اصولِ حدیث پر حافظ ابن حجر عسقلانی کی سب سے پہلی اور اہم تصنیف نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر ہے جو علمی حلقوں میں مختصر نام نخبة الفکر سے جانی جاتی ہےاور اپنی افادیت کے پیش نظر اکثر مدارس دینیہ میں شامل نصاب ہے۔ اس مختصر رسالہ میں ابن حجر نے علومِ حدیث کے تمام اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے ۔حدیث اوراصو ل میں نخبۃ الفکر کو وہی مقام حاصل ہے جو علم لغت میں خلیل بن احمد کی کتاب العین کو ۔مختصر ہونے کے باوجود یہ اصول حدیث میں اہم ترین مصدر ہے کیونکہ بعد میں لکھی جانے والی کتب اس سے بے نیاز نہیں ۔حافظ ابن حجر نے ہی اس کتاب کی شرح نزهةالنظر فی توضیح نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر کے نام سے لکھی جسے متن کی طر ح قبول عام حاصل ہوا۔ اور پھر ان کے بعد کئی اہل علم نے نخبۃ الفکر کی شروح لکھی ۔ زير نظر كتاب شرح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر کا آسان فہم اردو ترجمہ ہے۔یہ ترجمہ مولانا عبد الغفار بن عبد الخالق﷾ (متعلّم مدینہ یونیورسٹی ) کی اہم کاوش ہے یہ کتاب اکثر مدارس کے نصاب میں شامل ہے لہذااس کوسمجھنے کے لیے یہ سوالاً جواباً اردو تلخیص طلباء کے لیے انتہائی مفید ہے۔ موصوف نے دلچسپ ودلنشین انداز میں دل ودماغ میں اتر جانے والے سوال وجواب کی صورت میں اسے مرتب کیا ہے ۔ جس سے طلبہ وطالبات کے لیے اصل کتاب کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے ۔ موصوف نے کتاب ہذا کے علاوہ شرح مائۃ عامل اور اطیب المنح ، ہدایۃ النحو، الفوز الکبیر اور نحو میر کی بھی سوالاً وجواباً تسہیل کی ہے جس سے طلباء کے لیے ان دقیق کتب کو سمجھنا نہایت آسان ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی اس کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے اوران کی زندگی اور علم وعمل میں برکت فرمائے اور انہیں اس میدان میں مزید خدمت کی توفیق عطا فرمائے ۔۔(آمین) (م۔ا)
علومِ نقلیہ کی جلالت وعظمت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر یہ بھی حقیقت کہ ان کے اسرار ورموز اور معانی ومفاہیم تک رسائی علم نحو کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ علومِ عربیہ میں علم نحو کو جو رفعت ومنزلت حاصل ہے اس کا اندازہ اس امر سے بہ خوبی ہو جاتاہے کہ جو بھی شخص اپنی تقریر وتحریر میں عربی دانی کو اپنانا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے نحو کےاصول وقواعد کی معرفت کا محتاج ہوتا ہے کلام ِالٰہی ،دقیق تفسیر ی نکات،احادیث رسول ﷺ ،اصول وقواعد ،اصولی وفقہی احکام ومسائل کا فہم وادراک اس علم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا یہی وہ عظیم فن ہےکہ جس کی بدولت انسان ائمہ کےمرتبے اور مجتہدین کی منزلت تک پہنچ جاتاہے ۔عربی مقولہ ہے : النحو فی الکلام کالملح فی الطعام یعنی کلام میں نحو کا وہی مقام ہے جو کھانے میں نمک کا ہے ۔ قرآن وسنت اور دیگر عربی علوم سمجھنےکے لیے’’ علم نحو‘‘کلیدی حیثیت رکھتاہے اس کے بغیر علوم ِاسلامیہ میں رسوخ وپختگی اور پیش قدمی کاکوئی امکان نہیں ۔ قرنِ اول سے لے کر اب تک نحو وصرف پرکئی کتب اور ان کی شروح لکھی کی جاچکی ہیں ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ زیر نظر کتاب علم نحو کی مشہور ومعروف درسی کتاب’’نحو میر ‘‘ کا سوالاً جواباً اردو خلاصہ ہے جو کہ مولانا عبد الغفار بن عبد الخالق﷾ (متعلّم مدینہ یونیورسٹی ) کی اہم کاوش ہے یہ کتاب چونکہ اکثر مدارس کے نصاب میں شامل ہے لہذااس کوسمجھنے کے لیے یہ سوالاً جواباً اردو خلاصہ طلباء کے لیے انتہائی مفید ہے۔ موصوف نے دلچسپ ودلنشین انداز میں دل ودماغ میں اتر جانے والے سوال وجواب کی صورت میں نحومیر کا یہ اردو خلاصہ پیش کیا ہے ۔ جس سے طلبہ وطالبات کے لیے اصل کتاب کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے ۔ موصوف نے کتاب ہذا کے علاوہ شرح مائۃ عامل اور اطیب المنح ، ہدایۃ النحو، الفوز الکبیر کی بھی سوالاً وجواباً تسہیل کی ہے جس سے طلباء کے لیے ان دقیق کتب کو سمجھنا نہایت آسان ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی اس کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے اوران کی زندگی اور علم وعمل میں برکت فرمائے اور انہیں اس میدان میں مزید خدمت کی توفیق عطا فرمائے ۔۔(آمین) (م۔ا)
جس طرح عربی زبان کو جاننے کے لیے گرائمر کا سمجھنا ازحد ضروری ہے اسی طرح حدیث شریف میں مہارت حاصل کرنے کےلیے اُصولِ حدیث میں دسترس رکھانا لازمی ہے ۔اُصول حدیث سے مراد ایسے قاعدوں اور ضابطوں کا علم ہے جن کے ذریعے سے کسی بھی حدیث کے راوی یا متن کے حالات کی اتنی معرفت حاصل ہوجائے کہ آیا راوی یا اس کی حدیث قبول کی جاسکتی ہے یا نہیں۔اور علم اصولِ حدیث ایک ایسا ضروری علم ہے جس کے بغیر حدیث کی معرفت ممکن نہیں احادیث نبویہ کا مبارک علم پڑہنے پڑھانے میں بہت سی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں جن سے طالب علم کواگاہ ہونا از حدضرورری ہے تاکہ وہ اس علم میں کما حقہ درک حاصل کر سکے ، ورنہ اس کے فہم وتفہیم میں بہت سے الجھنیں پید اہوتی ہیں اس موضوع پر ائمہ فن وعلماء حدیث نے مختصر ومطول بہت سے کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔انہی کتبِ اُصول حدیث میں سب سے زیادہ مختصر ، جامع اور آسان ترین کتاب من أطیب المنح فی علم المصطلح ہے ۔یہ کتاب مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسرشیخ عبد المحسن العباد اور عبد الکریم المرام کی مرتب شدہ ہے اُصول حدیث میں یہ مختصراور جامع ترین کتاب ہےیہی وجہ کہ یہ اکثر مدارس و جامعات کے نصاب میں بھی شامل ہے ۔اس کتاب کو پڑھ کر اصول حدیث کی وافر معلومات سے آگاہی ہوجاتی ہے ۔مختلف اہل علم نے اس کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے ۔ زیر نظر سوالاً جواباً اردو ترجمہ مولانا عبد الغفار بن عبد الخالق﷾ (متعلّم مدینہ یونیورسٹی ) کی اہم کاوش ہے یہ کتاب اکثر مدارس کے نصاب میں شامل ہے لہذااس کوسمجھنے کے لیے یہ سوالاً جواباً اردو ترجمہ طلباء کے لیے انتہائی مفید ہے۔ موصوف نے دلچسپ ودلنشین انداز میں دل ودماغ میں اتر جانے والے سوال وجواب کی صورت میں یہ ترجمہ کیا ہے ۔ جس سے طلبہ وطالبات کے لیے اصل کتاب کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے ۔ موصوف نے کتاب ہذا کے علاوہ شرح مائۃ عامل اور اطیب المنح ، ہدایۃ النحو، الفوز الکبیر،نحو میر کی بھی سوالاً وجواباً تسہیل کی ہے جس سے طلباء کے لیے ان دقیق کتب کو سمجھنا نہایت آسان ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی اس کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے اوران کی زندگی اور علم وعمل میں برکت فرمائے اور انہیں اس میدان میں مزید خدمت کی توفیق عطا فرمائے ۔۔(آمین) (م۔ا)
