اہل حدیث مروجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں ،نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے ،بلکہ اہل حدیث ایک جماعت او رایک تحریک کا نام ہے زندگی کےہر شعبے میں قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنا او ردوسروں کو ان دونوں پر عمل کرنے کی ترغیب دلانا یا یو ں کہہ لیجیئے کہ اہل حدیث کانصب العین کتاب وسنت کی دعوت او ر اہل حدیث کا منشور قرآن وحدیث ہے۔ تمام اہل علم اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت موجود ہے تب سے یہ جماعت موجود ہے۔۔اسی لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے۔ اہل حدیث اسلام کی حقیقی ترجمان اور ایک ایسی فکر ہے جو دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہے۔فکر اہل حدیث ، تاریخ اہل حدیث، تعارف اہل حدیث ،مسلک اہل حدیث کے عنوان سے متعدد کتب موجود ہیں زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’سالنامہ تاریخ اہل حدیث 2106 ،شمارہ نمبر 1 ‘‘ جناب عبد الحکیم عبد المعبود المدنی ﷾ کی کاوش ہےموصوف جماعت اہل حدیث ، ہند کے غیور اور ممتاز عالمِ دین ہیں ، انہوں نے ’’ مرکز تاریخ اہل حدیث ،انڈیا‘‘ کے نام سے ایک مستقل ادارہ قائم کیا ہوا ہے جس کے تحت وہ تاریخ اہل حدیث ہند کو بڑی تیزی اور قوت سے جمع کیا جارہا ہے ۔کتاب ہذادر اصل مجوزہ تاریخ اہل حدیث ،ہند کا پہلا حصہ ہے ۔مرتب نےاس میں مختلف جرائد ومجلات، مقالات اور کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے نیزذاتی معلومات کی بنیاد پر جنوبی ہند کے علماء اہل حدیث کے مساعی جمیلہ کو مختلف جہتوں سے واضح کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ سالنامہ تاریخ اہل حدیث کا یہ پہلا شمار ہ سات ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب کے تحت فاضل مرتب نے اپنااداریہ، مرکز اہل حدیث کا جامع تعارف اور کچھ علماکرام کے تاثراتی پیغامات کوشامل کیا ہے ، دوسرا باب اہل حدیث ، تاریخ اہل حدیث،اور جماعت کے بعض تعلیمی ودعوتی مراکزکے تعارف وغیرہ پر مشتمل ہےاس میں مستند اہل علم کی تحریریں جمع کی گئی ہیں۔ باب سوم میں بعنوان’’ یادرفتگان 1915ء تک وفات پاچکے سترہ علماء کرام کی سوانح حیات اور ان کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے، باب چہارم 2016ء میں وفات پانےوالے علماء کرام کے ذکر ِجمیل کے لیے مختص ہے اور اس کے تحت 16 علماء کرام کی سوانح حیات اور ان کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے، باب پنجم میں 2016ء میں وفات پانے والے بعض ایسے اعیان وجماعت کی وفات پر لکھی گئی تعزیتی تحریریں شامل ہیں جو باضافہ عالم تو نہ تھے مگر جمعیت وجماعت اوراس کے کاز سےگہری دلچسپی او روابستگی کے سبب انہوں نے اپنے طور قابل قدر خدمات انجام دیں۔باب ششم میں پانچ اکابر علماء موجودیں کی خود نوشت سوانح حیات شامل ہے جو اپنی جگہ نہایت اہمیت کی حامل ہے جب کہ آخری اور ساتویں با ب میں متفرقات کے عنوان سے فاضل مرتب نے تین اہم مضامین تاریخ اہل حدیث کے متعلق شامل کیے ہیں ۔ یہ کتاب تاریخ اہل حدیث کی حقانیت اورعلمائے اہل حدیث کی گرانقدر خدمات پر مشتمل ایک اہم علمی وتاریخی دستاویز ہے ۔اللہ مرتب وناشرین کی اس عظیم الشان مساہی کو شرفِ قبولیت سے نوازے اورانہیں ا س کام کو جاری رکھنی کی توفیق دے ۔ (آمین) (م۔ا)
اللہ تعالی کاکلام اور نبی کریم ﷺکی احادیث مبارکہ عربی زبان میں ہیں اسی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں سے عربی کا رشتہ مضبوط ومستحکم ہے عربی اسلام کی سرکاری زبان ہے ۔شریعت اسلامی کے بنیادی مآخد اسی زبان میں ہیں لہذا قرآن وسنت اور شریعتِ اسلامیہ پر عبور حاصل کرنےکا واحد ذریعہ عربی زبان ہے۔ اس لحاظ سے عربی سیکھنا اور سکھانا امت مسلمہ کا اولین فریضہ ہے ۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان سے ناواقف ہے جس کی وجہ سے وہ فرمان الٰہی اور فرمان نبوی ﷺ کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ حتٰی کہ تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی اکثریت سکول ،کالجز ،یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل اسلامیات کے اسباق کو بھی بذات خود پڑھنے پڑھانے سے قا صر ہے ۔جس کے لیے مختلف اہل علم اورعربی زبان کے ماہر اساتذہ نے نصابی کتب کی تفہیم وتشریح کے لیے کتب وگائیڈ تالیف کی ہیں۔ زیرنظر کتاب ’’تاریخ ادب عربی‘‘ احمد حسن زیارت کی عربی تاریخ وادب پر مشتمل تصنیف ’’ تاریخ الادب العربی‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔یہ کتاب تاریخ ادب عربی پرجامع ومستند کتاب جس میں عربی زبان کے تمام قدیم وجدید بلند پایۂ ادبا وشعراء مفکرین کے حالات اور ان کے کلام کا منتحب نمونہ درج ہے ۔1947ء میں علامہ سید سلیمان ندوی کی ترغیب پر اس کا اردو ترجمہ شروع ہوا لیکن مکمل نہ ہوسکا۔بالآخر 1961ء میں جناب عبد الرحمٰن طاہر سورتی نے اس کام کو مکمل کیا ۔اردو میں عربی ادب سے متعلق اتنی معلومات اس کتاب سے پہلے کسی کتاب میں موجود نہیں۔یہ کتاب یونیورسٹی اور جامعات کے نصاب میں شامل ہے ۔(م۔ا)
سلطنتِ مغلیہ کا بانی ظہیر الدین بابر تھا، جو تیمور خاندان کا ایک سردار تھا۔ ہندوستان سے پہلے وہ کابل کا حاکم تھا۔مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ بابر نے اپنی فوج سے دس گُنا طاقتور افواج سے جنگ لڑی اور انہیں مغلوب کر دیا کیونکہ بابر کے پاسبارود اور توپیں تھیں جبکہ ابراہیم لودھی کے پاس ہاتھی تھے جو توپ کی آواز سے بدک کر اپنی ہی فوجوں کو روند گئے۔ یوں ایک نئی سلطنت کا آغاز ہوا۔ اس وقت شمالی ہند میں مختلف آزاد حکومتیں رائج تھیں۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔سلطنت مغلیہ کے قیام اور اس کے عروج وزوال کے متعلق دسیوں کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’مغلیہ سلطنت کا عروج وزوال‘‘ایک عظیم مؤرخ ڈاکٹرآرپی ترپاٹھی کی کتاب’’ہسٹری آف دی مغلس‘‘ کااردو ترجمہ ہے ڈاکٹر آرپی مغل تاریخ سند کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اور ان کی یہ کتاب اپنے موضوغ پر غیر معمولی شہرت رکھتی ہے مصنف نے اس کتاب میں مغلیہ دورمیں ملک کی اقتصادی اور ثقافتی ترقی کااحاطہ کیا ہے۔(م۔ا)
