مذاہب باطلہ کے پیروکار اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ مذہب حق اسلام ہےلیکن اس کے باوجود وہ اس کو ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔غیر مسلم مصنفین نے ہمیشہ حقائق کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔مستشرقین نے جب اسلام کو اپنی تحقیقات کا نشانہ بنایا تو انہوں نے مستند تاریخی حقائق، بخاری ومسلم ودیگر کتب صحاح کی صحیح روایات کو نظر انداز کر کے غیر مستند اور وضعی روایات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ ہر دو ر میں محدثین اور ائمہ عظام نے مذاہب باطلہ کا خوب رد ّکیا ہے ۔مذاہب باطلہ کےردّ میں علمائے برصغیر کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں ۔ زیر نظر مقالہ بعنوان’’ مذاہب باطلہ کےردّ میں مؤلفین تفسیر ثنائی وحقانی کی کاوشیں ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر حافظ اسرائیل فاروقی (سابقہ چیئر مین شعبہ علوم اسلامیہ،یو ای ٹی) کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے 2003ء میں پنجاب یونیورسٹی شعبہ علوم اسلامیہ میں پیش کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مقالہ نگار نے اپنے اس تحقیقی مقالہ کو چھ ابواب میں تقسیم کر کے تفسیر ثنائی وحقانی کے تمام دلائل جو مذاہب باطلہ کےردّ میں ہیں انہیں مرتب صورت میں یکجا کردیا ہے اور اس میں یہودیت کاتعارف بھی شامل کردیا ہے ۔(م۔ا)
نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اورا سلام کا دوسرا رکن ِ عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کلمۂ توحید کے اقرار کےبعد سب سے پہلے جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہی ہے ۔اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے ۔ بے نماز ی کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔ قیامت کےدن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا۔ فرد ومعاشرہ کی اصلاح کے لیے نماز ازحد ضروری ہے ۔ نماز فواحش ومنکرات سےانسان کو روکتی ہے ۔بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سےنماز کا پابند بنایا جائے ۔ قرآن وحدیث میں نماز کو بر وقت اور باجماعت اداکرنے کی بہت زیاد ہ تلقین کی گئی ہے ۔نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قد ر اہم ہے کہ سفر وحضر اور میدان ِجنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے ۔ رسول اکرم ﷺ کو نماز اس قدر محبوب تھی کہ آپﷺ نے اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈنک قرار دیا ۔نماز مخلوق کے خالق سے رابطےکا مؤثر ترین ذریعہ ہے ۔نماز کی اہمیت وفضیلت کے متعلق بے شمار احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں اور بیسیوں اہل علم نے مختلف انداز میں اس موضوع پر کتب تالیف کی ہیں ۔لیکن افسوس! آج امت مسلمہ اس اہم فریضے سے یکسر غافل ہے ۔ اس کے دل ودماغ سے اس کی اہمیت ہی نکل چکی ہے ۔مسجدیں سنسان او رویران ہیں اور بازاروں میں میلے لگے ہوئے ہیں ۔ ایک دور وہ تھا کہ منافق بھی ترکِ نماز کو اپنے لیےباعث ذلت سمجھتے تھے۔ آج کیا زمانہ آگیا ہے کہ پکے مسلمان بھی اسے ترک کرتے ہوئے اپنے ضمیر میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے ۔ دوسری طرف نماز پڑھنے والوں کی سوچ بس اسی بات پر ختم ہوتی ہے کہ نماز پڑھنی ہے چاہے کیسی ہی ہو کسی وقت میں ہو کسی جگہ ہو بس فرض ادا ہوجائے گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ کیونکہ اللہ عزوجل کے ہاں وہی نماز قابل قبول ہوگی جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی ۔او ر ہمارے لیے نبی اکرم ﷺکی ذات گرامی ہی اسوۂ حسنہ ہے ۔انہیں کے طریقے کےمطابق نماز ادا کی جائے گی تو اللہ کے ہاں مقبول ہے ۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا صلو كما رأيتموني اصلي ۔ سنت رسولﷺ اور طریقۂ نماز نبوی سے ہٹ کر پڑھی گئی نماز کوشریعت سرے سے نماز شمار ہی نہیں کرتی۔سنت سے خالی نماز زندگی بھر بھی پڑھی جائے تب بھی کسی کام کی نہیں، اور نبئ اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دور کعتیں بھی ادا کرلی جائیں تو بخشش کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔ لہذا ہر مسلمان کےلیے رسول للہ ﷺ کے طریقۂ نماز کو جاننا بہت ضروری ہے۔ زیر نظر کتابچہ’’ نماز میں کی جانے والی غلطیاں اور کوتاہیاں‘‘ ابو صالحہ غلام رسول کا مرتب شدہ ہے فاضل مرتب نے اس کتابچہ میں تقریباًانسٹھ(59) غلطیوں کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے جو جہالت یافقہی جمود وتعصّب کانتیجہ ہیں۔نیز اس رسالہ میں خشوع اور دیگر ان تمام امور کاتذکرہ مختصر انداز سے کیا گیا ہے جو نماز میں نقص وکمی اور اجر وثواب کو ضائع کردیتے ہیں بلکہ بعض تو ایسے ہیں کہ وہ نماز ہی ضائع کرنےکاباعث بن جاتے ہیں اس مختصر کتاب کا مطالعہ نماز کی اصلاح کرنے میں بہت معاون ثابت ہوگا ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوان تمام غلطیوں کو تاہیوں سے بچنے کی توفیق عطافرمائے تاکہ ہم نماز کاپورا ثواب حاصل کرسکیں۔(م۔ا)
سگریٹ نوشی ان ممنوعات میں سے ہے جو خبیث، نقصان دہ اورگندی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالی کا ارشادہے:وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ. (نبی مکرم ﷺ) ان (اہلِ ایمان) کے لیے پاکیزہ صاف ستھری چیزیں حلال بتاتے ہيں اورخبائث کو حرام کرتے ہيں۔(الأعراف: 157) سگریٹ نوشی سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات واضح ہیں، یہی وجہ ہے کہ سارى انسانیت اس كے خلاف جنگ میں مصروف ہے یہاں تک کہ سگریٹ بنانے والے بھی ہر ڈبی پر 'مضر صحت ہے' لکھ کر اس سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ شرعِ متین کا تو اولین مقصد ہی انسانی جان و مال کی حفاظت ہے اور اسی لیے ہر نقصان دہ و ضرر رساں شے حکمِ شریعت کی رو سے ممنوع ہے۔ اورہ اس میں ایک تو فضول خرچی پائی جاتی ہے اور دوسرے نمبر پر یہ صحت کے لئے نقصان دہ بھی ہے۔اور شریعت نے فضول خرچی اور مضر صحت اشیاء ان دونوں سے منع فرمایا ہے۔یہ ترقی یافتہ زمانے کا ایسا زہر ہے جس سے خوش نصیب لوگ ہی محفوظ ہو نگے۔ روزانہ لاکھوں لوگ لاکھوں کروڑوں روپے اس زہر کی خریداری پر یہ جانتے ہوئے بھی خرچ کرتے ہیں کہ "تمباکو نوشی صحت کے لیے مْضر ہے۔"