علومِ نقلیہ کی جلالت وعظمت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر یہ بھی حقیقت کہ ان کے اسرار ورموز اور معانی ومفاہیم تک رسائی علم نحو کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ علومِ عربیہ میں علم نحو کو جو رفعت ومنزلت حاصل ہے اس کا اندازہ اس امر سے بہ خوبی ہو جاتاہے کہ جو بھی شخص اپنی تقریر وتحریر میں عربی دانی کو اپنانا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے نحو کےاصول وقواعد کی معرفت کا محتاج ہوتا ہے کلام ِالٰہی ،دقیق تفسیر ی نکات،احادیث رسول ﷺ ،اصول وقواعد ،اصولی وفقہی احکام ومسائل کا فہم وادراک اس علم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا یہی وہ عظیم فن ہےکہ جس کی بدولت انسان ائمہ کےمرتبے اور مجتہدین کی منزلت تک پہنچ جاتاہے ۔عربی مقولہ ہے : النحو فی الکلام کالملح فی الطعام یعنی کلام میں نحو کا وہی مقام ہے جو کھانے میں نمک کا ہے ۔ قرآن وسنت اور دیگر عربی علوم سمجھنےکے لیے’’ علم نحو‘‘کلیدی حیثیت رکھتاہے اس کے بغیر علوم ِاسلامیہ میں رسوخ وپختگی اور پیش قدمی کاکوئی امکان نہیں ۔ قرنِ اول سے لے کر اب تک نحو وصرف پرکئی کتب اور ان کی شروح لکھی کی جاچکی ہیں ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔کتب ِنحو میں ’’ہدایۃ النحو‘‘ کا شمار نحوکی اہم بنیادی کتب میں ہوتا ہے ۔یہ کتاب دینی مدارس کے متوسط درجۂ تعلیم میں شامل نصاب ہے ۔ اختصار وطوالت سے منزہ انتہائی جامع اور کثیر فوائد کی حامل ہے ۔کئی اہل نے اس پر شرح وحواشی کی صورت میں کام کیا ہے ۔ زیر نظرکتاب ’’ ہدایۃ النحو سوالاً جواباً ‘‘مولانا عبد الغفار بن عبد الخالق﷾ (متعلّم مدینہ یونیورسٹی ) کی اہم کاوش ہے یہ کتاب اکثر مدارس کے نصاب میں شامل ہے لہذااس کوسمجھنے کے لیے یہ شرح طلباء کے لیے انتہائی مفید ہے۔ موصوف نے سوالاً جواباً اس شرح کا اہم کام بڑ ے آسان فہم انداز میں کیاہے۔ جس سے طلبہ وطالبات کے لیے اصل کتاب کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے ۔ موصوف نے کتاب ہذا کے شرح مائۃ عامل اور اطیب المنح ، ہدایۃ النحو، الفوز الکبیر اور نحو میر کی تسہیل بھی سوال وجواب کی صورت میں تحریر کی جو طلباء کے لیے نہایت مفید ثابت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اوران کی زندگی اور علم وعمل میں برکت فرمائے اور انہیں اس میدان میں مزید خدمت کی توفیق عطا فرمائے ۔۔(آمین) (م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی مقدس اور محترم کتاب ہے۔ جو جن وانس کی ہدایت ورہنمائی کے لیے نازل کی گئی ہے ۔ اس کا پڑھنا باعث اجراوثواب ہے اوراس پر عمل کرنا تقرب الی اللہ او رنجاتِ اخروی کا ذریعہ ہے ۔ یہ قرآن باعث اجروثواب اسی وقت ہوگا کہ جب اس کی تلاوت اسی طرح کی جائے جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے اور یہ صرف اور صرف علم تجوید ہی سے حاصل ہوگا۔ علم تجوید کا ثبوت قرآن کریم ،احادیث نبویہ ۔اجماع امت ، قیاس اوراقوال ائمہ سے ملتا ہے۔تجوید وقراءات کی اہمیت وحجیت پر کئی اہل علم قراء کی کتب موجود ہیں ۔ زیر نظرکتاب ’’ تجوید الصبیان المعروف زینۃ القرآن ‘‘ شیخ القراءقاری محمد شریف(بانی مدرسہ دار القراء،لاہور ، کی مرتب شدہ ہے قاری صاحب نے اس رسالہ میں مسائل تجوید کےعلاوہ چند چیزیں ایسی اور بھی بیان کی ہیں جن کا جاننا طلباء قرآن کے لیے نہایت ضروری ہے اور بہت ہی مفید ہے ۔چنانچہ قرآن کی محفوظیت ، تلاوتِ قرآن کےفضائل، قرآن مجید کی تاریخ او رآدابِ تلاوت جیسے موضوعا ت کو بھی اس کتابچہ میں آسان فہم انداز میں بیان کیاگیا ہے ۔ (م۔ا)
ہر انسان جب کلمہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے ایمان کی شہادت دیتا ہے اور جنت کے بدلے اپنی جان ومال کا سودا کرتا ہے اس معاہدہ کے بعد جو سب سے پہلا حکم اللہ تعالیٰ کا اس پر عائد ہوتا ہے، وہ پانچ وقت کی نماز قائم کرنا ہے۔ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری اور مکمل دین ہے۔ اس کے سارے احکامات بہت گہری حکمتوں اور بے شمار فوائد پر مبنی ہیں، اس کا ایک حکم بھی بے مقصد اور فضول نہیں ہے۔ پھر نماز تو اسلام کا اتنا اہم فریضہ ہے کہ اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا نہایت ضروری ہے،نماز کو پابندی سے ادا کرنےکے جہاں بے شمار روحانی فوائد ہیں وہاں نماز کا انسانی اعضاء کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے آج جدید سائنس نے بھی یہ بات ثاتب کردی ہے کہ نماز انسانی بدن کے اعضار پر مفید اثرات مرتب کرتی ہے اور انسان کے گوشت پٹھے ہڈیوں کے ساتھ نماز کی کیا نسبت ہے اور فوائد منسلک ہیں انسان کے خون پر نماز کا کیا اثر ہے خون کی رگوں کےساتھ نماز کی کیا نسبت ہے نماز کا ہڈیوں کے گودے کےساتھ کیا تعلق ہے نماز کا ہماری نفسیات کے ساتھ کیا تعلق ہے نماز کا اثر ہمارے بدن کے اندر جو نظام کارفرما ہیں ان پر کہاں کہاں اور کیسے کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ڈاکٹرمحمد شرافت علی صاحب نے زیرنظر کتاب ’’نماز اور ماڈرن میڈیکل سائنس ‘‘میں ایسے ہی بے شمار سوالات کےجو ابات حاصل کرنے کے لیے اور نمازکے دینی ورحانی فوائد کے ساتھ دیگر طبی نقطہ نظر سے فوائد اور ثمرات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو عامۃ الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔(آمین)(م۔ا)
شادی ایک سماجی تقریب ہے جو دنیا کے ہر مذہب ہر خطے اور ہر قوم میں جاری وساری ہے کیونکہ اس کا تعلق زندگی کی بقا اور تسلسل کے اس مخصوص عمل سے ہے جسے چھوڑ دینے سے نسلِ انسانی ہی منقطع ہوکررہ جائے گی۔اسکی اہمیت کےپیش نظر ہر قوم اور ہر مذہب نے اس کے لیے اپنے اپنے معاشرتی اور مذہبی پس منظر میں طریقے وضع کر رکھے ہیں ۔یہ طریقے بہت سی رسومات کا مجموعہ ہیں۔ان رسومات کے بعض پہلویا تو انتہائی شرم ناک ہیں یا اہل معاشرہ اور شادی کرانے والے شخص اوراس کے متعلقین کے لیے مالی اور جسمانی تکلف اور تکلیف کاباعث ہیں۔دین اسلام میں بھی شادی کوایک اہم معاشرتی تقریب کی حیثیت حاصل ہے ۔تقریب نکاح کاطریقہ اس قدر آسان ہونے کے باوجود ہمارے موجودہ معاشرے میں اسے ایک مشکل ترین تقریب بنادیاگیا ہے ۔بات طے کرنے سےلے کر قدم قدم پر ایسی رسومات ادا کی جاتی ہیں جن میں مال خرچ بھی ہوتا ہے اور متعلقین کوبھی بار بار مال اور وقت خرچ کر کے ان رسومات میں شریک کیا جاتا ہے ۔ ان رسومات پر ایک طائرانہ نظر رڈالنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے اکثر کاتعلق ہندو مذہب کی شادی کی رسومات سے ہے ۔اور کچھ لوازمات مغربی معاشرے کے بھی شامل کر لیے گیے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’دورِنبوت میں شادی بیاہ کےرسم ورواج اور پاکستانی معاشرہ‘‘ محترمہ گلریز محمود صاحبہ کی تصنیف ہے۔مصنفہ نے ا س کتاب میں پہلے دور جاہلیت کےنکاح اور ا ن کی اخلاقی اور معاشرتی قباحتیں قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کی ہیں پھر ان جہالت پر مبنی رسوم کا بیان ہے جنہیں نبی آخر الزماں ﷺ نے یکسر ختم او رعرب کے بیشتر قدیم رسم ورواج جو دین اسلام سے براہ راست متصادم نہیں تھے ان کو جاری رہنے دیا اور کچھ میں تھوڑی بہت تبدیلی کردی۔ نیز مصنفہ کتاب ہذا نے رسم ورواج کا اسلامی نقطۂ نگاہ، دور نبوت اور پاکستان کے رسم ورواج بھی بیان کرردئیے ہیں تاکہ لوگ اپنی جاری کردہ رسوم کو اسلامی رسوم کےساتھ رکھ کر موازنہ کرسکیں کہ کونسی سی رسم جاری رکھنی ہیں اور کس کو ختم کرنا ہے ۔ مصنفہ کا اس کتاب کو لکھنے کا مقصد لوگوں میں یہ احساس بیدار کرنا ہے کہ شادی بیاہ کے موجود رسم ورواج نہ توہمارے مذہب کا حصہ ہیں نہ اس سے میل کھاتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ مصنفہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔(آمین)(م۔ا)
وقت اس کائنات میں انسان کی عزیز ترین اور نہایت بیش قیمت متاع ہے۔ جن لوگوں نے وقت کی قدروقیمت کا ادراک کر کے اپنی زندگی میں اس کابہتر استعمال کیا و ہی لوگ کائنات کے سینے پر اپنا نقش چھوڑنے میں کامیاب ٹھہرے ۔در حقیقت انسان اس وقت تک ’’وقت‘‘ کے درست مصرف پر اپنی توجہات کا ارتکاز نہیں کرسکتا جب تک اس کے سامنے اس کی زندگی کا کوئی متعین مقصد اور نصب العین نہ ہو۔جو انسان اپنی زندگی کو مقصدیت کے دائرے میں لے آیا ہو اور وہ اپنے اسی مقصد اورآدرش کے لیے ہی زندگی کے شب وروز بسرکرنا چاہتا ہو اس کی ساری توجہ اپنے مقصد پر لگ جاتی ہے ۔اِدھراُدھر کےلایعنی مسائل میں الجھ کر وہ اپنا وقت برباد نہیں کرتا۔ایک بندۂ مومن کے لیے وقت کسی نعمت کبریٰ سے کم نہیں ۔ ایمان انسان کا ایک ایسا وصف ہے جوگزر ے ہوئے وقت کو اس کےلیے ختم یا محو نہیں ہونے دیتا لکہ اس کو ہمیشہ کےلیے امر بنا دیتا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ وقت کا سفر‘‘ عصر حاضر کے معروف سائنسدان سٹیون ہاکنگ کی کتاب (A Brief History of Time) کا اردو ترجمہ دنیا کی اکثر زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے یہ اردو ترجمہ ناظر محمود نے کیا ہے یہ کتاب گیارہ ابواب پر مشتمل ہے موجودہ دور کے مشہور ومعروف سائنس داں کی یہ کتاب کائنات کے آغاز اور اس کے انجام کی حیرت انگیز تصویر پیش کرتی ہے۔(م۔ا)
اثنا عشریہ اہل تشیع (یعنی شیعہ) کا سب سے بڑا گروہ ہے۔ قریباً 80 فیصد شیعہ اثنا عشریہ اہل تشیع ہیں۔ ایران،آذربائیجان، لبنان، عراق اور بحرین میں ان کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہیں۔
پاکستان کی مسلم آبادی میں اہل سنت کے بعد اثنا عشریہ اہل تشیع کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اثنا عشریہ کی اصطلاح بارہ ائمہ کرام کی طرف اشارہ کرتی ہے، جن کا سلسلہ حضرت محمد ﷺکے چچا زاد اور داماد سیدنا علی بن ابی طالب سے شروع ہوتا ہے۔ یہ خلافت پر یقین نہیں رکھتے بلکہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد ان کے جانشین امام سیدنا علی بن ابی طالباور کل بارہ امام ہیں۔ اثنا عشریہ اہل تشیع بارہ ائمہ پر اعتقاد کے معاملہ میں خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔ زیرنظر کتاب ’’تحفۂ اثناء عشریہ اردو ‘‘شاہ عبد العزیز دہلوی کی وہ عظیم تصنیف ہے جس میں انہوں نے اہل تشیع کے عقائد کا ردّ کیا ہے ۔اس کتاب میں شاہ صاحب نے شیعہ مذہب کی ابتداء ، ان کے بے شمار فرقے شیعوں کےاسلاف وعلماء اور ان کی کتابیں واحادیث اور ان کے راویوں کے حالات، ان کے مکروفریب کے طریقے جن سے وہ سادہ لوگوں کواپنے مذہب کی طرف لاتے ہیں ۔الوہیت ، نبوت ، معاد اور امامت کے بارے میں شیعہ کے عقائد،صحابہ کرام اور ازواج مطہرات اور اہل بیت کے متعلق ان کے عقائد اور اس موضوع کے متعلق تمام مباحث اس میں کتاب میں جمع کردئیے گئے ہیں ۔تحفہ اثنا عشریہ اصل کتاب تو فارسی میں ہے متعدد اہل علم نے اس کا اردو میں ترجمہ کیاہے زیرنظر ترجمہ مولانا خلیل الرحمٰن نعمانی مظاہری کا ہے۔(م۔ا)
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحیدِ خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل شہید تھے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 6 مئی 1831ء بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ ’’اگر مولانا محمد اسماعیل شہید کےبعد ان کے مرتبہ کاایک مولوی بھی پیدا ہوجاتا تو آج ہندوستان کے مسلمان ایسی ذلت کی زندگی نہ گزارتے۔ سید محمد اسماعیل شہید اور ان کےبےمثل پیرو ومرشد سید احمد شہید اور ان کےجانباز رفقاء کی شہادت کےبعد ،بقیۃ السیف مجاہدین نے دعوت واصلاح وجہاد کاعلم سرنگوں نے نہ ہونے دیا بلکہ اس بے سروسامانی کی کیفیت میں اسے بلند سےبلند تر رکھنے کی کوشش کی ۔سید اسماعیل شہید اور ان کےجانباز رفقاء اوران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک کو زندہ رکھنے والے مجاہدین کی یہ داستان ہماری ملی غیرت اور اسلامی حمیت کی سب سے پر تاثیر داستان ہے۔ ان اللہ والوں نےاللہ کی خاطر آلام ومصائب کوبرداشت کیا ،آتش باریوں اور شمشیرزنیوں کی ہنگامہ آرائیوں میں جانیں دے دیں،خاندان ،گھر بار اور جائیدادوں کی قربانیاں دیں ۔ جیل کی کال کوٹھڑیوں اور جزائر انڈیمان یعنی کالاپانی کی بھیانک اور خوفناک وحشت ناکیوں میں دن بسر کیے ۔لیکن جبیں عزیمیت پر کبھی شکن نہ آنے دی اور پائے استقامت میں کبھی لرزش پیدا نہ ہونے دی۔ زندگی کےہرآرام اور ہر عیش کو نوکِ حقارت سے ٹھکراتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ۔ زیر نظرکتاب ’ ’سید احمد شہید اور تحریک مجاہدین‘‘ڈاکٹر صادق حسین صاحب کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نےمجاہد کبیر سید احمد شہید اور ان کےعالی ہمت رفقا کے ایمان افروز واقعات کو بڑے احسن انداز میں بیان کیاہے ۔ نیز سید ین شہیدین کی شہادت کے بعد اس تحریک مجاہدین کی جن شخصیات نے بطور امارت خدمات انجام دیں ان کابھی ذکر خیر ہے کہ جن کو پڑھ کر اسلام کی ابتدائی صدیوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ یہ کتاب متعدد جلدوں میں ہے لیکن ہمیں کی اس کی صرف جلد پنجم اور ششم دستیاب ہو سکیں ہیں اگر کسی صاحب کےپاس اس کی باقی جلدیں ہو تو ہمیں مطلع کرے تاکہ ان کو بھی سائٹ پر پبلش کرکے انٹر نیٹ کی دنیا میں محفوظ کیا جاسکے ۔( م۔ا )
