طہارت و پاکیزگی اسلام کے اولین احکام میں سے ہے۔ اسلام میں اس کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔طہارت جسمانی بھی ہوتی ہے اور روحانی و ذہنی بھی۔ نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا :’’ طہارت نصف ایمان ہے‘‘۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق تمام عبادات کرنے سے پہلے ایک خاص قسم کی طہارت و پاکیزگی کا اہتمام کرنا لازم اور ضروری ہے۔ اسلام نے طہارت وپاکیزگی کے اصول مقرر کر دئیے ہیں ۔ نبی کریم ؐنے اپنی تعلیمات کے ذریعے ان کی حدود بھی مقرر فرما دی ہیں۔ جس طرح نفس کی پاکیزگی ایک بہت بڑی نعمت ہے اسی طرح جسمانی پاکیزگی بھی گراں قدر نعمت ہے اور انسان پر اللہ کی نعمت اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک انسان کا نفس اور اس کا جسم دونوں ہی پاکیزگی و طہارت کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ نماز جواسلام میں ایک سب سے اہم اور فرض عبادت ہے اس کی درست ادائیگی کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ نمازی کا بدن ،کپڑے اور نماز پڑھنے کی جگہ ہر قسم کی نجاست اور آلودگی سے پاک ہوں۔ زیر تبصرہ کتاب " بدنی طہارت کے مسائل"معروف مبلغہ داعیہ،مصلح...
ہمارا معاشرہ اسلامی ہونے کے باوجود غیر اسلامی رسوم ورواج میں بری طرح جکڑچکا ہے،اور ہندو تہذیب کے ساتھ ایک طویل عرصہ تک رہنے کے سبب متعدد ہندوانہ رسوم ورواجات کو اپنا چکا ہے۔کہیں شادی بیاہ پر رسمیں تو نہیں بچے کی ولادت پر رسمیں،کہیں موسمیاتی رسمیں تو کہیں کفن ودفن کی رسمیں۔الغرض ہر طرف رسمیں ہی رسمیں نظر آتی ہیں۔اسلامی تہذیب وثقافت کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا ہے۔الا ما شاء اللہ۔انہیں رسوم ورواج میں سے ایک قبیح ترین رسم بری اور برات کی ہے،جس کا اسلامی تہذیب کے ساتھ کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ان رسوم ورواج میں اسلامی تعلیمات کا خوب دل کھول استخفاف کیا جاتا اور غیر شرعی افعال سر انجام دیئے جاتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "برات اور بری"معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نےبرات اور بری میں کی جانے والی ہندوانہ رسومات پر روشنی دالی ہے اور مسلمانوں کو ان سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔اللہ نے ان کو بڑا رواں...
بسم اللہ الرحمن الرحیم کلام رب العالمین کی پیشانی کا وہ مقدس ومنزہ طغریٰ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کےافتاح کے لیے منتخب فرمایا۔ اور امام کائنا ت خاتم النبین حضرت محمدﷺ اسی کلام ِمبارک سے اپنے ہر کام کاآغاز فرماتے اور ہر مسلمان کوبھی اپنے کاموں کا آغاز اسی سے کرنےکی تلقین فرمائی۔ زیر نظر کتاب ’’بسم اللہ دعا ، دوا اور شفاء‘‘محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے اس افتتاحیہ کلام کی اہمیت وافادیت ، اور مسلمان کااس کےساتھ قلبی وروحانی تعلق کیساہونا چاہیے۔ اور اس کے لغوی مفہوم کو بڑے آسان فہم انداز میں پیش کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو ان کے لیے صدقہ جاریہ اور آخرت میں نجات کاذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر عمل میں احکامات الٰہی کو مد نظر رکھے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تقلیدی رجحانات کی وجہ سے بعض ایسی چیزیں در آئی ہیں جن کا قرآن وسنت سے ثبوت نہیں ملتا۔اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق رکھے ہیں جن کو ادا کرنا اخلاقی اور شرعی فرض بنتا ہے اور انہیں حقوق العباد کا درجہ حاصل ہے۔ان پانچ حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان بھائی فوت ہو جائے تو اس کی نمازہ جنازہ ادا کی جائے اور یہ نمازہ جنازہ حقیقت میں اس جانے والے کے لیے دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اگلی منزل کو آسان فرمائےاس لیے کثرت سے دعائیں کرنی چاہیں۔لیکن بدقسمتی یہ ہے عوام الناس میں اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو جنازے کے مسائل تو دور کی بات جنازہ میں پڑھی جانے والی دعائیں بھی یاد نہیں ہوتیں جس وجہ سے وہ اپنے جانے والے عزیز کے لیے دعا بھی نہیں کر سکتے۔جبکہ اس کے مقابلے میں بعد میں مختلف بدعات کو اختیار کر کے مرنے والے کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ ظاہر کرنا چاہتے ہوتے ہیں جو کہ درست نہیں اورشریعت کےخلاف ہے۔نماز جناہ کے...
