یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دنیا کے کفار بالخصوص ہنود و یہود اور صلیبی امت مسلمہ کی تباہی کے لیے کمر بستہ ہو چکے ہیں۔ انھوں نے یہ سازشی منصوبہ بنایا ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کے اس مضبوط خاندانی نظام کو تباہ کر دیں کہ جس کی بنا پر ایسے افراد جنم لے رہے ہیں جونہ صرف ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرأت کرتے ہیں بلکہ ان کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان کے ذرائع ابلاغ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا وغیرہ خاص طور پر ان کے مشن کو مسلمانوں میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ محترمہ روبینہ نقاش نے یہ کتاب اسی لیے ترتیب دی ہے کہ ان ذرائع و اسباب سے آگاہی حاصل کی جائے کہ جن کے ذریعے کفر ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے، تاکہ اپنے خاندانوں اور مسلم گھرانوں کو تباہی و بربادی سے بچایا جا سکے۔ یہ بربادی کس کس طرح ہمارے گھروں میں داخل ہو رہی ہے؟ اور اس سے ہم نے اپنے آپ کو کیسے بچانا ہے؟ یہی اس کتاب کا موضوع ہے۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصے میں ان محرکات کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی وجہ سے ہمارے گھر بربادی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اور واقعتاً یہ ایسے محرکات ہیں جن کو معمولی سمجھنے کی وجہ سے ہم غیر محسوس طریقےسے ان میں جکڑے جا چکے ہیں۔ کتاب کا دوسرا حصہ ’گھر کو جنت کیسے بنائیں؟‘ کے عنوان سے ہے جس میں گھر کو پر سکون اور کامیاب بنانے کے طریقے درج کیے گئے ہیں۔ کتاب کا اسلوب بہت سادہ اور عام فہم ہے عوام و خواص کے لیے اس کا مطالعہ بہت مفید ہے۔(ع۔م)
عصر حاضر کے بڑے بڑے فتنوں میں سے ایک فتنہ فحاشی و عریانی بھی ہے ۔ مغرب نے عورت کو گھر سے نکال کر اپنے افکار کی ترویج کے لیے بڑی خوش اسلوبی سے استعمال کیا ہے ۔ آج معاشرے میں ہر کہیں فحاشی وعریانی کا بازار گرم ہے ۔ اور یہ تمام تر اثرات مغربی فکر اور فلسفے کے ہیں ۔ اہل مغرب نے پہلے عورت سے کہا کہ وہ معیشت میں یکساں اجرت کا مطالبہ کرنے کے لیے گھر سے نکلے پھر اس کے بعد اس قضیے کو زندگی کے ہر شعبے میں پھیلا دیا۔ زیر نظر کتاب میں ام عبدمنیب نے اسلامی لباس کی وضع وقطع کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے جو کہ ایک فطر ی اور سادہ لباس ہے ۔ جس میں اسراف اور تبذیر سے گریز اختیار کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح رہے کہ لباس کی وضع و قطع تہذیب کے اہم ترین مسائل میں سے ہے ۔ جس میں اسلام اپنا ایک ایسا لباس متعارف کرواتا ہے جو ستر و حجاب کی تعلیمات کے عین مطابق ہو ۔ جبکہ اس کے برعکس مغرب ایک ایسا لباس سامنے لے کر آتا ہے جو اس کے فلسفہء حیات کے عین مطابق ہے ۔ لحاظہ اس حساب سے لباس کا تعلق تہذیب سے بھی ہے ۔ ام عبدمنیب نے اس سلسلے میں بھی بطریق احسن روشنی ڈالی ہے کہ صحیح اسلامی لباس کے بارے میں تعلیمات سامنے آجائیں ۔ اللہ انہیں اجر سے نوازے ۔ اور ہمیں اس پرعمل کرنےکی توفیق عطا فرمائے ۔ (ع۔ح)
اس میں بھلا کیا شک ہے کہ اس وقت امت مسلمہ پرزوال کا دور ہے۔ مسلمان ہر لحاظ سے ابتر کا شکار ہیں۔ ان کی سیاست میں انتشار، ان کی معاشرت میں بے راہ روی، ان کی معیشت میں تباہ حالی اسی طرح تزکیہ نفس اور اصلاح باطن کا شدید فقدان ہے۔ گویہ یہ زوال ہمہ جہتی ہے۔ اور یہ شروع بھی گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہواہے۔ امت کی اس زبوں حالی کو دیکھ کر اسے سدھارنے کےلیے کئی ایک جماعتیں اٹھیں، ان میں سے کچھ دعوتی تھیں اور کچھ عسکری۔ ایسے ان جماعتوں میں سے سب سے اہم ترین جماعت اخوان المسلمین ہے جس نے احیائے امت کےلیے تقریباً ہمہ جہت کام کیا۔ بنیادی طور پر اخوان کامحاذ سیاسی تھا۔ اور گزشتہ صدی میں جو جماعتیں امت کےلیے ایک نمونے کی حیثیت سے سامنے آئی ہیں ان میں سے بھی اخوان کا شمار ہوتا ہے۔ مختصر بات یہ ہےکہ اخوان کانظم ونسق اور اس کے کارکنان کی تربیت واصلاح ایک مثال تھے۔ زیرنظرکتاب میں اس عظیم تحریک کے نظام اصلاح وتربیت کو سمجھانے کی یا اسےآگے پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں مصنف نے اس تحریک کے دعوتی اور تربیتی پہلو کو زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ (ع۔ح)
