برصغیر پاک و ہند میں حضرت سید احمد شہید ؒ کی ذات بابرکات محتاج تعارف نہیں ۔آپ ؒ ایک دور، صدی اور عہد کا نام ہیں۔ جب برصغیر کے مسلمانوں پر مایوسی کے گہرے بادل چھائے ہوتے تھے۔ مسلمان ہر طرف سے سکھوں اور انگریزں اور دیگر قوتوں کے ظلم و استبداد کے شکار تھے۔کسی جگہ کوئی امید نہیں نظر آتی تھی۔ علماو شیوخ اور صوفیا اپنے اپنے مدارس، خانقاہوں اور حلقہ ارادت میں مصروف تھے۔ اگرچہ کچھ کو انتہائی زیادہ قلق و اضطراب کے ساتھ فکر امت دامن گیر تھی۔ہر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ ان حالات میں حضرت شاہ ولی اللہ کے فکری جانشین یعنی ان کی فکر کے عسکری گوشے کو عملی رخ دینے والے جناب حضرت سید احمد شہید نے علم جہاد بلند کیا ۔ اور امت کو بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ اللہ نے آپ کی اعانت فرمائی اور ایک اسلامی ریاست قائم بھی کردی۔ لیکن اپنے غداری رنگ لائی اور آپ بظاہر تو ناکام ہوئے لیکن حقیقت میں کامیاب ہوئے۔آپ کی پیدا کی ہوئی جہادی روح ابھی تک امت کے اندر موجود ہے بلکہ وہ ایک پودے سے تناور درخت بن چکی ہے۔زیرنظر کتاب آب کی سیرت و سوانح کے مختلف پہلوؤں پر بطریق احسن روشنی ڈالتی ہے۔(ع۔ح)
اللہ تعالی نے اس کائنات اور جن و انس کو اس لیے پیدا کیا تاکہ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ یہ عبادت کیا ہے اور کیسے کی جائے؟ یہ سب انبیاء نے آکر انسانوں کو بتائیں۔ انبیاء کرام نے اللہ تعالیٰ کی پسند اور ناپسند کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا اور مرنے کے بعد جزا اور سزا کے بارے میں بھی انہیں خبردی۔سب سے آخری نبی حضرت محمدﷺ ہیں اور آپ پر نازل ہونے والے دین کا نام اسلام ہے۔ اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے اور قیامت کو انسان اسلام کے علاوہ کوئی اور دین لے کر آئے گا تو وہ قبول نہ کیا جائے گا۔ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے جناب رسول اللہﷺ کی زندگی میں ہی مکمل کر دیا تھا اور مسلمانوں پر اپنی نعمت پوری کر دی۔ اب قیامت تک حضور اکر م ﷺ کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا۔ اس لیے اسلام پر عمل کرتے ہوئے اس دین برحق کی نشر واشاعت ہر مسلمان پربقدر استطاعت لازم ہے۔اس کے لیے لوگ انفرادی طور پر بھی اور جماعتوں کی کوشش کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں۔ انہی جماعتوں میں سے ایک تبلیغی جماعت ہے جو پچھلے کم و بیش نوے سال سے دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف ہے اور جس کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔اس جماعت کی نمائندہ کتاب فضائل اعمال ہے جس کے چار حصے ہیں ان میں سے آخری حصہ صوفیاء حضرات کے ارشادات اور واقعات ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں اسی حصہ کو موضوع بحث بنا کر تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔(ع۔ح)
آج سے نصف صدی قبل یہ خیال تھا کہ ذیابیطس کے مرض میں انسولین بالکل ہی موجود نہیں ہوتی اور مرض کی حالت میں گلوکوز یاشکر ہی مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ جہاں تک ا س مرض کی تشخیص کا تعلق ہے۔یونانیوں ، مصریوں ، عربوں اور ہندوں کو اس مرض کے متعلق علم تھا اور کچھ نہ کچھ علاج بھی تھاجڑی بوٹیوں وغیرہ کی شکل میں۔لیکن یہ ساری غلامات صرف ان کے لیے تھیں جن کو ذیابیطس بڑی عمر یعنی 2۔Typeہوتی تھی۔عہد عتیق کے لوگ نہ صرف اس مرض کو جانتے تھے بلکہ مرض کی تشخیص ، خاصیت، مضر اثرات، ہلاکت آفرینی اور کچھ علاج کی بھی شدبدھ رکھتے تھے۔پیشاپ ٹیسٹ کرنے کا طریقہ بھی معلوم تھا۔ مگر حتمی علاج نہ تب تھا اور نہ اب ہے۔تاہم یہ الگ بات ہے کہ اس نئے دور میں ریڈیائی تحلیلات و مخوصات کے سبب اس مرض کی معلومات میں دقیق اور تفصیلی اضافہ ہوا ہے۔اور یہ بھی کہ کون کون سے اجزائے غذائی ، کون کون مختلف قسم کے ہارمونز اور کن کن کیمیائی اجزا کے سبب خون میں شوگر کی مقدار بڑھتی ہے۔ زیرنظر کتاب در حقیقت ان جدیدقدیم معلومات اور ساتھ ساتھ کچھ ذاتی تجربات کی بنیا د پر نئی معلومات کا ایک گنجینہ ہے۔ موصوف ماہر ڈاکٹر ہیں پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ مطالعہ بھی بہت کر رکھا ہے۔(ع۔ح)