جہاد فی سبیل اللہ ، اللہ کو محبوب ترین اعمال میں سے ایک ہے اور اللہ تعالی نے بیش بہا انعامات جہاد فی سبیل میں شریک ایمان والوں کے لئے رکھے ہیں۔ اور تو اور مومن مجاہدین کا اللہ کی راہ میں نکلنے کا عمل اللہ کو اتنا پسندیدہ ہے کہ اس کے مقابلے میں نیک سے نیک، صالح سے صالح مومن جو گھر بیٹھا ہے ، کسی صورت بھی اس مجاہد کے برابر نہیں ہو سکتا ، جو کہ اپنے جان و مال سمیت اللہ کے دین کی سربلدی اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو گرانے کے لئے ، کسی شہہ کی پرواہ کئے بغیر نکل کھڑا ہوا ہوتا ہے۔ذیل میں ہم جہاد فی سبیل بارے کچھ اسلامی تعلیمات اور اس راہ میں اپنی جانیں لٹانے والوں کے فضائل پیش کریں گے۔ جہاد كا لغوى معنی طاقت اور وسعت كے مطابق قول و فعل كو صرف اور خرچ كرنا،اور شرعى معنى اللہ تعالى كا كلمہ اور دين بلند كرنے كے ليے مسلمانوں كا كفار كے خلاف قتال اور لڑائى كے ليے جدوجہد كرناہے۔ زیر تبصرہ کتاب" بوسنیا کے عرب شہداء " جماعۃ الدعوہ پاکستان کے مرکزی رہنما محترم مولانا امیر حمزہ صاحب کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نےبوسنیا میں عرب شہداء کی ایمان افروز دا...
قربانی کے جانوروں میں سے ایک جانور ’’ بقر (گائے) ‘‘ہے۔ اس کی قربانی کے لیے کوئی نسل قرآن و سنت نے خاص نہیں فرمائی۔جبکہ بقر کی ہی نسل سے بھینس(جاموس) کی قربانی کے حوالے سے اہل علم میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہیں تو بعض عدم جواز کے۔ زیر نظر کتاب ’’ بھینس کی قربانی ‘‘محترم جناب ماسٹر احمد علی نعیم صاحب کی تحریر ہے، جس میں انہوں نے بھینس کی قربانی کے مسئلہ پر مفید علمی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ مؤلف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان ِحسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین۔(م۔ا)
قرآن کریم نے قربانی کے لیے ’’بهيمة الانعام‘‘ کا انتخاب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔’’ اور وہ معلوم ایام میں بهيمة الانعام پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر (کرکے انہیں ذبح) کریں، پھر ان کا گوشت خود بھی کھائیں، اور تنگ دستوں اور محتاجوں کو بھی کھلائیں۔‘‘ خود قرآن کریم نے’’ الانعام ‘‘ کی توضیح کرتے ہوئے ضان، معز، ابل، اور بقر، چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا ہے۔انہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت مسلمہ کے نزدیک اجماعی واتفاقی طور پر مشروع ہے۔ ان جانوروں کی خواہ کوئی بھی نسل ہو، اور اسے لوگ خواہ کوئی بھی نام دیتے ہوں سب کی قربانی جائز ہے۔ قربانی کے جانوروں میں سے ایک جانور ’’بقر (گائے) ‘‘ ہے۔ اس کی قربانی کے لیے کوئی نسل قرآن و سنت نے خاص نہیں فرمائی۔جبکہ بقر کی ہی نسل سے بھینس کی قربانی کے حوالے سے اہل علم میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہیں تو بعض عدم جواز کے۔ زیرنظر کتاب "بھینس کی قربانی، ایک علمی جائزہ"...