منہج عربی زبان میں اس راستے کو کہا جاتا ہے کہ جس کی روشن صفات واضح ہوں یعنی وہ طریقہ جوظاہرواضح اور مستقیم ہو۔اور سلف کا معنی ہےگزرے ہوئے نیک لوگ۔ہر پہلے آنے والابعد میں آنے والے کے لحاظ سے سلف ہے،لیکن جب سلف مطلق طور پر بولا جاتا ہےتواس سے مراد بہترین تین زمانے کے لوگ ہیں،جن کی گواہی نبی کریمﷺنےدی ہے،لہذا سلف سے مراد صحابہ،تابعین اور تبع تابعین ہیں یہی سلف صالحین ہیں۔ان کے بعد آنے والےجو ان کے منہج کو اختیار کریں وہ سلفی کہلاتے ہیں اگرچہ ان کا زمانہ بعد میں ہےیعنی سلفی سلف صالحین کے طریقے اور منہج کو اختیار کرنے والے کو کہا جاتا ہے۔اور منہج سلف سے مراددین کو سمجھنے کا وہ منہج ہے جو صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین کے ہاں پایا گیا ۔جسے ائمہ اہل سنت نے اپنی کتب میں محفوظ کرتے ہوئے ہم تک منتقل کیا ۔اس منہج پر چلنے والوں کو کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور اس کو ترک کرنے والے اہل بدعت کہلاتے ہیں۔اہل سنت والجماعت سے مراد پاک وہند میں موجود اہل سنت واالجماعت(بریلوی) نہیں ہے۔بلکہ وہ جماعت ہے جو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کےطریقے ومنہج کو اختیار کرنے والی جماعت ہے۔ زیر نظر کتاب ’’منہج سلف کا تعارف‘‘ مولانا عبیدالرحمن عبد العزیز سنابلی نذیری﷾ کی تصنیف ہے جو اپنے موضوع میں شاندار کتاب ہے ۔فاضل مصنف نے بڑی عرق ریزی سے اس کی ترتیب کا فریضہ انجام دیا ہے اس موضوع پر عقلی ونقلی دلائل سے لےکر عقائد وعبادات تک ، اور مسائل واحکام سے لے کر سلوک وتعاملات تک سارے ابواب میں سلفی منہج کو واضح کرنےکی بہترین کوشش کی ہے مختلف ابواب میں منہج سلف کی مثالیں بھی بیان کی ہیں ،تاریخ کے حوالے سے سلفیت کے زمنی تسلسل کو بھی واضح کیا ہے نیز منہج سلف کو سلف کی زبانی ان کےاقوال وتقریرات کی روشنی میں واضح کیا ہے کسی بھی مسئلے میں ذاتی رائے کی بجائے سلف کی رائے کواولیت وترجیح دی ہے۔ اور سلفی منہج کےبیان کے ساتھ ساتھ دیگر بدعی وخلفی مناہج کو بھی حتی المقدر بیان کی کوشش کی ہے ۔اس کتاب سے استفادہ کرکے بآسانی سلفی منہج کوسمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس کاوش کوقبول فرمائے اوراسے امت مسلمہ کے لیے نفع بخش بنائے ۔(آمین) کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کرنے کےلیے یہ کتاب پی ڈی فارمیٹ میں ادارہ کو موصول ہوئی (م۔)
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ ، تفسیر قرآن کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیا ۔علمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺاور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔پنجاب میں تدریسی خدمت کے سلسلہ میں استاد پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان محدث و زیر آبادی (م1334ھ) کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔مولانا حافط عبدالمنان حضرت شیخ الکل کے نامورتلامذہ میں سے تھے اور فنّ حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ صحاح ستہ پڑھائی۔ آپ کے تلامذہ میں ملک کے ممتاز علمائے کرام کا نام آتاہے اورجن کی اپنی خدمات بھی اپنے اپنے وقت میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:’’علمائے اہلحدیث کی تدریسی و تصنیفی خدمات قدر کے قابل ہے۔ پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خاں (م1307ھ) کے قلم او رمولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (م1320ھ) کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا۔ بھوپال ایک زمانہ تک علمائے اہلحدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان اوراعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کررہے تھے۔ شیخ حسین عرب یمنی (م327ھ) ان سب کے سرخیل تھے اوردہلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے ہاں سند درس بچھی تھی اور جوق در جوق طالبانِ حدیث مشرق و مغرب سے ان کی درس گاہ کا رخ کررہے تھے۔ ان کی درس گاہ سے جو نامور اُٹھے ان میں ایک مولانا محمد ابراہیم آروی (م1320ھ) تھے۔ جنہوں نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیادڈالی ۔اس درس گاہ کے دوسرے نامور مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم ابادی (م1329ھ) صاحب عون المعبود فی شرح ابی داؤد ہیں جنہوں نے کتبِ حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کامقصد قرار دیا اوراس میں وہ کامیاب ہوئے۔تصنیفی لحاظ سے بھی علمائے اہلحدیث کاشمار برصغیر پاک و ہند میں اعلیٰ اقدار کا حامل ہے۔ علمائے اہلحدیث نے عربی ، فارسی اور اردو میں ہر فن یعنی تفسیر، حدیث، فقہ،اصول فقہ، ادب تاریخ اورسوانح پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ الغرض برصغیر پاک وہندمیں علمائےاہل حدیث نےاشاعِت اسلام ، کتاب وسنت کی ترقی وترویج، ادیان باطلہ اور باطل افکار ونظریات کی تردید اور مسلک حق کی تائید اور شرک وبدعات ومحدثات کےاستیصال اور قرآن مجید کی تفسیر اور علوم االقرآن پر جو گراں قدر نمایاں خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ اہل حدیث کاایک زریں باب ہے ۔اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اگر علمائے اہل حدیث ہند کی توجہ علوم حدیث کی جانب نہ ہوتی تو مشرقی ممالک سےعلم حدیث اٹھ چکا ہوتا جیسا کہ دسویں ہجری میں مصر، شام ، عراق اور حجاز سے علوم حدیث کا سلسلہ کمزور پرنا شروع ہوا یہاں تک کہ چودہویں صدی میں اس کی کمزوری انتہاکو پہنچ گئی۔مختلف قلمکاران اور مؤرخین نے علمائے اہل حدیث کےالگ الگ اکٹھے تذکرے تحریر کیے ہیں اور بعض نے کسی خاص علاقہ کے علماء کا تذکرہ وسوانح حیات لکھے ہیں۔ جیسے تذکرہ علماء مبارکپور ، تذکرہ علماء خانپور وغیرہ ۔ علما ئے عظام کے حالات وتراجم کو جمع کرنے میں مؤرخ اہل حدیث جناب مولانامحمد اسحاق بھٹی کی خدمات سب سے زیادہ نمایاں ہیں ۔ زیر نظرکتاب’’کاروانِ سلف‘‘ مولانا عبد الرؤف ندوی ﷾کی کاوش ہے یہ کتاب دو حصوں میں ہے مصنف نے اس کتاب میں مشرقی یوپی کے مشاہیر اہل حدیث علمائے کرام اور بعض دیگر اہم دینی شخصیات مرحومین کا تذکرہ کیا ہے۔اس کتاب میں پیشتر ان ہستیوں کا تذکرہ ہےکہ جن کے کارناموں سے دین وملت کا ہرگوشہ معمور ہے اور جنہوں نے اسلام مخالف طاقتوں سے چومکھی لڑائی لڑی ہے اور وہ الحمد للہ ہر محاذ پر کامیاب وکامران رہے ۔ اسی طرح اس کتاب میں بعض ایسے اہل حدیث افراد کابھی تذکرہ ہے جو مستند علماء تو نہیں ہیں مگر احیاء توحید وسنت میں ان کابڑا اہم رول رہا ہے ۔صاحب کتاب نے تقریباً بارہ درجن سے زیادہ شخصیات اور علمائے جماعت کےتذکرے تحریرفرمائے ہیں ان میں قدیم وجدید دونوں طرح کی شخصیات شامل ہیں ۔اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور انہیں مزید کام کرنے کی توفیق دے ۔(م۔ا)