اصولِ حدیث پر حافظ ابن حجر عسقلانی کی سب سے پہلی اور اہم تصنیف ’’نخبۃ الفکر فی مصطلح اھل الاثر‘‘ ہے جو علمی حلقوں میں مختصر نام ’’نخبۃ الفکر‘‘ سے جانی جاتی ہےاور اپنی افادیت کے پیش نظر اکثر مدارس دینیہ میں شامل نصاب ہے۔ اس مختصر رسالہ میں ابن حجر نے علومِ حدیث کے تمام اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے ۔حدیث اوراصو ل میں نخبۃ الفکر کو وہی مقام حاصل ہے جو علم لغت میں خلیل بن احمد کی کتاب العین کو ۔مختصر ہونے کے باوجود یہ اصول حدیث میں اہم ترین مصدر ہے کیونکہ بعد میں لکھی جانے والی کتب اس سے بے نیاز نہیں ۔حافظ ابن حجر نے ہی اس کتاب کی شرح ’’نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر فی مصطلح اھل الاثر‘‘ کے نام سے لکھی جسے متن کی طر ح قبول عام حاصل ہوا۔ اور پھر ان کے بعد کئی اہل علم نے نخبۃ الفکر کی شروح لکھی ۔ زیر نظر کتاب’’ سلعۃ القربہ اردو شرح نخبۃ الفکر ‘‘ شارح صحیح بخاری امام ابن حجر عسقلانی کی اصول حدیث پر مشہور درسیی کتاب نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر کا اردو ترجمہ ہے ۔نخبۃ الفکر کا یہ ترجمہ محمد عبد الحی کلفلیتوی نے کیا ہے ۔کتاب ہذا کے ساتھ مولانا خیر محمد کا اصول حدیث کے متعلق رسالہ’’ خیر الاصول فی حدیث الرسول ‘‘ بھی شامل اشاعت ہے ۔(م۔ا)
زیرنظر کتاب ’’ریاست، سیاست اور قیادت‘‘ 32 سال افواج پاکستان میں اہم عہدے پر فائز رہنے والے بریگیڈئیر حامد سعید اختر(ریٹائرڈ) کے مختلف 45 اخباری مضامین کا مجموعہ ہے ۔ موصوف نے ان مضامین کو چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔یہ مجموعہ مضامین پاکستان کی سیاسی تجزیہ نگاری کی دنیا میں ایک اہم اور دلچسپ حیثیت کا حامل ہے یہ مضامین بریگیڈئیر صاحب کے قومیت پرستی، سی ٹی بی ٹی،عالمی بساط پر پاکستان کا کردار ، کر پشن ، آئین وقانون وغیرہ کے متعلق منفرد نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتے ہیں ۔(م۔ا)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبہ میں اصول فراہم کرتا ہے ، جاسوسی کے موضوع پر بھی اسلام نے راہنمائی فرمائی ہے۔ عام طور پر ہر چیز کے جواز عدمِ جواز کے حوالے سے دو جہت ،دو پہلو ہوتے ہیں چنانچہ جاسوسی کے بھی دو پہلو ہیں ایک جائز او ردوسرا ناجائز۔جائز پہلو یہ ہے کہ اسلامی ملک کونقصان دینے اور اس کو کمزور کرنے والے شرپسند عناصر کا کھوج لگانا اور ان کے منصوبوں کوناکارہ کرنا او ران کے غلط عزائم سے حکام کو اطلاع دینا یہ جائز ہے اور ناجائز پہلو یہ کہ مسلمانوں کی نجی زندگی میں کھوج لگانا اور ان کے بھید معلوم کرنا اس پہلو کوشریعت مطہرہ نے گناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے ۔ زیرنظر کتاب’’ رسول اکرم ﷺ کا نظام جاسوسی‘‘ جناب پروفیسر محمد صدیق قریشی کی تصنیف ہے ۔اس کتاب کے مطالعہ سے ہمیں اُن طریقوں کا اندازہ ہوگا جو آپﷺ نے اپنی مہمات کےدوران اختیای کیے۔ ان سے واقفیت کے بغیر آپ ﷺ کی جنگی اسکیم سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔کیونکہ علم وبصیرت کا اصل سرچشمہ صرف حیاتِ نبوت اور منہاج مقام رسالت ہے ۔نبی کریم ﷺ نے جس طرح اپنے نظام جاسوسی کو منظّم کیا اسے جاننے کے لیے اس کتاب سے استفادہ کرنا انتہائی مفید ہے ۔(م۔ا)
قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔اس عظیم الشان کتاب نے تاریخِ انسانی کا رخ موڑ دیا ہے ۔ دنیابھر کی بے شمار جامعات،مدارس ومساجد میں قرآن حکیم کی تعلیم وتبلیغ اور درس وتدریس کا سلسلہ جاری ہے۔جس کثرت سے اللہ تعالیٰ کی اس پاک ومقدس کتاب کی تلاوت ہوتی ہے دنیا کی کسی کتاب کی نہیں ہوتی ۔ مگر تعجب وحیرت کی بات ہے کہ ہم میں پھر بھی ایمان وعمل کی وہ روح پیدا نہیں ہوتی جو قرآن نےعرب کے وحشیوں میں پیدا کر دی تھی۔ یہ قرآن ہی کا اعجاز تھا کہ اس نے مسِ خام کو کندن بنادیا او ر ایسی بلند کردار قوم پیدا کی جس نے دنیا میں حق وصداقت کا بول بالا کیا اور بڑی بڑی سرکش اور جابر سلطنتوں کی بساط اُلٹ دی ۔ مگڑ افسوس ہے کہ تاریخ کے یہ حقائق افسانۂ ماضی بن کر رہ گئے ۔ ہم نے دنیا والوں کواپنے عروج واقبال کی داستانیں تو مزے لے لے کر سنائیں لیکن خود قرآن سے کچھ حاصل نہ کیا ۔جاہل تو جاہل پڑھےلکھے لوگ بھی قرآن سےبے بہرہ ہیں۔قرآن کریم کو سمجھنے اور سمجھانے کے بنیادی اصول اور ضابطے یہی ہیں کہ قرآن کریم کو قرآنی اور نبوی علوم سےہی سمجھا جائے۔ یہ علوم قرآن کریم سے علیحدہ نہیں ۔ انہی کی پابندی کتاب اللہ کوتورات وانجیل کی طرح کھیل نہیں بننے دے گی اور نہ ہی تحریف کی من مانی روش کوشہ ملے گی۔ زیر تبصرہ کتاب’’قرآن کریم اور چند مباحث‘‘ ابو ہشام کی مرتب شدہ ہے اس کتاب کو انہوں نے چودہ ابواب میں تقسیم کیا ہے جن کے عنوانات یہ ہیں تعارف قرآن، وحی ،نزول قرآن اور اس کے مقاصد،تدوین قرآن،علوم القرآن ،علم رسم الخط،حروف سبعہ،علم القراءات،علم ناسخ ومنسوخ،علم اعجاز القرآن،علم مکی ومدنی ،علم محکم و متشابہ،علم اسباب النزول،علم التفسیر(م۔ا)
دینِ اسلام کا دوسرا بڑا ماخذ حدیث رسول ﷺ ہے جو بذریعہ وحی آپﷺ کو عطا کیاگیا ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لیے وہی بڑے اسباب وذرائع پیدا فرمائے جوقرآن حکیم کے لیے پیدا کیے ۔ یعنی حفظ وکتابت۔ نبی کریم ﷺ سے دین اسلام کاسماع کرنے اور لکھنے والے صحابہ کرام نے دونوں طریقوں سے اس کو ضبط کیا اپنے سینوں میں بھی اور دفاتر میں بھی۔اور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو اپنی احادیث کو حفظ کرنے اور لکھنے کا حکم بھی دیا۔اور پھر صحابہ کرام کےبعد بھی احادیث کو زبانی یاد کرنے اور لکھنے کا عمل جاری رہا ۔اور اسی طرح صحابہ کرام سےلے کر تدوین حدیث کے دور تک بلکہ اس کے بعد اس کی اشاعت اورترویج کےلیے آج تک جتنے علماء محدثین پیدا ہوئے ان میں ہرایک کی زندگیوں کوبھی ضبط کیا کہ فلاں محدث کب اور کہاں پیدا ہوا۔ کتنی عمر میں قرآن مجید اورحدیث کےحفظ کرنے اور لکھنے کی طرف متوجہ ہوا ۔ حصول علم کےلیے کن کن بلادِ اسلامیہ کےسفر کیے اور کن کن استاتذہ کرام سے ملا اور کتنا عرصہ ان کے ہاں مقیم رہا ۔ اس کا قوت حافظہ کس قدر تھا .... یعنی جر ح و تعدیل کے تمام اوصاف وغیرہ ۔الغرض ایک ایک راوی حدیث کےحالات ضبط کیے گئے جسے علم الرجال کانام دیا گیا اور یہ صرف امت محمدیہ کی خصوصیت ہے۔ اس امت سے پہلے کسی بھی نبی کی امت نےیہ کام سرانجام نہیں دیا ۔ ہر بات کی سند ضبط کی اور ہرر راوی کے حالات قلمبند کیے اور اس میں کمال دیانت داری کا مظاہر ہ کیا ۔بڑے بڑ ے ائمہ محدثین نے اس میں کارہائے نمایاں سر اانجام دیے اور بڑی بڑی ضخیم کتب اس فن میں مرتب کیں۔ائمہ محدثین کے حالات وخدمات کے متعلق بیسیوں کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ محدثین عظام اوران کی کتابوں کا تعارف ‘‘ معروف عالم دین شیخ الحدیث مولانا سلیم خان کی کاوش ہے موصوف نے اس کتاب میں صحاح ستہ اوران کے مصنفین کے علاوہ مشہور ائمہ محدثین اور ان کی کتابوں کا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے ۔(م۔ا)
