تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے ۔ اس کےلیے امانت ودیانت او رصداقت کاہونا از بس ضروری ہے۔مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ تعصب ،حسد بغض، سے کوسوں دور ہو ۔تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہو ۔ذہین وفطین ہو اپنے حافظےپر کامل اعتماد رکھتا ہو۔حالات وواقعات کوحوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو ۔اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتاہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگار ی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔انسان انسان سے سیکھتا ہےاور اپنی زندگی کےلیے پیش رو کی زندگیوں سے فیض حاصل کرتا ہےاس لیے ہمیں اپنے اسلاف کے طور طریق کوجاننا چاہیے اور ان میں جو ہماری زندگی سنوارنے اور بنانے کے لیے مفید ہوں اس کواپنی زندگی کےلیے رہنما بناناچاہیے ۔بے شمارمسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کےعلمی عملی،تصنیفی،تبلیغی اورسائنسی کارناموں کوبڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’چند مایہ ناز اسلاف قدیم وجدید‘‘مولولی محمد مسعود عزیزی ندوی کےمقالات کے کا مجموعہ ہے ۔ان مقالات میں انہوں نے متعدد اہل حق اسلاف اور قابل استفادہ شخصتیوں کا تذکرہ کیا ہے کہ جن کی زندگیاں علمی ودینی خدمات میں گزری ہیں اس کتاب میں ایسے نفوسِ قدسیہ اور اصحاب دعوت وعزیمت کے سوانح حیات او رحالات زندگی پیش کیے گیے ہیں کہ جن کی زبان میں اور جن کی باتوں میں اللہ نے تاثیر رکھی تھی اور انہوں نے ایسے اصلاحی کام انجام دئیے کہ وہ تاریخ کےہیرو بن گئے اور ان کےدعوتی واصلاحی کارنامے آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں ان کےحالات پڑھ کر خو د اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے ۔یہ کتاب نیٹ سے ڈؤان لوڈ کر کے قارئین کتاب وسنت سائٹ کےلیے پیش کی گئی ہے۔(م۔ا)
مولانا محمد اعزاز علی امروہوی دار العلوم دیوبند کے مایہ ناز فاضل ، مفسر محدث فقیہ اور ادیب تھے اور تمام ہی علوم میں انھیں یکساں کمال حاصل تھا ، ان کے قلم سے پھیلا فیضان آج تک جاری و فیض رساں ہے ، نہایت متواضع شخصیت کے حامل ، خلوص و للہیت کے پیکر اور علم پر خود کو فدا کرنے کی اپنی مثال آپ تھے ۔فقہ و ادب ان کا خاص فن تھا ، جب ابتداً دار العلوم دیوبند آئے تو علم الصیغہ اور نور الایضاح سپرد ہوئیں ، مگر دروس نے ایسی مقبولیت پائی کہ دار العلوم کے حلقہ میں شیخ الادب و الفقہ کے لقب سے مشہور ہو گئے ، ہر فن کی کتابوں پر ان کو عبور حاصل تھا ، تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت اور نگرانی ان کا خاص ذوق تھا ۔ جس طرح عربی نظم و نثر پر قدرت و کمال تھا ، اسی طرح اردو نظم و نثر پر بھی کمال حاصل تھا ، عربی ادب میں انہوں نے نفحةالیمن کے معیار کے مطابق نفحة العرب کے نام سے ایک کتاب مرتب کی تھی ، جس میں تاریخی حکایات ، وقصص اور اخلاقی مضامین درج کیے گئے ہیں ، یہ کتاب عربی مدارس میں کافی مقبول ہوئی ، اور كئی مدارس میں آج تک داخلِ نصاب ہے اسی لیے اہل علم نے نفحۃ العرب کی متعدد شروح لکھی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ اشرف الادب ‘‘ مدارس دینیہ کے نصاب میں شاملِ نصاب عربی ادب کی مشہور ومعروف کتاب نفحةالعرب کا اردو ترجم وشرح ہے ۔یہ ترجمہ وشرح مولانا عبد الحفیظ (فاضل دار العلوم ،دیوبند) نےکیا ہے ۔ مترجم وشارح نے نفحة العرب کا ترجمہ وشرح کرنے کے علاوہ تقریباً 35 ایسے اصحاب تاریخ کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے کہ جن کے بارے میں صاحب نفحۃ العرب نے سکوت یا لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ یہ کتاب اشرف الادب شرح نفحۃ العرب‘‘نیٹ سےڈاؤن لوڈ کر کے کتا ب وسنت سائٹ کے قارئین وناظرین کے لیے پیش کی گئی ہے تاکہ عربی ادب پڑھنے پڑھانے والے احباب اس سے مستفید ہوسکیں۔(م۔ا)
جدیدیت ان نظریاتی تہذیبی ،سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعے کا نام ے جو 17ویں اور 18 صدی کے یورپ میں روایت پسندی اورکلیسائی استبداد کے ردّ عمل میں پیدا ہوئیں۔یہ وہ دور تھا جب یورپ میں کلیسا کا ظلم اپنے عروج پر تھا ۔اور مابعدجدیدیت؍پس جدیدیت دراصل جدیدیت کے ردّ عمل کانام ہے ۔اور مابعدجدیدیت آج کے دور کافلسفہ، ترقی یافتہ معاشروں کا عقیدہ طرزِ زندگی، معاشرتی صورت حال اور نظریہ حیات کانام ہے اردو میں مابعدجدیدیت پر علمی انداز سے مذہبی موقف کوبہت کم پیش کیا گیا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’مابعدجدیدیت اور اسلامی تعلیمات ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر احمد ندیم کی کاوش ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جدیدیت ہو یامابعدجدیدیت کوئی بھی نظریہ اسلام کی صاف ستھری اور پرازحکمت تعلیمات کے لیے چیلنج کا درجہ نہیں رکھتا۔اسلام کی رہنمائی آفاقی، ابدی،سرمدی اور ناقابل تغیر ہےاسی لیے قرآن کریم چیلنج کرتا ہے ۔اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعتمي(م۔ا)
امیر المومنین سیدنا عمر بن عبد العزیز کوپانچواں خلیفہ راشد تسلیم کیا گیا ہے ۔ حضرت عمربن عبد العزیز عمرثانی کی حیثیت سےابھرکر سامنے آئے ۔جیسے سیدنا عمرفاروق اعظم نےاپنے 10 سالہ عہد خلافت میں ہزاروں مربع میل پر فتح حاصل کی۔حضرت عمر بن عبد العزیز نےگو اڑھائی سال خلافت کوسنبھالا مگر انہوں نے بھی متعدد علاقوں کو فتح کر کے اسلامی حدود میں شامل کیا۔ انہوں نے جہاد کے علاوہ دعوت الی اللہ پر بھی خاصہ زور دیا اور کفر کےدلوں کو اسلام کی برکات سےآراستہ کر کے ان کو دین اسلام میں داخل کیا ۔حضرت عمر بن عبدالعزیز عہد ولید بن عبد الملک میں مدینہ کے گورنر رہے تھے جب آپ بحیثیت گورنر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو 30 خچروں پر آپ کا ذاتی سامان لدا ہوا تھا لیکن جب مسند خلافت پر متمکن ہوئے توسارا سامان فروخت کر کے اس کی رقم بیت المال میں جمع کرادی خلافت کابار سر پر آتے ہی ان کی زندگی بدل گئی۔حدیث وسیراور تاریخ ورجال کی کتب میں ان کے عدل انصاف ،خشیت وللہیت،زہد وتقوٰی ،فہم وفراست اور قضا وسیاست کے بے شمار واقعات محفوظ ہیں اور آپ کی سیرت پر عربی اردو زبان میں متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’عمر بن عبد العزیز منہج خلافت راشدہ کا یک روشن باب ‘‘ وطن عزیز کے معروف سوانح نگار مولانا عبد الرشید عراقی (مصنف کتب کثیرہ) کی کاوش ہے ۔ عراقی صاحب نے اس کتاب میں عمر بن عبد العزیز کی سوانح حیات اور ان کے علمی ودینی ، قومی، ملی اور سیاسی کارناموں کی تفصیل اس کتاب میں بیان کردی ہے ۔(م۔ا)
