نمازِ تراویح نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے اورصحیح احادیث سے ثابت ہے۔سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز اداکی، لوگوں نے بھی آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر آپﷺنے دوسری رات نماز پڑھی اور لوگوں کی بھی کثیر تعداد نے آپﷺ کے ساتھ نماز ادا کی، پھر لوگ اسی طرح تیسری یا چوتھی رات میں بھی جمع ہوئے لیکن رسول اللہﷺتشریف نہ لائے اور جب صبح ہوئی تو آپ ﷺنے فرمایا:’’تم لوگوں نے جو کیا میں نے اسے دیکھا ہے اور گھر سے میں اس لیے نہیں نکلا کہ مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں اس نماز کو تم پر فرض قرار نہ دے دیا جائے۔صحیح احادیث کے مطابق رکعاتِ تراویح کی مسنون تعداد بشمول وتر گیارہ ہے ۔مسنون تعداد کا مطلب وہ تعداد ہےجو اللہ کے نبی ﷺ سے بسند صحیح ثابت ہے ۔ زیر کتابچہ’’ مختصر قیام رمضان ‘‘علامہ ناصر الدین البانی کی ’’ صلاۃالتراویح‘‘ کے اختصار کا اردو ترجمہ ہے یہ اختصار بھی علامہ البانی نے خود ہی کیا تھا اختصار میں علامہ مرحو نے اعتکاف وغیرہ سےمتعلق بعض مفید باتوں کا اضافہ بھی کیا ہے ۔علامہ موصوف نے اس کتاب میں نماز تراویح کی آٹھ رکعات کو ثابت کرنے کے علاوہ یہ بھی ثابت کیا ہے جو سیدنا عمرفاروق کے مشہور ہے کہ انہوں نے بیس رکعت تراویح کی بنیاد رکھی وہ بالکل غلط ہے نہ توسیدنا عمرفاروق نے بیس رکعت کا حکم دیا اورنہ آپﷺ نےخود بیس رکعت تراویح پڑھی اورنہ ہی آپ کے زمانے میں بیس رکعت تراویح پڑھی گئی ، بلکہ علامہ مرحوم نے تو یہاں تک ثابت کیا کہ کسی بھی بڑے صحابی سےبیس رکعت پڑھنا ثابت نہیں اور سیدنا عمرفاروقنے نبی کریم ﷺ کی سنت کےمطابق گیارہ رکعت ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا ۔اللہ تعالیٰ مترجم وناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اورمحدث العصر ناصر الدین البانی کی مرقد پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے ۔(آمین) (م۔ا)
مسلمان کی اصل کامیابی قرآن مجیداور احادیث نبویہ میں اللہ اور رسول اکرم ﷺ کی جو تعلیمات ہیں ان کی پیروی کرنے اوران کی خلاف ورزی یا نافرمانی نہ کرنے میں ہے اللہ اور رسولﷺکی اطاعت عقائد ،عبادات ،معاملات ، اخلاق کردار ہر الغرض ہر میدان میں قرآن واحادیث کو پڑھنے پڑھانے سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل پیرا ہونےکی صورت میں ہوسکتی ہے مسلمانوں کوعملی زندگی میں اپنے سامنے قرآن وحدیث ہی کو سامنے رکھنا چاہیے اور سلسلے میں صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے راہنمائی لینے چاہیے کہ انہوں نے قرآن وحدیث پر کیسے عمل کیا کیونکہ انہی شخصیات کو اللہ تعالی نے معیار حق قرار دیا ہے۔ اورنبی ﷺنے بھی اختلافات کی صورت میں سنتِ نبویہ اور سنت خلفائے راشدین کو تھام نے کی تلقین کی ہے جب مسلمان سنت ِنبویہ اور خلفائے راشدین کے طرز ِعمل کوچھوڑ دیں گے تو وہ دین میں نئے نئے کام ایجاد کرکے بدعات میں ڈوب جائیں گے اور سیدھے راستے سے بھٹک جائیں گے یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے ۔متازعہ مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ بارہ ربیع الاول کو میلاد النبی ﷺ منانےکاہے بہت سارے مسلمان ہرسال بارہ ربیع الاول کو عید میلادالنبی ﷺ او رجشن مناتے ہیں ۔عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا ہے ، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، نعت خوانی کےلیے محفلیں منعقدکی جاتی ہیں اور بعض ملکوں میں سرکاری طور پر چھٹی کی جاتی ہے۔ لیکن اگر قرآن وحدیث اور قرون اولیٰ کی تاریخ کا پوری دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہےکہ قرآن وحدیث میں جشن عید یا عید میلاد کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ نبی کریم ﷺ نے اپنا میلاد منایا او رنہ ہی اسکی ترغیب دلائی ، قرونِ اولیٰ یعنی صحابہ کرام ﷺ ،تابعین،تبع تابعین کا زمانہ جنھیں نبی کریم ﷺ نے بہترین لوگ قرار دیا ان کے ہاں بھی اس عید کوئی تصور نہ تھا اورنہ وہ جشن مناتے تھے اور اسی طرح بعد میں معتبر ائمہ دین کےہاں بھی نہ اس عید کا کو ئی تصور تھا اور نہ وہ اسے مناتے تھے او ر نہ ہی وہ اپنے شاگردوں کو اس کی تلقین کرتےتھے بلکہ نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے جشن منعقد کرنے کا آغاز نبی ﷺ کی وفات سے تقریبا چھ سو سال بعد کیا گیا ۔اس بدعت میلاد کےبارے میں کافی کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن پھربھی برصغیر پاک وہند کے، یورپین ممالک بالخصوص انگلینڈ کے اہل بدعت مولوی اس رسم کے احیا ءوترویج کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ وہ سادہ لوح عوام کواصل دین تو کیا بتاتے ،یہود ونصاریٰ کی نقل میں انہیں چند بےاصل رسومات کا خوگر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگائے ہوئے ہیں۔ان کے نزدیک نماز، روزہ، زکوۃ، حج اور حلال وحرام کی تمیز اتنی اہم نہیں جتنی ان بدعات کی آبیاری اور پاسداری۔انگلینڈ میں جہاں پاکستان وہندی الاصل مسلمانوں کی دوسری نسل وجود میں آچکی ہےاور جو مغربی تہذیب کےسایہ میں پروان چڑھ کر خود اپنے دین و ایمان کی بازی لگا چکی ہے۔ وہاں بجائے اس کے کہ انہیں تعلیم وتربیت ،نصیحت وفہمائش اور پیار ومحبت سے اصل دین کی طرف مائل کیاجاتا،بدعتی علماء انہیں میلاد کےجلوسوں ،گیارہویں کے لنگر وں ،مُردوں کےختم اور پیروں فقیروں کےلاتعداد عرسوں پر مشتمل ایک خود ساختہ دین کا عادی بنارہے ہیں۔الحمد للہ دیار غیر میں ایسے علماء حق بھی موجود ہیں جودین کے نام پر کی جانے والی دکانداری کو خوب سمجھتے ہیں اور تحریر وتقریر کےذریعہ قرآن وسنت کی صحیح تعلیمات کو اجاگر کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’جشن وجلوس عید میلاد النبیﷺ غلو فی الدین‘‘ انگلینڈمیں مقیم جناب فضل الرحمٰن صدیقی صاحب کی کاوش ہے ۔ انہوں نے اس کتاب میں میلاد کے جوازپر مصر اہل بدعت کےپیش کردہ ہفوات کوقرآن وسنت،تعامل صحابہ، فرمودات ائمہ وربعد کے ادوار کےعلماء عظام کی تحقیقات کی روشنی میں خس وخاشاک کی مانند اکھاڑ پھینکا ہے۔مصنف موصوف اہل بدعت کےسرخیل پیشواؤں کی تحریروں کے خوب شناسا ہیں اس لیے انہو ں نے کمال محنت کےساتھ ان کے اصل روپ کونمایاں کیا ہے جو حب رسول ﷺکے لبادہ میں درحقیقت اہانتِ رسولﷺ کاغماز ہے۔اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس کاوش کوقبول فرمائے اوراسےعوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے ۔ (آمین) (م۔ا)
ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر عمل میں احکامات الٰہی کو مد نظر رکھے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تقلیدی رجحانات کی وجہ سے بعض ایسی چیزیں در آئی ہیں جن کا قرآن وسنت سے ثبوت نہیں ملتا۔اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق رکھے ہیں جن کو ادا کرنا اخلاقی اور شرعی فرض بنتا ہے اور انہیں حقوق العباد کا درجہ حاصل ہے۔ان پانچ حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان بھائی فوت ہو جائے تو اس کی نمازہ جنازہ ادا کی جائے اور یہ نمازہ جنازہ حقیقت میں اس جانے والے کے لیے دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اگلی منزل کو آسان فرمائےاس لیے کثرت سے دعائیں کرنی چاہیں۔لیکن بدقسمتی یہ ہے عوام الناس میں اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو جنازے کے مسائل تو دور کی بات جنازہ میں پڑھی جانے والی دعائیں بھی یاد نہیں ہوتیں جس وجہ سے وہ اپنے جانے والے عزیز کے لیے دعا بھی نہیں کر سکتے۔جبکہ اس کے مقابلے میں بعد میں مختلف بدعات کو اختیار کر کے مرنے والے کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ ظاہر کرنا چاہتے ہوتے ہیں جو کہ درست نہیں اورشریعت کےخلاف ہے۔(م۔ا)
علومِ نقلیہ کی جلالت وعظمت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر یہ بھی حقیقت کہ ان کے اسرار ورموز اور معانی ومفاہیم تک رسائی علم نحو کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ علومِ عربیہ میں علم نحو کو جو رفعت ومنزلت حاصل ہے اس کا اندازہ اس امر سے بہ خوبی ہو جاتاہے کہ جو بھی شخص اپنی تقریر وتحریر میں عربی دانی کو اپنانا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے نحو کےاصول وقواعد کی معرفت کا محتاج ہوتا ہے کلام ِالٰہی ،دقیق تفسیر ی نکات،احادیث رسول ﷺ ،اصول وقواعد ،اصولی وفقہی احکام ومسائل کا فہم وادراک اس علم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا یہی وہ عظیم فن ہےکہ جس کی بدولت انسان ائمہ کےمرتبے اور مجتہدین کی منزلت تک پہنچ جاتاہے ۔عربی مقولہ ہے : النحو فی الکلام کالملح فی الطعام یعنی کلام میں نحو کا وہی مقام ہے جو کھانے میں نمک کا ہے ۔ قرآن وسنت اور دیگر عربی علوم سمجھنےکے لیے’’ علم نحو‘‘کلیدی حیثیت رکھتاہے اس کے بغیر علوم ِاسلامیہ میں رسوخ وپختگی اور پیش قدمی کاکوئی امکان نہیں ۔ قرنِ اول سے لے کر اب تک نحو وصرف پرکئی کتب اور ان کی شروح لکھی کی جاچکی ہیں ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ زیر نظر کتاب ’’اجراء نحو وصرف مع اصطلاحات نحویہ‘‘ محمد الیان بن عبد اللہ گڈھوی (مدرس مدرسہ دعوۃ الایمان،گجرات ،ہند) کی مرتب شدہ ہے انہوں نے اس کتاب کو چارمرحلوں میں تقسیم کیا ہے ۔پہلا مرحلہ کلماتِ ثلاثہ کی شناخت ۔دوسرا مرحلہ اعراب اور وجوہِ اعراب کا ہے ۔تیسرا مرحلہ ترکیبی اجزاء یعنی کلمہ کےسیاق وسباق سے تعلق کا ہے ،یعنی ہر کلمے کا اپنے ماقبل ومابعد سےکیا ربط ہے۔ چوتھا مرحلہ ا قسامِ جملہ یعنی جملہ اسمیہ ،فعلیہ وغیرہ۔یہ کتاب عربی عبارات پر عبور حاصل کرنے کےلیے بے حد مفید ہے ۔(م۔ا)
اللہ کہاں ہے؟ یہ ایک محض ایک سوال ہی نہیں بلکہ اسلامی عقائد میں سے ایک اہم ترین عقیدہ ہے،جو براہ راست اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات مبارک سے متعلق ہے قرآن مجید کی اس آیت کریمہ الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہیں اور یہی اہل سنت والجماعت (سلف صالحین) کا عقیدہ ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کے عرش پر مستو ی ہو نے کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے جس طرح اﷲتعالیٰ کی شان کے لا ئق ہے اسی طرح وہ عرش پر مستوی ہے ہماری عقلیں اْس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور اﷲ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ ہرجگہ موجود ہے کیونکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے البتہ اْس کا علمِ اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے، اْس کی معیت ہر کسی کو حا صل ہے جس کی وضاحت کتب عقائد میں موجود ہے ۔محقق العصر علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری ﷾ نے زیر نظرکتاب ’’ اللہ کہاں ہے ؟‘‘ میں قرآن وسنت ، اقوال صحابہ وائمہ محدثین کی روشنی اسی عقیدے کو علمی انداز میں ثابت کیا ہے۔شاید یہ کتاب ابھی مطبوع نہیں ہے ہمیں پی ڈی ایف فارمیٹ موصول ہوئی تواسے کتاب وسنت سائٹ کے قارئین لیےپبلش کردیا ہے ۔اللہ تعالیٰ علامہ امن پوری ﷾ کی تدرسی، دعوتی ،تحقیقی وتصنیفی مساعی کوقبول فرمائے ۔آمین)(م۔ا)
انسانی دنیا میں اختلاف کا پایا جانا ایک مسلمہ بات ہے ۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق میں ایک سنت۔ چنانچہ لوگ اپنے رنگ وزبان اور طبیعت وادراکات اور معارف وعقول اور شکل وصورت میں باہم مختلف ہیں ۔امت محمدیہ آج جن چیزوں سے دوچار ہے ،اور آج سے پہلے بھی دو چار تھی ،ان میں اہم ترین چیز بظاہر اختلاف کا معا ملہ ہے جو امت کے افراد وجماعتوں، مذاہب وحکومتوں سب کے درمیان پایا جاتا رہا اور پایا جاتا ہے یہ اختلاف کبھی بڑھ کر ایسا ہوجاتا ہے کہ گروہ بندی تک پہنچ جاتا ہے اور یہ گروہ بندی باہمی دشمنی تک اور پھر جنگ وجدال تک ذریعہ بنتی ہے ۔اور یہ چیزیں اکثر دینی رنگ وعنوان بھی اختیار کر لیتی ہیں جس کے لیے نصوصِ وحی میں توجیہ وتاویل سے کام لیا جاتا ہے ، یا امت کے سلف صالح صحابہ وعلماء واصحاب مذاہب کے معاملات وحالات سے استناد حاصل کیا جاتا ہے ۔اور اختلاف اساسی طورپر دین کی رو سے کوئی منکر چیز نہیں ہے ،بلکہ وہ ایک مشروع چیز ہے جس پر کتاب وسنت کے بے شمار دلائل موجود ہیں۔علم الاختلاف سے مراد ان مسائل کا علم ہے جن میں اجتہاد جاری ہوتا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’اہل حدیث اوراحناف کے درمیان اختلاف کیوں؟ ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ‘‘ خطیب الہند مولانا محمد جوناگڑھی کی تصنیف ہے اس کتاب میں انہوں نے احناف کےاس دعوے ( فقہ حنفی کی کتابوں کاایک بھی مسئلہ خلافِ حدیث نہیں بلکہ یہ فقہ قرآن وحدیث کا مغز گودا اور عطر ہے ) کو غلط ثابت کیا ہےاور اس دعوے کی حقیقت سے مسلمانوں کوآگاہ کرنے کے علاوہ یہ بتایا ہے کہ فقہ میں سیکڑوں مسائل احادیث صحیحہ کےصریخ خلاف ہیں (م۔ا)
ابو الاثر حفیظ جالندھری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مقبول رومانی شاعر اور افسانہ نگار تھے جنہوں نے پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی موصوف ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔ آزادی کے وقت 1947ء میں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پوری کیا۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنالی۔ حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ زیر نظر کتاب ’’ شاہنامہ اسلام‘‘ ہے ۔ اس میں انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔یہ کتاب اسلام کی منظوم تاریخ ہے اس کتاب کا بیشتر حصہ اس عہد عہد زریں سےتعلق رکھتا ہے جب اسلام کےہادی اعظم اپنے جمالِ جہاں آراسے دنیا کو نورانی کررہے تھے۔(م۔ا)