اسلام میں فتویٰ نویسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بذات خود اسلام۔ فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سےمتعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کےجواب میں کوئی عالم دین اور احکامِ شریعت کےاندر بصیرت رکھنے والاشخص بیان کرے۔فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کاسلسلہ رسول ﷺکےمبارک دور سے چلا آرہا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ ر سالت سے سوال کرنے اور اس سوال کاجواب دینے کےادب آداب بھی سکھلائے ہیں ۔کتب فقہ وحدیث میں یہ بحثیں موجود ہیں او رباقاعدہ آداب المفتی والمستفتی کے نام سے کتب بھی لکھی گئیں ہیں اب عصر حاضر میں تو مفتی کورس بھی کروائے جاتے ہیں۔ ہر دور میں فتاویٰ کےاثرات دیر پار ہے ہیں ۔فتاوی کےاثرات کبھی کبھی تاریخ ساز ہوتے ہیں ۔ہندوستان میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے فتوےکاہی اثر تھا کہ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی قیادت میں مجاہدوں کی ایک تحریک اٹھی جس نےملک کو انگریزی استبداد سےنجات دلانے کےلیے کمر کس لی اور اس کی راہ کی صعوبتیں براداشت کرتے ہوئے 1831ء میں جام شہادت نوش کیا ۔ یہ اس فتویٰ کااثر تھا کہ ہندوستانیوں میں قومی شعور پیدا ہوا، ان میں آزادی کا احساس جاگا اور 1857ء میں انگریزوں کےخلاف ایک فیصلہ کن جنگ چھیڑ دی۔ہندوستان میں آزادی کےبعد افتا کافریضہ کافی اہمیت اختیار کرگیا۔لیکن ہمارا دستور آئینِ اسلام کے شرعی قوانین سے قعطا ًمیل نہیں کھاتا ۔ افتا کے نفاذ اور اس پر عمل کی آزادی بہت ہی محدود ہوچکی ہے ۔ حکومتی عدالتیں دار الافتا کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتی ۔بر صغیر پاک وہند کےعدالتی نظام نے انصاف کےحصول کوبہت پچیدہ اوردشوار بنادیا ہے ۔پاک ہند میں دار الافتاء کی تعد اد عربی مدارس سے کم نہیں مگر افسوس کہ ان میں باہمی ربط اور ہم آہنگی نہیں ہے ۔ برصغیر پاک وہند میں قرآن کی تفاسیر شروح حدیث، حواشی وتراجم کےساتھ فتویٰ نویسی میں بھی علمائے اہل حد یث کی کاوشیں لائق تحسین ہیں تقریبا چالیس کے قریب علمائے حدیث کے فتاویٰ جات کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں ۔ زیر نظر مقالہ بعنوان’’ برصغیر میں علمائے اہل حدیث کی کتبِ فتاویٰ تعارفی وتحقیقی مطالعہ ‘‘ جناب محمد افضل صاحب کا ایم فل علوم اسلامیہ کے لیے تیارکیا گیا وہ تحقیقی کامقالہ ہے جسے انہوں نے معروف اہل حدیث پروفیسر ڈاکٹر خالدظفراللہ ﷾ آف سمندری کی نگرانی میں مکمل کر کے 2007ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پیش کیا ۔مقالہ نگار نے اس تحقیقی مقالے میں مسلک اہل حدیث کی سترہ مستقل کتب فتاویٰ کا مفصل تعارف پیش کیا ہے ۔یہ مقالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔ باب اول میں برصغیر میں مسلک اہل حدیث ۔ ایک تعارف کےعنوان کے تحت برصغیر میں علم حدیث کی خدمت کرنے والے نمایاں علماء ومدثین کا تذکرہ ہے ۔باب دوم میں فتویٰ کامفہوم اور اہمیت بیان کرنے کےکے بعد برصغیر کے علمائے اہل حدیث کی کتب فتاویٰ کاتعارف وتحقیقی جائزہ پیش کیاگیا ہے ۔باب سوم میں عصری کتبِ فتاویٰ کہ جن کہ مؤلفین حیات ہیں کا تعارفی وتحقیقی جائزہ پیش کیاگیا ہے(اس مقالہ کو تیار کرتے وقت مولانا حافظ عبد المنان نوری اور مولانا حافظ زبیر علی زئی حیات تھے مولانا نور پوری 2012ء اور مولانا حافظ زبیر علی زئی نومبر2013ء میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون)۔باب چہارم میں علمائے اہل حدیث کی کتبِ فتاویٰ کی روشنی میں اصول دین اورمسائل کا بیان کیا گیا ہے اس ضمن میں وہ عقائد ومسائل بیان کیے گئے ہیں کہ جن پر علمائےاہل حدیث کی اکثریت کا اتفاق ہے ۔باب پنجم میں جدید عصری مسائل کےبارے میں علمائے اہلحدیث کی آراء کوبیان کیاگیا ہے ۔مقالہ نگار نے یہ مقالہ خود کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کرنے کےلیے عنایت کیا ہے ۔(م۔ا)
عروض عربی زبان کا لفظ ہے اور لغت میں اس کے دس سے زائد معنی ہیں۔ علمِ عروض ایک ایسے علم کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شعر کے وزن کی صحت دریافت کی جاتی ہے یعنی یہ جانچا جاتا ہے کہ آیا کلام موزوں ہے یا ناموزوں یعنی وزن میں ہے یا نہیں۔ یہ علم ایک طرح سے منظوم کلام کی کسوٹی ہے اور اس علم کے، دیگر تمام علوم کی طرح، کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پاسداری کرنا کلامِ موزوں کہنے کے لیے لازم ہے۔ اس علم کے ذریعے کسی بھی کلام کی بحر بھی متعین کی جاتی ہے۔ اس علم کے بانی یا سب سے پہلے جنہوں نے اشعار پر اس علم کے قوانین کا اطلاق کیا وہ ابو عبد الرحمٰن خلیل بن احمد بصری ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ رازِ عروض‘‘ علامہ سیماب اکبرآبادی کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے شعر کہنے کا طریقہ ، نظم کی قسمیں معہ امثلہ،عیوب فصاحت، صنائع وبدائع متروک الفاظ کی فہرست اور انیس بحروں کابیان مع مثال وتقطیع نہایت صاف اور سلیس اردو میں درج کیا ہے۔ (م۔ا)
عروض عربی زبان کا لفظ ہے اور لغت میں اس کے دس سے زائد معنی ہیں۔ علمِ عروض ایک ایسے علم کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شعر کے وزن کی صحت دریافت کی جاتی ہے یعنی یہ جانچا جاتا ہے کہ آیا کلام موزوں ہے یا ناموزوں یعنی وزن میں ہے یا نہیں۔ یہ علم ایک طرح سے منظوم کلام کی کسوٹی ہے اور اس علم کے، دیگر تمام علوم کی طرح، کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پاسداری کرنا کلامِ موزوں کہنے کے لیے لازم ہے۔ اس علم کے ذریعے کسی بھی کلام کی بحر بھی متعین کی جاتی ہے۔ اس علم کے بانی یا سب سے پہلے جنہوں نے اشعار پر اس علم کے قوانین کا اطلاق کیا وہ ابو عبد الرحمٰن خلیل بن احمد بصری ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ مبادیات عروض‘‘ جناب صاحب علی تصنیف ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں علم عروض کو آسان اور عام فہم طریقے سےذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے ۔اس کتاب کا پہلا حصہ علم عروض کی مبادیات پر مشتمل ہے جس میں عروض کے اصطلاحی الفاظ کی تشریح کے ساتھ ساتھ بحروں کےنام اور ان کی تعداد نیز مفرد اور مرکب زحافات، علل اور احکام کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔دوسرے حصے میں ہندی پنگل کی مبادیات ماترا، ورن، چھند، چرن ،ماترائی گن ، ورنگ گن اور ماترائیں شمار کرنے کےاصول بیان کیے گیے ہیں ۔تیسرا حصہ قواعد تقطیع پر مشتمل ہے اور چوتھے حصے میں اردو شاعری میں استعمال ہونے والی مفرد اور مرکب بحروں کے سالم ا ور مزاحف مثالوں کے ذریعے پیش کیاگیا ہے ۔ (م۔ا)
عروض عربی زبان کا لفظ ہے اور لغت میں اس کے دس سے زائد معنی ہیں۔ علمِ عروض ایک ایسے علم کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شعر کے وزن کی صحت دریافت کی جاتی ہے یعنی یہ جانچا جاتا ہے کہ آیا کلام موزوں ہے یا ناموزوں یعنی وزن میں ہے یا نہیں۔ یہ علم ایک طرح سے منظوم کلام کی کسوٹی ہے اور اس علم کے، دیگر تمام علوم کی طرح، کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پاسداری کرنا کلامِ موزوں کہنے کے لیے لازم ہے۔ اس علم کے ذریعے کسی بھی کلام کی بحر بھی متعین کی جاتی ہے۔ اس علم کے بانی یا سب سے پہلے جنہوں نے اشعار پر اس علم کے قوانین کا اطلاق کیا وہ ابو عبد الرحمٰن خلیل بن احمد بصری ہیں۔ زنظرکتاب ’’ جدید علم العروض‘‘ پٹنہ یونیورسٹی کے پروفیسر عبد المجید کی تصنیف ہے موصوف نے اس کتاب میں فن عروض کو ایک اصول کےماتحت مختصر اور سہل بنا کر پیش کیا ہے اور ساتھ ہی اس کا بھی لحاظ رکھا ہے کہ فن عروض کے اجزا ،بحور، وزحافات وغیرہ سب باقی رہیں ۔صاحب کتاب نہیں اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ اصلی بحریں صرف آٹھ ہیں ہی ہونی چاہیں نہ کہ انیس، مفرد بحریں درحقیقت سات ہی ہیں بقیہ بارہ بحریں انہی سات بحروں سے مرکب ہوتی ہیں۔(م۔ا)