افراد اور اقوام کے رہن سہن، عادات وخصائل حتی کہ کھانے پینےکےآداب کوبھی تہذیب وتمدن اور ثقافت وکلچرمیں شمارکیاگیاہے۔ ہرمعاشرے اوراقوام کی عادات واطوار، بودوباش او رکھانے پینے کے انداز ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ تہذیب وتمدن انسانوں کی عزت وعظمت کامعیار ہی نہیں بلکہ افراد کو یکجا اورمتحدرکھنے میں اس کا بڑا دخل بھی ہے۔ جس طرح نظریا ت آدمی کو ایک دوسر ےکےقریب اور دور کرتے ہیں یہی قوت تہذیب وتمدن میں کارفرماہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے اپنی تہذیب کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی تہذیب کو اپنایا وہ انہی میں سے ہوگا۔ لہذا ضروری تھا کہ امت کےتہذیب وتمدن کو نمایاں اورمسلم امہ کو ممتاز رکھنےکے لیے اس کو ایک ایسی فکریکسوئی اورحسن عمل سے آراستہ کیا جاتا جس کی کوئی نظیر پیش نہ کرسکے۔ اورپھر امت اس قوت کےساتھ اقوام عالم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے۔ زیرنظرکتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں میاں جمیل صاحب جوکہ ایک مشہور عالم دین ہیں انہوں نےآپ ﷺ کی سیرت اور تاریخ کے دیگراسلامی واقعات کی روشنی میں تہذیب اسلامی کے جملہ پہلووں کو اجاگرکرنےکوشش کی ہے۔ (ع۔ح)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کوآزمانےاوربخشنےکےلیے مختلف طریقے اور حیلے وضع کیے ہیں۔ ان میں ایک روزہ رکھناہے۔ روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ انسان کے ہر نیک عمل کا ثواب اس میں پائے جانے والے خلوص اور جذبہ کے مطابق بڑھا دیا جاتا ہے۔ لیکن روزے کا ثواب اللہ تعالیٰ نےاپنےپاس رکھاہے۔ فرمایا کہ میرا بندہ میرےلئے روزہ رکھتاہے اس لیے اس کابدلہ میں ہی دوں گا۔ ماہ صیام تمام مسلمانوں کو تقویٰ اور ایما ن کے مطابق سکون اور ایمان قلب عطا کرتاہے۔ اس ماہ میں ایک مسلمان تسبیح وتحلیل، ذکرالہی، تلاوت قرآن مجید، ادئیگی نوافل، صدقہ وخیرات کرکے،منکرات اور لغو باتوں سے بچ کر اپنے آپ کو اللہ کی نظر میں سرخروکرلیتا ہے۔ زیر نظر کتابچے میں ڈاکٹر ہمایوں شیخ صاحب نے اسلام کے اس افضل ترین فریضہ اور عبادت کے حوالے سے اس کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔اس کےساتھ یہ ہےکہ رمضان کےفوراً بعد ایک عظیم الشان اسلامی تہوار آتاہے چنانچہ اسی مناسبت سے اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہےکہ اس موقع پر اہل اسلام باہم طور پر کس طریقے سے خوشیاں تقسیم کریں۔ فہم قرآن انسٹی ٹیوٹ کا بنیادی مقصد ہی یہ ہےکہ دورِ جدید میں اسلامی تعلیمات کو اس قدر آسان اسلوب میں پیش کر دیا جائے کہ اس کی تفہیم ہرخاص وعام کے لئے ممکن ہوجائے۔ اور یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ استدعا ہےکہ اللہ ہمیں اس سے کماحقہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔(ع۔ح)
قرآن عظیم اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کی ہدایت کے لیے ایک جامع واکمل کتاب ہے جس کی رسول ﷺاللہ نے اعمال واقوال کے ذریعے تشریح فرمائی ۔ قرآن کریم صرف احکام وتشریحات کی کتاب نہیں بلکہ پوری کائنات کے لیے ایک ضابطہءحیات ہے ۔قرآن میں فکر وتدبر ،حکمت وعبرت،علم ونظر وعقل وافعال پر بےشمار آیات ہیں ۔ رسولﷺکا فرمان ہے (تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اورسکھائے )قرآن کے نزول کا مقصد اس میں تدبر،غور وفکر اور عمل کرناہے۔قرآن مجید ضخامت وحجم میں چھوٹا ہے لیکن مضامین اور معنوی عظمت کے لحاظ سے بہت بڑا ہے ۔ وسعت معلومات اور براہین و دلائل کے لحاظ سے ایسا بحر رواں ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ۔اسکا اسلوب بیاں فطری ہے۔انسانی عقل وفراست اسکی کماحقہ حقیقت سےعاجز ہے ۔اگر مسلمان اپنی سابقہ عظمت رفتہ کی طرف واپس آناچاہتےہیں تو اس عظیم الشان کتاب کو سمجھ کر پڑھیں۔صرف زبانی یاد کرلینے سے اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی طرف متوجہ نہ ہوےتو ہو سکتاہے کہ اللہ کے رسول ﷺکی شکایت ہمیں بدبختی کے گڑھےکی طرف دھکیل دیں۔قرآنی مقاصد کو حاصل کرنےکیلے عربی زبان اور اس کے قواعد کو سیکھنا انتہائی ضروری ہے۔اس کے قواعد کو آسان تر کرنے کے لیے ہردورمیں مساعی ہوتی رہی ہیں۔ اس سلسلے میں مولا ناعطاالرحمن ثاقب صاحب کو اللہ تعالی نے جو ملکہ دیا تھا وہ بے بدیل ہے ۔انہوں نے اس کارخیرکو سرانجا م دینے کے لئے ایک سعی بے مثال کا آغاز کیاتھا۔لیکن صد افسوس کہ براچاہنے والونے انہیں شہید کردیا۔تاہم ان کی مساعی کو آگے بڑھانے کے لیے ،ان کے ہی قائم کردہ ادارےفہم قرآن انسٹی ٹیوٹ نے بیڑا اٹھایا۔یہ تشریح بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔(ع۔ح)