لأهل العلم في شبة القار الهندية إسهامات جليلة في خدمة القرآن والسنة وعلومهما، ومن هذه الجهود المباركة ، كتاب: ترجمات معاني القرآن الإنجليزية، دراسة نقدية وتحليلية من سنة 1930 إلى 2001م. وأصل الكتاب رسالة علمية تقدم بها الباحث لنيل درجة الدكتوراه من جامعة جواهر لال نهرو بنيو دلهي الهند . وقد اختار الباحث تسعة من المترجمين الذين قاموا بترجمة معاني القرآن إلى اللغة الانجليزية وهم : بيثكال وعبدالله يوسف وآربيري وشير علي وعبدالماجد الدريابادي وم. شاكر وظفر الله خان وإرونغ وتقي الدين الهلالي ومحمد محسن خان. وقد قسم الباحث هذه الرسالة إلى خمسة أبواب: الباب الأول والثاني في بعض المباحث التمهيدية الباب الثالث : تاريخ بدء ترجمة معاني القرآن لعدد من اللغات ، مع استقصاء ترجمات معاني القرآن للغة الإنجليزية خصوصاً مرتبة حسب تاريخها، وهذا هو المدخل الحقيقي للبحث .الباب الرابع: دراسة نقدية وتحليلية لترجمات القرآن الإنجليزية المختارة ، وقد قسمه الباحث إلى عشرة فصول هي: الفصل الأول في مفردات القرآن والثاني في عبارات القرآن الخاصة والثالث في أساليب القرآن المختارة والرابع في قضايا متعلقة بالنحو والصرف والخامس في ذكر بعض المعارف والمصطلحات الواردة في القرآن... ألخ. الباب الخامس: خاتمة وملخص للحديث السابق ، وفيه إشارة إلى أفضل الطرق للترجمة الصحيحة للقرآن وكيفيتها. والباحث قدم أفكاراً مفيدة جداً في تناول هذه القضية ، ویجدر التنبيه إلى أن الباحث من "مدرسة الإصلاح" التي أنشأها الشيخ عبدالحميد الفراهي وهو صاحب "تدبر القرآن" وللعلماء على منهجه في التفسير ملاحظات، ربنا اغفرلنا ولأخواننا الذين سبقوا بالإيمان ولا تجعل في قلوبنا غللا للذين أمنوا ربنا إنك رؤف رحيم- وقد قدم للكتاب الأستاذ الدكتور فهد الرومي، الأستاد بجامعة الملك سعود، كلية المعلمين-والكتاب طبع قبل عشر سنوات، ولكنه غير متوفر على الشبكة حتى الآن، وتسعد مكتبة المحدث لرفع النسخة المصورة من الكتاب، لكي تعم الفائدة ويكثر النفع. والله الموفق.(م۔ا)
اسلامی تاریخ میں جو شخصیات مسلمانوں کےلیے سرمایۂ افتخار کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں ایک نمایاں نام سلطان یوسف المعروف صلاح الدین ایوبی کا ہے جنہوں نے اپنی بے مثال شجاعت اور جرأت واستقلال سے قبلۂ اول فلسطین کو صلیبیوں کے پنجۂ استبداء سے آزادکروایا ۔سلطان صلاح الدین ایوبی کی پوری زندگی ان کے دلیرانہ اور بہادرانہ کارناموں سے بھری پڑی ہے موصوف نے ہمیشہ ملت کے دفاع کااور اسلام کی سربلندی کےلیے اپنی شمشیر کو بے نیام کرتے ہوئے میدان قتال مین دادشجاعت دی ہےسلطان صلاح الدین ایوبی نے آخری چھ سالوں جوکہ سلطان کی حیات کے سب سے قیمتی اور یادگار ایام ہیں کہ جن میں انہوں نے مسلسل صلیبیوں کو گھیر گھیر کر ان کا شکار کرتے ہوئے بیت المقدس کو ان کے ناپاک عزائم سے بچانے کےلیے اللہ کے گھر کی عزت وناموس کی رکھوالی کے لیے دن رات اپنی جان ہتھیلی پرلیے شمشیروں کی چھاوں میں ،تیروں کی بارش میں ،نیزوں کی انیوں میں،گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر اس کو دشمن کی صفوں میں سرمیٹ دوڑاتے ہوئے تلوار بلند کرتے ہوئے اللہ کے باغیوں ،کافروں ،ظالموں کی گردنیں اڑاتے ہوئے بسرکیا ۔ زیر نظر کتاب ’’ صلاح الدین ایوبی ‘‘قاضی عبد الستار کی تصنیف ہے جس میں ا نہوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی دلیرانہ اور بہادرانہ ایمان افروز زندگی کو ایک ناول کی صورت میں دلچسپ انداز میں مرتب کیا ہے ۔(م۔ا)
بیت اللہ کا حج ارکانِ اسلام میں ایک اہم ترین رکن ہے۔ بیت اللہ کی زیارت او رفریضۂ حج کی ادائیگی ہر صاحب ایمان کی تمنا اورآرزو ہے۔ ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک دفعہ فریضہ حج کی ادائیگی فرض ہے، اور اس کے انکار ی کا ایمان کامل نہیں ہے اور وہ دائرہ اسلام سےخارج ہے۔ اجر وثواب کے لحاظ سے یہ رکن بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے تمام كتبِ حديث وفقہ میں اس کی فضیلت اور احکام ومسائل کے متعلق ابو اب قائم کیے گئے ہیں اور تفصیلی مباحث موجود ہیں ۔حدیث نبوی ہے کہ آپ ﷺنےفرمایا "الحج المبرور لیس له جزاء إلا الجنة "حج مبرور کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں ۔حج وعمرہ کے احکام ومسائل کے متعلق اب تک اردو و عربی زبان میں چھوٹی بڑی بیسیوں کتب لکھی جاچکی ہیں۔ہرسال لاکھوں لوگ پاکستان سے حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرتے ان میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو حج وعمرہ کے احکام ومسائل اور حج وعمرہ کی اصطلاحات سے واقفیت رکھتےہیں ۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’حج وعمرہ قدم بقدم‘‘ المدینہ اسلامک ریسرچ سنٹر،کراچی کی رفیق خاص محترم جناب عثمان صفدر (فاضل مدینہ یونیورسٹی )کا مرتب شدہ ہے اس مختصر کتابچہ میں فاضل مرتب نے حج وعمرہ کے آغاز یعنی سفر کی تیاری سے واپسی تک حج وعمرہ کےمکمل طریقہ اورجملہ احکام ومسائل کو آسان فہم انداز میں پیش کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرتب وناشرین کی اس عمدہ کاو ش کوقبول فرمائے ۔(آمین)( م۔ا)
قرآن کریم انسانوں کی رہنمائی کےلیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے آخری کتاب ہے ۔اس میں تمام سابقہ آسمانی کتابوں کا نچوڑ اور لب لباب موجود ہے اس لیے یہ کتاب اس مقام پر اانسان کی رہنمائی کرتی ہے جہاں اس کی عقل اپنی آخری حدوں کو چھولینے کے بعد حیران راہ جاتی ہے اس کتاب میں اللہ تعالیٰ نے انسان کوجگہ جگہ اپنی قدرت کی نشانیوں کےذریعے اپنے آپ کوپہچاننے کی دعوت دی ہے ۔کہیں انسان کو اپنے بدن پر غور کرنے کی دعوت ہے تو کہیں اپنے ماحول پر ۔کہیں آسمانوں پر غور کرنے کو کہا جارہا ہے توکہیں پانی اورآگ پر نظر التفات کرنے کی دعوت دی جاتی ہے ۔اس دعوت کا مقصود صرف اور صرف یہ ہے کہ انسان کی نظر مادے سے ہٹا کرمادے کے خالق کی جانب لگائی جائے ۔ یہ لا محدود کائنات ،جس میں ہم رہتے ہیں،کس طرح وجود میں آئی ؟یہ تمام توازن،ہم آہنگی اور نظم وضبط کس طرح سے پیدا ہوئے؟یہ کیونکر ممکن ہوا کہ یہ زمین ہمارے رہنے کے لئے موزوں ترین اور محفوظ قیام گاہ بن گئی؟ایسے سوالات نوع انسانی کے ظہور ہی سے توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ان کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں سائنس دان اور فلسفی ،اپنی عقل ودانش اور عقل سلیم کی بدولت اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات کی صورت گری اور اس میں موجود نظم وضبط کسی اعلی ترین خالق مطلق کی موجودگی کی شہادت دے رہے ہیں۔جو اس ساری کائنات کا خالق و مالک ہے۔زمین وآسمان، بحروبراور نگاہوں کے سامنے پھیلی ہوئی بسیط کائنات کےبارے میں انسان کےنظریات کی بنا ان سائنسی انکشافات پر رکھی ہے جن کی بنیاد میں خالق کا انکارکار فرما ہے ۔ اس کے لیے نتیجے میں انسان اپنی زندگی کے ہر پہلو میں مادیت کی طرف جھک گیا ہے اور روحانیت سے منہ موڑلیا ہے۔مغرب نے کائنات کے بارے میں اپنے نظریات کابہت زیادہ چرچا کیا ہے جب کہ مسلمانوں کےہاں اس کا جواب کم ہی دیاگیاہے۔ جناب افتخاراحمد افتخار صاحب نے زیر نظر کتاب ’’انسان اور کائنات‘‘ میں کائنات کےبارے میں اہل مغرب کے کھوکھلے نظریات پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالی ہے تاکہ اصل حقیقت کو اضح کیا جاسکے اورزندگی کی راہوں میں نظریات اور تخیلات کےاندھیروں میں روشنی کی ایک شمع جلائی جاسکے تاکہ انسانوں کو راہ حق تلاش کرنےمیں دشواری نہ ہو ۔شاید یہ کتاب مطبوع نہیں ہےمصنف نے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کرنےکےلیے پی ڈی ایف فامیٹ میں دی ہے ۔(م۔ا)