سرزمین سیالکوٹ نے بہت سی عظیم علمی شخصیات کو جنم دیا ہے جن میں مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ،علامہ محمد اقبال، شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر سرفہرست ہیں مولانا ابراہیم میر 1874ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے سیالکوٹ مرے کالج میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے ہم جماعت رہے مولاناکا گھرانہ دینی تھا لہذا والدین کی خواہش پر کالج کوخیر آباد کہہ دیا اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے کمر بستہ ہوگے ۔ شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے حضور زانوے تلمذ طے کیا مولانا میر سیالکوٹی سید صاحب کے آخری دور کےشاگرد ہیں اور انہیں ایک ماہ میں قرآن مجید کو حفظ کرنےکااعزاز حاصل ہے ۔مولانا سیالکوٹی نے جنوری1956ء میں وفات پائی نماز جنازہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی نے پڑہائی اللہ ان کی مرقد پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے ۔(آمین )مولانا مرحوم نے درس تدریس تصنیف وتالیف دعوت ومناظرہ وعظ وتذکیر غرض ہر محاذ پر کام کیا۔ ردّقادیانیت میں مولانا نےنمایاں کردار اداکیا مرزائیوں سے بیسیوں مناظرے ومباحثے کیے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کے دست وبازوبنے رہے مرزائیت کے خلا ف انھوں نے17 ؍کتابیں تصنیف کیں ۔مولانا کی تصانیف میں تفسیر’’ تبصیر الرحمن‘‘ بھی شامل ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ تفسیرسورۃ کہف ‘‘مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی تالیف ہے ۔مولانا نے طریقِ تفسیر کے مسالک خمسہ(مسلک محدثین،مسلک متکلمین،مسلک صوفیائے کرام ،مسلک فقہائے مجتہدین،مسلک اہل ادب ومعانی ) کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تفسیر مرتب کی ہے ۔ مولانا نے اس تفسیر کا آغاز 1353 ھ میں کیا اور1359ھ میں اسے مکمل کیا ۔ثنائی بریس ،امرتسر نے 1939ء کےآخر میں پہلی بار شائع کیا ۔یہ نسخہ مکتبہ ثنائیہ،سرگودہا کا شائع شدہ ہے جواب نایاب ہے ۔ استاد گرامی شیخ الحدیث مولانا ابو عمارعمرفاروق سعید ی﷾ (مترجم ومصنف کتب کثیرہ ) سے حاصل کر کے کتاب وسنت پر سائٹ پر پبلش کی گئی ہے تاکہ یہ نایاب تفسیر محفوظ ہوجائے اور دنیا بھر میں کتاب وسنت سائٹ کے ہزاروں قارئین اس سے مستفید ہوسکیں اگر کسی کے پاس پارہ اول ،پارہ ،سوم اورتفسیر سورۃ کہف کے علاوہ مولانا میر سیالکوٹی کی تفسیر کے اجزاءہوں ہمیں عنائت کریں سکین کرنے کے بعد قابل واپسی ہونگے ۔ ان شاء اللہ ۔(م۔ا) تفاسیر قرآن (م۔ا)
سرزمین سیالکوٹ نے بہت سی عظیم علمی شخصیات کو جنم دیا ہے جن میں مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ،علامہ محمد اقبال، شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر سرفہرست ہیں مولانا ابراہیم میر 1874ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے سیالکوٹ مرے کالج میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے ہم جماعت رہے مولاناکا گھرانہ دینی تھا لہذا والدین کی خواہش پر کالج کوخیر آباد کہہ دیا اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے کمر بستہ ہوگے ۔ شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے حضور زانوے تلمذ طے کیا مولانا میر سیالکوٹی سید صاحب کے آخری دور کےشاگرد ہیں اور انہیں ایک ماہ میں قرآن مجید کو حفظ کرنےکااعزاز حاصل ہے ۔مولانا سیالکوٹی نے جنوری1956ء میں وفات پائی نماز جنازہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی نے پڑہائی اللہ ان کی مرقد پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے ۔(آمین )مولانا مرحوم نے درس تدریس تصنیف وتالیف دعوت ومناظرہ وعظ وتذکیر غرض ہر محاذ پر کام کیا۔ ردّقادیانیت میں مولانا نےنمایاں کردار اداکیا مرزائیوں سے بیسیوں مناظرے ومباحثے کیے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کے دست وبازوبنے رہے مرزائیت کے خلا ف انھوں نے17 ؍کتابیں تصنیف کیں ۔مولانا کی تصانیف میں تفسیر’’ تبصیر الرحمن‘‘ بھی شامل ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ تبصیر الرحمٰن فی تفسیر القرآن ‘‘پارہ سوم کی تفسیر پر مشتمل ہے ۔ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی نے طریقِ تفسیر کے مسالک خمسہ(مسلک محدثین،مسلک متکلمین،مسلک صوفیائے کرام ،مسلک فقہائے مجتہدین،مسلک اہل ادب ومعانی ) کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تفسیر مرتب کی ہے۔ اور مفسّر نےاپنی تفسیر میں جگہ جگہ تفسیر رحمانی کا حوالہ دیا ہے ۔ پارہ سوم میں سے آخری 56 آیات کی تفسیر اس میں نہیں ہے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 35 تک تفسیر موجود ہے۔تفسیر تبصیر الرحمن کاپارہ سوم مسلمان کمپنی ،سوہدرہ نے شائع کیاتھا جواب نایاب ہے ۔ استاد گرامی شیخ الحدیث مولانا ابو عمارعمرفاروق سعیدی﷾ (مترجم ومصنف کتب کثیرہ ) سے حاصل کر کے اسے کتاب وسنت پر سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے تاکہ یہ نایاب تفسیر محفوظ ہوجائے اور دنیا بھر میں کتاب وسنت سائٹ کے ہزاروں قارئین اس سے مستفید ہوسکیں ۔اگر کسی کے پاس پارہ اول ،پارہ ،سوم اورتفسیر سورۃ کہف کے علاوہ مولانا میر سیالکوٹی کی تفسیر کے اجزاءہوں ہمیں عنائت کریں سکین کرنے کے بعد قابل واپسی ہونگے ۔ ان شاء اللہ ۔(م۔ا)
سرزمین سیالکوٹ نے بہت سی عظیم علمی شخصیات کو جنم دیا ہے جن میں مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ،علامہ محمد اقبال، شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر سرفہرست ہیں مولانا ابراہیم میر 1874ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے سیالکوٹ مرے کالج میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے ہم جماعت رہے مولاناکا گھرانہ دینی تھا لہذا والدین کی خواہش پر کالج کوخیر آباد کہہ دیا اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے کمر بستہ ہوگے ۔ شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے حضور زانوے تلمذ طے کیا مولانا میر سیالکوٹی سید صاحب کے آخری دور کےشاگرد ہیں اور انہیں ایک ماہ میں قرآن مجید کو حفظ کرنےکااعزاز حاصل ہے ۔مولانا سیالکوٹی نے جنوری1956ء میں وفات پائی نماز جنازہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی نے پڑہائی اللہ ان کی مرقد پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے ۔(آمین )مولانا مرحوم نے درس تدریس تصنیف وتالیف دعوت ومناظرہ وعظ وتذکیر غرض ہر محاذ پر کام کیا۔ ردّقادیانیت میں مولانا نےنمایاں کردار اداکیا مرزائیوں سے بیسیوں مناظرے ومباحثے کیے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کے دست وبازوبنے رہے مرزائیت کے خلا ف انھوں نے17 ؍کتابیں تصنیف کیں ۔مولانا کی تصانیف میں تفسیر’’ تبصیر الرحمن‘‘ بھی شامل ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ تبصیر الرحمٰن فی تفسیر القرآن ‘‘ کی پہلی جلد ہے جو کہ پارہ اول کی تفسیر پر مشتمل ہے ۔سورۃ فاتحہ کی الگ تفسیر ’ واضح البیان فی تفسیر ام القرآن ‘‘ کے نام سے بھی مطبوع ہے۔ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی نے طریقِ تفسیر کے مسالک خمسہ(مسلک محدثین،مسلک متکلمین،مسلک صوفیائے کرام ،مسلک فقہائے مجتہدین،مسلک اہل ادب ومعانی ) کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تفسیر مرتب کی ہے ۔ اور مفسّر نےاپنی تفسیر میں جگہ جگہ تفسیر رحمانی کا حوالہ دیا ہے ۔تفسیر تبصیر الرحمن کی یہ جلد اول تقریباً ستر سال قبل 1949ء میں مسلمان کمپنی ،سوہدرہ نے شائع کی تھی جواب نایاب ہے ۔ استاد گرامی شیخ الحدیث مولانا ابو عمارعمرفاروق سعید ی﷾ (مترجم ومصنف کتب کثیرہ ) سے حاصل کر کے کتاب وسنت پر سائٹ پر پبلش کی گئی ہے تاکہ یہ نایاب تفسیر محفوظ ہوجائے اور دنیا بھر میں کتاب وسنت سائٹ کے ہزاروں قارئین اس سے مستفید ہوسکیں ۔اگر کسی کے پاس پارہ اول ،پارہ ،سوم اورتفسیر سورۃ کہف کے علاوہ مولانا میر سیالکوٹی کی تفسیر کے اجزاءہوں ہمیں عنائت کریں سکین کرنے کے بعد قابل واپسی ہونگے ۔ ان شاء اللہ ۔(م۔ا) تفاسیر قرآن ۔(م۔ا)
اصولِ حدیث پر حافظ ابن حجر عسقلانی کی سب سے پہلی اور اہم تصنیف نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر ہے جو علمی حلقوں میں مختصر نام نخبة الفکر سے جانی جاتی ہےاور اپنی افادیت کے پیش نظر اکثر مدارس دینیہ میں شاملِ نصاب ہے۔ اس مختصر رسالہ میں ابن حجر نے علومِ حدیث کے تمام اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے ۔حدیث اوراصو ل میں نخبۃ الفکر کو وہی مقام حاصل ہے جو علمِ لغت میں خلیل بن احمد کی کتاب العین کو ۔مختصر ہونے کے باوجود یہ اصول حدیث میں اہم ترین مصدر ہے کیونکہ بعد میں لکھی جانے والی کتب اس سے بے نیاز نہیں ۔حافظ ابن حجر نے ہی اس کتاب کی شرح نزهةالنظر فی توضیح نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر کے نام سے لکھی جسے متن کی طر ح قبول عام حاصل ہوا۔ اور پھر ان کے بعد کئی اہل علم نے عربی اردو زبان میں نخبۃ الفکر کی شروح لکھی ۔ زیر نظر کتاب ’’ قطرات العطر شرح اردو نخبۃ الفکر‘‘ مولانا محمد محمود عالم صفدر اوکاڑی کی کاوش ہے ۔شارح نے اس میں حل کتاب کےعلاوہ شوافع کےاصولِ حدیث کے ساتھ ساتھ حنفیہ کے اصول حدیث کو بیان کیا ہے ۔ مصنف اگرچہ بریلوی حنفی ہیں ۔ محض اس لیے اس کتاب کوکتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے اگر اس کتاب میں جمہورمحدثین کےاصولِ حدیث کے خلاف کوئی چیز ہو تو ماہرینِ حدیث واصول حدیث اس پر جرح و نقد کرسکیں ۔ کیونکہ عام طور پر حنفی مسلک کی کتب سلفی علماء طلباء کے ہاں دستیاب نہیں ہوتیں۔(م۔ا)
اسلام ايك مكمل نظامِ حيات ہے اس میں بچپن سے بڑھاپے تک او رپیدائش سے وفات تک بلکہ پیدائش سے پہلے سے لے کر موت کے بعد تک تمام ہدایات پوری تفصیل اور توضیح کے ساتھ موجود ہیں ۔اسلامی علوم میں سے عقیدہ سب سے اہم اور بنیادی علم ہے ، جس کے ذریعہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اس کی عظمت ووحدانیت کا علم ہوتا ہے ،بلاشبہ اسلامی عقیدہ کا اجمالی علم حاصل کرنا مرد وخواتین پر واجب ہے اور بچوں کو بھی ابتداء ہی سے اسکی ترغیب وتعلیم دی جانی چاہیے ۔ اسلامی عقیدہ کے متعلق بیسوں چھوٹی بڑی کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ مسلمان بچے کا عقیدہ سوال وجواب کی شکل میں‘‘ شیخ احمد بن مبارک بن قذلان المزروعی ﷾کے عربی کتابچہ کا آسان فہم اردو ترجمہ ہے محترم جناب شاکر متاعمری مدنی نے اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔کیونکہ اس میں اکثر باتیں ایسی ہیں جنہیں بچپن ہی میں سیکھنا چاہیے اور بعض باتیں ایسی بھی ہیں کہ جنہیں سمجھنے کےلیے کچھ وقت اور عمر درکار ہے ۔مترجم نے اس کتابچہ کا ترجمہ کرنے کے علاوہ اس میں کچھ اضافہ بھی کیا ہے ۔اللہ تعٰالی مترجم ومصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں صحیح اسلامی عقیدہ سیکھنے کی توفیق دے ۔(م۔ا)
قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصاراس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔اس عظیم الشان کتاب نے تاریخِ انسانی کا رخ موڑ دیا ہے ۔ دنیابھر کی بے شمارجامعات،مدارس ومساجد میں قرآن حکیم کی تعلیم وتبلیغ اور درس وتدریس کا سلسلہ جاری ہے۔جس کثرت سے اللہ تعالیٰ کی اس پاک ومقدس کتاب کی تلاوت ہوتی ہے دنیا کی کسی کتاب کی نہیں ہوتی ۔ مگر تعجب وحیرت کی بات ہے کہ ہم میں پھر بھی ایمان وعمل کی وہ روح پیدا نہیں ہوتی جو قرآن نےعرب کے وحشیوں میں پیدا کر دی تھی۔ یہ قرآن ہی کا اعجاز تھا کہ اس نے مسِ خام کو کندن بنادیا او ر ایسی بلند کردار قوم پیدا کی جس نے دنیا میں حق وصداقت کا بول بالا کیا اور بڑی بڑی سرکش اور جابر سلطنتوں کی بساط اُلٹ دی ۔ مگڑ افسوس ہے کہ تاریخ کے یہ حقائق افسانۂ ماضی بن کر رہ گئے ۔ ہم نے دنیا والوں کواپنے عروج واقبال کی داستانیں تو مزے لے لے کر سنائیں لیکن خود قرآن سے کچھ حاصل نہ کیا ۔جاہل تو جاہل پڑھے لکھےلوگ بھی قرآن سےبے بہرہ ہیں۔قرآن کریم کو سمجھنے اور سمجھانے کے بنیادی اصول اور ضابطے یہی ہیں کہ قرآن کریم کو قرآنی اور نبوی علوم سےہی سمجھا جائے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مباحث فی علوم القرآن اردو ‘‘ مناع القطان کی قرآنی علوم پر مشتمل کتاب ہے ۔اصل کتاب عربی زبان میں ہے اور اکثر مدارس دینیہ اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے ۔مصنف نے اس میں ان تمام معلومات کو جمع کرنے کی پوری کوشش کی ہے جن کی ایک طالب علم اپنی علمی زندگی میں بڑی شدت سے ضرورت محسوس کرتا ہے۔مصنف نے اس کتاب میں ان تمام کتابوں کاخلاصہ جمع کردیا ہے جواس کتاب کی تصنیف کے وقت تک اس فن کے متعلق لکھی گئیں تھیں۔محترم جناب مولانا عبد ا للہ سرور صاحب نے اس انداز سے اردو زبان میں اس کا ترجمہ کیا ہے کہ ایم اے عربی، ایم اے اسلامیات اور شہادۃ العالمیہ کے طلبہ وطالبات نیز جج صاحبان اور اسلامی علوم سے دلچسپی رکھنے والے وکلاء اس کتاب سے اب آسانی سے خاطر خواہ استفادہ کرسکتے ہیں۔(م۔ا)
نمازِ تراویح نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے اورصحیح احادیث سے ثابت ہے۔سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز اداکی، لوگوں نے بھی آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر آپﷺنے دوسری رات نماز پڑھی اور لوگوں کی بھی کثیر تعداد نے آپﷺ کے ساتھ نماز ادا کی، پھر لوگ اسی طرح تیسری یا چوتھی رات میں بھی جمع ہوئے لیکن رسول اللہﷺتشریف نہ لائے اور جب صبح ہوئی تو آپ ﷺنے فرمایا:’’تم لوگوں نے جو کیا میں نے اسے دیکھا ہے اور گھر سے میں اس لیے نہیں نکلا کہ مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں اس نماز کو تم پر فرض قرار نہ دے دیا جائے۔صحیح احادیث کے مطابق رکعاتِ تراویح کی مسنون تعداد بشمول وتر گیارہ ہے ۔مسنون تعداد کا مطلب وہ تعداد ہےجو اللہ کے نبی ﷺ سے بسند صحیح ثابت ہے ۔ رکعات تراویح کی مسنون تعداد اوررکعات تراویح کی اختیاری تعداد میں فرق ہے ۔ مسنون تعداد کا مطلب یہ ہے کہ جو تعداد اللہ کےنبی ﷺ سے ثابت ہے او راختیاری تعداد کا مطلب یہ ہے کہ وہ تعداد جو بعض امتیوں نے اپنی طرف سے اپنے لیے منتخب کی ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ ایک نفل نماز ہے اس لیے جتنی رکعات چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔
زیر نظر کتاب ’’انوار التوضیح لرکعات التراویح؍مسنون رکعاتِ تراویح اور شبہات کا ازالہ ‘‘انڈیا کے جید عالم دین محقق مصنف کتب کثیرہ مولانا ابو الفوزان کفایت اللہ السنابلی﷾ کی تصنیف ہےموصوف پختہ عالم دین ہیں اور احادیث کی تحقیق وتخریج میں انہیں مکمل دسترس حا صل ہے متعدد علمی وتحقیقی مسائل میں ان کی تحقیقی کتب موجو د ہیں ۔کتاب ہذا میں انہوں نے رکعاتِ تراویح کے سلسلے میں وارد احادیث کی مکمل تحقیق پیش کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ تعداد رکعات تراویج بشمول وتر کل گیارہ رکعات ہیں اور صحابہ کرام کا عمل بھی اسی پر تھا نبی کریم ﷺ کا رمضان او رغیر رمضان میں رات کا قیام بالعموم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں ہوتا تھااور حضرت جابر کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کوتین رات جو نماز پڑہائی وہ گیارہ رکعات ہی تھیں۔سیدناعمر نے بھی مدینے کے قاریوں کو گیارہ رکعات پڑہانے کا حکم دیاتھا اور گیارہ رکعات پڑھنا ہی مسنون عمل ہے ۔ امیر المومنین حضر ت عمر بن خطاب ، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابی بن کعب اور حضرت عبد اللہ بن مسعود سے 20 رکعات قیام اللیل کی تمام روایات سنداً ضعیف ہیں ۔نیز صحیح بخاری میں سیدہ عائشہ سے مروی حدیث پر احناف نے اضطراب کا جو اعتراض کیا ہے اس کا مفصل جواب پہلی بار اس کتاب میں پیش کیاگیا ہے۔اور عہد فاروقی سے متعلق موطا کی روایت پر شذو وغیرہ کے جو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں ،ان کےمفصل جوابات اس کتاب میں موجود ہیں۔ایک بریلوی عالم احمدیار نعیمی کی ’’ جاء الحق‘‘ نامی کتاب میں بیس رکعات کو سنت ثابت کرنے کےلیے جو مضحکہ خیز استدلالات کیے گئے ہیں مولانا کفایت اللہ صاحب نے اس کتاب میں ان کے تسلی بخش جوابات پیش کیے ہیں۔حرمین میں بیس رکعات کی نوعیت اور ا س کے پسِ منظر پر بھی مفصل گفتگو کی ہے۔بہت سارے علمائے احناف نے اعتراف کیا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے آٹھ رکعات تراویح ہی پڑھی ہیں ۔ان علماءکے اس اعتراف کے اصل کتابوں سے حوالے پیش کیے گئے ہیں ۔میرے علم کے مطابق اپنے موضوع میں تحقیقی نوعیت کی اتنی ضخیم یہ پہلی کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کفایت اللہ ﷾ کی تحقیقی وتصنیفی، تدریسی ودعوتی خدمات کو قبول فرمائے ۔یہ کتاب مولانا نےکتاب وسنت سائٹ پر پبلش کرنے کے کے لیے پی ڈی ایف فارمیٹ میں عنائت کی ہے ۔ (آمین) (م۔ا)
ہر وہ شخص جو کسی ایسے امام کے خلاف خروج (بغاوت)کرے جس پرمسلمانوں کی جماعت متفق ہو خارجی کہلاتا ہے خواہ یہ خروج صحابہ کرام ،تابعین یا بعدکے زمانےکے خلفاءکے خلاف ہو ۔او رخوارج وہ لوگ ہیں جوکبیرہ گناہوں کی بنا پر اہل ایمان کو کافر شمار کرتے ہیں اور اپنی عوام پر ظلم وزیادتی کرنے والے امرء المسلمین پروہ خروج وسرکشی کرتے ہیں۔خوارج کی مذمت میں نبی کریم ﷺ سے بہت ساری احادیث وارد بھی ہوئی ہیں ۔ خوارج ایک ایسا فرقہ ہے جسے دین میں ظاہری دینداری سے مزین لوگوں نے ایجاد کیا۔ اہل علم نے ان کے عقائد ونظریات پر مستقل کتب بھی تصنیف کیں جن میں خوارج کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’ خوارج عقائد و افکا ر‘‘ سعودی عرب کےمعروف ادارے مکتب تعاونی وجالیات سے منسلک مولانا عبد العلیم بن عبد الحفیظ سلفی ﷾ کی کاوش ہے ۔موصوف نے فرق وادیان اور عقائد کی عربی کتب سے استفادہ کر کے اس مختصر کتاب میں خوارج کے عقائد وافکار اور ان کے نشوونماسے متعلق معلومات فراہم کی ہیں ۔ تاکہ اردو داں طبقہ اس خوارج کی اصلیت اور ان کی گمراہی کے اسباب سے واقفیت حاصل کرسکے ۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کوقبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کےلیے نفع بخش بنائے ۔(م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو صر ف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات:56) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا وہ صرف میری عبادت کریں‘‘ لیکن عبادت کےلیے اللہ تعالیٰ نے زندگی کا کو ئی خاص زمانہ یا سال کا کوئی مہینہ یا ہفتے کا کو ئی خاص دن یا کوئی خاص رات متعین نہیں کی کہ بس اسی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور باقی زمانہ عبادت سے غفلت میں گزار دیا جائے بلکہ انسان کی خلقت کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے ۔ سن بلوغ سے لے کر زندگی کے آخری دم تک اسے ہر لمحہ عبادت میں گزارنا چاہیے ۔ لیکن اس وقت مسلمانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہے اور بعض مسلمانوں نے سال کے مختلف مہینوں میں صرف مخصوص دنوں کو ہی عبادت کےلیے خاص کررکھا ہے اور ان میں طرح طرح کی عبادات کو دین میں شامل کر رکھا ہے جن کا کتاب وسنت سے کوئی ثبوت نہیں ہے ۔اور جس کا ثبوت کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ سے نہ ملتا ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔انہی بدعات میں سے ماہ شعبان میں شب برأت کے سلسلے میں من گھڑت موضوع احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے کی جانے والی بدعات ہیں۔ مسلمانوں نے شب برأت کو ایک مذہبی اور روائتی حیثیت دے رکھی ہے اس خیالی اور تصوراتی رات کو اس طرح اہمیت دی جاتی ہے جس طرح لیلۃ القدر کو دی جاتی ہے ۔ عجیب بات ہے کہ واعظین لیلۃ القدر میں جو کچھ بیان کرتے ہیں شب برأت میں وہی کچھ بیان کرتے ہیں ۔اور عوام الناس کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ قرآن کریم کا نزول ماہ شعبان کی پندریں رات کو شروع ہوا ۔ زیر تبصرہ کتابچہ’’شب براءت کی حقیقت‘سعودی عرب کےمعروف ادارے مکتب تعاونی وجالیات سے منسلک مولانا عبد العلیم بن عبد الحفیظ سلفی ﷾ کا مرتب شدہ ہے ۔ فاضل مرتب نے اس کتابچہ کےاندر عصر حاضر کے مجدد اور امام علامہ ابن باز کے اس موضوع سے متعلق نہایت مشہور اور قیمتی مضمون کا ترجمہ بھی شامل کیا ہے اور شعبان وشب براءت سےمتعلق چند ضعیف اور موضوع روایتوں کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے کہ جنہیں دلیل بناکر عوام الناس کو گمراہ کیا جاتا ہے۔نیز کتابچہ ہذا کے آخر میں شب براءت کو کی جانے والی بدعتوں کامختصر خاکہ بھی بیان کردیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کو امتِ مسلمہ کےلیےنفع بخش بنائے اور مؤلف وناشرین کی اس کاوش کوقبول فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