آج پوری دنیا میں مغربی تہذیب اور کلچر کے اثرات ہیں مسلمان خواہ عورت ہو یا مرد وہ حقیقی معنوں میں اپنے اسلام پر عمل کرنا چھوڑ گئے ہیں ۔ اسلام کی جہاں گونا گوں اقدار کو پس پشت ڈالاگیا ہے وہاں ایک اسلامی معاشرے کی نمایاں ترین قدر ، پردہ بھی ہے ۔ سوسائٹی میں جابجا بےپردگی عام ہے ۔ آج عورت فیشن ایبل بن کر ، ننگے منہ ، ننگے سر عطر پرفیوم لگا کر بازاروں ، سٹوڈیوز، کلبوں اور کھیل کے میدانوں میں گھومتی ہے بلکہ بین الاقوامی کھیلوں کے میچ میں بن سنور کر شریک ہوتی ہے اور اس حالت میں بگڑے ہوے معاشرے کے اندر مردوں کو دعوت گناہ دیتی ہے ۔ جیسا کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے ۔ (غلط) دیکھنا آنکھ کا زنا ہے (غلط ) بولنا زبان کا گناہ ہے ۔ اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے ۔ اور شرمگاہ ان تمام امور کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے ۔ (بخاری6612) اسلام نے عورت کو عفت و عصمت اور پاکدامنی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے گھر میں رہنے کی تاکید کی اور جب کبھی ضرورت سے باہر جانا پڑے تو پردے کا حکم دیا ہے ۔ اس کتابچے میں مختصر انداز میں پردے کا شرعی حکم بیان کیا گیا ہے ۔ لمبی لمبی فقہی بحثوں کو نہیں چھیڑا گیا ۔ تاکہ مسلمان خواتین کے سامنے پردے کی اہمیت اجاگر ہوجائے اور بےپردگی سے نفرت کا احساس بیدار ہو جائے ۔ (ع۔ح)
منطق اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعےمعلوم حقائق سے نامعلوم کی طرف پہنچاجاتاہے۔ یہ ایک فن بھی ہے کیونکہ اس کے ذریعے گفتگوکے دوران مناظرہ کےآداب اور اصول متعین کیے جاتے ہیں۔منطق کو یونانیوں نےمرتب کیا اس فن کا آغاز اور ارتقا ارسطو سے ہوا۔ پھریہ مسلمانوں کے ہاتھ لگا انہوں نے اس میں قابل قدر اضافےکیے۔ اس کے بعد اہل یورپ نے اس میں اضافہ جات کیے ۔منطق کو تمام زبانوںمیں لکھاگیا۔تاہم یہ ایک مشکل فن ہے اس لئے کتابوں کے اندر بھی اس کی پیچیدگی سامنےآتی تھی۔ اساتذ کے بغیراس فن کا حصول ناممکن سا لگتا تھا۔ جناب کرامت حسین صاحب نے اس فن کی پچیدگی دورکرنےکےلیے یہ آسان ترین کتاب لکھی۔ یہ کتاب پہلے انگلش میں لکھی گئی پھر اردو میں بھی مصنف نے اس کو خود ہی رقم کیا۔ اگرچہ مصنف کے پیش نظر ایف ۔اےکےطلباکی علمی وفنی ضرورت پورا کرنا مقصود تھا۔ تاہم پھربھی اس کتاب میں اس علم کے متعلق اس قدر صراحت آچکی ہے کہ ایک طالب کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ دور جدید میں منطق کو طریق استدلال کے پیش نظر دو طرح تقسیم کیاگیاہے۔ ایک استخراجی اور دوسری استقرائی۔جس میں سے استقرائی سائنس کی بنیاد ہے جبکہ استخراجی بحث واستدلال کےعمومی اصول ہیں۔زیرنظرکتاب استقرائی ہے۔ (ع۔ح)
منطق اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعےمعلوم حقائق سے نامعلوم کی طرف پہنچاجاتاہے۔ یہ ایک فن بھی ہے کیونکہ اس کے ذریعے گفتگوکے دوران مناظرہ کےآداب اور اصول متعین کیے جاتے ہیں۔منطق کو یونانیوں نےمرتب کیا اس فن کا آغاز اور ارتقا ارسطو سے ہوا۔ پھریہ مسلمانوں کے ہاتھ لگا انہوں نے اس میں قابل قدر اضافےکیے۔ اس کے بعد اہل یورپ نے اس میں اضافہ جات کیے ۔منطق کو تمام زبانوںمیں لکھاگیا۔تاہم یہ ایک مشکل فن ہے اس لئے کتابوں کے اندر بھی اس کی پیچیدگی سامنےآتی تھی۔ اساتذ کے بغیراس فن کا حصول ناممکن سا لگتا تھا۔ جناب کرامت حسین صاحب نے اس فن کی پچیدگی دورکرنےکےلیے یہ آسان ترین کتاب لکھی۔ یہ کتاب پہلے انگلش میں لکھی گئی پھر اردو میں بھی مصنف نے اس کو خود ہی رقم کیا۔ اگرچہ مصنف کے پیش نظر ایف ۔اےکےطلباکی علمی وفنی ضرورت پورا کرنا مقصود تھا۔ تاہم پھربھی اس کتاب میں اس علم کے متعلق اس قدر صراحت آچکی ہے کہ ایک طالب کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ دور جدید میں منطق کو طریق استدلال کے پیش نظر دو طرح تقسیم کیاگیاہے۔ ایک استخراجی اور دوسری استقرائی۔جس میں سے استقرائی سائنس کی بنیاد ہے جبکہ استخراجی بحث واستدلال کےعمومی اصول ہیں۔زیرنظرکتاب استخراجی ہے۔ (ع۔ح)