عربی شاعری عربی ادب کی سب سے پہلی شکل ہے۔ عربی شاعری کا سب سے پہلا نمونہ چھٹی صدی میں ملتا ہے مگر زبانی شاعری اس سے بھی قدیم ہے۔ عربی شاعری صحیح تعریف اور اس کے اجزا میں محققین کا خاصا اختلاف رہا ہے۔ابن منظور کے مطابق شعر وہ منظوم کلام ہے جو وزن اور قافیہ میں مقید ہو۔ ظہورِ اسلام سے قبل جو بھی شاعری کی گئی اس کو جاہلیت سے تعبیر کیا گیا۔ظہورِ اسلام سے قبل عرب کا سارا علم شاعری پر محیط تھا، ان کے یہاں شاعری سے بڑھ کر علم، سرداری اور عزت و افتخار کا اور کوئی پیمانہ نہیں تھا۔ کسی کو باعزت کرنا ہو تو اس کی شان میں مدحیہ قصیدہ لکھتے اور ذلیل کرنا ہو تو اس کی ہجو کرتے۔ نیز یہ شعرا ءجس کو ذلیل کر دیتے پھر اس کی عزت خاک میں مل جاتی اور جس کی تعریف کر دیتے وہ عزت و ناموری کی بلندیوں پر پہنچ جاتا۔ دورِ جاہلی میں شعر کے علاوہ خطابت اور خطوط کو بھی کچھ اہمیت حاصل تھی۔ آغازِ اسلام میں شاعری دفاع کا ایک ذریعہ ثابت ہوئی، چنانچہ شاعرِ اسلام سیدنا حسان بن ثابت اور دوسرے مسلمان شعرا نے اپنی شاعری کے ذریعہ کفار قریش کے خلاف اسلام اور مسلمانوں کا خوب دفاع کیا۔ فکر و جوش مدح صادق، مرثیہ ،حکمت و دانائی جاہلی شاعری کی خصوصیات ہیں اور جاہلی شاعری میں گھڑ سواری، اونٹ، جنگ، شکار، نیل گائے، ہرن، ماں، بیوی، محبوبہ، لونڈی، شراب اور ساتھیوں کا تذکرہ خوب ملتا ہے، عدی بن ربیعہ،عنترہ بن شداد، امرؤ القیس،، اعشى ،زہیر بن ابی سلمی، عمرو بن کلثوم، حارث بن حلزہ الیشکری ،لبید بن ربیعہ ،طرفہ بن العبد، نابغہ ذبیانی مشہور جاہلی شعراء ہیںاسلام کی آمد کے بعد عربی شاعری کو اپنی راہ کچھ بدلنا پڑی۔ چونکہ اسلام میں بت پرستی، شراب و شباب اور فحاشی کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہے، لہذا ان موضوعات کو مسلمان شعرا نے یکسر نظر انداز کیا۔ قرآن نے اس زمانے کے شعرا اور ادبا کو ایک چیلنج دیا۔ جنہیں اپنی شاعری پر ناز تھا وہ قرآن کا ادب سن کر بھونچکے رہ گئے۔ بعض اس کو معجزہ مان کر اس کے گرویدہ ہو گئے اور کچھ نے اس کے خلاف شاعری شروع کی۔ اس زمانے کے شعرا میں عبد اللہ بن رواحہ، کعب بن زہیر، حطیئہ اور حسان بن ثابت ہیں جنہیں مخضرمی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی نصف زندگی دورِ جاہلیت اور نصف اسلام میں گزری۔ مخضرمی ان شعرا کو کہا جاتا جنہوں نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں شاعری کی ہو۔ زیر نظر کتاب ’’ جاہلی عرب شعراء‘‘ میں جناب افتخاراحمد افتخار نے اس انداز سے جاہلی عرب شعراء کا تذکرہ کیا ہے کہ جس میں جاہلی عرب معاشرے کی ایک واضح تصویر نظر آتی ہے ۔یہ کتاب مطبوع نہیں ہے مصنف نے کتاب وسنت پر سائٹ پر پبلش کرنے کے لیے پی ڈی ایف فائل دی تھی ۔جسے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کردیا گیا ہے ۔(م۔ا)
دینِ اسلام کا جمال وکمال یہ ہے کہ یہ ایسے ارکان واحکام پر مشتمل ہے جن کا تعلق ایک طرف خالق ِکائنات اور دوسری جانب مخلوق کےساتھ استوار کیا گیا ہے یعنی اسلام کےپانچ ارکان میں یہ ایک ایسا رکن اور فریضہ ہے جس کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد سے ہے ۔ دین فرد کی انفرادیت کا تحفظ کرتے ہوئے اجتماعی زندگی کوہر حال میں قائم رکھنے کاحکم دیتاہے۔اس کے بنیادی ارکان میں کوئی ایسا رکن نہیں جس میں انفرادیت کے ساتھ اجتماعی زندگی کو فراموش کیا گیا ہو۔انہی بینادی ارکان ِخمسہ میں سے ایک اہم رکن زکوٰۃ ہے۔عربی زبان میں لفظ ’’زکاۃ‘‘ پاکیزگی ،بڑھوتری اور برکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔جبکہ شریعت میں زکاۃ ایک مخصوص مال کے مخصوص حصہ کو کہا جاتا ہے جو مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے ۔اور اسے زکاۃ اس لیے کہاجاتا ہے کہ اس سے دینے والے کا تزکیہ نفس ہوتا ہے اور اس کا مال پاک اور بابرکت ہوجاتا ہے۔ نماز کے بعد دین اسلام کا اہم ترین حکم ادائیگی زکاۃ ہے ۔اس کی ادائیگی فر ض ہے اور دینِ اسلام کے ان پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جن پر دین قائم ہے۔زکاۃ ادا کرنےکے بے شمار فوائد اور ادا نہ کرنے کے نقصانات ہیں ۔قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں تفصیل سے اس کے احکام ومسائل بیان ہوئے ۔جو شخص اس کی فرضیت سےانکار کرے وہ یقینا کافر اور واجب القتل ہے ۔یہی وجہ کہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق نے مانعین ِزکاۃ کے خلاف اعلان ِجنگ کیا۔اور جو شخص زکاۃ کی فرضیت کا تو قائل ہو لیکن اسے ادا نہ کرتا ہو اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔جس کی وضاحت سورہ توبہ کی ایت 34۔35 اور صحیح بخاری شریف کی حدیث نمبر1403 میں موجود ہے ۔ اردو عربی زبان میں زکوٰۃ کے احکام ومسائل کےحوالے سے بیسیوں کتب موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’زکوٰۃ عشر،فطرہ اورصدقات‘‘ پروفیسر مفتی عروج قادری کی مرتب شدہ ہے موصوف نے اس موضوع کے متعلق 255؍ سے زائد صحیح احادیث کو مع تخریج ومکمل حوالہ جات کے ساتھ اس کتاب میں جمع کردیا ہے ۔ مرتب نے اس مجموعہ میں نہ توکوئی ضعیف حدیث پیش کی ہے اور نہ ہی اختلافی امور ۔ہر حدیث کے ساتھ راوی کا نام اور کتابوں کے حوالے بھی موجود ہیں ۔اور امت مسلمہ کی یکجہتی کی کوشش میں مرتب نے دیوبندی، بریلوی، اوراہل حدیث تینوں مکاتب فکر کے نامور اور جید مدارس اور علماء کے تصدیق نامے بھی لگا دئیے ہیں ۔ مرتب نےکتاب وسنت سائٹ پر پبلش کرنے کےلیے یہ کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ میں ادارے کو عنائت کی ہے ۔(م۔ا)