یہ بات واضح ہے کہ اعمال کی صحت کا دارومدار نیتوں پر ہے۔اور ساری اسلایم عبادات جیسے نماز ،روزہ، حج، زکاۃ، اور دیگر سارے کار خیر کی بنیاد اخلاص اوراتباع سنت ہےان دونوں میں سے کسی ایک کا نہ پایا جانا عمل وعبادت کی صحت پر اتنا اثر ڈالتا ہےکہ وہ عمل نہ یہ کہ صحت کے درجہ کو نہیں پہنچتا بلکہ الٹا عامل کے لیے بوجھ اور سبب گناہ بن جاتا ہے ۔ کیونکہ اخلاص کافقدان عمل کو نہایت ہی خطرناک راہ یعنی ریاء کاری اور دکھاوے کی راہ پر ڈال دیتا ہے جسے نصوصِ کتاب وسنت میں شرک سے تعبیر کیاگیا ہے ۔کسی شخص کو اخلاص اور للہیت کا مل جانا اس کے کے لئے اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور نبی کریم ﷺنے اپنی احادیث نبویہ میں اعمال میں جا بجا اخلاص کو ختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔خلوص نیت کے ساتھ کیا جانے والا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی بارگاہ الٰہی میں بڑی قدروقیمت رکھتا ہے۔جبکہ عدم اخلاص ،شہرت اور ریاکاری پر مبنی بڑے سے بڑا عمل بھی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ریاکاری انسان کے اعمال کو دنیا میں تباہ کر دیتی ہے۔نبی کریم کے فرمان کے مطابق قیامت والے دن سب سے پہلے جن تین لوگوں کو جہنم میں پھینکا جائے گا وہ ریا کار عالم دین ،ریا کار سخی اور ریا کار شہید ہیں،جو اپنے اعمال کی فضیلت اور بلندی کے باوجود ریاکاری کی وجہ سے سب سے پہلے جہنم میں جائیں۔زیر تبصرہ کتاب’’ریا کاری اوراس کے مظاہر‘‘سعودی عرب کےمعروف ادارے مکتب تعاونی وجالیات سے منسلک مولانا عبد العلیم بن عبد الحفیظ سلفی ﷾ کی کاوش ہے ۔ یہ موضوع عوام اورخواص دونوں کےلیے یکساں مفید ہے اوراس کی ضرورت ہر عبادات گزار کواور ہرزمانےمیں ہے اسی اہمیت کے پیش نظر مولانا عبد العلیم صاحب نے یہ کتاب مرتب کی ہے تاکہ اردو داں طبقہ اس سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے اعمال وعبادات کو برباد ہونے سے بچانے کی پوری سعی وکوشش کرےاور دوران ِعبادت شعوری وغیر شعوری اسباب زیاں کاری سےدورر ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ریا کاری سے بچائے اور ہماری عبادات کو قبول فرمائے ۔ آمین(م۔ا)
مولانا محمد اعزاز علی امروہوی دار العلوم دیوبند کے مایہ ناز فاضل ، مفسر محدث فقیہ اور ادیب تھے اور تمام ہی علوم میں انھیں یکساں کمال حاصل تھا ، ان کے قلم سے پھیلا فیضان آج تک جاری و فیض رساں ہے ، نہایت متواضع شخصیت کے حامل ، خلوص و للہیت کے پیکر اور علم پر خود کو فدا کرنے کی اپنی مثال آپ تھے ۔فقہ و ادب ان کا خاص فن تھا ، جب ابتداً دار العلوم دیوبند آئے تو علم الصیغہ اور نور الایضاح سپرد ہوئیں ، مگر دروس نے ایسی مقبولیت پائی کہ دار العلوم کے حلقہ میں شیخ الادب و الفقہ کے لقب سے مشہور ہو گئے ، ہر فن کی کتابوں پر ان کو عبور حاصل تھا ، تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت اور نگرانی ان کا خاص ذوق تھا ۔ جس طرح عربی نظم و نثر پر قدرت و کمال تھا ، اسی طرح اردو نظم و نثر پر بھی کمال حاصل تھا ، عربی ادب میں انہوں نے نفحةالیمن کے معیار کے مطابق نفحة العرب کے نام سے ایک کتاب مرتب کی تھی ، جس میں تاریخی حکایات ، وقصص اور اخلاقی مضامین درج کیے گئے ہیں ، یہ کتاب عربی مدارس میں کافی مقبول ہوئی ، اور كئی مدارس میں آج تک داخلِ نصاب ہے اسی لیے اہل علم نے نفحۃ العرب کی متعدد شروح لکھی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ تحفۃ الادب شرح اردو نفحۃ العرب ‘‘ مدارس دینیہ کے نصاب میں شاملِ نصاب عربی ادب کی مشہور ومعروف کتاب نفحةالعربکی اردوشرح ہے ۔یہ شرح مولانا محمد حنیف گنگوہی (فاضل دار العلوم ،دیوبند) نےکی ہے ۔ شارح نے نفحة العرب کا شرح کرنے کے علاوہ تقریباً 30 صفحات میں عربی زبان وادب کی تاریخ اور ادب کی ، لغوی ، اصطلاحی ماہیت اور ایسے اصحاب تاریخ کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے کہ جن کے بارے میں صاحب نفحۃ العرب نے سکوت یا لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔نفحة العرب کی یہ شر ح’’ تحفۃ الادب ‘‘نیٹ سےڈاؤن لوڈ کر کے کتا ب وسنت سائٹ کے قارئین وناظرین کے لیے پیش کی گئی ہے تاکہ عربی ادب پڑھنے پڑھانے والے احباب اس سے مستفید ہوسکیں۔(م۔ا)
ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے دور (1657-1707) میں اس سلطنت میں کچھ اضافہ ہوا۔تاریخ ہندوستان کے متعلق بے شمار کتب موجود ہیں ان میں سے تاریخ فرشتہ بڑی اہم کتاب ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ تاریخ فرشتہ ‘‘محمد قاسم فرشتہ (متوفی 1620ء) کی تصنیف ہے ہندوستان کی عمومی کتب ہائے تواریخ میں سے ایک مشہور تاریخی کتاب ہےیہ ہندوستان کی مکمل تاریخ ہے ۔ محمد قاسم فرشتہ نے یہ کتاب ابراہیم عادل شاہ ثانی، سلطانِ بیجاپور (متوفی 1627ء) کے حکم سےفارسی زبان میں تصنیف کی صاحب کتاب نے اِسے ’’گلشن ابراہیمی‘‘ کا نام دیا مگر عوام میں یہ تاریخ فرشتہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ممبئی کے انگریز گورنر لارڈ الفنسٹن نے پہلی بار نہایت اہتمام کے ساتھ بڑی تقطیع کی دو ضخیم جلدوں میں 1832ء میں اسے شائع کروایا۔ اِس کے بعد لکھنؤ سے مطبع منشی نول کشور نے اِس کے متعدد ایڈیشن شائع کیے جو1864ء، 1865ء اور 1884ء میں شائع ہوئے۔ انگریزی زبان میں اِس کے بیشتر تراجم شائع ہوئے ہیں جن میں پہلا انگریزی ترجمہ 1868ء میں لندن سے شائع ہوا تھا۔ اردو زبان میں پہلا ترجمہ 1309ھ میں لکھنؤ سے مطبع منشی نول کشور نے شائع کیا تھا۔زیر تبصرہ ترجمہ عبدالحئی خواجہ کا ہ ے جو انہوں نفیس اکیڈمی کراچی کی فرمائش پر کیا تھا جسے نفیس اکیڈمی نے دو جلدوں میں شائع کیا زیرتبصرہ نسخہ چار جلدوں میں ہےجوکہ المیزان ،لاہورکا مطبوعہ ہے ۔(م۔ا)
قدیم علمی ورثہ ایک ایسا بحرِ زخّار ہے جس میں ایک سے ایک بڑھ کر سچے موتی موجود ہیں لیکن جوں جوں ہم قدیم سے جدید زمانے کی طرف بڑھتے ہیں یہ موتی نایاب ہوتے جاتے ہیں لیکن ان جواہرات میں سے ایک جوہر ایسا بھی مل جاتا ہے جو یکبارگی ساری محرومیوں کا ازالہ کردیتا ہے۔ ماضی قریب کے محدثِ جلیل، امام جرح و تعدیل شیخ علامہ محمد ناصر الدین البانی ایسا ہی گوہر بے مثال تھا جس کی آب و تاب نے مشرق و مغرب کو منور کر دیا۔ ۔ علامہ البانیؒ خدمت سنت اور حدیث رسول اللہ کے اہتمام و انصرام، احادیث کے مراجع و مصادر، روایات کی صحت و ضعف کے لحاظ سے درجہ بیان کرنے میں بے نظیر تھے۔ شیخ البانیؒ کی تصنیفات علمی تحقیق، اسانید و شواہد اور محدثین کے اقوال کے تتبع اور تلاش کے حوالے سے ممتاز ہیں۔شیخ نے تحقیق وتخریج کے علاوہ بعض کتب پر حواشی وتعلیقات بھی تحریر کیے ۔ زیر نظر کتاب فقہ اسلا می کی مشہور ومعروف کتاب فقہ السنۃ پر شیخ البانی کی تعلیق بعنوان’’تمام المنۃ فی تعلیق علیٰ فقہ السنۃ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔ا س کتاب میں شخ البانی نے فقہ السنہ میں وار ان احادیث کافنی جائزہ لیا ہے جن پر علامہ سید سابق نے اعتماد کر کے مسائل کا استخراج کیا ہے۔جمال احمد مدنی اور عزیز الحق عمری نے نہایت محنت و لگن سے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ تاکہ اردو داں طبقہ بھی شیخ البانی کی تعلیقات سے مستفید ہوسکے ۔ اللہ تعالیٰ شیخ البانیؒ کو غریق رحمت فرمائے اور مترجمین کو بھی اجر عظیم سے نوازے۔ آمین(م۔ا)