تمباکو میں شامل ایک کیمیائی مادہ نکوٹین ہے جو زہریلے اور نشیلے اثرات کا حامل ہوتاہے۔یہ انسانی بدن میں سرایت کر کے وقتی طور پر اسے تسکین و لذت فراہم کرتا ہے،مگر خون میں شامل ہو کر اسے گاڑھا کر کے دورانِ خون کے کئی ایک عوارض کا باعث بھی بنتا ہے۔گردوں کے لیے گاڑھے خون کو صاف کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور نتیجے کے طور پر سگریٹ نوش ہائی بلڈ پریشر،بلڈ شوگر،یورک ایسڈ ،کلیسٹرول،ہارٹ اٹیک،انجائنا،گردوں کے فیل ہونا جیسے جان لیوا اورخطرناک امراض کے چنگل میں پھنستا چلا جاتا ہے۔اسی طرح سگریٹ کا دھواں حلق کے کینسر،پھیپھڑوں کے کینسر،ٹی بی اور دماغی جھلیوں کی سوزش کا سبب بھی بنتا ہے۔ایسے افراد جو سگریٹ کے دھوئیں کو منہ کے رستے معدے اور انتڑیوں تک پہنچاتے ہیں ،انہیں معدے اور انتڑیوں کے السر ،بواسیر اور جگری سوزش ہونے کے خطرات عام آدمی کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اعصابی اور دماغی امراض میں نیند کا نہ آنا،ڈپریشن،بے چینی،پٹھوں کی کمزوری جیسے عوارض شامل ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ سگریٹ نوشی اور تمباکو خوری کاشرعی حکم‘‘ فضیلۃ الشیخ عبد العلیم عبد الحفیظ سلفی(مترجم : مکتب تعاونی برائے اسلامی دعوت ،نجران ،سعودی عرب) کی کاوش ہے ۔یہ کتاب اپنے موضوع کے تمام پہلو پر محیط اور کتاب وسنت کے مناسب دلائل اور عصرِ حاضر کے جید علماء کرا م کےفتاویٰ پر مشتمل ہے فاضل مصنف نے آسان اور عام فہم اسے مرتب کیا ا ور سگریٹ نوشی وتمباکو خوری کی تائید کرنے والوں کے لیے کوئی موقعہ نہیں چھوڑا۔اللہ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے امت کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔(آمین)(م۔)
صحابہ نام ہے ان نفوسِ قدسیہ کا جنہوں نے محبوب ومصدوق رسول ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا اور اس زمانۂ نبوی کی تجلیات ِایمانی کو اپنے ایمان وعمل میں پوری طرح سمونے کی کوشش کی ۔ صحابی کا مطلب ہے دوست یاساتھی شرعی اصطلاح میں صحابی سے مراد رسول اکرم ﷺکا وہ ساتھی ہے جو آپ پر ایمان لایا،آپ ﷺ کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا ۔ صحابی کالفظ رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ کے خاص ہے لہذاب یہ لفظ کوئی دوسراا شخص اپنے ساتھیوں کےلیے استعمال نہیں کرسکتا۔ اسی طرح سیدات صحابیات وہ عظیم خواتین ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کودیکھا اور ان پر ایمان لائیں اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام وصحابیات سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔ صحابہ کرام کے ایمان ووفا کا انداز اللہ کو اس قدر پسند آیا کہ اسے بعد میں آنے والے ہر ایمان لانے والے کے لیے کسوٹی قرار دے دیا۔یو ں تو حیطہ اسلام میں آنے کے بعد صحابہ کرام کی زندگی کاہر گوشہ تاب ناک ہے لیکن بعض پہلو اس قدر درخشاں ،منفرد اور ایمان افروز ہیں کہ ان کو پڑہنے اور سننے والا دنیا کا کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ صحابہ کرام وصحابیات ؓن کےایمان افروز تذکرے سوانح حیا ت کے حوالے سے ائمہ محدثین او راہل علم کئی کتب تصنیف کی ہیں عربی زبان میں الاصابہ اور اسد الغابہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔اور اسی طرح اردو زبان میں کئی مو جو د کتب موحود ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ عظیم مسلمان شخصیات ‘‘ کلیم چغتائی کی مرتب شدہ ہے یہ کتاب دراصل موصو ف ماہانہ’’ رابطہ‘‘ کراچی میں مفید سلسلۂ مضامین ’’ تاریخ سے ایک ورق‘‘ عنوا ن سے شائع ہونے والے مضامین کی کتابی صورت ہے ۔ جس میں صحابہ کرام بزرگان دین اور علمائے عظام کے علاوہ کامیاب عظیم حکمرانوں جرنیلوں اور فاتحین کا تذکرہ شائع کیا جاتا رہا۔یہ تمام مضامین کلیم چغتائی صاحب نے نہایت شوق اور محنت سے تحریر کیے ۔ بعد ازاں ٹائم مینجمنٹ کلب ،کراچی نے ان سلسلہ وار مضامین کو ’’ عظیم مسلمان شخصیت‘‘ کے عنوان کے تحت 8کتابوں کے سلسلے ( سیریز) کی صورت میں شائع کیا تو قارئین کے حلقے میں اسےبہت سراہا گیا ہے۔ پھر ان 8 کتب کو قارئین کی سہولت کی خاطر یکجا کر کے ایک جلد میں شائع کیا گیا ہے۔(ان آٹھ کتب کے عنوانات یہ ہیں۔ رفیقانِ محمد ﷺ،امت کےمحسنین، صاحبان باصفا،مسلم تہذیب کےپاسبان ،ریگزاروں کےامین،ادوار ِزریں، وسط ایشیا کےجواہر،ہند کےحکمران) عظیم مسلمان شخصیات کےسلسلے کی ان آٹھ کتب میں پہلی تین ان پاکیزہ نفوس کی بلند سیرتوں کے تذکروں پر مشتمل ہیں جو دین اسلام کی جیتی جاگتی تصویر تھے ۔ بقیہ پانچ کتب مختلف قابل تحسین مسلمان حکمرانوں کے حالاتِ زندگی ،اوصاف اورکارناموں کا احاطہ کرتی ہیں ۔ ان کتب کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ مسلمانوں میں کس قدر صاحب ایمان ، روشن سیرتوں کی مالک اور لائق صد تکریم شخصیات موجود تھیں او رکتنے باکردار دین دار، خدا ترس ، انصاف پسند، علم دوست ، اچھے منتظم اوردلیر حکمران جہاں بانی کےفرائض انجام دے چکے ہیں ۔اللہ تعالیٰ مرتب و ناشرین کتا ب ہذا کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔(م۔ا)
ارسطو یونان کا ممتاز فلسفی، مفکر اور ماہر منطق تھا، جس نے سقراط جیسے استاد کی صحبت پائی اور سکندر اعظم جیسے شاگرد سے دنیا کو متعارف کروایا۔384 قبل مسیح میں مقدونیہ کے علاقے استاگرہ میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ شاہی دربار میں طبیب تھا۔ وہ بچپن ہی میں اپنی والدہ کے سائے سے محروم ہوگیا۔ ارسطو نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ دس برس کا ہوا تو باپ کا بھی انتقال ہوگیا۔ارسطو 37 سال کی عمر تک افلاطون کے مکتب سے وابستہ رہا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اسے اپنے استاد افلاطون کے خیالات میں تضاد اور طریق تدریس میں کجی نظر آئی جسے اس نے اپنی تحریروں میں موضوع بنایا ہے۔ 53 سال کی عمر میں ارسطو نے اپنے مدینہ الحکمت کی بنیاد ڈالی جہاں اس نے نظری و کلاسیکی طریقہ علم کے بجائے عملی اور عقلی مکتب فکر کو فروغ دیا۔ ارسطو کا خالکس میں7 مارچ 322 قبل مسیح میں انتقال ہوا۔ارسطو صرف فلسفی ہی نہ تھا، بلکہ وہ علم طب، علم حیوانات، ریاضی، علم ہيئت، سیاسیات، مابعدالطبیعیات اور علم اخلاقیات پر قدیم حکما کے مابیں مستند اور صاحب الرائے عالم مانا جاتا ہے۔ اس کی کتب و تحقیقی رسائل کی تعداد ہزار سے زائد ہے۔فلسفہ کے علاوہ جو چیز ارسطو کو سابق فلاسفہ سے ممتاز کرتی ہے وہ اسکا عملی طبیعیات، ہیئت اور حیاتیات میں ملکہ تھا۔ وہ پہلا عالم تھا جس نے علمی اصطلاحات وضع کیں۔ منطق کو باقاعدہ علم کا درجہ دیا۔ اور سیاست و معاشرت کے لیے باضابطہ اصول ترتیب دیے۔ اسکی قائم کردہ اکیڈمی عرصہ دراز تک مرکز علم و فن رہی۔ زیرنظر کتاب ’’ ارسطو‘‘ شاہد مختار صاحب کی مرتب شدہ ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے ارسطور کی مختصر حالات زند گی ، ارسطو کی شخصیت،تالیف وتصانیف،ارسطو کے فلسفہ اخلاقیات ، اور فلسفہ سیاسیات اور ان کے نظریات وتعلیمات کو سپرد قلم کیا ہے ۔(م۔ا)