قربانی عربی زبان کے لفظ "قرب"سے نکلا ہے ،جس کے معنی ہیں "کسی شئے کے نزدیک ہونا” جبکہ شرعی اصطلاح میں : ذبح حیوان مخصوص بینۃ القربۃ فی وقت مخصوصیعنی مخصوص وقت میں اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے کےلئے مخصوص جانور ذبح کرنا "قربانی "کہلاتا ہے۔(درِمختار،جلد9،ص520)(کتاب الاضمیہ)۔پس عیدالاضحی وہ عید قربان ہے کہ بندے کو اللہ کے بہت قریب کر دیتی ہے اور بندے اور اللہ کے درمیان موجود سب دوریوں کو ختم کر دیتی ہے۔قرآن کریم نے قربانی کےلیے ’’ بهيمة الانعام‘‘ کا انتخاب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔’’ اور وہ معلوم ایام میں بهيمة الانعام پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر (کرکے انہیں ذبح) کریں، پھر ان کا گوشت خود بھی کھائیں، اور تنگ دستوں اور محتاجوں کو بھی کھلائیں۔‘‘ خود قرآن کریم نے’’ الانعام ‘‘ کی توضیح کرتے ہوئے ضان، معز، ابل، اور بقر، چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا ہے۔انہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت مسلمہ کے نزدیک اجماعی واتفاقی طور پر مشروع ہے۔...
قرآن کریم نے قربانی کےلیے ’’ بهيمة الانعام‘‘ کا انتخاب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔’’ اور وہ معلوم ایام میں بهيمة الانعام پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر (کرکے انہیں ذبح) کریں، پھر ان کا گوشت خود بھی کھائیں، اور تنگ دستوں اور محتاجوں کو بھی کھلائیں۔‘‘(الحج) خود قرآن کریم نے ’’ الانعام ‘‘ کی توضیح کرتے ہوئے ضان، معز، ابل، اور بقر، چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا ہے۔انہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت مسلمہ کے نزدیک اجماعی واتفاقی طور پر مشروع ہے۔ ان جانوروں کی خواہ کوئی بھی نسل ہو، اور اسے لوگ خواہ کوئی بھی نام دیتے ہوں، سب کی قربانی جائز ہے۔ قربانی کے جانوروں میں سے ایک جانور ’’بقر (گائے) ‘‘ہے۔ اس کی قربانی کےلیے کوئی نسل قرآن وسنت نے خاص نہیں فرمائی۔ جبکہ بقر کی ہی نسل سے بھینس کی قربانی کے حوالے سے اہل علم میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہیں تو بعض عدم جواز کے۔ زیر نظر کتاب میں حافظ نعیم الحق ملتانی...
صحیح احادیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کا رمضان او رغیر رمضان میں رات کا قیام بالعموم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں ہوتا تھااور حضرت جابر کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کوتین رات جو نماز پڑہائی وہ گیارہ رکعات ہی تھیں او ر حضرت عمر نے بھی مدینے کے قاریوں کو گیارہ رکعات پڑہانے کا حکم دیاتھا اور گیارہ رکعات پڑھنا ہی مسنون عمل ہے ۔امیر المومنین حضر ت عمر بن خطاب ، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابی بن کعب اور حضرت عبد اللہ بن مسعود سے 20 رکعات قیام اللیل کی تمام روایات سنداً ضعیف ہیں ۔زیر نظر کتابچہ میں شیخ کفایت اللہ السنابلی نے بیس رکعات سے متعلق جو روایات پیش کی جاتی ہیں دلائل کی روشنی میں ان کا جائزہ پیش کرکے ثابت کیا ہے کہ بیس رکعات تراویح پڑہنا نہ تو نبی ًﷺ سے اور نہ ہی کسی صحابی سے ثابت ہے اس کے برعکس نبیﷺ اور صحابہ کرام سے آٹھ رکعات تراویح ہی ثابت ہے ۔(م۔ا)
صحیح احادیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کا رمضان او رغیر رمضان میں رات کا قیام بالعموم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں ہوتا تھااور حضرت جابررضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوتین رات جو نماز پڑہائی وہ گیارہ رکعات ہی تھیں او ر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی مدینے کے قاریوں کو گیارہ رکعات پڑہانے کا حکم دیاتھا اور گیارہ رکعات پڑھنا ہی مسنون عمل ہے ۔امیر المومنین حضر ت عمر بن خطاب ، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابی بن کعب اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی 20 رکعات قیام اللیل کی تمام روایات سنداً ضعیف ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’بیس رکعات تراویح کا علمی وتحقیقی جائزہ ‘‘ مولانا صفدر عثمانی کی تصنیف ہے۔ مولانا موصوف نے اس کتاب میں چار حنفی علماء کی چار کتابوں اور ایک اشتہار کا انتہائی مسکت جواب دئیے ہیں &...
