اللہ تعالی نے امت مسلمہ پر امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کو فرض کیا ہے جن باتوں کےساتھ امت کی دنیا وآخرت میں رفعت ومنزلت،شان وعظمت،سعادت اور خوش بختی کو وابسطہ کیا گیا ہے ان میں سے ایک اہم بات امت کےتمام افراد کااس فریضے کو اپنی استعداد کے بقدر ادا کرناہے۔لیکن یہ بات عام دیکھنے میں آتی ہے کہ دین سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ جو کہ (امر بالمعروف ونہی عن المنکر ) کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھتے اور مانتے ہیں اس کو فکری اور عملی طور پر ،یاکم ازکم عملی طور پر مردوں میں محدود کردیتے ہیں کہ یہ مردوں کے کرنے کے کام ہیں خواتین کی اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں اس بھیانک سوچ سے نمٹنے کےلیے (امر بالمعروف او رنہی عن المنکر)کے متعلق خواتین کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے ارادے سے مولائےعلیم وقدیرپر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے کتاب وسنت اور مسلمان عورتوں کی سیرت کی روشنی میں (نیکی کاحکم دینے او ربرائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری)کےعنوان سے اس کتاب کی تیاری کا عزم کیا گیاہے ۔
اولاد انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک امانت بھی ہے جس کی کماحقہ حفاظت انسان پر فرض ہے۔اولاد کی تربیت میں اسلامی ماحول کی فراہمی انتہائی ضروری ہے اور اس میں کوتاہی انسان کی پوری زندگی کے لیے وبال بن جاتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر فضل الہٰی صاحب نے اس موضوع کو کما حقہ ادا کرتے ہوئے بچوں کے احتساب کے نام سے تربیت اولاد کے حوالے سے قیمتی مواد فراہم کیا ہے جس کی روشنی میں کوئی بھی شخص اپنی اولاد کی صحیح نہج پر تربیت کر سکتا ہے۔مصنف نے اپنی کتاب میں جن بنیادی باتوں کو موضوع بنایا ہے وہ درج ذیل ہیں:1۔کیا بچوں کو نیکی کا حکم دینا شرعا ثابت ہے؟کیا نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ بچوں کو نیکی کا حکم دیا کرتے تھے؟2۔کیا بچوں کو برے کاموں سے روکنا ثابت ہے؟کیا ہمارے نبی محترمﷺاور حضرات صحابہ ؓ بچوں کو غلط کاموں سے روکنے کا اہتمام کیا کرتے تھے؟3۔بچوں کا احتساب کرتے ہوئے کون سے درجات،اسالیب اور وسائل استعمال کیے جائیں؟4۔بچوں کا احتساب کون کرے؟ کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بات کی وضاحت کے لیے قرآن وسنت کو بنیاد بنایا گیا ہے،احادیث کو اصلی...