الہدایہ امام ابوالحسن علی بن ابی بکرمرغینانی(593ھ) کی مشہور ترین تصنیف ہے جو کہ بدایۃ المبتدی کی شرح ہے ۔ فقہ حنفی میں یہ سب سے اہم کتاب ہےصاحب الہدایہ نے فقہ میں متن کی کتاب لکھی ہے اس میں قدوروی سے بھی مسائل اخذ کیے ہیں یہاں قدوری سے مسئلے نہ مل سکے وہاں امام محمد کی کتاب جامع صغیر سے مسئلے لیے اور دونوں کو ملا کر کتاب بدایة المبتدی تصنیف کی۔پھر کفایۃ المنتہی کے نام سے اسی( 80 )جلدوں میں اس کی شرح لکھی ۔شرح سے فراغت کے قریب پہنچے تو محسوس ہوا کہ کتاب اتنی لمبی ہو گئی ہے کہ اس کو کوئی نہیں پڑھے گا۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اصل کتاب بدایة المبتدی ، ہی کو نہ چھوڑ دیں اس لیے بدایة المبتدی کی دوسری شرح مختصر لکھی جس کا نام ’ھدایہ‘ رکھا۔فقہ حنفی کی یہ معروف اور اہم کتاب ہونے کےپیش نظر علماء احناف نے اس کی دسیوں شروحات لکھی ہیں ۔یہ کتاب برصغیر وپاک وہند کے اکثر جامعات ومدارس میں شامل نصاب ہے حتی کہ وفاق المدارس سلفیہ مرحلہ العالیۃ کےنصاب میں بھی شامل ہے ۔اس لیے اکثر طلباء واساتذہ کو ضرورت رہتی ہے یہ کتاب مدارس احناف میں تو عموماً دستیاب ہوتی ہے لیکن مدارس سلفیہ کی لائبریریوں میں کم ہی پائی جاتی ہے اگر ہے توالہدایۃ مع حاشیہ وشروح کے پرانے درسی سائز کے نسخہ جات موجود ہوتے ہیں جن سے استفادہ کرنا ہی مشکل ہوتا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’اشرف الہدایۃ شرح اردو ہدایۃ‘‘ مولانا جمیل سکروڈھوی کی تصنیف ہے اور ہدایۃ کی مفصل اردو شرح ہے جوکہ 16ضخیم مجلدات پر مشتمل ہے اور یہ مزید اضافۂ عنوانات وتصحیح نظرثانی شدہ جدہ جدید ایڈیشن ہے۔محض اس لیے کتاب کو کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا جارہا ہے کہ طلباء واساتذہ اور اسکالرز حضرات بوقت ضرورت اس سے مستفید ہوسکیں ۔(م۔ا)
احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ایک طرف حجاج کے لئے وقوف عرفات کا دن ہےجس دن اللہ تعالیٰ عرفات میں وقوف کرنے والوں پر فخر کرتاہے اور کثرت سے انہیں جہنم سےآزادی دیتا ہے تود وسری طرف عام مسلمانوں کے لئے اس دن روزہ رکھنے کا حکم ملاہے جو ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ اس روزے سے متعلق پہلے کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا مگر آج گلوبلائزیشن کی وجہ سے لوگوں کے درمیان یہ اختلاف پیداہوگیا کہ عرفہ کا روزہ کب رکھاجائے؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ روزہ سعودی عرب کے حساب سے وقوف عرفہ والے دن رکھنا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ ہرملک والا اپنے یہاں کی تاریخ سے 9؍ذی الحجہ کا روزہ رکھے گا۔ زیر نظر کتابچہ’’عرفہ کا روزہ احکام وفضائل اور بعض شبہات ک ازالہ‘‘فضیلۃ الشیخ عبد العلیم عبد الحفیظ سلفی(مترجم : مکتب تعاونی برائے اسلامی دعوت ،نجران ،سعودی عرب) کی علمی کاوش ہے۔ فاضل مصنف نے عصر حاضر میں اختلاف مطالع اور اس سے پیدہ شدہ بعض مسائل کی بنیاد پر عرفہ کے دن روزہ کی تاریخ کی تعیین میں کچھ علماء پائے جانے والے بعض شبہات کو اس مختصر کتاب میں مختلف دلائل اور براہین کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کی تعیین میں پیش کردہ اشکالات اوراشتباہات کا جائزہ لیا ہے تاکہ حق وصواب واضح ہو اور امت کےافراد کو کتاب وسنت کےمطابق عمل کی راہ ملے ۔( م۔ا )
علم اللہ تعالی کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی فضیلت اور اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔ یہ ان انعامات الٰہیہ میں سے ہے جن کی بنا پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہےاس علم سےمراد علم الہی ہے ۔ علم ہی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو عطا فرما کر اس کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری ثابت فرمائی۔ رسول اللہﷺپر جو پہلی وحی نازل فرمائی گئی اُس میں اُن کی تعلیم سے ابتدا کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطورِ احسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا۔ دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم کی متعدد فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ رسول اللہﷺ کی اس امت میں تو بالخصوص اہلِ علم بہت اعلی مقام کے حامل ہیں حتیٰ کہ انہیں انبیائے کرام کا وارث قرار دیا گیا ہے۔ اور امت مسلمہ کی قیادت کا فریضہ ہمیشہ علماء نے انجام دیا ہے او رہر دور میں اللہ تعالیٰ نے ایسے علماء پیدافرمائے ہیں جنہوں نے امت کو خطرات سےنکالا ہے اوراس کی ڈوپتی ہوئی کشتی کو پار لگانے کی کوشش کی ہے ، اسلامی تاریخ ایسے افراد سے روشن ہے جنہوں نے حالات کو سمجھا اور اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے لیے اور ان کو صحیح رخ پر لانے کے لیے انہوں نے ہر طرح کی قربانیاں دی جو اسلامی تاریخ کا سنہرا باب ہے ۔اسلامی معاشرہ میں علمائے کرام کاکرداربڑی اہمیت رکھتا ہے ۔لیکن عصر حاضر میں علم اورعلماء کو ان کا مقام نہیں دیا گیا جدید ریاست علم دین کو علم نہیں سمجھتی اور نہ ہی عالم کو عالم سمجھتی۔ زیر نظر کتاب ’’ علماء کی تنخواہیں سب سے کم کیوں ہیں ؟ ‘‘ کی خالد جامعی کی تصنیف ہے ۔ خالد جامعی کہتے ہیں کہ ہم نے ذاتی طور پر چند سال پہلے معلومات کی تو یہ بات ہمارے علم میں آئی کہ ایک بہت بڑے مدرسے کے محترم شیخ الحدیث کی تنخواہ صرف پندرہ ہزار روپے ماہانہ تھی، حالانکہ وہ محترم عالم عربی، فارسی، اردو، پنجابی، پشتو اور ترکی زبان بھی جانتے تھے، وہ انگریزی سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے۔ سرکاری اداروں کے ایک ناخواندہ، ناتراش چپراسی کی تنخواہ اور مراعات ان محترم شیخ الحدیث سے کئی گنا زیادہ ہیں، اس کے ساتھ بے شمار مراعات، سہولیات الگ ہیں، مثلاً علاج معالجہ کی مفت سہولت، رہائش گاہ، مختلف الاؤنسز، ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور بچوں کی ملازمت وغیرہ وغیرہ۔ لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ علما کے معاوضے کیوں اتنے کم ہیں؟ علما اتنے کم معاوضوں کے باوجود شب و روز دین کی خدمت میں مصروف ہیں، وہ کبھی ان قلیل معاوضوں پر کوئی احتجاج یا حرف شکایت تک زبان پر نہیں لاتے، آخر کیوں؟ توکل، صبر و شکر کی اصطلاحات کا عملی نمونہ کیا عہد حاضر میں ان قلیل المشاہیرہ علما کے سوا کوئی اور ہوسکتا ہے؟ لوگ درویش، صوفی، اہل اﷲ کا پوچھتے ہیں کہ عصر حاضر میں اﷲ والے نہیں ملتے، وہ جا کر ان علما کو دیکھ لیں، اکثر علما آپ کو اسی حال میں ملیں گے۔ یہی علما جو شب و روز دین کی نشر و اشاعت میں مصروف ہیں۔ یہ اللہ کے کام میں ایسے مشغول ہیں کہ معاش کمانے کے لیے فرصت نہیں۔ یہ خود دار ہیں سوالی نہیں۔ نیز خالد جامعی صاحب اس کتاب میں بتایا ہےکہ ہماری ریاست کا کردار اس وقت نہ تو ایک اسلامی ریاست والا ہے، نہ ہی لبرل ہے، یہ تو عوام ہیں جو ریاست کے مقابلے میں اپنی ذمے داری کسی حد تک پوری کرتے ہیں اور اپنے جید علما کو نہ صرف احترام دیتے ہیں بلکہ ہمہ وقت خدمت کے لیے تیار بھی رہتے ہیں۔(م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے سب سے آخری کتاب ہے ۔جسےاللہ تعالی نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں،عالمِ اسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، جبکہ مغرب ،الجزائر ،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت امام نافع بروایت ورش ، لیبیا ،تیونس اور متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع ،مصر، صومالیہ، سوڈان اور حضر موت میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج اور متداول ہے۔ہمارے ہاں مجلس التحقیق الاسلامی میں ان چاروں متداول روایات(اور مزید روایت شعبہ) میں مجمع ملک فہد کے مطبوعہ قرآن مجید بھی موجود ہیں۔عہد تدوین علوم سے کر آج تک قراءات قرآنیہ کے موضوع پر بے شمار اہل علم اور قراء نے کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ علم قراءات کے میدان میں پہلا مرحلہ قراءات سبعہ کا ہے جس کے لیے شاطبیہ پڑھی پڑھائی جاتی ہے ۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ قراءات ثلاثہ کا ہے ، اس کے لیے علامہ جزری کی کتاب الدّرّة المضية پڑھائی جاتی ہے ۔اس کے پڑھنے سے قراءات عشرہ کی تکمیل ہوجاتی ہے الدّرّة المضية قراءات ثلاثہ پر اہم ترین اساسی اور نصابی کتاب ہے اور قراءات ثلاثہ کی تدریس کے لئے ایک مصدر کے حیثیت رکھتی ہے۔اللہ تعالی نے اسے شاطبیہ کی مانند بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے، متعدد علماء اور قراءنے الدّرّة المضية كی عربی اور اردو شروح لکھیں ہیں ۔ زیر کتاب ’’ تلخيص الدّرّة المضية‘‘ شیخ القراء قاری احمد میاں تھانوی کے شاگرد رشید جناب قاری قسمت اللہ (مدرس جامعہ دار العلوم ،کراچی کی کاو ش ہے الله تعالیٰ قاری قسمت اللہ صاحب کی ا س کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ۔( آمین)قاری قسمت اللہ نے الدّرّة المضيةکی اس تلخیص میں صرف مختلف فیہ کلمہ کا شعر،مختلف فیہ کلمہ اور اس کی آیت اور ائمہ ثلاثہ کا اپنی اصل کےساتھ موافقت یا مخالفت نقشے کی صورت میں واضح کیا ہے تاکہ طلباء کےلیے سمجھنا آسان ہو ۔ قاری قسمت اللہ صاحب نے الدّرّة المضية‘کی مفصل شرح بھی لکھی ہےنیز ان کی تجوید وقراءات کے متعلق کتاب ہذا کے علاوہ متعدد کتب تصنیف کی ہے ہیں ۔(م۔ا)
مولانا اشرف علی تھانوی تھانہ بھون ضلع اترپردیش میں 1863ء کوپیداہوئے ابتدائی تعلیم میرٹھ میں ہوئی فارسی کی ابتدائی کتابیں یہیں پڑھیں اور حافظ حسین مرحوم دہلوی سے کلام پاک حفظ کیا پھر تھانہ بھون آکر حضرت مولانا فتح محمد صاحب سے عربی کی ابتدائی اور فارسی کی اکثر کتابیں پڑھیں ذوالقعدہ 1295ھ میں آپ بغرض تحصیل وتکمیل علوم دینیہ دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور پانچ سال تک یہاں مشغول تعلیم رہ کر 1301ھ میں فراغت حاصل کی اس وقت آپ کی عمر تقریباً19سال تھی زمانہ طالب علمی میں حضرت میل جول سے الگ تھلگ رہتے اگر کتابوں سے کچھ فرصت ملتی تو اپنے استاد خاص حضرت مولانا محمد یعقوب کی خدمت میں جابیٹھتے۔ تکمیل تعلیم کے بعد والد اور اساتذہ کرام کی اجازت سے آپ کانپور تشریف لے گئے اور مدرسہ فیض عام میں پڑھانا شروع کر دیا چودہ سال تک وہاں پرفیض کو عام کرتے رہے،1315ھ میں کانپور چھوڑکر آپ آبائی وطن تھانہ بھون تشریف لائے اور یہاں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خانقاہ کو نئے سرے سے آباد کیا اور مدرسہ اشرفیہ کے نام سے ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی جہاں آخر دم تک تدریس،تزکیہ نفوس اور اصلاح معاشرہ جیسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔تدریس کے علاوہ آپ نے بیسیوں کتب تصنیف کیں۔ آپ کی تصانیف اور رسائل کی تعداد 800 تک ہے۔آپ کی اہم تصانیف میں تفسیر بیان القرآن یہ تقریباً چھ سال کی مدت میں مکمل ہوئی اور پہلی بار 1326ھ میں "اشرف المطابع" تھانہ بھون سے طبع ہوئی،اس میں سلیس بامحاورہ ترجمہ، تفسیر میں روایات صحیحہ اور اکابر کے اقوال کا التزام کیا گیا ہے۔ زیر نظر کتاب’’ مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر بیان القرآن کا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ ‘‘ ڈاکٹر ریحانہ ضیاء صدیقی کے تحقیقی مقالہ کی کتابی صورت ہے جیسے انہوں نے 1991ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں پیش کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی بعد ازاں اس تحقیقی مقالہ کو کتابی میں شائع کردیاگیا۔مقالہ نگار نے اس مقالے میں مولانا اشرف علی تھانوی نے جس مقصد اور ضرورت کے تحت تفسیر بیان القرآن لکھی تھی اسے پوری طرح مثالوں کےساتھ واضح کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ تفسیر کے تحقیقی مطالعہ کی روشنی میں چنددیگر تراجم وتفاسیر کا ذکرکرتے ہوئے تفسیر کی فقہی :عقلی،کلامی حیثیت کو واضح کیا ہے اور اردوترجمہ ،ربط آیات کے حوالوں سے مثالیں بھی پیش کی ہیں ۔نیز مولانا تھانوی کی تفسیر کا امتیاز دیگر تراجم اور تفاسیر کے موازنہ کےساتھ مکمل ایک باب میں پیش کیا ہے ۔(م۔ا)