توحید ایک ایسا تصور ہے جس پر دین اسلام کی بنیاد اور اساس ہے۔یہ تمام انبیاء و رسل کی دعوت ہے۔اس کے بالمقابل شرک ہے۔ شرک شعوری اور لاشعوری کئی طرح سے لوگوں میں آجاتا ہے۔تاہم شرک کی سب سےزیادہ خطرناک صورت وہ ہے جب وہ لاشعوری طور پر آجائے۔انبیاء کے بعد اب یہ امت کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہرزمانے کے رسوم و رواجات کو سمجھتے ہوئے شرک وبدعت کی اشکال واضح کریں اور لوگوں کو ان موذی امراض سے بچائیں۔زیر نظر کتاب عالم اسلام کے مشہور و معروف عالم ابن قیم کی تالیف ہے۔اس میں انہوں نے اپنے زمانے کا خیال کرتے ہوئےتصور توحید سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے۔ لیکن مرور ایام کے باوجود آج کے حالات اور اس کتاب کی علمیت کے باوصف اس کی افادیت بعینہ اسی طرح برقرار ہے جیسے بوقت تحریر تھی۔واضح رہے کہ یہ کتاب ابن قیم کی مشہور تالیف اغاثۃ اللفہان کے ایک جزء کا ترجمہ ہے ۔جسے مترجم موصوف نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے اصل اسلوب کتاب کا خیال کرتے ہوئے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔اور حتی الوسع کوشش کی ہے کہ اردو میں اصل کتاب کا لطف آئے۔(ع۔ح)
برصغیر پاک و ہند میں بلاشبہ یہ فخر صرف سندھ کو حاصل ہے کہ اسلام کا روشن سورج جب ملک عرب کے خطہ غیرذی ذرع اور ریتلی سرزمین سے طلوع ہوا تو ان کی روشن و شفاف کرنیں سب سے پہلے دیبل (سندھ) کی سرزمین پر جاپڑیں۔ اور اسلام کی روشنی اسی راستہ سے اس ملک میں پھیلی، یہی وہ مقدس سرزمین ہے ۔ جس کو صحابہ کرام ؓ تابعین عظام اور تبع تابعین کے قدم بوسی کا شرف حاصل ہے۔ اور ان کے اجسام اطہر اس سرزمین میں مدفون ہیں۔یہاں لشکر اسلام کے مبارک قدموں کے انمٹ نقوش اب تک قدیم کھنڈرات کی صورت میں دعوت فکر دے رہے ہیں۔ مجاہد اسلام محمد بن قاسم ثقفی ؒ کا پہلا جہادی معرکہ سندھ کی سرزمین میں وقوع پذیر ہوا۔جس کی مناسبت سے سندھ کو باب الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔اسلام کی دعوت و تبلیغ میں سندھی علماء کرام و مشائخ عظام اور محدثین کی بڑی خدمات ہیں۔شخصی یا خاندانی لحاظ سے سندھ کے علماء و محدثین کی ایک طویل فہرست موجود ہے ۔ اسی فہرست میں ‘‘راشدی خاندن’’ کو بہت بڑا مقام و اہمیت حاصل ہے۔اسی خاندان کے معروف چشم و چراغ مولانابدیع الدین راشدی ہیں۔ دنیائے اسلام میں آپ کو شیخ العرب و العجم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔زیرنظرکتاب درحقیقت میرپور خاص سے نکلنے والے ایک جریدہ بحرالعلوم کی اشاعت خاص ہے۔ جس میں مولانا کی سوانح عمری کے مختلف پہلوؤں پر بطریق احسن روشنی ڈالی ہے۔(ع۔ح)
برصغیر کے افق علمی پر انیسویں صدی کے نصف اوًل کے بعد چار سلیمان ایسے طلوع ہوئے ، جنہوں نے اپنے اپنے دائرہ علمی میں ایک امتیاز اور اختصاص حاصل کیا۔شاہ سلیمان پھلواری، سید سلیمان اشرف، سید سلیمان ندوی اور قاضی سلیمان منصورپوری۔چاروں ملت اسلامیہ برصغیر کی علمی محفل کے گوہر شب چراغ تھے۔ان کی سرگرمیوں سے تہذیب اسلامی کو ایک نکھار اور وقار میسر آیا مگر ان میں قاضی محمدسلیمان کی شخصیت میں جو دلآویزی ، خاندانی وجاہت، علمی انہماک ، تدبر و تفکر، آداب و اطوار، زہد و ورع ، فہم و فراست ، امانت و دیانت ، تعلیمی اور تحقیقی استعداد کتاب و سنت کا ذوق اور عملی و کردار کے نقوش دکھائی دیتے ہیں۔آپ ؒ نے ایک مجاہد خاندان میں آنکھ کھولی۔اور کئی ایک موضوعات پر متعدد تصانیف لکھیں۔ جن میں سے سیرت النبی ﷺ کو بالخصوص موضوع بنایا ہے۔سکھ اور انگریز حکومت کے ماتحت زندگی بسر کی اور علم و فکر آبیاری میں مشغول رہے۔ قاضی صاحب کی تعلیم و تربیت مشرقی ماحول میں ہوئی۔آپ ؒ طبعا بہت ذہین و فطین تھے۔اس پر مستزاد یہ تھا کہ آپ ؒ کے ذوق مطالعہ نے چارچاند لگا دیے۔علوم دینیہ اور فارسی ادبیات بھر پور استفادہ فرمایا۔زیرنظر کتاب قاضی صاحب کی سوانح پر ایک جامع دستاویز ہے۔ جسے مولانا اسحاق بھٹی صاحب نے بڑی عرق ریزی سے تیار کیا ہے۔(ع۔ح)
مولانا وحید الدین خان یکم جنوری 1925ءکو پید ا ہوئے۔ اُنہوں نے اِبتدائی تعلیم مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ میں حاصل کی ۔شروع شروع میں مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر 1949ء میں جماعت اسلامی ہند میں شامل ہوگئے، لیکن 15 سال بعد جماعت اسلامی کوخیر باد کہہ دیا اورتبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی ۔ 1975ء میں اسے بھی مکمل طور پر چھوڑ دیا ۔مولانا وحید الدین خان تقریبا دو صد کتب کے مصنف ہیں جو اُردو ،عربی، اورانگریزی زبان میں ہیں۔ اُن کی تحریروں میں مکالمہ بین المذاہب ،اَمن کابہت زیادہ ذکر ملتاہے اوراس میں وعظ وتذکیر کاپہلو بھی نمایاں طور پر موجود ہوتاہے ۔لیکن مولانا صاحب کے افکار ونظریات میں تجدد پسندی کی طرف میلانات اور رجحانات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ اُنہوں نے دین کے بنیادی تصورات کی از سر نو ایسی تعبیر وتشریح پیش کی ہے، جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کی۔