اس روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء ورسل کی مقدس اصطلاح سے یاد رکرتے ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور پیغمبرِاول سیدنا آدم فریضۂ ہدایت کےلیے مبعوث ہوئے ۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کردیتاہے ۔درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانےاور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اورانسان کےلیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں ۔ آج انسانیت کےپاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نےاسوۂ حسنہ قراردیا اور اس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے ۔حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پور سامان رکھتی ہے ۔ سیرت النبی ﷺ کی ابتدائی کتب عربی زبان میں لکھی گئیں پھر فارسی اور دیگرزبانوں میں یہ بابِ سعادت کھلا ۔ مگر اس ضمن میں جو ذخیرۂ سیرت اردوو زبان میں لکھا اور پیش کیا گیا اس کی مثال اور نظیر عربی کےعلاوہ کسی دوسری زبان میں دکھائی نہیں دیتی۔اردو زبان کی بعض امہات الکتب ایسی ہیں کہ جن کی نظیر خود عربی زبان کے ذخیرے میں مفقود ہے ۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالم اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات ومحاضرات پیش کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی سالانہ قومی سیرت کانفرنس کاانعقاد کیا جاتا ہے جس میں اہل علم اورمضمون نگار خواتین وحضرات اپنے مقالات پیش کرتے ہیں ۔ جن کوبعد میں کتابی صورت میں شائع کیا جاتا ہے۔ اوراسی طرح بعض علماء کرام نے سیرت النبی کو خطبات کی صورت میں بیان کیا اور پھر اسے خطبات سیرت کےنام مرتب بھی کیا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’سیرت النبی ﷺ پر خطبات ‘‘مولانا ابو محمد عزیر یونس السلفی المدنی ﷾ (فاضل مدینہ یونیورسنی،سابق مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور ) کےان لیکچرز کا مجموعہ ہے ۔جو انہوں نے 2015ء میں ڈیفنس ،لاہور کے ایک اسلامک سنٹر میں ایک ورکشاپ بعنواں’’ ثلاثة أيام مع النبي المصطفىٰ ’’ تین دن نبی مصطفیٰﷺ کےساتھ‘‘ میں پیش کیے ۔مولانا عزیر یونس صاحب نے ان تین دنوں میں رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اورعوام الناس کو کتاب وسنت کے منہج سے متعارف کرایا۔سیرت النبی پر اس منفرد ورکشاپ کو بہت پسند کیاگیاکثیر تعداد میں لوگ حاضر ہوئے اور آن لائن بھی احباب نے اسے سنا کئی احباب نےاسے کتابی شکل میں لانے کا اصرار کیا تو موصوف نے اس میں مزید کچھ اضافے کر کے اسے مرتب کردیا ۔فاضل مرتب نے اس میں رسول اللہ ﷺ کی حیات ِطیبہ، صحابہ کرام اور اہل بیت کے حوالے سے کتاب وسنت کے منہج کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں صحیح احادیث اور صحیح واقعات کو نقل کیا ہے تاکہ علماء وواعظین سیرت نبوی میں جو ثابت ہے اسے عوام الناس کو بیان کریں اور جو غیر ثابت ہےاس سے گریز کریں ۔اللہ تعالیٰ مولانا عزیر یونس صاحب کی اس عظیم کاوش کو شرف ِقبولیت سے نوازے اور اسے عامۃ الناس کے لیے نفع بخش بنائے اور مرتب کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ (آمین)(م۔ا)
جس طرح اسلام عقائد وایمانیات اورعبادات یعنی اللہ تعالیٰ اوراس کے بندوں کے درمیان تعلقات کا نظام پیش کرتاہے اسی طرح دنیاوی معاملات یعنی بندوں کے باہمی تعلقات کا نظام بھی عطا کرتا ہے ۔انسانی معاملات وتعلقات اگرچہ باہم مربوط متحد ہیں تاہم تفہیم وتسہیل کے لیے ان کو سیاسی،سماجی ،اقتصادی اورتہذیبی نظاموں کے الگ الگ خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ان میں سے بشمول نظامِ حکومت اور ہر ایک نظام کے لیے اسلام نے تمام ضروری اور محکم اُصول بیان کردیئے ہیں۔اُسوۂ نبوی نے ان کی عملی فروعات بھی تشکیل دے دی ہیں او ر صحابہ کرام اور خلفاء عظام اور ان کے بعد اہل علم نے ان پرعمل کر کے بھی دکھایا ہے ۔عہد نبوی کا نظام حکمرانی یا اسلامی نظام ِحکومت کے متعلق متعدد کتب موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ نظامِ حکومت نبویہ ‘‘ علامہ عبد الحی الکتانی کی عہد نبوی کے نظام ِحکمرانی کے متعلق معروف کتاب ’’التراتيب الإدارية‘‘ کا اردو ترجمہ ہےاس کتاب کے ترجمہ کی سعادت مولانا حافظ محمد ابراہیم فیضی صاحب نے حاصل کی ہے علامہ کتانی نے اس کتاب میں نبی کریم ﷺ کے نظامِ حکومت،خلافت، وزارت،صنعت وحرفت،فقہی سرگرمیاں،معمولاتِ عبادات، ناپ تول ، تحریری وجنگی سرگرمیاں اور صحابۂ کرا م کے معمولات کوبیان کرنے کے علاوہ اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کےعنوانات قائم کرکے سیرتِ طیبہ کی روشنی میں ان کے لیے رہنمائی فراہم کی ہے ۔(م۔ا)
پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت (پ:1941ء) نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (عربی، اسلامیات، تاریخ) کیا ۔ اور ’مسندِ عائشہ ؓ‘ پر تحقیق کے اعتراف میں کیمبرج یونیورسٹی، برطانیہ نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔ بطور استاد، ادارہ علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی میں تدریس سے وابستہ (1966ء۔2000ء) رہیں اور بطور پروفیسر سبک دوش ہوئیں۔ ادارہ علوم اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی کی چیئرپرسن، شیخ زاید اسلامک سینٹر کی ڈائریکٹر اور پنجاب یونیورسٹی فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ کی ڈین کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بطور نگران 50 سے زیادہ پی ایچ ڈی اور 20 سے زیادہ ایم فل تحقیق کاروں کو رہنمائی دی۔ لاہور کالج یونیورسٹی برائے خواتین میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل حکومتِ پاکستان کی رکن رہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے تین تحقیقی مجلوں: مجلہ تحقیق، الاضواء، القلم کی مدیراعلیٰ رہیں۔ 30 سے زائد تحقیقی مقالات اردو، عربی، انگریزی میں شائع ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی نے ان کی مثالی خدمات کے اعتراف میں پروفیسر ایمریطس مقرر کیا ہے۔ ایم اے عربی میں اندلس کے معروف عالم و ادیب ابن عبدربہ (م328ھ) کی معروف کتاب العقد الفرید (جس کو اہلِ علم نے علم و ادب کا موسوعہ تسلیم کیا ہے) کے ایک جز کا اردو ترجمہ مع حواشی تحقیقی مقالہ پیش کیا ہے اور ایم تاریخ کے اختیاری پرچوں میں تاریخ اندلس کو اختیار کیا۔اس لیے موصوفہ کو تاریخ اور بالخصوص تاریخ ا ندلس سے خاص دلچسپی ر ہی۔ تاریخ اندلس سے یہ لگن اور دلچسپی زیر نظر’’ محدثین اندلس ایک تعارف ‘‘ لکھنے کا باعث بنی ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے عربی زبان میں اس موضوع سے متعلق جابجا بکھرے مواد کو اکٹھا کرکے احسن انداز میں مرتب کرنے کی کوشش کی ہے ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحبہ نے اس کتاب میں دوسری صدی ہجری سے آٹھویں صدی تک کے محدثینِ اندلس کا تذکرہ مرتب کیا ہےا س کی تفصیل درج ذیل ہے: دوسری صدی کے چھے محدثین، تیسری صدی ہجری کے تیرہ محدثین، چوتھی صدی ہجری کے اڑتیس محدثین، پانچویں صدی ہجری کے اننچاس محدثین، چھٹی صدی ہجری کے بیالیس محدثین، ساتویں صدی ہجری کے انتیس محدثین، آٹھویں صدی ہجری کے گیارہ محدثین، اس کے علاوہ پچیس محدثات کے حالات کا تعارف بھی شاملِ کتاب ہے۔اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی اس گراں قدر علمی کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین)(م۔ا)
