابری |
|
160 |
خلاصہ : رات او ردن دونوں میں آنے کاجواز |
|
160 |
2۔ مکہ مکرمہ آتے جاتے مخصوص راستوں کی پابندی کا نہ ہونا : |
|
|
اس بارے میں ایک حدیث اور اس کی شرح |
|
160 |
۔ز۔ |
|
|
طواف وسعی سے متعلقہ آسانیاں |
|
|
1۔ بیت اللہ میں ہر وقت طواف اور نماز کی اجازت : |
|
|
ایک حدیث |
|
162 |
اس کے حوالے سے دو باتیں |
|
|
ا : بعض ائمہ کے اس پر تحریر کردہ عنوانات |
|
162 |
ب: مالکیہ اور حنفیہ کا اوقات ممنوعہ میں طواف کی دو رکعتوں سے روکنا |
|
164 |
مولانا عبدالحی لکھنوی کا انہیں جائز قرار دینا |
|
164 |
2۔ بو جہ عذر سواری پر طواف و سعی کی اجازت : |
|
|
دوحدیثیں |
|
165 |
ان کےحوالے سے چار باتیں : |
|
|
ا: آنحضرت ﷺ کا سواری پر طواف اور اس کے اسباب |
|
166 |
ب: بوجہ عذر سواری پر طواف کے جواز پر اتفاق |
|
168 |
بلاعذر سواری پر طواف کے متعلق دورائیں |
|
168 |
ج: آنحضرت ﷺ کا سواری پر سعی کرنا |
|
169 |
د: پیدل چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو |
|
169 |
3۔ حجر اسو د کے بوسہ دینے ، چھونے اور اشارہ کرنے میں اختیار |
|
|
سات روایات |
|
170 |
ان کےمتعلق سات باتیں : |
|
|
ا : حجر اسود پر سجدہ کرنا اور اسے بوسہ دینا |
|
175 |
ب: اسے ہاتھ سے چھونا اور بوسہ دینا |
|
175 |
ج: اسے بوسہ دینا |
|
176 |
د: اسے ہاتھ سے چھو کر چھونے والے ہاتھ کو چومنا |
|
176 |
ہ : اسے چھڑی سے چھو کر چھڑی کو چومنا |
|
176 |
و: اس کی طرف دور سے اشارہ کرنا |
|
176 |
ز : ایک ہی طواف کے بعض چکروں میں ہاتھ چھونا اور بعض میں نہ چھونا |
|
176 |
4۔ رکن یمانی چھونے کے متعلق آسانی : |
|
|
چار روایات |
|
176 |
ان کےحوالے سے چار باتیں : |
|
|
ا : آنحضرت ﷺ کا اسے چھونا |
|
178 |
ب: اسے بوسہ دینے کا ثابت نہ ہونا |
|
178 |
ج: نہ چھونے کی صورت میں اس کی طرف اشارہ کرنے کا ثابت نہ ہونا |
|
179 |
د : اسے چھونے والے ہاتھ کو چومنے کے متعلق دو رائیں |
|
180 |
5۔ کعبہ شریف سے دور رہ کر طواف کی اجازت |
|
|
دو روایتیں اور پانچ علماء کے اقوال |
|
181 |
مذکورہ بالا گفتگو کے حوالے سے تین باتیں |
|
181 |
ا: ام سلمہؓ کو نمازیوں کے پیچھے سے طواف کرنے کا حکم نبوی ﷺ |
|
184 |
ب: عائشہ ؓ کا کعبہ سے دور اختلاط سے گریز کرتے ہوئے طواف |
|
184 |
ج: کعبہ سے قریب طواف کا افضل ہونا |
|
184 |
6۔ طواف وسعی کے ہر چکر میں مخصوص ذکر و دعا کا نہ ہونا : |
|
|
چار علماء کے اقوال |
|
184 |
ان کے حوالے سے تین باتیں : |
|
|
ا : طواف وسعی کےہرچکر میں معین ذکر و دعا کا ثابت نہ ہونا |
|
187 |
ب: رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان [ ربنا اٰتنا ... الخ] کا پڑھنا |
|
187 |
ج: دوران سعی بعض سلف صالحین کا [ رب اغفر ... الخ] کا پڑھنا |
|
187 |