وہ نہ صرف اس بات کو تسلیم کرتے ہیں، بلکہ اپنے لیے اس میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب ڈاکٹر حافظ زبیر﷾ کی تالیف ہے، جس میں اُنہوں نے مولاناوحید الدین خان صاحب کی فکر کا ان کے اپنے الفاظ کی روشنی میں ایک مفصل تحلیلی وتجزیاتی مطالعہ پیش کیاہے۔اور نقد وتبصرہ کرتے ہوئے اس بات کا بھی لحاظ رکھا ہے کہ مولانا صاحب کے اصولوں ہی کی روشنی میں ان کے افکار ونظریات کا جائزہ لیا جائے۔ اس لیے کتاب میں جابجا مولانا صاحب پرتبصرہ کرتےہوئے شواہد کے طور پر مکمل حوالہ جات کے ساتھ ان کی عبارتوں کو بھی نقل کیا گیاہے ۔الغرض مولانا کی فکر کو سمجھنے کےلیے یہ منفرد اورمفید کتاب ہے۔ ڈاکٹر حافظ زبیر صاحب اس کتاب کے علاوہ متعدد تحقیقی وتنقیدی کتب کے مصنف ہیں، اور پاک وہندکے مختلف معروف مجلات میں ان کے تحقیقی وتنقیدی نوعیت کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام ترمساعی جمیلہ بالخصوص تحریک تجدد اور فرق باطلہ پر نقد وتنقید کی کوششوں کو شرف قبولیت سے نوازے ۔ (آمین) (م۔ا)
دور حاضرمیں حادثہ کربلا کے موضوع پر کچھ لکھنا یابولنا بڑا نازک او ر مشکل کام ہے، کیوں کہ اس بارے بہت افراط وتفریط پایا جاتا ہے ۔سانحۂ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک انتہائی المناک باب ہے۔ اس سانحۂ کے بعد ایک گروہ یزید بن معاویہ کو لگاتار برا بھلاکہنے پر مصر ہے۔جبکہ دوسری جانب یزید کے جنتی ہونے کےبارے میں نبی ﷺ کی اس بشارت کا تذکرہ کیا جاتاہے، جس میں شہر قیصرکی طرف سب سے پہلے حملہ آور لشکر کےمغفور لہم ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ ائمہ اسلا ف میں سےامام ابن تیمیہ،حافظ ابن حجر ،علامہ قسطلانی ، ابن کثیر وغیرہ نے یزید ین معاویہ کو اس پہلے لشکر کا سالار قرار دیا ہے، جس نے تاریخ اسلامی میں سب سے پہلے قسطنطنیہ پر حملہ کیا ہے تھا۔زیر تبصرہ کتاب مؤلف کا وہ خطاب ہے، جوانہوں نے جامع مسجد اہل حدیث ممبئ میں ارشاد فرمایا تھا۔جسے احباب کے اصرار پر کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے تاریخی لحاظ سے اس موضوع پر بحث کی ہے ، اور مختلف اہل علم کی تحریروں او رمستند تاریخی روایات سے یہ ثابت کیا ہے کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ یزید ہی نےکیا تھا، او رحادثہ کربلا سے قبل امت مسلمہ کے خلاف جو سازشیں کی گئیں، اور متعددعظیم شخصیات شہید ہوئیں۔ ان کے پیچھے جس گروہ کا ہاتھ تھا، وہی گروہ میدان کربلا میں بھی اہل حق کا دشمن تھا۔ جس نے کربلا کے بعد اہل بیت کی محبت کا سہارہ لے کر خو د کو روپوش کر لیا ہے۔فاضل مصنف نے آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ ﷺ او ر آثار صحابہ کی روشنی میں یزید بن معاویہ کی شخصیت وسیرت کوبھی بیان کیاہے ۔اللہ تعالی مؤلف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(م۔ا)
ہمارے ہاں پائے جانے والے عقائد میں سے متعدد عقائد افراط وتفریط کا شکار،اور بہت سی غلط فہمیوں کی نذر ہوچکے ہیں۔ انہی میں سے ایک عقیدہ ’’ نظر بد کا لگنا ‘‘ بھی ہے۔ نظر بد ایک ایسا موضوع ہے،جس کے بارے میں ہمارے معاشرے میں دو متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نظر بد کی دراصل کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور یہ محض وہم ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے ۔دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس پر یقین تو رکھتے ہیں،لیکن اس کے علاج میں کسی حد کی پرواہ نہیں کرتے ہیں،اور شرک کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔نظر بد کا لگنا حق ہے اور اس کا غیر شرکیہ علاج جائز ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ نظر بد لگنا حقیقت ہے،کیفیت، بچاؤ، علاج، اعتراضات کے جوابات ‘‘محترم جناب عال سہیل ظفر صاحب کی تالیف ہے۔ موصوف قرآن وحدیث کی اشاعت سلف صالحین کے منہج پر کرنے کےلیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔اس کتاب میں انہوں نے قرآن وحدیث اور اقوال صحابہ وتابعین سے دلائل کے ساتھ اس بات کو ثابت کیا ہے کہ نظر بد لگ جانا شرعی نصوص کی رو سے حق ہے۔اور اس کا شرعی علاج ممکن ہے جوقرآن وحدیث کی روشنی میں کیا جانا چاہئے۔(ک۔ح)