صحیح احادیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کا رمضان اور غیر رمضان میں رات کا قیام بالعموم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں ہوتا تھا اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تین رات جو نماز پڑہائی وہ گیارہ رکعات ہی تھیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی مدینے کے قاریوں کو گیارہ رکعات پڑہانے کا حکم دیا تھا اور گیارہ رکعات پڑھنا ہی مسنون عمل ہے ۔امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابی بن کعب اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی 20 رکعات قیام اللیل کی تمام روایات سنداً ضعیف ہیں ۔ زیر نظر رسالہ ’’ بیس(20) رکعت تراویح کا ثبوت حقیقت کے آئینہ میں ‘‘ رضا اللہ عبد الکریم مدنی حفظہ اللہ کا مرتب شدہ ہے فاضل مرتب نے یہ رسالہ مفتی شبیر احمد قاسمی کے رسالہ کے جواب میں تحریر کیا ہے اور اس میں مندرجہ ذیل سوالو...
صحیح احادیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کا رمضان اور غیر رمضان میں رات کا قیام بالعموم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں ہوتا تھا اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تین رات جو نماز پڑہائی وہ گیارہ رکعات ہی تھیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی مدینے کے قاریوں کو گیارہ رکعات پڑہانے کا حکم دیا تھا اور گیارہ رکعات پڑھنا ہی مسنون عمل ہے ۔امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابی بن کعب اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی 20 رکعات قیام اللیل کی تمام روایات سنداً ضعیف ہیں ۔ زیر نظر رسالہ ’’ بیس(20) رکعت تراویح کا ثبوت حقیقت کے آئینہ میں ‘‘ رضا اللہ عبد الکریم مدنی حفظہ اللہ کا مرتب شدہ ہے فاضل مرتب نے یہ رسالہ مفتی شبیر احمد قاسمی کے رسالہ کے جواب میں تحریر کیا ہے اور اس میں مندرجہ ذیل سوالو...
بیماری عذر کی حالت کا نام ہے ۔ جس میں انسان اپنے کام معمول کےمطابق نہیں کرسکتا ۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر یہ کمال شفقت ہے کہ اس نے انسان کواس کی استطاعت سے بڑھ کر کسی بھی حکم کا پابند نہیں بنایا۔عبادات ادا کرنے کےلیے اس نے عذر کی حالت میں تخفیف کردی ۔ نماز روزانہ پانچ دفعہ کا معمول ہے ۔ اس لیے بیماری کی حالت میں سب سے زیادہ اسی کے مسائل معلوم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔زیر نظر کتابچہ ’’ بیمار کی نماز‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی کاوش ہے ۔جس میں انہوں نے بیمار شخص کے لیے طہارت حاصل کرنے کے مسائل بیان کرنے کے بعد مختلف بیماریوں میں انسان کو کس طرح نماز ادا کرنی چاہیے ا ن کو آسان فہم انداز میں بحوالہ مختصرا بیان کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ محترمہ کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ (آمین) (م۔ا)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،جس میں تجارت سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے مکمل رہنمائی موجود ہے۔اسلام تجارت کے ان طور طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ،جس میں بائع اور مشتری دونوں میں سے کسی کو بھی دھوکہ نہ ہو ،اور ایسے طریقوں سے منع کرتا ہے جن میں کسی کے دھوکہ ،فریب یا فراڈ ہونے کا اندیشہ ہو۔یہی وجہ ہے اسلام نے تجارت کے جن جن طریقوں سے منع کیا ہے ،ان میں خسارہ ،دھوکہ اور فراڈ کا خدشہ پایا جاتا ہے۔اسلام کے یہ عظیم الشان تجارتی اصول درحقیقت ہمارے ہی فائدے کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔دین اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور تمام مسلمانوں کا اس کی حرمت پر اتفاق ہے۔لیکن افسوس کہ اس وقت پاکستان میں موجود تمام بینک سودی کاروبار چلا رہے ہیں۔حتی کہ وہ بینک جو اپنے آپ کو اسلامی کہلاتے ہیں وہ بھی سود کی آلائشوں سے محفوظ نہیں ہیں۔اس وقت بینکوں کی جانب سے متعدد انواع کے کارڈ جاری کئے جاتے ہیں ، جن میں سے اکثر سودی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈ کے شرعی احکام "اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی جانب سے شائع کی گئی ہے...