محمد حسن عسکری( 1919ء-1978ء) پاکستان کے نامور اردو زبان و ادب کے نامور نقاد، مترجم، افسانہ نگار اور انگریزی ادب کے استاد تھے۔ انہوں نے اپنے تنقیدی مضامین اور افسانوں میں جدید مغربی رجحانات کو اردو دان طبقے میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔برعظیم پاک و ہند میں مشرق و مغرب کی کشمکش میں علمی طور پر شریک افراد میں محمد حسن عسکریؒ کا نام اہم ترین ہے۔ عسکری صاحب نے ترقی پسند ادب سے روایت پسند فکر تک جو سفر طے کیا اس کی بے شمار منزلیں ہیں اور ہر منزل ایک نئے سفر اور ایک نئے فکر کا عنوان بن جاتی ہے۔ اردو زبان و ادب کی تاریخ کو انگریزی فکری اثرات سے آزاد کرانے کا سہرا عسکری صاحب کے سر ہے جنھوں نے فرانسیسی ادبی روایت اور روایت کے مکتبہ فکر کے زیرِ اثر اردو زبان و ادب کا رشتہ دینی روایات سے جوڑ دیا۔ وہ ادب سے دین کے کوچے میں آئے اور کئی کتابیں بھی لکھیں ۔ جن میں زیر نظر کتاب ’’ جدیدیت‘‘ ہے جو مغربی تہذیب کی گمراہیوں کاخاکہ ہے یہ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے نہایت سادہ اور مثالی کتاب ہے لیکن اس کا دوسرا حصہ نہایت مشکل ترین حصہ ہے جسے سمجھنے کے لیے یونانی و ہندی فلسفے اور مغربی فکر و فلسفے کے ساتھ ساتھ علوم اسلامی پر بھی گہری نظر ضروری ہے۔ عسکری صاحب نے فرانسیسی مفکررینے گینوں کی کتابوں کی مدد سے مغربی تہذیب کی دو سو گمراہیاں دوسرے حصے میں سمو دیں جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ان کو دور کیے بغیر انگریزی تعلیم پانے والوں کو دین کی باتیں نہیں سمجھائی جاسکتیں۔(م۔ا)
اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام دینِ امن وسلامتی ہے اور یہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو ،خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل سے ہو ، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت عطا کرتا ہے ۔ ایک اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر بالعموم اور اسلامی ریاست پر بالخصوص فرض ہے ۔ غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ جس انداز میں عہد رسالت مآب ﷺاور عہد خلفاے راشدین میں کیا گیا اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی. حضور ﷺنے اپنے مواثیق، معاہدات اور فرامین کے ذریعے اس تحفظ کو آئینی اور قانونی حیثیت عطا فرما دی تھی۔جس کی تفصیلات کتب تاریخ وسیر اورکتب فقہ میں موجود ہے ۔ زیر نظرکتاب ’’اسلامی ریاست اور غیرمسلم شہری ‘‘ ڈاکٹر حافظ محمد سعد اللہ(ایڈیٹر شبعہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی ،لاہور ) کے جامعہ پنجاب میں ڈاکٹریٹ کے لیے پیش کے گئے تحقیقی مقالہ کی کتابی صورت ہے فاضل مصنف نے پورے دلائل اور تاریخی شہادتوں اور تقابلی مطالعہ سے اسلامی ریاست میں غیر مسلم رعایا کے تمام بینادی حقوق کے بارے میں اسلام کی فراخدلانہ اور منفرد تعلیمات کو یکجا کر کے پیش کیا ہے۔اور اسلام کے عالمی غالبہ کے زمانے میں بعض اوقات اسلامی حکومتوں کی طرف سے غیر مسلم رعایا پر لباس کی ہیئت اور سواری وغیرہ کے معاملے میں جو پاپندیاں لگائی جاتی رہیں صاحب کتاب نے ان کی حقیقت پرروشنی ڈالتے ہوئے تمام شکوک وشبہات کا ازالہ کیا ہے ۔ علاوہ ازیں غیرمسلموں کے حقوق کے حوالے سے مستشرقین کی طرف سے عاید کیے گئے اہم اعتراضات کا مفصل اور مدلل جواب دینے کے ساتھ ساتھ ان کا تجزیاتی جائزہ بھی لیا ہے ۔یہ کتاب غیر مسلموں کےحقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کی بہت اچھی تحقیقی دستاویز ہے جس کی بنیاد اصلی فقہی مآخذ اور بطور خاص برصغیر پاک وہند کے ہم عصر علماء کے جدید افکار ونظریات پررکھی گئی ہے اللہ تعالیٰ صاحب کتاب کی اس اہم تحقیقی کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔(آمین)(م۔ا)
اسلامی معاشیات ایک ایسا مضمون ہے جس میں معاشیات کے اُصولوں اور نظریات کا اسلامی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں معیشت کس طرح چل سکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس مضمون کے بنیادی موضوعات میں یہ بات شامل ہے کہ موجودہ معاشی قوتوں اور اداروں کو اسلامی اُصولوں کے مطابق کس طرح چلایا جا سکتا ہے ۔ اسلامی معیشت کے بنیادی ستونوں میں زکوٰۃ، خمس، جزیہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں یہ تصور بھی موجود ہے کہ اگر صارف یا پیداکاراسلامی ذہن رکھتے ہوں تو ان کا بنیادی مقصد صرف اس دنیا میں منافع کمانا نہیں ہوگا بلکہ وہ اپنے فیصلوں اور رویوں میں آخرت کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ اس سے صارف اور پیداکار کا رویہ ایک مادی مغربی معاشرہ کے رویوں سے مختلف ہوگا اور معاشی امکانات کے مختلف نتائج برآمد ہوں گے۔اسلامی نظامِ معیشت کے ڈھانچے کی تشکیل نو کا کام بیسویں صدی کے تقریبا نصف سے شروع ہوا ۔ چند دہائیوں کی علمی کاوش کے بعد 1970ءکی دہائی میں اس کے عملی اطلاق کی کوششوں کا آغاز ہوا نہ صرف نت نئے مالیاتی وثائق ،ادارے اور منڈیاں وجود میں آنا شروع ہوئیں بلکہ بڑے بڑے عالمی مالیاتی اداروں نے غیر سودی بنیادوں پرکاروبار شروع کیے۔بیسوی صدی کے اختتام تک اسلامی بینکاری ومالکاری نظام کا چرچا پورے عالم میں پھیل گیا ۔