قرآن مجید کے بعد حدیث رسول ﷺ کو یہ اعزاز حاصل ہے، کہ اسے پڑھنا،سمجھنا اور اس کی تعلیم دینا باعث ثواب ہے۔ ہر دو ر میں اہل علم نے قرآن مجید کی طرح حدیث رسول ﷺ کی بھی مختلف انداز میں خدمت کی ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’معارف نبوی ﷺ ‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ،جو مختلف موضوعا ت پر مشتمل 523 احادیث کا مجموعہ ہے۔ اس میں اختصار کے ساتھ اسلام ،ایمان، وحی ،عقائد، فضائل علم،دعوت وتبلیغ ، ارکان اسلام، احسان، اذکار واوراد، حسن معاشرت، اخلاقیات ،معاملات،اوراجتماعیت جیسے گیارہ اہم موضوعات پر احادیث کو جمع کردیا گیا ہے۔ ہر حدیث کا باحوالہ عربی متن پیش کرنےکے ساتھ ساتھ اس کا اردو اورانگریزی ترجمہ بھی درج کردیا گیا ہے، تاکہ اردونہ جاننے والے احباب بھی مستفید ہوسکیں۔ اس کتاب کو الفوز اکیڈمی کے فہم دین کے کورسز کےشرکاء کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا ہے۔ کورسز کے شرکاء ان احادیث کو باقاعدہ زبانی یاد کرتے ہیں۔الفوز اکیڈ می ایک غیرسیاسی اسلامی تربیت گاہ ہے، جو مختلف کورسز کے ذریعے جدید تعلیم یافتہ طبقے کی فکری اوعملی تربیت کرتی ہے، تاکہ وہ فرقہ پرستی سے بالاتر ہوکردین اسلام کی تبلیغ اور دعوت دین کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں۔ کتاب ہذا کے مرتب خلیل الرحمن چشتی صاحب ہمہ وقت تفہیم دین کے لئے کوشاں رہتے ہیں ، اس سلسلے میں انہوں دیگر کتب کے علاوہ ’’قواعد زبان قرآن‘‘ دو ضخیم جلدوں میں بھی تالیف کی ہے، جو فہم قرآن کے سلسلے میں بہت مفید کتاب ہے ۔ اللہ تعالی ان کی تمام مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے ۔ (آمین)
اسلام اورمغربی تہذیب کی کشمکش صدیوں سے جاری ہے۔ مغربی تہذیب کو اپنانے کے حوالے سے عالم اسلام میں تین مختلف مکاتب فکرپائے جاتے ہیں۔بعض نے مغربی تہذیب کومکمل طور پر اپنا طر زِ حیات بنالیا،توبعض نے درمیانی راہ نکال کر اس سےایک طرزِ مفاہمت پیدا کرلی۔صرف چند صاحب کرداراور باحمیت کردار ایسے ہیں، جنہوں نے کامل بصیرت اور گہرےادراک کے ساتھ اس تہذیب کاپرزور رد کیا،اور مخالفین کے منہ بند کر دءے۔ اسلام اور تہذیب مغرب کی یہ کشمکش مستقبل قریب میں کیا رخ اختیار کرے گی ،محترم ڈاکٹر محمدامین صاحب جیسے ذی شعور اورجدید وقدیم علوم سے آراستہ شخصیت نے اس نازک موضوع پر قلم اٹھاکراس کا حق ادا کردیا ہے ۔مصنف نے اپنی کتاب میں دواہم امور پربحث کی ہے ۔(اول) مسلمانوں کا مغربی تہذیب کے بارے میں کیا رویہ ہونا چاہیے، وہ اسے رد کردیں ،قبول کرلیں یا اس سے مفاہمت کرلیں ؟ مصنف نے تینوں نقطۂ ہائے نظر کے مؤیدین کے دلائل ذکر کر کے ان کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر بھی تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے،اوراس سوال کاواضح جواب دیا ہے ۔(دوم)مسلم معاشرے پرمغربی تہذیب کے اثرات ۔اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم معاشرے کے بیدارمغز عناصرنے اپنےمسلمانوں کومغرب کی غلامی سے نکالنے کے لیے جو جدوجہد کی ہے، مسلمانوں نے عملاً ان کا ساتھ دیا ہے ۔تاہم اس سے بھی انکار نہیں کہ زوال وادبار کی گزشتہ دوصدیوں میں مغربی استعمار اپنی قوت اور فراست سے مسلم معاشرے پر اثرانداز ہونے میں کسی حدتک کامیاب رہا ہے، اور مغربی تہذیب کے بہت سے افکار ونظریات مسلم معاشرے میں سرایت کرگئے ہیں۔ فاضل مؤلف نے مغرب سے درآمدشدہ ان نظریات وتصورات اوراداروں کی بڑے احسن اندراز میں نشاندہی کرتے ہوئے ان کا اسلامی تعلیمات وتصورات سے مختلف ومتضاد ہونا بھی واضح کردیا ہے ،او ربڑے منطقی اسلوب اور علمی تجزیے سے تہذیب مغرب کی دلدل سے نکلنےکاحل تجویز کیا ہے۔ امید ہے کہ امت مسلمہ کے افراد کے لیے یہ علمی کوشش ان شاء اللہ بصیرت افروز ثابت ہوگی۔(م۔ا)
اس کائنات میں سب سے پہلا انسانی جوڑا حضرت آدم اور حضرت حوا ؑ کا تھا۔ اسی جوڑے سے شروع ہونے والی نسل انسانی قیامت تک بڑھتی رہے گی۔ نسل انسانی کے اس تسلسل میں کچھ قدسی صفت شخصیات ایسی بھی ہیں، جن کو انبیاء ؑ کے لقب سے پکارا جاتا ہے،جو اللہ کے سب سے زیادہ مقرب اور محترم بندے ہوتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ نساء الانبیاء ‘‘ میں انبیاء کرام کی دس بیویوں کا ایمان افروز اور عبرت آموز تذکرہ ہے۔ جسے عربی زبان میں ایک فاضل اجل احمد خلیل جمعہ نے تحقیقی اسلوب سے لکھا ہے، اور جس کا رواں اور شگفتہ اردوترجمہ مولانا محمد احمد غضنفر نے کیا ہے۔ اس میں حضور کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کا تذکرہ اس لیے نہیں کیا گیا، کہ وہ بذات خود ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرتا ہے۔کتاب میں سب سے پہلے روئے زمین کی سب سے پہلی خاتون حوا ؑ کا تذکرہ ہے، جسے تعمیر کعبہ میں اپنے خاوند کے ساتھ شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔ پھر نوح اور لوط ؑ کی بدکردار بیویوں کا عبرت آموز بیان ہے، جو اسلام کی دعوت میں رکاوٹ اور اللہ تعالیٰ کے دین میں خیانت کی مرتکب تھیں۔ بعد ازاں سیدنا اسمٰعیل ؑ کی اہلیہ رعلۃ کا ذکر ہے، جن کوحضرت ابراہیم علیہ اسلام نے پسندیدگی کی سند عطا کی۔ پھر حضرت یعقوب ؑ کی بیوی راحیل کے سوانح دیے گئے ہیں، جو حضرت یوسف ؑ کی والدہ ماجدہ تھیں۔ اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام کی اطاعت شعار زوجہ لیّا ، موسی ؑ کی شرم وحیا سے متصف زوجہ اور حضرت زکریا ؑ کی بیوی ایشاع کے حیات نامے فراہم کیے گئے ہیں۔ انتہائے آخر میں حضرت ابراہیم ؑ کی ازواج سارہ اورہاجرہ ؑ کے ایمان افروز تذکرے پر اس کتاب کا اختتام ہوتا ہے۔ دور حاضر کی وہ خواتین جو پاکیزہ اور تقویٰ شعار زندگی کی جستجو رکھتی ہوں، ان کےلیے یہ کتاب ایک مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں وہ اپنے گھروں کی فضا کو جنت نظیر بنا کر عصری طاغوتی ثقافت کے خلاف ایک صالح تمدن کا حصار قائم کرسکتی ہیں۔(ک۔ح)