اللہ تعالیٰ نے مہینوں میں ماہ رمضان کو فضیلت دی، سالوں کے دنوں میں عرفہ کے دن کو اور ہفتہ کے دنوں میں جمعہ کےدن کو فضیلت عطا کی، راتوں میں شب قدر کو فضیلت سے نوازا، عشروں میں عشرہ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ اور رمضان کا آخری عشرہ فضیلت والا بنایا اور دونوں میں فرق یہ رکھا کہ اور دونوں میں فرق یہ رکھا کہ ذوالحجہ کے پہلے دنوں کا جواب نہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کی کوئی مثال نہیں۔ زیر نظر کتابچہ میں فاضل مصنف عبدالہادی عبد الخالق نے عشرہ ذوالحجہ کے فضائل و احکام کو اختصار کےساتھ بیان فرمایا ہے۔ 45 صفحات پر مشتمل اس کتابچہ میں مصنف نے پہلے عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت سےمتعلق صحیح احادیث بیان کرتےہوئے بعد میں ان احادیث کو بھی رقم کر دیا ہے جو ضعیف اور موضوع ہیں۔ اس کےعلاوہ عشرہ ذوالحجہ میں کرنے والے اعمال صالحہ کو بھی قلمبند کی گیا ہے۔(ع۔م)
نماز اركان اسلام ميں سے اہم ترین رکن ہے- اسلام کی بنیاد اور اساس نماز ہے اور اسی پر اسلام کی عمارت قائم ہے- یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے بارہا قرآن کریم میں اس کا تذکرہ فرمایا ہے اور کلمہ شہادت کے اقرار کے بعد کسی بھی مسلمان پر جو چیز سب سے پہلے فرض ہے وہ نماز ہے-اور قیامت کے دن بھی رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے طابق بندے کے نامہ اعمال کے متعلق سب سے پہلے نماز کا ہی سوال کیا جائے گا- یہ کتاب تین کتابوں کا مجموعہ ہے-ان میں سے پہلا حصہ جو بے نماز کے شرعی حکم کے بارے میں ہے یہ حصہ الشیخ صالح العثیمین کی تحریر ہے اور نماز باجماعت کی اہمیت وفضیلت والا حصہ الشیخ عبد اللہ بن عبدالعزیز بن باز کا تحریر کردہ ہے اور ان دونوں حصوں کا ترجمہ جناب ابو عبدالرحمن شبیر بن نور صاحب نے کیا ہے-اور اس کا تیسرا حصہ نماز مسنون کےنام سے ہے جو کہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی تحریر ہے-زیرنظرکتاب میں مصنف نے شیخ محمد بن صالح العثمین اور شیخ عبدالعزیز عبداللہ بن بازکے فتاوی جات کی روشنی میں نماز کی اہمیت وفضیلت اور تارک نماز کا حکم تفصیلا بیان کیا ہے-اس کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں نماز...
نماز دین کا ستون ہے۔نماز جنت کی کنجی ہے۔نماز مومن کی معراج ہے۔ نمازمومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔نماز قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز اﷲ تعالیٰ کی رضا کاباعث ہے۔ نماز پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔ اقرار شہادتین کے بعد جو سب سے پہلا حکم اللہ تعالیٰ کا اس پر عائد ہوتا ہے، وہ پانچ وقت کی نماز قائم کرنا ہے۔اور نماز کی قبولیت کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی نماز کے موافق ہو۔نماز کے مختلف فیہ مسا ئل میں سے ایک مسئلہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنےیا چھوڑنے کا ہے۔بعض اہل علم کے خیال ہے کہ رکوع سے پہلے والے قیام کی طرح رکوع کے بعد والے قیام میں بھی ہاتھ باندھے جائیں گے جبکہ بعض کا خیال ہےکہ رکوع کے بعد ہاتھ نہیں باندھے جائیں گے،بلکہ کھلے چھوڑ دئیے جائیں گے۔ زیر تبصرہ کتاب "الشھادۃ الکبیر المتعال لاھل الارسال" پاکستان کے معروف عالم دین محترم ابو القاسم سید محب اللہ شاہ راشدی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے کا موقف اختیار کیا ہے اور اس پر متعدد دلائل دئیے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے ا...