بسااوقات انسان اپنےوسائل سےاپنی ضروریات یااپنےکاروباری منصوبےپورےنہیں کرسکتاایسے حالات میں پیدا ہونے والے سوالات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔کیا وہ قرض لے سکتاہے؟،قرض کی ادائیگی کس حد تک ضروری ہے؟،ادائیگی میں کیساطرزعمل اختیار کرناچاہیے؟،قرض واپس کروانےکےلیے شریعت اسلامیہ میں کون سے اخلاقی اقدامات ہیں ؟قرض لیتے وقت کوئی شرط لگائی جاسکتی ہے؟ اس کتاب میں ان سوالات کےعلاوہ اور بھی بہت سارے سولات کےجوابات سمجھنےسمجھانےکی کوشش کی گئی ہے ۔
دین اسلام میں حلال ذرائع سے کمائی جانے والی دولت کو معیوب قرار نہیں دیا گیا چاہے اس کی مقدار کتنی ہی ہو۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہےکہ دولت انسان کوبارگاہ ایزد سے دورنہ کرے۔ فی زمانہ جہاں امت مسلمہ کو دیگر لا تعداد مسائل کا سامنا ہے وہیں امت کےسواد اعظم کو فکر معاش بری طرح لاحق ہے۔ پیش نظر کتاب ’رزق کی کنجیاں‘ میں معاشی مسائل کا آزمودہ اور کار آمد حل نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر فضل الہٰی ایک علمی و معتدل تعارف رکھنے کے ساتھ ساتھ دین کی صحیح تعبیر کا بھی علم رکھتے ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں قرآن و حدیث کی واضح براہین کی روشنی میں رزق کے حصول کے اسباب کو عام فہم انداز میں بیان کیا ہے۔
گناہوں کی دو قسمیں ہیں :صغیرہ اور کبیرہ ،پھر کبیرہ گناہوں میں بعض انتہائی سنگین ہیں ،جن کی بنا پر لوگ شدید اذیت اور مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں ۔ایسے ہی گناہوں میں سے ایک بد ترین گناہ جھوٹ ہے ۔لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جھوت عام ہو چکا ہے ۔بہت سے لوگ دوسرے لوگوں کے جھوٹ پر رنجیدہ ہونے والے اپنے لیے دروغ گوئی کو عقل و دانش کی علامت سمجھتے ہیں ۔کذب بیانی سے بزعم خود دوسروں کو بے وقوف بنانے کا تذکرہ اپنے لیے باعث افتخار گردانتے ہیں ۔عالم اسلام کے عظیم اسکالر ڈاکٹر فضل الہیٰ نے زیر نظر کتاب میں جھوٹ کی ہلاکت خیزی کو واضح کیا ہے اور جھوٹ کی سنگینی ،جھوٹ چھوڑنے کا عظیم الشان صلہ ،جھوٹ کی اقسام اور جھوٹ بولنے کی اجازت کے مواقع جیسے اہم مسائل کو قرآن و حدیث اور علمائے سلف کے اقوال کی روشنی میں اجاگر کیا ہے ۔ہر مسلمان کو یہ کتاب لازماً پڑھنی چاہیے تاکہ معاشرے کو جھوٹ جیسے قبیح جرم سے پاک کیا جا سکے ۔
عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کا احتساب کرنا چاہیے اور ان کی تربیت کی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے لیکن یہ سوال بھی ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنے والدین کو کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی کا مرتکب دیکھے تو وہ کیا کرے؟کیا وہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے کہ وہ شرعی فریضہ ترک کریں اور ناجائز کام میں لگے رہیں یا اپنے ذمے شرعی واجب کوادا کرنے کا حکم دے ارو برائی سے منع کرے ۔یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ والدین کے ادب واحترام اور ان سے حسن سلوک پر انتہائی زور دیا گیا ہے لہذا کسی صورت میں بھی ان کی بے ادبی کی اجازت نہیں۔مزید برآں والدین کی ناراضگی کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔زیر نظر کتاب میں عالم اسلام کے عظیم اسکالر ڈاکٹر فضل الہیٰ حفظہ اللہ نے قرآن وحدیث یک روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت کی ہے جس کا مطالعہ ہر مسلمان کو لازماً کرنا چاہیے۔(ط۔ا)