مولانا محمد اعزاز علی امروہوی دار العلوم دیوبند کے مایہ ناز فاضل ، مفسر محدث فقیہ اور ادیب تھے اور تمام ہی علوم میں انھیں یکساں کمال حاصل تھا ، ان کے قلم سے پھیلا فیضان آج تک جاری و فیض رساں ہے ، نہایت متواضع شخصیت کے حامل ، خلوص و للہیت کے پیکر اور علم پر خود کو فدا کرنے کی اپنی مثال آپ تھے ۔فقہ و ادب ان کا خاص فن تھا ، جب ابتداً دار العلوم دیوبند آئے تو علم الصیغہ اور نور الایضاح سپرد ہوئیں ، مگر دروس نے ایسی مقبولیت پائی کہ دار العلوم کے حلقہ میں شیخ الادب و الفقہ کے لقب سے مشہور ہو گئے ، ہر فن کی کتابوں پر ان کو عبور حاصل تھا ، تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت اور نگرانی ان کا خاص ذوق تھا ۔ جس طرح عربی نظم و نثر پر قدرت و کمال تھا ، اسی طرح اردو نظم و نثر پر بھی کمال حاصل تھا ، عربی ادب میں انہوں نے نفحةالیمن کے معیار کے مطابق نفحة العرب کے نام سے ایک کتاب مرتب کی تھی ، جس میں تاریخی حکایات ، وقصص اور اخلاقی مضامین درج کیے گئے ہیں ، یہ کتاب عربی مدارس میں کافی مقبول ہوئی ، اور كئی مدارس میں آج تک داخلِ نصاب ہے اسی لیے اہل علم نے نفحۃ العرب کی متعدد شروح لکھی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ تکمیل الادب شرح اردو نفحۃ العرب ‘‘ مدارس دینیہ کے نصاب میں شاملِ نصاب عربی ادب کی مشہور ومعروف کتاب نفحةالعربکی اردوشرح ہے ۔یہ شرح مولانا مصلح الدین قاسمی (سابق مدرس دار العلوم ،دیوبند) نےکی ہے ۔ شارح نے نفحة العرب کی تشریح خاصی محنت کی ہے ۔عبارت کا ترجمہ نہایت مناسب ہےکہ تحت اللفظ ہونے کے ساتھ اس میں ادبی چاشنی بھی محسوس ہوتی ہے لغوی تحقیق میں افعال کے ابواب کی تعیین ، واحد کی جمع اور جمع کا واحد بھی بتایا ہے ۔نیز عبارت کی نحوی ترکیب بعد ازاں عبارت کی کامیاب تشریح کی ہے جو مبتدی طلبہ کے لیے ضروری تھی۔اس کے علاوہ عبارت کے سیاق وسباق کو مدنظر رکھ کر فاضل شارح نے بہت سے مفید باتیں بھی شرح میں سمو دی ہیں جن کے باعث افادہ دو چند ہوگیا ہے ۔نفحة العرب کی یہ شر ح’’ تکمیل الادب ‘‘نیٹ سےڈاؤن لوڈ کر کے کتا ب وسنت سائٹ کے قارئین وناظرین کے لیے پیش کی گئی ہے تاکہ عربی ادب پڑھنے پڑھانے والے احباب اس سے مستفید ہوسکیں۔(م۔ا)
مولانا وحید الدین خان یکم جنوری 1925ءکو پید ا ہوئے۔ اُنہوں نے اِبتدائی تعلیم مدرسۃ الاصلاح ’سرائے میر اعظم گڑھ میں حاصل کی ۔شروع شروع میں مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر 1949ء میں جماعت اسلامی ہند میں شامل ہوئے لیکن 15 سال بعد جماعت اسلامی کوخیر باد کہہ دیا اورتبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی ۔ 1975ء میں اسے بھی مکمل طور پر چھوڑ دیا ۔مولاناموصوف تقریبا دو صد کتب کے مصنف ہیں جو اُردو ،عربی، اورانگریزی زبان میں ہیں۔مولانا کی تصنیفات میں ایک کتاب تفسیر ’’ تذکیر القرآن ‘‘ بھی ہے ۔ اُن کی تحریروں میں مکالمہ بین المذاہب ،اَمن کابہت زیادہ ذکر ملتاہے اوراس میں وعظ وتذکیر کاپہلو بھی نمایاں طور پر موجود ہے ۔لیکن مولانا صاحب کے افکار ونظریات میں تجدد پسندی کی طرف میلانات اور رجحانات بہت پائے جاتے ہیں اُنہوں نے دین کے بنیادی تصورات کی از سر نو ایسی تعبیر وتشریح پیش کی ہے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کی اوروہ نہ صرف اس بات کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ اپنے لیے اس میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ مولانا وحید الدین خان افکار ونظریات کے متعلق ڈاکٹر حافظ زبیر ﷾ کی کتاب لائق مطالعہ ہے ۔ زیر نظر تحقیقی مقالہ بعنوان تفسیر’’ تذکیر القرآن ‘‘ کے اسلوب ومنہج کا تحقیقی جائزہ ‘‘ محترم جناب نبیل اختر چوہدری کی کاوش ہے مقالہ نگار نے یہ مقالہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے کلیہ عربی وعلوم اسلامیہ میں پیش کر کے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ مقالہ نگار نے اس تحقیقی مقالے کو چار ابواب میں تقسیم کر کے اس میں مولانا وحید الدین خان کی تفسیر تذکیر القرآن کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ پہلے دو ابواب میں تفسیر کا مفہوم اور ارتقاء اور مولانا صاحب کےحالات زندکی پر روشنی ڈالی ہے ۔جبکہ تیسرے باب میں تفسیر تذکیر القرآن کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ پیش کیا ہے اور چوتھی باب میں دو اہم معاصر تفاسیر تدبر قرآن اور تفہیم القرآن سے تقابلی موازنہ کیا ہے۔مقالہ نگار نے اپنی تحقیقی مقالہ میں یہ بات ثابت کی ہے کہ مولانا وحید الدین خان کی تفسیر تذکیر القرآن ایک علمی شاہکار نہیں کہ جس میں تمام پہلوؤں کا احاطہ کیاگیا ہو بلکہ یہ صرف سادہ اسلوب میں تذکیر ونصیحت ہے۔(م۔ا)
انسان کی فوز فلاح کےلیے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ اگر ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ نہیں ہونگے تو ایمان بھی فائدہ نہ دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید جہاں بھی کامیاب ایمان والوں کاذکر کیا ہے ساتھ ہی بطور شرط اعمال صالحہ کا بھی ذکرکیا ہے ۔اور انسانی طبیعت کا یہ خاصہ ہےکہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنا چاہتی ہے ۔اور شریعتِ اسلامیہ میں دینی احکام ومسائل پر عمل کی تاکید کے ساتھ ساتھ ان اعمال کی فضیلت وثواب بیان کرتے ہوئے انسانی نفوس کو ان پر عمل کرنے کے لیے انگیخت کیا گیا ہے ۔یہ اعمال انسانی زندگی کے کسی بھی گوشہ سے تعلق رکھتے ہوں خواہ مالی معاملات ہوں، روحانی یا زندگی کے تعبدی معاملات مثلاً نماز، روزہ، حج زکوٰۃ ودیگر عباداتی امور۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ اعلیٰ مقام دینے کے لیے کتنے ہی چھوٹے چھوٹے اعمال کا اجر قیام ، صیام، حج وعمرہ اور جہاد فی سبیل اللہ جیذسی بڑی بڑی عبادات کے اجر کے برابر قراردیا ہے ۔تھوڑے وقت میں چھوٹے اعمال جوبہت بڑے ثواب کا با عث بنتے ہیں بڑی فضیلتوں کے حامل ہوتے ہیں انسان ان کو ڈھونڈتا پھرتا ہے ۔کیونکہ کسی عمل کی فضیلت،اجر و ثواب اورآخرت میں بلند مقام دیکھ کر انسانی طبیعت جلد اس کی طرف راغب ہوجاتی ہے اوران پر عمل کرنا آسان معلوم ہوتا ہے دین اسلام میں کئی ایسے چھوٹے چھوٹے اعمال بتائے گئے ہیں جن کا اجروثواب اعمال کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مختلف اہل علم نے ایسے اعمال پر مشتمل کتب بھی مرتب کی ہیں ۔ زیر نظر کتابچہ ’’ چھوٹے اعمال بڑا ثواب ‘‘ فضیلۃ الشیخ محترم یحییٰ عارفی﷾ کا مرتب شدہ ہے ۔ فاضل مرتب نے اس مختصر کتابچہ میں ان اعمال صالحہ کوجودکھنے میں معمولی نوعیت کےنظرآتے ہیں ، لیکن اجراوثواب کےلحاظ سے عظیم عبادات کے برابر ہیں یکجا کر کے ان اعمال کو بجا لانے کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے جو اجر میں قیام ، صیام، حج وعمرہ اور جہاد فی سبیل اللہ کےبرابر ہیں ۔ مولانا یحییٰ عارفی صاحب کی یہ کاوش یقیناً لائق تحسین وقابل تعریف ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی حسنہ کو قبول فرمائے اور ان کےمیزان ِحسنات میں اضافے کا باعث بنائے ۔آمین(م۔ا)