حدیث رسول ﷺ کے مطابق اس امت میں ایک ایسا گروہ ہمیشہ موجود رہتا ہے جو حق کی صحیح ترجمانی کرتا ہے اور دین کی اصل شکل کو برقرار رکھتا ہے ۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اہل حق بالکلیہ ضم ہو جائیں اور بدعت وضلالت کی حکمرانی قائم ہو جائے۔زیر نظر کتاب میں عالم اسلام کے عظیم مفکر مولانا ابو الحسن ندوی نے تاریخ کے صفحات سے دعوت وعزیمت کے تسلسل کو اجاگر کیا ہے اور اسلام کی تیرہ سو برس کی تاریخ میں اصلاح وانقلاب حال کی کوششوں کو بیان کیا ہے ۔انہوں نے ان ممتاز شخصیتوں اور تحریکوں کی نشاندہی کی ہے جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق دین کے احیاء اور تجدید اور اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے کام میں حصہ لیا اور جن کی مجموعی کوششوں سے اسلام زندہ اور محفوظ شکل میں اس وقت موجود ہے اوراس وقت ایک ممتاز امت کی حیثیت سے نظر آتے ہیں ۔اس کتاب کا مطالعہ ہر مسلمان کو لازماً کرنا چاہیے تاکہ مصلحین امت کے اصلاحی ودعوتی اور مجاہدانہ کارناموں سے واقفیت حاصل ہو سکے۔(ط۔ا)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانیت کی ہدایت وراہنمائی کے لیے جس سلسلۂ نبوت کا آغاز حضرت آدم سےکیاگیا تھا اس کااختتام حضرت محمد ﷺ کی ذات ِستودہ صفات پر کردیا گیا ہے۔اور نبوت کے ختم ہوجانے کےبعددعوت وتبلیغ کاسلسلہ جاری وساری ہے ۔ دعوت وتبلیع کی ذمہ داری ہر امتی پرعموماً اور عالم دین پر خصوصا عائد ہوتی ہے ۔ لیکن اس کی کامل ترین اور مؤثر ترین شکل یہ ہےکہ تمام مسلمان اپنا ایک خلیفہ منتخب کر کے خود کو نظامِ خلافت میں منسلک کرلیں۔اور پھر خلیفۃ المسلمین خاتم النبین ﷺ کی نیابت میں دنیا بھر کی غیر مسلم حکومتوں کو خط وکتابت او رجہاد وقتال کےذریعے اللہ کے دین کی دعوت دیں۔اور ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ کہ وہ دعوت وتبلیع او راشاعتِ دین کا کام اسی طرح انتہائی محنت اور جان فشانی سے کرے جس طرح خو د خاتم النبین ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام کرتے رہے ہیں ۔ مگر آج مسلمانوں کی عام حالت یہ ہے کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ تو بہت دور کی بات ہے...
خدائے بزرگ و برتر نے حضرت محمدﷺ کو معیاری رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ ہر قسم کی خوبی ، بھلائی اور نیکی کے قابل عمل نمونہ ہیں۔ ایک کامل مکمل انیان اور مثالی پیغمبر بن کرآئے ہیں۔ آپ پیمانہ ھدیٰ ، نصاب رضا، اور عمل بالقرآن کا جامع کورس ہیں۔ذات گرامی وہ کسوٹی ہے جس پر خدا کی خوشی اور ناخوشی کے کاموں کی پرکھ ہوتی ہے۔کیونکہ آپ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں بولتے تھے بلکہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہوتا۔ کسی بھی عمل کی قبولیت میں جہاں اخلاص کا ہونا شرط ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عمل سنت نبوی کے مطابق ہو۔ان دونوں میں سے کسی ایک میں کوتاہی کے سبب اللہ کی بارگاہ میں عمل مردود ہے۔ایسے ہی رمضان اسلامی مہینوں میں وہ مہینہ ہے جس میں مسلمان عبادات میں اکثر وقت گزارتے ہیں۔ اب یہ عبادات سنت کے مطابق ہونی چاہییں۔ چنانچہ اسی سلسلے میں رہنمائی دینے کے لئے زیرنظر کتاب رقم کی گئی ہے۔تاکہ رمضان المبارک میں کی جانے والی عبادات کے بارے میں کتاب و سنت سے رہنمائی مل سکے۔(ع۔ح)
