بیت اللہ کا حج ارکانِ اسلام میں ایک اہم ترین رکن ہے۔ بیت اللہ کی زیارت او رفریضۂ حج کی ادائیگی ہر صاحب ایمان کی تمنا اورآرزو ہے۔ ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک دفعہ فریضہ حج کی ادائیگی فرض ہے، اور اس کے انکار ی کا ایمان کامل نہیں ہے اور وہ دائرہ اسلام سےخارج ہے۔ اجر وثواب کے لحاظ سے یہ رکن بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے تمام كتب حديث وفقہ میں اس کی فضیلت اور احکام ومسائل کے متعلق ابو اب قائم کیے گئے ہیں اور تفصیلی مباحث موجود ہیں ۔حدیث نبویﷺ کہ آپ نےفرمایا "الحج المبرور لیس له جزاء إلا الجنة "حج مبرور کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں ۔اس موضوع پر اب تک اردو و عربی زبان میں چھوٹی بڑی بیسیوں کتب لکھی جاچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب ’’ الدر المکنون فی الحج المسنون ‘‘ شیخ محمد عبد اللہ امر تسر کی کاوش ہے ۔ جس میں انہوں حج کی فضیلت، اہمیت، اور اقسام کو بیان کرتے ہوئے مزید حج سے متعلق مردوں و عورتوں کے تمام مسائل وغیرہ اور اس دوران پڑھی جانے والی دعائیں قرآن وحدیث کی روشنی میں جمع کر د...
نماز دین اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے کلمہ توحید کے بعد ایک اہم ترین رکن ہے۔اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ یہ شب معراج کے موقع پر فرض کی گئی، اور امت کو اس تحفہ خداوندی سے نوازا گیا۔اس کو دن اور رات میں پانچ وقت پابندی کے ساتھ باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے۔ نماز دین کا ستون ہے۔ نماز جنت کی کنجی ہے۔ نماز مومن کی معراج ہے۔ نماز نبی کریمﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ نماز قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز اﷲ تعالیٰ کی رضا کاباعث ہے۔ نماز جنت کا راستہ ہے۔ نماز پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔ نماز برے کاموں سے روکتی ہے۔ نماز مومن اور کافر میں فرق کرتی ہے۔ نماز بندے کو اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رکھتی ہے۔ لیکن اللہ کے ہاں وہ نماز قابل قبول ہے جو نبی کریم ﷺ کے معروف طریقے کے مطابق پڑھی جائے۔آپ نے فرمایا:تم ایسے نماز پڑھو جس مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ احادیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ سے نماز وتر پڑھنے کے مختلف طریقے ثابت ہیں۔آپ ﷺ ایک، تین،پانچ،سات اور نو تک وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔ اور یہ سب عدد ہی...
رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑا ہوتے وقت ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا (یعنی رفع الیدین کرنا) نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس سنت پر عمل کیا ہے۔ اس کا ثبوت بکثرت اور تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی احادیث سے ملتا ہے، جنہیں صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے۔اور اس کا ترک یا نسخ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔سیدنا وائل بن حجرآخری ایام میں مسلمان ہونے صحابہ میں سے ہیں۔صحیح مسلم میں ان سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کہی، پھر رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ چادر سے نکالے اور انہیں بلند کیا اور تکبیر کہی اور رکوع کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے وقت بھی دونوں ہاتھ اٹھائے۔ زیر تبصرہ کتاب " الرسائل فی تحقیق المسائل "مولانا عبد الرشید انصاری کی رفع الیدین جیسے معرکۃ الآراء مسئلے کی تحقیق پر ایک عظیم الشان تصنیف ہے،جو انہوں نے انتہائی محنت اور شوق سے جمع فرمائی ہے۔ اس کتاب میں مولف نے پہلے اثبات رفع الیدین پر 22 بائیس کتب حدیث سے 44 چوا...