اسلامی مالیات اور کاروبار کے بنیادی اصول قرآن وسنت میں بیان کردیے گئے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کے بنیادی مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات میں اختلافی مسائل کےحوالے سے علماء وفقہاء کی اجتماعی سوچ ہی جدید دور کے نت نئے مسائل سے عہدہ برآہونے کے لیے ایک کامیاب کلید فراہم کرسکتی ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’اسلام اور جدید معیشت وتجارت ‘‘ پاکستان کی مشہورومعروف شخصیت مولانا مفتی تقی عثمانی ﷾ کے ان دروس کی کتابی صورت ہے جو انہوں نے تقریباً پچیس سال قبل ’’ مرکز الاقتصاد الاسلامی،کراچی ‘‘ کے زیر انتظام پندرہ روزہ کورس میں ملک بھر کےممتاز دینی اداروں کےاستاتذہ کرام ، مفتی حضرات اور اہل علم کے سامنے پیش کیے ۔مولانا تقی عثمانی صاحب کے ان دروس کو مفتی محمد مجاہد صاحب(استاذ حدیث جامعہ امدایہ ،فیصل آباد) نے ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے تیار کیا ہے جس پر مولانا تقی عثمانی صاحب نے نظر ثانی کر نے کے علاوہ مناسب ترمیم واضافہ بھی کیا ہے ۔اس کتاب کے اہم عناوین یہ ہیں ۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے اصول ،اشتراکیت ،معیشت کے اسلامی احکام ،مختلف نظامہائے معیشت میں دولت کی پیدائش اور تقسیم ، کاروبار کی مختلف اقسام ،بازار ِ حصص،شیئرز کی خرید وفروخت کا طریق ِکا ر اور اسی شرعی حیثیت، کمپنی کی شرعی حیثیت اور اس کے چند جزوی مسائل ، نظام زر، کاغذی نوٹ کی شرعی حیثیت اور اس کے فقہی احکام،بینکاری،سودی بینکاری کا متبادل نظام ،غیر مصرفی مالیاتی اداروں کا شرعی حکم ، بیمہ؍انشورنش وغیرہ ۔(م۔ا)
جو شخص قرآن مجید کو حفظ کرنے کے بعداس پر عمل کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے اجر عظیم سے نوازتے ہیں ۔اور اسے اتنی عزت وشرف سے نوازا جاتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کو جتنا پڑھتا ہے اس حساب سے اسے جنت کے درجات ملتے ہیں ۔سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ صاحب قرآن کوکہا جائے گا کہ جس طرح تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے تھے آج بھی پڑھتے جاؤ جہاں تم آخری آیت پڑھوگے وہی تمہاری منزل ہوگی ۔‘‘( جامع ترمذی: 2914 )’’ صاحب قرآن ‘‘سے مراد حافظِ قرآن ہے اس لیے کہ نبی ﷺکا فرمان ہے یؤم القوم اقرؤهم لکتاب الله ’’یعنی لوگوں کی امامت وہ کرائےجو کتاب اللہ کا سب سے زيادہ حافظ ہو ۔‘‘تو جنت کے اندردرجات میں کمی وزیادتی دنیا میں حفظ کے اعتبار سے ہوگی نا کہ جس طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس دن جتنا وہ پڑھے گا اسے درجات ملیں گے ، لہذا اس میں قرآن مجید کے حفظ کی فضيلت ظاہر ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے اللہ تعالی کی رضا کے لیے حفظ کیا گیا ہو۔ زیر نظر کتاب ’’ حفظ قرآن کے 25 آسان طریقے‘‘ ڈاکٹر یحییٰ بن عبد الرزاق غوثانی﷾ کی کتاب كيف تحفظ القرآن الكريم قواعد أساسية وطرق عملية کا اردو ترجمہ ہے ۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کو علمی انداز میں اور حفظِ قرآن کے بنیادی قواعد کی روشنی میں تالیف کیا ہے اور جدید منہجی اسلوب کے ساتھ قرآن حفظ کرنے کے مختلف طریقے اور اسالیب بیان کیے ہیں ۔یہ کتاب اپنے موضوع میں اس قدر مفید اہم ہے کہ اس کتاب کو اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ تحفیظ القرآن کا عالمی پروگرام چلانے والے ایک ادارے نے نہ صرف اسے اپنے نصاب میں شامل کیا بلکہ انہوں نے30 سے زائد ممالک میں اس کتاب کو تقسیم کیا ہے۔ وطن عزیز کی معروف شخصیت شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی ﷾ نے اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر اپنے شاگرد رشید حافظ فیض اللہ ناصر﷾ سے اس کتاب کا آسان فہم ترجمہ کر وا کر شائع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ، مترجم اور ناشرین کی جہود کو شرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین)(م۔ا)
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ کہ وہ دعوت وتبلیع او راشاعتِ دین کا کام اسی طرح انتہائی محنت اور جان فشانی سے کرے جس طرح خو د خاتم النبین ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام کرتے رہے ہیں ۔ مگر آج مسلمانوں کی عام حالت یہ ہے کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ تو بہت دور کی بات ہے وہ اسلامی احکام پرعمل پیرا ہونے بلکہ اسلامی احکام کا علم حاصل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے ۔ اور یہ بات واضح ہی ہے کہ دعوت وتبلیغ سے پہلے عمل کی ضرورت ہوتی اور عمل سے پہلے علم کی ۔تبلیغ کی اہمیت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے بے شمار انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا اورچونکہ یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر مکمل ہو چکا ہے اس لیے اب یہ ذمہ داری امت مسلمہ پر ہے۔تبلیغ کے موثر او رنتیجہ خیز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ اور انبیا کا اسوہ اور دیگر شرعی اصول مبلغ کے لیے پیش نظر رہیں ۔ کیونکہ انبیاء کرام کی زندگیاں ہی اپنے اپنے دور اورعلاقے کے لوگوں کے لیے مشعل راہ تھیں جبکہ عالمگیر اور دائمی نمونۂ عمل صرف سید الاولین وسید الآخرین ،رحمۃ للعالمین کی حیات طیبہ ہے ۔ لہذا معیشت ہویا معاشرت ،حکومت ہو یا سیاست ،زندگی سےمتعلق ہر ہر شعبہ میں ہمیں انبیاء کرام کے نقشِ قدم پر چلنا ہے ۔نبوی اسلوب دعوت کوسامنے رکھتے ہوئے ہمارے اسلاف نے جس خوش اسلوبی سے فریضہ دعوت کوسرانجام دیااس کانتیجہ یہ نکلاکہ اسلام اطراف واکناف عالم میں پھیل گیالیکن بعدازاں یہ طریقہ دعوت نظروں سے اوجھل ہوگیاتوفرقہ واریت اوراحتراق نشست امت کامقدربن گیاموجودہ ذلت ورسوائی کی وجہ بھی یہی ہے کہ تنظیموں اورجماعتوں کی دعوت انبیاء کرام کے طریقے پرنہیں ہے ۔زیرنظرکتاب ’’ دعوت ا لی اللہ میں ابنیاء کرام کا منہج اپنانا ہی عقل وحکمت کا تقاضا ہے ‘‘ میں فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی﷾ نے انتہائی مؤثراوردلنشیں انداز میں انبیاء کے اسلوب دعوت پرروشنی ڈالی ہے جویقیناً قابل مطالعہ ہے ۔یہ کتاب منهج الأنبياء في الدعوة الى الله فيه الحكمة والعقل کا اردو ترجمہ ہے ۔ محمد انور محمد قاسم سلفی اور طارق علی بروہی نے اس کتاب کے ترجمہ کی سعادت حاصل کی ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف، مترجمین وناشرین کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اور اسے عامۃ الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔(م۔ا)