ذکری مذہب کا بانی ملا محمد اٹکی ہے ذکری مذہب کا زمانہ ساڑھے چارسوسال پر محیط ہے۔ اس مذہب کے اکثر پیروکار بلوچ ہیں ۔ ذکری مذہب والوں کی زیادہ تعداد مکران میں ہے۔ اگرچہ بعض دوسرے علاقوں میں مثلا لسبیلہ ، خضدار ، کو ہلو اور ساحل سمندر پران کی آبادیاں ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی کے مختلف علاقوں مثلا لیاری ، ملیر اور ناظم آباد وغیرہ میں ذکری مذہب کے ماننے والے پائے جاتے ہیں۔ ذکری مذہب کوئی تبلیغی مذہب نہیں ہے، بلکہ بانی مذہب ملا محمد اٹکی نے بلوچوں کے اندر رہ کراس مذہب کی اشاعت کی، جس کی وجہ سے بلوچوں کے علاوہ اور کسی قوم میں اس مذہب کو کوئی پزیرائی نہیں ملی ۔ آج تک یہ لوگ اپنے مذہب کے عقائد کی کتابیں پردہ خفا میں رکھتے ہیں۔ ذکری مذہب کے کلمہ توحید میں اچھا خاصا اختلاف پایا جاتا ہے، مثلا کلمہ لیا جائے تو کسی کتاب میں کہیں پر اضافہ اور کسی کتاب میں کمی اور کہیں پہ الفاظ کی تبدیلی نظر آتی ہے۔ اسی طرح رسالت کے عقائد میں بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ ملا محمد اٹکی کو کہیں پیغمبر ، کہیں پہ ان کو نور من نورالہی قراردیتے ہیں۔ قرآن میں بھی یہ لوگ کمی بیشی کے قائل ہیں اور یہی حال ان کی عبادات کا بھی ہے ۔ زیر نظر تحقیقی مقالہ بعنوان’’ذکری مذہب ،ظہور، تعلیمات اور اثرات ‘‘ پروفیسرجناب آیاز خان (گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ،بنوں) کا 1998ء میں ڈاکٹریٹ کے لیے شعبہ اسلامیات جامعہ پشاور میں پیش کیا جانے والا مقالہ ہے ۔مقالہ نگار نےاپنے اس تحقیقی مقالہ کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔جس میں انہوں نے ذکری مذہب کا تاریخی پس منظر وارتقاء، ذکری علماء وادباء کے حالات زندگی ،ذکریوں کے انٹرویوز اور آخری باب پنجم می ذکریوں کے متعلق اہل اسلام کاردّ عمل ،فتاویٰ، عدالتی فیصلے،ذکری مذہب کی تردید میں تحریر شدہ کتب کاتعارف اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹس پیش کی ہیں۔ (م۔ا)
جو شخص قرآن مجید کو حفظ کرنے کے بعداس پر عمل کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے اجر عظیم سے نوازتے ہیں ۔اور اسے اتنی عزت وشرف سے نوازا جاتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کو جتنا پڑھتا ہے اس حساب سے اسے جنت کے درجات ملتے ہیں ۔سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ صاحب قرآن کوکہا جائے گا کہ جس طرح تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے تھے آج بھی پڑھتے جاؤ جہاں تم آخری آیت پڑھوگے وہی تمہاری منزل ہوگی ۔‘‘( جامع ترمذی: 2914 )’’ صاحب قرآن ‘‘سے مراد حافظِ قرآن ہے اس لیے کہ نبی ﷺکا فرمان ہے یؤم القوم اقرؤهم لکتاب الله ’’یعنی لوگوں کی امامت وہ کرائےجو کتاب اللہ کا سب سے زيادہ حافظ ہو ۔‘‘تو جنت کے اندردرجات میں کمی وزیادتی دنیا میں حفظ کے اعتبار سے ہوگی نا کہ جس طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس دن جتنا وہ پڑھے گا اسے درجات ملیں گے ، لہذا اس میں قرآن مجید کے حفظ کی فضيلت ظاہر ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے اللہ تعالی کی رضا کے لیے حفظ کیا گیا ہو۔ زیر نظر مختصر کتابچہ ’’ حفظ القرآن کس کس کی کیا ذمہ داری؟‘‘ ابو عثمان حافظ محمد اکرم کا مرتب شدہ ہے اس مختصر کتابچہ میں انہوں نے والدین ، استاد، اور حفظ کرنےکی فضیلت اور ان تینوں فریق کی ذمہ داریوں کو اضح کیا ہےنیز یہ بتایا کہ کسی بچے کو حفظ کروانے کے لیے تین فریق (والدین، استاد، بچہ ازخود) مداخلت کرتے اور حصہ لیتےہیں ۔ ا ن تینوں کا کردار بہت اہمیت کاحامل ہے ۔بچے کے تکمیل حفظ میں ان کی دلچسپی اور اللہ سے گہرے تعلق کا ہونا بہت ضروری ہے ۔( م۔ا )
اولاد کی تربیت صالح ہوتو ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے ۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے ، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کےحقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے ۔ زیر نظر کتابچہ’’ بچوں کی تربیت سے متعلق چالیس احادیث ‘‘ شیخ اسعد اعظمی (استاذ جامعہ سلفیہ ،بنارس) کی کاوش ہے انہوں نےاس کتابچہ میں احادیث مبارکہ کے ذخیرے سے ایسی چالیس احایث بحوالہ جمع کر کے ان کی مختصر اور عام فہم تشریح پیش کی ہے جن میں بچوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق آپﷺ کےارشادات ، معمولات اور ہدایات موجود ہیں والدین اور سرپرست حضرات اپنے زیر تربیت افراد کی رہنمائی اور کردار سازی کے لیے اس مجموعے سے مستفیدہوسکتے ہیں ۔ نیز مدارس وجامعات کے طلبہ و طالبات اپنی تقریریوں کی تیاری کےلیے اس سے مدد لے سکتے ہیں اللہ تعالیٰ مرتب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کےلیے نفع بخش بنائے ۔(آمین) ( م۔ا )
ایک نکتہ داں شخص نے کسی قدر سچ کہا ہے کہ "ہم کو صرف یہی رونا نہیں ہے کہ ہمارے زندوں کو یورپ کے زندوں نے مغلوب کر لیا ہے، بلکہ یہ رونا بھی ہے کہ ہمارے مردوں پر یورپ کے مردوں نے فتح پا لی ہے۔"ہر موقع اور ہر محل پر جب شجاعت،ہمت،غیرت،علم وفن الغرض کسی کمال کا ذکر آتا ہے تو اسلامی ناموروں کی بجائے یورپ کے ناموروں کا نام لیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ قوم سے قومی حمیت کا مادہ بالکل جاتا رہا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید ےعلیم میں ابتداء سے انتہاء تک اس بات کا موقع ہی نہیں ملتا کہ اسلاف کے کارناموں سے واقفیت حاصل کی جائے۔ اس لئے جب خصائل انسانی کا ذکر آتا ہے تو خواہ مخواہ انہی لوگوں کا نام زبان پر آجاتا ہےجن کے واقعات کی آوازیں کانوں میں گونج رہی ہیں اور یہ وہی یورپ کے نامور ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "اسلامی خلفاء وملوک اور تاریخ اسلام سے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ" جماعت اہل حدیث کے معروف اور نامورمفسر مولف محترم مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے اسی کمی کو پورا کرنے کی سعی مشکور کی ہے۔ مولف موصوف نے اس کتاب میں "اسلامی ریاست کے تصور" کو اجاگر کرنے اور اسلامی کے نامور حکمرانوں اور مشاہیر کی سوانح حیات کو قلم بند کرتے ہوئے ہمیں اپنے اسلاف کے نمونے کو اپنانے کی جدوجہد کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