اسلامی خاندان کی ابتداء ’نکاح ‘ سے ہوتی ہے ۔ جس میں منسلک ہوجانے کے بعدایک مسلمان مرد اور عورت ایک دوسرے کے زندگی بھر کے ساتھی بن جاتےہیں ۔ ان کا باہمی تعلق اِس قدر لطیف ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے دونوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے ۔’نکاح ‘ کے ذریعے ان دونوں کے درمیان ایک مقدس رشتہ قائم ہو جاتا ہے ۔ ان کے مابین پاکیزہ محبت اور حقیقی الفت پر مبنی ایک عظیم رشتہ معرضِ وجود میں آجاتا ہے ۔ اور وہ مفادات سے بالا تر ہوکر ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی اور ایک کی تکلیف دوسرے کی تکلیف شمار ہوتی ہے ۔ وہ ایک دوسرے کے ہمدرد وغم گساربن کر باہم مل کر زندگی کی گاڑی کو کھینچتے رہتے ہیں ۔ مرد اپنی جدوجہد کے ذریعے پیسہ کما کراپنی ، اپنی شریک حیات اور اپنے بچوں کی ضرورتوں کا کفیل ہوتا ہے ۔ اور بیوی گھریلو امور کی ذمہ دار ، اپنے خاوند کی خدمت گذار اور اسے سکون فراہم کرنے اور بچوں کی پرورش کرنے جیسے اہم فرائض ادا کرتی ہے ۔تاہم بعض اوقات یہ عظیم رشتہ مکدر ہو جاتاہے ، اس میں دراڑیں پڑجاتی ہیں، اور الفت ومحبت کی جگہ نفرت وکدورت آجاتی ہے ۔اور معاملات اس قدر بگڑ جاتے ہیں کہ طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس کتاب میں ’طلاق ‘ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے اسباب کو تلاش کرنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ اسلام کے قانونِ طلاق کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کرنے کی سعی بھی کی گئی ہے تاکہ اس کا ناجائز استعمال روکا جا سکے اوراسے اس کی شرعی حدود میں ہی استعمال کیا جاسکے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پاکیزہ اورخوشگوار ازدواجی زندگی نصیب کرے اور ہم سب کو دنیا وآخرت کی ہر بھلائی عطا کرے ۔ آمین(ک۔ح)
قرآن کریم نے قربانی کےلیے ’’ بهيمة الانعام‘‘ کا انتخاب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔’’ اور وہ معلوم ایام میں بهيمة الانعام پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر (کرکے انہیں ذبح) کریں، پھر ان کا گوشت خود بھی کھائیں، اور تنگ دستوں اور محتاجوں کو بھی کھلائیں۔‘‘(الحج) خود قرآن کریم نے ’’ الانعام ‘‘ کی توضیح کرتے ہوئے ضان، معز، ابل، اور بقر، چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا ہے۔انہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت مسلمہ کے نزدیک اجماعی واتفاقی طور پر مشروع ہے۔ ان جانوروں کی خواہ کوئی بھی نسل ہو، اور اسے لوگ خواہ کوئی بھی نام دیتے ہوں، سب کی قربانی جائز ہے۔ قربانی کے جانوروں میں سے ایک جانور ’’بقر (گائے) ‘‘ہے۔ اس کی قربانی کےلیے کوئی نسل قرآن وسنت نے خاص نہیں فرمائی۔ جبکہ بقر کی ہی نسل سے بھینس کی قربانی کے حوالے سے اہل علم میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہیں تو بعض عدم جواز کے۔ زیر نظر کتاب میں حافظ نعیم الحق ملتانی صاحب نے اس مسئلہ پر اپنے مخصوص انداز میں مفید تحقیقی بحث کی ہے اور مالہ وماعلیہ کی پوری تفصیل اس رسالے میں سمو دی ہے۔ نفس مسئلہ کو واضح کرنے میں یہ کتاب بڑی شاندار اور مفید ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حافظ صاحب کے علم وعمل میں برکت فرمائے۔ آمین(ک۔ح)
زیر نظر رسالہ میں اس مسئلے پر بحث کی گئی ہے کہ کھانے پینے اور دیگر امور کی ابتداء کے وقت مسنون طریقہ فقط بسم اللہ کہنا ہے یا مکمل بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا ہے۔ کتاب میں قولی و فعلی احادیث،آثار صحابہ ؓ اور اقوال فقہاء سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ کھانے پینے اور دیگر امور کرتے وقت باستثنائے بعض امور کے، جس کی تفصیل اس کتاب میں آئے گی، سنت طریقہ صرف بسم اللہ کہنا ہے۔ نیزان علماء کے اقوال ودلائل بھی ذکر کیے گئے ہیں جو مکمل بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنے کے قائل ہیں۔ تسمیہ کے موضوع پریہ ایک جامع رسالہ ہے،اللہ تعالیٰ قارئین کے لیے اس کے مطالعہ کو فائدہ مند بنائے۔ آمین(ک۔ح)