دینی مدارس کے طلباء ،اساتذہ ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نےایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا ۔صبح وشام کے اوقات میں صحابہ کرام وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ہجرت کے بعدمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ۔اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بیٹھ کر آپﷺ مقامی وبیرونی صحابہ کرام کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیتے تھے ۔یہ اسلام کاپہلا باقاعدہ اقامتی مدرسہ تھا جو تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے معروف ہے ۔ یہاں سے مسجد اور مدرسہ کا ایسا تلازمہ قائم ہواکہ پھر جہاں جہاں مسجد یں قائم ہوتی گئیں وہاں ساتھ ہی مدرسے بھی قائم ہوتے گئے ۔اسلامی تاریخ ایسے مدارس اور حلقات ِحدیث سے بھری پڑی ہے کہ غلبۂ اسلام ،ترویج دین اور تعلیمات اسلامیہ کو عام کرنے میں جن کی خدمات نے نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر پاک وہند میں بھی اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے سلسلے میں مدارس دینیہ اور مَسندوں کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جہاں سے وہ شخصیا ت پیدا ہوئیں جنہوں نے معاشرے کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور یہ شخصیات عوام الناس کے لیے منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔پاک ہند میں سلفی فکر ومنہج کے حامل مدارس کی اشاعت دین، دعوت وتبلیغ ، تصنیف وتالیف، شروح حدیث، درس وتدریس، دینی صحافت میں بڑی نمایاں خدمات ہیں اوران کے اثرات پورے عالم اسلام میں موجود ہیں۔ان سلفی مدارس میں مسند سید نذیر حسین دہلوی دارالحدیث رحمانیہ ، دہلی ، جامعہ سلفیہ ،بنارس، جامعۃ امام ابن تیمیہ، بہار ہند،جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد ، جامعہ محمدیہ ،گوجرانوالہ ، مدرسہ رحمانیہ ؍جامعہ لاہور الاسلامیہ،لاہور،جامعہ اہل حدیث ،لاہور ،جامعہ ستاریہ اسلامیہ،جامعہ ابی بکر ،کراچی قابل ذکر ہیں ۔ان مدارس کے فاضلین وفیض یافتگان کا شمار عالم اسلام کی نامور شخصیات میں ہوتا ہے۔
زیر نظر کتاب طلباء جامعہ سلفیہ ،بنارس کے علمی وفکری ترجمان مجلہ’’ المنار جامعہ سلفیہ، بنارس‘‘ کاشمارہ نمبر 39 ہے ۔ یہ مجلہ جامعہ سلفیہ (مرکزی دار العلوم) بنارس میں ندوۃ الطلباء کا سالانہ میگزین ہے ۔طلباء جامعہ اپنے اساتذہ کرام کی زیر نگرانی ہندوستان میں رائج مختلف زبانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کے مضامین مختلف زبانوں میں پیش کرتے ہیں ۔ سالانہ میگزین ہونے کی وجہ سے اس میں طلباء جامعہ کی سال بھر کی سرگرمیوں کی رپوتاز بھی اس میں شامل ہیں ۔اللہ تعالیٰ ادارے کو مزید ترقیوں سے ہمکنار کرے اور طلباء واساتذہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔( آمین)(م۔ا)رسائل وجرائد
دینی مدارس کے طلباء ،اساتذہ ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نےایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا ۔صبح وشام کے اوقات میں صحابہ کرام وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ہجرت کے بعدمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ۔اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بیٹھ کر آپﷺ مقامی وبیرونی صحابہ کرام کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیتے تھے ۔یہ اسلام کاپہلا باقاعدہ اقامتی مدرسہ تھا جو تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے معروف ہے ۔ یہاں سے مسجد اور مدرسہ کا ایسا تلازمہ قائم ہواکہ پھر جہاں جہاں مسجد یں قائم ہوتی گئیں وہاں ساتھ ہی مدرسے بھی قائم ہوتے گئے ۔اسلامی تاریخ ایسے مدارس اور حلقات ِحدیث سے بھری پڑی ہے کہ غلبۂ اسلام ،ترویج دین اور تعلیمات اسلامیہ کو عام کرنے میں جن کی خدمات نے نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر پاک وہند میں بھی اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے سلسلے میں مدارس دینیہ اور مَسندوں کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جہاں سے وہ شخصیا ت پیدا ہوئیں جنہوں نے معاشرے کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور یہ شخصیات عوام الناس کے لیے منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔پاک ہند میں سلفی فکر ومنہج کے حامل مدارس کی اشاعت دین، دعوت وتبلیغ ، تصنیف وتالیف، شروح حدیث، درس وتدریس، دینی صحافت میں بڑی نمایاں خدمات ہیں اوران کے اثرات پورے عالم اسلام میں موجود ہیں۔ان سلفی مدارس میں مسند سید نذیر حسین دہلوی دارالحدیث رحمانیہ ، دہلی ، جامعہ سلفیہ ،بنارس، جامعۃ امام ابن تیمیہ، بہار ہند،جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد ، جامعہ محمدیہ ،گوجرانوالہ ، مدرسہ رحمانیہ ؍جامعہ لاہور الاسلامیہ،لاہور،جامعہ اہل حدیث ،لاہور ،جامعہ ستاریہ اسلامیہ،جامعہ ابی بکر ،کراچی قابل ذکر ہیں ۔ان مدارس کے فاضلین وفیض یافتگان کا شمار عالم اسلام کی نامور شخصیات میں ہوتا ہے۔
زیر نظر کتاب طلباء جامعہ سلفیہ ،بنارس کے علمی وفکری ترجمان مجلہ’’ المنار جامعہ سلفیہ، بنارس‘‘ کاشمارہ نمبر 39 ہے ۔ یہ مجلہ جامعہ سلفیہ (مرکزی دار العلوم) بنارس میں ندوۃ الطلباء کا سالانہ میگزین ہے ۔طلباء جامعہ اپنے اساتذہ کرام کی زیر نگرانی ہندوستان میں رائج مختلف زبانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کے مضامین مختلف زبانوں میں پیش کرتے ہیں ۔ سالانہ میگزین ہونے کی وجہ سے اس میں طلباء جامعہ کی سال بھر کی سرگرمیوں کی رپوتاز بھی اس میں شامل ہیں ۔اللہ تعالیٰ ادارے کو مزید ترقیوں سے ہمکنار کرے اور طلباء واساتذہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔( آمین)(م۔ا)رسائل وجرائد