کسی مسلمان کی موت پر اس کی نماز جنازہ پڑھنا اور اس کی تجہیز وتکفین کرنا اس کا ایک شرعی حق ہے اور کسی میت کے لئے آخری اظہار ہمدردی اور سفارش ہے۔لیکن فی زمانہ اس کو ایک رسم سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور ہر مسلمان خیال کرتا ہے کہ اس کے لئے جو بھی طریق کار اختیار کر لیا جائے مناسب ہے۔حالانکہ محبت رسول ﷺ کا تقاضا ہے کہ مسلمان کا ہر کام سنت نبوی ﷺ کے مطابق ہو اور اس سے ماوراء نہ ہو۔ کسی بھی عزیز یا رفیق کا انتقال پسماندگان کے لیے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس موقع پر مختلف مذاہب اور مختلف علاقوں میں الگ الگ رسمیں رائج ہیں، ان رسموں کی نگہبانی میں لوگ طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسلام میں میت کی تجہیز وتکفین کا بہت سادہ طریقہ بتایا گیا ہے جس میں میت کا پورا احترام ہے اور پسماندگان کے لیے تسلی کا سامان بھی۔ برادران وطن سے متأثر ہوکر کچھ لوگوں نے چند رسمیں اس موقع پر بھی گھڑلی ہیں۔ مثلاً سوئم، تیرہویں چہلم اور برسی وغیرہ۔ زیر تبصرہ کتاب" تجہیز وتکفین کا شرعی طریقہ "محترم مولانا ابراہیم خلیل صاحب، خطیب مرکزی مسجد اہلحدیث ، حجر...
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے یہ مہینہ اپنی عظمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے دیگر مہینوں سے ممتاز ہے ۔رمضان المبارک وہی وہ مہینہ ہےکہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالی جنت کے دروازے کھول دیتا ہے او رجہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کوجکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندے کو اس طر ح گمراہ نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیاد ہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت ...
نماز ہر مسلمان پر فرض ہے اور طوعا وکرہا اس کی ادائیگی لازمی ہے اگر کوئی شخص اس کی ادائیگی میں سستی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اللہ کے وہ شخص مجرم ہے-اس لیے فرائض کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے کچھ نفلی عبادت بھی رکھی ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بندے کا شوق دیکھا جائے کہ وہ عبادت میں کتنا شوق رکھتا ہے-تاکہ وہ فرائض سے پہلے وہ چیزیں ادا کرے جو اس پر فرض نہیں جب وہ ان کو خوش دلی سے ادا کرے گا تو فرائض میں بھی دلچسپی پیدا ہو گی-اس لیے ان نوافل میں سے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں ہیں جن کے بارے میں لوگوں بہت جہالت پائی جاتی ہے حتی کہ کچھ لوگ اس کو ادا تو نہیں کرتے لیکن ادا کرنے والوں کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی تصور نہیں ہے-ديكھنے میں آیا ہے کہ دیگر فرض نمازوں کے بعد تو سنتوں کا اہتمام کرلیا جاتا ہے لیکن مغرب کی فرض نماز سے پہلے اکثر مساجد میں سنتیں ادا کرنے کا اہتمام نہیں ہوتا اور نہ ہی انہیں کوئی خاص اہمیت دی جاتی ہے-زیر نظر کتاب میں مصنف نے ترتیب وار احادیث رسول، آثار صحابہ وتابعین اور مذاہب اربعہ کے مؤقف کی روشنی میں واضح کیا ہے کہ یہ سنت عہد نبوی ﷺ میں رائج ت...
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے پور ی انسانیت کے لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل راہنمائی فراہم کرتاہے انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام معاملات ، عقائد وعبادات ، اخلاق وعادات کے لیے نبی ﷺ کی ذات مبارکہ اسوۂ حسنہ کی صورت میں موجود ہے ۔مسلمانانِ عالم کو اپنےمعاملات کو نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سرانجام دینے چاہیے ۔لیکن موجود دور میں مسلمان رسم ورواج اور خرافات میں گھیرے ہوئے ہیں بالخصوص برصغیر پاک وہند میں شادی بیاہ کے موقع پر بہت سے رسمیں اداکی جاتی ہیں جن کاشریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور ان رسومات میں بہت زیادہ فضول خرچی اور اسراف سے کا م لیا جاتا ہے جوکہ صریحاً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ ان مواقع پر تمام رسوم تو ادا کی جاتی ہیں ۔لیکن لوگوں...