اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر ہے ان میں سے ایک حج و عمرہ ہیں۔یہ اللہ کی طرف عائد کردہ وہ فریضہ ہے جسے ہر مسلمان پر سال میں ایک بار یا زندگی میں ایک بار بشرط استطاعت ادا کرنا لازم ہے۔اس کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔حج کی قبولیت سے گزشتہ سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ لیکن جس طرح باقی فرائض اسلام ادا کرنے کے لیے کچھ آداب و احکام ہیں ایسے ہی حج کے بھی ہیں۔انہی میں سے حج کے مختلف مقامات و شعائر پر ادعیہ ماثورہ پڑھنا بھی ہے۔ذیل کے کتابچے میں الفتح ٹریول والوں نے حج میں پڑھی جانے والی یہی دعائیں نقل فرمائی ہیں۔مثلا طواف کے سات چکروں ، صفاء و مروہ اور منیٰ و عرفات وغیرہ پر۔(ع۔ح)
اسلام مسلمان کو ایک الگ اور جداگانہ طرز زندگی دیتا ہے۔جس کے تحت اس کا مقصد اولین یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے اور کیفیات میں اللہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط رکھا جائے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان خوشی و غمی کی کیفیات اپنے اندر رکھتا ہے اور پھر ان کے اظہار کے لئے انسانوں نے ہی مختلف طریقے متعین کر رکھے ہیں۔ جنہیں ہم رسومات وغیرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ایسے ہی زندگی کی اہم ترین خوشی شادی کی تقریب ہے۔ اس میں اپنے رفیق حیات کا انتخاب ،تقریب شادی منعقد کرنے کا طریقہ کار اور پھر بعد میں اس کے متعلق جنم لینے والے مسائل کو اسلامی طریقے کے مطابق حل کرنے کے آداب ۔ یہ اور اس کے متعلق دیگر مسائل ۔یہ سب انسانی زندگی کے اہم ترین بلکہ ضروی مراحل ہیں۔عالم شباب میں پہنچنے ولے ہر انسان کو تقریبا ان مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں شرعی و اسلامی رہنمائی کی ضرورت تھی۔ زیرنظرکتاب اس تقاضے کو احسن طریقے سے پورا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔اسلوب بیان انتہائی دلچسپ اور شستہ ہے۔اللہ مصنف محترم کو اجر جزیل سے نوازے۔ آمین۔(ع۔ح)
چوتھی صدی ہجری میں امت مسلمہ نے بحثیت مجموع اجتہاد کا راستہ چھوڑ کر تقلید کا راستہ اپنا لیا۔اور پھر بتدریج یہ تقلیدی جمود اس قدرپختہ ہوگیا کہ آج چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود اسے خرچنا مشکل ہی نہیں بلکہ محال نظر آتا ہے۔لیکن اس امت کی نجات صحیح معنوں صرف اجتہاد اور کتاب وسنت کے تمسک سے ہی ہے۔اگرچہ مسلمانوں میں موجود تمام مسالک و فرق یہی کہتے ہیں کہ ہم کتاب و سنت سے ہی منسلک ہیں لیکن عملا صورتحال مختلف ہے۔زیرنظر کتاب میں مصنف نے اسی فکر کے خدوخال واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔اور اس ہر فرقے و مسلک کتاب و سنت سے تمسک کی قلعی کھولنے کی سعی کی ہے۔اس سلسلے میں موصوف نے کئی ایک شرعی مسائل و احکام کو پیش نظر رکھتے ہوئے جائزہ لیا ہے۔اور غیر جانب دار ہو کر تجزیہ کیا ہے۔کیونکہ اس موصوف خود اس باب میں حقیقت کے شدت سے متلاشی تھے۔اسی وجہ سے انہوں نے اپنی کتاب کا نام راہ نجات رکھا ہے۔ تاہم یہ فقہی اختلافات ہوتے ہیں ان کے بناء پر جدل و نزاعات کی راہ ہموار نہیں کرنی چاہیے۔اگرچہ مصنف کا رویہ بحثیت مجموع اعتدال کی طرف ہی مائل ہے۔اللہ ان کی کاوش کو کامیابی ء درین کا ذریعہ بنائے۔(ع۔ح)
صحیح احادیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کا رمضان او رغیر رمضان میں رات کا قیام بالعموم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں ہوتا تھااور حضرت جابر کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کوتین رات جو نماز پڑہائی وہ گیارہ رکعات ہی تھیں او ر حضرت عمر نے بھی مدینے کے قاریوں کو گیارہ رکعات پڑہانے کا حکم دیاتھا اور گیارہ رکعات پڑھنا ہی مسنون عمل ہے ۔امیر المومنین حضر ت عمر بن خطاب ، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابی بن کعب اور حضرت عبد اللہ بن مسعود سے 20 رکعات قیام اللیل کی تمام روایات سنداً ضعیف ہیں ۔ زیر تبصرہ کتابچہ’’ 20 نماز تراویح‘‘دراصل 17 فروری 1994ء نوائےوقت میں ’’نماز تراویح کی اہمیت‘‘ کے عنوان سےشائع ہونے والے ایک آرٹیکل کےجواب تحریرکیا گیا تھا ۔نوائے وقت کےمضمون نگار نے موطا امام مالک کی ایک حدیث کو خلط ملط کر کے نماز تراویح کی تعداد بتائی جس پر جناب ڈاکٹررانا محمد اسحاق نےایڈیٹر نوائے وقت اور مضمون نگار کو آگاہ کیا مگر کسی نے جواب نہ دیا تو موصوف نے یہ مضمون کتابچہ کی صورت میں شائع کردیا ۔ تاکہ مسنون تراویح کی آٹھ رکعات کے واضح اور ٹھوس دلائل سے عوام الناس واقف ہوکر اس پر عمل پیرا ہوسکیں او ر ڈاکٹر رانا محمد اسحاق نے ثابت کیا کہ جس حدیث سے بیس رکعات ہونے کا تذکرہ نوائے وقت کےمضمون نگار نے کیا ہے اس میں تراویح کی تعداد آٹھ ہے نہ کہ بیس۔اللہ تعالیٰ کتابچہ کے مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں تمام عبادات مسنون طریقۂ نبوی کےمطابق ادا کرنے کی توفیق دے (آمین)(م۔ا)
جدوجہد پاکستان ایک تاریخی باب ہے ۔جو کئی فصول پر مشتمل ہے۔عام طور پر اس تاریخی جدوجہد کا آغاز شاہ ولی اللہ کے حوالے سے بتایا جاتا ہے۔لیکن تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ شاہ صاحب نے جس فکری و عملی تحریک کی اساس رکھی تھی وہ خالصتا اسلامی تھی۔ مثلا سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے پشاور او رخیبر پختون خوان میں ایک ایسی ریاست قائم کی جو حقیقی معنوں میں شاہ صاحب کے خواب کی تعبیر تھی۔جس میں صحیح معنوں میں اسلامی نظام کا قیام کیا گیا۔ لیکن گزشتہ سے پیوستہ صدی کے انتہائی اور گزشتہ صدی کے ابتدائی عرصے میں تحریک جدوجہد پاکستان کی قیادت ایک ایسے گروہ کے ہاتھ آئی جس کا تصور اسلام ،سلف کے تصور اسلام سے بوجوہ مختلف تھا۔چنانچہ تخلیق پاکستان کے بعد اس ملک کو ایسی پالیسیوں کے مطابق چلانے کی کوشش کی گئی جن کا قبلہ کعبے کی بجائے کوئی اور تھا۔عام طور پر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ تخلیق پاکستان کے لیے ہونے والی کوششوں کے مرکزی کردار محمدعلی جناح اور اقبال ہیں ۔ یہ کتاب انہی دونوں شخصیتوں کے ان باہمی روابط پر مشتمل دستاویز ہے جو جدوجہد کے دوران ہوئے ۔اللہ پاکستان کو صحیح معنوں اسلامی نظام کی آماجگاہ بنائے۔ آمین۔(ع۔ح)
مولانا ثناء اللہ امرتسری ہندوستان کے مشاہیر علماء میں سے تھے۔آپ خوش بیاں مقرر، متعدد تصانیف کے مصنف اور بے باک مناظر تھے۔مذہبا اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نے اپنی تعلیم ہندوستان کی دو عظیم درسگا ہوں دیوبند اور مدرسہ فیض عام سے حاصل کی۔آپ نے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلے قادیانیوں کے خلاف صف آرائی کی ۔ اللہ کے فضل سے طویل محنت سے اس میں کامیاب اور سرخرو ہوئے۔ مزید برآں آپ نے آریوں ، عیسائیوں کے خلاف بھی کا م کیا۔ ساتھ ساتھ آپ میدان سیاست میں بھی ایک حدتک قدم رنجہ ہوتے رہے۔ مولانا جماعت اہل حدیث کا غازہ ہیں۔ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صفات الٰہی میں آپ تاویل کے منہج کو اپنا بیٹھے تھے۔اللہ آپ کو جوار رحمت میں جگہ نصیب فرمائے۔زیرنظر کتاب مولانا کے سیرت و سوانح ان گونا گوں پہلوؤں کو واضح کرتی ہے۔(ع۔ح)
پیش نظر کتابچہ میں شیخ حافظ ارشد بشیر مدنی ۔ حفظہ اللہ ۔ نے حج وعمرہ کے فضائل، اعمال،احکام ومسائل وغیرہ کو نہایت ہی عام فہم اور سلیس زبان میں، نقاط ، نمبرات، تصاویر اور سرخیوں کی شکل میں ترتیب دینے کی بہترین کاوش فرمائی ہے تاکہ زائرین حرمین شریفین اس کتابچہ کو بطور گائیڈ اپنے ساتھ رکھ کر آسانی سے استفادہ حاصل کرسکیں۔ ناچیز کی ناقص رائے کے مطابق اردو زبان میں تصویری شکل میں حج وعمرہ کی رہنمائی کے سلسلے میں سب سے بہتر تالیف ہے۔(ع۔ر)