دینی مدارس کے طلباء ،اساتذہ ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نےایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا ۔صبح وشام کے اوقات میں صحابہ کرام وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ہجرت کے بعدمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ۔اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بیٹھ کر آپﷺ مقامی وبیرونی صحابہ کرام کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیتے تھے ۔یہ اسلام کاپہلا باقاعدہ اقامتی مدرسہ تھا جو تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے معروف ہے ۔ یہاں سے مسجد اور مدرسہ کا ایسا تلازمہ قائم ہواکہ پھر جہاں جہاں مسجد یں قائم ہوتی گئیں وہاں ساتھ ہی مدرسے بھی قائم ہوتے گئے ۔اسلامی تاریخ ایسے مدارس اور حلقات ِحدیث سے بھری پڑی ہے کہ غلبۂ اسلام ،ترویج دین اور تعلیمات اسلامیہ کو عام کرنے میں جن کی خدمات نے نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر پاک وہند میں بھی اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے سلسلے میں مدارس دینیہ اور مَسندوں کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جہاں سے وہ شخصیا ت پیدا ہوئیں جنہوں نے معاشرے کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور یہ شخصیات عوام الناس کے لیے منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔پاک ہند میں سلفی فکر ومنہج کے حامل مدارس کی اشاعت دین، دعوت وتبلیغ ، تصنیف وتالیف، شروح حدیث، درس وتدریس، دینی صحافت میں بڑی نمایاں خدمات ہیں اوران کے اثرات پورے عالم اسلام میں موجود ہیں۔ان سلفی مدارس میں مسند سید نذیر حسین دہلوی دارالحدیث رحمانیہ ، دہلی ، جامعہ سلفیہ ،بنارس، جامعۃ امام ابن تیمیہ، بہار ہند،جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد ، جامعہ محمدیہ ،گوجرانوالہ ، مدرسہ رحمانیہ ؍جامعہ لاہور الاسلامیہ،لاہور،جامعہ اہل حدیث ،لاہور ،جامعہ ستاریہ اسلامیہ،جامعہ ابی بکر ،کراچی قابل ذکر ہیں ۔ان مدارس کے فاضلین وفیض یافتگان کا شمار عالم اسلام کی نامور شخصیات میں ہوتا ہے۔ زیر نظر کتاب طلباء جامعہ سلفیہ ،بنارس کے علمی وفکری ترجمان مجلہ’’ المنار جامعہ سلفیہ، بنارس‘‘ کاشمارہ نمبر 39 ہے ۔ یہ مجلہ جامعہ سلفیہ (مرکزی دار العلوم) بنارس میں ندوۃ الطلباء کا سالانہ میگزین ہے ۔طلباء جامعہ اپنے اساتذہ کرام کی زیر نگرانی ہندوستان میں رائج مختلف زبانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کے مضامین مختلف زبانوں میں پیش کرتے ہیں ۔ سالانہ میگزین ہونے کی وجہ سے اس میں طلباء جامعہ کی سال بھر کی سرگرمیوں کی رپوتاز بھی اس میں شامل ہیں ۔اللہ تعالیٰ ادارے کو مزید ترقیوں سے ہمکنار کرے اور طلباء واساتذہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔( آمین)(م۔ا)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانیت کی ہدایت وراہنمائی کے لیے جس سلسلۂ نبوت کا آغاز حضرت آدم سےکیاگیا تھا اس کااختتام حضرت محمد ﷺ کی ذات ِستودہ صفات پر کردیا گیا ہے۔اور نبوت کے ختم ہوجانے کےبعددعوت وتبلیغ کاسلسلہ جاری وساری ہے ۔ دعوت وتبلیع کی ذمہ داری ہر امتی پرعموماً اور عالم دین پر خصوصا عائد ہوتی ہے ۔ لیکن اس کی کامل ترین اور مؤثر ترین شکل یہ ہےکہ تمام مسلمان اپنا ایک خلیفہ منتخب کر کے خود کو نظامِ خلافت میں منسلک کرلیں۔اور پھر خلیفۃ المسلمین خاتم النبین ﷺ کی نیابت میں دنیا بھر کی غیر مسلم حکومتوں کو خط وکتابت او رجہاد وقتال کےذریعے اللہ کے دین کی دعوت دیں۔اور ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ کہ وہ دعوت وتبلیع او راشاعتِ دین کا کام اسی طرح انتہائی محنت اور جان فشانی سے کرے جس طرح خو د خاتم النبین ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام کرتے رہے ہیں ۔ مگر آج مسلمانوں کی عام حالت یہ ہے کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ تو بہت دور کی بات ہے وہ اسلامی احکام پرعمل پیرا ہونے بلکہ اسلامی احکام کا علم حاصل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے ۔ اور یہ بات واضح ہی ہے کہ دعوت وتبلیغ سے پہلے عمل کی ضرورت ہوتی اور عمل سے پہلے علم کی ۔ زیر نظر کتاب ’’ دعوت دین کا طریقہ کار عصر حاصر كے تناظر میں ‘‘ الشیخ عدنان عرعور﷾ کے ایک تحقیقی مقالہ بعنوان منهج الدعوة في ضوء الواقع المعاصر کا اردو ترجمہ ہے ۔ فاضل مصنف نے یہ مقالہ 2005ء میں عالمی سطح پر منعقد ہونے والے ایک مقابلہ میں پیش کیا تو اسے نائف بن عبد العزیز عالمی ایوارڈ‘‘ کے نام سے پہلے انعام کے لیے منتخب کیا گیا۔مصنف نے اس تحقیقی مقالے کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔پہلے باب میں دعوتِ دین کی اہمیت کےساتھ ساتھ مسلمانوں کی موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا ہے ۔دوسرے باب میں داعی کی شخصیت، اس کا مقام ، اس کی خوبیاں، موعوین کے مختلف حالات اور ان کا لحاظ رکھنے کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے اور تیسرے باب میں دعوتِ دین کے لیے دستیاب ذرائع کواستعمال کرنے کی شرعی حیثیت، ان کے مثبت اثرات اورمنفی پہلوؤں کو زیر بحث لایاگیا ہے ۔مقالہ نگار نے اُصول دعوت کو مجتہدانہ بصیرت کےساتھ پیش کیا ہے اور اس میں راہِ اعتدال پر رہتے ہوئے منہجِ سلف کوترجیع دی ہے ۔مولانا یوسف آف راجووال کے صاحبزادے جناب ڈاکٹر عبد الرحمٰن یوسف﷾ نے اس اہم کتاب اردو زبان میں منتقل کیا ہے اللہ تعالیٰ مصنف ، مترجم اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔آمین(م۔ا)
اللہ تعالی کاکلام اور نبی کریم ﷺکی احادیث مبارکہ عربی زبان میں ہیں اسی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں سے عربی کا رشتہ مضبوط ومستحکم ہے عربی اسلام کی سرکاری زبان ہے ۔شریعت اسلامی کے بنیادی مآخد اسی زبان میں ہیں لہذا قرآن وسنت اور شریعتِ اسلامیہ پر عبور حاصل کرنےکا واحد ذریعہ عربی زبان ہے۔ اس لحاظ سے عربی سیکھنا اور سکھانا امت مسلمہ کا اولین فریضہ ہے ۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان سے ناواقف ہے جس کی وجہ سے وہ فرمان الٰہی اور فرمان نبوی ﷺ کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ حتی کہ تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی اکثریت سکول ،کالجز ،یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل اسلامیات کے اسباق کو بھی بذات خود پڑھنے پڑھانے سے قا صر ہے ۔دنيا كي سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان دنیا کے نقشے پر اس لیے جلوہ گر ہوئی تھی کہ اس کے ذریعے اسلامی اقدار اور دینی شعائر کا احیاء ہوگا۔ اسلامی تہذیب وثقافت کا بول بالا ہوگا اور قرآن کی زبان سرزمین پاک میں زند ہ وتابندہ ہوگی۔مگر زبان قرآن کی بے بسی وبے کسی کہ ارض پاکستان میں اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ دور غلامی میں بھی نہ پہنچی تھی۔علماء ومدارس کی اپنی حدتک عربی زبان کی نشرواشاعت کے لیے کوششیں وکاوشیں قابل ذکر ہیں۔ لیکن سرکاری طور پر حکومت کی طرف کماحقہ جدوجہد نہیں کی گئی۔ زیرتبصرہ کتاب ’’عربی گرامر قرآن کریم سے ‘‘ ڈاکٹر نور الحسین قاضی شاہ پوری کی تصنیف ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں عربی صرف ونحو کو انوکھے انداز میں سکھانے کی کوشش کی ہے اور اکثر الفاظ اور مثالیں قرآن مجید سےلی ہیں تاکہ طالب علم شروع سے ہی قرآن کے قریب رہے ۔نیز اس کتاب میں گرامر سے زیادہ عربی سکھانے پر زور دیاگیا ہےاس لیے مصنف نے بہت سی غیر ضرروری اصطلاحات کوسرے سےختم کردیا ہے۔بچوں کی آسانی کےلیے مروجہ طرز سے ہٹ کر کچھ انوکھے انداز سے عربی زبان سکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کوطالبان علم کےلیے نفع بخش بنائے ۔(آمین)( م۔ا )