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے پور ی انسانیت کے لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل راہنمائی فراہم کرتاہے انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام معاملات، عقائد وعبادات ، اخلاق وعادات کے لیے نبی ﷺ کی ذات مبارکہ اسوۂ حسنہ کی صورت میں موجود ہے ۔مسلمانانِ عالم کو اپنےمعاملات کو نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سرانجام دینے چاہیے۔ لیکن موجود دور میں مسلمان رسم ورواج اور خرافات میں گھیرے ہوئے ہیں بالخصوص برصغیر پاک وہند میں شادی بیاہ کے موقع پر بہت سے رسمیں اداکی جاتی ہیں جن کاشریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور ان رسومات میں بہت زیادہ فضول خرچی اور اسراف سے کا م لیا جاتا ہے جوکہ صریحاً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ان مواقع پر تمام رسوم تو ادا کی جاتی ہیں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت فریضہ نکاح کے متعلقہ مسائل سے اتنی غافل ہے کہ میاں کو بیو ی کے حقوق کا علم نہیں، بیوی میاں کے حقوق سے ناواقف ہے ،ماں باپ تربیتِ اولاد سے نا آشنا اور اولاد مقامِ والدین سے نابلد ہے۔ اسلام نے شادی کو فریقین کے درمیان محبت اور رحمت قرار دیا ہے اور شادی بیاہ کے معاملات کو اس قدر آسا...
نماز دین کا ستون ہے۔نماز جنت کی کنجی ہے۔نماز مومن کی معراج ہے۔ نمازمومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔نماز قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز اﷲ تعالیٰ کی رضا کاباعث ہے۔نماز پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔نماز مومن اور کافر میں فرق ہے۔ہر انسان جب کلمہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے ایمان کی شہادت دیتا ہے اور جنت کے بدلے اپنی جان ومال کا سودا کرتا ہے، اس وقت سے وہ اللہ تعالیٰ کا غلام ہے اور اس کی جان ومال اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اب اس پر زندگی کے آخری سانس تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔ اس معاہدہ کے بعد جو سب سے پہلا حکم اللہ تعالیٰ کا اس پر عائد ہوتا ہے، وہ پانچ وقت کی نماز قائم کرنا ہے۔اور نماز کی قبولیت کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی نماز کے موافق ہو۔نماز کے مختلف فیہ مسا ئل میں سے ایک مسئلہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا ہے۔بعض اہل علم کے خیال ہے کہ رکوع سے پہلے والے قیام کی طرح رکوع کے بعد والے قیام میں بھی ہاتھ باندھے جائیں گے جبکہ بعض کا خیال ہےکہ رکوع...
اذان اسلام کا شعار ہے۔ نماز پنجگانہ کے لیے اذان کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے رائج ہے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اسلام کے پہلے مؤذن تھے۔ اذان بلالی کے الفاظ بھی احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں۔ اذان علاقے میں مسلمانوں کی موجودگی کا اعلان ہی نہیں بلکہ اسلام کا چہرہ ہے اور غیر مسلمانوں کےلیے اسلام کا پیغام اور دعوت ہے۔ لیکن عام طور پر مؤذن حضرات زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے، اذان کہنے کا شوق رکھتے ہیں لیکن تجوید وقراءت کے اصولوں سے ناواقف ہوتے ہیں، عجمی تو عجمی عرب مؤذن بھی اذان کہتے ہوئے بہت ساری غلطیاں کرتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ القول الجميل في مدّ التأذين والتكبير‘‘ شیخ القراء محمد صدیق سانسرودی فلاحی کی تصنیف ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں کلمات اذان وتکبیرات انتقال میں مد کی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ (م ۔ ا)