قرآن مجید نبی کریم ﷺپر نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے آخری کتاب ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں صحابہ کرام کے سامنے اس کی مکمل تشریح وتفسیر اپنی عملی زندگی، اقوال وافعال اور اعمال کے ذریعے پیش فرمائی اور صحابہ کرام کو مختلف قراءات میں اسے پڑھنا بھی سکھایا۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد آئمہ فن اور قراء نے ان قراءات کو آگے منتقل کیا۔ کتبِ احادیث میں احادیث کی طرح مختلف قراءات کی اسناد بھی موجود ہیں۔ قراءاتِ سبعہ متواترہ کے علاوہ اور بھی قراءات زبان رسالت ﷺ سے منطوق اور ثابت ہیں اور وہ قراءات ثلاثہ ہیں اور یہ بھی عند الجمہور متوار ہیں ۔ بے شمار اہل علم اور قراء نے علوم ِقراءات کے موضوع پرسینکڑوں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ تکملۃ العشرۃ فی اجراء القراءات العشر المتواترۃ من طریق الشاطبیۃ والدرۃ‘‘ شیخ القراء قاری احمد میاں تھانوی ﷾ کے شاگرد رشید قاری قسمت اللہ کی تالیف ہے ۔ یہ کتاب قراءات عشرہ کے اجراء پر مشتمل ہے ۔فاضل مصنف نے ہر آیت کےاجراء سے پہلے اُس آیت کے تمام مختلف فیہ کلمات وصلاً ووقفاً وجوہ کےساتھ بیان کیے ہیں اور ساتھ میں ہر اختلاف کا مأخذ بھی لکھا ہے تاکہ طالب علم کے لیے آیت کا اجراءسمجھنا آسان ہوجائے ۔قاری قسمت اللہ صاحب اس کتاب کےعلاوہ متعدد کتب کے مصنف ہیں اللہ تعالی قاری صاحب کی جہو د کوقبول فرمائے ۔(آمین)(م-ا)
پورس پنجاب کا نامور حکمران۔ اس کی ریاست دریائے جہلم اور چناب کے درمیان واقع تھی۔ جہلم کے پار ٹیکسلا پر راجا امبھی حکمران تھا۔ پورس اور امبھی ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ سکندر اعظم نے ہندوستان پر 327 ق م میں حملہ کیا تو امبھی نے محض پورس سے مخاصمت کی بنا پر سکندر کی اطاعت قبول کی اور سات سو مسلح اور تین ہزار پیادہ فوج اس کی کمان میں دے دی۔ نیز بہت زرو جواہر بھی نذر کیا۔ پورس نے سکندر کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور فوج لے کر جہلم کے کنارے پہنچا۔ رات کی تاریکی میں سکندر کی فوج نے دریا عبور کرکے، اچانک حملہ کر دیا۔ پورس کے جنگی ہاتھی بوکھلا گئے اور انھوں نے اپنی ہی فوج کو روند ڈالا۔ پورس کو شکست ہوئی وہ گرفتار ہو کر سکندر کے سامنے پیش ہوا تو سکندر نے پوچھا ’’اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟‘‘ پورس نے بڑی بہادری سے جواب دیا ’’جو سلوک ایک بادشاہ کو دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرنا چاہیے۔ سکندر اس جوب سے خوش ہوا اور پورس کی ریاست اسے واپس کر دی ۔ زیر نظر کتاب ’’ مہاراجا پورس ‘‘ بدھا پرکاش کی انگریزی تصنیف کا اردور ترجمہ ہے یہ کتاب مختصر وجامع ہے ۔ مصنف نے ٹھوس تاریخی شواہد کی مدد سے مہارا جا پورس کی شخصیت اور کردار کو اجاگر کیا ہے ۔اس کتاب میں سکندرِ اعظم کے حملہ اور پورس کی مزاحمت کی مکمل تاریخی داستان موجود ہے ۔تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے اس کتاب کو سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔(م۔ا)
قرآ ن ِ مجید کے بعد حدیث نبویﷺ اسلامی احکام اور تعلیمات کا دوسرا بڑا ماخذ ہے۔ بلکہ حقیقت تویہ کہ خود قرآن کریم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا ،اس سے احکام اخذ کرنا اور رضائے الٰہی کے مطابق اس پر عمل کرنا بھی حدیث وسنت کی راہنمائی کے بغیر ممکن نہیں ۔لیکن اس کے باوجود بعض گمراہ ا و رگمراہ گر حضرا ت حدیث کی حجیت واہمیت کومشکوک بنانے کی ناکام کوششوں میں دن رات مصروف ہیں او رآئے دن حدیث کے متعلق طرح طرح کے شکوک شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن الحمد للہ ہر دور میں علماء نے ان گمراہوں کاخوب تعاقب کیا اور ان کے بودے اور تارِعنکبوت سےبھی کمزور اعتراضات کے خوب مدلل ومسکت جوابات دیے ہیں ۔منکرین کےردّ میں کئی کتب اور بعض مجلات کے خاص نمبر ز موجود ہیں ۔ ان کتب میں سے دوامِ حدیث ،مقالات حدیث، آئینہ پرویزیت ، حجیت حدیث ،انکا ر حدیث کا نیا روپ وغیرہ اور ماہنامہ محدث ،لاہور ،الاعتصام ، ماہنامہ دعوت اہل حدیث ،سندھ ،صحیفہ اہل حدیث ،کراچی کے خاص نمبر بڑے اہم ہیں ۔جناب عادل سہیل ظفر کا زیر نظر کتابچہ ’’کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کےحکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ ‘‘بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔موصوف نے سوشل میڈیا پر انکار حدیث کے متعلق وائرل ہونے والے ایک مضمون بعنوان ’’ بخاری شریف میں جانوروں کی ٹارگٹ کلنگ کے وحشیانہ احکامات‘‘ جواب میں یہ مضمون تحریرکیا ہے اور اس تحریر کا قرآن کریم اور صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کی روشنی میں خوب ناقدانہ جائزہ لیا ہے ۔عادل سہیل صاحب نےاپنے جوابی مضمون کا عنوان ’’ صحیح سنت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ‘‘ بھی رکھا ہے اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو قبول فرمائے اور ان کے زورِ قلم میں اضافہ فرمائے ۔(م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں کئی عالم تخلیق کئے، اس کرّۂ ارض پر دو ایسی مخلوقات ہیں جن کی ہدایت کےلیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام اور رسل مبعوث فرمائے ان کےلیےاللہ تعالیٰ نے سزا و جزا کا تصور پیش کیا یعنی یوم آخرت ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دو مخلوقات انسان اور جن ہیں۔ جنات کی دنیا اسرار کے پردے چھپی رہتی ہے ۔ جنات انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ کر دئیے گئے۔بعض لوگ جنات کے وجود کا انکار کرتے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں جنات کی تخلیق کےمتعلق واضح آیات موجود ہیں ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَار ’’اور اللہ نےجنوں کوآگ کے لپکتےہوئے شعلے سے تخلیق فرمایا‘‘(سورۃ الرحمن:15) وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُوم ’’اور جنات کو ہم نے انسانوں سے پہلے ہی بغیر دہواں والی آگ سے تخلیق فرمایا‘‘(الحجر:27)اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی جنات کی تخلیق کا ذکر موجود ہے ۔ محترم جناب عادل سہیل ظفر صاحب نےزیر نظر تحریر’’ جناّت قرآن کریم اور صحیح احادیث مبارکہ کی روشنی میں ‘‘جنات کے متعلق یہ عناوین (جنات کی تخلیق مواد اور حکمت،جنات بھی انسانوں کی طرح ہی اللہ کے دین کی پیروی کرنے کے مکلف ہیں ،جنات کی اقسام،جنوں کےموجود رہنے والی جگہیں،جنات کی دس عمومی صفات،جناب کودور رکھنے اوردور کرنےکے طریقے ) قائم کر کے آیات قرآانیہ اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں جنات کے متعلق بحث کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو قبول فرمائے اور ان کے زورِ قلم میں اضافہ فرمائے ۔(م۔ا)