اللہ تعالی کے احکام اور رسول ﷺ کےارشادات کو پس پشت ڈال کرجس طرح آج ہم روشن خیالی کو اپنا رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ قرآن اور فرمان رسول ﷺ سے دوری ہے۔ دین سے اس دوری کی وجہ سے ایک عا م مسلمان کےلیے حق کی تلاش مشکل ہوگئی ہے۔ بطورمسلمان ہم اپنی اسلامی اقدار اورتہذیب وتمدن کو بھولتےجا رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا اس معاملےمیں سونےپرسہاگے کا کام کررہے ہیں۔غیرمسلموں کی تقلیدمیں ہم اتنے عجلت پسند واقع ہوے ہیں کہ بغیرسوچےسمجھے ان کےنقش قدم پرچلنا شروع کردیتے ہیں۔ لباس،ستر،حجاب اورزینت وزبائش کےمتعلق احکام قرآن میں موجود ہیں اور اس بارے میں رسول ﷺ کےفرمودات کتب احادیث میں دیکھے جا سکتے ہیں۔فہم قرآن انسٹی ٹیوٹ نے احکام الہی اورفرمان رسول ﷺ کو اکٹھاکرکے یہ کتابچہ تشکیل دیا ہے۔ تاکہ آپ بآسانی احکام الہی اورفرامین نبوی ﷺ سے آگاہ ہوسکیں۔ اورتہذیب مغرب کی چکاچوند کےبہکاوے سے اپنے ایمان کو محفوظ رکھ سکیں۔ اور بہترین اسلامی طرززندگی کو اپناشعار بنا سکیں۔ (ع۔ح)
شیخ السلام امام ابن تیمیہ ؒ اپنے عہد کے وہ عظیم محدث ، مجتہد ، مجاہد ، مفتی اور غیور ناقد تھے جنہوں نے موقع کی مناسبت سے باطل مذاہب ومسالک کے ردود بھی لکھے اور فلسفیانہ ومنطقیانہ موشگافیوں کی اصل حقیقت بھی واضح فرمائی ، نیز عوام کے مسائل ہوں یا علما کی ذہنی الجھنیں ، آپ نے اپنے فتاوی کے ذریعے سے ان کا بہترین حل پیش جو آج بھی اس راہ کے راہیوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔ شیخ السلام کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے آپ نے اپنے دور میں کتاب و سنت کی ترجمانی کی ، دین اسلام کی برتری اور اہل حق کی علمبرداری خود پر لازم کر رکھی تھی ۔ آپ نے جہاں عقائد باطلہ اور فرق ضالہ کے خلاف قلمی جہاد کیا ، وہاں اخلاقیات ، عبادات ، معاملات اور حقوق وآداب پر بھی کئی کتابیں تحریر کیں ہیں ۔ انہیں میں سے ایک تصنیف لطیف کتاب الاربعین ہے جس میں ایک اسلامی زندگی کے مذکورہ گوشوں پر بڑی خوش اسلوبی سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس کتاب کو محترم حافظ زبیر علی زئی نے اردو قالب میں ڈھال کر اعلی تحقیق و تخریج سے مزین کیا ہے ، نیز مختصر جمع و فوائد اس پرطرہ ہیں ۔ محترم حافظ صاحب دور حاضر میں حقیقی علمی درد رکھنے والے ہیں ۔ اللہ ان کی دینی خدمات قبول فرمائے ۔ (ع۔ح)
اللہ تعالی خالق، رازق، مالک اور معبود ہے ہم اس کی مخلوق، مرزوق، مملوک اور عابد ہیں۔ ان اصاف کے امتیاز کا اساسی پیمانہ دعا ہے۔ یعنی دعا کرنا ایک ایسا فعل ہے جس سے نمایاں طور پر مذکورہ فرق سامنے آتاہے۔ اسلام نے تزکیۂ نفس اور اللہ سے بندے کا تعلق مربوط کرنے کےلیے ایک یہ بھی طریقہ اپنایا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مختلف مواقع کی مناسبت پہ ادعیہ سکھادی ہیں۔ اس کےعلاوہ بھی دعا ایک ایسا عظیم الشان اور منفرد عمل ہے کہ تمام انبیا ورسل ؑ نے اللہ کے ہاں دست دعا دراز کیا ہے۔ ابو البشر سیدنا آدم، آدم ثانی حضرت نوح، حضرت یعقوب، حضرت ایوب، حضرت یوسف، حضرت یونس، حضرت موسیٰ، حصرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمدﷺ سب ہی بارگاہ الہی کے سائل رہے۔ انبیا کی اس سنت کو زندہ کرنے اور اسلامی ادعیہ سکھلانے کےلیے فہم قرآن انسٹی ٹیوٹ نے یہ بنیادی کاوش کی ہے کہ اکثر مواقع کے لحاظ سے ادعیہ کا مرقع جمع کردیا ہے اس کتاب میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیاہے کہ ایسی ادعیہ جو ایک معمول سے متعلق تھیں یا ایسے افعال وحرکات وسکنات جن سے ایک انسان کو اکثر واسطہ پیش آتا رہتا ہے انہیں پہلے رکھا گیا ہے اور وہ ادعیہ جو خاص مواقع کی مناسبت سے تعلق رکھتی تھیں انہیں مؤخر بیان کردیاہے۔ (ع۔ح)
دین اسلام کے حقیقی وارثین وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے نزول قرآن کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا اور نبی کریم ﷺ کے روئے زیبا کو دیکھ کر اپنے ایمان ویقین کو تازہ کیا، انہیں نفوس قدسیہ کی محنتوں، کاوشوں اور عظیم الشان قربانیوں اور بے مثال جان نثاریوں کانتیجہ ہے کہ آج دین اسلام کامل اور مکمل شکل میں موجود ومحفوظ ہے۔ یہ وہ عظیم ہستیاں تھیں جنہوں نے اسوہ رسول ﷺ کو ہمہ دم مقدم رکھا۔ المختصر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حیات طیبہ کے روشن دریچوں سے یہ بات عیاں ہے کہ جس طرح اتباع میں ان کا جذبہ کامل تھا اسی طرح ابتداع اور نو ایجاد شدہ بدعتوں سے وہ بالکل دور اور متنفر رہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ طرز عمل رہا کہ جب بھی اہل ھوا اور اصحاب بدعت نے اپنی بدعات وخرافات سے دین میں مداخلت کرنے کی سازشیں کیں اور فتنوں کو جنم دیا تو فوراَ ہی زبان وبیان اور سیف وسنان سے ان کے خلاف معرکہ آراء ہوگئے ۔ دین میں بدعت کا ایجاد کرلیا جانا بہت ہی خطرناک اور گھناؤنا کھیل ہے۔علمائے سلف واضح طور بدعتوں کی سیہ کاریوں، تباہ کاریوں اور بربادیوں کے سلسلے میں ملت کو آگاہ رکرتے رہے۔کیونکہ دین میں سب سے بڑا چور دروازہ اہل بدعت کی یہی فتنہ سامانایں ہیں جن سے اہل اسلام کو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے تابعین اور اسلاف امت کے حوالے سے بدعت اور اہل بدعت کے خلاف ان کے وہ زریں اقوال پیش کردیے ہیں، جو آج کے دور میں اہل اسلام کےلیے رہنمائی اور روشنی کا ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول ومنظور فرمائے۔ آمین
یہ رسالہ اگرچہ اس سیاق میں لکھاگیاہےکہ اہل حدیث کی صفائی پیش کی جائے کہ خلفائے راشدین سے ان کا کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس رسالے کا ایک یہ پہلو کہ احناف کے ان مسائل کی نشاندہی کی جائے جن میں وہ خلفائےراشدین سے مختلف ہیں ۔یہ علمی دنیامیں کوئی زیادہ مستحسن کاوش شائد ہی قرار دی جائے ۔کیونکہ امت کے اند رفقہی اختلافات کی اجازت ہے اور یہ ہرزمانےکے لحاظ سے مختلف ہوسکتےہیں اسی طرح اگروہ عبادات کے متعلق ہوں تو ان میں بھی بذات خود صحابہ کےاندر باہمی طور پر اختلافات موجود تھے۔آج امت مسلمہ بحثیت مجموع زوال کا شکار ہے اور یہ زوال جہاں عملی ہے وہاں علمی اور تحقیق کے میدان بھی آیاہے۔اور جب کسی قوم یا امت کے اند علمی وعملی زوال رونما ہوجائے تو وہ باہمی خلفشا رکا شکار ہوکر جدل وجدال اور قیل وقال کی الجھنوں میں پھنس کر رہہ جاتی ہے۔سو ایسے حالات میں افہام تفہیم کی کوشش بہرحال سرہاناچاہیے ۔اور اس وقت امت کو اس کی شدید ضرورت بھی ہے۔تاکہ صحیح اجتہادی صلاحیت بیدار ہوسکے اور باہمی تنازعات کے تصفیے میں مدد و معاونت ملے۔(ع۔ح)
اسلامی شریعت کے جملہ احکام وقوانین منزل من اللہ ہیں، چاہے وحی جلی قرآن مجید میں اس کا بیان ہو یا وحی خفی حدیث رسول ﷺ میں اس کا ذکر ہو، ہر ایک رب العالمین کی جانب سے نازل شدہ ہے۔ چنانچہ عقائد، عبادات، اخلاق ومعاملات وغیرہ سے متعلق تمام مسائل میں اسلام نے ہمیں واضح راہنمائی دی ہے۔ اور نبی پاک ﷺ کی سیرت طیبہ میں اس کے واضح عملی نقوش موجود ہیں۔ اس کے جملہ احکام وفرامین میں عبادات کا معاملہ بے حد اہم ہے،معمولی سی غلطی ہماری عبادات کے فاسد اور باطل ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس لیے جب تک قرآن وحدیث میں اس کا ثبوت نہ ہو اور نصوصو شرعیہ سے اس کی وضاحت نہ ملتی ہو اس وقت تک وہ قابل عمل نہیں ہوسکتے۔عبادات کے جملہ مراسم میں ایک اہم ترین عبادت ذکر ودعا بھی ہے جس کے متعلق قرآن وحدیث میں تفصیلی احکامات موجو دہیں۔لیکن ذکر ودعا کے باب میں اہل تصوف اور گمراہ فرقوں اور جاہل عوام نے اتنی بدعتیں داخل کردیں کہ لوگوں نے اسے اصل دین اور صحیح عبادت تصورکرلیا۔ حتیٰ کہ اجتماعی ذکر ودعا کی محفلوں کا انعقاد کیا جانے لگا۔ جس بات کا ثبوت نہ تو قرآن وحدیث میں ملتا ہے اور نہ صحابہ کرام وتابعین عظام کی سیرت میں اس کا کوئی وجود ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس مسئلہ کی اصل حقیقت قرآن وحدیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت طیبہ کی روشنی میں واضح کی جائے۔ سو مصنف نے اس باب میں عالم عرب کے مشہور علماء اور مشائخ کی تحریریروں اور ان کے فتاویٰ وآراء سے استفادہ کرتے ہوئے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے۔رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ اس مجموعہ کو مصنف کےلیے نجات کا ذریعہ بنائے اور اس سے اہل اسلام کو نفع پہنچائے۔ آمین