دعوت دین ایک اہم دین فریضہ ہے ،جو اہل اسلام کی اصلاح ، استحکام دین اور دوام شریعت کا مؤثر ذریعہ ہے۔لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اسے شریعت کا جتنا علم ہو ،شرعی احکام سے جتنی واقفیت ہو اوردین کے جس قدر احکام سے آگاہی ہو وہ دوسر وں تک پہنچائے۔علماو فضلا اور واعظین و مبلغین پر مزید ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فریضہ دعوت کو دینی وشرعی ذمہ داری سمجھیں اور دعوت دین کے کام کو مزید عمدہ طریقے سے سرانجام دیں۔دین کا پیغام حق ہر فرد تک پنہچانے کے لیے ضروری ہے کہ دعوت کے کام کو متحرک کیا جائے،دعوتی تحریک اور تبلیغی جذبہ پیدا کرنے کےلیے ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب کی یہ ایک اچھی کاوش ہے ،جو دعوت دین کا ذوق ،شوق اور دعوتی بیداری پیدا کرنے میں ممد و معاون ہے۔(ف۔ر)
دعوت دین اور احکام شرعیہ کی تعلیم دینا شیوہ پیغمبری ہے ۔تمام انبیاء و رسل کی بنیادی ذمہ داری تبلیغ دین اور دعوت وابلاغ ہی رہی ہے،امت مسلمہ کو دیگر امم سے فوقیت بھی اسی فریضہ دعوت کی وجہ سے ہے-دین کی اصلاح اور بقا بھی اسی میں ہے کہ دعوت واصلاح اور تبلیغ دین کے شعبہ کو فعال رکھا جائے،دعوت و تبلیغ کا شعبہ جتنا مؤثر ہوگا عامۃ المسلمین کی دین سے وابستگی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔پھر کتاب وسنت میں دعوت و تبلیغ کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہےاور داعیوں اور واعظوں کے بہت اوصاف بیان ہوئے ہیں،موجودہ دور میں شعبہ تبلیغ کو فعال کرنے کی اشد ضرورت ہےاور علما و فضلا اور مبلغین کو اصلاح امت کے حوالہ سے اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے ۔دعوت دین کی فضیلت واہمیت اور ضرورت کے پیش نظر ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب نے اچھی کتا ب مرتب کی ہے ،جو مبلغین کی میں دعوت دین کا شوق پیداکرنے اور انہیں نیا ولولہ دےگی۔(ف۔ر)
امر بالمعروف و النھی عن المنکر دین اسلام کا اہم فریضہ ہے ، امت مسلمہ کو اسی فریضہ کی انجام دہی پر دیگر امتوں پر فوقیت حاصل ہے ۔کتاب و سنت میں اس ذمہ دار ی کو بطریق احسن ادا کرنے کی پر زور تاکید ہے،کیونکہ اس فریضہ ہی دین کا استحکام ، امت کی دین سے وابستگی ممکن ہے اور اس کی بدولت ہی شیطانی سازشوں ،باطل نظریات اور شرک و بدعا ت کی راہیں مسدود ہوتی ہیں۔اس فریضہ سے کوتاہی اور انحراف کی وجہ سے امت مختلف فتنوں اور سازشوں کا شکار ہے اور اس فریضہ سے غفلت ہی کی وجہ سےامت میں باطل نظریات اور من مانی تاویلات کا منہ زور سیلاب در آیا ہے۔پھر اس فریضہ سے گلو خلاصی کےلیے مختلف اعتراضات واشکلات وارد کیے جاتے ہیں ،ان اعتراضات و اشکلات کا زیر نظر کتاب میں خوب محاسبہ کیا گیاہے۔(ف۔ر)
دنیوی و اخروی فوز وفلاح کیلئے تعلیم و تعلم کا ذہبی سلسلہ ایک سنگ میل ہے۔حصول تعلیم سےلیکر مقاصد تعلیم تک ،متعلم کے آداب سے لیکر معلم کے اوصاف تک اور فضیلت علم سے لیکر طریقہ ہائے تعلیم تک کے تمام مراحل کے بارے ،سیرت طیبہ ہماری مکمل رہنمائی کرتی ہے۔تعلیمی میدان میں متعلمین کی نفسیات کا لحاظ رکھنا،متعلمین کا خیر مقدم کرنا،میسر تعلیمی وسائل کو بر وئے کار لانااور ہمہ وقت اسالیب تعلیم کو ملحوظ خاطر رکھنا،ایک کامیاب اور کامران معلم کے بنیادی اوصاف ہوتے ہیں۔بلا شبہ نبی کریم کی ذات ستو دہ ذکر کردہ تمام اوصاف سے متصف تھی۔زیر نظر کتاب اس حوالے سے نا قابل فر اموش ہے۔(م۔آ۔ہ)
