علامہ ناصر الدین البانی عالم اسلام کی مشہور و معروف علمی شخصیت ہیں۔ آپ نے کتب کی شکل میں جو ورثہ چھوڑا ہے اس کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ بہت سے علماے کرام علامہ موصوف کو گزشتہ صدی کا مجدد قرار دیتے ہیں۔ زیر مطالعہ کتابچہ دراصل ایک ٹیلی فونک خطاب ہے جو شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے وعظ و نصیحت پر مشتمل ہے۔ 70 صفحات پر مشتمل اس کتابچہ میں شیخ صاحب نے امت مسلمہ کے لیے اپنا کھویا ہوا وقار اور عروج حاصل کرنے کی صحیح سمت متعین کرنے کی کوشش کی ہے، جوکہ آپ کی علمی بصیرت اور امت کے لیے پرخلوص خیر خواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ علامہ صاحب کا کہنا ہے کہ امت مسلمہ کی مشکلات کا واحد حل فہم سلف کے مطابق کتاب و سنت کے ساتھ تمسک یعنی سلفی منہج اختیار کرنے میں ہے۔ کتابچہ کے شروع میں مختصر انداز میں علامہ صاحب کی زندگی کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخر میں اپنے آپ کو سلفی کہلانے کے موضوع پر ایک دلچسپ مکالمہ نقل کیا گیا ہے جو شیخ صاحب کا ایک دوسرے سلفی صاحب کے ساتھ ہوا۔ یہ مکالمہ ہر خاص و عام کو مطالعہ کرنا چاہیے جس سے بہت سے اشکالات رفع ہوں گے۔ (ع۔م)
اللہ تبارک وتعالیٰ کے تنہالائقِ عبادت ہونے ، عظمت وجلال اورصفاتِ کمال میں واحد اور بے مثال ہونے اوراسمائے حسنیٰ میں منفرد ہونے کا علم رکھنے اور پختہ اعتقاد کےساتھ اعتراف کرنے کانام توحید ہے ۔توحید کے اثبات پر کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ میں روشن براہین اور بے شمار واضح دلائل ہیں ۔ اور شرک کام معنیٰ یہ کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرائیں جبکہ اس نےہی ہمیں پیدا کیا ہے ۔ شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کوجہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے قرآن کریم میں شرک کوبہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے اور شرک ایسا گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے تمام گناہوں کو معاف کردیں گے لیکن شرک جیسے عظیم گناہ کو معاف نہیں کریں گے ۔شرک اس طرح انسانی عقل کوماؤف کردیتا ہےکہ انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے ۔نیز شرک اعمال کو ضائع وبرباد کرنے والا اور ثواب سے محروم کرنے والا عمل ہے ۔ پہلی قوموں کی تباہی وبربادی کاسبب شرک ہی تھا۔ چنانچہ جس کسی نے بھی محبت یا تعظیم میں اللہ کے علاوہ کسی کواللہ کے برابر قرار دیا یا ملت ابراہیمی کے مخالف نقوش کی پیروی کی وہ مشرک ہے۔ زیر نظر کتاب &rsquo...
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ کہ وہ دعوت وتبلیع او راشاعتِ دین کا کام اسی طرح انتہائی محنت اور جان فشانی سے کرے جس طرح خو د خاتم النبین ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام کرتے رہے ہیں ۔ مگر آج مسلمانوں کی عام حالت یہ ہے کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ تو بہت دور کی بات ہے وہ اسلامی احکام پرعمل پیرا ہونے بلکہ اسلامی احکام کا علم حاصل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے ۔ اور یہ بات واضح ہی ہے کہ دعوت وتبلیغ سے پہلے عمل کی ضرورت ہوتی اور عمل سے پہلے علم کی ۔تبلیغ کی اہمیت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے بے شمار انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا اورچونکہ یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر مکمل ہو چکا ہے اس لیے اب یہ ذمہ داری امت مسلمہ پر ہے۔تبلیغ کے موثر او رنتیجہ خیز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ اور انبیا کا اسوہ اور دیگر شرعی اصول مبلغ کے لیے پیش نظر رہیں ۔ کیونکہ انبیاء&...