تعلیمی شعبہ سے منسلک خواتین و حضرات اساتذہ کرام کی تربیت و ٹریننگ تعلیمی اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے انتہائی اہم اور ضروری امر ہے ۔ جو اہداف و مقاصد ایک تجربہ کار اور تربیت یافتہ معلم کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہیں وہ کسی غیر تربیت یافتہ معلم سے حاصل نہیں ہو سکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت پور ی دنیا کے تمام ممالک کے سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کرام کی تربیت و ٹریننگ کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور انہیں متعدد چھوٹے بڑے تربیتی کورسز کروائے جاتے ہیں ، اور پھر ان کورسز کی تکمیل کے بعد ان کی تقرری عمل میں لائی جاتی ہے ۔اساتذہ کرام کی تربیت و ٹریننگ کے اس نیک جذبہ کے تحت محترمہ ’’ ھدی الشاذلی معلمہ القرآن الکریم مدارس تحفیظ القرآن مدینہ منورہ ‘‘ نے اپنی کتاب ’’ الطریق السدید لتعلیم القرآن و التجوید ‘‘ میں یہ چند تجاویز و معروضات پیش کی ہیں ، جو اپنے موضوع پر انتہائی مفید اور بڑی شاندار ہیں اور اساتذہ کرام کی تربیت کے باب میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔ کتاب اگرچہ خواتین اساتذہ کے لیے لکھی گئی ہے ، لیکن یہ قرآن مجید کی تعلیم سے منسلک خواتین و حضرات تمام اساتذہ کے لیے کار آمد اور مفید ہے ۔ کتاب کی اس افادیت و اہمیت کے پیش نظر قاری محمد مصطفیٰ راسخ رکن مجلس التحقیق الاسلامی نے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے جو پیش خدمت ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازے اور مصنفہ ، مترجم ، ناشر اور تمام طالبان علم کے لیے ذریعہ نجات بنائے ۔ آمین ( ع ۔ر)
تعلیمی شعبہ سے منسلک خواتین و حضرات اساتذہ کرام کی تربیت و ٹریننگ تعلیمی اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے انتہائی اہم اور ضروری امر ہے ۔ جو اہداف و مقاصد ایک تجربہ کار اور تربیت یافتہ معلم کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہیں وہ کسی غیر تربیت یافتہ معلم سے حاصل نہیں ہو سکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت پور ی دنیا کے تمام ممالک کے سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کرام کی تربیت و ٹریننگ کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور انہیں متعدد چھوٹے بڑے تربیتی کورسز کروائے جاتے ہیں ، اور پھر ان کورسز کی تکمیل کے بعد ان کی تقرری عمل میں لائی جاتی ہے ۔اساتذہ کرام کی تربیت و ٹریننگ کے اس نیک جذبہ کے تحت محترم ڈاکٹر حازم سعید حیدر نے اپنی کتاب ’’ المقومات الشخصیۃ ‘‘ میں یہ چند تجاویز و معروضات پیش کی ہیں ، جو اپنے موضوع پر انتہائی مفید اور بڑی شاندار ہیں اور اساتذہ کرام کی تربیت کے باب میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔ کتاب کی اسی افادیت و اہمیت کے پیش نظرقاری محمد مصطفیٰ راسخ رکن مجلس التحقیق الاسلامی نے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازے اور مصنف ، مترجم ، ناشر اور تمام طالبان علم کے لیے ذریعہ نجات بنائے ۔ آمین ( ع ۔ر)
اسلام ایک ایسا دین ہے جو زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔اب یہ ایک لازمی بات ہے کہ شرعی نصوص محدود جبکہ انسانی مسائل لامحدود ہیں۔انہیں حل کرنے کے لئے اجتہاد و تفقہ کا راستہ اپنانا ضروری ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن اور حدیث نبوی میں زندگی کے بعض مسائل کے بارے میں جزوی تفصیلات بھی موجود ہیں اور بعض مسائل خاص کر معاملات کے بارے میں زیادہ تر اصول و قواعد کی رہنمائی پر اکتفاء کیا گیا ہے تاکہ ہر عہد کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق ان کی تطبیق میں سہولت ہو، اسی لئے ہر دور میں ایسے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں جن کے بارے میں صریح حکم قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور تیز رفتار سیاسی تبدیلیوں، معاشی انقلابات اور وسائل و ذرائع کی ایجات کا ہے، اس لئے اس عہد میں مسائل بھی زیادہ پیش آتے ہیں، چنانچہ ماضی قریب میں مختلف اسلامی ممالک میں اس مقصد کے لئے فقہ اکیڈمیوں کا قیام عمل میں آیا، نئے مسائل کو حل کرنے میں ان کی خدمات بہت ہی عظیم الشان اور قابل تحسین ہیں، اس سلسلہ کی ایک کڑی اسلامک فقہ اکیڈمی ( انڈیا) بھی ہے۔زیرنظر کتاب اکیڈمی کے تحت منعقدہ مختلف سمینارز میں کئے گئے جدید فقہی فیصلے ہیں۔(ع۔ح)