یہ کتاب دو ابواب پر مشتمل ہے جس میں سے پہلے باب میں صحیح اور مرفوع احادیث کو پیش کر کے عیدین کی بارہ تکبیرات کو ثابت کیا ہے اور دوسرے باب میں مصنف نے مسلک احناف کے موقف پر چند ایک اعتراضات کے ساتھ اس چیز کا ثبوت مانگا ہے کہ کیا عیدین کی چھ تکبیریں مرفوع اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں- اور پھر آخر میں عیدین کی تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کیا جائے گا یا نہیں؟ اس کو وضاحت سے بیان کیا ہے-
نماز دین اسلام کادوسرا اہم رکن اورقرب الہی کابہترین ذریعہ ہے ۔جہاں اللہ رب العزت نے مواظیت نماز کوفرض قراردیاہے وہاں رسول اللہ ﷺ نے (صلواکارأیتمونی أصلی)کی شرط عائدفرمائی یعنی تکبیرتحریمہ سے تسلیم تک تمام امورکاطریقہ نبوی ﷺ کے مطابق ہوناضروری ہے ۔انہی امورمیں سے نماز کے بعض مسائل ایسے ہیں جواحادیث صحیحہ اورعمل صحابہ ؓ سے ثابت ہونے کے باوجودبعض لوگوں کے اعتراضات کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں ۔آمین بالجہرکامسندبھی انہی میں شامل ہے ۔صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جہری نماز وں میں باجماعت نماز پڑھتے ہوئے سورہ فاتحہ کے خاتمہ پرآمین بلندآواز سے کہی جائے گی لیکن بعض لوگ ضعیف احادیث اورمردوددلائل کی بناء پرآمین بالجہرکے مخالف ہیں اورقائلین بالجہرپرنانواطعن وتشنیع کرتے ہیں ۔زیرنظرکتاب میں انتہائی مدلل اورعلمی طریقہ سے آمین بالجہرکاثبوت پیش کیاگیاہے اوراس کے مخالف نقطہ نگاہ کے دلائل کابھی ناقدانہ جائزہ لیاگیاہے ۔
نماز اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے ۔یہ مسلمانوں کی اجتماعیت اور مرکزیت کی علامت ہے۔آنحضرتﷺ نے اس رکن عظیم کی بنیاد پر کفر و اسلام کی حدود کھینچی ہیں ۔اسے مؤمن کی معنوی و روحانی معراج قرار دیاگیا ہے۔روز محشر اس فریضہ کی ادائیگی کی سب سے پہلے باز پرس کی جائےگی۔اس میں کوتاہی موجب ہلاکت ہوگی۔اسی وجہ سے اس اہم ترین فریضہ کی ادائیگی پر آنحضرتﷺ نے پرزور تاکید فرمائی ہے۔اس حوالے سے ایک جامع اور آسان ترین طریقے سے رہنمائی کی ضرورت تھی ۔چنانچہ مولانا صادق سیالکوٹی صاحب نے ایک عظیم کوشش کرتے ہوئے ’’ صلوۃ الرسول ‘‘ نامی کتاب تصنیف کی لیکن اس میں متعدد کوتاہیاں موجود تھیں اور اس کی تخریج موجود نہیں تھی ۔چناچہ اس کتاب کی مزید تحقیق کرتے ہوئے مولانا عبدالرؤف بن عبدالحنا ن نے ’’ القول المقبول فی شرح وتعلیق صلوۃ الرسول ﷺ‘‘ نامی کتاب لکھ کر اس کی احادیث کی تخریج اور بعض مقامات پر علمی تعلیق پیش کر دی ہے ۔اللہ تعالی مؤلف محترم اور محقق صاحب کو اجر جزیل سے نوازے۔اور ان کی اس سعی جمیل کو توشہ آخرت بنائے۔آمین...
اللہ رب العزت نے روح کو انسان کے جسم کا حصہ بنایا ہے ۔انسان اپنے جسم کی غذا کا بندوبست کرنے کے لیے صبح وشام سرگرداں رہتا ہے لیکن اپنی روح کی غذا کی کوئی فکر نہیں کرتا درحقیقت اگر جسم کو غذا نہ ملے یا ناقص غذا ملے تو جسم بیمار ہوجاتاہے اور اس کے علاج معالجے کے لیے دنیا میں ڈاکٹر اور حکیم موجود ہیں ۔بالکل اسی طرح اگر روح کو غذا نہ ملے یا ناقص ملے تو یہ بھی بیمار ہوجاتی ہے اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو دنیا بھی برباد ہوجاتی ہے او ر آخرت بھی۔ اور روح کی غذا اور اس کا علاج صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکرنا ہے اسی عظیم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب او ر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں:«كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ» کہ رسول اللہ ﷺ ہروقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیاکرتے تھے ۔اذکار نبوی ﷺ کے حوالے&nbs...