نماز دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں دوسرا اور نہایت اہم رکن ہے ۔ جس کی ادئیگی میں ہم عموما کوتاہی برتتے ہیں ۔ عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں ، کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : انسان نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لئے اس کی نماز سے صرف دسواں اور نواں ، آٹھواں ، ساتواں ، چھٹا ، پانچواں ، چوتھا ، تیسرا یا آدھا حصہ ہی لکھا جاتا ہے ۔ ابودوؤد : 796 نماز دراصل اللہ سے گفتگو کرتے ہوئے دن میں پانچ بار اپنے لئے مغفرت اور بھلائی مانگنے کا ذریعہ ہے ۔ نماز ادا کرنے کا طریقہ بھی اللہ رب العزت نے جبرائیل امین کے ذریعہ نبی کریم کو سکھایا ۔ اس لئے صحیح طریقے سے ہم نماز اس وقت تک ادا نہیں کر سکتے جب تک رسول اللہ کے سکھائے ہوے طریقہ نماز کی کیفیات ، واجبات ، اداب ، کیفیات اور ادعیہ و اذکار کے بارے میں پوری طرح اگاہ نہ ہوں ۔ نماز میں کھڑے ہونے ، رکوع و سجود اور تشہد کے قواعد و ضوابط کا علم ہونا ضروری ہے ۔ یہ کتاب ان تمام پہلووں پر احسن طریقے سے روشنی ڈالتی ہے ۔ اس لئے اس کتاب کو ھئیات الصلوۃ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے یعنی دوران نماز جسمانی کیفیات اور حرکات و سکنات کو آنحضرت ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں واضح فرمایا گیا ہے ۔ نیز برآں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ نماز اسی طرح ادا کرو جس طرح تم مجھے ادا کرتے ہوے دیکھتے ہو ۔ چناچہ اس کتاب میں مستند احادیث سے آپ کا طریقہ صلاۃ واضح کیا گیا ہے ۔(ع۔ح)
فتنےدو طرح کےہوتےہیں ایک وہ جن کی بنیاد لادینیت ہو اور دوسرےوہ جو دینی اساس رکھتےہوں دینی اساس رکھنےوالافتنے عام طور پردین میں افراط یا تفریط کی وجہ سے پیداہوتےہیں۔یعنی فہم دین میں غلویا تفصیرکاشکارہونے کی وجہ سے جنم لیتے ہیں ۔ ایسے ہی فتنوں میں سے ایک خوارج کا فتنہ ہے۔جوغلودین کا شکار ہے۔اس فتنےکی بنیادوں میں سے ایک اہم ترین بنیاد کفرباالطاغوت ہے۔ عصر حاضر کےخواج کفرباالطاغوت کو خود ساختہ مفہوم اورتشریحات کے ذریعےاس طرح پیش کرتےہیں کہ عوام الناس اس بارےمیں صحیح معلومات نہ ہونےکی وجہ سےجلد گمراہ ہوجاتےہیں۔زیر نظر کتاب میں ،عصرحاضرمیں موجود طاغوت کےپجاریوں اورطاغوت کا انکار کرنےوالوں کا تفصیل سے ذکرکیاگیاہےاورطاغوت کی پہچان ،اسکی حقیقت اوراسکی تفصیل بہت شاندار اورمدلل انداز میں بیان کی گئی ہے۔عصرحاضرکےخواج کےکفرباالطاغوت کےبارےمیں کافی وشافی جواب موجود ہے۔یہ کتاب اس موضوع پراٹھنےوالی ابحاث کا ایک ممکنہ حد تک احاطہ کرپاتی ہے۔مصنف نےحتی الوسع کو شش کی ہےکہ کسی پہلوسے بھی تشنگی نہ رہے۔(ع۔ح)
اللہ تعالی کے نزدیک دین اسلام ہی اصل دین ہے اسی لئے اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تمام امور حیات میں طہارت وصفائی کا پابند بنایا ہے۔ نبی آخرالزماں محمدﷺ نے اپنی ذات کا بہترین اسوہ پیش کیا۔ آپ ﷺ بیدار ہونے سے لے کر رات سونے تک جسم اور لباس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے اور اپنے صحابہ کو بھی ترغیب دلاتے ۔ حالانکہ دیگر مذاہب میں بھی پاک صاف رہنے کے احکام ہیں لیکن غیرمسلم معاشرہ گندگی اور غلاظت میں غرق نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالی نےجسم ،لباس ، رہنے کی جگہ،کھانے پینے اور زندگی گزارنے کے تمام امور میں صفائی اور پاکیزگی کا حکم دیا ہے ۔ سورہ بقرہ میں مسجدوں ، سورہ مدثر میں لباس ،سورہ مائدہ میں کھانے میں پاکیزگی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔ دیگر اقوام کی تقلید میں امت مسلمہ کے بیشتر لوگوں نے پاکیزگی کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔ اس لئے ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے اندر اسلامی طریقہ طہارت اور پاکیزگی کے آداب کا شعور بیدار کیا جائے ۔ چناچہ اسی مقصد کے حصول کی خاطر یہ کتابچہ لکھا گیا ہے ۔ جس میں محترم ڈاکٹر ہمایوں صاحب نے بہت ہی احسن اسلوب میں اسلامی طہارت کی ان بنیادی تعلیمات کے اوپر روشنی ڈالی ہے جنہیں ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ انہیں ہروقت پیش نظر رکھے۔(ع۔ح)
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ ایمان ہے کہ دنیا کے کسی بھی مقام پہ اسلامی معاشرے کی تشکیل صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس معاشرے کا ہر فرد اس یقین محکم کے ساتھ رحمت عالم کے اسوہء حسنہ کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے ۔ باالفاظ دیگر وہ اخلاق حسنہ اختیار کرےاور برے اخلاق سے اپنی حفاظت کرے ۔ یعنی ایک حقیقی اسلامی معاشرہ جن عناصر سے تشکیل پاتا ہے وہ یہ تین ہیں : پہلا قرآن ، دوسرا رسولﷺ کے ارشادات ونصائح ، تیسرا آپﷺ کی ذات گرامی اور آپ کی حیات طیبہ کا عملی نمونہ جو آپ کے خلق عظیم یا اسوہء حسنہ سے عبارت ہے ۔ اخلاق کے دو پہلو ہیں ایک ایجابی اور دوسرا سلبی ۔ ایجابی میں وہ امور آتے ہیں جن میں آپ نے کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ نے خود بھی کر کے دیکھائے ہیں جیسے خوش اخلاقی ، عفو و درگزر،حلم و تحمل ، صلح جوئی ، توکل ، خوش کلامی ، اطاعت والدین ، رحم ، غصے کو پی جانا ، حیا، صلہ رحمی ، راست گفتاری ، ایفائے عہد، عیادت ، تعزیت ، مہمان نوازی ، سخاوت ، میانہ روی وغیرہ اور سلبی میں وہ امور آتے ہیں جن سے آپﷺ نے منع کیا ہے جیسے خیانت ، دروغ گوئی ، قطع رحمی ، تمسخر ، غیبت ، دریوزہ گری ، بےحیائی ، بخل ، حسد ، بغض ، کینہ ، تکبر اور ریاکاری آتے ہیں ۔ یہ کتاب جو قارئین کے ہاتھوں میں ہے اس کا یہی موضوع ہے ۔ جس میں اخلاق نبوی کے دونوں پہلو بہترین طریقے سے دیکھائے گئے ہیں ۔ اللہ تعالی جناب طالب الہاشمی صاحب کو اجر عطا فرمائے اور ان کی اس کاوش کو سرہائے ۔ (ع۔ح)
قصوں اور داستانوں سے انسان کی دلچسپی نیز اس کی اثر انگیزی اور سبق آموز کسی رد وقدح اور اختلاف کے بغیر ایک تسلیم شدہ امر ہے۔ اللہ کا کلام قرآن مجید قصوں کی اہمیت پر شاہد عدل ہے۔ یہ کتابچہ ’’ ایک داستان عبرت ‘‘ (ابو طالب کی وفات کا قصہ ) درحقیقت سیرت نبوی ﷺ بلکہ تاریخ اسلام کا ایک عبرتناک واقعہ کی تحقیق پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا مطالعہ کرنے والے تمام افراد کےلیے باعث ہدایت ونجات اور دنیا وآخرت میں نافع وکار آمد بنائے۔ آمین
جدیدفتنوںمیں سب سے زیادہ خطرناک فتنہ سیکولرزم اور لادینیت کا ہے۔آج امت کے اندرلاشعوری طور پر سیکولرافکارونظریات سرایت کرگئے ہیں۔اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک اہم ترین وجہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جن کے ذریعے ان افکار کو بیان کیا جاتاہے۔وہ اصطلاحات بظاہر دنیاکے عام تصوارات سے ملتی ہوئی نظرآتی ہیں لیکن درحقیقت تھوڑی سی تحقیق کےبعد یہ سمجھ آتاہےکہ وہ بالکل الگ ہی اپنا پس منظررکھتی ہوتی ہیں۔بدقسمتی سےکچھ لوگ ایک عرصے سےوطن عزیز پاکستان کو سیکولرثابت کرنے کی مذموم کوششوں میں لگےہوئےہیں۔جناب طارق جان صاحب نے اپنی بڑی عرق ریزی سے پاکستان کی تاریخ کےاہم ترین ابواب سے یہ ثابت کرنےکی کوشش کی ہےکہ یہ ملک اسلامی اساس پرقائم ہواہے۔سیکولرزم ایک الگ اور جداگانہ طرز فکر ہےجس کااسلامی نظریےسے دورکابھی واسطہ نہیں۔(ع۔ح)
یہ کتاب کلمات قرآنیہ کے رسم الخط پر مبنی ایک منفرد درسی کتاب ہے،جس کا مقصد کلیہ القرآن الکریم کے طلباء کو قرآن مجید کے رسم الخط سے روشناس کروانا ہے۔یہ کتاب درحقیقت علامہ علی محمد الضباع ؒ کی کتاب ’’سمیر الطالبین فی رسم وضبط الکتاب المبین‘‘سے علم الرسم کے باب کا اردو ترجمہ ہے،اور طلباء کی سہولت کے لیے ہر فصل کے آخر میں تمارین کا اضافہ کیا گیا ہے۔کتاب کے مؤلف علامہ علی محمد الضباع ؒ ہیں ،جبکہ اردو ترجمہ کرنے کی سعادت محدث فتوی کے علمی نگران محترم قاری محمد مصطفیٰ راسخ صاحب حفظہ اللہ رکن دار المعارف،اسلامیہ کالج،ریلوے روڈ لاہورنے حاصل کی ہے۔یہ کتاب علم الرسم کی مبادیات پر مبنی ہے جو حذف، زیادت، ہمزہ، بدل اور قطع ووصل جیسی مباحث پر مشتمل ہیں۔نیز اس کتاب کے شروع میں ظہور اسلام کے وقت کتابت کی کیفیت، کاتبین ، مصاحف عثمانیہ کی کیفیت اور آداب کاتب جیسی عظیم الشان مباحث سپرد قلم وقرطاس کی گئی ہیں۔یہ کتاب اگرچہ طلباءکے لیے لکھی گئی ہے ،لیکن اپنی سہولت اور سلیس عبارت کے پیش نظر طلباء اور عوام الناس سب کے لیے یکساں مفید ہے۔(م۔ر)
مذاہب عالم میں اسلام ہی وہ مذہب ہے کہ جس نے عورت کو ہر حیثیت سے عزت اور بلند مقام عطا کیا ہے۔ ڈاکٹر حافظ سید ضیاء الدین کی کتاب ’عورت قبل از اسلام و بعد از اسلام‘ کے موضوع پر لکھی گئی ہے جس میں مختلف مذاہب میں عورت کی حیثیت اور مقام پر بحث کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسلام میں عورت کو کیا مقام حاصل ہے اس کے علاوہ کئی موضوعات مثلاً نکاح کی ترغیب، نکاح کی اہمیت، حقوق زوجین، طلاق، خلع، حلالہ، عزل اور منصوبہ بندی جیسے اہم موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ بعض جگہوں پر کتاب کے مندرجات سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ مثلاً خاندانی منصوبہ بندی کو ثابت کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں: ’’منصوبہ بندی کا بہترین نمونہ حضرت یوسفؑ نے پیش کیا ہے۔ مصر میں ممکنہ قحط سے بچنے کے لیے حضرت یوسفؑ کا پہلا سات سالہ منصوبہ ہے جسے انھوں نے پوری قوم کے مستقبل کو بچانے کے لیے بنایا ہے۔‘‘اب اس سے استدلال کرتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کو جواز فراہم کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں نبی کریمﷺ کے واضح فرامین موجود ہیں۔کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصے میں دیگر مذاہب میں عورت کے مقام و مرتبے پر بحث کی گئی ہے۔ جبکہ دوسرا مذہب اسلام میں عورت کے مقام و حقوق پر مشتمل ہے۔(ع۔م)