مسلمانوں کا امتیازی وصف دن اور رات میں پانچ دفعہ اپنے پروردگار کےسامنے باوضوء ہوکر کھڑے ہونا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا اور اپنے رب سے اس کی رحمت طلب کرنا ہے ۔نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اورا سلام کا دوسرا رکن ِ عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کلمۂ توحید کے اقرار کےبعد سب سے پہلے جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہی ہے ۔اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے ۔ بے نماز کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔ قیامت کےدن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا۔ نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے ۔بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سےنماز کا پابند بنایا جائے ۔نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قدر اہم ہے کہ سفر وحضر ، میدان ِجنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔اس لیے ہرمسلمان مرد اور عورت پر پابندی کے ساتھ وقت پر نماز ادا کرنا لازمی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ انوار الصلاۃ المعروف نماز مصطفیٰ‘‘ پروفیسر حافظ عبد الستار حامد (مصنف کتب کثیرہ) کی کاوش ہے اس کتاب میں انہوں نے مسنون طریقۂ نماز کی وضاحت کی ہے اور دوران ِ نماز اور دیگر مختلف مواقع پر پڑھی جانے والی مسنون دعائیں بھی درج کردی ہیں ۔بنیادی طور پر یہ کتاب مصروف لوگوں اور سکولز، کالجز اور مساجد ومدارس کے متبدی طلباء طالبات کو نماز کے مسائل اور دعائیں یاد رکروانے کے لیے مرتب کی گئی ہے ۔اللہ تعالی فاضل مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کےلیےنفع بخش بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
قرآن ِ مجید انسانوں کی راہنمائی کےلیے رب العالمین کی طرف سے نازل کی گئی آخری کتاب ہے ۔اور قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو تاقیامت انسانیت کے لیے رشد وہدایت کا سرچشمہ اور نوعِ انسانی کےلیے ایک کامل او رجامع ضابطۂ حیات ہے ۔ اسی پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں سربلند ی او ر آخرت میں نجات کا حصول ممکن ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کے معانی ومفاہیم کوسمجھا جائے ،اس کی تفہیم کے لیے درس وتدریس کا اہتمام کیا جائے او راس کی تعلیم کے مراکز قائم کئے جائیں۔ قرٖآن فہمی کے لیے ترجمہ قرآن اساس کی حیثیت رکھتا ہے ۔آج دنیاکی کم وبیش 103 زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم شائع ہوچکے ہیں۔جن میں سے ایک اہم زبان اردو بھی ہے ۔اردو زبان میں اولین ترجمہ کرنے والے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دو فرزند شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر ہیں ۔ اب تو اردو زبان میں سیکڑوں تراجم دستیاب ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری وساری ہے ۔ حتیٰ کہ پنجابی زبان میں قرآن مجید کےتراجم کیے گئے ہیں ۔ زیر تبصرہ قرآن مجید کا ترجمہ جناب پروفیسرمحمد عنایت اللہ صاحب کا ہے موصوف نے کنز العرفان کےنام سے قرآن مجید کا اردو ترجمہ اور شعر القرآن کےنام سے قرآن مجید کامنظوم پنجابی ترجمہ کیا ہے پنجابی اور اردو ترجمہ کو یکجا کر کے 2008ء میں شائع کیا گیا تھا ۔ یہ ترجمہ بازار میں دستیاب نہیں ہے ایک دوست کی فرمائش پر اسے آن لائن پبلش کرنے اور محفوظ کرنے کی خاطر اسے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔یہ ترجمہ 1500 صد صفحات پر مشتمل کافی ضخیم ہے جس کی وجہ سےاس کا سائز کافی زیادہ تھا اس لیے اسے تین حصوں میں تقسیم کر کے پبلش کیا گیا ہے ۔(م۔ا)
ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیدائش: 9فروری 1908ء، انتقال: 17 دسمبر 2002ء) ڈاکٹر حمید اللہ ایک بلند پایا عالم دین ، مایہ ناز محقق، دانشور اور مصنف تھے جن کے قلم سے علوم قرآنیہ ، سیرت نبویہ اور فقہ اسلام پر 195 وقیع کتابیں اور 937 کے قریب مقالات نکلے ۔ڈاکٹر صاحب قانون دان اور اسلامی دانشور تھے اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ تاریخ ،حدیث پر اعلٰی تحقیق، فرانسیسی میں ترجمہ قرآن اور مغرب کے قلب میں ترویج اسلام کا اہم فریضہ نبھانے پر آپ کو عالمگیر شہرت ملی۔ آپ جامعہ عثمانیہ سے ایم۔اے، ایل ایل۔بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے یورپ پہنچے۔ بون یونیورسٹی (جرمنی) سے ڈی فل اور سوربون یونیورسٹی (پیرس)سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ ڈاکٹر صاحب کچھ عرصے تک جامعہ عثمانیہ حیدر آباد میں پروفیسررہے۔ یورپ جانے کے بعد جرمنی اور فرانس کی یونیورسٹیوں میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ فرانس کے نیشنل سنٹر آف سائینٹیفک ریسرچ سے تقریباً بیس سال تک وابستہ رہے۔ علاوہ ازیں یورپ اور ایشیا کی کئی یونیورسٹیوں میں آپ کے توسیعی خطبات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ڈاکٹر مرحوم نے اپنی پوری زندگی تصنیف وتالیف کے کاموں کے لیے وقف کیے رکھی بالآخر 95 برس کی عمر پاکر 17؍دسمبر 2002ء کو فلوریڈا (امریکہ) میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ان کے سانحۂ ارتحال کے بعد اہل دانش نے ان کی خدمت میں گلہائے عقیدت نچھاور کیے اور موصوف کی زندگی کی مختلف جہتوں پر اپنی اپنی بساط کےمطابق داد تحقیقی دی ۔ بعض علمی اداروں کی طرف سے ان کی خدمات کےاعتراف میں رسائل وجرائد کے خاص نمبر بھی شائع کیے ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔آمین زیر نظر کتاب ’’ نگارشاتِ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ‘‘ محمد عالم مختارِ حق کی مرتب شدہ ہیں مرتب موصوف نے ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کےمضامین ومقالات کو موضوعات کے حساب سے مرتب کر کے دو دجلد میں تقسیم کیا ہے موضوعاتی عناوین حسب ذیل ہیں۔قرآن،سیرت،فقہ،اکابرین، تاریخ، قانون، خطۂ عرب، مستشرقین، ادب، سود وغیرہ۔ (م۔ا)