نمازِ تراویح نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے اورصحیح احادیث سے ثابت ہے۔سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز اداکی، لوگوں نے بھی آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر آپﷺنے دوسری رات نماز پڑھی اور لوگوں کی بھی کثیر تعداد نے آپﷺ کے ساتھ نماز ادا کی، پھر لوگ اسی طرح تیسری یا چوتھی رات میں بھی جمع ہوئے لیکن رسول اللہﷺتشریف نہ لائے اور جب صبح ہوئی تو آپ ﷺنے فرمایا:’’تم لوگوں نے جو کیا میں نے اسے دیکھا ہے اور گھر سے میں اس لیے نہیں نکلا کہ مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں اس نماز کو تم پر فرض قرار نہ دے دیا جائے۔صحیح احادیث کے مطابق رکعاتِ تراویح کی مسنون تعداد بشمول وتر گیارہ ہے ۔مسنون تعداد کا مطلب وہ تعداد ہےجو اللہ کے نبی ﷺ سے بسند صحیح ثابت ہے ۔ رکعات تراویح کی مسنون تعداد اوررکعات تراویح کی اختیاری تعداد میں فرق ہے ۔ مسنون تعداد کا مطلب یہ ہے کہ جو تعداد اللہ کےنبی ﷺ سے ثابت ہے او راختیاری تعداد کا مطلب یہ ہے کہ وہ تعداد جو بعض امتیوں نے اپنی طرف سے اپنے لیے منتخب کی ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ ایک نفل نماز ہے اس لیے جتنی رکعات چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔اور رمضان میں اعتکاف سنت ہے۔ نبی کریمﷺنے اپنی حیات مبارکہ میں اعتکاف فرمایا اور آپ کے بعد ازواجِ مطہرات بھی اعتکاف فرماتی رہی تھیں۔اہل علم نے بیان کیا ہے کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ اعتکاف مسنون ہے لیکن ضروری ہے کہ اعتکاف اس مقصد سے ہو جس کے لیے اسے مشروع قرار دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ انسان مسجد میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت کے لیے گوشہ نشین ہو، دنیا کے کاموں کو خیر باد کہہ کر اطاعتِ الٰہی کے لیے کمر باندھ لے اور دنیوی امور سے بالکل دست کش ہو کر انواع و اقسام کی اطاعت و بندگی بجا لائے، نماز اور ذکر الٰہی کا کثرت سے اہتمام کرے۔ رسول اللہﷺ لیلۃ القدر کی تلاش و جستجو کے لیے اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ مسنون رکعات تراویح اور اعتکاف کے احکام ومسائل کتب حدیث وفقہ میں موجود ہیں اوراس کے متعلق ائمہ محدثین اورعلمائے عظام کی بیسیوں کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’تراویح اور اعتکاف‘‘ محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی کی قیام رمضان اور اعتکاف کے موضوع ایک شاندارکتاب بعنوان’’ قیام رمضان والاعتکاف‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔اس مختصر کتابچہ میں شیخ نے دونوں عبادتوں کی جملہ جزئیات کو کتاب وسنت کی روشنی میں نہایت سادہ ، آسان اور عام فہم انداز میں سمجھایا ہے۔جناب مولانا اشفاق سجاد سلفی (استاد جامعہ ابن تیمیہ، بہار) نے اس رسالہ کی اہمیت کے پیش نظراردو قارئین کےلیے اس کا آسان فہم اردوترجمہ کیا ہے اس کتابچہ کو نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرکے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔(م۔ا)
قرآن کریم الفاظ ومعانی دونوں کے مجموعہ کا نام ہے ، زمانۂ نبوت سے تا حال علماء امت نے جس طرح قرآن کے معانی ومطالب کو اپنی محنت کا میدان بنایا اسی طرح الفاظ قرآن، طرز اداء اور وقف وسکون کوبھی اپنی توجہ کا مرکز بنایا جس کو ہم فن تجوید وقراءات سےتعبیر کرتے ہیں ۔تلاوت ِقرآن کا بھر پور اجروثواب اس امر پرموقوف ہے کہ تلاوت پورے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ کی جائے قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ جاننا اورسیکھنا علم ِتجوید کہلاتا ہے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے ۔ کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم الشان کتاب ہے کہ ہر مسلمان پراس کتاب کو صحیح پڑھنا لازمی اور ضروری ہے جس کاحکم ورتل القرآن ترتیلا سے واضح ہوتا ہے۔ اس قرآنی حکم کی تکمیل اور فن تجویدکوطالب تجوید کےلیے آسان اورعام فہم بناکر پیش کرناایک استاد کے منصب کا اہم فریضہ ہے ۔ایک اچھا استاد جہاں اداء الحروف کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ وہیں وہ اپنے طالب علم کو کتاب کےذریعے بھی مسائل تجوید ازبر کراتا ہے۔علم تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے ۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری صدی کے نصف سے ہوا۔ائمۂ حدیث وفقہ کی طرح تجوید وقراءات کے ائمہ کی بھی ایک طویل فہرست ہے اور تجوید وقراءات کے موضوع پرماہرین تجوید وقراءات کی بے شمار کتب موجود ہیں ۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ عرب قراء کی طرح برصغیر پاک وہند کے علماء کرام اور قراءعظام نے بھی علم تجوید قراءات کی اشاعت وترویج کےلیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔پاکستان میں دیوبندی قراء کرام کےعلاوہ سلفی قراء عظام جناب قاری یحییٰ رسولنگری، قاری محمداریس العاصم ،قای محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہم اللہ اور ان کےشاگردوں کی تجوید قراءات کی نشرواشاعت میں خدمات قابل تحسین ہیں ۔مذکورہ قراء کی تجوید وقراءات کی کتب کے علاوہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے کلیۃ القرآن ومجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کے زیر نگرانی شائع ہونے والے علمی مجلہ ’’ رشد ‘‘کےعلم ِتجویدو قراءات کے موضوع پر تین ضخیم جلدوں پر مشتمل قراءات نمبر اپنے موضوع میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جس میں مشہور قراء کرام کے تحریر شدہ مضامین ، علمی مقالات اور حجیت قراءات پر پاک وہند کے کئی جیدمفتیان کرام کے فتاوی ٰ جات بھی شامل ہیں اور اس میں قراءات کو عجمی فتنہ قرار دینے والوں کی بھی خوب خبر لیتے ہوئے ان کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں۔ زیر نظرکتاب ’’تجوید وقراءات کا پیغام خدامِ قرآن کے نام جلد اول ‘‘ ہند وستان کے مایہ ناز شیخ القراء قاری المقری محمد صدیق ﷾کے تجوید وقراءات کے موضوع پر پیش کیے گئےدروس کی کتابی صورت ہے ۔ قاری صاحب کےشاگرد رشید مولوی رضوان سلمہ نے قاری صدیق صاحب کے بیانات کو کیسٹوں سے تحریرمیں منتقل کیا ہے اور قاری محمد ہارون صاحب نے اسے کتابی صورت میں مرتب کیا ہے ۔قاری صدیق صاحب نے اس میں فن کے پیچیدہ مسائل کاحل ، مصاحف عثمانیہ کے بارے میں امت کا نظریہ اوراس کے تشفی بخش اور قابل اطمینان جوابات، مدارس کو رجال کا ر کی فراہمی کے لیے نئے طرز عمل اور نئے جدوجہد کی طرف توجہ ، فن کے اصول وفروش پر مشتمل کتب کی طرف رجوع کی ضرورت ، اسی طرح مساجد کےلیے ائمہ وخطباء ومؤذنین تیار کرنے کی طرف ترغیب دلائی ہے۔نیز فن اور صحت کےلیے مضر اور منافی اشیاء سے اجتناب اور فن کے لیے مفید اور نافع چیزوں کے اختیار کی طرف توجہ دلائی ہے بلکہ قاری صاحب نے امت میں فن کے بارے میں موجود کمزوریوں اور بیماریوں کی تشخیض اوراس کے علاج کو بھی تجویز فرمادیا ہے جو شائقینِ فن کےلیے تسکین کا باعث ہونے کے ساتھ فن میں ترقی کے خواہاں لوگوں کےلیے راہ نما اور سنگ میل کا کام دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ قاری صاحب کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ (آمین)ادارے کو یہ کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کرنے کے لیے پی ڈی ایف فارمیٹ میں ملی ہے ۔ (م۔ا)