دین اسلام میں جس شدو مد کے ساتھ نماز کی فرضیت بتلائی گئی ہے اسی قدر نماز کو باجماعت ادا کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے متعدد عذروں کے باوجود جماعت چھوڑنے کی اجازت مرحمت نہیں فرمائی اور باجماعت نماز سے پیچھے رہنا منافقین کی علامت قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام حالات، حتیٰ کے حالت خوف میں بھی، اس کے اہتمام کے حکم فرمایا۔ زیر مطالہ کتاب، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، نماز باجماعت کی اہمیت و فضیلت سے متعلق ہے۔پروفیسر ڈاکٹر فضلی الٰہی صاحب کا خاصہ ہے کہ وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ہیں اس کا حق ادا کردیتے ہیں۔ یہی حال ڈاکٹر موصوف کی زیر نظر کتاب کا ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس کی تیاری کے لیے انھوں نے 170 سے زائد عربی کتب سے مدد لی۔ باجماعت نماز کے فضائل، باجماعت نماز کی فرضیت، رسول اللہﷺ کا باجماعت نماز کے لیے اہتمام، سلف صالحین کا باجماعت نماز کے لیے اہتمام، باجماعت نماز کے بارے میں علمائے امت کا موقف اس کتاب کے اساسی موضوعات ہیں۔ اس کتاب کی افادیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ آیات و احادیث سے استدلال کرتے ہوئے معتبر تفاسیر اور شروح احادیث سے استفادہ کیا گیا ہے۔ باج...
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو تمام مسلمانوں کے لیے مشعل راہ قرار دیا۔ واقعتاً آپ ؑ کی زندگی کا ہر پہلو قابل اتباع اور نمونہ عمل ہے۔ پیش نظر کتاب میں محترم ڈاکٹر فضل الہٰی نے حضرت ابراہیم ؑ کی حیات طیبہ میں تفکر و تدبر کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے دروس و عبر کا استنباط کیا ہے۔ مصنف نے حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو بطور والد تین گوشوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے گوشے میں پہلے میں حضرت ابراہیم ؑ کی ان باتوں کا تذکرہ ہے جن کے اولاد کے حصول کے لیے انھوں نے رغبت اور کوشش کی۔ دوسرے گوشے میں وہ باتیں ہیں جن سے انھوں نے اپنی اولاد کو محفوظ رکھنے کے لیے انھوں نے کوشش اور خواہش کی۔ تیسرےاور آخری گوشے میں ان طریقوں کا تذکرہ ہے جو انھوں نے اپنی اولاد کے متعلق ارادوں اور خواہشات کی تکمیل کے لیے اختیار کیے۔ مصنف نے کتاب میں اس بات پر شدید زور دیاہے کہ والدین اپنی اولادوں کی تربیت کے سلسلے میں حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو مشعل راہ بنائیں اور اس میں موجود نصیحتوں سے فیض یاب ہوں۔ (عین۔ م)
پروفیسر ڈاکٹر فضل الہٰی سو کے قریب عربی و اردو اور دیگر زبانوں میں تصنیف شدہ کتب کے مصنف ہیں۔ ان کا قلم بظاہر عام سے موضوع کو خاص بنا دیتا ہے۔ ’دعوت دین کہاں دی جائے‘ دیکھنے میں ایک مختصر سا مضمون نظر آتا ہے لیکن پروفیسر صاحب نے اس پر بھی اچھوتے اور نہایت دلچسپ انداز میں 200 سے زائد صفحات لکھ دئیے ہیں۔ انھوں نے تفصیل کے ساتھ ان مقامات کا تذکرہ کیا ہے جہاں پر دعوت حق پہنچانے کے شواہد موجود ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے تقریباً چودہ مقامات کا انتخاب کیا ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے ’قید خانے میں دعوت‘ کے نام سے عنوان قائم کیا ہے اور اس میں حضرت یوسف ؑ کی دعوت کا ذکر کرتے ہوئے مجدد الف ثانی اور جزائر انڈیمان میں مجرم قیدیوں کے قبول اسلام کا احوال لکھا ہے۔ اسی طرح انھوں نے ایوان اقتدار میں، جبل صفا پر، گھروں میں،لوگوں کی مجالس میں دعوت کی طرح متعدد عناوین قائم کرتے ہوئے نبی کریمﷺ کی سیرت سے استنباط کیا ہے اور بہت سے متعلقہ واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔ مصنف نے دراصل اہل اسلام کے سامنے اس حقیقت کو آشکار کرنا چاہا ہے کہ دعوت دین مسجد و مدرسہ میں محصور نہیں، بلکہ ہر مناسب جگہ میں ہے...