اللہ احکم الحاکمین نے جب کل نوع انسانی کو اپنی بے حدو حساب اور وسیع و عریض رحمت کی موسلادھار بارش سےسیراب کرنے کا ارادہ فرمایا تو تمام کائنات میں بہترین اور افضل ترین ہستی حضرت محمد ﷺ کو اس راہ سے بھٹکی ہوئی نوع انسانی کے لئے مبعوث فرمایا اور پھر اس نعمت پر اکتفا نہ فرمایا بلکہ بارش رحمت کا سلسلہ مزید وسیع ہوا اورقیامت تک کے جن و انس کی رہنمائی کے واسطے اپنے نبی رحمت ﷺ پر اپنی عظیم الشان آخری کتاب ہدایت نازل فرمائی جسے ہم قرآن حکیم ، فرقان حمید کے نام سے جانتے ہیں۔اس عظیم الشان کتاب کے ہمارے اوپر کئی حقوق ہیں ان میں سے جہاں ہم پر یہ فرض ہے کہ اس پر اچھی طرح عمل کریں وہاں ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ اسے اچھی طرح یاد کریں اور اس کی تلاوت کریں اور وہ بھی اس طرح کریں جیسے کرنے کا حق ہے یعنی جس طرح صحابہء کرام نے اس کی تلاوت فرمائی۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ آج کے مسلمان انگلش زبان ادائیگی اور تلفظ میں تو بڑی احتیاط برتتے ہیں ۔ اس کی تلاوت کرتے وقت انتہائی خیال کیا جاتا ہے کہ کہیں خطاء سرزد نہ ہو جائے جبکہ عربی زبان اور قرآن کے بارے میں کوئی لحاظ نہیں۔محترم قاری ادریس العاصم ایک عرصہ دراز سے اس حوالے سے تدریسی ، تحریری اور فنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ زیر نظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اللہ انہیں جزائے خیر سے نوازے۔ آمین۔(ع۔ح)
مولانا اسماعیل سلفی جماعت اہل حدیث کے ایک بلند پایہ محقق، محدث، مدرس، خطیب اور لیڈر تھے۔مستقل مزاجی آپ کا اثاثہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ گوجرانوالہ کی ایک جامع مسجد میں سینتالیس سال امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔اس ہمہ جہتی اورطویل ترین محنت سے آپ نے ایک حلقہء احباب پیدا کیا۔پھر آپ کو اپنے محنت کے ثمربارآور ہونے کی اتنی قدر تھی کہ آپ نے اس کے لئے بڑی بڑی پیش کش کو بھی ٹھکرا دیا۔ آپ ایک متحرک اور فعال شخصیت کے مالک تھے۔ جماعت اہل حدیث کی تنطیم سازی میں شبانہ روز کا وشیں کیں۔ اس کے لئے آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ حالت سفر میں گزرا۔آپ نے ایک مصروف ترین زندگی بسر کی ۔ آخر ی سانس تک دینی خدمات سرانجام دیں۔ آپ کے خطبات سے علماء و عوام سب یکساں طور پر مستفید ہوتے۔جہاں عالمانہ نکتہ طرازی ہوتی وہاں عامیانہ مسائل کا حل بھی بطریق احسن موجود ہوتا۔آپ کی تبحر علمی کا یہ عالم تھا کہ ایک جملہ ایسا بولتے جس میں کئی پہلو سموئے ہوتے۔اور اس کی تشریح و تفصیل میں ایک طویل وقت درکار ہوتا۔ لیکن آپ اسے چند لمحوں میں کماحقہ سمجھا دیتے۔ اللہ آپ کی مرقد مبارک کو بے پناہ نور سے بھر دے۔ آمین۔(ع۔ح)
قرآن میں ہے’’ اسی طرح ہم نے تم کو میانہ روش بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔‘‘ اس آیت کے تناظر میں اہل حدیث فکر کے حاملین کا یہ کہنا ہے کہ ہم حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔عقائد ، عبادات اور معاملات وغیرہ میں کسی بھی پہلو سے افراط و تفریط کا شکار نہ ہوں۔حضرات صحابہ کرام اور سلف صالحین کا یہی منہج اور مسلک تھا۔جس طرح اسلام باقی تمام مذاہب و ادیان کےمقابلے میں وسط و اعتدال پر مبنی ہے اسی طرح صحابہ کرام ؓ و سلف تمام فرق کےمقابلے میں اعتدال و وسط کے پیروکار ہیں۔مثلا خوارج اور روافض کے مقابلہ میں صحابہ کرام ؓ کے بارےمیں انہی کا موقف اعتدال ، میانہ روی کا آئینہ دار ہے۔خوارج، معتزلہ اور مرجئہ کے مابین مسلہ وعدہ و وعید کے بارے میں سلف کا موقف ہی معتدل و وسط ہے۔قدریہ اور جبریہ کے مابین تقدیر میں وسط پہلو سلف ہی کا ہے۔