آج سے نصف صدی قبل یہ خیال تھا کہ ذیابیطس کے مرض میں انسولین بالکل ہی موجود نہیں ہوتی اور مرض کی حالت میں گلوکوز یاشکر ہی مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ جہاں تک ا س مرض کی تشخیص کا تعلق ہے۔یونانیوں ، مصریوں ، عربوں اور ہندوں کو اس مرض کے متعلق علم تھا اور کچھ نہ کچھ علاج بھی تھاجڑی بوٹیوں وغیرہ کی شکل میں۔لیکن یہ ساری غلامات صرف ان کے لیے تھیں جن کو ذیابیطس بڑی عمر یعنی 2۔Typeہوتی تھی۔عہد عتیق کے لوگ نہ صرف اس مرض کو جانتے تھے بلکہ مرض کی تشخیص ، خاصیت، مضر اثرات، ہلاکت آفرینی اور کچھ علاج کی بھی شدبدھ رکھتے تھے۔پیشاپ ٹیسٹ کرنے کا طریقہ بھی معلوم تھا۔ مگر حتمی علاج نہ تب تھا اور نہ اب ہے۔تاہم یہ الگ بات ہے کہ اس نئے دور میں ریڈیائی تحلیلات و مخوصات کے سبب اس مرض کی معلومات میں دقیق اور تفصیلی اضافہ ہوا ہے۔اور یہ بھی کہ کون کون سے اجزائے غذائی ، کون کون مختلف قسم کے ہارمونز اور کن کن کیمیائی اجزا کے سبب خون میں شوگر کی مقدار بڑھتی ہے۔ زیرنظر کتاب در حقیقت ان جدیدقدیم معلومات اور ساتھ ساتھ کچھ ذاتی تجربات کی بنیا د پر نئی معلومات کا ایک گنجینہ...