’دعوت دین کسے دیں؟‘ میں پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی نے تین سوالات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ دعوت اسلامیہ کن کے لیے ہے؟ نبی کریمﷺ نے کن لوگوں کو دعوت دین دی؟ اس بارے میں پیش کردہ شبہات کی حقیقت کیا ہے؟ ان سوالات کے تشفی بخش جوابات کے لیے مولانا نے کتاب و سنت کو بنیاد بنایا ہے۔ نبی کریمﷺ نے جن متعدد اقسام کے لوگوں کو دعوت دین دی ان کے بارے میں متعدد شواہد کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ان شواہد میں سے دعوتی فوائد کو بھی احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔ عوام الناس اور خصوصاً دعوت دین سے متعلق لوگوں کے لیے یہ کتاب نہایت مفید ہے۔ (عین۔ م)
اسلام اپنی مکمل جامعیت اور پوری وسعتوں کے ساتھ دعوتِ دین کا موضوع ہے۔ اس حوالے سے ضروری ہے کہ مبلغ اسلام کے تمام گوشوں کی طرف دعوت دے۔ لیکن بنیاد عقیدہ توحید کو بنائے۔ کیونکہ اسوہ انبیاء سے یہی مترشح ہوتا ہے۔ زیر نظر کتاب میں پروفیسر ڈاکٹر فضل الہٰی نے ان گوشوں کو بالتفصیل بیان کیاہے جن کی طرف دعوت دین دی جانی چاہیے۔ مؤلف کا کہنا ہے کہ مبلغ کو چاہیے کہ وہ توحید و رسالت کی دعوت کے بعد موضوعات کے انتخاب میں مخاطب لوگوں کے احوال و ظروف اور فکری، عقلی اور دینی استعداد سے چشم پوشی نہ کرے۔ انھوں نے کتاب میں اس چیز کی بھی وضاحت کی ہے کہ اپنی دعوت کو مخصوص فرقے، مذہب یا گروہ کی طرف بلانے کی بجائے صرف اور صرف کتاب و سنت کی طرف دعوت دی جائے۔ کتاب کی تمام تر معلومات کی بنیاد کتاب و سنت ہے اور کتاب کا موضوع اچھی طرح واضح کرنے کے لیے اہل علم کے اقوال بھی نقل کیے گئے ہیں۔ (ع۔م)
دین اسلام میں ذکر الٰہی کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے۔ ایک حدیث کے مطابق اللہ کے رسولﷺ نے ذکر الٰہی کو سونا چاندی خرچ کرنے حتیٰ کہ جہاد جیسے عمل سے بھی بہتر قرار دیا۔ فی زمانہ دعاؤں اور ذکر و اذکار کی بہت سی مختصر اور مفصل کتب موجود ہیں۔ ان اذکار و دعاؤں کی فضیلت کیا ہے؟ یہی اس کتاب کا موضوع ہے۔ جس میں پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی نے قرآن کریم کی بعض سورتوں اور آیات، اذان، نماز سے متعلقہ اذکار ، صبح و شام کے بعض اذکار کے فضائل اور مرادیں پوری کرنے والے آٹھ اذکار کا تذکرہ کرتے ہوئے دیگر مواقعوں کے اذکار کی بھی احادیث رسولﷺ کی روشنی میں فضیلت بیان کی ہے۔ کتاب کے آخر میں چند مفید تنبیہات بھی قلمبند کی گئی ہیں۔ (ع۔م)
امت مسلمہ کے لیے حضرت ابوبکر صدیق کی بے شمار قربانیاں اور بے مثال کارنامے ہیں ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے آنحضرت محمدﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کے اختلاف کے باوجود لشکر اسامہ کو روانہ فرمایا۔ آپ کے اس کارنامے میں بہت سے دروس پنہا ہیں۔ زیر نظر کتابچہ میں انھی دروس و عبرتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حدیث، سیرت اور تاریخ کے بنیادی مراجع کی روشنی میں حضرت ابوبکر ؓکے لشکر اسامہ کو ارسال کرنے کے واقعات کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓکے لشکر اسامہ کو روانہ کرنے کے متعلقہ واقعات سے سولہ دروس اور عبرت و نصیحت کی باتوں کا استنباط کیا گیا ہے۔ ان حاصل شدہ دروس اور عبرتوں کے بیان کے دوران، تائید و وضاحت کی غرض سے کتاب و سنت کے دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ (ع۔م)
اسلام ،دین فطرت ہے۔وہ ان تمام فطری جذبات کی قدر کرتا ہے ،جو انسانی مزاج میں موجود ہیں۔انہی میں سے ایک فطری جذبہ یہ بھی ہے کہ انسان خوشی کے تہوار منانے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔اسلام نے انسان کے اسی فطری داعیے کی تکمیل کے لیے دو تہوار(عید الفطر اور عید الاضحٰی)عطا کیے ہیں ۔لیکن اس کے ساتھ اسلام کی یہ بھی خوبی ہے کہ وہ انسان کو شتر بےمہار کی طرح آزاد نہیں چھوڑتا...
اللہ تعالیٰ کے کچھ خوش نصیب بندے ایسے ہیں جو ایسے اعمال سرانجام دیتے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان پر درود بھیجتے ہیں اور درود کا مطلب علمائے کرام نے انسان کے لیے فرشتوں کو دعا و استغفار کرنا بتلایا ہے۔ اور کچھ بدقسمت ایسے ہیں جو ایسے کاموں میں بدمست رہتے ہیں جو اللہ اور اس کے فرشتوں کی لعنت کا موجب بنتے ہیں۔ قرآن وسنت میں ایسے اعمال کی بالتفصیل بیان کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فضل الہٰی نے زیر تبصرہ کتاب میں قرآن وحدیث کی نصوص سے ایسے ہی خوش قسمت اور بدقسمت لوگوں کی فہرست مرتب کی ہے۔ مولانا نے احادیث شریفہ کو ان کے اصلی مراجع سے نقل کیا ہے۔ صحیحین کے علاوہ دیگر کتب حدیث سے منقولہ احادیث سے متعلق علمائے امت کے اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ سے استدلال کرتے وقت مفسرین اور محدثین کی تفاسیر اور شروح سے مقدور بھر استفادہ کیا گیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کا جائزہ لیں کہ ہمارا شمار کس فہرست میں ہوتا ہے۔ اور اگر اس سلسلہ میں کوئی کمی کوتاہی موجود ہے تو اس کو دور کرتے ہوئے اپنے آپ کو فرشتوں کے درود کے مستحق بنانے کی کوشش کریں۔ (ع۔...