جہمیہ معطلہ اور مشبہ کےمابین مسلہ صفات باری تعالیٰ میں وسط مسلک سلف ہی کا ہے۔ نہ ان کے ظاہریت ہے نہ تقلید جامد، نہ جمود ہے نہ ہی آزاد خیالی، نہ رہبانیت ہے اور نہ ہی حیلہ سازی۔فکر اہل حدیث کے قائلین و حاملین کا کہنا ہے کہ ہم اسی منہج فکر کے پر کار بند ہیں ۔ زیر نظر کتابچہ مصنف کی اسی طرز کی ایک کاوش ہے جس میں موصوف نے تاریخی اور علمی دلائل سے یہ بات ثابت کرنے کوشش فرمائی ہے۔(ع۔ح)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں زندگی گزار نے کے تمام تر اصول و ضوابط موجود ہیں۔بالفاظ دیگر انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق رہنمائی ملتی ہے۔دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ شرعی احکام و نصوص محدود ہیں جبکہ انسانی زندگی کے معاملات لامحدود ہیں ۔لہذا ان لامحدود مسائل کو حل کرنے کے لئے اجتہاد کرنا ضروری ہے۔اجتہاد اسلامی شریعت کو متحرک کرتا ہے۔ عصری مسائل کو اسلامی فکر کے مطابق ڈھالنا اجتہاد سے ہی ممکن ہے۔بصورت دیگر جمود آجائے گا۔لیکن اجتہاد کرنے کے لئے عقل انسانی آزاد نہیں اور نہ ہی خود ساختہ اصولوں کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس کے لئے بھی شریعت نے الگ سے اصول و ضوابط دیے ہیں۔ان کی پابندی اور پاسداری کرنا ہر مجتہد کے لئے ضروری ہے۔ اجتہاد کے بنیادی قواعد کیا ہیں؟ اس کے اصول و ضوابط کیا ہیں؟اس کے علاوہ اجتہاد کرتے وقت ایک مجتہد کے لئے کون سے عمومی مسلمات فکر کی پاسداری کرنی چاہیے؟اس سلسلے میں اہل سنت اور دیگر افکار و نظریات میں کیا فرق ہے؟یہ اور اس نوعیت کے دیگر بنیادی سوالات جن کی بہت زیادہ اہمیت ہے یہ سب اس کتاب کا موضوع ہیں۔اللہ موصوف کو اجر جزیل سے نوازے۔ انہوں نے حتی الوسع کوشش فرمائی ہے کہ اس باب میں اہل سنت کی احسن طریقے سے ترجمانی ہو جائے۔(ع۔ح)
شریعت اسلامیہ میں اصلاح عقائد کو بینادی حیثیت حاصل ہے ۔ کوئی بھی عمل جب تک صحیح عقیدہ پر مبنی نہ ہوگا ، اللہ رب العزت کے ہاں نہ تو بار پاسکے گا اور نہ ہی اجر و ثواب کا مستحق ہو سکے گا۔یہی وجہ ہے کہ حضرات انبیائے کرام نے اپنے مخاطبین کے سامنے سب سے پہلے جو مسائل بیان کیے ، ان کا تعلق عقیدہ تو حید سے تھا۔زیر نظر تالیف میں مؤلف نے عقیدہ کی اسی اہمیت کو اجا گر فرمایا ہے،جس میں الگ الگ ابواب کی صورت میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کے عالم الغیب ، حاضر و ناظر اور مختار کل ہونے کو بڑی خوبی اور صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔نیز رسول رحمت ، نبی آخر الزماں، خاتم النبین، رحمۃ للعالمین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی شان بشریت و نبوت کو نہایت مختصر مگر جامع اور سلجھے ہوئے انداز میں واضح کیا ہے۔ کمال یہ ہے کہ جو کچھ بھی لکھا ہے قرآن پاک کی تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں لکھا ہے۔جس سے انکار و فرار ممکن ہی نہیں۔اللہ تعالیٰ موصوف کی اس کاوش کو سعادت درین کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔(ع۔ح)
گزشتہ صدیوں میں استعماری غلبے اور استحصال کی یہ شکل تھی کہ استعماری قوتیں بذات خود نوآبایات میں آکر استحصال کی راہیں ہموار کیا کرتی تھیں۔ لیکن اب ان کا طریقہء کار بدل چکا ہے۔اگرچہ بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ دنیا مہذب ہو چکی ہے۔پہلےکی طرح ظلم و استحصال کرنا ممکن نہیں رہا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں بھی لوٹنے کھسوٹنے کی وہی صورت ہے بلکہ اس سے بھی بدترین شکل میں ہے۔چنانچہ آج استعماری قوتیں خود تو نہیں آتیں لیکن انہوں نے عالمی مالیاتی نظام ایسا بنا دیا ہے کہ جس میں ترقی پذیرممالک خود بخود ہی اپنا مال و دولت ان کے عشرت کدوں میں پھینک دیتے ہیں۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرناک اور اساسی ترین یہ کاغذ کی کرنسی ہے۔اس کتابچہ میں مصنف نے اسی پہلو کو اجاگر کرنے کوشش کی ہے کہ اگر اسلامی ممالک بالخصوص اور دنیا بالعموم اس نظام زر کے چنگل سے نجات حاصل نہیں کر لیتی اس وقت تک سکون کا سانس نہیں لے سکتی۔ اور اس کا صرف ایک یہی طریقہ ہے کہ دوبارہ سونے کے سکے رائج کیے جائیں۔(ع۔ح)
مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہیں سیرت سرور عالم پر لکھنے کی سعادت ملی ہے۔آپ کا اسم گرامی جیسے زبان پر آتا ہے ویسے ہی آپ کی عظیم ترین کاوش الرحیق المختوم یاد آجاتی ہے۔آپ عصر حاضر کے ان علماء میں سے تھے جو رسوخ فی العلم رکھتے تھے۔آپ اعظم گڑھ، مبارکپور کی سرزمین پرچھے جون انیس سو بیالیس میں پیدا ہوئے تھے۔بستی کا نام حسین آباد جو قصبہ مبارکپور کے شمال میں تقریبا دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اسی طرح مولانا کی تعلیم ، تدریس اور دیگر کار ہائےنمایاں کے بارےمیں یہ کتاب رقم کی گئی ہے۔جسے موصوف مرتب انتہائی زیادہ کاوشوں کے ساتھ منصہ شہود پر لے کر آئے ہیں۔ساتھ ان کی طرف سے یہ شکوہ کیا گیا ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ ایک اتنی بڑی شخصیت کے آنکھوں سے اوجل ہونے کے باوجود بھی سلفی حضرات کی طرف سے کسی معروف جریدے میں کوئی کلمہء تاسف نہ لکھا گیا۔ اللہ تعالی محتر م مؤلف کی اس عظیم کاوش کو قبول فرمائے۔(ع۔ح)
برصغیر پاک و ہند میں حدیث اور محدثانہ طرز استدلال کے پہلو کو اجاگر کرنے کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہ کا نام بہت یاد رکھا جائے گا۔آپ نے تقلیدی جمود کو توڑ کر تحریک حریت فکر و عمل کی بنیاد رکھی۔آپ کے بعد یہ تحریک عسکری و علمی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔اگرچہ فکری ارتباط دونوں ہی دھاروں میں رہا لیکن ہر کوئی اپنے حلقے کا بہترین نمائندہ بن گیا۔علمی فکری دھارے کی نمائندگی کے لیے جو سرخیل سامنے آئے ان میں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے عظیم شاگرد رشید جناب شمس الحق عظیم آبادی ہیں۔آپ نے حضرت شاہ ولی اللہ کے خواب کو تعبیر کا جامہ پہناتے ہوئے علم حدیث کی ایسی شرح کرنے کی کوشش فرمائی جو فقہائے محدثین کے طرز استدلال پر ہو۔اس سلسلے میں آپ کا یہ ارادہ تھا کہ درس نظامی کےنصاب میں شامل کتب حدیث پر کم از کم حاشیہ چڑھا دیا جائے۔ عون المعبود اسی سوچ کا نتیجہ تھا۔آپ بے پناہ اسلامی اور مسلکی غیرت کے حامل تھے۔منہج اہل حدیث کو اجاگر کرنے کے لئے بیش بہا خدمات سرانجام دیں۔ زیرنظر کتاب میں آپ کی دینی خدمات کو واضح کرتے ہوئے زندگی کے مختلف گوشوں پر حاوی ہے۔ہم تہہ دل سے دعا گوہیں کہ اللہ آپ کو جوار رحمت میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔آمین۔(ع۔ح)
امام محمد بن حسن شیبانی صاحبین یعنی امام ابوحنیفہ کے دو جلیل القدر شاگردوں میں سے ایک ہیں جن سے ان کی فقہی روایت آگے بڑھی ہے ، ان کے دوسرے شاگرد امام ابویوسف ہیں ۔امام ابوحنیفہ کی جانب اگر چہ عقائد اور تعلیم و تعلم سے متعلق چند رسائل منسوب ہیں ،مگر حدیث و فقہ پر ان کی اپنی مرتبہ کوئی کتاب محفوظ نہیں، ان کے علمی تبحر اور تفقہ فی الدین کا حاصل ان کے شاگردوں اور بالخصوص صاحبین کی تالیفات میں ملتا ہے ۔ امام ابو یوسف کا تحریری کارنامہ کتاب الخراج اور الرد علی سیر الاوزاعی جیسی کتابوں تک محدود ہے ۔ اس کے برعکس امام محمد بن حسن شیبانی کی تالیفات فقہ و قانون کے سارے پہلووں کی جامع ہیں ، اور نہایت مفصل ہیں ۔ امام محمد بن حسن کے اس کارنامے کے سبب جملہ متاخر حنفی فقہاء ان کے خوشہ چین ہیں ۔ امام شیبانی ، اسلامی فقہی روایت سے قطع نظر بنی نوع انسان کی تاریخ قانون میں منفرد مقام کے حامل ہیں ۔ ان کی کتاب الاصل یا المبسوط کا مقابلہ اگر رومن قانون کی شہرہ آفاق کتاب مجموعہ قوانین جشی نین سے کیا جائے تو امام شیبانی کی ژرف نگاہی اور دقت نظر کا قائل ہونا پڑتا ہے ۔ زیرنظر کتاب امام صاحب کی زندگی کے مختلف پہلووں اور ان کی دینی خدمات پر مشتمل ہے ۔ اللہ مصنف کو اجر سے نوازے ۔ آمین۔(ع۔ح)
اس وقت برصغیر پاک و ہند میں جس قدر بھی جہاد ہو رہا ہے اس کے بارے میں اگر یہ رائے رکھی جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اس کی اساس سید احمد شہید ؒ نے رکھی تھی ۔ آپ ؒ نے اس وقت علم جہاد بلند کیا جب برصغیر میں کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں زوال کے آثار نمایاں تھے ۔ امت کا انتشار و افتراق اور دین سے جہالت بہت بڑھ چکی تھی ۔ انگریز اور سکھ اپنے خونی پنجے گاڑھ چکے تھے ۔ حالات میں مایوسی اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکی تھی ۔ اس صورت حال میں سید صاحب نے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دلائی ۔ اور ایک جماعت کی اساس رکھی ۔ آپ نے خیبر پختونخوا میں ایک ریاست اسلامیہ کی تاسیس بھی رکھی ۔ حتی کہ خطبوں میں بھی آپ کا نام لیا جانے لگا ۔ تاہم اپنے کی غداری کا شکار ہوئے ۔ آپ کے بعد بھی جماعت مجاہدین نے اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔ مسلمانان برصغیر میں جذبہء جہادی و آزادی کی روح آپ کی ہی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے لوگوں کے شرکیہ عقائد اور بدعی اعمال کی اصلاح کا بھی بیڑا اٹھایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میدان میں آپ کو کامیابیوں سے نوازا ۔ زیرنظرکتاب مولانا ابوالحسن ندوی ؒ کی تصنیف سید احمد شہید ؒ کی خدمات و حیات کے کئی ایک پہلؤوں پر توجہ دلاتی ہے ۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک محولہ اور جامع کتاب ہے ۔ اللہ مصنف محترم کو اجر سے نوازے۔(ع۔ح)
نماز اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے ۔یہ مسلمانوں کی اجتماعیت اور مرکزیت کی علامت ہے۔آنحضرتﷺ نے اس رکن عظیم کی بنیاد پر کفر و اسلام کی حدود کھینچی ہیں ۔اسے مؤمن کی معنوی و روحانی معراج قرار دیاگیا ہے۔روز محشر اس فریضہ کی ادائیگی کی سب سے پہلے باز پرس کی جائےگی۔اس میں کوتاہی موجب ہلاکت ہوگی۔اسی وجہ سے اس اہم ترین فریضہ کی ادائیگی پر آنحضرتﷺ نے پرزور تاکید فرمائی ہے۔اس حوالے سے ایک جامع اور آسان ترین طریقے سے رہنمائی کی ضرورت تھی ۔چنانچہ مولانا صادق سیالکوٹی صاحب نے ایک عظیم کوشش کرتے ہوئے ’’ صلوۃ الرسول ‘‘ نامی کتاب تصنیف کی لیکن اس میں متعدد کوتاہیاں موجود تھیں اور اس کی تخریج موجود نہیں تھی ۔چناچہ اس کتاب کی مزید تحقیق کرتے ہوئے مولانا عبدالرؤف بن عبدالحنا ن نے ’’ القول المقبول فی شرح وتعلیق صلوۃ الرسول ﷺ‘‘ نامی کتاب لکھ کر اس کی احادیث کی تخریج اور بعض مقامات پر علمی تعلیق پیش کر دی ہے ۔اللہ تعالی مؤلف محترم اور محقق صاحب کو اجر جزیل سے نوازے۔اور ان کی اس سعی جمیل کو توشہ آخرت بنائے۔آمین۔(ع۔ح)
آپﷺ کے شمائل و خصائل کی خوشبو ہمہ وقت اور ہمہ جہت ہے ۔ رات کے سونے اور جاگنے میں ، دن کے معمولات ، عبادات اور معاملات میں سیاست و سیادت میں ، خوف و تقویٰ میں صبر و ثبات میں صلہ رحمی و ہمدردی میں ، سختی و نرمی میں ، شجاعت و سخاوت میں ، درگزر و معافی میں ، حق گوئی و بے باکی میں ، خوراک و لباس میں، خوشی و غمی میں ، خوشحالی و تنگدستی میں ، یتیمی و مسکینی میں ، اٹھنے اور بیٹھنے میں ، شرم و حیاء میں بیماری و تندرستی میں ، خلوت و جلوت میں ، اپنوں اور بیگانوں میں ، دوستوں اور دشمنوں میں ، امن و جنگ میں ، ہنسنے اور مسکرانے میں مثالی کردار کی خوشبوئیں پھیلتی گئیں ۔ آپﷺ کی ذات مقدس جامع الصفات و الکمالات تھی ۔ شمائل النبی ﷺ پر برصغیر میں لکھی جانے والی کتب میں عام طور پر اس موضوع کا پوری طرح احاطہ نہیں کیا جاتا ۔ شمائل کے نام پر آپﷺ کی پوری سیرت لکھ دی گئی ۔ موصوف نے انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنی تالیف کو مقررہ حدود کے اندر رکھا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ شمائل کے تمام چھوٹے بڑے پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ کتاب کا حجم بھی بہت مناسب ہے بے مقصد طوالت نہیں ۔ اللہ مؤلف کو اجر جزیل سے نوازے ۔ (ع۔ح)