قرآن مجید کا فہم حاصل کرکے اس پر عمل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔کیونکہ اس میں زندگی بسر کرنے کے راہنماء اصول وضوابط اور تزکیہ نفس کے ذرائع بیان کءے گءے ہیں۔ یہ راہنما اصول وضوابط قرآن مجید کے ترجمہ سے اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتے،جب تک عربی زبان کے ابتدائی قواعد سیکھ کر براہ راست قرآن مجید کا مفہوم سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے۔زیر نظر کتاب ’’ شرح تیسیر القرآن‘‘ پروفیسر عطاء الرحمٰن ثاقب ؒ کی قرآنی /عربی گرائمر ’’ تیسیرالقرآن ‘‘ کے لیکچرز سے ماخوذ ہے۔ جس کو فہم قرآن انسٹیٹیوٹ لاہور والوں نے شائع کیا ہے۔پروفیسر صاحب وہ عظیم شخصیت تھے جنہوں نے پاکستان میں1995 میں فہم قرآن کورس کا بلا معاوضہ آغاز کیا اور فہم قرآن طلباء کےلیے ایک ایسی بے مثال اور مختصر آسان قرآنی/ عربی گرائمر پر مشتمل کتاب 1996 میں ’’ تیسیر القرآن ‘‘ کے نام سے تالیف کی جس سے مدارس اور قرآن کے دیگر طلباء ہزاروں کی تعداد میں استفادہ کرکے اپنی زندگیوں کو قرآن وسنت کے مطابق بنا رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب کی کتاب ’’ تیسیرالقرآن‘‘ کے توضیح طلب مقامات کو مزید واضح کرنے کے ساتھ، اسی کتاب کے اسباق کی ترتیب بحال رکھتے ہوئے محترم ڈاکٹر طارق ہمایوں شیخ نے از سر نو اس کتاب کو ’’ شرح تیسرالقرآن ‘‘ کے نام سے پیش کیا ہے۔جس میں ڈاکٹر صاحب نے قواعد عربیہ کی وضاحت کرتے ہوئے نہایت سادہ انداز بیان اختیار کیا ہے۔کتاب میں تمام امثلہ قرآن وحدیث سے دی گئی ہیں اور ہر سبق کے آخر میں تفصیل سے مشقیں اور ان کا حل بھی دیا گیا ہے۔ اور فہم قرآن کورس کو آسان تر بنانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ کم پڑھے لکھے حضرات بھی قرآن کا فہم حاصل کرکے اپنی زندگیوں کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھال سکیں۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قرآن کا فہم کرنے کرکے اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین(ک۔ح)
برصغیر پاک و ہند میں حضرت سید احمد شہید کی ذات بابرکات محتاج تعارف نہیں ۔آپ ایک دور، صدی اور عہد کا نام ہیں۔ جب برصغیر کے مسلمانوں پر مایوسی کے گہرے بادل چھائے ہوتے تھے۔ مسلمان ہر طرف سے سکھوں ، انگریزں اور دیگر قوتوں کے ظلم و استبداد کے شکار تھے۔کسی جگہ کوئی امید نہیں نظر آتی تھی۔ علماو شیوخ اور صوفیا اپنے اپنے مدارس، خانقاہوں اور حلقہ ارادت میں مصروف تھے۔ اگرچہ کچھ کو انتہائی زیادہ قلق و اضطراب کے ساتھ فکر امت دامن گیر تھی۔ہر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ ان حالات میں حضرت شاہ ولی اللہ کے فکری جانشین یعنی ان کی فکر کے عسکری گوشے کو عملی رخ دینے والے جناب حضرت سید احمد شہید نے علم جہاد بلند کیا ۔ اور امت کو بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ اللہ نے آپ کی اعانت فرمائی اور ایک اسلامی ریاست قائم بھی کردی۔ لیکن اپنوں کی غداری رنگ لائی اور آپ بظاہر تو ناکام ہوئے لیکن حقیقت میں کامیاب ہوئے۔آپ کی پیدا کی ہوئی جہادی روح ابھی تک امت کے اندر موجود ہے بلکہ وہ ایک پودے سے تناور درخت بن چکی ہے۔زیرنظر کتاب آپ کی سیرت و سوانح کے مختلف پہلوؤں میں سے حج کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ کیونکہ اس وقت ہندی مسلمانوں کے اندر حج جیسا فریضہ مٹ چکا تھا ۔ آپ نے اسے زندہ و دوبالا کیا۔ اور اس کے معاشرتی طور پر یہ اثرات مرتب ہوئے کہ لوگوں کے اندر سے کئی طرح کی شرک و بدعت پر مبنی رسومات کا خاتمہ ہو گیا۔ اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔(ع۔ح)
برصغیر پاک و ہند میں گزشتہ صدی میں کچھ جماعتیں ایسی اٹھی ہیں جن کے امت کے اندر دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ان میں سے کچھ تو حالات زمانہ کی نظر ہوگئی ہیں۔اور کچھ موجود ہیں،ان کے حلقہ فکر میں لاکھوں پیروان ہیں۔انہی میں سے ایک تبلیغی جماعت کا نام بھی لیا جاسکتا ہے ،جو مسلکی و مذہبی اعتبارسے دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے۔اگرچہ جماعت کا بنیادی اور اساسی مقصد امت مسلمہ کے اندر دینی وابستگی و تعلق پیدا کرنا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ جماعت کے اوپر حنفی مسلک گہری چھاپ ہونے کی وجہ سے ایک مخصوص مکتبہ فکر ترجمان و نمائندہ بن کر رہ گئی ہے۔اس تناظرمیں اگر جائزہ لیا جائے تو جماعت کا مقصد تو بہت اچھا ہے تاہم اس کے لیے جو راستہ اپنایا ہے وہ دوسرے مسلمانوں کے لیے باعث تشویش بن گیا ہے۔اس کے علاوہ جماعت کے دعوتی منہج میں بھی کچھ چیزیں واقعی قابل اعتراض ہیں۔زیرنظر کتاب درحقیقت جماعت کا دونوں حیثیتوں سے تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ ہے۔جس میں محترم جناب طالب الرحمان صاحب فقہ حنفی کے کچھ مسائل اور تبلغی جماعت کے دعوتی منہاج کو زیر بحث لائے ہیں۔اسلوب نگارش میں کہیں شدت بھی آجاتی ہے تاہم بحیثیت مجموع جذبہ اصلاح سے سرشار ہیں۔(ع۔ح)