میڈیا انگریزی زبان کا لفظ ہے اس سے مراد وہ تمام ذرائع ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔اردو میں ذرائع ابلاغ اور انگریزی میں اسے میڈیا کہتے ہیں۔ بظاہر میڈیا ایک وسیع اورمتنوع الاقسام ذرائع ابلاغ کانام ہے جن میں ہر روزجدت اورترقی آرہی ہے ۔ لیکن اگر ان سب ذرائع کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بنیادی طور تین ایسے عوامل یا کردار ہیں جو کسی نہ کسی طور اس میں موجود ہوتےہیں ۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ میڈیا میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ ہمارے مزاج یا ہمارے عقائد ونظریات سے متصاد ہوتی ہیں۔ زیر نظر کتاب’’میڈیا اسلام اور ہم ‘ ڈاکٹر سید محمد انور صاحب کی تصنیف ہے ۔ مصنف نے اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔حصہ اول فی زمانہ میڈیا ہے کیا ؟،میڈیا کے محرکات اور مضمرات کیا ہیں ؟ حصہ دوم میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیسے استعمال ہورہا ہے ؟ ،آیا یہ میڈیا پر اسلام دشمنی کے کوئی نئے طریقے ہیں؟،دینِ اسلام کے خلاف استعمال ہونے والے حربے اوران کے مقاصد کیا ہیں ؟حصہ سوم قرآن کی نظر میں اسلام کانظریہ سماع وابلاغ کیا ہے؟بطور سامع؍ ناظر ایک مسلمان کی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟،بحث اور مکالمے کے اصول کیا ہیں ؟دعوت کے لیے میڈیا کے استعمال کےطریقے کیا ہیں۔اور حصہ چہارم میں قرآن کےوضع کردہ اصولوں کی روشنی میں یہ بتایا گیاہےکہ میڈیا کی دنیا میں ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے ۔(م۔ا)
مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ بڑا طویل اورالمناک ہے ۔مسلمان پہلے صرف ایک امت تھے ۔ پہلے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ کر ایک شخص مسلمان ہوسکتا تھا لیکن اب اس کلمہ کے اقرار کے ساتھ اسے حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی بھی ہونے کا اقرار کرنا ضروری ہوگیا ہے ۔ضرورت اس امر کی مسلمانوں کو اس تقلیدی گروہ بندی سے نجات دلائی جائےاور انہیں براہ راست کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دی جائے ۔مسلک اہل حدیث در اصل مسلمانوں کوکتاب وسنت کی بنیاد پر اتحاد کی ایک حقیقی دعوت پیش کرنےوالا مسلک ہے ۔ اہل حدیث کے لغوی معنی حدیث والے اوراس سے مراد وہ افراد ہیں جن کے لیل ونہار،شب وروز،محض قرآن وسنت کےتعلق میں بسر ہوں او رجن کا کوئی قول وفعل اور علم، طور طریقہ اور رسم ورواج قرآن وحدیث سے الگ نہ ہو۔گویامسلک اہل حدیث سے مراد وہ دستورِ حیات ہےجو صرف قرآن وحدیث سے عبارت ،جس پر رسول اللہﷺ کی مہرثبت ہو۔اور اہل حدیث وہ جماعت ہے جو قرون اولی سے لےکر اب تک موجود ہے اور یہی فرقہ ناجیہ ہے ۔اور جماعت اہل حدیث کی فضیلت اورعظمت کےمتعلق متقدمین اور متاخرین علماء کرام کے اقوال اور فرمودات کو اسلامی تاریخ نے محفوظ کیا ہے بلکہ بعض علماء اور ائمہ کرام نے اہل الحدیث کی فضلیت بیان کرنے میں مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ زیر نظر کتابچ’’ فرقہ ناجیہ اور فضیلت اہل حدیث ‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔یہ کتابچہ چوتھی صدی ہجری کے ایک عالم اور محدث ابو حامد الواعظ المقرٰی کے تصنیف کردہ عربی رسالہ بعنوان’’ الفرقة الناجيةمن الناروبيان فضيلة اهل الحديث على سائر المذاهب ومناقبهم ‘‘ کا مخلص اردو ترجمہ ہے امام موصوف نے اس کتابچہ میں فرقہ ناجیہ اہل حدیث کی فضیلت کو بخوبی بیان کیا ہے اور اس موضوع کے تمام پہلوؤں پر قرآن وحدیث کے دلائل سے جامع روشنی ڈالی ہے ۔(م۔ا)
موجودہ دور میں الیکٹرانک میڈیا نے جس قدر ترقی کی منازل طے کی ہیں اس سے یوں محوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں لوگوں کے تمام معاملات الیکٹرانک میڈیا کے گرد ہی گھومیں گے اور رسائل وجرائد ایک مخصوص طبقے تک محدود ہوکر رہ جائیں کے ۔ جب کہ یہ دینی رسائل وجرائد ہماری تہذیب اور دینی صحافت کا حصہ ہیں ۔ ذرائع ابلاغ اور میڈیا میں سے یہی ایک وہ طاقت ہے جس کے ذریعے مسلم قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی اوراپنی منزل کا تعین کرسکتی ہے ۔ دینی رسائل ہی لوگوں کو دین ِخالص کی تعلیمات سے روشناس اور موجودہ فتنوں سے آگاہ کرتے ہیں ۔ برصغیر پاک وہند میں اردو زبان میں بے شمار دینی، ادبی ، سیاسی مجلات شائع ہوتے ہیں جن کااحاطہ کرنا مشکل ہے ۔پاکستان سے شائع ہونے والے اہم مجلات کے تعارف کےسلسلے میں ڈاکٹر سعید الرحمن کی زیر نظر کتاب ’’مجلات ِاسلامیات(نیشنل ڈائریکٹری اسلامک سٹڈیز ریسرچ جزنلز)‘‘ اہم کاوش ہے اس کتاب میں انہوں نے ہائیر ایچوکیشن کمیشن پاکستان سے منظوری پانے والے اور منظوری کے خواہاں تحقیقی مجلات کی کیٹگریز بنا کر ان کا تعارف پیش کرنے کے علاوہ اہل علم وادب کی نظر میں رسائل جرائد ومجلات کی علمی ، ادبی وتحقیقی افادیت کو بھی پیش کیا ہے ۔اور علوم اسلامیہ کے فیکلٹی ممبرز ، ایم فل ، پی ایچ ڈی سکالرز اور مدیرانِ جرائد کے لیے مفید معلومات اس کتاب میں جمع کردی ہیں ۔(م۔ا)