شیخ الحدیث مولانا ابوانس محمد یحییٰ گوندلوی ؒ علیہ جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین ، بلندپایہ محقق، منجھے ہوئے مدرس ، حاضر جواب مناظر ، لائق مصنف و مترجم اور شارح اور سلجھے ہوئے خطیب تھے ۔ انہوں نے درس و تدریس ، تصنیف و تالیف ، وعظ و تقریر اور مناظروں اور مباحثوں سے دین اسلام کی صحیح تعلیم کو اجاگر کیا اور بے پناہ خدمات سرانجام دیں ۔ وہ سادی وضع کے عظیم المرتبت عالم دین تھے ۔ حدیث رسولﷺ کو پڑھنا پڑھانا زندگی بھر ان کا مقصد حیات رہا۔ زیرنظر کتا ب ان کی حیات و خدمات پر مشتمل ہے ۔ جسے جماعت اہل حدیث کے معروف قلم کار عبدالرشید عراقی نے رقم کیا ہے اور اسے چھ (6) ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ پہلے باب میں ان کے حالات زندگی ، تعلیم ، تدریس اور ان کے اخلاق و عادات پر روشنی ڈالی گئی ہے ، دوسرے باب میں مولانا گوندلوی کے اساتذہ کا تذکرہ ہے ۔ تیسرے باب میں ان بیس تصانیف کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے چوتھا باب ان کے فتاوی کے متعلق ہے پانچویں باب میں مولانا گوندلوی نے دوسرے مصنفین کی تصانیف پر جو مقدمات و تقریضات اور تعارف لکھا ان کا ذکر ہے ۔ آخر باب میں مولانا گوندلوی کاعلم مناظرہ میں جو مقام تھا اس پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے ساتھ آپ نے جماعتی رسائل و جرائد میں جو مقالات و مضامین لکھے ان کی جو تفصیل مل سکی ہے اس کا ذکر کیا ہے ۔ (ع۔ح)
اس میں بھلا کیا شک ہے کہ آپﷺ کی ذات گرامی او رسیرت مطہرہ ہر مسلمان کے لیے اور زندگی کے ہر شعبہ میں بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہے ۔ انفرادی ، اجتماعی اور گھریلو زندگی تک کوئی پہلو ایسا نہیں جس میں آپ ﷺ کی حیات طیبہ سے رہنمائی نہ لی جا سکے۔اور پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ آپ کے طرز و اطوار میں انتہائی زیادہ اعتدال اور تواز ن ہے۔آپ جو شریعت لے کر آئے تھے وہ ملکی قوانین سے لے کر خلوت نشینی تک کے احکام اپنے اندر رکھتی ہے ۔ اور آپ نے بہترین طریقے کے ساتھ انہیں اپنی زندگی میں لاگو کر کے اپنی امت کو عملی نمونہ پیش فرمایا ہے ۔ لہذا جہاں اللہ کی شریعت سے رہنمائی لینی ضروری ہے وہاں آپ کی حیات طیبہ کو بھی سامنے رکھنا لازم ہے تاکہ اس حکم کی تعمیلی صورت سامنے آجائے ۔ مسلمانوں کے اندر یہی شعور بیدار کرنے کے لیے پاکستان کی مشہور و معروف یونیورسٹی بہاولپور نے سیرت کےحوالے سے دوعالمی کانفرنسیں منعقد کی تھیں ۔ زیر نظرکتاب اس کانفرس میں پیش کیے گئے مختلف مقالات کامجموعہ ہے ۔جو کہ اہل علم کے لیے بیش قیمت رہنمائی کاذریعہ بن گئی ہے۔ (ع۔ح)
قرآن کریم ، اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کیا گیا آخری خطاب ہے ۔ قرآن بظاہر ایک کتاب ہے ، لیکن یہ ایک ایسی نعمت ہے جو ہر ایک دل میں جلوہ فگن ہے ۔ قرآن کریم کی ہر آیت یکتا و بے مثل ہے ، ترتیب اور شفتگی الفاظ ، بیان کی خصوصیات ، سورتوں کا غیر معمولی آغاز و اختتام ، آیات کی وانی ، بے مثل افکار رسانی اور الفاظ کا ایک حسین امتزاج کا نظارہ اور کیف آور اور وجد آفریں ہے ۔ قرآن کریم کے الفاظ و آیات اس قدر جامع اور وسیع المعنی ہیں کہ کسی بھی زبان میں ان کا ترجمہ کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔ الفاظ و آیات کی مفصل تو کی جاسکتی ہے لیکن ان کے معانی و مفہوم کا ہمہ جہت اور مکمل احاطہ کرنا ناممکن ہے ۔ زیر نظر کتاب درحقیقت مقالات کا مجموعہ ہے جو بہاولپور یونیورسٹی میں ایک کانفرس کے ذریعے پیش کیے گئے تھے ۔ اس کا مقصد قرآن مجید کے ان ترجم کا جائزہ لینا تھا جو برصغیر میں مختلف ادوار میں کئے گئے ہیں ۔ برصغیر میں زبان اردو کے اندر ترجمۃ القرآن کی روایت شاہ رفیع الدین سے شروع ہوئی جو ابھی تک بڑی تندہی سے جاری و ساری ہے ۔ اس کانفرس میں یہ کوشش کی گئی کہ اردو کے نمایاں تراجم سامنے لائے جائیں تاکہ اس رویت کو ایک معیار کی شکل دی جاسکے۔(ع۔ح)