شادی مشرقی و اسلامی گھرانے کی ایک ایسی رسم ہے جسے معاشرے میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔اس کی اساس پر ایک نئے گھر اور خاندان کا آغاز ہوتا ہے۔اس میں کامیابی ایک مضبوط اور مستحکم معاشرے کی ضمانت ہے اور اس میں ناکامی معاشرتی تباہی کو مستوجب ہے۔مغرب اور اہل یورپ کی شادیوں کی ناکامی کی وجہ تو واضح ہے کہ ان لوگوں نے ایک جداگانہ معاشرتی نظام ترتیب دیا ہے اور الگ طور پر فلسفہ حیات تشکیل دیا ہے۔لیکن اہل مشرق یا اسلامی گھرانوں میں شادیوں کی ناکامی عام طور پر یہ ہے کہ لوگوں میں غلط رسومات نے جنم لے لیا ہے۔ان رسومات کی وجہ سے بہت زیادہ مسائل شادیوں سے پہلے ہی ہو جاتے ہیں اور ایسے ہی بہت زیادہ بعد میں ہو جاتے ہیں۔مثلا کثیر جہیز کی طلب، زیادہ حق مہر متعین کروانا اور شادی میں ضد کی وجہ سے بے دریغ مال خرچ کرنا وغیرہ ۔ اسی طرح شوہر اور بیوی کے درمیان رویوں کی وجہ سے باہمی بے اعتمادی یا تعلقات میں سرد مہر ی پیدا ہو جانا وغیرہ۔زیرنظر کتاب میں مصنف نے معاشرتی اصلاح کی خاطر انہی رویوں اور مسائل کی طرف نشاندہی کی ہے۔(ع۔ح)
حضرت امام شافعی کا شمار فقہائے اربعہ میں ہوتا ہے۔آپ اہل سنت کا عظیم سرمایہ ہیں۔ آپ نے علم الاستدلال میں ایک نیا منہج متعارف کرایا۔استدلال میں آپ امام ابوحنیفہ کی بہ نسبت زیادہ اقرب الی السنہ تھے۔اس کے علاوہ آپ کو شعرو ادب سے بھی بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رہتی دنیا تک شہرت دوام بخشی۔امت کا ایک کثیر طبقہ آپ کے علم الاستدلال کو بطور منہاج کے اپنائے ہوئے ہے۔امام شافعی انتہائی زیادہ متورع اور معتدل شخصیت کے حامل تھے۔حالات و زمانہ کے تقاضوں کے پیش نظر آپ کو اپنی رائے میں تبدیلی بھی لانی پڑی تو آپ نے اس سے گریز نہیں کیا ۔ چنانچہ فقہ کی کتب میں آپ کے قول جدید اور قدیم کے نام سے جو آرا پیش کی جاتی ہیں وہ اسی بات کی عکاسی کرتی ہیں۔عقیدے کے اعتبار سے آپ اہل سنت کے مسلک پر تھے۔زیر نظر کتاب آپ کی سیرت کے مختلف گوشے وال کرتی ہے۔جس میں بالخصوص سب سے زیادہ آپ کے مسلک یا استدلال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اللہ آپ کو راحت ابدی نصیب فرمائے۔(ع۔ح)
عیدالاضحیٰ کے ایام میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بہیمۃ الانعام میں سے کوئی جانور ذبح کرنے کو قربانی کہا جاتا ہے۔ قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے اس کی مشروعیت کتاب اللہ اور سنت نبویہ ﷺ اور مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہے۔ قربانی کرنے کے دنوں کی تعداد کے حوالے سے فقہاء کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک تین اور بعض کے نزدیک چار دن ہیں۔ جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ قربانی کرنے کے کل ایّام چار ہیں۔ یوم النحر(عیدالاضحیٰ کا دن، دس تاریخ) اور ایام تشریق( یعنی گیارہ، بارہ اور تیرہواں دن) جس کا ثبوت قرآن اور صحیح احادیث سے ملتا ہے۔ زیر نظر رسالہ ’’ چار دن قربانی کی مشروعیت ‘‘ مولانا کفایت اللہ السنابلی حفظہ اللہ کی تالیف ہے، جس میں شیخ حفظہ اللہ نے چار دن قربانی کرنے کی مشروعیت کو قرآن و حدیث سے دلائل دیتے ہوئے ثابت کیا ہے ۔اور ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کے دلائل کا بھی تحقیقی جائزہ لیا ہے جو صرف تین دن قربانی کے قائل ہیں۔ رسالہ کل تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں چار دن قربانی کرنے کی مشروعیت پر قرآن وصحیح احادیث سے دلائل بیان کیے گئے ہیں۔ اور ساتھ اس بات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے کہ چار دن قربانی والا قول کئی ایک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف منسوب ہے۔ نیز قیاس صحیح اور دلالت لغت سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ دوسرے باب میں چار دن قربانی سے متعلق اقوال تابعین وآئمہ محدثین کو پیش کیا گیا ہے۔ اور تیسرے باب میں جو علماء صرف تین دن قربانی کے قائل ہیں۔ ان کے دلائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔(ک۔ح)
