تلاوت ِقرآن کا بھر پور اجروثواب اس امر پرموقوف ہے کہ تلاوت پورے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ کی جائے قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ جاننا اورسیکھنا علم تجوید کہلاتا ہے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے ۔ کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم الشان کتاب ہے کہ ہر مسلمان پراس کتاب کو صحیح پڑھنا لازمی اور ضروری ہے جس کاحکم ورتل القرآن ترتیلا سے واضح ہوتا ہے۔ اس قرآنی حکم کی تکمیل اور تجویدکوطالب تجوید کےلیے آسان اورعام فہم بناکر پیش کرناایک استاد کے منصب کا اہم فریضہ ہے ۔ایک اچھا استاد جہاں اداء الحروف کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ وہیں وہ اپنے طالب علم کو کتاب کےذریعے بھی مسائل تجوید ازبر کراتا ہے۔علم تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے ۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری صدی کے نصف سے ہوا۔ائمۂ حدیث وفقہ کی طرح تجوید وقراءات کے ائمہ کی بھی ایک طویل لسٹ ہے اور تجوید وقراءات کے موضوع پرماہرین تجوید وقراءات کی بے شمار کتب موجود ہیں ۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ عرب قراء کی طرح برصغیر پاک وہند کے علماء کرام اور قراءعظام نے بھی علم تجوید قراءات کی اشاعت وترویج کےلیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔پاکستان میں دیوبندی قراء کرام کےعلاوہ سلفی قراء عظام جناب قاری یحییٰ رسولنگری، قاری محمداریس العاصم ،قای محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہم اللہ اور ان کےشاگردوں کی تجوید قراءات کی نشرواشاعت میں خدمات قابل تحسین ہیں ۔مذکورہ قراء کی تجوید وقراءات کی کتب کے علاوہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے کلیۃ القرآن ومجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کے زیر نگرانی شائع ہونے والے علمی مجلہ رشد کےعلم ِتجویدو قراءات کے موضوع پر تین ضخیم جلدوں پر مشتمل قراءات نمبرز اپنے موضوع میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جس میں مشہور قراء کرام کے تحریر شدہ مضامین ، علمی مقالات اور حجیت قراءات پر پاک وہند کے کئی جیدمفتیان کرام کے فتاوی ٰ جات بھی شامل ہیں اور اس میں قراءات کو عجمی فتنہ قرار دینے والوں کی بھی خوب خبر لیتے ہوئے ان کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ جمال القرآن مع حاشیہ زینۃ الفرقان ‘‘محترم مولانا اشرف علی تھانوی صاحبکی تصنیف ہے ۔جمال القرآن پر زینۃ الفرقان کے نام سے حاشیہ بھی مولانا اشرف علی تھانوی کا تحریر کردہ ہے ۔اس کتاب میں علم تجوید کے ابتدائی مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔ شائقین علم تجوید کے لئے یہ ایک مفید اور شاندار کتاب ہے،جس کا تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو مطالعہ کرنا چاہئے۔ قاری محمد شریف صاحب نے بھی جمال القرآن پر ’’ ایضاح البیان‘‘ کے نام سے حاشیہ تحریر کیا ہے ۔(م۔ا)
قرآن مجید کتب سماویہ میں سے آخری کتاب ہے ۔ للہ تعالیٰ نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں صحابہ کرام کے سامنے قرآن مجید کی مکمل تشریح وتفسیر اپنی عملی زندگی، اقوال وافعال اور اعمال کے ذریعے پیش فرمائی اور صحابہ کرام کو مختلف قراءات میں اسے پڑھنا بھی سکھایا۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد آئمہ فن اور قراء نے ان قراءات کو آگے منتقل کیا۔ کتب احادیث میں احادیث کی طرح مختلف کی قراءات کی اسناد بھی موجود ہیں۔ بے شمار اہل علم اور قراء نے علوم قراءات کے موضو ع پرسینکڑوں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔شاطبیہ امام شاطبی کی قراءات سبعہ میں اہم ترین اساسی اور نصابی کتاب ہے ۔ یہ کتاب قراءات سبعہ کی تدریس کے لئے ایک مصدر کے حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے۔بڑے بڑے مشائخ اور علماء نے اس قصیدہ کی تشریح کو اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ شاطبیہ کے شارحین کی طویل فہرست ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ عمدۃ المبانی فی اصلاح عدۃ من ابیات حرز الامانی‘‘ قاری فتح محمد بن محمد اسماعیل پانی پتی کی تالیف ہے ۔فاضل مصنف نے اس رسالہ میں شاطبیہ کےان اشعار کو جمع کیا ہے جن میں شارحین نے کسی قید کی کمی یا اجمال رہ جانے یا عبارت میں اولیت پیدا نہ ہونے کی بنا پر اصلاح کی ہے ۔مصنف نے جن اشعار کی اصلاح کی ہے ان کی تعداد بھی درج کردی ہے ایسے اشعار کی تعداد 433 ہے ۔(م۔ا)
تلاوت ِقرآن کا بھر پور اجروثواب اس امر پرموقوف ہے کہ تلاوت پورے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ کی جائے قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ جاننا اورسیکھنا علم تجوید کہلاتا ہے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے ۔ کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم الشان کتاب ہے کہ ہر مسلمان پراس کتاب کو صحیح پڑھنا لازمی اور ضروری ہے جس کاحکم ورتل القرآن ترتیلا سے واضح ہوتا ہے۔ اس قرآنی حکم کی تکمیل اور تجویدکوطالب تجوید کےلیے آسان اورعام فہم بناکر پیش کرناایک استاد کے منصب کا اہم فریضہ ہے ۔ایک اچھا استاد جہاں اداء الحروف کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ وہیں وہ اپنے طالب علم کو کتاب کےذریعے بھی مسائل تجوید ازبر کراتا ہے۔علم تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے ۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری صدی کے نصف سے ہوا۔ائمۂ حدیث وفقہ کی طرح تجوید وقراءات کے ائمہ کی بھی ایک طویل لسٹ ہے اور تجوید وقراءات کے موضوع پرماہرین تجوید وقراءات کی بے شمار کتب موجود ہیں ۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ عرب قراء کی طرح برصغیر پاک وہند کے علماء کرام اور قراءعظام نے بھی علم تجوید قراءات کی اشاعت وترویج کےلیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔پاکستان میں دیوبندی قراء کرام کےعلاوہ سلفی قراء عظام جناب قاری یحییٰ رسولنگری، قاری محمداریس العاصم ،قای محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہم اللہ اور ان کےشاگردوں کی تجوید قراءات کی نشرواشاعت میں خدمات قابل تحسین ہیں ۔مذکورہ قراء کی تجوید وقراءات کی کتب کے علاوہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے کلیۃ القرآن ومجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کے زیر نگرانی شائع ہونے والے علمی مجلہ رشد کےعلم ِتجویدو قراءات کے موضوع پر تین ضخیم جلدوں پر مشتمل قراءات نمبر اپنے موضوع میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جس میں مشہور قراء کرام کے تحریر شدہ مضامین ، علمی مقالات اور حجیت قراءات پر پاک وہند کے کئی جیدمفتیان کرام کے فتاوی ٰ جات بھی شامل ہیں اور اس میں قراءات کو عجمی فتنہ قرار دینے والوں کی بھی خوب خبر لیتے ہوئے ان کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " فوائد مکیہ مع حاشیہ قاری ابن ضیاء "ماہر فن تجوید وقراءات قاری محمد عبد الرحمن مکی الہ آبادی کی قواعد تجويد کے متعلق معروف کتاب ہے ۔اس کتاب میں مولف نے علم تجوید کے مسائل کو بیان کیا ہے۔ شائقین علم تجوید کے لئے یہ ایک مفید اور شاندار کتاب ہے،جس کا تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو مطالعہ کرنا چاہئے۔ فوائد مکیہ کی کئی قراء نے شرح اور حواشی لکھے ہیں۔ زیر نظر فوائد مکیہ پر علامہ قاری ابن ضیاء محب الدین احمد کے قیمتی حواشی پر مشتمل ہے ۔(م۔ا)
شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی (1703-1762) برصغیر پاک و ہند کے ان عظیم ترین علماء ربانیین میں سے ہیں جو غیر متنازع شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ہر مسلک کے مسلمانوں کے ہاں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں ان کی شہرت صرف ہندوستان گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر ہے ۔وہ بلاشبہ اٹھارہویں صدی کے مجدد تھے اور تاریخ کے ایک ایسے دورا ہے پر پیدا ہوئے جب زمانہ ایک نئی کروٹ لے رہا تھا، مسلم اقتدار کی سیاسی بساط لپیٹی جا رہی تھی، عقلیت پرستی اور استدلالیت کا غلبہ ہو رہا تھا۔آپ نے حجۃ اﷲ البالغہ جیسی شہرہ آفاق کتاب اور موطا امام مالک کی شرح لکھی اورقرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ دوران ترجمہ شاہ صاحب کے سامنے بہت سے علوم و معارف اور مسائل و مشکلات واشگاف ہوئے ۔ شاہ صاحب نے ان کو حل کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے متعدد کتابیں اور رسالے لکھے ۔ترجمہ کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے "مقدمہ در قوانین ترجمہ" کی تصنیف فرمائی۔اس کے علاوہ شاہ صاحب نے تصوف وسلوک ، فقہ واصول فقہ ، اجتہاد وتقلید کے حوالے سے کئی رسائل تالیف فرمائے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’شاہ ولی اللہ اوران کا نظریہ انقلاب‘‘ مولانا عبیداللہ سندھی کی عربی کتاب ’’رسالہ محمودیہ ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔اس کتاب میں مولانا سندھی نے امام ولی اللہ دہلوی کے ارشادات ودعوت اور انقلابیت کی تعین خود ان کی تصانیف سے کی ہے اور ولی اللّہی سلسلہ کےمعروف علماء کرام کی آراء شاہ ولی اللہ دہلوی کے بارے میں پیش کی ہیں کہ وہ حضرت شاہ ولی اللہ کو کیا مقام دیتے ہیں ۔مولانا سندھی نے اس کتاب کا نام ’’محمویہ‘‘ رکھا بعد میں شیخ بشیر احمدبی اے نے اس کا اردو ترجمہ کیا تو انہوں نے اس کا نام ’’ عبیدیہ ‘‘رکھ دیا ۔ ناشرین کتاب ہذا نے ’’ محمودیہ ‘‘ اور ’’عبیدیہ‘‘ کی تحریروں کو یکجا کر کے اس کا نام ’’شاہ ولی اللہ کا نظریہ انقلاب‘‘ تجویز کیا تاکہ نام ہی سے کتاب کے مضامین کا علم ہوجائے جو عام قاری کے لیے عبیدیہ او رمحمودیہ کے نام سے مشکل تھا ۔(م۔ا)
تلاوت ِقرآن کا بھر پور اجروثواب اس امر پرموقوف ہے کہ تلاوت پورے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ کی جائے قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ جاننا اورسیکھنا علم تجوید کہلاتا ہے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے ۔ کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم الشان کتاب ہے کہ ہر مسلمان پراس کتاب کو صحیح پڑھنا لازمی اور ضروری ہے جس کاحکم ورتل القرآن ترتیلا سے واضح ہوتا ہے۔ اس قرآنی حکم کی تکمیل اور تجویدکوطالب تجوید کےلیے آسان اورعام فہم بناکر پیش کرناایک استاد کے منصب کا اہم فریضہ ہے ۔ایک اچھا استاد جہاں اداء الحروف کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ وہیں وہ اپنے طالب علم کو کتاب کےذریعے بھی مسائل تجوید ازبر کراتا ہے۔علم تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے ۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری صدی کے نصف سے ہوا۔ائمۂ حدیث وفقہ کی طرح تجوید وقراءات کے ائمہ کی بھی ایک طویل لسٹ ہے اور تجوید وقراءات کے موضوع پرماہرین تجوید وقراءات کی بے شمار کتب موجود ہیں ۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ عرب قراء کی طرح برصغیر پاک وہند کے علماء کرام اور قراءعظام نے بھی علم تجوید قراءات کی اشاعت وترویج کےلیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔پاکستان میں دیوبندی قراء کرام کےعلاوہ سلفی قراء عظام جناب قاری یحییٰ رسولنگری، قاری محمداریس العاصم ،قای محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہم اللہ اور ان کےشاگردوں کی تجوید قراءات کی نشرواشاعت میں خدمات قابل تحسین ہیں ۔مذکورہ قراء کی تجوید وقراءات کی کتب کے علاوہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے کلیۃ القرآن ومجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کے زیر نگرانی شائع ہونے والے علمی مجلہ رشد کےعلم ِتجویدو قراءات کے موضوع پر تین ضخیم جلدوں پر مشتمل قراءات نمبر اپنے موضوع میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جس میں مشہور قراء کرام کے تحریر شدہ مضامین ، علمی مقالات اور حجیت قراءات پر پاک وہند کے کئی جیدمفتیان کرام کے فتاوی ٰ جات بھی شامل ہیں اور اس میں قراءات کو عجمی فتنہ قرار دینے والوں کی بھی خوب خبر لیتے ہوئے ان کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں۔
زیر نظر کتاب ’’رہنمائے تجوید المعروف میزان التجوید ‘‘استاذ القراء قاری سید محمد سلیمان کی قواعد تجوید کے متعلق آسان فہم کتاب ہے ۔قاری صاحب موصوف نے تجوید کے ضروری مسائل سہل اور آسان عبارت میں بطرز سوال جواب تجوید کے تمام ضروری مسائل اس کتاب میں مرتب کیے ہیں ۔ یہ کتاب بچوں اور مبتدیوں کےلیے عام فہم اور مفید ہے۔ اس میں بیان کئے گئے قواعد تجوید کو یاد کرنا سہل اور آسا ن ہے ۔(م۔ا) تجویدوقراءات
اسلامی تعلیم کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا اس کے بعد جوبھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے نبوت کسبی نہیں وہبی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا نبوت ورسالت سے نوازاکوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزارمتقی اور پرہیزگار کیوں نہ وہ نبی نہیں بن سکتا ۔قادیانیت کے یوم پیدائش سے لے کر آج تک اسلام اور قادیانیت میں جنگ جار ی ہے یہ جنگ گلیوں ،بازاروں سے لے کر حکومت کے ایوانوں اور عدالت کےکمروں تک لڑی گئی اہل علم نے قادیانیوں کا ہر میدان میں تعاقب کیا تحریر و تقریر ، خطاب وسیاست میں قانون اور عدالت میں غرض کہ ہر میدان میں انہیں شکستِ فاش دی ۔ سب سے پہلے قادیانیوں سے فیصلہ کن قانونی معرکہ آرائی بہاولپور کی سر زمیں میں ہوئی جہاں ڈسٹرکٹ جج بہاولپور نے مقدمہ تنسیخ نکاح میں مسماۃ عائشہ بی بی کانکاح عبد الرزاق قادیانی سے فسخ کردیاکہ ایک مسلمان عورت مرتد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی 1926ء سے 1935 تک یہ مقدمہ زیر سماعت رہا جید اکابر علمائے کرام نے عدالت کے سامنے قادیانیوں کے خلاف دلائل کے انبار لگا دیے کہ ان دلائل کی روشنی میں پہلی بار عدالت کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ۔ پھر اس کے بعد بھی قادیانیوں کے خلاف یہ محاذ جاری رہا بالآخر تحریک ختم نبوت کی کوششوں سے 1974ء کو قومی اسمبلی ، پاکستان نے ایک تاریخی بحث اور ملزموں کو مکمل صفائی کا موقع فراہم کرنے اور ان کے دلائل کما حقہ سننے کےبعد یہ فیصلہ صادر کیا کہ اب سے قادیانی آئین او رملکی قانون کی رو سے بھی غیر مسلم ہیں ۔مرزا قاديانی کے دعوۂ نبوت سے لے کر اب تک اس کے رد ّ میں چھوٹی بڑی بے شمار کتب شائع ہوچکی ہیں جن کا ریکارڈ پاک وہند کی سیکڑوں لائبریریوں میں موجود ہے ۔ بعض اہل علم نے رد قادیانیت کے رد میں لکھی جانے والی کتب کا تعارف یکجا بھی کیا ہے ۔سب سے پہلے مولانا سید محمد علی مونگیری نے ’’ حظاظت ایمان کی کتابیں‘‘ نامی کتاب میں 80 کتابوں کا تعارف پیش کیا بعد میں مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی تصنیف ’’ قائد قادیان‘‘ کی آخری فصل میں 112 کتب رد قادیانیت کی فہرست شائع کی۔مولانا اللہ وسایا صاحب کی زیر نظر کتاب ’’ قادیانیت کے خلاف قلمی جہاد کی سرگزشت ‘‘بھی اسی سلسلے کی تیسری کاوش ہے ۔ مولانااللہ وسایا صاحب نے بڑی محنت سے تقریباً 28 سال قبل 1990ء میں اس کتاب کو مرتب کر کے شائع کیا ۔موصوف نے اس کتاب کو دس ابواب میں تقسیم کیا ہے۔اور ان ابواب میں رد قادیانیت کے متعلق ایک ہزار(1000) کتابوں کاتعارف جمع کیا ہے تعارف میں سب سے پہلے کتاب کانام ، مصنف کا نام تعداد صفحات، سن اشاعت اور کس زبان میں لکھی گئی کو پیش کرنے کے بعد کتاب کا مختصر تعارف سپرد قلم کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔آمین ( م۔ا)
عرفِ عام میں قبلہ سے مراد خانہ کعبہ ہے جو مسجد الحرام، مکہ مکرمہ ، سعودی عرب میں واقع ہے اور مسلمان اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔امت کی اجتماعیت اور وحدت کو برقرار ررکھنے کے لیے کچھ ایسے شعائر اور علامات ہیں۔جس میں کوئی اختلاف اور امت کے مختلف طبقات کے درمیان کوئی فرق نہ ہو ۔جو ان کو ایک قدر مشترک پر متحد رکھے اور جو ان کی شناخت بن جائے ۔ان علامات اور شعائر میں سے ایک قبلہ ہے جو امت مسلمہ کو متحد رکھنے کا باعث ہے ۔اسی لیے رسول اللہ ﷺ نےمسلمان ہونے کی علامت یہ قراردی کہ کوئی شخص مسلمانوں کی طرف نماز پڑھے مسلمانوں کے قبلہ کی طرف رخ کرے اور مسلمانوں کے ذبیحہ کو حلال سمجھ کر کھائے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ قبلہ کا کردار امت کی تشکیل میں ‘‘ ڈاکٹر صلاح الدین عبد الحلیم سلطان کی تصنیف ہے ۔ انہوں نے اس کتاب میں تعیین قبلہ کی حکمت ومصلحت ، وحدت امت کے باب میں اس کا کردار اور اسلامی مقدسات کے بارے میں امت کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالنے ذکے ساتھ ساتھ قبلہ اول سے متعلق فراموش کردہ تاریخ کی طرف بھی مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے ۔(م۔ا)
غیر ت آدمی کا اندرونی ڈر اور خوف ہے جو اس لیے رونما ہوتا ہےکہ وہ سمجھتا ہےکہ اس کے بالمقابل ایک مزاحم پید ہوا ہے عربی لغت کے مطابق غیرت خوداری اور بڑائی کا وہ جذبہ ہے جو غیر کی شرکت کو لمحہ بھر کے لیے برداشت نہیں کرتا ۔ غیرت کا تعلق فطرت سے ہے فطری طور پر تخلیق میں غیرت ودیعت کی گئی ہے غیرت سے محروم شخص پاکیزہ زندگی سے محروم ہے او رجس کے اندر پاکیزہ زندگی معدوم ہو تو پھر اس کی زندگی جانوروں کی زندگی سے بھی گئی گزری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی ذات کے سلسلہ میں غیرت مند او رمنفعل بنایا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی مجبور ولاچار کیوں نہ ہو لیکن آخری دم تک اپنی عزت وآبرو کی حفاظت وصیانت میں جان کی بازی لگائے رکھتا ہے ۔جس قوم کے اندر غیرت وحمیت کا جذبہ موجود ہوگا اس کی نسل اور تعمیری زندگی گزار سکے گی اور وہی معاشرہ حسنِ اخلاق کا پیکر بن کر اعلیٰ اقدار کا مستحق بھی ہوگا۔حدیث کی رُو سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیرت دو طرح کی ہے غیر ت مبغوض اور غیر محبوب۔محبوب غیر ت وہ ہے جو شک کی بنیاد پر ہو اورجوبغیر شک کے ہو وہ غیرت اللہ کےنزدیک مبغوض اور ناپسندیدہ ہے۔ سب سے محبوب اور قابل ستائش غیرت وہ ہے جو خالق ومخلوق کے درمیان ہوتی ہے ۔ یہی وہ غیرت ہےکہ ایک بندۂ مومن اللہ کی محرمات وحدود کو پامال ہوتے دیکھ کر طیش میں آجاتا ہےاور اس کی غیرت اس کو للکارتی ہے ۔ایک مرد مومن اپنے تیئں سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن محرمات کی پامالی کو لمحہ بھر کے لیے بھی روا نہیں رکھ سکتا ہے۔ایسی صورت میں غیرت مند مومن کے جذبات کا برانگیختہ ہوجانا اور اس کے تن من میں شعلوں کا بھڑک اٹھنا ایک بدیہی امر ہے ۔دینی اعتبار سے سب سے زیاہ قوی وہی شخص ہوگا جس کے اندر اللہ تعالیٰ کی محرمات وحدود پر سب سے زیادہ غیرت وحمیت ہوگی ۔حدیث میں غیرت ایمانی اور غیرت زن کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ غیرت کا فقدان اوراس کا علاج قرآن وسنت کی روشنی میں ‘‘ جناب رضوان ریاضی صاحب کی تصنیف ہے ۔اس میں انہوں نے عورت کی عزت وآبرو پر غیرت وحمیت کے ایجابی وسلبیاتی پہلو پر واقعات ودلائل کی روشنی میں حقائق بیان کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔نیز مصنف نے ضمناً اسلامی غیرت وحمیت کےگوشوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔(م۔ا)
اسلام سراپا رحمت اور شفقت ہے، اس مذہب میں عدل واحسان کی بار ہا تاکید کی گئی ہے اور یہی اس مذہب کی روح ہے، ظلم وزیادتی، ناحق مارپیٹ، ستانا اور کسی کو خواہ مخواہ پریشان کرنا، اس مذہب میں جائز نہیں، اسلام کی نظر میں مرد وعورت امیر وغریب، محتاج اور غنی سب برابر ہیں، کسی کو کسی پر فو قیت حاصل نہیں؛ اس لیے کسی امیر کو غریب کے ساتھ ناروا سلوک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی صاحبِ طاقت کو بے کس اور کمزوروں پر اپنی طاقت استعمال کرنے کا حق دیا گیا ہے؛ یہاں تک کہ بے زبان جانوروں پر شفقت اور رحمت کا حکم دیا گیا ہے، رسولِ اکرم ﷺ نے اپنے مختلف ارشادات کے ذریعہ جانوروں پر ظلم وزیادتی سے منع فرمایا ہے۔جانور کو مثلہ کرنے، اس پر نشانہ بازی کرنے اور طاقت سے زیادہ بوجھ لادنے سے منع کیا ہے حتیٰ کہ س کی بھی ممانعت ہے کہ ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے؛ تاکہ اسے اپنے ذبح کیے جانے کا احساس اور اس کی تکلیف نہ ہو، اسلام میں جب ایک جانور کے ساتھ اس طرح حسنِ سلوک کی تاکید ہے تو انسان کے ساتھ رحم وکرم کی کس قدر تاکید ہو گی، انسانیت کا احترام جانور کی بہ نسبت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ جانی دشمنوں کے ساتھ بھی کوئی ایسا معاملہ نہیں کیا جائے گا جو انسانیت کے خلاف ہو، جیسے ان کا مثلہ کرنا، آگ میں جلانا، پیاس سے تڑپانا، غیر انسانی سزادینا وغیرہ ۔ایک مرتبہ رسولِ اکرم ﷺکے سامنے سے ایک یہودیکا جنازہ گزرا، آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے جب جنازہ پر نظر پڑی تو آپ ﷺ کھڑے ہو گئے، صحابہٴ کرام نے سوال کیا یا رسول اللہ !یہ تو ایک یہودی اور غیر مسلم کا جنازہ تھا،اس کے احترام میں کھڑے ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا أَلَیْسَتْ نَفْسًا (صحیح بخاری :1312) ” کیا وہ انسان نہیں ہے “ یہاں اگر چہ وہ مسلمان نہیں تھا؛ لیکن آپ ﷺ نے انسانیت کا احترام کیاہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر وشرک کے باوجود آدمیت کے اوصاف اور ان کا احترام باقی رہے گا، یہی وجہ ہے کہ شریعتِ اسلامی نے غلاموں کے ساتھ نیک برتاؤ کی تاکید کی ہے، جس طرح غلام سے غلامیت کے باوجود آدمیت کے خواص باطل نہیں ہو تے، اسی طرح قیدیوں سے انسانیت باطل نہیں ہو گی۔ایک انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے، اسے بہرحال فراہم کی جائیں گی، جیسے پیٹ بھر کھانا، پیاس بجھا نے کے لیے پانی فراہم کرنا، تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا مہیا کرنا وغیرہ ۔ لہٰذا قیدیوں کو بھوکا، پیاسا رکھنا، یا بے لباس کرنا جائز نہیں، رسولِ ﷺ نے بنی قریظہ کے قیدیوں کے بارے میں اپنے صحابہٴ کرام کو ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:”انھیں خوش اسلوبی سے اور حسن سلوک سے قیدکرو،انہیں آرام کا موقع دو، کھلاؤ،پلاؤ اور تلوار اور اس دن کی گرمی دونوں کو یکجا مت کرو“(الموسوعة الفقهية۴/۱۹۸)جن دنوں میں بنو قریظہ کے قیدیوں کو قید کیا گیا تھا، وہ گرمی کے ایام تھے، تپش زیادہ تھی؛ اس لیے آپ ﷺنے بہ طور خاص دن کی گرمی اور دھوپ میں قیلولہ کے لیے مواقع فراہم کر نے کی تاکید فرمائی؛ کیوں کہ گرمی کے ایام میں قیدیوں کی گرمی کا خیال نہ رکھنا، انھیں دھوپ میں چھوڑ دینا؛ بلکہ آرام کا موقع نہ دینا بھی غیر انسانی حرکت ہے اور قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی حرکت جائز نہیں ۔معلوم ہوا کہ قیدیوں کوا ليکٹرک شاٹ لگانا، قیدیوں پر کتے چھوڑنا، قیدیوں کو سخت ٹھنڈک میں بر ف کی سلوں پر ڈال دنیا، حدسے زیادہ مار پیٹ کرنا،مسلسل جاگے رہنے پر مجبور کرنا، یا ان کی جائے رہائش میں تیز روشنی یا تیز آواز کا انتظام کر نا، شرعا درست نہیں ہے ۔چوری، قتل وغارت گری،زنا کاری، شراب نوشی، ظلم وزیادتی اور اس طرح کے دیگر جرائم یقینا اسلام کی نظر میں بھی انتہائی شنیع اور قابل مذمت ہیں، ان کے مر تکبین سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں؛ لیکن شریعت نے اس کے بھی حد و د متعین کیے ہیں اور ان میں اہم چیز انسانیت کا احترام ہے، ہر وہ سزا جس سے آدمیت کی تو ہین ہوتی ہو جائز نہیں ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ قید وبندکا اسلامی تصور ‘‘ڈاکٹر محمد اعجاز کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے ڈاکٹر حمیداللہ عبدالقادر ﷾ کی نگرانی میں مکمل کر کے جامعہ پنجاب میں پیش کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔یہ کتاب دور حاضر کےایک عملی مسئلے سے تعلق رکھتی ہے ۔اس کتاب میں جیل کی سزا کی شرعی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے سزا کا معنی ٰ ومفہوم ، اس کی اقسام ، حدود اسلامی ، قصاص ودیت اور تعزیر اور سزا کی مختلف دیگر صورتوں سے بحث کی گئی ہے۔کتاب کے آخری باب میں جیل اور اس کے متعلقات کے ضمن میں جیل کی شرعی حیثیت قید خانہ میں قیدیوں کی تقسیم ، جیل کے قواعد وضوابط اور جیل کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں ۔اسی آخری باب میں چودہ صفحات پر مشتمل جیل کی اصلاح کے لیے تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں ۔کتاب میں مسائل کے بارے میں شرعی نقظہ نگاہ اس ترتیب سے بیان کیا گیا کہ پہلے قرآن حکیم پھر احادیث نبویہ ، خلافت راشدہ کا تعامل اور اس کے بعد فقہائے کرام کا نقطہ نگاہ بیان کیاگیا ہے۔نیز بعض مسائل میں موجود قوانین کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔کتاب کے حسنِ ترتیب اور اہمیت وافادیت کےپیش شیخ زائد اسلامک سنٹر نے ہی اسے حسن طباعت سے آراستہ کیا ہے ۔(م۔ا)
کتاب وسنت میں بچوں کی تربیت پر بہت زور دیا گیا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ جب بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کا حکم دواور دس سال کی عمر میں اگر نماز نہ پڑھیں تو انہیں سزا دو ۔‘‘(ابو داؤ:494)اولاد کی تربیت صالح ہوتو ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے ۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے ، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کےحقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے ۔ بچے اللہ تعالیٰ کابہترین عطیہ اور انسان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں ۔والدین اپنے بچوں کے مستقبل کےبارے میں بہت سہانے خواب دیکھتے ہیں اور اپنا مال ودولت بھی کھلے دل سے ان کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں مگردین کے لحاظ سے ان کی تربیت کا پہلو بہت کمزور رہ جاتا ہے ۔نتیجتاً اولاد صدقہ جاریہ بننے کی بجائے نافرمان بن جاتی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ روشنی کا سفر‘‘ فضیلۃ الشیخ ابو ابراہیم المصر ی کی چھوٹےبچوں کی تربیت کے متعلق مرتب شدہ عربی کتاب ’’منهاج المسلم الصغير من أحاديث البشير والنذير‘‘ کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔یہ کتاب بچوں کی تربیت کے متعلق احادیث رسول ﷺ کا مجموعہ ہے ۔ فاضل مرتب نے یہ کتاب تین سے بارہ سال کےبچوں کےلیے مرتب کی ہے ۔یہ مجموعہ بچوں اور ان کےوالدین کے لیے یکساں مفید ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ روزانہ اپنے بچوں کو ایک حدیث یاد کروائیں اور ساتھ ساتھ حدیث رسول پر عمل کی بھی دلائیں ۔ اس کتاب کو سکول ، کالج ، اکیڈمی غرض ہر تربیتی کورس اور نصاب میں شامل کر کے بچوں کو اسلامی آداب سے روشناس کروایا جاسکتا ہے ۔ابو سعد محمد سعید نے اس کتاب کو اردو قالب میں ڈھالا ہے شیخ الحدیث حافظ عبد السلام بھٹوی ﷾ اور پروفیسر طفر اقبال﷾ کی نظر ثانی سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ مصنف ،مترجم اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے بچوں کے لیے مفید بنائے ۔( آمین) )م۔ا)
مولانا وحید الدین خان یکم جنوری 1925ءکو پید ا ہوئے۔ اُنہوں نے اِبتدائی تعلیم مدرسۃ الاصلاح ’سرائے میر اعظم گڑھ میں حاصل کی ۔شروع شروع میں مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر 1949ء میں جماعت اسلامی ہند میں شامل ہوئے لیکن 15 سال بعد جماعت اسلامی کوخیر باد کہہ دیا اورتبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی ۔ 1975ء میں اسے بھی مکمل طور پر چھوڑ دیا ۔مولانا وحید الدین خان تقریبا دو صد کتب کے مصنف ہیں جو اُردو ،عربی، اورانگریزی زبان میں ہیں اُن کی تحریروں میں مکالمہ بین المذاہب ،اَمن کابہت زیادہ ذکر ملتاہے اوراس میں وعظ وتذکیر کاپہلو بھی نمایاں طور پر موجود ہے ۔لیکن مولانا صاحب کے افکار ونظریات میں تجدد پسندی کی طرف میلانات اور رجحانات بہت پائے جاتے ہیں اُنہوں نے دین کے بنیادی تصورات کی از سر نو ایسی تعبیر وتشریح پیش کی ہے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کی اوروہ نہ صرف اس بات کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ اپنے لیے اس میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔موصوف کے افکار ونظریات کے متعلق ڈاکٹر حافظ زبیر﷾ نے ’’ مولانا وحید الدین خان افکار ونظریات‘‘ کے عنوان سے کتاب مرتب کی ہے جو کہ کتاب وسنت سائٹ پر موجود ہے ۔ زیر تبصرے کتاب’’ رہنمائے حیات‘‘ مختلف شخصیات کے مولانا وحید الدین خان کے تحریر کردہ مضامین کا مجموعہ ہے ۔ اس میں کچھ مضامین تو ایسے ہیں جو مولانا کے تحریر شدہ ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو ان کے بعض اخبارات وجرائد میں مطبوعہ مضامین پر تبصرہ وتجزیہ نقد پر مشتمل ہیں ۔(م۔ا)
اسلامی تعلیم کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا اس کے بعد جوبھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے نبوت کسبی نہیں وہبی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا نبوت ورسالت سے نوازاکوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزارمتقی اور پرہیزگار کیوں نہ وہ نبی نہیں بن سکتا ۔قادیانیت کے یوم پیدائش سے لے کر آج تک اسلام اور قادیانیت میں جنگ جار ی ہے یہ جنگ گلیوں ،بازاروں سے لے کر حکومت کے ایوانوں اور عدالت کےکمروں تک لڑی گئی اہل علم نے قادیانیوں کا ہر میدان میں تعاقب کیا تحریر و تقریر ، خطاب وسیاست میں قانون اور عدالت میں غرض کہ ہر میدان میں انہیں شکستِ فاش دی ۔ سب سے پہلے قادیانیوں سے فیصلہ کن قانونی معرکہ آرائی بہاولپور کی سر زمیں میں ہوئی جہاں ڈسٹرکٹ جج بہاولپور نے مقدمہ تنسیخ نکاح میں مسماۃ عائشہ بی بی کانکاح عبد الرزاق قادیانی سے فسخ کردیاکہ ایک مسلمان عورت مرتد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی 1926ء سے 1935 تک یہ مقدمہ زیر سماعت رہا جید اکابر علمائے کرام نے عدالت کے سامنے قادیانیوں کے خلاف دلائل کے انبار لگا دیئے کہ ان دلائل کی روشنی میں پہلی بار عدالت کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ۔ پھر اس کے بعد بھی قادیانیوں کے خلاف یہ محاذ جاری رہا ۔1953ء میں پاکستان کے غیور عوام نے ان کے خلاف تحریک چلائی اور انہیں غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا مگر اس تحریک کو طاقت کےذریعے کچل دیا گیا بے شمار مسلما ن حکومت کے معتوب ٹھرے۔تین علماء کو سزائے موت سنائی گئی ۔ پولیس اور فوج نے کئی بچوں کو یتیم کیا اور نہ جانے کتنی عورتوں کے سہاگ لٹے مگر کوئی حکومت قادیانیوں کے خلاف فیصلہ کرنے کی ہمت نہ کرسکی۔بالآخر تحریک ختم نبوت کی کوششوں سے 1974ء کو قومی اسمبلی ، پاکستان نے ایک تاریخی بحث اور ملزموں کو مکمل صفائی کا موقع فراہم کرنے اور ان کے دلائل کما حقہ سننے کےبعد یہ عظیم کارنامہ انجام دیا اور یہ فیصلہ صادر کیا کہ اب سے قادیانی آئین او رملکی قانون کی رو سے بھی غیر مسلم ہیں ۔مرزا قاديانی کے دعوۂ نبوت سے لے کر اب تک اس کے رد ّ میں چھوٹی بڑی بے شمار کتب شائع ہوچکی ہیں جن کا ریکارڈ پاک وہند کی سیکڑوں لائبریریوں میں موجود ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ قادیان سے اسرائیل تک‘‘ ابو مدّثرہ کی تصنیف ہے ۔ مصنف نے اس کتاب کو 13 ابواب میں تقسیم کیا ہے اور اس میں برطانوی صیہونی سامراج اور قادیانیوں کے باہمی گہرے روابط وتعلقات ،اسلام دشمنی کی مشترکہ سرگرمیوں اور شرمناک سیاسی کردار کا مستند اور تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے ۔(م۔ا)
دنیا جہان میں لا تعداد مذاہب پائے جاتےہیں ان مذاہب میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام ایک عالمگیر خدا اور ایک برتر ہستی پر یقین رکھتے ہیں جو قادر مطلق اور عالم کل ہے اور موجود ہے جو ساری کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے۔اور وہ اللہ تعالیٰ ہے جو تمام مخلوق کا خالق، مالک ، داتا ، رازق مشکل کشااور معبود ہے ۔الہ العالمین کی ہستی کا اقرار اور اس کی واحدانیت کا اعتقاد تمام الہامی مذاہب کا سنگ بنیاد ہے مذہب کے تفصیلی عقائد او راس کی عملی صورتوں میں آج اسلام ،مسیحیت اور یہودیت کے درمیان چاہے کتنے اختلافات ہوں لیکن وہ اللہ تعالیٰ کو ہی کائنات کا خالق ومالک اور مدبّر وفرمانروا تسلیم کرنے میں متفق ہیں۔ اس مسئلے پر فلاسفہ اور متکلمین اور علمائے دینیات جو کچھ لکھا ہے اس کا شمار واحاطہ بھی مشکل ہے ۔ لیکن سائنسدانوں نے اسے مستقل موضوع بناکر کم ہی کبھی بحث کی ہے ۔اللہ تعالیٰ کی صفات کے کھلے کھلے آثار وشواہد جو سائنس کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔انہیں بڑی خوبی کے ساتھ ’’جان کلوورمونزما ‘‘نے خدا کی موجودگی کے متعلق مغرب کے چالیس سائنسدانوں کی شہادت کو زیرکتاب’’ خدا موجود ہے‘‘ میں پیش کیا ہے اور نہایت معقول طریقے سے بتایا ہےکہ یہ کلام لامحالہ ایک صانع حکیم ہی کے ہوسکتے ہیں جو علیم و خبیر اور سمیع وبصیر ہو جن کے بلا ارادہ ایک منصوبے اور مقصد کے مطابق کائنات کا یہ نظام بنایا ہو او رجسے محض پید کرنے ہی سے دل چسپی نہ ہو بلکہ اپنی پیداکی ہوئی مخلوق کی حاجات وضروریات پوری کرنےکی بھی فکر ہو۔یہ اصل کتاب انگریزی میں تھی ۔اردو قارئین کےلیے جناب عبد الحمید صدیقی صاحب نے اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔مفکر اسلام جناب مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا اس کتاب پر دیباچہ تحریر کرنے سے کتاب کی افادیت دو چند ہوگئی ہے۔(م۔ا)
دنیا میں دو طرح کے مذہب پائے جاتے ہیں سامی اور غیر سامی مذاہب ۔سامی مذاہب سے مراد وہ مذاہب ہیں جو سام بن نوح کی اولادسے نکلے ہوں۔ انہیں الہامی مذاہب بھی کہتے ہیں۔ انہیں الہامی مذاہب کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان تینوں مذاہب کی بنیاد الہام الہٰی یا وحی الہٰی پر ہے۔ یہودیت، مسیحیت اور اسلام اہم بڑے سامی مذاہب ہیں۔غیر سامی مذاہب سے مراد وہ مذاہب ہیں جن کا تعلق سام بن نوح کی اولاد سے نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہودیت ، عیسائیت اور اسلام کے علاوہ باقی مذاہب غیرسامی مذاہب میں شمار ہوتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ غیرسامی مذاہب کے بانی ‘‘جناب الطاف جاوید کی تصنیف ہے اس کتاب میں انہوں نے غیر سامی مذاہب میں آریہ اور زرد اقوام وغیرہ میں جو بانیان مذاہب ہوئے ان کے حالات اور تعلیم کے متعلق معلومات سپرد قلم کی ہیں ۔یعنی اس کتا ب میں چندر کرشن، گوتم بدھ ، مہاویر ، آخن آتوں ، زرتشت ، کنفیوشس، اور سقراط کی اصل الہامی تعلیمات کے متعلق تحقیقی انکشافات پیش کیے گئے ہیں۔(م۔ا)
اسلامی تعلیم کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا اس کے بعد جوبھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔ قادیانیت کے یوم پیدائش سے لے کر آج تک اسلام اور قادیانیت میں جنگ جار ی ہے یہ جنگ گلیوں ،بازاروں سے لے کر حکومت کے ایوانوں اور عدالت کےکمروں تک لڑی گئی اہل علم نے قادیانیوں کا ہر میدان میں تعاقب کیا تحریر و تقریر ، خطاب وسیاست میں قانون اور عدالت میں غرض کہ ہر میدان میں انہیں شکستِ فاش دی ۔ سب سے پہلے قادیانیوں سے فیصلہ کن قانونی معرکہ آرائی بہاولپور کی سر زمیں میں ہوئی جہاں ڈسٹرکٹ جج بہاولپور نے مقدمہ تنسیخ نکاح میں مسماۃ عائشہ بی بی کانکاح عبد الرزاق قادیانی سے فسخ کردیاکہ ایک مسلمان عورت مرتد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی 1926ء سے 1935 تک یہ مقدمہ زیر سماعت رہا جید اکابر علمائے کرام نے عدالت کے سامنے قادیانیوں کے خلاف دلائل کے انبار لگا دیے کہ ان دلائل کی روشنی میں پہلی بار عدالت کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ۔ پھر اس کے بعد بھی قادیانیوں کے خلاف یہ محاذ جاری رہا بالآخر تحریک ختم نبوت کی کوششوں سے 1974ء کو قومی اسمبلی ، پاکستان نے ایک تاریخی بحث اور ملزموں کو مکمل صفائی کا موقع فراہم کرنے اور ان کے دلائل کما حقہ سننے کےبعد یہ فیصلہ صادر کیا کہ اب سے قادیانی آئین او رملکی قانون کی رو سے بھی غیر مسلم ہیں ۔مرزا قاديانی کے دعوۂ نبوت سے لے کر اب تک اس کے رد ّ میں چھوٹی بڑی بے شمار کتب شائع ہوچکی ہیں جن کا ریکارڈ پاک وہند کی سیکڑوں لائبریریوں میں موجود ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں ‘‘ عرفان محمود برق کی تصنیف ہے ۔کتاب میں موجو د قادیانیت کے ردمیں پیش کیے گئے دلائل نے قادیانیت کا پاش پاش کردیا ہے ۔اس کتاب میں مرتد ہندوستان مرزا قادیانی کی شخصیت کےامراض وجرائم کے مغربی لیبارٹریوں میں کیے گئے مختلف ٹیسٹوں کی رپورٹیں موجود ہیں جو اسے دائم المرض ، پاگل ، کذاب اور جرائم پیشہ قرار دیتی ہیں۔نیز اس کتاب میں متنبی قادیان کی بیماریوں اور گناہوں کےباہم تعلق پر اسلامی اور سائنسی تحقیقات موجود ہیں ۔فاضل مصنف نے قادیانیت کا پردہ خود قادیانیوں کی کتب کے حوالے سے چاک کیا ہے ۔ انہوں نے مرزا قادیانی کے دس جھوٹ اس کی دو رخی پالیسی ، مرزا قادیانی کا گندگی سے عشق اور اس کے منفی اثرات ، مرزا کی شراب نوشی، مرزا قادیانی کی ذہنی وجسمانی صحت ، دورے اور لیٹرین میں موت ، مرزا قادیانی کی دشنام طرازیاں اسلام اور سائنس کے آئینے میں کے علاوہ رد ّقادیانیت اور مرزا قادیانی کےبارے میں درجنوں دوسری باتیں سپرد قلم کی ہیں ۔(م۔ا)
چیچنیا قفقاز کے شمال مشرق میں واقع ایک چھوٹی سی مسلمان ریاست ہے ۔ اس کی سرحدیں شمال مغرب میں روسی کرائی ستاوروپول کرائی ، شمال مشرق میں داغستان ، جنوب میں جارجیا گرجستان اور مغرب میں انگوشتیا اور شمالی اوسیتیا سے ملتیں ہیں ۔ چیچن جمہوریہ اشکیریہ کے قیام کا اعلان جوہر دودائیف نے 1991ء میں کیا ۔ چیچنیا اور انگوشیا ایک ہی ملک تھے ۔لیکن روسی حکومت نے سازش کے تحت انگوشیا کو الگ کردیا تاکہ چیچنیا کی افرادی قوت کم ہوجائے اور یہاں کے مجاہدین پر قابو پانا آسان ہوجائے ۔1991ء کے اعداد وشمار کے مطابق یہاں کی کل آبادی 15لاکھ سے متجاوز تھی جس میں دس لاکھ مسلمان تھے ۔دینی اعتبار سے یہاں کے باشندے حنفی مسلک کے ماننے والے راسخ العقیدہ سنی مسلمان ہیں۔روس نےدیگر مسلم علاقوں کی طرح یہاں بھی مسلمانوں کی عملی زندگی سے دین اسلام اور اسلامی تہذیب تمدن کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ اسلامی عبادات کی ادائیگی ، اسلامی روایات کی پابندی ، عربی زبان یہاں تک کہ عربی حروف کے استعمال کو بھی قانوناً ممنوع قرار دیا۔ ان تمام تر پابندیوں کے باوجود یہاں کے مسلمانوں نےنہ صرف یہ کہ دین اسلام سے اپنے ریشے کو قائم رکھا بلکہ خفیہ طور پر نئی نسل کی اسلامی خطوط پر تعلیم وتربیت کا ایسا انتظام کیا کہ ان ذہنوں میں دین اسلام کی عظمت اور اسلامی تہذیب وتمدن کی بالادستی گھر کرگئی۔ سویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد 1991ء میں اپنی آزادی اور اسلام پسندی کا اعلان کرنے والا یہ چھوٹا سا اسلامی ملک چیچنیا بھی ایک عرصے سے اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کا شکار ہےاور یہاں کے مسلم مجاہدین اپنی بے سروسامانی اور جنگی وسائل وذرائع کی کمی کے باوجود جدید ترین اسلحوں سے لیس روس کی برّی وفضائی فوجوں کے وحشیانہ حملوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔زیر نظر کتاب ’’ چیچنیا میں اسلام اور مسلمان ‘‘ ڈاکٹر محمد یونس کی عربی تصنیف ’’ المسلمون فی جمهورية الشاشان وجهادهم فی مقاومة الغزو الروسي ‘‘ كا اردو ترجمہ ہے ۔اس كتاب کو جناب ڈاکٹر محمد سمیع اختر نےاردو قالب میں ڈھالا ہے۔ڈاکٹر سید محمد یونس کی یہ کتاب چیچنیا کےماضی اور حال کا منظر نامہ پیش کرتی ہے ۔ مصنف نے بڑی عرق ریزی اور جانفشانی کے ساتھ قدیم تاریخی ذخائر کو کھنگالتے ہوئے اس ملک کے ابتدائی وارتقائی مراحل سے بحث کی ہے۔ یہاں آباد قدیم عیسائی قوموں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کس طرح اسلام کی شعائیں خلفائے راشدین کے دور میں قفقاز کے علاقے تک پہنچ چکی تھیں۔ اور پھر کس طرح یہاں کی آبادی نے مسلم فاتحین کا استقبال کیا تھا اور اسلام کے عدل ومساوات اور انسان دوستی سے متاثر ہوکر انہوں نے اسلام کو قبول کرلیا تھا اور کچھ ہی سالوں میں یہاں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہوگیا۔فاضل مصنف نےمستند تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کمیونسٹ انقلاب سے قبل بھی یہاں کےعلماء کرام اور صوفیائے عظام نے نہ صرف یہ کہ دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کی بلکہ صلیب زدہ قیصر روس کی فوجوں سے سالہاسال تک عملی جہاد بھی کیا۔ اسی طرح یہاں کےراسخ العقیدہ مسلمانوں نے دین اسلام کے تحفظ اور اپنی آزادی وخود مختاری کی حفاظت کو ہمیشہ ترجیح دی۔نیز فاضل مصنف نے بعض شہروں میں روسی فوج کے ہاتھوں ہونے والے انسانیت سوز وحشیانہ جرائم کا ذکر تفصیل سے کیا ہے جن کو پڑھ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں یہاں کہ چیچنیا میں روسی فوجوں کی درندگی کودیکھ کر خود روسیوں نے اپنی فوج کو وحشی جانور قرار دیا ہے ۔(م۔ا)
تمام صحابہ کرام کو عمومی طور پر اور خلفائے راشدین کو خصوصی طور پر ، امت میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہے ، اس کے بارے میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ انبیاء کرام کے بعدیہ مقدس ترین جماعت تھی جس نے خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺکی رسالت کی تصدیق کی ، آپﷺ کی دعوت پر لبیک کہا ، اپنی جان و مال سے آپﷺکا دفاع کیا ، راہِ حق میں بے مثال قربانیاں دیں ، نبی اکرم ﷺ کے اسوہ ء حسنہ کی بے چوں و چراں پیروی کی اور آپﷺ کی رحلت کے بعد اپنے عقیدہ و عمل کے ذریعے اس آخری دین اور اس کی تعلیمات کی حفاظت کی۔صحیح احادیث میں خلفائے راشدینکے جو فضائل بیان ہوئے ہیں ، وہ ہمارے لیے کافی ہیں۔اس لیے کہ جہاں ہم ان کے ذریعے صحابہ کرامکے حقیقی مقام و مرتبہ کو جان سکتے ہیں وہیں ان کی عقیدت میں غلو کے فساد سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔خلفائے راشدین میں سب سے برتر فضیلت سیدنا ابوبکرصدیق کو حاصل ہے ،اس کے بعد سیدنا عمرفاروق کو ،پھر سیدنا عثمان بن عفان کواور پھرسیدناعلی کو ۔صحابہ کرام کی اسی اہمیت وفضیلت کے پیش نظر متعدد اہل علم نے ان کی سیرت اور مقام ومرتبے پر بے شمار کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ دو سسر دو دماد ‘‘ ابو محمدعظیم رائی کی خلفائے راشدین کے متعلق ایک منفرد کاوش ہے ۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں خلیفہ اول سید نا ابو بکر صدیق ، خلیفہ دو م سیدنا عمر فاروق ،خلیفہ ثالث سیدنا عثمان غنی ، خلیفہ رابع سیدنا علی المرتضیٰ کی سیرت کو اٹھارہ غیر منقوط حروف میں پیش کیا ہے۔ مصنف نے زبان کی سلاست وروانی کو برقرار رکھنے کے لیے یہ کوشش کی ہے کہ نادر الوقوع الفاظ کا استعمال کم سے کم ہو ۔ اگر کہیں ایسا ہوا ہے تو حاشیہ میں اس کی تشریح کردی گئی ۔اس منفرد غیر منقوط کتاب میں اصطلاحات جدیدہ کی وضاحت اور حوالوں کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے ۔خلفائے راشدین کی سیرت پر یہ اولین غیر منقوط کتاب ہے۔اس سے پہلے مولانا محمد ولی رازی نے سیرت طیبہ کے موضوع پر ’’ ہادی عالم‘‘ کے نام سے غیر منقوط کتاب لکھ کر صدارتی ایوارڈ حاصل کیا ہے ۔(م۔ا)
درس عربی زبان کا لفظ ہے جس کامطلب پڑھنا ہےاس کی جمع دروس ہے ۔ قرآن کریم میں اس لفظ کے متعلقات مختلف مقامات پر آئے ہیں ۔ارشاد بار تعالیٰ ہے: اَمْ لَكُمْ كِتٰبٌ فِيْهِ تَدْرُسُوْنَ (القلم:37) کیا تمہارے لیے کوئی کتاب ہے جس میں سے تم پڑھتے ہو ؟ہمارے عرف میں درس سے مراد وہ عظ وبیان ہے جو عموماً علماء کرام نمازوں کےبعد مختصر وقت کے لیے نمازیوں کی خیر خواہی کے لیے ارشاد فرماتے ہیں ۔ وعظ ودرس کے ذریعے انسانیت کی اصلاح انبیاء کی پاکیزہ سنت ہے ۔ نبی اکرمﷺ بسا اوقات نمازوں کےبعد صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوکر درس ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔آپﷺ کے بعد صحابہ کرام تابعین عظام اور علماء امت نے اس سنت پر خوب عمل کیا ۔علماء کرام کے دروس پر مشتمل کئی کتب شائع ہوچکی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ زادالطلباء والواعظین‘‘ قاری عبد الرشید اسلم ﷾ (آف فیروز وٹواں ضلع شیخوپورہ) کی طلباء ، خطباء ، واعظین ، دعاۃ کے لیے ایک منفرد کاوش ہے ۔فاضل مرتب نے اس کتاب میں صحیح احادیث کا مستند بہ ذخیرہ نوخیز طلباء کے لیے مرتب کیا ہے۔یہ مجموعہ اگرچہ شعبہ حفظ کے طلباء کےلیے مرتب کیا گیا ہےتاکہ شعبہ حفظ کے طلباء ایک بہترین پختہ حافظ اور اچھے قاری بننے کے ساتھ ساتھ بہترین خطیب کی صورت میں سامنے آئیں لیکن طلباء ، معلّمین، خطباء ، واعظین ، دعاۃ اس کتاب سے یکساں مستفید ہوسکتے ہیں۔ یہ مجموعہ تقاریر انتہائی مفید ، کارآمداورخاصے کی چیز ہےاور ایک قابل قدر و لائق تحسین کاوش ہے ۔ اس مجموعہ کو سامنے رکھتے ہوئے نو نہالوں کو القاء درس کی تربیت دینا بہت ہی فائد مند اور نتیجہ خیز ثابت ہوگاجس سے مستقبل میں قوم کو ایسے دعاۃ میسر آسکتے ہیں جو سلفی خطوط پر اصلاح وارشاد کے تقاضوں کو پوراکر سکیں۔ مولف کتاب عظیم اسلامی سکالر فضیلۃ الشیخ قاری صہیب احمد میر محمدی ﷾ (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور ومدینہ یونیورسٹی ) کے نامور شاگرد اورکلیۃ القرآن والتربیۃ الاسلامیہ،بنگہ بلوچاں کے فاضل ہیں قاری صاحب کے ہی زیر اشراف بنگہ بلوچاں ومیر محمد میں تدریسی ودعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ مصنف کے زور ِقلم وبیان میں مزید اضافہ کرے اور مصنف کی اس منفرد کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور اسے مؤلف کے لیے آخرت میں ذریعہ نجات بنائے ۔(آمین)(م۔ا)
مسلمانوں میں جو حکماء وفلاسفہ پیدا ہوئے ان میں کچھ تو ملحد وبے دین اور اکثر ضعیف العقیدہ تھے۔ یا کم ازکم ان کی مذہبی حالت بہتر نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں بھی ان کے سوانح وحالات کی طرف بہت کم مؤرخین نے توجہ دی۔اس لیے عوام الناس ان کے حالات سے بالکل ناآشنا رہے ۔قدیم زمانے میں اگرچہ بعض آزاد خیال لوگوں نے ان کے حالات پر چند کتابیں لکھیں لیکن اولاً تو یہ کتابیں خاص طور ان کے زمانے کے حکماء کے حالات تک محدود ہیں ۔ثانیاً ان کتابوں میں حکمائے اسلام کے ساتھ ساتھ زیادہ تر حکمائے یونان ، عیسائی فلاسفہ او راطباء کے نام مذکور ہیں۔ خالص حکمائے اسلام کے حالات میں کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔لہذا اس ضرورت کے پیش نظر مولانا عبد السلام ندوی نے زیر نظر کتاب ’’ حکمائے اسلام ‘‘ تحریر کی یہ کتاب دو حصوں میں ہے ۔ مصنف نے اس کتا ب میں حکمائے اسلام کی ہر قسم کی مذہبی اخلاقی اور فلسفیانہ خدمات کو نمایاں کیا ہے حصہ اول میں پانچویں صدی تک کے حکماء کے حالات مذکور ہیں اور دوسرے حصے میں متوسّطین ومتاخرین حکمائے اسلام کے مستند حالات ان کی علمی خدمات اور ان کے فلسفیانہ نظریات کی تفصیل دی گئی ہے۔(م۔ا)
لُغت (dictionary ڈکشنری ایک ایسی کتاب ہے جس میں کسی زبان کے الفاظ کو وضاحتوں، صرفیات، تلفّظات اور دوسری معلومات کے ساتھ بترتیبِ حروفِ تہجّی درج کیا گیا ہو یا ایک ایسی کتاب جس میں کسی زبان کے الفاظ اور کسی اور زبان میں اُن کے مترادفات کے ساتھ حروفِ تہجّی کی ترتیب سے لکھا گیا ہو۔ لغت میں کسی زبان کے الفاظ کو کسی خاص ترتیب کے لحاظ سے املا، تلفظ، ماخذ اور مادہ بیان کرتے ہوئے حقیقی، مجازی، یا اصطلاحی معنوں کے ساتھ درج کیا جاتا ہے۔ ضرورت کے مطابق الفاظ کی شکلوں میں تبدیلی اور صحیح محل استعمال کی وضاحت کی جاتی ہے۔لغت نویسی کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ دو مختلف زبانوں کے بولنے والے افراد، گروہ یا جماعتیں، جب ایک دوسرے سے زندگی کے مختلف شعبوں میں ربط پیدا کرتی اور اسے برقرار رکھتی ہیں تو انھیں ایک دوسرے کی زبان کے الفاظ سیکھنے پڑتے ہیں۔ لُغات عموماً کتاب کی شکل میں ہوتے ہیں، تاہم، آج کل کچھ جدید لُغات مصنع لطیفی شکل میں بھی موجود ہیں جو کمپیوٹر اور ذاتی رقمی معاون پر چلتی ہیں۔ زیر نظر کتاب’’علمِ لغت، اصولِ لغت اور لغات‘‘ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے لغت نویسی اور لغات کے موضوع پر لکھے گئے مقالات پر مبنی کتاب ہے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا شمار پاکستان کے نامور اور ماہرِ لغت نویس اور ماہرِ لسانیات میں ہوتا ہے۔ وہ جامعہ کراچی کے شعبۂ اردو میں، اردو زبان و ادب کے پروفیسر ہیں۔یہ کتاب ’’علم لغت، اصولِ لغت اور لغات‘‘ نو تحقیقی مقالات پر مبنی کتاب ہے۔ان نو مقالات کا مختصراً تعارف حسب ذیل ہے ۔ اس کتاب کے پہلے مقالے کا عنوان ’’علمِ لغت ، لغوی معنیات اور اردو لغت نویسی‘‘ ہے۔ اس مقالے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ لغت نویسی کا تعلق علم لسانیات سے بھی ہے۔دوسرے مقالے کا عنوان ہے؛ ’’تاریخی لغت نویسی اور تاریخی اصول پس منظر اور بنیاد (اوکسفرڈ کی لغت کلاں اور اردو لغت بورڈ کی لغت کے تناظر میں )‘‘ اس مقالے میں لغت کی مختلف تعریفوں کے ساتھ تاریخی لغت کی تعریف دی گئی ہے۔تیسرے مقالے کا عنوان ہے؛ ’’خصوصی لغت نویسی اور اردو کی چند نادر اور کم یاب خصوصی لغات‘‘ اس مقالے میں خصوصی لغت کی تعریف کرتے ہوئے ی وضاحت کی گئی ہے کہ خصوصی لغت کئی طرح کی ہوسکتی ہے۔چوتھے مقالے کا عنوان ہے؛ ’’جان ٹی پلیٹس، مصنف نے اس مقالے میں پلیٹس کے حالات زندگی بیان کرنے کے بعد، پلیٹس کی لغت کی خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی ہے۔پانچویں مقالے کا عنوان ہے؛ ’’قاموس الہند‘‘قاموس الہند پچپن (۵۵) جلدوں پر محیط اردو کی نادر ایک بسیط اور کثیر جلدی اردو بہ اردو لغت ہے۔چھٹے مقالے کا عنوان ہے؛ ’’حالی کی شعری لفظیات اور اردو لغت بورڈ کی لغت‘‘ اس مقالے میں مصنف نے ان نادر قلیل الاستعمال الفاظ، تراکیب اور محاورات کی نشان دہی کی ہے جو متدادل لغات میں کم ہی ملتے ہیں۔ ساتویں مقالے کا عنوان ہے؛ ’’ اردو فارسی اور عربی کہاوتوں کی شعری اسناد‘‘ (جو اردو لغت بورڈ کی لغت میں درج نہیں ) اس مقا لے میں مصنف نے کہاوت اور محاورے کا فرق واضح کرتے ہوئے اردو، عربی فارسی کی ان کہاوتوں کو درج کیا ہے جن کا اندراج اردو لغت بورڈ کی لغت میں نہیں ہے۔ ان کہاوتوں کے معنی اور اشعار کی سند بھی پیش کی گئی ہے۔اس کتاب کے آٹھویں مقالے کا عنوان ہے؛ ’’فرہنگِ آصفیہ کی تدوین و اشاعت: چند غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘ اس مقالے میں مصنف نے ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ کے حوالے سے جو غلط فہمیاں عام ہیں ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ س کتاب کے نویں مقالے کا عنوان ہے؛ ’’اٹھارہ سو ستاون سے قبل کی اردو شاعری میں یورپی زبانوں کے دخیل الفاظ‘‘اس مقالے میں مصنف نے ان یورپی الفاظ کی سند پیش کی ہے جو ۱۸۵۷ کے انقلاب سے قبل مختلف شعرا کے یہاں استعمال ہوئے ہیں۔ یہ کتاب تحقیقی مقالہ جات کا مجموعہ ہے۔ لغت اور اس سے متعلق بیش تر موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اردو زبان وادب کے طلبہ، لغت سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک خوش آئند اضافہ ہے۔(م۔ا)
سیاست اور عقیدہ یا سیاست اور اسلام دونوں الگ الگ نہیں ہیں بلکہ سیاست بھی اسلام اور عقیدہ کا حصہ ہے عقیدہ دراصل لفظ "عقد" سے ماخوذ ہے ، جس کے معنیٰ ہیں کسی چیز کو باندھنا یعنی عقیدہ سے مراد کسی چیز کو حق اور سچ جان کر دل میں مضبوط اور راسخ کر لینا ہےعقیدہ انسان کے کردار و اعمال کی تعمیر میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ انسان کے تمام اخلاق و اعمال کی بنیاد ارادے پر ہے، اور ارادے کا محرک دل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ دل انہی چیزوں کا ارادہ کرتا ہے جو دل میں راسخ اور جمی ہوئی ہوں، اس لئے انسان کے اعمال و اخلاق کی درستگی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دل میں صحیح عقائد ہوں لہذا عقیدے کی اصلاح ضروری ہے۔سیاست Politics’’ساس‘‘ سے مشتق ہے جو یونانی زبان کا ہےاس کےمعانی شہر وشہر نشین کے ہیں اس میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کا انجام دینے سے لوگ اصلاح کےقریب اور فساد سے دور ہوجائیں۔ اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہتے ہیں ۔ امور مملکت کانظم ونسق برقرار رکھنے والوں کو سیاست دان کہا جاتا ہے ۔ قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں البتہ ایسی بہت سی آیات موجود ہیں جو سیاست کےمفہوم کو واضح کرتی ہیں بلکہ قرآن کابیشتر حصہ سیاست پر مشتمل ہے مثلاً عدل وانصاف، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ، مظلوموں سے اظہار ہمدردی و حمایت ،ظالم اور ظلم سے نفرت اور اس کے علاوہ انبیاء اوراولیاء کرام کا انداز ِ سیاست بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اور حدیث میں سیاست کے معنیٰ عدل وانصاف اور تعلیم وتربیت کے ہیں ۔زیرنظر کتاب ’’کیا سیاست عقیدہ اکٹھے رہ سکتے ہیں ؟‘‘ جناب عارف میاں صاحب کی تصنیف ہے صاحب تصنیف نے کتاب میں سوال کاجواب نہیں رہ سکتے ہیں ،نہیں رہ سکتے یاہاں ناں میں دینے پر زور صرف نہیں کیا ہے بلکہ یہ قاری پرچھوڑ دیا ہے ۔یہ کتاب اگرچہ مختصر ہے مگر سوچ اور مکالمہ کے آغاز کے لیے کافی ہے ۔(م۔ا)
ہندوستان میں مسلمان آباد ہوئے تو شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں ان کے پڑوسی غیر مسلم نہ ہوں۔ روز مرہ زندگی میں ان سے برابر سابقہ رہا اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق کی بڑی اہمیت ہے۔ ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے عہد میں صرف لڑائیاں ہی نہیں ہوتی رہیں بلکہ ان کے یہاں روادای ، فراخ دلی اور انسان دوستی بھی ر ہی ۔ او رمسلمانوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ رہا ہے کہ حکومت الحاد ، بے دینی کفر اور شرک کے ساتھ تو عرصۂ دراز تک قائم رہ سکتی ہے مگر جبر،ظلم اور چیرہ دستی سے قرار نہیں رکھی جاسکتی ہے ۔ اسی لیے ہندوستان کے مسلمان فرمان رواؤں نےاپنے دورِ حکومت میں عدل وانصاف پر ہرزمانہ میں زور دیا ۔ یہ عدل پسندی اور انصاف پروری رواداری اور فراخ دلی کے بغیر عمل میں نہیں آسکتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ ہندوستان کےعہد ماضی میں مسلمانوں حکمرانوں کی مذہبی رواداری ‘‘ سید صباح الدین عبد الرحمٰن(مصنف کتب کثیرہ کی دو جلدوں پر مشتمل تصنیف ہے۔بنیادی طور پر اس کتاب کو دلوں کوجوڑنے کے لیے مرتب کیا گیا ہے۔ جلد اول میں عہد مغلیہ سے پہلے کے ہندوستان کے مسلمان حکم رانوں اور جلد دوم میں مغل فرمانرواؤں کے دور کی مذہبی رواداری ، فراخ دلی اورانسان دوستی کی تفصیلات مستند ماخذوں کے حوالے سے پیش کی گئی ہیں۔(م۔ا)
ہندوستان دنیا کا قدیم ترین ملک ہے ۔ اس ملک کوو ہی قدامت حاصل ہےجو دنیا کے کسی پرانے سے پرانے ملک کو حاصل ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کےبارے میں مؤرخوں کی رائے ہے کہ اس ملک کی تہذیب او ر تمدن یونان سے بھی قدیم ہے۔ہندوستان ابتداء ہی ایک نہایت زرخیز ملک ہے ۔ لیکن اس کی زرخیزی اس ملک کے باشندوں کےلیے ہمیشہ مصیبت بنی ر ہے ۔ چنانچہ ہندوستان کے گرد وپیش جب بھی کسی قوم کو ذرا بھی اقتدار حاصل ہوا وہ ہندوستان پر چڑھ دوڑی تاکہ ہندوستان کی زرخیزی سے مالا مال ہو سکے ۔ ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔ جناب ڈاکٹر رفیق زکریا نے زیر نظر کتاب ’’ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کا عروج‘‘ میں 1885ء تا 1906ء کے سیاسی حالات کا تجزیہ کرتےہوئے سرسید کی تحریک کے اغراض ومقاصد اور اس کی کامیابی کا تفصیلی جائزہ لیا ہے (م۔ا)
تزکیہ نفس ،تہذیب اخلاق اوراطمینان نفس ک کا سرچشمہ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس ہے ۔شریعت اسلامیہ میں تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کوان ممنوع معیوب اور مکروہ امور سے پاک صاف رکھے جنہیں قرآن وسنت میں ممنوع معیوب اورمکروہ کہا گیا ہے۔گویا نفس کو گناہ اور عیب دارکاموں کی آلودگی سے پاک صاف کرلینا اور اسے قرآن وسنت کی روشنی میں محمود ومحبوب اور خوب صورت خیالات وامور سے آراستہ رکھنا نفس کا تزکیہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو جن اہم امور کےلیے مبعوث فرمایا ان میں سے ایک تزکیہ نفس بھی ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے : هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ‘‘اس آیت سے معلوم ہوتاہےکہ رسول اکرم ﷺ پر نوع انسانی کی اصلاح کےحوالے جو اہم ذمہ داری ڈالی گئی اس کےچار پہلو ہیں ۔تلاوت آیات،تعلیم کتاب،تعلیم حکمت،تزکیہ انسانی۔ قرآن مجید میں یہی مضمون چار مختلف مقامات پر آیا ہے جن میں ترتیب مختلف ہے لیکن ذمہ داریاں یہی دہرائی گئی ہیں۔ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت آیات اورتعلیم کتاب وحکمت کا منطقی نتیجہ بھی تزکیہ ہی ہے زیر نظر کتاب ’’تزکیہ نفس‘‘ جناب محمد سعد صدیقی صاحب کی کاو ش ہے اس میں انہوں نے لفظ تزکیہ اور نفس کا الگ الگ مفہوم پیش کرنے بعد تزکیۂ نفس کےاصطلاحی مفہوم،تزکیہ نفس کی ضرورت ،تزکیۂ نفس کےمراحل ،نفس امارہ ، نفس لوّامہ ،نفس مطمئنہ کے مفہوم کو مختصراً تحریر کیا ہے ۔(م۔ا)
سیدنا فاروق اعظم کی مبارک زندگی اسلامی تاریخ کاوہ روشن باب ہے جس نےہر تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آپ نے حکومت کے انتظام وانصرام بے مثال عدل وانصاف ،عمال حکومت کی سخت نگرانی ،رعایا کے حقوق کی پاسداری ،اخلاص نیت وعمل ،جہاد فی سبیل اللہ ،زہد وعبادت ،تقویٰ او رخوف وخشیت الٰہی او ردعوت کے میدانوں میں ایسے ایسے کارہائےنمایاں انجام دیے کہ انسانی تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ انسانی رویوں کی گہری پہچان ،رعایا کے ہر فرد کے احوال سے بر وقت آگاہی او رحق وانصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کر نےکے اوصاف میں کوئی حکمران فاروق اعظم کا ثانی نہیں۔ آپ اپنے بے پناہ رعب وجلال اور دبدبہ کے باوصف نہایت درجہ سادگی فروتنی اورتواضع کا پیکر تھے ۔ آپ کا قول ہے کہ ہماری عزت اسلام کے باعث ہے دنیا کی چکا چوند کے باعث نہیں۔ سید ناعمر فاروق کے بعد آنے والے حکمرانوں میں سے جس نے بھی کامیاب حکمران بننے کی خواہش کی ،اسے فاروق اعظمؓ کے قائم کردہ ان زریں اصول کو مشعل راہ بنانا پڑا جنہوں نے اس عہد کے مسلمانوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔ سید نا عمر فاروق کے اسلام لانے اور بعد کے حالات احوال اور ان کی عدل انصاف پر مبنی حکمرانی سے اگاہی کے لیے مختلف اہل علم اور مؤرخین نے کتب تصنیف کی ہیں۔اردو زبان میں شبلی نعمانی ، محمد حسین ہیکل ،مولانا عبد المالک مجاہد(ڈائریکٹر دار السلام) وغیرہ کی کتب قابل ذکر ہیں ۔ زیر نظرکتاب خوان المسلمو ن کے رہنما شیخ عمر تلمسانی کی عربی تصنیف ’’ شہید المحراب عمر بن خطاب‘‘ کا اردو ترجمہ ہے شیخ عمر تلمسانی اخوان المسلمون کے تیسرے مرشدِ عام تھے ۔موصوف اگرچہ وکیل تھے لیکن اسلامی علوم معارف کےحوالے آپ کا تشخص ممتاز اور نمایاں تھا۔شیخ عمر تلمسانی کئی کتب کے مصنف تھے ۔شیخ عمر تلمسانی کی کتاب’’ شہید المحراب‘‘ عام روایتی انداز میں تاریخ وسوانح کی کتاب نہیں ہے ۔ حقیقت میں یہ تاریخ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے ۔عام طور تاریخ کے موضوعات پر لکھنے والے حضرات واقعات کو تفصیل سے اورتاریخ وار لکھتے ہی ہیں اور تاریخ نگاری کا یہی طریقہ مسلم ہے لیکن عمر تلمسانی کا اپنا انداز تحریر اور اسلوب ہے ۔انہوں نے حضرت عمر فاروقکی سیرت پر اچھوتے انداز میں قلم اٹھایا ہے ۔مصنف کا اس تصنیف کا مقصد واقعات کی نقشہ کشی نہیں ہے بلکہ سیرت عمر سےتربیت افراداور تنظیم معاشرہ ہے۔کتاب ہذا شیخ عمر تلسمانی کے الفاظ سیرت سیدنا عمر فاروق کے خوبصورت ومعطر پھولوں سے ترتیب دیا ہوا ایک گل دستہ ہے ۔مترجم کتاب ہذا جناب حافظ محمد ادریس صاحب نے اس کتاب کی افادیت کے پیش کےنظر تیس سال قبل اس کا اردوترجمہ کیا ہے جوپہلے قسط وار ہفت روزہ ’’ ایشیا‘‘ میں شائع ہوا بعد ازاں البدر پبلی کیشن ،لاہور نے اسے کتابی میں صورت میں شائع کیا ۔مترجم کتاب جماعت اسلامی کے مرکزی راہنما ہونےکے ساتھ کئی کتابوں کے مصنف ومترجم ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحت وعافیت والی زندگی سےنوازے ۔(م۔ا)