وصیت وصایا کی جمع ہے وصیت لغت میں ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا حکم دیا جائے خواہ زندگی میں یا مرنے کے بعد، لیکن عرف میں اس کام کو کہا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد جس کے کرنے کا حکم ہو۔عموماًسفر کو جانے والے یا قریب الموت شخص کا نصیحت کرنا کہ میرے بعد ایسا ہونا چاہیے یعنی مرتے وقت یا سفر کو جاتے وقت کچھ سمجھانا، آخری نصیحت کرنا۔ عموماً کسی بھی وقت یا زندگی کے آخری لمحات میں کی جانے والی نصیحت، دیے جانے والے احکامات وصیت کہلاتے ہیں۔سلف نے نوجوانوں کو خوب خوب وصیتیں کی ہیں کتاب وسنت او ر کتب ِتاریخ میں نبی اکرم ﷺ اور سلف صالحین کی بے شمار نصیحتیں موجود ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’سلف کاوصیتی پیغام نوجوانان ملت کے نام ‘‘ میں فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر﷾ نے محتلف اسلاف کی نوجوانوں کےلیے کی گئی پندرہ وصیتوں کو جمع کیا ہے ۔یہ کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ کی صورت میں کسی صاحب نے عنائت کیا ہے افادہ عام کےلیےاسے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کردیا گیا ہے۔ (م۔ا)
اسلام ایک عالمی مذہب ہے اور مذاہبِ عالم میں یہ واحد مذہب ہے جو ہر مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ تمام معاملات میں رواداری اور حسن سلوک کی تعلیم دیتاہے ۔ نبی کریم ﷺ نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے دنیا بھر کے حکمرانوں کے نام خط لکھے اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ان حکمرانوں میں سے بعض عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔اسلام کے داعی اوّل نبی کریم ﷺ کے دلرُبا کردار کا نقشہ او ر آپ ﷺ کے صحابہ کرام کاطرزعمل اس بات کی روشن دلیل ہے اسلامی معاشرے میں غیر مذہب رعایا کوکیسا مقام حاصل تھا۔روز ِ اول سے ہی مبلغ اسلام رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو اسلام کی ترقی اوربقا کےلیے مختلف مذاہب کے ماننے والوں سےبرسرِپیکار ہونا پڑا ۔ مشرکین کے علاوہ جو طاقتیں اسلام کے راستے میں مزاحم ہوئیں ان میں یہودیت ونصرانیت پیش پیش تھیں۔گوکہ یہ دونوں طاقتیں اہل ِ کتاب تھیں لیکن عمومی طور پر انہوں نے اسلام کی مخالفت اور کاروانِ حق کی ناؤ ڈبونے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔لیکن اس کے باوجو درسول اللہ ﷺ نے اہل کتاب سے جو تعلقات قائم کیے انہیں عہد حاضر میں بطور نظیر پیش کیا جاسکتاہے ۔آپ ﷺ نے امت کی رہنمائی فرماتے ہوئے عملی نمونہ پیش کیا۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ نبی ﷺ نے اہل کتاب کودیگر غیر مسلموں پر فوقیت دی اورہر شعبے میں ان کے ساتھ محض اہل ِکتاب ہونے کی بنا پر دوستانہ اور ہمداردانہ رویہ اپنایا۔عہد نبویﷺ میں رسول اللہ ﷺ نے یہود نصاریٰ سے جو تعلقات قائم کیے اسی نمونے کو سامنے رکھتے ہوئے خلفائے راشدین نے اہل ِ کتاب سے مراسم قائم کیے ۔ مجموعی طور پر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام نے یہود ونصاریٰ کی طرف دوستی کاہاتھ ضرور بڑھایا اوران سے مختلف قسم کے تعلقات قائم کرتے ہوئے باہمی معاہدات بھی کیے۔ مگر ان کی اسلام دشمنی کو کبھی فراموش نہیں کیا اور ہمیشہ ایک حد میں رہتے ہوئے احکام ِ الٰہیہ کی روشنی میں مختاط انداز اختیار کیا ۔ زیر نظرمقالہ بعنوان ’’ قرنِ اول میں مسلمانوں کے غیر مسلموں سے تعلقات ومعاہدات اور عصر حاضر ‘‘ محترم جناب محمداسلم صدیقی کا ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے 2002میں شعبۂ علومِ اسلامیہ ،جامعہ پنجاب ،لاہور میں پیش کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مقالہ نگار نے اپنے اس تحقیقی مقالہ کو چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے اور اس تحقیقی مقالہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام ایک عالمی دین ہے اور نبی کریم ﷺ کی بعثت پورے عالم انسانیت کے لیے ہوئی ہے ۔ لہذا تمام مسلمانوں کوبھی اپنی سوچ عالمی بنا کر دنیا کے مسائل حل کرنے اور عالم انسانیت کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تعلیمات کو اپنانے کے لیے حکمت موعظہ حسنہ اور مجادلہ احسن سے کام لینا چاہیے ،مسلمانوں کو غیر مسلموں سے تعلقات ومعاہدات کےلیے اسے مشعل راہ بنا کر اقوام عالم سے صحیح اسلامی روادری وسعت ظرفی اور احترام انسانیت سے بھر پور رویوں کا مظاہرہ کرنا چاہیے ،نبی اکرم ﷺ نے مدنی دور میں جو غیر مسلم اقوام سے مختلف معاہدے کیے وہ آج عصر حاضر میں بھی مسلمانوں کےلیے مشعل راہ بن سکتے ہیں نیز خلفاء راشدین نے اقوام عالم سے تعلقات ومعاہدات کےلیے دور نبوی کو بنیاد بنایا تھا ان کا نمونہ بھی عالم اسلام کےلیے ایک اعلیٰ مثال او راقوام عالم کو اپنا شاندار ماضی دکھانے کےلیے ایک مثالی دور کی حیثیت رکھتا ہے ،اسلام کی تعلیمات ابدی ہیں دور نبوی اور خلفاء راشدین کے دور کی مثالیں ہمیں ہر دور کے غیر مسلموں سے احسن سلوک اور ان سے خاندانی ، سماجی اور معاشی تعلقات کی بنیادیں فراہم کرتی ہیں ۔(م ۔ا)
اللہ تعالیٰ نے انسان پر بے شمار انعامات کئے ہیں۔ انعاماتِ ربانیہ میں سے سرفہرست عقل کی نعمت ہے انسان نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس عظیم نعمت کے ذریعے نوع انسانی کو بے شمار سہولیات فراہم کی ہیں ان میں سے انٹر نیٹ موبائل فون اور دیگر ذرائع ابلاغ سے انسان کو بے شمار فوائد حاصل ہوئے ہیں۔موبائل فون موجودہ دور کی ایک اہم ٹیکنالوجی اور ضرورت بن کر سامنے آیا ہے جس نے چند برسوں میں ہی انسانی زندگیوں پر اپنا تسلط یوں قائم کر لیا کہ ہر چھوٹے سے بڑے تک، خواتین سے مرد تک سبھی موبائل کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں۔ مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ان نعمتوں کا غلط استعمال نوع انسانیت کے لیے مہلک نتائج دے رہا ہے۔ ایک مسلمان کو بحیثیت مسلمان جس طرح کسی بھی چیز کا استعمال اسلامی اصول وقوانین کی روشنی میں کرنا چاہیے اسی طرح موبائل کےاستعمال کے لیے بھی اسلامی اصول وقوانین ان کےپیش نظر رہنے چاہییں۔ زیر تبصرہ کتاب’’موبائل فون کے ضروری مسائل ‘‘ محمد طفیل احمد مصباحی (سب ایڈیٹر ماہنامہ اشرفیہ،اعظم گڑھ یوپی) کی کاوش ہے اس کتاب میں انہوں نے موبائل فون کے فوائد ونقصانات پر بھرپور روشنی ڈالی ہے اور اس کے استعمال کے دینی وشرعی آداب بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں ۔موبائل کال، موبائل میسج،آڈیو، ویڈیو، فوٹوگرافی ،ای میل،آن لائن خریدفروخت اور موبائل فون کے ذریعہ نکاح وطلاق وغیرہ موبائل کے جملہ گوشوں سےمتعلق مسائل بیان کیے ہیں تاکہ اسے شریعت کی حدود میں رہ کر استعمال کیا جائے ۔فاضل مصنف نے جابجا قرآنی آیات، احادیث کریمہ اور فقہی عبارات کے حوالوں سے مزین کر کے کتاب کو قابل اعتماد بنادیا ہےخصوصاً موبائل فون کے صحیح استعمال پر زور دیاگیا ہے اور اس کے غلط اور ناجائز استعمال سے پرہیز کی پوری تلقین کی ہے ۔یہ کتاب موبائل اور ٹیلیفون سے متعلق ایک سو سے زائد جدید فقہی اور شرعی مسائل کاگراں قدرمجموعہ ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف کی کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ان کے زورِ قلم میں اضافہ فرمائے اور کتاب کو عامۃ الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔آمین(م۔ا)