ذکر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معانی یاد کرنا ،یاد تازہ کرنا ،کسی شئے کو بار بار ذہن میں لانا ،کسی چیز کو دہرانا اور دل و زبان سے یاد کرنا ہیں۔ذکر الہٰی یادِ الہٰی سے عبارت ہے ذکر الہٰی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اور ہر حالت میں۔ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے اپنے معبود حقیقی کو یاد رکھے اور اس کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو۔ ذکر الہٰی ہر عبادت کی اصل ہے تمام جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد عبادت الہٰی ہے اور تمام عبادات کا مقصودِ اصلی یادِ الہٰی ہے ۔کوئی عبادت اور کوئی نیکی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد سے خالی نہیں۔مردِ مومن کی یہ پہچان ہے کہ وہ جب بھی کوئی نیک عمل کرے تو اس کا مطمعِ نظر اور نصب العین فقط رضائے الہٰی کا حصول ہو ۔یوں ذکرِ الہٰی رضائے الہٰی کا زینہ قرار پاتا ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر قرآن و سنت میں جابجا ذکر الہٰی کی تاکید کی گئی ہے۔ کثرت ذکر محبت الہٰی کا اولین تقاضا ہے :انسانی فطرت ہے کہ وہ اس چیز کو ہمیشہ یاد کرتا ہے جس کے ساتھ اس کا لگاؤ کی حدتک گہرا تعلق ہو ۔وہ کسی صورت میں بھی اسے بھلانے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ زیر نظر کتاب ’’ الل...
اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے اپنے پیروکاروں کی اخلاقی اور روحانی دونوں اعتبا ر سے تربیت کر کے ان کو اس بات کی جانب راغب کیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے لئے جہدوجہد کریں بلکہ ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی مدد کریں اور آگے بڑھنے میں مدد کریں ،انکا خیال رکھیں اوراپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شریک کریں نہ کہ انکے دلوں کودکھی کریں۔قرآن کریم کا موضوع ہی انسان ہے تو اس میں انسان کے لئے ہر حوالے سے احکامات موجود ہیں جس پر وہ عمل کر کے اپنی زندگی کو پرسکون طریقہ کارکے مطابق بسر کر سکتا ہے ۔مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہم مسلمانوں نے خاص طور پر اس الہامی کتاب کے احکامات پر عمل درآمد کرنا تقریباََ چھوڑ ہی دیاہے جس کی وجہ سے ہم گونا گوں مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔قرآن مجید میں بیان کردہ احکامات ہر دور کے لئے یکساں ہیں ۔یہ طرہ امتیاز اسی آسمانی کتاب کو حاصل ہے کہ اس میں زیر زبر تک کی ہیر پھیر ممکن نہیں ہے اور اس میں بیان کردہ احکامات پر کسی بھی لمحے انسان عمل کرکے اپنی نجات کو ممکن بنا سکتا ہے۔شرعی احکامات محض ایک دو موضوعات پر مبنی نہیں ہیں بلکہ یہ اُن تمام پہلوؤں کا احاط...
بیت اللہ کا حج ارکانِ اسلام میں ایک اہم ترین رکن ہے۔ بیت اللہ کی زیارت او رفریضۂ حج کی ادائیگی ہر صاحب ایمان کی تمنا اورآرزو ہے۔ ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک دفعہ فریضہ حج کی ادائیگی فرض ہے، اور اس کے انکار ی کا ایمان کامل نہیں ہے اور وہ دائرہ اسلام سےخارج ہے۔ اجر وثواب کے لحاظ سے یہ رکن بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے تمام كتب حديث وفقہ میں اس کی فضیلت اور احکام ومسائل کے متعلق ابو اب قائم کیے گئے ہیں اور تفصیلی مباحث موجود ہیں ۔حدیث نبویﷺ کہ آپ نےفرمایا "الحج المبرور لیس له جزاء إلا الجنة "حج مبرور کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں ۔اس موضوع پر اب تک اردو و عربی زبان میں چھوٹی بڑی بیسیوں کتب لکھی جاچکی ہیں زیرنظر کتاب " اللہ کے مہمانوں کی خدمت میں "وزارت اطلاعات ومذہبی امور سعودی عرب کی کاوش ہے۔ جس میں انہوں حج وعمرہ کے تمام مسائل او ر اس دوران پڑھی جانے والی دعائیں قرآن وحدیث کی روشنی میں جمع کر دی گئی ہیں ۔اور اس کے ساتھ قربانی وعیدین کے مسائل بھی نہایت اختصار مگر دلائل اور جامعیت کے ساتھ بیان کر دیئے ہی...
اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور اس کے لیے کچھ ایسے مواسم کا انتخاب فرمایا ہے جن میں عبادت باقی ایام کی بہ نسبت زیادہ افضل ہوتی ہے‘ جیسا کہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ کہ جس میں ایک نیکی کا اجر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے اور یوم عرفہ ‘ شب قدر کہ ہزار مہینے کی عبادت کا ثواب ملتا اور اسی طرح ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں عبادت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دن رمضان کے آخری دس سے بھی افضل ہیں مگر افسوس کے اکثر مسلمانوں کو ان فضائل کا علم اور شعور تک نہیں ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب ایک کتابچہ ہے جو خاص عشرہ ذوالحجہ کے فضائل پر مشتمل ہے۔ اس میں سب سے پہلے عشرہ ذوالحجہ کے فضائل قرآن پاک سے بیان کیے گئے ہیں اور عشرہ ذوالحجہ کی وجہ تسمیہ کو بھی بیان کیا گیا ہے۔پھر عشرہ ذوالحجہ کے فضائل احادیث مبارکہ سے بیان کیے گئے ہیں۔ اور پھر عشرہ ذوالحجہ کے مستحب اعمال کون کون سے ہیں ان کو بیان کیا گیا ہے اور عشرہ ذوالحجہ کی خصوصیات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ قرآن وحدیث کے بعد عشرہ ذوالحجہ اور سلف صالحین کے...
زمانہ جس قدر خیرالقرون سے دور ہوتا جارہا ہے، اتنا ہی فتنوں کی تعداد اور افزائش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ہر روزایک نیا فتنہ سر اٹھاتا ہے اور عوام الناس کو اپنے نئے اعتقاد ،افکار اور اعمال کی طرف دعوت دیتاہے۔ اپنی خواہشات نفسانی کے پیش نظر قرآن وسنت کی وہ تشریح کرتا ہے جو ان کے خود ساختہ مذہب واعمال کے مطابق ہو۔عوام چونکہ ان کے مکروفریب سے ناواقف ہوتے ہیں ۔لہذا ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔انہی فتنوں میں ایک تقلید کا فتنہ ہے،جس نے لوگوں کے اذہان کو جامد کر کے رکھ دیا ہے۔موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ جرابوں پر مسح کرنے کے حوالے سے اہل علم کے ہاں دو مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔اس اختلاف کاسبب فقہا میں یہ رہا ہے کہ بعض فقہا کے نزدیک وہ روایت جس میں جرابوں پر مسح کا ذکر ہوا ہے، اتنی قوی نہیں ہے یا ان تک وہ روایت نہیں پہنچی ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ صرف انہی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے جن میں نمی اندر نہ جا سکتی ہو۔ ہمارے نزدیک چمڑا ہو یا کپڑا مسح کی اجازت رخصت کے اصول پر...