اسلامی نظامِ حیات میں طہارت وپاکیزگی کے عنصر کوجس شدو مد سے اُجاگر کر نے کی کوشش کی گئی ہے اس طرح سے کسی اور مذہب میں نہیں کی گئی ۔پلیدگی ،گندگی ا ور نجاست سے حاصل کی جانے والی ایسی صفائی وستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو، اسے طہارت کہتے ہیں۔نجاست خواہ حقیقی ہو، جیسے پیشاب اور پاخانہ، اسے خبث کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو، جیسے دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے حدث کہتے ہیں۔ دینِ اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے۔نبی ﷺنے طہارت کی فضیلت بیان کرتے ہوءے فرمایا:الطّهور شطر الایمان (صحیح مسلم 223) طہارت نصف ایمان ہے۔ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:’’وضو کرنے سے ہاتھ، منہ،اورپاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہوجاتے ہیں‘‘۔(سنن النسائی،:103)طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبیﷺ سے مروی ہے: ’’ قبر میں زیادہ عذاب طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے‘‘۔ (صحیح الترغیب و الترھیب: 152)۔مذکورہ احایث کی روشنی میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے بدن، کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا : ’’ اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندکی سے دور رہیے‘‘ (المدثر:5،4) مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل ؑ کو حکم دیا گیا: " میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔" (البقرۃ:125)۔اللہ تعالیٰ اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ: ’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (البقرۃ: 222)، نیز اہل قباء کے متعلق فرمایا: "اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘۔ (التوبہ:108)۔لہذا روح کی طہارت کے لیے تزکیہ نفس کے وہ تمام طریقے جن کی تفصیل قرآن وحدیث میں ملتی ہے ان کا اپنے نفس کو پابند بنانا ضروری ہے ۔جب کہ طہارتِ جسمانی کے لیے بھی ان تمام تفصیلات سے اگاہی ضروری ہے جو ہمیں کتاب وسنت مہیا کر تی ہے۔ زیر نظر کتابچہ’’طہارت کے احکام ومسائل کتاب وسنت کی روشنی میں ‘‘ محترم جناب عبد الولی عبد القوی(مکتب دعوۃ وتوعیۃالجالیات،سعودی عرب ) کی کاوش ہے فاضل مصنف نے اس مختصر کتاب کو نو فصلوں میں تقسیم کیا ہے ۔اس میں ہر مسئلہ کو کتاب وسنت کے واضح دلائل سے مرصع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔مصنف نے کتاب کو مرتب کرنے میں حتی المقدور کوشش کی کہ اسلوب انتہائی سادہ اور سہل ہو تاکہ ہر خاص وعام بآسانی اس کتاب سے مستفید ہوسکے ۔ اللہ تعالیٰ کی اس کوشش کو شرف قبولیت سے نوازے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ کے ذریعہ بنائے ۔ (آمین)(م-ا)
شان وشوکت سے مراد عزت وتکریم اور عالی شان ہوناہے ۔اگر کسی کےپاس عالی شان رہائش، قیمتی گاڑی، فیشن ایبل کپڑے ، جدید موبائل اوردوسرے قیمتی لوازمات موجود ہوں تو ان کی عزت میں اضافہ ہوگا۔اس شان وشوکت کو عمومی پر سٹیٹس کہاجاتاہے رشتوں کے لین دین میں سٹیٹس کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ۔ پیسے کےبغیر سٹیٹس نہیں بنتا ، توپیسے کی دوڑ کے پیچھے انسانی ضروریات سے زیادہ اسی سٹیٹس کےحصول کی خواہش ہوتی ہے ۔ حقیقتاً یہ سوچ اورطرزِ عمل اللہ کے فرمان کے خلاف ہے ۔ کیونکہ ’’ اللہ کے نزدیک زیادہ باعزت وہ جو زیادہ تقویٰ والا ہے ‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ :’’ عزت صرف اللہ ، اس کے رسول کے لیے ہے اورایمان والوں کے لیے ہے لیکن منافق لوگ اسے نہیں سمجھتے ۔‘‘ لہذا کسی بھی مسلمان کے سٹیٹس کا معیار اس کا تقویٰ ہے نہ کہ قیمتی چیزیں۔اپنی دولت، طاقت، ذات،رنگ یا کسی اور وجہ سے خود کو دوسروں سے زیادہ اعلی ٰسمجھنا شیطانی فعل ہے کیونکہ شیطان نے صرف اس لیے آدم کو سجدہ کرنے سےانکار کردیا تھا کہ وہ آگ سے ہے اور آدم خاک سے ۔ زیر نظر کتاب ’’ شان وشوکت کی حوس ‘‘ ڈاکٹر محمد سلیم کی تصنیف ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں حقیقی اورجعلی سٹیٹس کی تفصیل وتاریخ کے علاوہ دھوکے گھر (دنیا) اور حقیقی گھر(آخرت) کا موازنہ بھی کیا ہے ۔ یہ کتاب سوچ کے رخ اورطرزِ عمل میں مثبت تبدیلی لانے میں مدد گار بنےگی۔ ان شاء اللہ (م۔ا)
لفظ قصاص قرآن کریم کی اس مبین ایت سے اخذ کیا گیا ہے۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۔۔۔۔﴿البقرة: ١٧٨﴾’’اے ایمان والو تم پرمقتولین کا قصاص فرض کیا گیا ہے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔‘‘
اس ایت کو رمضان کی ایت سے جوڑ کر دیکھیں تو دونوں آیات میں ایک جیسے الفاظ ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ الصیام کی جگہ القصاص لکھ دیا گیا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ۔۔۔۔۔ ﴿قصاص کا حکم﴾
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ ۔۔۔۔۔۔ ﴿رمضان کا حکم﴾
پس جیسے رمضان فرض ہے قصاص بھی اسی طرح فرض ہے۔ قتل خطا کے سوا کسی صورت دیّت نہیں لی جا سکتی۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک امیر کبیر کسی مسکین کو قتل کردے اور مسکین کے اہل خانہ کو دیّت دیکر جان چھڑا لے۔ قتل کے بدلے وہ امیر کبیر قتل کیا جائے گا اور یہ کام حکومت وقت کا ہے کہ وہ قانونِ قصاص پر عمل درآمد کرائے۔
لفظ دیّت سورہ النساء کی اس آیت سے ماخوذ ہے۔وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۔۔۔۔﴿النساء: ٩٢﴾
’’کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ دوسرے مومن کو قتل کرے، الا یہ کہ اُس سے خطا ہو جائے، اور جو شخص کسی مومن کو خطا سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن غلام کو آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو دیت دے۔‘‘
پس واضح ہوا کہ دیت قتل خطا میں دی جائے گی۔ قتل عمد پر قاتل سے قصاص لیا جائے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں قتل عمد میں بھی دیت دی جاتی ہے جو کہ قانونِ قصاص کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