نبیﷺ کی محبت ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ اور کوئی بھی مسلمان اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ رسول اللہ ﷺ سے اپنے جان و مال ماں باپ اور اولاد سے زیادہ محبت نہ کرے۔ دعویٰ محبت میں صرف قول ہی معتبر نہیں بلکہ اس کی عملی دلیل ضروری ہے اور وہ محبوب یعنی نبیﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونا او ران کے اخلاق کو اپنانا ہے۔زیر نظر کتاب میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ نبیﷺ سے محبت کے اسبا ب کیا ہیں ؟اور ان پر عمل پیرا ہوا جائے جس سے نبیﷺ سے محبت کا رشتہ ہمیشہ کے لئے قائم رہ سکتا ہے۔مثلاً نبیﷺ سےمحبت کی فرضیت کو نہ بھولنا، حب نبیؐ کے ثمرات کو یاد رکھنا ، آپ ؐ کے احسانات کو فراموش نہ کرنا، شان مصطفیٰؐ کو نگاہوں میں رکھنا، اخلاق نبویؐ کو حرز جان بنانا اور کثرت سے آپؐ کا ذکر خیر کرنا اور درود پڑھنا۔یہ وہ اسباب ہیں جن سے ایک امت کا نبیؐ کی محبت سے رشتہ جڑا رہ سکتا ہے۔(ک۔ط)
قربانی ابراہیم ؑ کی عظیم سنت اور رسول مکرم ﷺ کا دائمی عمل ہے۔ پھر اہل اسلام کو اس اہم عمل کی خاصی تاکید کی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مسائل قربانی پر ایک ایسی جامع کتاب مرتب کی جائے جو قربانی کے تمام مسائل کو محیط ہو اور اس حوالہ سے کسی مسئلہ کا حل تشنہ نہ رہے۔ پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی کی زیر نظر کتاب اس سلسلہ کی ایک اہم کوشش و کاوش ہے۔ جس میں قربانی سے متعلقہ بہت سارے مسائل کو بالبداہت بیان کر دیا گیا ہے۔ جس میں قربانی کرنے والے کےلیے ناخن و بال کاٹنے کا حکم، میت کو قربانی میں شریک کرنا، قربانی کے جانور کی عمر، قربانی کے دن، قربانی نماز عید کے بعد کرنا، اونٹ اور گائے میں ایک سے زیادہ افراد کی شرکت اور قربانی کے گوشت کی تقسیم وغیرہ جیسے مسائل پر کتاب و سنت کی درست رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کے آخر میں ماہ ذوالحجہ کے آخری دس دنوں کی فضیلت و اہمیت بھی بیان کر دی گئی ہے۔ اہل حدیث علما کے مابین ایک اختلافی مسئلہ میت کی طرف سے قربانی کے جواز یا عدم جواز کا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب نے میت کی طرف سے قربانی کے جواز کی جانب رجحان ظاہر کیا ہے۔ جبکہ مولانا عبدال...
کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ نبی کریمﷺ کو پوری مخلوق سے زیادہ محبت نہ کرے۔ آج امت کی بہت بڑی تعداد زبانی طور پر نبی کریمﷺسے محبت کا دم تو بھرتی ہے لیکن آنحضرتﷺ سےمحبت کی حقیقت، اس کےتقاضوں اور علامتوں سے غافل ہے۔ نبی کریمﷺ سے محبت کے ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی نے پنےمخصوص انداز میں زیر نظر کتاب مرتب کی ہے۔ جس میں ان سوالات کےجوابات دینےکی کوشش کی گئی ہے: نبی کریمﷺ سے محبت کا حکم کیا ہے؟ نبی کریمﷺ سے محبت کے دنیا و آخرت میں کیا فوائد ہیں؟ نبی کریمﷺ سے محبت کی کیا علامات ہیں؟ صحابہ کرام آپﷺ سے محبت کی علامتوں کے اعتبار سے کیسےتھے؟ اور ہم آپﷺ سے محبت کی علامتوں کے اعتبار سے کیسے ہیں؟ اس موضوع سے متعلق گفتگو کو تین مباحث میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مبحث اول نبی کریمﷺ کے ساتھ ساری مخلوق سے زیادہ محبت کرنے کی فرضیت، دوسری مبحث نبی کریمﷺ سے محبت کے فوائد و ثمرات اور تیسری اور آخری مبحث نبی کریمﷺ سے محبت کی علامتوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ کتاب کے آخر میں مصنف نے تین صفحات پر مشتمل مسلمانان عالم کو ایک تنبیہ کی ہے جس میں انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کی...