علم الابدان ، حیاتیات اور طب سے تعلق رکھنے والا ایک ایسا علم ہے کہ جس میں جاندار (حیوان اور نبات دونوں) کے جسم کی ساخت اور اس میں موجود مختلف اعضاءکی بناوٹ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے زیر مطالعہ جسم کو قطع بھی کیا جاتا ہے یعنی اس کی بیرونی بناوٹ کے بعد اس کی اندرونی بناوٹ کے مطالعہ کی خاطر اس کو کاٹ کر اندرونی ساخت دیکھی جاتی ہے۔ جب زیر مطالعہ جاندار کوئی حیوان ہو تو اس کو حیوانی تشریح ہتے ہیں اور جب کسی پودے کا مطالعہ کیا جائے تو اس کو نباتی تشریح کہتے ہیں۔قدیم فقہاء کےدور میں جدید ذرائع معلومات کے فقدان کی وجہ سے جسمانی اعضاء کی ساخت اور افعال کاعلم بہت محدود ہونےکے باوجود انہوں نے جس عرق ریزی سے طبی فقہی مسائل کے حل پیش کیے وہ فقہ اسلامی کا ایک درخشاں باب ہے۔ دینی مسائل کا بڑا حصہ انسانی زندگی، جسم، اس کے اعضاء اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر مشتمل ہے۔ ایک عالم دین اور مفتی کے لیے اس کی حقیقت کو جاننا ازحد ضروری ہے تاکہ مسائل کی وضاحت اور فتویٰ دیتے ہوئے اسے مکمل اطمینان ہو۔موجودہ دور میں طب کےعلم نےانتہائی تیزی سے ترقی کی ہے اور ایک ڈاکٹر کے لیے بھی اسی رفتار سے اس کو سمجھناناممکن ہوگیا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جدید علم طب کےنتیجے میں کئی ایسی بنیادی معلومات اب بالکل واضح ہوگئی ہیں جن کے بارے میں پہلے ابہام یایا جاتاتھا زیرنظر کتاب ’’علم تشریح الابدان ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق صاحب کی ایک منفرد اور عمدہ کاوش ہے انہوں نےاس کتاب میں حتی المقدور اعضاء کی ساخت اورافعال کے علم کو آسان پیرائے میں بیان کیا ہے ۔اکثر مقامات پر تشریح کےلیے شکلوں اور نقشوں سے مدد بھی لی ہے تاکہ طالب علم کو سمجھنے میں آسانی ہواور ذہن میں متعلقہ تصور کو واضح کیا جاسکے۔نیز فاضل مصنف نے اس کتاب میں انسانی اعضاء کی بناوٹ، اس کے جملہ اجزاء اور ان کی نشوونما کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جدید علم طب کی تحقیق کے بھی پورے حوالے دیے گئے ہیں اور قرآن و حدیث کے حوالوں سے بھی مزین کرکے ایمان افروز بنادیا گیا ہے یہ کتاب مدارس دینیہ کے تخصص کے نصاب میں شامل ہونے کےلائق ہے ۔(م۔ا)
مقررہ وزن اور بحر میں لکھی ہوئی تحریر شعر کہلاتی ہے ۔ شعر کی سطر مصرع کہلاتی ہے، ایک شعر میں دو مصرعے ہوتے ہیں۔ پہلے مصرعے کو مصرع اولیٰ اور دوسرے کو مصرع ثانی کہتے ہیں۔ اشعار کے مجموعے کانام شاعری ہے ۔شاعری کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام ہے کچھ لوگ مختلف فنون جیسے مجسمہ سازی، سنگ تراشی، نقش نگاری اور فنِ مصوری کے ذریعے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ شاعری ہوتا ہے۔ شاعری بہت سی زبانوں میں کی جاتی ہے ہر زبان کے اپنے اصول ہیں لیکن لفظ شاعری صرف اُردو زبان کے لیے مخصوص ہےہر دور کے شعرا کی تحریروں سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے۔اردو شاعری کے سب سے بڑے شاعر تاریخ میں برصغیر ہندوستان میں ملتے ہیں تقسیمِ ہندوستان کے بعد بہت سے مشہور شعرا کا تذکرہ ملتا ہے جن میں برصغیر پاک و ہندکے شعرا ء شامل ہیں ان شعرا میں سب سے مشہور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ہیں ۔ عموماً مقررین اپنی تقریروں مناسب مواقع پر اشعار پیش کرکے سامعین سے داد وصول کرتے ہیں اشعار کا انتخاب وتلاش ایک مشکل کام ہے اس سلسلےمیں کچھ اہل ذوق افراد نے منتخب اشعار کے مجموعے مرتب کیے ہیں جن سے اہم مواقع پر اشعار کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔محترم جناب سعید الرحمن صاحب (اسسٹنٹ پروفیسر عبدالولی خان یونیورسٹی،مردان) زیر نظر کتاب ’’ حسن انتخاب‘‘ مختلف شعراء وصلحاء ک منتخب اصلاحی، اخلاقی، تعمیری ومعنی خیز اشعار کا موضوع وار منفرد مجموعہ ہے ۔یہ مجموعہ ادبی سرگرمیوں ،تقریری مقابلوں کےلیے انتہائی موزوں ہے بوقت ضرورت ہرکوئی آسانی سے اس مجموعے سے شعرتلاش کرسکتاہے ۔اساتذہ ، طلباء ، خطباء کےلیے یہ مجموعہ گرانقدر تحفہ ہے ۔(م۔ا)
’’بحریہ‘‘ کی اصطلاح ہمارے معاشرہ میں صرف اور صرف نیوی تک محدودہوکر رہ گئی ہےجس کی وجہ سے بحریہ کے میدان میں نیوی کے علاوہ اس محاذ پر خاطر خواہ ترقی نہ ہو سکی اور بحریہ کی اصطلاح کے معنیٰ نہ صرف عامۃ الناس کی نظر میں بلکہ پالیسی ساز اداروں کی نظر میں بھی محدود سے محدود تر ہوتے چلے گئے۔ قرآن کریم نے بحریہ کےموضوع کو اپنی متعدد آیات میں بہت صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’بحریہ قرآن وسنت کی روشنی میں ‘‘ ڈاکٹر سیدمحمد انور کی تصنیف ہےانہوں نے بحری علوم میں ہونے والی اب تک پیش رفت کی روشنی میں اس کتاب کو مرتب کیا ہے ۔ یہ کتاب مختصر ہونے کے باوجود ایک ایسی دستاویز ہے جو اس موضوع سے متعلق ماہرین کے لیے خواہ وعملی میدان میں ہوں یا علمی دائرہ میں سرگرم ہوں ان کے لیے یہ کتاب ایک بنیاد فراہم کرتی ہے ۔فاضل مصنف نے بحریہ سے متعلق جو متعدد علمی وتخصیصی اصطلاحات وابستہ تمام فنی اصطلاحات کو ایک فہرست کی شکل میں انگریزی حروفِ تہجی کےلحا ظ سے تعریف وتشریح کے ساتھ مرتب کردیا ہے۔تاکہ ہر خا ص وعام قاری کو مضامینِ کتاب سمجھنے میں آسانی ہو سکے ۔(م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اوراصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر عربی زبان میں بے شمار کتب موجود ہیں۔جن میں سے مقدمہ جزریہ ایک معروف اور مصدر کی حیثیت رکھنے والی عظیم الشان منظوم کتاب ہے،جو علم تجوید وقراءات کے امام علامہ جزری کی تصنیف ہے۔اس کتاب کی اہمیت وفضیلت کے پیش نظر متعدد اہل علم نے اس کی شاندار شروحات لکھی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’الجواہر النققیہ فی شرح المقدمۃ الجزریۃ‘‘شیخ القراء والمجووین القاری المقری اظہار احمد تھانوی کی کاوش ہے ۔ قاری صاحب مرحوم نے تجوید وقراءات کی دسیوں کتب سے استفادہ کرکے یہ شرح مکمل کی ہے شارح نے اس میں قارئین کی آسانی کےلیے اصطلاحات بھی متعین کی ہیں ۔یہ شرح شائقین علم تجوید کے لئے ایک نادر تحفہ ہے۔ تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(م۔ا)
اردو کی بنیاددکن کے قدیم صوفی شعراء اور مذہبی مبلغین نے رکھی ۔ اردو ابتدائی لڑیچر تمام تر مذہبی ہے اور 1350ء سے لے کر 1590ء تک ڈھائی سوسال کے دوران دکن میں اردو کےبے شمار مذہبی رسالے لکھے گئے ۔دکن میں اردو ادب کا پہلا دور 1590ء میں شروع ہوا ۔ 1590ء سے 1730ء تک دکن میں کئی اچھے شاعر اور نثر نگار پیدا ہوئے سچ پوچھیئے تو باقاعدہ اردو ادب کی بنیاد اسی زمانہ میں رکھی گئی۔اس دور کی سب سےا ہم اور مشہور شخصیت شمس الدین ولی اللہ تھے اسے بابائے ریختہ اور اردو شاعری کاباوا آدم کہا جاتا ہے۔اردو ادب کی تاریخ او رارتقاء کےمتعلق متعدد کتب موجود ہیں زیر تبصرہ کتا ب’’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ ‘‘ سید احتشام حسین کی تصنیف ہے فاضل مصنف نے اس کتاب کو 14؍ابواب میں تقسیم کیاہے ان ابواب کےعناوین یہ ہیں۔اردو زبان اور ادب کی ابتداء، اردودکن میں ،دلی اٹھارویں صدی میں ، اردونثر کی ابتداء اور تشکیل،اودھ کی دنیائے شاعری،نظیر اکبر آبادی اور ایک خاص روایت کا ارتقاء،قدیم دلی کی آخری بہار،اردو نثر فورٹ ولیم اور اس کےبعد،نئے دور سے پہلے نظم اور نثر،نیا شعور اورنیانثری ادب،نشاۃ ثانیہ کی اردو شاعری ،نظم میں نئی سمتیں،نثر کے نئے روپ،موجود ادبی صورت حال۔(م۔ا)
