دینی مدارس کے طلباء ،اساتذہ ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نےایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا ۔صبح وشام کے اوقات میں صحابہ کرام وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ہجرت کے بعدمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ۔اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بیٹھ کر آپﷺ م...
تعزیہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کا مادہ عین، زاء اور ی سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ہیں مصیبت میں صبر کرنا ، دلاسہ دینا ،تسلی دینا ، پرسہ دینا کے ہیں۔ انہیں الفاظ سے سے تعزیت اور تعزیہ وجود میں آئے۔ اہل تشیع کے ہاں تعزیہ ایک ایسی شبیہ ہے جوکہ سیدنا حسین کے روضہ کی طرز پر تعمیر کی جاتی ہے۔ یہ تعزیے مختلف شکلوں مختلف اشیاء سونے،چاندی،لکڑی،بانس اور سٹیل سے تیار کئے جاتے ہیں، جوکہ شیعوں کی طرف سے محرم کے مہینے میں ایک جلوس کے ہمراہ برآمد کئے جاتے ہیں۔ برصغیر میں تعزیے کا بانی بادشاہ امیر تیمور تھا۔ تیمور کے باپ، دادا اسلام قبول کر چکے تھے۔ مگر تیمور کا تعلق تلوار اور ملکوں کی فتوحات تک ہی تھا۔ تعزیہ کا تعلق عہد تیمور سے ہے۔ یعنی تعزیہ کی شروعات عہد تیموری سے ہوئی اور رفتہ رفتہ اس کی شکل میں مختلف تبدیلیوں رائج ہوتی چلی گئیں۔ عجیب بات یہ کہ ان بدعات و رسومات کو دین کی خدمت سمجھ کر انجام دیا جاتا ہے جبکہ اسلام نے ان تمام شرکیہ افعال اور بدعات و خرافات سے واضح طور سے منع کیا ہے اور ایسے موقع پر صبر سے کام لینے کی تعلیم دی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "تعزیہ داری علمائے امت کی...
اولاد کی تربیت صالح ہوتو ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے ۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے ، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کےحقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ...