قرآن مجید اللہ رب العزت کی طرف سے نازل کی جانے والی کتبِ سماویہ میں سے سب سے آخری کتاب ہے ۔جسےاس نے امت محمدیہﷺکی آسانی کے لئے سات معروف لہجات (یعنی سبعہ احرف)پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف اور لہجات عین قرآن مجید اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون عن نافع،روایت ورش عن نافع،روایت دوری عن ابی عمرو بصری اور روایت حفص عن عاصم )ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں۔عالم ِاسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، جبکہ مغرب ،الجزائر ،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت امام نافع بروایت ورش ، لیبیا ،تیونس اور متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع ،مصر، صومالیہ، سوڈان اور حضر موت میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج اور متداول ہے۔مذکورہ ممالک میں جو جو روایت متداول ہے وہاں اسی روایت کے مطابق ہی مصاحف کی طباعت کی جاتی ہے،اورسعودی عرب کے قرآن مجید کی طباعت کے معروف طباعتی ادارے مجمع ملک فہد نے ان چاروں روایات میں مصاحف طبع کر کے وہاں کے مسلمانوں میں تقسیم کئے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر کئی ممالک میں روایت حفص کی طرح دیگر قراءات میں مطبوع مصاحف عام دستیاب ہوتے ہیں اورانٹر نیٹ پر کئی ویب سائٹس پر بھی موجود ہیں ۔پاکستان میں بڑے بڑے جامعات سےمنسلک قراء حضرات تو ان مصاحف سے متعارف ہیں لیکن عام علماء حضرات ان مصاحف اور قراءات سے متعارف نہیں ہیں ۔ جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور کےشعبہ ریسرچ ’’ مجلس التحقیق الاسلامی ‘‘ کی لائبریری میں بھی روایت حفص کےعلاوہ دیگر قراءات میں مطبوع مصاحف موجود ہیں جو سرپرست اعلیٰ جامعہ لاہور الاسلامیہ ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی ﷾ اور مدیر کلیۃ القرآن ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی ﷾ نے اپنے بیرونی اسفار میں حاصل کر کے اسلامک ریسرچ کونسل کی لائبریری میں جمع کررکھے ہیں ۔کتاب وسنت سائٹ کے قارئین کے تعارف کے لیے سائٹ پر مختلف قراءات میں مطبوع مصاحف کواپلوڈ کیا گیا ہے ۔ زیر نظر مصحف(قرآن مجید)’’ القرآن الکریم بروایۃ حفص عن عاصم وبالہامش قراءۃ ابن عامر ‘‘ وزارۃ الاوقاف والشؤون و المقدسات الاسلامیہ،اردن نے تجويد وقراءات اور قراءات صغریٰ وکبریٰ کے ماہر و مصنف کتب قراءات شیخ توفیق ابراہیم ضمرہ کےاشراف میں تیار کر وا کر روایت حفص بن سلیمان عن ابی بکر عاصم بن ابی النَّجُود الاسدی الکوفی کے مطابق شائع کیا ہے اور اس کےحاشیہ میں قراءۃ عبد اللہ بن عامر الشامی کے کلمات درج ہیں ۔ ( م۔ا)
تزکیۂ نفس ایک قرآنی اصطلاح ہے ۔اسلامی شریعت کی اصطلاح میں تزکیہ کا مطلب ہے اپنے نفس کوان ممنوع معیوب اور مکروہ امور سے پاک صاف رکھنا جنہیں قرآن وسنت میں ممنوع معیوب اورمکروہ کہا گیا ہے۔گویا نفس کو گناہ اور عیب دارکاموں کی آلودگی سے پاک صاف کرلینا اور اسے قرآن وسنت کی روشنی میں محمود ومحبوب اور خوب صورت خیالات وامور سے آراستہ رکھنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو جن اہم امور کےلیے بھیجا ان میں سے ایک تزکیہ نفس بھی ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے : هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ‘‘اس آیت سے معلوم ہوتاہےکہ رسول اکرم ﷺ پر نوع انسانی کی اصلاح کےحوالے جو اہم ذمہ داری ڈالی گئی اس کےچار پہلو ہیں ۔تلاوت آیات،تعلیم کتاب،تعلیم حکمت،تزکیہ انسانی۔ قرآن مجید میں یہی مضمون چار مختلف مقامات پر آیا ہے جن میں ترتیب مختلف ہے لیکن ذمہ داریاں یہی دہرائی گئی ہیں۔ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت آیات اورتعلیم کتاب وحکمت کا منطقی نتیجہ تزکیہ ہے۔تزکیہ نفس کے حصول کےلیے قرآن وحدیث میں وارد بہت سے امور کااختیار کرنا اور بہت سےامور کا ترک کرنا ضروری ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ تعلیمات نبوی ﷺ اور جدید علم نفسیات جلد2‘‘ مولانا ہارون معاویہ صاحب کی تصنیف ہے ۔ یہ کتاب نبوی تعلیمات اور جدید علم نفسیات کا تحقیقی نچوڑ ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں ارشاداتِ نبویﷺ اور جدید علم نفسیات کاموازنہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ کائنات کے سب سے بڑے ماہر نفسیات ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ ہیں اور آج کے ماہرین نفسیات جو کچھ اچھے اور مثبت اصول پیش کررہے ہیں وہ سب اسلامی تعلیمات سے اخذ شدہ ہیں ۔ اور علم ِ سائنس کی طرح علم نفسیات کا بانی بھی اسلام ہے ۔ کتاب دو جلدوں میں ہے ہمیں اس کی دوسری جلد ملی ہے ۔ جلد اول دستیبا ب ہونے پر اسے بھی سائٹ پر اپلوڈ کردیا دجائے گا۔ ان شاء اللہ (م۔ا)
نسیم حجاز ی اردو کے مشہور ناول نگار تھے جو تاریخی ناول نگاری کی صف میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔نسیم حجازی نے تقریبا 20 کے قریب ایمان افروز ناول تحریر کیے ہیں ۔زیر نظر کتاب ’’ قیصر وکسریٰ ‘‘ بھی انہی کاتحریر کردہ ناول ہے ۔ان کایہ تاریخی ناول خلافت امویہ، فتح اندلس، فتح سندھ،, فتح وسط ایشیاء اور فتح المغرب کے دلچسپ واقعات پر مشتمل ہے ۔(م۔ا)
ڈاکٹر ذاکر نائک کا نام عوامی و علمی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ڈاکٹر ذاکر نائیک ﷾ہندوستان کے ایک معروف مبلغ اور داعی ہیں۔آپ اپنے خطبات اور لیکچرز میں اسلام اور سائنس کے حوالے سے بہت زیادہ گفتگو کرتے ہیں، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو کچھ بتا دیا تھا، آج کی جدید سائنس اس کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔ اور یہ کام وہ زیادہ تر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت کرتے ہیں ،تاکہ ان کی عقل اسلام کی حقانیت اور عالمگیریت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔اسلام اگرچہ سائنس کی تائید کا محتاج نہیں ہے، اور اس کا پیغام امن وسلامتی اتنا معروف اور عالمگیر ہے کہ اسے مسلم ہو یا غیر مسلم دنیا کا ہر آدمی تسلیم کرتا ہے۔دنیا بھر میں ہزاروں لوگ ڈاکٹر ذاکر نائیک کےہاتھوں اسلام قبول کرچکے ہیں اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور ان کی غلبۂ اسلام کےلیے تمام جہود کو قبول فرمائے ۔زیر نظر کتاب ’’خطبات ڈاکر ذاکر نائیک ‘‘ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطبات کا مجموعہ ہے ڈاکٹر صاحب کے خطبات انگریزی زبان میں تھے سید امتیاز احمد صاحب نے ان خطبات کو اردو زبان میں منتقل کیا ہے تاکہ اردو طبقہ بھی ان خطبات سے مستفید ہوسکے۔ (م۔ا)
زیب وزینت کے حوالے سے عورتوں کے لئے مخصوص خصائل فطرت پر عمل کرنا از حدضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کو حد شرعی وحد اعتدال میں رہتے ہوئے جائز وپاک چیزوں کے ذریعہ ہر قسم کی زیب زینت اور آرائش و زیبائش کی اجازت دی ہے۔ لیکن اس کے لئے کچھ اصول وضوابط وضع کردیئے گئے ہیں۔ مثلا یہ کہ زینت اپنے اندرون خانہ ہو۔ اپنے شوہر کے لئے ہو نہ کہ اجانب وغیر محرم کے لئے۔ زیب وزینت اختیار کرتے ہوئے اللہ کی فطری خلقت کا تغیر وتبدل لازم نہ آتا ہو مثلا بھوؤں کو بالکل صاف کرکے نکال دیا جائے۔ یا اپنے بالوں کو لمبا دکھانے کے لئے کسی دوسری عورت کے بال جوڑدیئے جائیں۔ اور اسی طرحپابندی کے ساتھ ناخن کاٹنا اور ان کی صفائی رکھنا، کیونکہ ناخن کاٹنا سنت نبویﷺ ہے جس پر اہل علم کا اجماع ہے اور یہ خصائل فطرت میں سے بھی ہے۔ ناخن کاٹنے میں حسن ونظافت ہے جب کہ لمبے چھوڑدینے میں بد شکلی اور خونخوار درندوں کے ساتھ مشابہت ہے۔ لمبے ناخنوں کے نیچے میل جمع ہوجاتی ہے اور ناخنوں کے نیچے تک پانی پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ بعض مسلمان عورتیں، غیر مسلم خواتین کی تقلید کرتے ہوئے اور سنت سے جہالت کی وجہ سے لمبے ناخن رکھنے کی وبامیں مبتلا ہیں۔عورت کی زیب وزینت ، لباس اور دیگر معاملات کے متعلق فتاویٰ جات اور مستقل کتب بھی موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ عورت کی زیب وزینت قرآن وسنت کےآئینے میں ‘‘ محترمہ گلریز محمود صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ مصنفہ نے اس کتاب میں عورت کی زیبائش کےمتعلق ہمارےمعاشرے میں جو مختلف مکتبہ ہائے فکر میں بہت متصادم اور متضاد آراء پائی جاتی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اوراپنی مقرر کردہ حدود کے اندر عورت کو ہر طرح کی زیب وزینت اختیار کرنےکی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ اسے حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مزین رکھے۔مصنفہ کی اس علمی کاوش کا مقصد عورت کو معاشرے میں اس کےصحیح کردار اور منصب سے آگاہ کرتے ہوئے ان حدود کی نشاندہی کرنا ہے جن کےاندر رہتے ہوئے عورت اپنی جمالیاتی فطرت کی بھی تکمیل کرسکے اورنظامِ معاشرت اور خود عورت کی اپنی ذات پر بھی کوئی منفی اثر نہ پڑے ۔ اس کتاب میں عورت کی زیب و زینت کےعارضی اور مستقل دونوں ذرائع پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں علماء کے فتاویٰ اور مستند ڈاکٹروں کےانٹرویوز بھی شامل بحث ہیں۔عورت کی زیب وزینت کی افادیت یا ضرر رسانی کےحوالے سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات سے کئے گئے سروے کی رپورٹ بھی اس کتاب میں پیش کردی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنفہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے خواتینِ اسلام کےلیے نفع بخش بنائے ۔(آمین)(م۔ا)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے جس میں ہماری ہدایت اور راہنمائی کی تما م تفصیلات موجود ہیں۔ یہ کتاب قیامت تک آنے والے لوگوں کےلئے ذریعۂ ہدایت و رُشد اور راہ نجات ہے۔ یہ کتاب ایک ایسی گائیڈ بک ہے ،جو کسی بھی انسان کے لئے ہرقسم کے حالات وواقعات میں شاندار اور کامیاب رہنمائی کرتی ہے۔ یہ کتاب آسمانی وزمینی علوم کا احاطہ کرنے والی ہے۔ اس کائنات میں کیاہوا، کیا ہوچکا اورکیا ہونے والاہے،اس کے بارے میں تمام معلومات اس کتاب میں موجودہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ اس کتاب میں دنیا میں رونما ہونے والے کسی بھی قسم کے حالات وواقعات کے اسباب اور وجوہات کا تذکرہ تفصیلی طور پر گیا ہے۔ اللہ کی نازل کردہ اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے،جس کا احاطہ کرنا کسی انسان کے لئے ناممکن ہے۔اس کتاب میں انسان جتنا غور وفکر کرکے پڑھے گا، اتنا ہی اس کتاب سے استفادہ کرکے اس کے اسرار ورموز اور معلومات سے آگاہ ہوسکے گا۔ اس میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔قرآن مجید کی اسی شان اور مقام ومرتبے کے پیش نظر اہل علم نے اس کی خدمت میں اپنی زندگیاں کھپا ئی ہیں اور اس کے مختلف علوم وفنون کو مدون فرمایا ہے۔قرآن مجید کے مختلف علوم وفنون میں سے ایک علم متشابہات القرآن ہے۔ حفاظ کرام کو ان آیتوں پر متشابہات پیش آتے ہیں جن کے الفاظ کا ایک حصہ ہم شکل حروف سے مرکب ہے عام طور پر قرآن کریم کےحافظوں کوان آیات کویاد کرنے میں دشوار ی ہوتی ہے اور مختلف آیات میں تعبیر کےاختلاف اور کلمات کی کمی اور زیادتی کو محفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے آیات متشابہات کے متلق متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیرنظر کتاب’’ تحفۃ الحفاظ فی الآیات المتشابہات ‘‘ جناب شکیل احمدمظاہری کی مرتب شدہ ہےمرتب موصوف نے ان آیات کو جمع کیا ہےاور کہاں سورت میں یہ لفظ ہے اور کہاں نہیں ہے اس کو تحریر کردیا ہے تاکہ حفاظ قرآن کو متشابہات سے مامون ہونے میں مدد مل سکے اور بنا قرآن دیکھے صحیح قرآن کی تلاوت آسانی سے کی جاسکے ۔یہ کتاب حفاظ کرام اور طلباء علوم دینیہ کےلیے قرآن پاک کی سولہ سو سے زائد مشابہ اورمتشابہ آیات کا مفید مجموعہ ہے مسابقہ حفظ کے لیے طلبۂ حفظ ، حفاظ اور قراء کےلیے ایک نایاب تحفہ ہے ۔اس کتاب کو طلبا حفظ قرآن کریم ا ورنئے حفاظ کےلیے ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا بہت مفید ہوگا ۔ یہ کتاب ہمیں ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی ﷾ (مدیر کلیۃ القرآن جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور )کے توسط سے پی ڈی ایف فارمیٹ میں موصول ہوئی ہے افادۂ عام کےلیےاسے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب ’’متشابہات آیات ِ قرآنیہ‘‘ کے نام سے بھی مطبوع ہے اور سائٹ بھی موجود ہے ۔ (م۔ا)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے جس میں ہماری ہدایت اور راہنمائی کی تما م تفصیلات موجود ہیں۔ یہ کتاب قیامت تک آنے والے لوگوں کےلئے ذریعۂ ہدایت و رُشد اور راہ نجات ہے۔ یہ کتاب ایک ایسی گائیڈ بک ہے ،جو کسی بھی انسان کے لئے ہرقسم کے حالات وواقعات میں شاندار اور کامیاب رہنمائی کرتی ہے۔ یہ کتاب آسمانی وزمینی علوم کا احاطہ کرنے والی ہے۔ اس کائنات میں کیاہوا، کیا ہوچکا اورکیا ہونے والاہے،اس کے بارے میں تمام معلومات اس کتاب میں موجودہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ اس کتاب میں دنیا میں رونما ہونے والے کسی بھی قسم کے حالات وواقعات کے اسباب اور وجوہات کا تذکرہ تفصیلی طور پر گیا ہے۔ اللہ کی نازل کردہ اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے،جس کا احاطہ کرنا کسی انسان کے لئے ناممکن ہے۔اس کتاب میں انسان جتنا غور وفکر کرکے پڑھے گا، اتنا ہی اس کتاب سے استفادہ کرکے اس کے اسرار ورموز اور معلومات سے آگاہ ہوسکے گا۔ اس میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔قرآن مجید کی اسی شان اور مقام ومرتبے کے پیش نظر اہل علم نے اس کی خدمت میں اپنی زندگیاں کھپا ئی ہیں اور اس کے مختلف علوم وفنون کو مدون فرمایا ہے۔قرآن مجید کے مختلف علوم وفنون میں سے ایک علم متشابہات القرآن ہے۔ حفاظ کرام کو ان آیتوں پر متشابہات پیش آتے ہیں جن کے الفاظ کا ایک حصہ ہم شکل حروف سے مرکب ہے عام طور پر قرآن کریم کےحافظوں کوان آیات کویاد کرنے میں دشوار ی ہوتی ہے اور مختلف آیات میں تعبیر کےاختلاف اور کلمات کی کمی اور زیادتی کو محفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے آیات متشابہات کے متلق متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیرنظر کتاب’’ متشابہات آیات ِ قرآنیہ ‘‘ جناب شکیل احمدمظاہری کی مرتب شدہ ہےمرتب موصوف نے ان آیات کو جمع کیا ہےاور کہاں سورت میں یہ لفظ ہے اور کہاں نہیں ہے اس کو تحریر کردیا ہے تاکہ حفاظ قرآن کو متشابہات سے مامون ہونے میں مدد مل سکے اور بنا قرآن دیکھے صحیح قرآن کی تلاوت آسانی سے کی جاسکے ۔یہ کتاب حفاظ کرام اور طلباء علوم دینیہ کےلیے قرآن پاک کی سولہ سو سے زائد مشابہ اورمتشابہ آیات کا مفید مجموعہ ہے مسابقہ حفظ کے لیے طلبۂ حفظ ، حفاظ اور قراء کےلیے ایک نایاب تحفہ ہے ۔اس کتاب کو طلبا حفظ قرآن کریم ا ورنئے حفاظ کےلیے ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا بہت مفید ہوگا ۔ یہ کتاب ہمیں ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی ﷾ (مدیر کلیۃ القرآن جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور )کے توسط سے پی ڈی ایف فارمیٹ میں موصول ہوئی ہے افادۂ عام کےلیےاسے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے یہ کتاب تحفۃ الحفاظ فی الآیات المتشابہات کے نام سے بھی مطبوع ہے اور سائٹ بھی موجود ہے ۔(م۔ا)
قرآن مجید اللہ کی طرف سے نازل کردہ آسمانی کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان کتاب کو آخرالزمان پیغمبر جناب محمد رسول اللہﷺ پر نازل کیا اور ’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَوَاِنَّا لَهُ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (الحجر:۹) فرما کر اس کی حفاظت کا فریضہ اپنے ذمہ لے لیا۔ قرآن مجید کا یہی امتیاز ہے کہ دیگر کتب سماوی کے مقابلے میں صدیاں بیت جانے کے باوجود محفوظ و مامون ہے اور اس کے چشمہ فیض سے اُمت سیراب ہورہی ہے۔ قرآن مجید کا یہی امتیاز اور اعجاز دشمنانِ اسلام کی آنکھوں میں کاٹنے کی طرح کھٹک رہا ہے اور ان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اس کتاب لاریب کی جمع و کتابت میں شکوک و شبہات پیدا کردیئے جائیں، جن کی بنیاد پریہ دعویٰ کیا جاسکے کہ معاذ اللہ گذشتہ کتابوں کی مانند قرآن مجید بھی تحریف و تصحیف سے محفوظ نہیں رہا ،لیکن چونکہ حفاظت قرآن کا فریضہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیاہے، چنانچہ تاریخ اسلام کے ہر دور میں مشیت الٰہی سے حفاظت قرآن کے لیے ایسے اقدامات اور ذرائع استعمال کئے گئے جو اپنے زمانے کے بہترین اور موثر ترین تھے۔ حفاظت قرآن کے دو بنیادی ذرائع حفظ اور کتابت ہیں، جوعہد نبوی سے لے کر آج تک مسلسل جاری و ساری ہیں۔عہد نبوی میں حفاظت ِقرآن کا بنیادی ذریعہ حفظ و ضبط تھا۔ متعدد صحابہ کرام قرآن مجید کے حافظ اور قاری تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کتابت وحی کا سلسلہ بھی جاری رہا، جیسے ہی کوئی آیت مبارکہ نازل ہوتی نبی کریم ﷺ کاتبینِ وحی کوبلوا کر لکھوا دیا کرتے تھے اور بتلاتے تھے کہ فلاں فلاں آیت کوفلاں فلاں سورت میں لکھو۔ عہد نبوی میں قرآن مجید مکمل لکھا ہوا موجود تھا مگر ایک جگہ جمع نہیں تھا،بلکہ مختلف اشیاء میں متفرق طور پر موجود تھا۔ عہد صدیقی میں واقعہ یمامہ کے بعد قرآن مجید کو صحف کی صورت میں ایک جگہ جمع کردیا گیا اور عہد عثمانی میں واقعہ آرمینیہ و آذربائیجان کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق کے دور میں ایک جگہ جمع کئے گئے قرآن مجید کے متعدد نسخے تیار کرکے مختلف اَمصار میں روانہ کردیئے گئے۔ عہد عثمانی میں کتابت قرآن کا ایسارسم اختیار کیا گیا، جو تمام قراء ت متواترہ کا احتمال رکھتا تھااور جو درحقیقت عہد نبوی اورعہد صدیقی میں لکھے گئے صحف کے رسم سے ماخوذ تھا -رسم عثمانی سے مراد وہ رسم الخط ہے، جوسیدنا عثمان کے حکم پر سیدنا زید بن ثابت اور ان کے دیگر ساتھیوں نے کتابت ِمصاحف میں اختیار کیا۔ زیرنظر کتاب ’’ مصاحف عثمانیہ میں باہم اختلاف ایک حقیقت‘‘ جناب قاری محمد صدیق سانسرودی ﷾(صدر شعبہ تجوید وقراءات دار العلوم فلاح دارین،گجرات ،الہند) کی علمی کاوش ہے ۔موصوف نے بڑے ہی شستہ اور شائستہ طرز پر جمع وتدوین قرآن کریم کےموضوع پر پڑے ہوئے تمام مخفی پردوں کو اٹھایا ہے او ر اس موضوع پر نہایت مفید علمی کاوش پیش کی ہے ۔ جمع وتدوین قرآن کریم کے سلسلے میں سیدنا زید بن ثابت کے انتخاب اور اس عظیم الشان کام کو آپ کےحوالے کیے جانے کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات اور شبہات اور نہایت عمدگی اور سلیقے سےدیے گئے مفصل جوابات پیش کیے ہیں ۔ اللہ تعالی ٰ مصنف کی اس کاوش کو شرف قبولیت سےنوازے ۔ یہ کتاب ہمیں ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی ﷾ (مدیر کلیۃ القرآن جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور )کے توسط سے پی ڈی ایف فارمیٹ میں موصول ہوئی ہے افادۂ عام کےلیےاسے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔ (م۔ا)
غلام اس کو کہتے ہیں کہ جسے کسی اور انسان کی ملکیت میں لیا جائے۔قدیم تہذیبوں میں جیسے عرب ہیں، غلامی رائج تھی۔غلاموں کے لیے عربی زبان میں لفظ “عبد ” استعمال کیا جاتا تھا جس کا استعمال اپنے حقیقی مفہوم میں خدا کے مقابلے پر اس کے بندے کے لیے کیا جاتا تھا۔ مجازی طور پر آقا کو اس کے غلام کا خدا تصور کیا جاتا تھا۔ مالک کے لیے مجازی طور پر “رب” کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا تھا۔غلامی اسلام کا ادارہ نہیں تھا۔ اسلام کو سماج سے ورثہ میں ملا۔ اسلام نے اس کی اصلاح کی اور غلاموں کو ان کے حقوق دئیے ۔قرون وسطی کی غلامی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔غلامی کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہےکہ جو دانشوران یورپ کی زبان پر رہتا ہے اوراسلام وپیغمبر اسلام ﷺ پر اعتراض کے سلسلہ میں ان کا یہ بہت مشہور ہتھیار ہے ۔اسلام کے روئے روشن کو داغدار کرنے کی غرض سے دانشوران یورپ کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ان کی ہر کتاب میں یہ اعتراض بڑے اہتمام سے موجو ہوتا ہے زیر نظر کتاب ’’اسلام میں غلامی کی حقیقت ‘‘ مولانا سیعد احمد اکبرآبادی کی تصنیف ہے فاضل مصنف نے اس میں غلامی کی حقیقت اوراس کے اخلاقی ،نفسیاتی اوراقتصادی پہلوؤں پر بحث کر نے بعد بتایا گیا ہے کہ غلامی کا آغاز کب سے ہوا ،اسلام سےپہلےکن کن قوموں میں یہ رواج پایا جاتاتھا اور اس کی صورتیں کیاتھیں، اس کی مکمل تاریخ پھر اسلام نے اس رواج کو اُس وقت کن مجبور حالات کی وجہ سےباقی رکھا اوراس میں کیا اصلاحات کیں اور ان سب سے اسلام کا اور منشاء کیا ہے اس کےبعد مشہور مصنفین یورپ کی اجتماعی غلامی پر مختصر اور محققانہ تبصرہ کیا ہے ۔(م۔ا)
تلاوت ِقرآن کا بھر پور اجروثواب اس امر پرموقوف ہے کہ تلاوت پورے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ کی جائے قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ جاننا اورسیکھنا علم تجوید کہلاتا ہے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے ۔ کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم الشان کتاب ہے کہ ہر مسلمان پراس کتاب کو صحیح پڑھنا لازمی اور ضروری ہے جس کاحکم ورتل القرآن ترتیلا سے واضح ہوتا ہے۔ اس قرآنی حکم کی تکمیل اور تجویدکوطالب تجوید کےلیے آسان اورعام فہم بناکر پیش کرناایک استاد کے منصب کا اہم فریضہ ہے ۔ایک اچھا استاد جہاں اداء الحروف کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ وہیں وہ اپنے طالب علم کو کتاب کےذریعے بھی مسائل تجوید ازبر کراتا ہے۔علم تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے ۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری صدی کے نصف سے ہوا۔ائمۂ حدیث وفقہ کی طرح تجوید وقراءات کے ائمہ کی بھی ایک طویل لسٹ ہے اور تجوید وقراءات کے موضوع پرماہرین تجوید وقراءات کی بے شمار کتب موجود ہیں ۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ عرب قراء کی طرح برصغیر پاک وہند کے علماء کرام اور قراءعظام نے بھی علم تجوید قراءات کی اشاعت وترویج کےلیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔پاکستان میں دیوبندی قراء کرام کےعلاوہ سلفی قراء عظام جناب قاری یحییٰ رسولنگری، قاری محمداریس العاصم ،قای محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہم اللہ اور ان کےشاگردوں کی تجوید قراءات کی نشرواشاعت میں خدمات قابل تحسین ہیں ۔مذکورہ قراء کی تجوید وقراءات کی کتب کے علاوہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے کلیۃ القرآن ومجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کے زیر نگرانی شائع ہونے والے علمی مجلہ رشد کےعلم ِتجویدو قراءات کے موضوع پر تین ضخیم جلدوں پر مشتمل قراءات نمبر اپنے موضوع میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جس میں مشہور قراء کرام کے تحریر شدہ مضامین ، علمی مقالات اور حجیت قراءات پر پاک وہند کے کئی جیدمفتیان کرام کے فتاوی ٰ جات بھی شامل ہیں اور اس میں قراءات کو عجمی فتنہ قرار دینے والوں کی بھی خوب خبر لیتے ہوئے ان کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’فتح الرحمٰن شرح خلاصۃ البیان‘‘ الہ آباد ،ہندوستان کے معروف قاری مولانا حافظ ضیاء الدین احمد کی علم تجوید کے معتلق مستند عربی تصنیف ’’خلاصۃ البیان‘‘ کی اردو شرح ہے ’’ خلاصۃ البیان‘‘ اپنے اختصار اور جامعیت میں بے مثال ہے اور بلاشبہ فن تجوید کا عجیب وغریب خلاصہ وعطر ہے مصنف موصوف نے عربی زبان میں خود ہی اس کی شرح کا بھی آغاز کیا لیکن اسے مکمل نہ کرپائے بعد ازاں متعدد قراء حضرا ت نے اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظراس کی اردو زبان میں شروح لکھی ہیں جن میں ’’التبیان شرح خلاصۃ البیان‘‘ ،’’دراسۃ العرفان شرح خلاصۃ البیان‘‘ اور زیر تبصرہ کتاب ’’فتح الرحمٰن شرح خلاصۃ البیان ‘‘ قابل ذکر ہیں ۔ فتح الرحمن خلاصۃ البیان کی نہایت مفید فن کےتمام متعلقات کواپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ایک جامع ار مکمل شرح ہے یہ شرح قاری محمد صدیق سانسرودی کی کاوش ہے ۔ یہ کتاب ہمیں ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی ﷾ (مدیر کلیۃ القرآن جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور )کے توسط سے پی ڈی ایف فارمیٹ میں موصول ہوئی ہے افادۂ عام کےلیےاسے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔(م۔ا)
ذکر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معانی یاد کرنا ،یاد تازہ کرنا ،کسی شئے کو بار بار ذہن میں لانا ،کسی چیز کو دہرانا اور دل و زبان سے یاد کرنا ہیں۔ذکر الہٰی یادِ الہٰی سے عبارت ہے ذکر الہٰی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اور ہر حالت میں۔ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے اپنے معبود حقیقی کو یاد رکھے اور اس کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو۔ ذکر الہٰی ہر عبادت کی اصل ہے تمام جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد عبادت الہٰی ہے اور تمام عبادات کا مقصودِ اصلی یادِ الہٰی ہے ۔کوئی عبادت اور کوئی نیکی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد سے خالی نہیں۔مردِ مومن کی یہ پہچان ہے کہ وہ جب بھی کوئی نیک عمل کرے تو اس کا مطمعِ نظر اور نصب العین فقط رضائے الہٰی کا حصول ہو ۔یوں ذکرِ الہٰی رضائے الہٰی کا زینہ قرار پاتا ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر قرآن و سنت میں جابجا ذکر الہٰی کی تاکید کی گئی ہے۔ کثرت ذکر محبت الہٰی کا اولین تقاضا ہے :انسانی فطرت ہے کہ وہ اس چیز کو ہمیشہ یاد کرتا ہے جس کے ساتھ اس کا لگاؤ کی حدتک گہرا تعلق ہو ۔وہ کسی صورت میں بھی اسے بھلانے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ زیر نظر کتاب ’’ اللہ کا ذکر فضائل،فوائد ،برکات ،ثمرات ‘‘امام ابن القیم الجوزیہ کی ایک نادر اور انتہائی نفع بخش تصنیف ’’ الوابل الصیب من الکلم الطیب‘‘ میں سے حصۂ ذکر کا عام فہم اور سلیس اردو ترجمہ ہے یہ ترجمہ مولانا خالد محمود صاحب ( فاضل جامعہ اشرفیہ ) نے کیا ہے تاکہ اردو داں طبقہ سے امام ابن قیم کی اس کتاب سے مستفید ہوسکے اللہ تعالیٰ مترجم کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)
قرآن مجید نبی کریم ﷺپر نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے آخری کتاب ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں صحابہ کرام کے سامنے اس کی مکمل تشریح وتفسیر اپنی عملی زندگی، اقوال وافعال اور اعمال کے ذریعے پیش فرمائی اور صحابہ کرام کو مختلف قراءات میں اسے پڑھنا بھی سکھایا۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد آئمہ فن اور قراء نے ان قراءات کو آگے منتقل کیا۔ کتبِ احادیث میں احادیث کی طرح مختلف قراءات کی اسناد بھی موجود ہیں۔ قراءاتِ سبعہ متواترہ کے علاوہ اور بھی قراءات زبان مبارک ﷺ سے منطوق اور ثابت ہیں اور وہ قراءات ثلاثہ ہیں اور یہ بھی عند الجمہور متوار ہیں ۔ بے شمار اہل علم اور قراء نے علوم قراءات کے موضوع پرسینکڑوں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر نظر کتاب گ’’الفوائد لمتمّمة لقراءات العشر‘‘ استاذ االاستاتذہ قاری المقری انیس احمد خاں فیض آبادی کی قراءات ثلاثہ پر مختصر مگر جامع مفید کتاب ہے طلباء قراءات کےلیے بیش قیمت تحفہ ہے ۔ یہ کتاب ہمیں ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی ﷾ (مدیر کلیۃ القرآن جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور )کے توسط سے پی ڈی ایف فارمیٹ میں موصول ہوئی ہے افادۂ عام کےلیےاسے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔(م۔ا)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے جس میں ہماری ہدایت اور راہنمائی کی تما م تفصیلات موجود ہیں۔ یہ کتاب قیامت تک آنے والے لوگوں کےلئے ذریعۂ ہدایت و رُشد اور راہ نجات ہے۔ یہ کتاب ایک ایسی گائیڈ بک ہے ،جو کسی بھی انسان کے لئے ہرقسم کے حالات وواقعات میں شاندار اور کامیاب رہنمائی کرتی ہے۔ یہ کتاب آسمانی وزمینی علوم کا احاطہ کرنے والی ہے۔ اس کائنات میں کیاہوا، کیا ہوچکا اورکیا ہونے والاہے،اس کے بارے میں تمام معلومات اس کتاب میں موجودہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ اس کتاب میں دنیا میں رونما ہونے والے کسی بھی قسم کے حالات وواقعات کے اسباب اور وجوہات کا تذکرہ تفصیلی طور پر گیا ہے۔ اللہ کی نازل کردہ اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے،جس کا احاطہ کرنا کسی انسان کے لئے ناممکن ہے۔اس کتاب میں انسان جتنا غور وفکر کرکے پڑھے گا، اتنا ہی اس کتاب سے استفادہ کرکے اس کے اسرار ورموز اور معلومات سے آگاہ ہوسکے گا۔ اس میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔قرآن مجید کی اسی شان اور مقام ومرتبے کے پیش نظر اہل علم نے اس کی خدمت میں اپنی زندگیاں کھپا ئی ہیں اور اس کے مختلف علوم وفنون کو مدون فرمایا ہے۔قرآن مجید کے مختلف علوم وفنون میں سے ایک علم متشابہات القرآن ہے۔ حفاظ کرام کو ان آیتوں پر متشابہات پیش آتے ہیں جن کے الفاظ کا ایک حصہ ہم شکل حروف سے مرکب ہے عام طور پر قرآن کریم کےحافظوں کوان آیات کویاد کرنے میں دشوار ی ہوتی ہے اور مختلف آیات میں تعبیر کےاختلاف اور کلمات کی کمی اور زیادتی کو محفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے آیات متشابہات کے متلق متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیرنظر کتاب’’ آیات متشابہات‘‘ مولانا مفتی رضوان رشید قاسمی (مہتمم جامعہ رشیدیہ ،بنگلور ) کی کاوش ہے موصوف نے اس مختصر کتاب میں اس طرح کی تمام آیتوں کو جمع کر نے کی سعی کی ہے جن میں عام طور پر متشابہات لگتے ہیں۔مسابقہ حفظ کے لیے طلبۂ حفظ ، حفاظ اور قراء کےلیے ایک نایاب تحفہ ہے ۔اس کتاب کو طلبا حفظ قرآن کریم ا ورنئے حفاظ کےلیے ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا بہت مفید ہوگا ۔ یہ کتاب ہمیں ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی ﷾ (مدیر کلیۃ القرآن جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور )کے توسط سے پی ڈی ایف فارمیٹ میں موصول ہوئی ہے افادۂ عام کےلیےاسے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔(م۔ا)
وقف کا لغوی معنی ٹھہرنا اور رُکنا ہے۔ جبکہ اہل فن قراء کرام کی اصطلاح میں وقف کے معنی ہیں کہ کلمہ کے آخر پر اتنی دیر آواز کو منقطع کرنا جس میں بطور عادت سانس لیا جاسکے، اور قراء ت جاری رکھنے کا ارادہ بھی ہو، عام ہے کہ وقف کرنے کے بعد مابعد سے ابتداء کریں یا ماقبل سے اعادہ۔(النشر:۱؍۲۴۰) (نشر کی رو سے یہی تعریف ممتاز اورزیادہ واضح ہے) معرفت وقف وابتداء کی اہمیت اور اس علم کی ضرورت کااحساس کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس طرح دلائل شرعیہ یعنی قرآن وحدیث اور اجماع اُمت سے قرآن مجید کا تجوید کے ساتھ پڑھنا واجب اور ضروری ہے، اس طرح معرفت الوقف، یعنی قرآنی وقوف کو پہچاننا اور دورانِ تلاوت حسنِ وقف وابتداء کی رعایت رکھنا اور اس کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے اوراس میں کسی کااختلاف نہیں ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ جس طرح تجوید کے ذریعہ حروف قرآن کی تصحیح ہوتی ہے اسی طرح معرفت الوقوف کے ذریعے معانی قرآن کی تفہیم ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے: ’’وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا‘‘(المزمل:۴)’’اورقرآن مجید کوترتیل کے ساتھ پڑھو ۔‘‘سیدنا علی سے ترتیل کا معنی پوچھا گیا توآپ نے فرمایا:’’الترتیل ھو تجوید الحروف ومعرفۃ الوقوف‘‘(الإتقان فی علوم القرآ ن:۱؍۸۵)۔ زیر تبصرہ کتابچہ" تسہیل الاھتداء فی الوقف والابتداء" جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہورمیں کلیۃ القرآن والعلوم اسلامیہ کے اولین صدر مدرس شیخ القراء جناب قاری محمد ابراہیم میر محمدی صاحب ﷾کے علم الوقف والابتداء کے متعلق تحریر کردہ غیر مطبوع رسالہ ہے ۔ یہ کتابچہ اب قاری صاحب کی کتاب ’’المدخل الی علم الوقف والابتداء‘‘ کے ساتھ بھی طبع ہوچکا ہے ۔ جو کہ وفاق المدارس السلفیہ کے نصاب میں شامل ہے اور کلیۃ القرآن الکریم جامعہ لاہور الاسلامیہ اور بنگہ بلوچاں کے طلباء کو پڑھائی جاتی ہے۔اللہ تعالی قاری صاحب کی تدریسی وتصنیفی جہود کو قبول فرمائے ۔اور قاری صاحب کو ایمان وسلامتی اور صحت وعافیت والی زندگی دے ۔ اور ان کے سیکڑوں شاگردوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے معرو ف واعظ ومذہبی سکالر قاری صہیب احمدمیر محمدی ، قاری حمزہ مدنی (مدیر کلیہ القرآن جامعہ لاہور الاسلامیہ،لاہور ، قاری عبد السلام عزیزی (مدیر معہد القرآن ،لاہور ) قاری عارف بشیر (مدرس بیت العتیق ،لاہو ر، قاری مصطفیٰ راسخ (نائب مدیر مجلس التحقیق الاسلامی ) قاری ابراہیم میرمحمدی ﷾ کے نامور شاگرد ہیں ۔ (م۔ا)
دنیا جہان میں لا تعداد مذاہب پائے جاتےہیں ان مذاہب میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام ایک عالمگیر خدا اور ایک برتر ہستی پر یقین رکھتے ہیں جو قادر مطلق اور عالم کل ہے خدا کے نام ہر مذہب میں اور ہر زبان میں الگ الگ ہیں، خدا کی صفات تو عام طور پر ایک جیسی ہی ملتی ہیں، کہ وہ خالق ہے، مالک، ہے رزق دینے والا، گناہ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا اور دعا سننے والا۔ زیر نظر کتاب ’’ تصوّر خدا میں مماثلت مذاہب عالم کی روشنی میں ‘‘ جناب عبد العزیز سنگھیڑاکی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے مذاہب کی اصل حقیقت ،خدا کاصل پیغا م ،انسانی زندگی کے اصل مقصد کو بیان کرنے علاوہ مذاہب عالم کی روشنی میں اخروی نجات کے لیے بہترین راستہ ،جنت ، دوز ،شیطان کے تصور کو پیش کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ ، جنت ، دوزخ ، شیطان ، ملائیکہ کے بارے میں وہی تصور درست ہے جو اسلامی تعلیمات میں موجو د ہے ۔کتاب ہذا کو افادہ عام کےلیے سائٹ پر پیش کیا جارہا ہے ۔کتا ب کے مندرجات سے ادارہ کا اتفاق ضروری نہیں ہے ۔(م۔ا)
قرآن مجید نبی کریم پر نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے آخری کتاب ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں صحابہ کرام کے سامنے اس کی مکمل تشریح وتفسیر اپنی عملی زندگی، اقوال وافعال اور اعمال کے ذریعے پیش فرمائی اور صحابہ کرام کو مختلف قراءات میں اسے پڑھنا بھی سکھایا۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد آئمہ فن اور قراء نے ان قراءات کو آگے منتقل کیا۔ کتب احادیث میں احادیث کی طرح مختلف کی قراءات کی اسناد بھی موجود ہیں۔ بے شمار اہل علم اور قراء نے علوم قراءات کے موضوع پرسینکڑوں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ تنویر ترجمہ التیسیر ‘‘ تجویدو قراءات کے معروف امام علامہ ابو عمرو عثمانی بن سعید الدانی کی قراءات سبع میں نہایت اہم کتا ب ’’ التیسیر‘‘ کا ترجمہ ہے ۔ شیخ القراء قاری رحیم بخش پانی پتی نے التیسیر کو اردو قالب میں میں ڈھالا ہے۔اور علامہ محمد بن احمد شمس متولی کی قراءات ثلاثہ پر مشہور کتاب ’’ الوجوہ المسفرہ ‘‘ کاترجمہ بھی اس کے ساتھ ملحق ہے ۔الوجوہ المسفرہ کا اردو ترجمہ شیخ القراء جناب مولانا قاری فتح محمد پانی پتی نے کیا ہے ۔ قاری نجمی الصبیح صاحب نے علامہ دانی اور علامہ متولی ،قاری رحیم بخش اور قاری فتح محمد کے حالات اور مذکورہ دونوں کتابوں کی فہارس تیاری کر کےاس میں شامل کردی ہیں۔ قراءت اکیڈمی ،لاہور نے ان دنوں کتب کو یکجا کر کے حسن طباعت سے آراستہ کیا ہے ۔(م۔ا)
وقف کا لغوی معنی ٹھہرنا اور رُکنا ہے۔ جبکہ اہل فن قراء کرام کی اصطلاح میں وقف کے معنیٰ ہیں کہ’’کلمہ کے آخر پر اتنی دیر آواز کو منقطع کرنا جس میں بطور عادت سانس لیا جاسکے، اور قراء ت جاری رکھنے کا ارادہ بھی ہو۔ معرفت وقف وابتداء کی اہمیت اور اس علم کی ضرورت کااحساس کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس طرح دلائل شرعیہ یعنی قرآن وحدیث اور اجماع اُمت سےقرآن مجید کا تجوید کے ساتھ پڑھنا واجب اور ضروری ہے، اسی طرح معرفت الوقف، یعنی قرآنی وقوف کو پہچاننا اور دورانِ تلاوت حسنِ وقف وابتداء کی رعایت رکھنا اور اس کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے اوراس میں کسی کااختلاف نہیں ۔اوروجہ اس کی یہ ہے کہ جس طرح تجوید کے ذریعہ حروف قرآن کی تصحیح ہوتی ہے اسی طرح معرفت الوقوف کے ذریعے معانی قرآن کی تفہیم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ تجوید الحروف کی طرح معرفۃ الوقوف بھی ترتیل کا ایک جزء اور اس کا ایک حصہ ہے ۔ زیر نظر ’’مجموعہ رسائل‘‘استاذ القراء قاری ابو الحسن اعظمی صاحب کی تصنیف کردہ تین کتب کا مجموعہ ہے ۔اول رسالہ’’ حسن الاقتداء فی الوقف والابتداء ‘‘ علم وقف سے متعلق ہے ۔ دوسرا رسالہ تین کلمات کلا۔ بلی اورنعم پر وقف سے متعلق امام مکی بن طالب قیسی کے رسالے ’’ اظہار النعم فی الوقف کلا وبلی ونعم‘‘ کا اردو ترجمہ ہے اور تیسرا رسالہ ’’نثر المرجان فی تعداد آیات القرآن‘‘عدد آیات قرآنیہ سے متعلق ہے ۔(م۔ا)
یورپ دنیا کے سات روایتی براعظموں میں سے ایک ہے تاہم جغرافیہ دان اسے حقیقی براعظم نہیں سمجھتے اور اسے یوریشیا کا مغربی جزیرہ نما قرار دیتے ہیں۔ اصطلاحی طور پر کوہ یورال کے مغرب میں واقع یوریشیا کا تمام علاقہ یورپ کہلاتا ہے۔یورپ کے شمال میں بحر منجمد شمالی، مغرب میں بحر اوقیانوس، جنوب میں بحیرہ روم اور جنوب مشرق میں بحیرہ روم اور بحیرہ اسود کو ملانے والے آبی راستے اور کوہ قفقاز ہیں۔ مشرق میں کوہ یورال اور بحیرہ قزوین یورپ اور ایشیا کو تقسیم کرتے ہیں۔یورپ رقبے کے لحاظ سے آسٹریلیا کو چھوڑ کر دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کا رقبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر ہے جو زمین کے کل رقبے کا صرف دو فیصد بنتا ہے۔آج جن کتابوں کا ایک بے پناہ طوفان مغرب سے اٹھ کر مشرق کو لپیٹ میں لے رہا ہے ان میں سے کوئی یہ نہیں بتاتی کہ وہ راجر بیکن جسے انگلستان میں بابائے سائنس سمجھا جاتا ہے عربوں کا شاگرد تھا اور وہ اپنے شاگردوں سے کہا کرتا تھا کہ صحیح علم حاصل کرنا ہے تو عربی پڑھو۔ مؤرخین مغرب یونانیوں کو علم کا سرچمشہ بتاتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ان کی کتابیں چھ سو برس تک اسکندریہ،ایتھنز اور قسطنطنیہ میں مقفّل پڑی رہیں عربوں نے انہیں نکالا عربی ترجمہ کیااور یہی تراجم مسلمانوں کے ساتھ یورپ میں پہنچے ۔جناب ڈاکٹرغلام جیلانی برق نے زیر نظر کتاب ’’ یورپ پر اسلام کے احسانات‘‘ میں اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ گلیلیو، کپلر ، برونو ، راجر بیکن عربوں کےہی نقال تھے او رجو عربی تہذیب نے یورپ پر اثرات مرتب کیے ان کوبھی واضح کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ امریکہ کو دریافت کرنے والے کولمبس نےبحر پیمائی کی تعلیم اسلامی درسگاہو میں حاصل کی تھی اس کےپاس رہنمائی کے لیے جو کمپاس تھا اسے عربوں نےایجاد کی تھا اور افریقہ جانے والوں کےپاس جو نقشے تھے وہ عرب بحیرہ روم ، بحیرہ قلزم ، بحر ہند اوربحر الکاہل کے سفر میں صدیوں سے استعمال کرر ہے تھے ۔ الغرض ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے اس کتاب میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ہمارے جلیل وعظیم اسلاف کےعلمی کارنامے کیا تھے ؟ وہ کیسے یورپ میں پہنچے اور وہاں کے وحشیوں کو کس طرح انسان بنایا۔یورپ جہالت وحشت ،بربریت اور فلاکت کی دلدلوں میں ڈوبا ہوا تھا ہمارے اسلاف نے اسے ان غلاظتوں سے نکالا اور علوم وفنون سے روشناس کیا تہذیب وتمدّن کا سبق دیا اور عروج وعظمت کی راہوں پر ڈالا۔(م۔ا)
یورپ دنیا کے سات روایتی براعظموں میں سے ایک ہے تاہم جغرافیہ دان اسے حقیقی براعظم نہیں سمجھتے اور اسے یوریشیا کا مغربی جزیرہ نما قرار دیتے ہیں۔ اصطلاحی طور پر کوہ یورال کے مغرب میں واقع یوریشیا کا تمام علاقہ یورپ کہلاتا ہے۔یورپ کے شمال میں بحر منجمد شمالی، مغرب میں بحر اوقیانوس، جنوب میں بحیرہ روم اور جنوب مشرق میں بحیرہ روم اور بحیرہ اسود کو ملانے والے آبی راستے اور کوہ قفقاز ہیں۔ مشرق میں کوہ یورال اور بحیرہ قزوین یورپ اور ایشیا کو تقسیم کرتے ہیں۔یورپ رقبے کے لحاظ سے آسٹریلیا کو چھوڑ کر دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کا رقبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر ہے جو زمین کے کل رقبے کا صرف دو فیصد بنتا ہے۔ یورپ کو دریافت کرنے او راس کی ترقی میں مسلمانوں کا بڑا کردار ہے ۔یورپ جہالت وحشت ،بربریت اور فلاکت کی دلدلوں میں ڈوبا ہوا تھا مسلمانوں نے ہی اسے ان غلاظتوں سے نکالا اور علوم وفنون سے روشناس کیا تہذیب وتمدّن کا سبق دیا اور عروج وعظمت کی راہوں پر ڈالا۔ زیر نظر کتاب ’’ یورپ مسلمانوں کی نظر میں ‘‘برنا رڈلیوس کی انگریزی تصنیف The Muslim Discovery of Europe کا اردو ترجم ہے ۔ مصنف نے اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ حصہ اول اسلام او مغرب کے رشتوں کے جائزہ پر مشتمل ہے ۔ دوسرا حصہ یورپ اور مسلمانوں کےدرمیان اظہار وابلاغ کے ذریعہ کے متعلق ہے ۔کہ ترجمانی کرنےوالے کون تھے ۔ترجمہ اور ایک دوسرے کی ترجمانی کیسے ہوتی تھی۔ اس حصے میں سیاحوں ، تاجروں ، سفارت کاروں ، جاسوں اور اس طرح کے ایسے دوسرے لوگوں کابھی ذکر ہے جنہوں نے ترجمانی کے فرائض ادا کیے یا جو پناہ گزیں تھے ۔ کتاب کے تیسرے حصے میں افتصادی امور ، حکمرانی اور عدل وانصاف ، سائنس اور ٹیکنالوجی ، ادب اور فنون لطیفہ ، عوام اور معاشرہ جیسے خاص موضوعات سے بحث کی گئی ہے۔ (م۔ا) ( اس کتاب کا صفحہ نمبر 360 تا 389 تصویروں کی وجہ سے نہیں لگایا گیا ۔
کسی بھی مسلمان کی عزت وآبرو کا دفاع کرنا انسان کو جنت میں لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔سیدنا ابو درداء فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جو شخص اپنے بھائی کی عزت سے اس چیز کو دور کرے گا جو اسے عیب دار کرتی ہے ، اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے چہرے سے آگ کو دور کر دے گا۔(ترمذی:1931)اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کسی بھی مسلمان کی عزت کا دفاع کرنا ایک مستحب اور بے حدپسندیدہ عمل ہے۔اور اگر ایسی شخصیات کی عزتوں کا دفاع کیا جائے جو صاحب فضیلت ہوں تو اس عمل کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔مثلا اگرکسی صحابی کی شان میں گستاخی کی جاتی ہےاور ان پر غلط الزامات لگائے جاتے ہیں تو ایسے صحابی کی عزت کادفاع کرنا بہت بڑی عبادت اور بہت بڑے اجروثواب کا باعث ہے۔یزید بن معاویہ ؓ تابعین میں سے ہیں اور صحابی رسول سیدنا امیر معاویہ کے بیٹے ہیں۔بعض روافض اور مکار سبائیوں نے ان پر بے شمار جھوٹے الزامات لگائے ہیں اور ان کی عزت پر حملہ کیا ہے۔ان کی عزت کا دفاع کرنا بھی اسی حدیث پر عمل کرنے میں شامل ہے۔یزید بن معاویہ کے متعلق بعض لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ وہ قسطنطنیہ کے اس لشکر کا سپہ سالار تھا کہ جس نے سب سے پہلے قسطنطنیہ پر لشکر کشی کی تھی اور حدیث میں اس لشکر کو مغفور لہم کے لیے پروانہ مغفرت کی بشارت سنائی گئی ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’یزید بن معاویہ اور جیش مغفور لہم‘‘ ڈاکٹر ابو جابر دامانوی ﷾ کے ماہنامہ محدث ،لاہور میں جنوری 2010ء شائع شدہ مضمون کی کتابی صورت ہے ۔ڈاکٹر دامانوی مضمون کے جواب میں مولاناعبد الولی حقانی اور ڈاکٹر حافظ شریف شاکر نے مضامیں تحریرکیے جو ماہنامہ محدث ۔لاہور کے شمارہ اپر یل 2010ء اور نومبر 2012ء میں شائع ہوئے ۔ ڈاکٹر دامانوی نے اپنے مضمون میں ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا کہ یزید بن معاویہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والوں میں سب سے آخری لشکر میں شریک ہوا تھا سیدنا محمود بن الربیع کے جس قول سے یزید کا پہلے لشکر میں شامل ہونا ثاتب کیا جاتا ہے ڈاکٹر دامانوی نے اسی قول سے اس کا سب سے آخری لشکر میں شامل ہونا ثابت کیا ہے ۔ ڈاکٹر دامانوی صاحب نے ماہنامہ محدث کے مطبوعہ مضامین کو کتابی صور ت میں مرتب وقت اسے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے حصہ اول : جیش مغفور کا سپہ سالار کون تھا؟۔ حصہ دوم : لشکر قسطنطنیہ اور امارت یزید کا مسئلہ اور کیا جیش مغفور لہم کے سالار معاویہ تھا؟ پر تبصرہ ۔ حصہ سوم جیشِ مغفور کے سالار پر تحقیق مزید؟۔ حصہ چہارم : یزید بن معاویہ کی شخصیت قرآن وحدیث ، اقوال صحابہ کرام وسلف صالحین کی روشنی میں ۔ کے عناوین کے نام سے ہے ۔(م۔ا)
امام محمد بن اسماعیل بخاری کی شخصیت اور ان کی صحیح بخاری محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ امیر االمؤمنین فی الحدیث امام المحدثین کے القاب سے ملقب تھے۔ ان کے علم و فضل ، تبحرعلمی اور جامع الکمالات ہونے کا محدثین عظام او رارباب ِسیر نے اعتراف کیا ہے امام بخاری ۱۳ شوال ۱۹۴ھ ، بروز جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے۔ دس سال کی عمر ہوئی تو مکتب کا رخ کیا۔ بخارا کے کبار محدثین سے استفادہ کیا۔ جن میں امام محمد بن سلام الکندی ، امام عبداللہ بن محمد بن عبداللہ المسندی، امام محمد بن یوسف بیکندی زیادہ معروف ہیں۔اسی دوران انہوں نے امام عبداللہ بن مبارک امام وکیع بن جراح کی کتابوں کو ازبر کیا اور فقہ اہل الرائے پر پوری دسترس حاصل کر لی۔ طلبِ حدیث کی خاطر حجاز، بصرہ،بغداد شام، مصر، خراسان، مرو بلخ،ہرات،نیشا پور کا سفر کیا ۔ ان کے حفظ و ضبط اور معرفت حدیث کا چرچا ہونے لگا۔ امام بخاری کے استاتذہ کرام بھی امام بخاری سے کسب فیض کرتے تھے ۔ آپ کے اساتذہ اور شیوخ کی تعداد کم وبیش ایک ہزار ہے۔ جن میں خیرون القرون کےاساطین علم کےاسمائے گرامی بھی آتے ہیں۔اور آپ کےتلامذہ کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ امام بخاری سے صحیح بخاری سماعت کرنےوالوں کی تعداد 90ہزار کےلگ بھگ تھی ۔امام بخاری کے علمی کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ صحیح بخاری کی تالیف ہے جس کے بارے میں علمائے اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قرآن کریم کے بعد کتب ِحدیث میں صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے ۔ فن ِحدیث میں اس کتاب کی نظیر نہیں پائی جاتی آپ نے سولہ سال کے طویل عرصہ میں 6 لاکھ احادیث سے اس کا انتخاب کیا اور اس کتاب کے ابواب کی ترتیب روضۃ من ریاض الجنۃ میں بیٹھ کر فرمائی اور اس میں صرف صحیح احادیث کو شامل کیا ۔امام بخاری کی سیر ت اور صحیح بخاری کے تعارف کے متعلق متعدد اہل علم نے کتب تصنیف کی ہیں لیکن سب سے عمدہ کتاب مولانا عبد السلام مبارکپوری کی تصنیف ’’سیرۃ البخاری ‘‘ ہے جو کہ کتاب وسنت ویب سائٹ پر موجود ہے ۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ ڈاکٹر عبد العلیم بستوی کےقلم سے جامعہ سلفیہ بنارس اورمکہ مکرمہ سے شائع ہوچکا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’تذکرۃ البخاری‘‘ مولانا محمد الاعظمی (سابق شیخ الحدیث جامعہ عالیہ عربیہ مئو) کی تالیف ہے ۔مصنف نے اس کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کرتے ہوئے امام بخاری کی حیات وسیرت، خصائص وشمائل، امام بخاری کا تفقہ اور اجتہادات ، صحیح بخاری اور اس کی خصوصیات ،امام بخاری کی تصانیف، صحیح بخاری کی شروح ، ختم صحیح بخاری، جیسے عنوانات قائم کر کے اما م بخاری اور ان کی الجامع الصحیح کے علمی مقام پر روشنی ڈالی ہے کتاب کے شرو ع میں ڈاکٹر مقتدیٰ حسن کاعلمی مقدمہ انتہائی اہم ہے ۔(م۔ا)
تلاوت ِقرآن کا بھر پور اجروثواب اس امر پرموقوف ہے کہ تلاوت پورے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ کی جائے قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ جاننا اورسیکھنا علم تجوید کہلاتا ہے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے ۔ کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم الشان کتاب ہے کہ ہر مسلمان پراس کتاب کو صحیح پڑھنا لازمی اور ضروری ہے جس کاحکم ورتل القرآن ترتیلا سے واضح ہوتا ہے۔ اس قرآنی حکم کی تکمیل اور تجویدکوطالب تجوید کےلیے آسان اورعام فہم بناکر پیش کرناایک استاد کے منصب کا اہم فریضہ ہے ۔ایک اچھا استاد جہاں اداء الحروف کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ وہیں وہ اپنے طالب علم کو کتاب کےذریعے بھی مسائل تجوید ازبر کراتا ہے۔علم تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے ۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری صدی کے نصف سے ہوا۔ائمۂ حدیث وفقہ کی طرح تجوید وقراءات کے ائمہ کی بھی ایک طویل لسٹ ہے اور تجوید وقراءات کے موضوع پرماہرین تجوید وقراءات کی بے شمار کتب موجود ہیں ۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ عرب قراء کی طرح برصغیر پاک وہند کے علماء کرام اور قراءعظام نے بھی علم تجوید قراءات کی اشاعت وترویج کےلیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔پاکستان میں دیوبندی قراء کرام کےعلاوہ سلفی قراء عظام جناب قاری یحییٰ رسولنگری، قاری محمداریس العاصم ،قای محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہم اللہ اور ان کےشاگردوں کی تجوید قراءات کی نشرواشاعت میں خدمات قابل تحسین ہیں ۔مذکورہ قراء کی تجوید وقراءات کی کتب کے علاوہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے کلیۃ القرآن ومجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کے زیر نگرانی شائع ہونے والے علمی مجلہ رشد کےعلم ِتجویدو قراءات کے موضوع پر تین ضخیم جلدوں پر مشتمل قراءات نمبر اپنے موضوع میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جس میں مشہور قراء کرام کے تحریر شدہ مضامین ، علمی مقالات اور حجیت قراءات پر پاک وہند کے کئی جیدمفتیان کرام کے فتاوی ٰ جات بھی شامل ہیں اور اس میں قراءات کو عجمی فتنہ قرار دینے والوں کی بھی خوب خبر لیتے ہوئے ان کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں۔ زیر نظر کتاب’’تسہیل القواعد ‘‘ معروف قاری فتح محمد پانی پتی کی مرتب شد ہے ۔ قاری صاحب موصوف نے اس مختصر کتاب میں ایسے آسان قاعدے جمع کیے ہیں جن سے طلباء کو غلط اور صحیح میں فرق کرنے کی لیاقت بہت جلد میسّر آسکتی ہے ٰ اور قرآن پاک تجوید کے موافق صحیح پڑھنا نہایت آسانی سے سیکھ سکتے ہیں ۔(م ۔ا)
تلاوت ِقرآن کا بھر پور اجروثواب اس امر پرموقوف ہے کہ تلاوت پورے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ کی جائے قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ جاننا اورسیکھنا علم تجوید کہلاتا ہے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے ۔ کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم الشان کتاب ہے کہ ہر مسلمان پراس کتاب کو صحیح پڑھنا لازمی اور ضروری ہے جس کاحکم ورتل القرآن ترتیلا سے واضح ہوتا ہے۔ اس قرآنی حکم کی تکمیل اور تجویدکوطالب تجوید کےلیے آسان اورعام فہم بناکر پیش کرناایک استاد کے منصب کا اہم فریضہ ہے ۔ایک اچھا استاد جہاں اداء الحروف کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ وہیں وہ اپنے طالب علم کو کتاب کےذریعے بھی مسائل تجوید ازبر کراتا ہے۔علم تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے ۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری صدی کے نصف سے ہوا۔ائمۂ حدیث وفقہ کی طرح تجوید وقراءات کے ائمہ کی بھی ایک طویل لسٹ ہے اور تجوید وقراءات کے موضوع پرماہرین تجوید وقراءات کی بے شمار کتب موجود ہیں ۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ عرب قراء کی طرح برصغیر پاک وہند کے علماء کرام اور قراءعظام نے بھی علم تجوید قراءات کی اشاعت وترویج کےلیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔پاکستان میں دیوبندی قراء کرام کےعلاوہ سلفی قراء عظام جناب قاری یحییٰ رسولنگری، قاری محمداریس العاصم ،قای محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہم اللہ اور ان کےشاگردوں کی تجوید قراءات کی نشرواشاعت میں خدمات قابل تحسین ہیں ۔مذکورہ قراء کی تجوید وقراءات کی کتب کے علاوہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے کلیۃ القرآن ومجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کے زیر نگرانی شائع ہونے والے علمی مجلہ رشد کےعلم ِتجویدو قراءات کے موضوع پر تین ضخیم جلدوں پر مشتمل قراءات نمبر اپنے موضوع میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جس میں مشہور قراء کرام کے تحریر شدہ مضامین ، علمی مقالات اور حجیت قراءات پر پاک وہند کے کئی جیدمفتیان کرام کے فتاوی ٰ جات بھی شامل ہیں اور اس میں قراءات کو عجمی فتنہ قرار دینے والوں کی بھی خوب خبر لیتے ہوئے ان کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں۔ زیر نظر کتاب’’تیسیر التجوید ‘‘ ماہر فن تجوید استاذ المجوِّدین جناب قاری عبد الخالق کی مرتب شدہ ہے ۔ قاری صاحب موصوف نے اپنے 45 سالہ تجوید وقراءات کے تدریسی تجربہ کی روشنی میں مخارج حروف، حروف کی صفات لازمہ ، صفات عارضہ، مدات، اوقاف مختصر اورآسان فہم اندا ز میں جمع کردئیے ہیں کہ جس کوابتدائی طالب علم بآسانی سمجھ لیں اور یاد کرسکیں۔نیزاس کے ساتھ ساتھ بعض ایسے آداب وفوائد بھی شامل کردئیے ہیں کہ جن کا جاننا ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے ۔ (م ۔ا)
یہودی مذہب حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے یہودا کی طرف منسوب ہے ۔حضرت سلیمانؑ کے بعد جب ان کی سلطنت دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی تو یہ خاندان اس ریاست کامالک ہوا جو یہودیہ کےنام سے موسوم ہوئی اور بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں نے اپنی الگ ریاست قائم کرلی جو سامریہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ پھر اسیریا نے نہ صرف یہ کہ سامریہ کو برباد کردیا بلکہ ان اسرائیلی قبیلوں کا بھی نام ونشان مٹادیا جو اس ریاست کے بانی تھے ۔ اس کے بعد صرف یہودا اوراس کے ساتھ بنیامین کی نسل ہی باقی رہ گئی جس پر یہود اکی نسل کےغلبے کی وجہ سے یہود کےلفظ کا اطلاق ہونے لگا۔اس نسل کے اندر کاہنوں ،ربیوں اورااحبار نےاپنے اپنے خیالات اور رجحانات کے مطابق عقائد اور رسوم او رمذہبی ضوابط کا جو ڈھانچہ صد ہابرس میں تیار کیا اس کا نام یہودیت ہے ۔اللہ کےرسولوں کی لائی ہوئی ربانی ہدایت کا بہت تھوڑا ہی عنصر اس میں شامل ہے اور اس کا حلیہ بھی اچھا خاصا بگڑ چکا ہے ۔ اسی بناپر قرآن مجید میں اکثر مقامات پر ان کو الذین ھادوا کہہ کر خطاب کیا گیا ہے یعنی اے وہ لوگو جو یہودی بن کر رہ گئے ہو۔قرآن میں جہاں ’’بنی اسرائیل‘‘ کو خطاب کیاگیا ہے وہاں ’’بنی اسرائیل‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اور جہاں مذہب یہود کےپیروکاروں کوخطاب کیا گیا ہے وہاں الذین ھادوا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہودیوں کی عالمی فتنہ آرائیوں سے اب پوری دنیا آگاہ ہوچکی ہے ۔ اس وقت یہودیوں کے تین بین الاقوامی اڈے ہیں۔ ایک امریکہ، دوسرا برطانیہ، اور تیسرا جرمنی۔ اپنی خفیہ ایجنسیاں تو انہوں نے دنیا کےہر خطے میں جاری کر رکھی ہیں۔ ابلاغ عامہ اور مالی اداروں پر بھی ان کے گہرے اثرات ہیں۔ ان سب اڈوں اور ایجنسیوں اور اثرات کو وہ اپنی تصوراتی مملکت ’’ اسرائیل‘‘ کے بقاء واستحکام اور توسیع کے لیے استعمال کررہے ہیں۔اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ امت مسلمہ کے دانشور اور بالخصوص اسلامی تحریکات یہودیوں کی منصوبہ بندی ، طریق کار اور اثر ونفوذ کے چینل کو سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر امت کے باشعور حلقوں کو اس سے آگاہ کریں۔ زیر نظر کتاب ’’شکنجۂ یہود ‘‘امریکی سیاسی حلقے کی ایک شخصیت پال فند لے کی انگریزی کتاب ’’They Dare Speak Out ‘‘ کا پہلا اردو ترجمہ ہے ۔اصل کتاب جب شائع ہوئی تو بہت کم لوگوں تک پہنچ سکی کیونکہ خفیہ یہودی تنظیموں نے راتوں رات اسے بازار سے غائب کردیا شاید ہی کسی قابل ذکر لائبریری میں اس کا نسخہ موجود ہو۔مصنف کتاب امریکی سیاست کا راز داں رہا اس نے بہت قریب سے امریکہ کے ذریعے موجودہ عالمی نظام پر یہودی تسلط کا مطالعہ کیا ہے ۔اس کتاب میں صرف امریکہ میں یہودی لابی کی سرگرمیوں کا تذکرہ ہے ۔یورپ کے دوسرے ممالک میں یہودی سرگرمیوں کا اندازہ بھی اس کتاب کی روشنی میں لگایا جاسکتا ہے۔(م۔ا)
نبی کریمﷺ کا ذکر جمیل تمام کتب سماویہ میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کا ذکر مبارک اپنی ہر وحی اور اپنی ہر کتاب میں بیان فرمایا۔ چوں کہ اللہ تعالیٰ نے عالم میثاق میں انبیاء کرام کی ارواح طیبات سے حضور اکرمﷺکی نبوت و رسالت پر ایمان لانے اور آپﷺ کی مدد کرنے کا وعدہ لیا تھا، اس نے نہیں چاہا کہ یہ وعدہ صرف رازِ باطنی رہ جائے، بلکہ آنے والی نسل انسانی اس عظیم الشان نبی کی عظمت سے باخبر ہو۔ اسی لئے کتبِ سابقہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کا ذکر کیا اور قرآن پاک میں رہنمائی فرمائی کہ ’’ یہ وہ لوگ ہیں جو اس رسول ﷺ کی پیروی کرتے ہیں، جو امی نبی ہیں، جنکے اوصاف و کمالات کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں‘‘۔ (سورۃ الاعراف۔۱۵۷)رسول اللہ ﷺ کی آخری نبی کی حیثیت سے پیش گوئیاں سابقہ تمام انبیاء کی کتابوں میں موجود تھیں مگر بعد میں آنے والوں نےاپنی ضروریات کی خاطر ان کتابوں میں تحریفات کیں۔ ایک عرصہ تک یورپ ، افریقہ او رامریکہ میں غیر مسلم مبلغین کو مشکل ڈالے رکھنے والی شخصیت جناب احمد دیدات نے زیر نظر کتاب ’’ نوید ختم الرسل‘‘ قدیم وجدید آسمانی کتب وصحائف میں دلائل کی روشنی میں نبی کریم ﷺ کےآخری نبی ہونے کی بشارت کو ثابت کیا ہے ۔ احمد دیدات کی اشاعت اسلام کےلیےکی گئی کو ششوں کو اللہ تعالیٰ شرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین)(م۔ا)