اس میں کوئی شک نہیں جادو، نظر اور حسداور ان سب کادوسروں پر اللہ کے حکم سےاثر انداز ہوجانا یہ عین حق اور درست بات ہے قرآن وسنت میں اس کاثبوت موجود ہے۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جادو کا عمل مختلف انبیاء کے عہد میں جاری تھا ۔جیساکہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر سیدنا صالح، موسیٰ،سلیمان کےعہد میں جادو اورجادوگروں کاتذکرہ موجود ہے اور یہ موضوع انتہائی حساس ہے ۔ آج اس بنیاد پر بے شمار لوگوں نےاپنی مسندیں سجا رکھی ہیں۔ جادو کا توڑ کرنے اور جن نکالنے کے نام پر وہ سادہ عوام کا دین، عزت، مال سب کچھ لوٹ رہے ہیں ۔ بڑے بڑے نیکوکار لوگ بھی اس دھندے میں پڑ چکے ہیں۔جادو کرنا اورکالے علم کےذریعے جنات کاتعاون حاصل کر کے لوگوں کو تکالیف پہنچانا شریعتِ اسلامیہ کی رو سےمحض کبیرہ گناہ ہی نہیں بلکہ ایسا مذموم فعل ہےجو انسان کو دائرۂ اسلام سے ہی خارح کردیتا ہے اور اسے واجب القتل بنادیتا ہے ۔جادو اور جنات سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کے علاج کےلیے کتاب وسنت کے بیان کردہ طریقوں سے ہٹ کر بے شمار لوگ شیطانی اور طلسماتی کرشموں کے ذریعے ایسے مریضوں کاعلاج کرتے نظر آتے ہیں جن کی اکثریت تو محض وہم وخیال کے زیر اثر خود کو مریض سمجھتی ہے ۔جادوکا موضوع ان اہم موضوعات میں سے ہے جن کا بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے ذریعے تعاقب کرنا علماء کےلیے ضروری ہے کیونکہ جادو عملی طور پر ہمارے معاشروں میں بھر پور انداز سے موجود ہے اور جادوگرچند روپوں کے بدلے دن رات فساد پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں جنہیں وہ کمزور ایمان والے اور ان کینہ پرور لوگوں سے وصو ل کرتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے بغض رکھتے ہیں اورانہیں جادو کے عذاب میں مبتلا دیکھ کر خوشی محسوس کرتےہیں لہذا علماء کے لیے ضروری ہے کہ جادو کے خطرے او راس کے نقصانات کے متعلق لوگوں کوخبر دارکریں اور جادو کا شرعی طریقے سے علاج کریں تاکہ لوگ اس کے توڑ اور علاج کے لیے نام نہادجادوگروں عاملوں کی طرف رخ نہ کریں۔ زیر نظر کتاب’’علاج شرعی دم کےذریعے ‘‘المدینہ اسلامک ریسرچ سنٹر،کراچی کی مدیرحماد امیں چاؤلہ کا مرتب شدہ ہے یہ اس کتابچہ کا دوسراہ ایڈیشن ہے اس مختصر کتابچہ میں فاضل مرتب نے نہایت اختصار کے ساتھ رقیہ شرعیہ ،نظر، حسد،جادو اور دیگربیماریوں کا شرعی علاج اور اس سے متعلقہ دیگر چند اہم امور ذکرکیے ہیں ۔اللہ تعالی ٰمرتب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کےلیے نفع بخش بنائے ۔(م۔ا)
شرعی احکام کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جواہل بدعت کی فتنہ انگیزموشگافیوں کی نذر ہوچکا ہے۔ لوگ ایک عمل نیکی سمجھ کر کرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں وہ انہیں جہنم کی طرف لے جارہا ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ عمل دین کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ دین میں خود ساختہ ایجاد کا مظہر ہوتا ہے اور فرمان نبویﷺ ہے کہ دین میں ہرنئی ایجاد کی جانے والی چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہےاور ہر گمراہی جہنم کی آگ میں لے جائے گی۔جن مسائل میں بکثرت بدعات ایجاد کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے ان میں وفات سےپہلے اور وفات کےبعد کے مسائل نہایت اہمیت کے حامل ہیں اس لیے کہ ان سے ہر درجہ کے انسان کاواسطہ پڑتا رہتا ہے خواہ امیر ہو یا غریب ،بادشاہ ہو یافقیر اور نیک ہو یا بد ۔ زیر نظر کتابچہ’’قرآن وحدیث کی روشنی میں جنازہ سے متعلق متعدد سوالوں کےجواب ‘‘ شیخ مقبول احمد سلفی (اسلامک دعوۃ سنٹر ،طائف) کی طرف سےجنازہ سےمتعلقہ90 سوالات کے جوابات کی کتابی شکل ہے مقبول احمد سلفی﷾ نے اس میں کتابچہ میں وفات اور وفات کے بعد غسل، کفن ودفن اور جنازہ ،زیارت قبور کےمتعلق سوالات کے قرآن وسنت کی روشنی میں آسان فہم انداز میں جواب دئیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
دنیا معلومات کا سمندر ہے یہاں ہر سیکنڈ میں بہت کچھ نیا اور حیرت انگیز واقعہ سامنے آتا ہے ۔جنرنل نالج میں اضافہ انسان کو حاضر جواب بنانا دیتا ہے معلومات عامہ یا جنرل نالج سے مراد وہ تمام معلومات ہوتی ہیں جو انسانی زندگی سے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کریں۔یہ ہرگز ضروری نہیں کہ تمام معلومات تمام لوگوں کےلیے ہی اہمیت رکھتی ہوں بلکہ عام طور پر ہرشخص کو کسی خاص فیلڈ، ایریاز، کیٹاگریز کےحوالے سے معلومات میں انٹرسٹ ہوتاہے۔ مثال کےطور پر ایک مذہبی شخصیت کو دین ِاسلام سےمتعلق معلومات بھائیں گی۔ایک کھلاڑی کوسپورٹس کی معلومات میں دلچسپی ہوگی۔ایک طالب علم اپنی تعلیم کے لحاظ سے سائنس،آرٹسٹ یادیگر ٹاپکس پر معلومات پسند کرے گا۔ایک ڈاکٹر انسانی جسم سےمتعلق نت نئی معلومات حاصل کرنے کا شوق رکھے گا۔ جن لوگوں کے پاس معلومات کا خزانہ موجود ہووہ زندگی کے اکثر معاملات میں اپنی ذہانت اور سمجھ بوجھ کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف فیصلے کرسکتے ہیں اور جس شخص کے ذہن میں معلومات کا خزانہ دفن ہو ، وہ دوسرے لوگوں کو اپنی شخصیت سے بھی متاثر کرتا ہے اوران کادل جیت کر ان کے قریب ہونے کا موقع بھی حاصل کرلیتا ہے ۔جنرل نالج کے حوالے مارکیٹ میں بیسیوں کتب موجود ہیں لیکن یہ کتب عموماً مستند ، مقابلہ جاتی امتحانات کااحاطہ نہیں کرتیں جس کی بڑی وجہ تحقیق وتخلیق کافقدان ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ مسلم کوئز کمپیٹیشن +1000سوالات اور ان کےجوابات‘‘ محترم جناب فیصل اسلم صاحب کی کاوش ہے انہوں نے اپنی تحقیقی صلاحیتوں اور بڑی محنت سے اس کتاب کو تیار کیا ہےمختلف جگہوں سے معلومات اکٹھی کرکے انہیں یکجا کردیا ہے اس کتاب میں موجود تام معلومات قارئین کےلیے انتہائی مفید ہیں۔یہ کتاب پاکستان اوردنیا بھر کی تازہ ترین معلومات کاایک ایسا بیش بہا خزانہ ہے۔(م۔ا)