زمانہ جس قدر خیرالقرون سے دور ہوتا جارہا ہے، اتنا ہی فتنوں کی تعداد اور افزائش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ہر روزایک نیا فتنہ سر اٹھاتا ہے اور عوام الناس کو اپنے نئے اعتقاد ،افکار اور اعمال کی طرف دعوت دیتاہے۔ اپنی خواہشات نفسانی کے پیش نظر قرآن وسنت کی وہ تشریح کرتا ہے جو ان کے خود ساختہ مذہب واعمال کے مطابق ہو۔عوام چونکہ ان کے مکروفریب سے ناواقف ہوتے ہیں ۔لہذا ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔انہی فتنوں میں ایک تقلید کا فتنہ ہے،جس نے لوگوں کے اذہان کو جامد کر کے رکھ دیا ہے۔موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ جرابوں پر مسح کرنے کے حوالے سے اہل علم کے ہاں دو مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔اس اختلاف کاسبب فقہا میں یہ رہا ہے کہ بعض فقہا کے نزدیک وہ روایت جس میں جرابوں پر مسح کا ذکر ہوا ہے، اتنی قوی نہیں ہے یا ان تک وہ روایت نہیں پہنچی ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ صرف انہی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے جن میں نمی اندر نہ جا سکتی ہو۔ ہمارے نزدیک چمڑا ہو یا کپڑا مسح کی اجازت رخصت کے اصول پر...
اللہ احکم الحاکمین کا بے پناہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں انسان بنانے کے بعد مسلمان بنایا ‘مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر لازم ہے ک ہم اپنی زندگی اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق بسر کریں‘ زندگی گزارنے کے لیے اللہ نے ہمیں ایسے اصول وضوابط عطا فرمائے ہیں کہ انہیں اپنا کر ہم پُر سکون‘ راحت وآرام اور برکت والی زندگی بسر کر سکتے ہیں مگر افسوس کہ مسلمان ان اصولوں سے نا آشنا ہو کر بے سکونی‘ پریشانی اور مصیبتوں سے بھری ہوئی زندگی گزار رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ کے اصولوں کو اللہ کی مرضی کے مطابق سمجھ کر استعمال کر کے اللہ کی رحمت‘ سکینت اور برکتوں سے بھر پور طریقے سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں مصنف﷾ نے اسی عمل کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو کیسے اللہ کی مرضی کے مطابق بسر کر سکتے ہیں۔ اس کتاب میں حدیث کی اصل کتابوں سے مراجعت کے بعد الفاظِ منصوصہ کا انتخاب کیا گیا ہے‘ ہر دعا اور ذکر کے ساتھ نبیﷺ کا مکمل فرمان‘ جس کتاب سے کوئی چیز لی ہے اسی کا حوالہ دیا گیا ہے‘ صحیح احادیث کا...
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على المبعوث رحمة للعالمين، أما بعد فالصراع العلمي والنضال المذهبي بين أهل الحديث والحنفية في القارة الباكندية (باكستان والهند ) أمر معروف و مشهور، و من المسائل المهمة التى كثر حولها الكلام والجدال مسئلة قراءة فاتحة الكتاب في الصلاة خلف الإمام " فوضعوا فيه التأليفات الكبار و سعوا فيما ادعوا من الإثبات والإنكار، ولكن المقلدين قد أكثروا الاستدلال بالرأي والقياس، وظنوا أنه يروج عند كثير من الناس، ثم إذا علموا كساده في سوق الدرايات والروايات، أرادوا أن يلبسوه لباس السنن والآيات، فتكلفوا بل حرفوا. و لم يعرفوا أن هذين العلمين، التكلف فيهما عين الشين وأيضا ليس فرسان هذا الميدان إلا من رزق الفهم في كتاب الله و نال الثريا للإيمان، و هم أهل الحديث الذين ساروا سيرا حثيثا، وأما أولئك فاشتغالهم بعلم الحديث قليل قديما و حديثا فلذا تراهم في كل مسئلة يناظرون فيها أهل الحديث قاصرين، وأهل الحديث عليهم ظاهرين، وكيف يدرك الظالع شأو الضليع، وهل يستوى الخالع والخليع، ومن حمل وزرا فوق طاقته، يهلك أو يسقط من ساعته" و على هذا المنوال أ...