کسی بھی عبادت کے لیے پاکیزگی کا ہونا جزوِ لا ینفک ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ خود بھی پاک ہیں چنانچہ مرد و زن کی روحانی پاکیزگی نظر کے جھکانے اور پردے میں مضمر ہے، جس کے بارے میں یہ کتابچہ مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں قرآن و سنت کی روشنی میں عورت کی عزت و عفت کا ضامن اور فضیلت کا تاج و زیور ’پردہ‘ اور اس کی ذلت و خواری اور جہنم کے ایندھین کا موجب ’بے پردگی‘ کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس کتابچے کے مصنف قاری صہیب احمد میر محمدی ہیں جن کی متعدد کتب شائع ہو کر عوام و خواص سے داد وصول کر چکی ہیں۔ کتابچے کی فہرست پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اگرچہ یہ 136 صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ ہے لیکن اس میں تمام وہ بنیادی ابحاث شامل ہیں جن کے لیے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے پہلے پردے کے عمومی فضائل رقم کیے گئے ہیں اس کے بعد پردے کی فرضیت پر قرآنی اور احادیث نبوی سے دلائل، پردے کی قسمیں اور پردے کی شروط بیان کی گئی ہیں۔ بعض لوگ چہرے کو پردے میں شامل نہیں کرتے کچھ اہل حدیث علما بھی چہرے کے پردے کواستحباب کا درجہ دیتے ہیں قاری صہیب صاحب نے ایسے تمام دلائل کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا ہے اور بڑے اچھے انداز میں ان کا رد کیا ہے۔ اس موضوع پر پہلے بھی اردو میں کتب موجود ہیں یہ کتابچہ ان میں ایک اور اضافہ ہے۔(ع۔م)
زیر نظرکتاب محترم جناب ڈاکٹر حافظ محمدزبیر صاحب کی اپنے موضوع پرایک قابل قدر تحقیقی و تطبیقی کاوش ہے۔ جس میں حافظ صاحب نے متعلقہ موضوع کےحوالے سے معتدل اور متوازن رویے کی طرف نشاندہی فرمائی ہے۔ عالمی استعمار کے تہذیبی غلبے، ریاستی دہشت گردی اور مال وزر کی حد سے متجاوز ہوس نے مسلمانوں کےاندر رد عمل کےطور پر دو انتہائی رویوں کو جنم دیا ہے۔ جن میں ایک طرف وہ مسلمان ہیں جو جدیدیت کے پرستار ہیں اور اس پرستاری میں اپنی روایات واقدار کی بےدریغ قربانی دینےسے بھی گریزاں نہیں۔ اور ہر طریقے سے مغربی معاشرت وروایات میں ضم ہونےکو تیار ہیں ۔ دوسری طرف ایسے اسلام کےنام لیوا ہیں جو ردعمل کی ان نفسیات میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ انہوں نے اہل مغرب تو کیا اپنے معاشرے کے ان لادین اور مغرب پرست مسلمانوں سے بھی مفاہمت کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ اور اپنے مزاج ومسائل کے پیش نظراسلامی وشرعی نصوص کی تعبیر میں سلف کی اراء کو بھی پس پشت ڈال کر، اپنےمطلوبہ اہداف کےحصول کی خاطر نصوص کی نئی تعبیر کر ڈالی۔ انہوں نے اپنی ان تنقیدات کا نشانہ بالخصوص مسلم حکمرانوں کو بنایا۔ کیونکہ وہی عسکری ،تہذیبی اور معاشی میدان میں اہل مغرب کےلئے راہیں ہموار کرتے ہیں۔ اس کےلئے اسلام کی جہاد، تکفیر اور خروج کے باب میں دی گئی تعلیمات کو استعمال کیا۔ محترم حافظ صاحب نے بڑی عرق ریزی سے سلف کی آراء کی روشنی میں مذکورہ نصوص کا اطلاق واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اور پھر ساتھ ساتھ عصرحاضر میں بھی ان کا اطلاق وانطباق واضح کرتے ہوئے ایک معتدل رویے کی طرف نشاندہی فرمائی ہے۔ اور پھر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موجودہ اسلامی ممالک میں مکمل طور پر شرعی نظام کا نفاذ کہیں بھی نہیں تو اس سلسلے میں حالات کے تقاضوں کے مطابق کس طرح مثبت جدوجہد کی جائے؟ اور کون سے امکانی راستےممکن ہیں؟ اس حوالے سے بھی قلم اٹھایا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک ایسے موضوع پر ہے جس کےحوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ اس باب میں امت کو بر وقت رہنمائی کی شدید ضرورت ہے۔ اللہ تعالی حافظ صاحب کی اس تحقیقی وعلمی کاوش کو ذریعہ نجات بنائے۔ اور انہیں مزید دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ (ح۔ک)