آپﷺکی حیات طیبہ کا ہر گوشہ ہی ہمارے لئے بہترین اسوہ ہے ۔ اور انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے بارے میں آپﷺ کی سیرت طیبہ سے رہنمائی نہ ملتی ہو ۔ تجارت ، جنگ ، معلم ، مربی ، لیڈری ، الغرض کوئی شعبہء حیات ایسا نہیں جس کے بارے میں آپ کی سیرت طیبہ روشنی نہ ڈالتی ہو ۔ ایسے ہی آپ ﷺ کی زندگی کا ایک بہترین پہلو والد ہونا ہے ۔ اس حوالے سے آپ نے کیا فرائض سرانجام دیے ۔ اور کونسی تعلیمات دی ہیں؟ آج کے اس مصروف ترین دور میں انسان کا اپنے گھر اور بچوں کے ساتھ ایک جز وقتی سا تعلق رہ گیا ہے ۔ بچوں کی تربیت جیسے حساس پہلو سے بھی غفلت برتی جا رہی ہے ۔ محترم جناب ڈاکٹر فضل الہی صاحب نے اس حوالے سے ذمہ داری کا احساس دلانے کے لیے یہ کتاب رقم فرمائی ہے ۔ اور چونکہ ایک مسلمان اپنی زندگی تمام شعبوں میں آپ کی حیات مبارکہ سے ہی رہنمائی لیتا ہے اس وجہ سے جناب ڈاکٹر صاحب نے اس غفلت شدہ فرض کا احساس بیدار کرنے کے لیے سیرت کا ہی انتخاب فرمایا ۔ اس سلسلے میں آپ نے سترہ اصول دیے ہیں کہ اولاد کی تربیت کے لیے آپ ﷺ نے کیا طریقہ اختیار فرمایا ۔ (ع۔ح)
دین کی سہولت اور نبی کریم ﷺکےآسانی کرنے کے مظاہر دین کے ہرگوشے میں ہیں ۔اعتقادات،عبادات اورمعاملات کو ئی پہلو اس سے خالی نہیں۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے بیت اللہ کا حج ہے ۔بیت اللہ کی زیارت او رفریضۂ حج کی ادائیگی ہر صاحب ایمان کی تمنا اور آرزو ہے ہر صاحب استطاعت اہل ایمان کے لیے زندگی میں ایک دفعہ فریضہ حج کی ادائیگی فرض ہے ۔ا ور اس کے انکار ی کا ایمان کامل نہیں ہے اور وہ دائرہ اسلام سےخارج ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی عطاہ کردہ اور نبی کریم ﷺ کی بیان کردہ آسانیاں کثرت سے موجود ہیں ۔حج کےآغازہی میں آسانی ہے حتی کہ اس کی فرضیت صرف استطاعت رکھنے والے لوگوں پر ہے۔اس کے اختتام میں بھی سہولت ہے ۔مخصوص ایام والی عورت کی روانگی کا وقت آجائے تو طواف کیے بغیر روانہ ہوجائے۔ایسا کرنے سے نہ اس کے حج میں کچھ خلل ہوگا او رنہ ہی اس پر کوئی فدیہ لازم آئے گا۔اللہ کریم نےاپنے ...