اسلام نے اپنے اصولِ حکمرانی میں عدل وانصاف کو بے پناہ اہمیت دی ہے۔ یہ ایسا الٰہی نظام حیات ہے جس کامزاج انسانوں کے خود ساختہ رائج الوقت قوانین سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ یہ تمام انسانی قوانین سے ممتازاور ہردو ر،ہر زمانے کےتقاضے پورے کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد اہل پاکستان کی مسلسل یہ خواہش اورکوشش رہی ہے کہ اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں آئے۔بالخصوص جنرل ضاء الحق دور حکومت میں قوانین اسلام کے نفاذ کی کوششیں قابل ذکر ہیں ۔حدود آرڈی ننس نافذ کیا گیا اور وفاقی شرعی عدالت شرعی نقظۂ نظر سے مقدمات کی سماعت بھی کرتی رہی ۔ زیر نظر کتاب ’’ قصاص ودیت‘‘ادارہ تحقیقات اسلامی کے سکالرز کی مرتب شد ہے ۔ادارہ تحقیقات اسلامی نے قصاص دیت کے متعلق قرآ ن وسنت اور فقہ اسلامی کی مستند کتب سےمنتخب ابواب کا ترجمہ کروا کرشائع کیا۔بعض ابواب کےبعینہٖ ترجمے کیے گئے ہیں اور بعض مقامات پر خلاصہ کیاگیا ہےیہ کتاب ادارہ تحقیقات اسلامی کے سلسلہ تراجم مصادر قانون اسلامی کا دوسرا سلسلہ ہے جوکہ جنرل ضیاء ا لحق کے دور حکومت میں خاص طور پر وکلاء اور جج صاحبان کے لیے تیار کی گی تھی ۔ فقہ اسلامی کی مستند کتابوں سے منتخب ابواب کے ترجمہ ،ترتیب وتدوین کا کام محمد میاں صدیقی نے کیا ہے۔(م۔ا)
اسلام نے خاندان کوخاص اہمیت دی ہے اور چونکہ معاشرہ سازی کے سلسلہ میں اسے ایک سنگ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے لہذا اسلام نے اس کی حفاظت کے لئے تمام افراد پر ایک دوسرے کے حقوق معین کئے ہیں اور چونکہ والدین کا نقش خاندان اور نسل کی نشو ونما میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے لہذا قرآن کریم نے بڑے واضح الفاظ میں ان کی عظمت کوبیان کیا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔بنی نوع انسان پر حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد میں سے سب سے زیادہ حق اس کے والدین کا ہوتا ہے۔ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا :تیری ماں کا۔ اس نے دوبارہ اور سہ بارہ پوچھا: آپ نے فرمایا: تیری ماں کا۔ پھر فرمایا تیرے والد کا۔ ماں اللہ کے احسانات میں سے وہ احسان ہے جس کا جتنا بھی شکر بجا لایا جائے کم ہے۔ ’’ماں ‘‘ محض ایک لفظ نہیں بلکہ محبتوں کا مجموعہ ہے۔ ’’ماں ‘‘ کا لفظ سنتے ہی ایک ٹھنڈی چھاوں اور ایک تحفظ کا احساس اجاگر ہوتا ہے ۔ ایک عظمت کی دیوی اور سب کچھ قربان کردینے والی ہستی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔’’ماں ‘‘ کے لفظ میں مٹھاس ہے۔ انسانی رشتوں میں سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی ماں کی ہے۔ ماں خدا کی عطا کردہ نعمتوں میں افضل ترین نعمت ہے۔قرآن پاک نے ماں باپ سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ ماں باپ اگرچہ مشرک بھی ہوں تب بھی ان سے بدسلوکی کرنے سےمنع فرمایا گیا ہے۔ ماں کی عظمت وشان پرمتعدد آیات قرآنی اور احادیث نبویہ موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ماں کا تقدس اسلام اور جدید تہذیب‘‘ حکیم طارق محمود چُغتائی کی تصنیف ہے ۔اس کتاب میں انہوں نے آیات قرآنیہ ، احادیث نبویہ اور اقوال صحابہ اور ائمہ کی روشنی میں ماں کی شان وعظمت کوبیان کرنے بعد جدید تہذیب میں جو ماں کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے اسے بیان کیا ہے ۔(م۔ا)
کھجور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے وہ نعمت ہے اور یہ ایسا بابرکت ، لذیز اور شیریں پھل ہے جو مولد خون، مقوہ باہ ، اور مقوی اعصاب ہے۔ جس کا قرآن وحدیث میں کئی مواقع پر ذکر آیا ہے ۔ یہ انبیاء اور صالحین کی پسندیدہ غذا رہی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے کھجور کے پھل کو بے حد پسند فرمایا۔ آپ ﷺ اس سے روزہ افطار کرنے کو بھی پسند فرماتے۔ اسے اردو میں کھجور ، پنجابی میں کھجی، عربی میں نخل کہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ قرآن وحدیث ا ور علمِ طبّ کی روشنی میں کھجور کی اہمیت وافادیت ‘‘ مولانا محمد عبد اللہ (فاضل جامعہ اشرفیہ ،لاہور ) کی تصنیف ہے موصوف نے اس کتاب میں اس بابرکت پھل کی تاریخ، اس کی خصوصیات قرآن وحدیث میں کن کن مقامات پر اس کا تذکرہ ہے اور طبی نقطۂ نظر سے اُس کے کیا کیا فوائد ہیں ۔ یہ سب باتیں اس کتاب میں بڑی حسنِ خوبی کےساتھ بیان کی ہیں ۔(م۔ا)
اسلام نے اپنے اصولِ حکمرانی میں عدل وانصاف کو بے پناہ اہمیت دی ہے۔ یہ ایسا الٰہی نظام حیات ہے جس کامزاج انسانوں کے خود ساختہ رائج الوقت قوانین سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ یہ تمام انسانی قوانین سے ممتازاور ہردو ر،ہر زمانے کےتقاضے پورے کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد اہل پاکستان کی مسلسل یہ خواہش اورکوشش رہی ہے کہ اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں آئے۔بالخصوص جنرل ضاء الحق دور حکومت میں قوانین اسلام کے نفاذ کی کوششیں قابل ذکر ہیں ۔حدود آرڈی ننس نافذ کیا گیا اور وفاقی شرعی عدالت شرعی نقظۂ نظر سے مقدمات کی سماعت بھی کرتی رہی ۔ زیر نظر کتاب ’’ حدود وتعزیرات ‘‘ ادارہ تحقیقات اسلامی کے سکالرز کی مرتب شد ہے ۔ادارہ تحقیقات اسلامی نے حدود وتعزیرات کے متعلق فقہ اسلامی کی مستند کتب سےمنتخب ابواب کا ترجمہ کروا کراسے مرتب کروا کرشائع کیا۔ اس کتاب میں فقہ حنفی کے علاوہ اہل سنت کے باقی تین فقہی بھی ذکر کیے گیے ہیں تاکہ ماہرین قانون کے سامنے زیر بحث مسئلہ کی تمام تفصیلات اور مختلف فقہا کی آراء سامنے آجائیں۔ یہ کتاب ادارہ تحقیقات اسلامی کے سلسلہ تراجم مصادر قانون اسلامی کا پہلا سلسلہ ہے جوکہ جنرل ضیاء ا لحق کے دور حکومت میں خاص طور پر وکلاء اور جج صاحبان کے لیے تیار کی گی تھی ۔ فقہ اسلامی کی مستند کتابوں سے منتخب ابواب کے ترجمہ وترتیب کا کام ڈاکٹر احمد حسن ،صدیق ارشد خلجی، غلام مرتضیٰ آزاد نہیں کیا ہے۔(م۔ا)
اللہ تعالی نے جن وانس کو صر ف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات:56) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا وہ صرف میری عبادت کریں‘‘ لیکن عبادت کےلیے اللہ تعالیٰ نے زندگی کا کو ئی خاص زمانہ یا سال کا کوئی مہینہ یا ہفتے کا کو ئی خاص دن یا کوئی خاص رات متعین نہیں کی کہ بس اسی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور باقی زمانہ عبادت سے غفلت میں گزار دیا جائے بلکہ انسان کی خلقت کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے ۔ سن بلوغ سے لے کر زندگی کے آخری دم تک اسے ہر لمحہ عبادت میں گزارنا چاہیے ۔ لیکن اس وقت مسلمانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہے اور بعض مسلمانوں نے سال کے مختلف مہینوں میں صرف مخصوص دنوں کو ہی عبادت کےلیے خاص کررکھا ہے اور ان میں طرح طرح کی عبادات کو دین میں شامل کر رکھا ہے جن کا کتاب وسنت سے کوئی ثبوت نہیں ہے ۔اور جس کا ثبوت کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ سے نہ ملتا ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔انہی بدعات میں سےماہ رجب اور ماہ شعبان کی بدعات ہیں ۔ رجب اسلامی سال کا ساتواں قمری مہینہ ہے اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے نبیﷺ نے فرمایا ’سال بارہ مہینوں کاہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں لفظ رجب ترجیب سےماخوذ ہے کہ جس کے معنی تعظیم کے ہیں ،اس مہینے کی تعظیم اور حرمت کی وجہ سے اس کا نام ’’رجب ‘‘ رکھا گیا کیوں عرب اس مہینے میں لڑائی سے مکمل اجتناب کرتے تھے ۔اس مہینےمیں کسی نیک عمل کو فضیلت کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا جن بعض اعمال کوفضیلت کےساتھ کے بڑھا چڑہا کر بیان کیاجاتا ہے وہ محض فرضی قصے اور ضعیف و موضوع روایات پر مبنی داستانیں ہیں لہذا جواعمال کتاب وسنت سےثابت ہیں ان پر عمل کرنا چائیے مسلمان اس ماہِ رجب میں کئی قسم کے کام کرتے ہیں مثلا صلاۃ الرغائب، نفلی روزں کا اہتمام ، ثواب کی نیت سے اس ماہ زکوۃ دینا ،22 رجب کو کونڈوں کی رسم اداکرنا 27 رجب کو شب معراج کی وجہ سے خصوصی عبادت کرنا، مساجد پر چراغاں کرنا جلسے وجلوس کااہتمام کرنا،آتش بازی اور اس جیسی دیگر خرافات پر عمل کرنایہ سب کام بدعات کے دائرے میں آتے ہیں ۔ اسلامی کیلنڈر کا آٹھواں مہینہ شعبان کا مہینہ ہے اس مہینے کو رجب اور رمضان کے مابین ہونے کی وجہ سے شعبان کہا جاتا ہے ۔حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضوراکرم ﷺکوشعبان کا مہینہ بہت پسند تھا اورآپ ﷺشعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے اور اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور شعبان کے مہینے میں اپنے گناہوں کو آنسوؤں سے دھونے کا اہتمام کرنا چاہئے جس سے دل پاک ہوجاتا ہے ۔شعبان کے روزے نفلی عبادت ہے۔ ماہ شعبان میں شب برات کے سلسلے میں کئی بدعات ہمارے معاشرہ میں رواج پاچکی ہیں ہیں جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’بدعات رجب وشعبان ‘‘مولانا محمدمنیر قمر﷾ (مترجم ومصنف کتب کثیرہ کے آٹھ ریڈیائی تقاریرکا مجموعہ ہےجو متحدہ عرب امارات ام القیوین کی اردو سروس سے انہوں نے بدعات رجب وشعبان کے نام سے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیے ۔ بعد ازاں ان تقاریر کو مولانا کی صاحبزادی نبیلہ قمر نے اپنے والد گرامی کے خطابات کو تحریر کی شکل میں منتقل کیا ۔ اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو عامۃ الناس کی اصلاح کاذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحیدِ خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل شہید تھے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 6 مئی 1831ء بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حرّیت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ ’’اگر مولانا محمد اسماعیل شہید کےبعد ان کے مرتبہ کاایک مولوی بھی پیدا ہوجاتا تو آج ہندوستان کے مسلمان ایسی ذلت کی زندگی نہ گزارتے۔ سید محمد اسماعیل شہید اور ان کےبےمثل پیرو ومرشد سید احمد شہید اور ان کےجانباز رفقاء کی شہادت کےبعد ،بقیۃ السیف مجاہدین نے دعوت واصلاح وجہاد کاعلم سرنگوں نے نہ ہونے دیا بلکہ اس بے سروسامانی کی کیفیت میں اسے بلند سےبلند تر رکھنے کی کوشش کی ۔سید اسماعیل شہید اور ان کےجانباز رفقاء اوران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک کو زندہ رکھنے والے مجاہدین کی یہ داستان ہماری ملی غیرت اور اسلامی حمیت کی سب سے پر تاثیر داستان ہے۔ ان اللہ والوں نےاللہ کی خاطر آلام ومصائب کوبرداشت کیا ،آتش باریوں اور شمشیرزنیوں کی ہنگامہ آرائیوں میں جانیں دے دیں،خاندان ،گھر بار اور جائیدادوں کی قربانیاں دیں ۔ جیل کی کال کوٹھڑیوں اور جزائر انڈیمان یعنی کالاپانی کی بھیانک اور خوفناک وحشت ناکیوں میں دن بسر کیے ۔لیکن جبیں عزیمیت پر کبھی شکن نہ آنے دی اور پائے استقامت میں کبھی لرزش پیدا نہ ہونے دی۔ زندگی کےہرآرام اور ہر عیش کو نوکِ حقارت سے ٹھکراتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ۔ زیر نظرکتاب ’ ’تحریک سید احمد شہید المعروف شید احمد شہید‘‘ معروف مؤرخ وسوانح نگار مولانا غلام رسول مہر کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نےمجاہد کبیر سید احمد شہید اور ان کےعالی ہمت رفقا کے ایمان افروز واقعات کو بڑے احسن انداز میں بیان کیاہےیہ کتاب جماعت مجاہدین ، سرگزشتِ مجاہدین کے عنوان بھی شائع ہوئی ہے ۔مکتبہ الحق، ممبئی نےاسے دس سال قبل جدید عنوان’’ تحریک سید احمد شہید‘‘ کے ساتھ چار جلدوں میں شائع کیا ہے ۔ یہ چار ضخیم جلدیں تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہیں ۔(م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے سب سے آخری کتاب ہے ۔جسےاللہ تعالی نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں،عالمِ اسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، جبکہ مغرب ،الجزائر ،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت امام نافع بروایت ورش ، لیبیا ،تیونس اور متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع ،مصر، صومالیہ، سوڈان اور حضر موت میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج اور متداول ہے۔ہمارے ہاں مجلس التحقیق الاسلامی میں ان چاروں متداول روایات(اور مزید روایت شعبہ) میں مجمع ملک فہد کے مطبوعہ قرآن مجید بھی موجود ہیں۔عہد تدوین علوم سے کر آج تک قراءات قرآنیہ کے موضوع پر بے شمار اہل علم اور قراء نے کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ علم قراءات کے میدان میں پہلا مرحلہ قراءات سبعہ کا ہے جس کے لیے شاطبیہ پڑھی پڑھائی جاتی ہے ۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ قراءات ثلاثہ کا ہے ، اس کے لیے علامہ جزری کی کتاب الدّرّة المضية پڑھائی جاتی ہے ۔اس کے پڑھنے سے قراءات عشرہ کی تکمیل ہوجاتی ہے الدّرّة المضية قراءات ثلاثہ پر اہم ترین اساسی اور نصابی کتاب ہے اور قراءات ثلاثہ کی تدریس کے لئے ایک مصدر کے حیثیت رکھتی ہے۔اللہ تعالی نے اسے شاطبیہ کی مانند بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے، متعدد علماء اور قراءنے الدّرّة المضية كی عربی اور اردو شروح لکھیں ہیں ۔زیر کتاب ’’ تسهیل الدر شرح الدّرّة المضية‘‘ شیخ القراء قاری احمد میاں تھانوی کے شاگرد رشید جناب قاری قسمت اللہ (مدرس جامعہ دار العلوم ،کراچی کی کاو ش ہے الله تعالیٰ قاری قسمت اللہ صاحب کی ا س کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ۔( آمین) موصوف نے تجوید وقراءات کے متعلق کتاب ہذا کے علاوہ متعدد کتب تصنیف کی ہے ہیں ۔(م۔ا)