اخوان المسلمین مصر کی سب سے پرانی اور بڑی اسلامی تنظیم ہے۔اخوان المسلمین انیس سو بیس کی دہائی میں وجود میں آئی اس کے بانی حسن البنا تھے۔اس تنظیم نے اپنی سیاست اور امدادی کاموں سے دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کو متاثر کیا۔مصر وشام میں اس تنظیم کے کارکنان پر بہت ظلم ستم کیا گیا۔اس کے کارکنان پر ظلم وستم کی کہانیاں بڑی دل آویز ہیں ۔شامی جیلوں میں خواتین پر ہولناک مظالم ڈھائے گئے۔ زیر نظرکتاب’’کوہِ استقامت ہبہ الدباغ‘‘ نوسال تک شامی جیل میں پسنے والی ایک اخوانی بہن کی دستان ہے۔ یہ اسّی کی دہائی کی داستانوں میں ایک دستان ہے نو سال بعد یہ جب جیل سے رہاہوئی توجیل کے تاریک ایام کی اس نے اپنی آپ بیتی اور ا پنے مشاہدات کو ’’خمس دقائق حسب‘‘ کے نام سےعربی میں تحریرکیا ۔یہ کتاب اسی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔ یہ مختصر کتاب بہت معلوماتی اور جذبۂ عمل کو بڑھادینے والی ہے ۔(م۔ا)
فوائد الضیائیۃ علامہ ابن حاجب کی کتاب ’’الکافیۃ‘‘ کی اہم شرح ہے جو کہ شرح جامعی کے نام سے معروف ہے۔شرح جامعی شروح کافیہ میں ’’رضی‘‘ کےبعد نہایت اعلی وارفع اور سب سے زیادہ مشہور متداول ہے اس میں علامہ جامی نے اکثر شروح کافیہ کا باحسن وجوہ ملخص کیا ہے ۔علامہ جامی نے اس کتاب میں نحوی مباحث کو عقلیت کارنگ دیا ہے تاہم ٹھوس استعداد پیدا کرنے کےلیے یہ بہت عمدہ کتاب ہے ۔انہی عقلی مباحث میں سے ایک بحث ’’ حاصل ومحصول‘‘ ہےجس کی تشریح وتوضیح کے لیے علماء نحو نے مستقل رسائل وکتب تصنیف فرمائے ہیں ۔جناب اسجد سبحانی ارریاوی صاحب نے زیرنظر مختصر کتابچہ بعنوان’’ خیر الوصول الی الحاصل والمحصول‘‘ اسی بحث کو سہل انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔موصوف نے اس مختصر کتابچہ میں عبارت مع اعراب، حل لغات، سلیس ترجمہ، بہت زیادہ قیل وقال اور بے فائدہ اشکال واعتراض سےاحتراز، عبارت کی تشریح مختصر مگر نہایت جامع کرنےکی کوشش کی ہے ۔(م۔ا)
دینی مدارس کے طلباء ،اساتذہ ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نےایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا ۔صبح وشام کے اوقات میں صحابہ کرام وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ہجرت کے بعدمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ۔اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بیٹھ کر آپﷺ مقامی وبیرونی صحابہ کرام کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیتے تھے ۔یہ اسلام کاپہلا باقاعدہ اقامتی مدرسہ تھا جو تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے معروف ہے ۔ یہاں سے مسجد اور مدرسہ کا ایسا تلازمہ قائم ہواکہ پھر جہاں جہاں مسجد یں قائم ہوتی گئیں وہاں ساتھ ہی مدرسے بھی قائم ہوتے گئے ۔اسلامی تاریخ ایسے مدارس اور حلقات ِحدیث سے بھری پڑی ہے کہ غلبۂ اسلام ،ترویج دین اور تعلیمات اسلامیہ کو عام کرنے میں جن کی خدمات نے نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر پاک وہند میں بھی اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے سلسلے میں بے شمار علماء نے مدرسے قائم کیے اور درس وتدریس کی مسندیں بچھائیں یہاں کے متعدد ملوک وسلاطین نے بھی اس میں پوری دلچسپی لی اور سرکاری حیثیت سے اہل علم کو تدریس کی خدمت انجام دینے پر مامور کیا ۔تو ان مدارس دینیہ سے وہ شخصیا ت پیدا ہوئیں جنہوں نے معاشرے کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور یہ شخصیات عوام الناس کے لیے منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔اسی طرح طلبا کی علمی وفکری تربیت کے لیے وہ تمام وسائل اختیار کیے گیے جن کااختیار کرنا وقت کےتقاضے کےمطابق ضروری تھا ۔دورِ جدید میں بھی اصلاح معاشرہ کےسلسلے میں دینی مدارس کا بڑا اہم کردار ہے ۔ زیر نظر مقالہ ’’ دینی مدارس کا منہاج عمل اور جدید معاشرتی تقاضے ‘‘ جناب ایچ رشید احمد کا ڈاکٹر یٹ کے لیے تیارکیا گیا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے ا نہوں نے 2003ء میں جامعہ کراچی میں پیش کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مقالہ نے اس مقالہ کو دس ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔مقالہ نگار نے کراچی کےمختلف علاقوں میں قائم دینی مدارس میں زیر تعلیم ان طلباء سے جو دینی مدارس کے نظام ونصاب کےتحت تعلیم کی تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں ان سے رابطہ کے بعد طویل دورانیہ پر مبنی ملاقاتوں اور مصاحبہ ناموں کےذریعے ان کے نظریات اور مستقبل کےعزائم کےبارے میں ان کے خیالات جمع کیے ہیں ۔ سماج کی تخلیق وترقی میں تعلیمی ادارے اہم کردار انجام دیتے ہیں ۔ یہی ادارے اخلاقی وسماجی فلاح کےاصولوں پر مبنی اقدار سے افراد معاشرہ کو متعارف کراتے انہی اقدار کی اساس پر زیر تعلیم طلباء کی تربیت کرتے ہیں ۔ اس طرح ایک صحت مند معاشرہ وجود پزیز ہوتا ہے ۔ تعلیمی ادارے جب دین کی تعلیمات اور قرآن حکیم کی آیات محکمات کی روشنی میں اپنا کردار انجام دیتےہیں تو وہ معاشرہ مثبت رویوں کے سبب ایک نمایاں مقام حاصل کرلیتا ہے ماضی میں یہ ادارے افراد اور مختلف گروہوں میں معاشرتی اور سماجی روابط کو بڑھانے میں ممدد ومعاون ہوئے ہیں۔ اگر یہ ادارے زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کوپیش نظر نہ رکھیں توپھر ان کا نظام ارتقاء کی بجائے جمود وتعطل کا شکار ہوجاتا ہے ۔(م ۔ا)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے، جو پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت اخلاق ہے، ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے، چنانچہ آپﷺ کی راز دار زندگی اور آپﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ عنہا فرماتی ہیں، ”آپﷺ کے اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہے“۔ آپﷺ نے اپنے ہر قول وفعل سے ثابت کیا کہ آپﷺ دنیا میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے تشریف لائے، چنانچہ ارشاد ہے: ”بعثت لاتتم مکارم الاخلاق“ یعنی ”میں (رسول اللہ ﷺ) اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیا ہوں“۔ پس جس نے جس قدر آپﷺ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاکر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا اسی قدر آپﷺ کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا، صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے، ”ان خیارکم احسن منکم اخلاقا“ یعنی ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ حضورﷺ کی ساری زندگی اخلاقِ حسنہ سے عبارت تھی، قرآن کریم نے خود گواہی دی ”انک لعلی خلق عظیم“ یعنی ”بلاشبہ آپﷺ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں“۔ آپ ﷺ لوگوں کوبھی ہمیشہ اچھے اخلاق کی تلقین کرتے آپ کے اس اندازِ تربیت کےبارے میں حضرت انس کہتے ہیں۔ رایته یامر بمکارم الاخلاق(صحیح مسلم :6362) میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ لوگوں کو عمدہ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’اخلاق محمدﷺ قرآن حکیم کے آئینے میں ‘‘ ڈاکٹر سید ا بو الخیر کشفی کی تصنیف ہے موصو ف نے اس کتاب کا آغا ز 1966ء میں کیا لیکن کتاب کے شائع ہونے سے قبل ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملے البتہ یہ کتاب مجلہ ’’ ششماہی السیرہ عالمی میں ‘‘قسط وار شائع ہوتی رہی۔ بعد ازاں سید عزیز الرحمن صاحب نے ا س کتاب کو کتابی صورت میں شائع کیا ۔یہ کتاب نیٹ سے ڈاؤنلوڈ کر کے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کی گئی ہے ۔(م۔ا)
پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو جتنی تاکید کے ساتھ شرکیہ امور سے بچنے کی ہدایت فرمائی تھی ۔افسوس ہے کہ آپﷺ کی یہ نام لیوا امت اسی قدر مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا ہے اور اپنے پیغمبر کی تمام ہدایات کو فراموش کر چکی ہے ۔آپ ﷺ نے واضح الفاظ میں اعلان فرمادیا تھا :أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِك۔’’لوگو غور سے سن لو تم سے پہلی امت کے لوگوں نے اپنے انبیاء اور نیک لوگوں ،اولیاء وصالحین کی قبروں کو عبادت گاہ (مساجد) بنالیا تھا ،خبر دار !تم قبروں کو مساجد نہ بنالینا۔میں تم کواس سے روکتا ہوں۔اور آپ ﷺ نےاپنی مرض الموت میں یہود ونصاریٰ کے اس مشرکانہ عمل پر لعنت کرتےہوئے فرما یا: لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ
قبرپرستی شرک اورگناہ کبیرہ ہے نبی کریم ﷺ نے سختی سے اس سےمنع فرمایا اور اپنی وفات کے وقت کے بھی اپنے صحابہ کرام کو اس سے بچنے کی تلقین کی ۔ صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا اور پھر ائمہ کرام اور محدثین نے لوگوں کو تقریر وتحریر کے ذریعے اس فتنہ سے آگاہ کیا ۔لیکن آج قبرپرستی کے فتنے میں ملوث لوگوں نے ہمیشہ عوام نت نئے شبہات کا شکار بنایا ہے تاکہ وہ لوگوں کو برابر دھوکے کی آڑ میں رکھیں، انہی شبہات میں سے ایک شبہ اورگمان یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی قبر آپ کی مسجد میں ہے ۔ لہذا اس پر قیارس کرتے ہوئے قبروں پر مسجد بنانا یا مسجدوں میں مردے دفن کرنا جائز ہوجاتا ہے اور ایسی مسجدوں میں نماز ادا کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’قبررسول ﷺ سے قبرپرستوں کا استدلال اوراس کا جواب‘‘ مدینہ یونیورسٹی کے استاد عقیدہ جناب ڈاکٹر صالح بن عبد العزیز سندی﷾ کے ایک عربی کتابچہ بعنوان’’ الجواب عن شبهة الاستدالا بالقبر النبوي على جو اتخاذ القبورمساجد‘‘ کااردو ترجمہ ہے ۔اس مختصر کتابچہ میں اس دور کے ایک بڑے شبہے کا مختلف طریقوں سے مسکت جوا ب دیاگیا ہے جو آجکل امت مسلمہ میں بالعموم اور مسلمانانِ برصغیرمیں خصوصی طور پر اپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف ومترجم اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور امت مسلمہ کے لیے نفع بخش بنائے ۔آمین(م۔ا)
نقشہ (Map) ایک علاقے کی بصری نمائندگی کرتا ہے۔ نقشہ جات کی مدد سے کسی بھی چیز کو سمجھنےمیں آسانی ہوتی ہے ۔بہت سے نقشے جامد دو جہتی ہوتے ہیں، تین جہتی جو ہندسی طور پر درست (یا تقریبا درست) نمائندگی کرتے ہیں اور دیگر متحرک یا انٹرایکٹو بھی ہو سکتے ہیں۔نقشے کی مختلف اقسام ہیں ۔ جیسےاٹلس(Atlas)،موضوعی نقشہ (Thematic map)،جغرافیائی مطالعاتی نقشہ (Topographic map)،نقشہ راہ (Street map)،موسمیاتی نقشہ (Weather map)،سیاسی نقشہ (Political map ) وغیرہ زیرنظر’’ نقشہ سیرت ‘‘ سیرت النبی ﷺ کوسمجھنے کے لیے ایک جامع نقشہ ہے ۔اس میں نبی ﷺ کاشجرہ نسب،عربوں کی تاریخ،اسلام سے قبل عرب کے مذاہب،نبیﷺکا پچپن،نبوت سے پہلے اوصاف ،تبلیغ کی حکمتیں،رسول اللہ پر دست درازیاں،قریش کی سختیاں اور لچک،سفر طائف،معجزات النبی ،نبی ﷺ کی ہجرت اورمدد گار لوگ،رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو بڑے آسان فہم انداز میں پیش کیاگیا ہے ۔(م۔ا)
مورخ اسلام قاضی اطہر مبارکپوری (1916ء - 1996ء) قصبہ مبارکپور ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے نانا مولانا احمد حسین رسولپوری نےآپ کا نام عبد الحفیظ رکھا۔ مگر قاضی اطہر سے مشہور ہوئے۔ اطہر آپ کا تخلص ہے، جوانی میں کچھ دنوں خوب شاعری کی، برجستہ اشعار کہتے تھے، پھر شاعری چھوڑ دی۔ قاضی اس لیے کہے جاتے ہیں کہ آپ کے خاندان میں ایک عرصہ تک نیابت قضا کا عہد قائم رہا۔آپ کے ہاں ابتدا میں بہت تنگی تھی۔ گزر اوقات بہت مشکل تھی۔ اس لیے زمانۂ طالب علمی میں ہی جلد سازی کا کام کرنے لگے۔ جلد سازی کے لوازمات اعظم گڑھ جا کر لاتے تھے۔ اس میں کئی گھنٹے صرف ہوتے تھے۔ لیکن اس کی وجہ سے انہوں نے تعلیم ترک نہ کی۔ کتابوں سے بہت محبت تھی۔ اس لیے پیسہ پیسہ جمع کرتے۔ جب اتنے پیسے جمع ہو جاتے کہ کوئی کتاب خرید لی جائے تو کتاب خرید لیتے۔ زندگی کا بڑا حصہ تنگی و ترشی میں گزرا۔ لیکن اخیر عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر رزق کے دروازے کشادہ کر دیے۔ حتیٰ کہ آپ کا شمار مبارکپور کے امرا میں ہونے لگا۔ بچپن سے ہی آنکھیں کمزور تھیں۔ لیکن ضعفِ بصارت کی وجہ سے کثرتِ مطالعہ سے نہیں رکے۔ اور نہ ہی اس چیز نے کثرت تصنیف و تالیف سے روکا۔ ےآپ نے اپنے شہر مبارکپور میں ایک ادارہ ’’دائرہ حلبیہ‘‘ کے نام سے قائم کیا۔آپ کئی کتب کے مصنف ہیں تاریخ آپ کا خاص موضوع ہے بالخصوص ہندوستان کی اسلامی تاریخ ۔ پاکستانی علما کے پاس آپ کی شخصیت اور تحقیقات کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ اسلامی تہذیب و تاریخ پر آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے علماء نے آپ کو ’’محسنِ ہند‘‘ کا لقب دیا۔آپ کی تصنیفات میں ایک اہم کتاب ’’ رجال السند الہند‘‘ عربی زبان میں ہے زیر نظر کتاب’’سندھ وہند کی قدیم شخصیات‘‘ قاضی اظہر مبارکپوری کی معروف کتاب’’رجال السند والہند ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔ قاضی صاحب نے اس کتاب میں پہلی صدی سے ساتویں صدی ہجری سے پہلے تک کی یکصد سے زائد ایسی شخصیات کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے علم وفضل، تحقیق ومطالعہ، تدریس وتعلیم، صلاح وورع، اصلاح وتزکیہ، سیاست وحکومت اور طب وجغرافیہ، نحو وہئیت یا دیگر میدانوں میں قابل قدر خدمات نجام دیں۔قاضی مرحوم نے اصل کتاب سے پہلے مقدمۂ کتاب کے طور پرسندھ و ہند کے بعض مشہور تاریخی مقامات اور شہروں کا تعارف کرایا ہے جو قابل مطالعہ اور لائق تحسین ہے ۔پھر حروف تہجی کی ترتیب پر اعلام وشخصیات کا تذکرہ شامل کتاب ہے۔کتاب کے آخر میں ’’باب الآباء اور’’باب الابناء‘‘ کے عنواں سے ان اعلام کا تذکرہ ہے جو اپنے والد اوبیٹوں کی جانب نسبت وکنیت سے شہرت یافتہ ہیں ۔صاحب کتاب نے کتاب کا اختتام ’’ باب المجاهيل ‘‘ پر کیا ہے یعنی جن کے نام وغیرہ کی بابت تصریح دست یاب نہ ہوسکی اور یہ نہ معلوم ہوسکا کہ ان کا تعلق سندھ وہند کے کس علاقے سے تھا۔ہمیں یہ کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ میں موصول ہوئی کتاب وسنت سائٹ کے قارئین کے لیے اسے سائٹ پر پبلش کیا کیا ہے ۔(م۔ا)