شرک وبدعت امت مسلمہ کے لیے ایسے موذی امراض ہیں جو امت کے لیے باعث ہلاکت ہیں۔ان کی وجہ سے جہاں امت کے عقائد و اعمال میں دراڑیں پڑتی ہیں وہاں اس کا دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ امت کا شیرازہ منتشر ہو جاتا ہے۔دینی اقدار ختم ہی نہیں بلکہ تبدیل ہو کر رہ جاتی ہیں۔جو ختم ہونے سے بھی زیادہ نقصان دہ صورت حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی شرک و بدعت کے خاتمے کے لیے اپنے لاکھوں کروڑوں انبیاء و رسل مبعوث فرمائے۔ ان سب کا یہی مقصد تھا کہ اس دنیا سے یا اپنی اپنی امتوں سے شرک و بدعت کا خاتمہ کیا جائے۔ چنانچہ اس کےلیے انہوں نے دن رات کوششیں کیں۔پھر انبیاء کے بعد ان نیک لوگوں نے بھی اسی تعلیم کا درس دیا۔ یعنی انہوں نے انبیاء والا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن شرک کی بنیا گہری عقیدت کا جذبہ ہے چنانچہ بعد میں انسانوں نے ان نیک شخصیات کوہی وسیلہ شرک بنا لیا۔ زیرنظرکتاب میں انسانوں کی اسی گمراہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ ان دونوں طرح کی ہستیوں کو اپنے اعمال میں کہاں کہاں اور کیسے کیسے وسیلہ شرک بناتے ہیں۔ اور اس کے بالمقابل صحیح اسلامی تعلیم کی طرف بھی رہنمائی فرمائی ہے۔(ع۔ح)
مختلف احادیث رسول اللہﷺ میں دجال اور علامات قیامت کا تذکرہ آیا ہے۔ہر دور کے علماء نے ان کی تفہیم ، تشریح اور تطبیق کا اپنا اپنا طریقہ اپنا یا ہے۔اسی طرح موجودہ دور میں بھی درحقیقت بہت زیادہ فتنے رونما ہورہے ہیں۔ان فتنوں نے ایک لحاظ سے پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔دوسری طرف نصوص شریعت بھی مختلف طرح کے فتنوں کی طرف نشاندہی کرتی ہیں۔ ہر دور میں یہ ایک نازک مسلہ رہا ہے کہ نصوص شریعت کا حالات پر انطباق کیسے کیاجائے۔علمانے اپنے فرض منصبی سے عہدہ برآں ہوتے ہوئے اس نازک موضوع پر اپنی اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ ہر ایک کی مختلف رائے بھی ہو سکتی ہے۔رسول اللہﷺ کی طرف سے علامات قیامت کے حوالے سے دی گئی پیشین گوئیوں کا انطباق انتہائی کھٹن اور حساس مسلہ ہے۔ چنانچہ موجودہ دور میں اس تناظر میں کئی ایک فکری رجحانات سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے کچھ انتہا پسندانہ بھی ہیں۔جبکہ زیر نظر کتا ب میں مصنف موصوف نے اسی احتیاط کو سامنے رکھتے ہوئے تطبیق کی کوشش تو کی ہے لیکن اپنی کسی بھی رائے کو حتمی نہیں کہا۔ البتہ جن واقعات کی طرف علمائے امت نشاندہی کر چکے تھے ان کی یقین کے ساتھ تشریح کی ہے۔(ع۔ح)
خدائے بزرگ و برتر نے حضرت محمدﷺ کو معیاری رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ ہر قسم کی خوبی ، بھلائی اور نیکی کے قابل عمل نمونہ ہیں۔ ایک کامل مکمل انیان اور مثالی پیغمبر بن کرآئے ہیں۔ آپ پیمانہ ھدیٰ ، نصاب رضا، اور عمل بالقرآن کا جامع کورس ہیں۔ذات گرامی وہ کسوٹی ہے جس پر خدا کی خوشی اور ناخوشی کے کاموں کی پرکھ ہوتی ہے۔کیونکہ آپ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں بولتے تھے بلکہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہوتا۔ کسی بھی عمل کی قبولیت میں جہاں اخلاص کا ہونا شرط ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عمل سنت نبوی کے مطابق ہو۔ان دونوں میں سے کسی ایک میں کوتاہی کے سبب اللہ کی بارگاہ میں عمل مردود ہے۔ایسے ہی رمضان اسلامی مہینوں میں وہ مہینہ ہے جس میں مسلمان عبادات میں اکثر وقت گزارتے ہیں۔ اب یہ عبادات سنت کے مطابق ہونی چاہییں۔ چنانچہ اسی سلسلے میں رہنمائی دینے کے لئے زیرنظر کتاب رقم کی گئی ہے۔تاکہ رمضان المبارک میں کی جانے والی عبادات کے بارے میں کتاب و سنت سے رہنمائی مل سکے۔(ع۔ح)
سورہ یوسف قرآن مجید کی وہ واحد سورہ ہے جو اپنے اسلوب بیاں، ترتیب بیاں اور حسن بیاں میں باقی سے منفرد اور نمایاں ہے۔ پوری سورہ مبارکہ کا مضمون سیدنا یوسف ؑ کی سیرت کے نہایت اجلے پہلو، عفت و عصمت اور پاکیزہ سیرت و کردار پر مشتمل ہے۔عصر حاضر میں جس طرح عفت و عصمت اورسیرت و کردار کو ثانوی حیثیت دے کر عریانی ، فحاشی، بداخلاقی اور حیا باختگی کا چلن عام کیا جارہا ہے۔ میڈیا کی یلغار سے جس طرح گھر اور بازار کا فرق مٹ رہا ہے اور جس طرح سے اخلاقیات پامال ہور ہی ہیں تو ان حالات میں لازم تھا کہ پورے مسلم معاشرے کو بالعموم اور کارکنان دعوت و جہاد کو بالخصوص اس شیطانی یلغار کے مقابل تحفظ سیرت و کردار کے لیے قرآنی رہنمائی سے مسلح کیا جائے۔سورہ یوسف اس سلسلے میں بہترین انتخاب ہے کہ جس میں نہایت وضاحت سے بتا دیا گیا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے کس جرات اطوار اور کس پختگی کردار سے پرکشش دعوت گناہ کو ٹھکرادیا۔مؤلف کتاب جناب پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب کی شخصیت محتاج تعارف نہیں آپ عصر حاضر کی ایک معروف جہادی تنظیم کے امیر ہیں ۔ چنانچہ زیرنظر کتاب ان کے مختلف دروس کا مجموعہ ہیں جو انہوں نے تحریک کی تربیت گاہوں میں ارشاد فرمائے تھے۔اللہ ان کے علم و عمل میں برکت عطافرمائے۔ آمین۔(ع۔ح)