خطاطی ایک فن خط تحریر ہے۔ یہ فن دنیا کے ہر گوشے میں اور ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ یہ فن خوش خطی کے لیے ہے۔ رومن، لاطینی، عربی زبانوں میں یہ فن خطاطی کافی مقبول ہے۔ جب پاکستان بنا تو اس وقت لاہور میں ساٹھ کے قریب خطاطی سیکھنے کے مراکز تھے لاہور میں خطاطی کی نمائشوں کا آغاز ممتاز خطاط عبدالواحد نادر قلم نے کیا۔ مرحوم نے عبد المجید پروین رقم سے تربیت حاصل کی تھی۔حافظ محمد یوسف سدیدی نے لاہور میں عربی خطوط (ثلث ، محقق ، طغرا) کو ایک بار پھر زندہ کیا جو مغلیہ عہد میں لکھے جاتے رہے مگر بعد ازاں آہستہ آہستہ ان کی طرف انگریزی عہد کی وجہ سے رجحان کم ہوگیا۔حافظ محمد یوسف سدیدی کا سب سے کمال یہ تھا کہ انہوں نے ان خطوط کو از خود کتب خطاطی سے سیکھا ، کیونکہ برصغیر پاک و ہند میں ان خطوط کا کوئی استاد موجود نہ تھا۔عالم اسلام کے شانہ بہ شانہ آنے کی لئے ان خطوط ( ثلث ، محقق ، طغرا ) میں کمال حاصل کرنا لازمی تھا۔ حافظ صاحب کے ساتھ سید انور حسین نفیس رقم نے بھی اس طرف خصوصی توجہ دی اور وہ ان عربی خطوط میں اپنا ایک خوبصورت انداز قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ زیر نظر کتاب ’’ لاہور اورفن خطاطی‘‘ ڈاکٹر محمد اقبال بھٹہ کی تصنیف ہے اس کتاب کو انہوں نے 10 ابواب میں تقسیم کیا ہے ابو اب کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔ باب اول اسلامی خطاطی،باب دوم لاہور کی خطا طی پر اسلامی ممالک کے اثرات،باب سوم خطاطان قرآن ،باب چہارم لاہور میں خطاطی سکھانے کے مراکز،باب پنجم خطابات یافتہ خطاط،باب ششم اخباری خطاط،باب ہفتم کتابہ نویسی۔(م۔ا)
قرآن اور سائنس یا اسلام اور سائنس، دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی، ربط اور موافقیت کو کہا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں زیر نظر کتاب ’’ قرآن رہنمائے سائنس‘‘ ہارون یحیی ٰ کی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔نام نہاد نظریۂ ارتقاء کے علمبرداروں نے انسانوں کو ان کے خالق کے وجود سے بے خبر اور لاتعلق رکھنے کا ہی جرم نہیں کیا بلکہ خودسائنس کو بھی بے سمت کر کے بے شمار قیمتی انسانی وسائل کو ضائع کردیا ہے ان وسائل اور وسائل اور مساعی کی تضیع کی تفصیل اس کتاب میں موجود ہے ۔(م۔ا)
قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے، او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہےکہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔قرآن کریم اللہ کہ وہ مقدس کتاب ہے جس کی خدمت باعثِ خیر وبرکت اور ذریعۂ بخشش ونجات ہے ۔یہی وجہ ہےکہ قرونِ اولیٰ سے عصر حاضر تک علماء ومشائخ کے علاوہ مسلم معاشرہ کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اصحاب بصیرت نے حصول برکت کی خاطر اس کی کسی نہ کسی صورت میں خدمت کی کوشش کی ہے ۔اہل علم نے اگر اس کے الفاظ ومعانی ،مفاہیم ومطالب ،تفسیر وتاویل ،قراءات ولہجات کی صورت میں کام کیا ہے تو دانشوروں نے اس کے مختلف زبانوں میں تراجم ،کاتبوں نے مختلف خطوط میں اس کی کتابت کی ،ادیبوں اور شاعروں نےاس کے محامد ومحاسن کواپنے الفاظ میں بیان کر کے اس کی خدمت کی اور واعظوں اور خطیبوں نے اپنے وعظوں اور خطبات سے اس کی تعریف اس شان سے بیان کی کہ ہر مسلمان کا دل ا س کی تلاوت ومطالعہ کی جانب مائل ہواا ور امت مسلمہ ہی نہیں غیر مسلم بھی اس کی جانب راغب ہوکر اس سے منسلک ہوگئے ۔ بعض اہل علم وقلم نے اس کے موضوعات ومضامین پر قلم اٹھایا ااور بعض نے اس کی انڈیکسنگ اور اشاریہ بندی کی جانب توجہ کی ۔ زیر نظر کتاب ’’قرآنیات ‘‘ماہنامہ محدث کے معروف مضمون نویس اور کئی کتب کے مصنف ومترجم محترم مولانا محمد رفیق چودھری ﷾ کے قرآن مجید کے علوم ومعارف اور احکام ومباحث کے متعلق لکھے گئے 13 مضامین کا مجموعہ ہے چوہدری صاحب کے یہ مضامین دینی رسائل وجرائد میں شائع ہوچکے ہیں بعدازاں انہوں نے ان مضامین کو ’’قرآنیات ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں مرتب کیا ہے ۔فاضل مصنف کی زندگی کا طویل حصہ قرآن مجید سمجھنے سمجھانے اور اس کی نحوی وتفسیری مشکلات حل کرنے میں گزرا ہے۔ کتاب ہذا کے علاوہ آپ کئی دینی کتب کے مصنف ومترجم ہیں جن میں قرآن کریم کا اردو وانگلش ترجمہ اور10 جلدوں پر مشتمل تفسیر االبلاغ بھی شامل ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کی تدریسی وتعلیمی اور تحقیقی وتصنیفی خدمات کو قبول فر ما ئے(آمین)(م۔ا)
اسلامی تعلیم کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا اس کے بعد جوبھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے نبوت کسبی نہیں وہبی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا نبوت ورسالت سے نوازاکوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزارمتقی اور پرہیزگار کیوں نہ وہ نبی نہیں بن سکتا ۔قادیانیت کے یوم پیدائش سے لے کر آج تک اسلام اور قادیانیت میں جنگ جار ی ہے یہ جنگ گلیوں ،بازاروں سے لے کر حکومت کے ایوانوں اور عدالت کےکمروں تک لڑی گئی اہل علم نے قادیانیوں کا ہر میدان میں تعاقب کیا تحریر و تقریر ، خطاب وسیاست میں قانون اور عدالت میں غرض کہ ہر میدان میں انہیں شکستِ فاش دی ۔ سب سے پہلے قادیانیوں سے فیصلہ کن قانونی معرکہ آرائی بہاولپور کی سر زمیں میں ہوئی جہاں ڈسٹرکٹ جج بہاولپور نے مقدمہ تنسیخ نکاح میں مسماۃ عائشہ بی بی کانکاح عبد الرزاق قادیانی سے فسخ کردیاکہ ایک مسلمان عورت مرتد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی 1926ء سے 1935 تک یہ مقدمہ زیر سماعت رہا جید اکابر علمائے کرام نے عدالت کے سامنے قادیانیوں کے خلاف دلائل کے انبار لگا دیے کہ ان دلائل کی روشنی میں پہلی بار عدالت کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ۔ پھر اس کے بعد بھی قادیانیوں کے خلاف یہ محاذ جاری رہا بالآخر تحریک ختم نبوت کی کوششوں سے 1974ء کو قومی اسمبلی ، پاکستان نے ایک تاریخی بحث اور ملزموں کو مکمل صفائی کا موقع فراہم کرنے اور ان کے دلائل کما حقہ سننے کےبعد یہ فیصلہ صادر کیا کہ اب سے قادیانی آئین او رملکی قانون کی رو سے بھی غیر مسلم ہیں ۔مرزا قاديانی کے دعوۂ نبوت سے لے کر اب تک اس کے رد ّ میں چھوٹی بڑی بے شمار کتب شائع ہوچکی ہیں جن کا ریکارڈ پاک وہند کی سیکڑوں لائبریریوں میں موجود ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’قادیانی کرتوت‘‘ محمد طاہر عبدالرزاق کی 23 ویں کتاب ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے ماہنامہ ختم نبوت ، نقیب ختم نبوت، روزنامہ جنگ، روزنامہ اوصاف، ہفت روزہ تکبیر،اوردیگر اخبارات ورسائل میں چھپنے والے 27 مضامین کو مؤلفانہ رشتہ میں پروکر تالیفانہ تسبیح کی شکل دی ہے ۔ یہ مضامین اگرچہ مختلف وقتوں میں مختلف افراد کی طرف سے لکھے گئے ہیں ۔ ان کامرکزی موضوع قادیانی کرتوتوں کے گرد ہی گھومتا ہے صاحب کتاب چونکہ دشتِ قادیانیت میں ایک عمر گزار چکے ہیں اسی لیے ان کاانتخاب قارئین کےلیے چونکا دینے والا اور معلومات افزاء ہے ۔(م۔ا)