نماز دین اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے کلمہ توحید کے بعد ایک اہم ترین رکن ہے۔اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ یہ شبِ معراج کے موقع پر فرض کی گئی ،اور امت کو اس تحفہ خداوندی سے نوازا گیا۔اس کو دن اور رات میں پانچ وقت پابندی کے ساتھ باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے۔لیکن نماز کی قبولیت کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی نماز کے موافق ہو۔نماز کے مختلف فیہ مسا ئل میں سے ایک مسئلہ فاتحہ خلف الامام کا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی سورۃ الفاتحہ پڑھے گا یا نہیں پڑھے گا۔ہمارے علم کے مطابق فرض نفل سمیت ہر نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا فرض اور واجب ہے،نمازی خواہ منفرد ہو،امام ہو یا مقتدی ہو۔کیونکہ سورۃ الفاتحہ نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور اس کے بغیر نماز نامکمل رہتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے اس میں فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی۔دوسری جگہ فرمایا: “جس نے أم القرآن(یعنی سورۃ الفاتحہ)پڑھے بغیرنماز ادا کی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، نا مکمل ہے۔یہ احادیث اور اس معنی پر دلالت کر...
ہمارے معاشرے میں بگاڑ کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ تقلید جامد ہمارے معاشرے میں در آئی ہے – احکامات الہی کو کتاب وسنت کی روشنی میں پرکھنے کی بجائے قول امام پر آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں- دکھ تو اس بات کا ہے کہ ارکان ااسلام میں سے اہم ترین رکن نماز بھی اس سے محفوظ نہیں-زیر نظر کتاب میں سید بدیع الدین شاہ راشدی نے بالدلائل اس بات کی وضاحت کی ہے کہ نماز کی صحت کے لیے امام کے عقیدے کا درست ہونا انتہائی ضروری ہے- ان کا کہنا ہے کہ حنفی عقیدہ رکھنے والے حضرات کے عقائد میں اضطراب پایا جاتا ہے اور عقیدہ کا صحیح اور درست ہونا اسلام کا اولین فریضہ ہے- اس کتاب کوپڑھ کر آپ کو اس سوال کا تسلی بخش جواب مل جائے گا کہ حنفی امام کے پیچھے نماز ہوتی ہے یانہیں ہوتی؟
امت مسلمہ صرف ’کلمہ گو‘ جماعت نہیں بلکہ داعی الی الخیر بھی ہے ۔ یہ اس کے دینی فرائض میں داخل ہے کہ بنی نوع انسان کی دنیا کی سرافرازی اور آخرت کی سرخروئی کے لیے جو بھی بھلے کام نظر آئیں ، بنی آدم کو اس کا درس اور اس کی مخالف سمت چلنے سے ان کو روکے ۔اس فریضہ سے کوئی مسلمان بھی مستثنیٰ نہیں۔ مسلم معاشرے کے ہرفرد کا فرض ہے کہ کلمہ حق کہے ،نیکی اور بھلائی کی حمایت کرے اور معاشرے یا مملکت میں جہاں بھی غلط اور ناروا کام ہوتے نظر آئیں ان کوروکنے میں اپنی ممکن حد تک پوری کوشش صرف کردے ۔ ایمان باللہ کے بعد دینی ذمہ داریوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیناسب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔ امر بالمعروف کامطلب ہے نیکی کا حکم دینا اور نہی عن المنکر کا مطلب ہے برائی سے روکنا یہ بات تو ہر آدمی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی اور نیک لوگوں کو پسند فرماتےہیں ۔ برائی اور برے لوگوں کو ناپسند فرماتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ نیک لوگ زیاد ہ ہوں او ر نیکی کا غلبہ رہے۔ برے لوگ کم ہوں اور برائی مغلوب رہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے...
ایمان باللہ کے بعد دینی ذمہ داریوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا اہم ذمہ داری ہے۔ یہ بات ہر آدمی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی اور نیک لوگوں کو پسند فرماتے ہیں اور اسلام صرف عقائد کا نام نہیں ہے بلکہ مکمل نظام حیات ہے۔ جس میں اوامر بھی ہیں اور نواہی بھی۔ بعض اوامر و نواہی کا تعلق تبلیغ ،تذکیر اور وعظ و نصیحت کے ساتھ ہے جس پر عمل کرنا والدین ،اساتذہ کرام، علماء و فضلاء اور معاشرے کے دیگر افراد پر واجب ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور ضرورت جہاد‘‘مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ کی تصنیف ہے جو کہ ان کے ریڈیو ام القیوین متحدہ عرب امارات کی اردو سروس میں پیش کیے گئے پروگرامز کی کتابی صورت ہے۔ (م۔ا)
امر بالمعروف و النھی عن المنکر دین اسلام کا اہم فریضہ ہے ، امت مسلمہ کو اسی فریضہ کی انجام دہی پر دیگر امتوں پر فوقیت حاصل ہے ۔کتاب و سنت میں اس ذمہ دار ی کو بطریق احسن ادا کرنے کی پر زور تاکید ہے،کیونکہ اس فریضہ ہی دین کا استحکام ، امت کی دین سے وابستگی ممکن ہے اور اس کی بدولت ہی شیطانی سازشوں ،باطل نظریات اور شرک و بدعا ت کی راہیں مسدود ہوتی ہیں۔اس فریضہ سے کوتاہی اور انحراف کی وجہ سے امت مختلف فتنوں اور سازشوں کا شکار ہے اور اس فریضہ سے غفلت ہی کی وجہ سےامت میں باطل نظریات اور من مانی تاویلات کا منہ زور سیلاب در آیا ہے۔پھر اس فریضہ سے گلو خلاصی کےلیے مختلف اعتراضات واشکلات وارد کیے جاتے ہیں ،ان اعتراضات و اشکلات کا زیر نظر کتاب میں خوب محاسبہ کیا گیاہے۔(ف۔ر)
اسلام کے نظام معیشت کی بنیادی خصوصیت انفرادی ملکیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ دولت کی زیادہ سے زیادہ تقسیم اور اس کو ارتکاز سے بچانا ہے،اس کی ایک عملی مثال زکوۃ کا نظام ہے۔زکوۃ کو واجب قرار دیا جانا ایک طرف اس بات کی دلیل ہے کہ سرمایہ دار خود اپنی دولت کا مالک ہےاور وہ جائز راستوں میں اسے خرچ کر سکتا ہے۔دوسری طرف اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان کی دولت میں سماج کے غریب لوگوں کا بھی حق ہے ۔یہ حق متعین طور پر اڑھائی فیصد سے لیکر بیس فیصد تک ہے،جو مختلف اموال میں زکوۃ کی مقررہ شرح ہے،اور بطور نفل اپنی ضروریات کے بعد غرباء پر جتنا کرچ کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل مسلمان اس عظیم الشان فریضے کی ادائیگی سے سے بالکل لا پرواہ ہو چکے ہیں۔اور زکوۃ نکالنے کا اہتمام مفقود نظر آتا ہے۔اس پس منظر میں ایک رجحان یہ بھی ہے کہ اموال زکوۃ کی سرمایہ کاری کی جائے تاکہ زیادہ عرصہ تک اور زیادہ سے زیادہ فقراء کو اس سے استفادہ کرنے کا موقع مل سکے۔موضوع کی اہمیت کے پیش نظر انڈیا کی اسلامک فقہ اکیڈمی نے دیگر موضوع...
اللہ عزوجل نے امت مسلمہ کامقصدوجوددعوت کوقراردیاہے ۔اسی بناءپرانہیں ’خیرامت‘کامعززلقب دیاہے۔قرآن وحدیث میں دعوت الی اللہ کے اصول وضوابط متعین کردیے ہیں اوررسول پاک ﷺ نے عملا انہیں برت کردکھابھی دیاہے ۔نبوی اسلوب دعوت کوسامنے رکھتے ہوئے ہمارے اسلاف نے جس خوش اسلوبی سے فریضہ دعوت کوسرانجام دیااس کانتیجہ یہ نکلاکہ اسلام اطراف واکناف عالم میں پھیل گیالیکن بعدازاں یہ طریقہ دعوت نظروں سے اوجھل ہوگیاتوفرقہ واریت اوراحتراق نشست امت کامقدربن گیاموجودہ ذلت ورسوائی کی وجہ بھی یہی ہے کہ تنظیموں اورجماعتوں کی دعوت انبیاء کرام کے طریقے پرنہیں ہے ۔زیرنظرکتاب میں انتہائی مؤثراوردلنشیں انداز میں انبیاء کے اسلوب دعوت پرروشنی ڈالی گئی ہے جویقیناً قابل مطالعہ ہے ۔